"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

معبود ِجاں، خیال کا پیکر نہ ہو کہیں
تم جس کو پوجتے ہو وہ پتّھر نہ ہو کہیں

قبل از نظارہ اے نگہِ زندگی نما
یہ دیکھنا کہ موت کا منظر نہ ہو کہیں

اِک حشر، روز ِ حشر سے پہلے بھی ہے تو پھر
یہ روز ِ ہجر، وقفہِ محشر نہ ہو کہیں

صابر کہاں نصیب تجھے بوئے جسمِ یار
تُو اپنی ہی مہک سے معطّر نہ ہو کہیں​
 

پاکستانی

محفلین
مانگے ہے مجھ سے دل تیری ساری نشانیاں
باتیں پرانیاں، وہی راتیں سہانیاں

آنکھوں میں گھولتی ہیں نشے کی شرارتیں
چالاک چاندنی میں چہکتی جوانیاں

اُن پر تو قرض ہیں میرے حرفوں کے ذائقے
اب جن کو آگئیں بڑی باتیں بنانیاں

اے عشق آ کہ پھر سے کوئی تجربہ کریں
میں بھولنے لگا ہوں پرانی کہانیاں

وہ تیرے قہقہے تھے کہ جیسے ہجوم میں
ٹوٹیں کلائیوں میں کھنکتی کمانیاں

یہ میرے اشک ہیں کہ پہاڑوں میں جس طرح
روئیں بسنت رُت میں ندی کی روانیاں

اِک تیرے روٹھنے سے فضا ہی بدل گئی
اب شہر بھر میں پھیل گئیں بدگمانیاں

مانگو دعا کہ کھیلتی کِھلتی رہیں سدا
شہروں کی دلہنیں، مری بستی کی رانیاں

محسن کو کچھ تو حدِّ ستم کا سُراغ دے
کب تک رقم کروں میں تیری مہربانیاں​
 

پاکستانی

محفلین
سنو اچھا نہیں لگتا
کرے جب تذکرہ کوئی
کرے جب تبصرہ کوئی
تمھاری ذات کو کھوجے
تمھاری بات کو سوچے
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
تمھاری مسکراہٹ پر
ہزاروں لوگ مرتے ہوں
تمھاری ایک آہٹ پر
ہزاروں دل دھڑکتے ہوں
کسی کا تم پہ یوں مرنا
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
ہوا گزرے تمھیں چھو کر
نہ ہوگا ضبط یہ مجھ سے
کرے کوئی تم سے گستاخی
تیری زلفیں بکھر جائیں
تمھارا لمس پی جائیں
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
کہ تم کو پھول بھی دیکھیں
تمھارے پاس سے مہکیں
یا چندا کی گزارش ہو
کہ اپنی روشنی بخشو
رُخِ جاناں کوئی دیکھے

مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔​
 

پاکستانی

محفلین
محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کے آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی جگمگاتی مسکراتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے
کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اترتی ہیں کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے کچھ اسطرح جگمگاتے ہیں
کے پہچانی نہیں جاتی دلِ بیتاب کی صورت
محبت کے شجر پر خواب کے پنچھی اترتےہیں تو شاخیں جاگ اٹھتی ہیں
تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
تو کب کی منتظر آنکھوں میں
شمعیںجاگ اٹھتی ہیں
محبت ان میں جلتی چراغ آب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت درد کی صورت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہیں
شبانِ ہجر میں روشن ستارہ بن کے رہتی ہیں
منڈیروں پر چراغوں کی لویں جب تھرتھراتی ہیں
نگر میں ناامیدی کی ہوائیں سنسناتی ہیں
گلی میں جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں ہوتا
دکھی دل کے لیے جب کوئی بھی دھوکا نہیں ہوتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوتنے لگتے ہیں شانے تو
یہ ان پہ ہاتھ رکھتی ہیں
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جا تی ہیں جب سارے قافلے دل کی بستی سے
فصا میں تیرتی ہیں یہ دیر تک
یہ گرد کی صورت
محبت درد کی صورت​
 

شائستہ

محفلین
شمع غزل کی لو بن جائے ، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
اک اک حرف میں‌سوچ کی خوشبو، دل کا اجالا ہو تو کہو

راز محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں
راز محبت رکھنے والا، ہم سا دیکھا ہو تو کہو

کون گواہی دے گا اٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں
سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے
ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

امجد صاحب آپ نے بھی تو دنیا گھوم کر دیکھی ہے
ایسی آنکھیں ہیں تو بتاؤ، ایسا چہرہ ہو تو کہو
 

شائستہ

محفلین
بند دریچے سونی گلیاں ، ان دیکھے انجانے لوگ
کس نگری میں آنکلے ہیں‌ساجد ہم دیوانے لوگ

ایک ہمی ناواقف ٹھہرے ہیں روپ نگر کی گلیوں سے
بھیس بدل کر ملنے والے سب جانے پہچانے لوگ

دن کو رات کہیں سو برحق، صبح کو شام کہیں سو خوب
آپ کی بات کا کہنا ہی کیا آپ ہوئے فرزانے لوگ

شکوہ کیا اور کیسی شکایت، آخر کچھ بنیاد تو ہو
تم پر میرا حق ہی کیا ہے، تم ٹھہرے بیگانے لوگ

شہر کہاں خالی رہتا ہے یہ دریا ہر دم بہتا ہے
اور بہت سے مل جائیں گے، ہم ایسے دیوانے لوگ

سنا ہے اس کے عہد وفا میں‌ ہوا بھی مفت نہیں ملتی
ان گلیوں میں‌ ہر ہر سانس پہ بھرتے ہیں جرمانے لوگ
 

شائستہ

محفلین
گرمئی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

خود نمائی تو نہیں‌ شیوہ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں‌گے دشمن
آشنا جب تیرے پیغام سے جل جاتے ہیں

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
 

شائستہ

محفلین
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں ، تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں ، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو
 

پاکستانی

محفلین
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے ، تیرے ہونٹوں کے سراب

دشتِ تنہائی میں ، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اُٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیرے سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم

دور ، اُفق پار ، چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے ، اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پر اُس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یوں گُماں ہوتا ہے ، گرچہ ہے ابھی صُبحِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن ، آ بھی گئی وصل کی رات

شاعر : فیض احمد فیض
کتاب : دستِ صبا​
 

شائستہ

محفلین
کٹتی ہیں، کٹ جائیں زبانیں، جاتے ہیں تو سر جائیں
ہم پاگل، دیوانے، وحشی، سچّی باتیں کہتے ہیں
ہم سے اُردو، اُردو سے ہم، ہم دونوں لازم ملزوم
شمعِ محفل سے پروانے، دور بھلا کب رہتے ہیں
 

شائستہ

محفلین
سوچ کی زمینوں پر راستے جدا ہوں تو
دور جا نکلنے میں‌دیر کتنی لگتی ہے
یہ تو وقت کے بس میں ہے کتنی مہلت دے
ورنہ بخت کے ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
 

شائستہ

محفلین
کسی کا رنج، کسی کا ملال کون سنے
گرفتہ دل ہیں سبھی، کسی کا حال کون سنے

سماعتوں کو تو منصف بھی اب نہیں ملتے
ترا جواب، ہمارا سوال کون سنے

یہ دن کہ قہر ہوئے چشم و گوش کے حق میں
نوائے عشق، صدائے جمال کون سنے

یہی بہت ہے کہ کالک اتر گئی شب کی
زبان مہر سے وجہ زوال کون سنے

کہ فیصلہ تو مرے منصفوں نے لکھ بھی لیا
سومرے عذر، مرے قبل و قال کون سنے

خزاں میں آخری پتہ مرا مخاطب ہے
خبر نہیں کہ مجھے اگلے سال کون سنے
اعتبار ساجد
 

شائستہ

محفلین
آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں، ان دنوں
دل پر عجیب رنگ اُترتے ہیں، ان دنوں

رکھ اپنے پاس، اپنے مہ و مہر، اے فلک
ہم خود کسی کی آنکھ کے تارے ہیں، ان دنوں

دستِ سحر نے مانگ نکالی ہے بارہا
اور شب نے آکے بال سنوارے ہیں، ان دنوں

وہ قحطِ حُسن ہے کہ سبھی خوش جمال لوگ
لگتا ہے کوہِ قاف پہ رہتے ہیں، ان دنوں

اک خوشگوار نیند پہ حق بن گیا میرا
وہ رتجگے، اس آنکھ نے کاٹے ہیں، ان دنوں
 

شائستہ

محفلین
اُس نے دیکھا ہی نہیں، ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی تھی

مصحفِ دل پہ عجب رنگوں میں
ایک تصویر بنا کرتی تھی

بے نیازِ کفِ دریا، انگشت
ریت پر نام لکھا کرتی تھی

شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچہ جاں میں صدا کرتی تھی

مسئلہ جب بھی چراغوں کا اُٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی تھی
 

عمر سیف

محفلین
اپنی الجھن کو بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
چھوڑنا ہے تو بہانے کی ضرورت کیا ہے

لگ چکی آگ کو لازم ہے دھواں اٹھے گا
درد کو دل میں چھپانے کی ضرورت کیا ہے

اجنبی رنگ چھلکتا ہو اگر آنکھوں سے
ان سے پھر آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے

بیٹھے ہیں تیری محفل میں کئی دوست نئے
اب تمھیں یار پرانے کی ضرورت کیا ہے

ساتھ رہتے ہو مگر ساتھ نہیں رہتے ہو
ایسے رشتے کو نبھانے کی ضرورت کیا ہے

ندیم گیلانی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top