"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

تیشہ

محفلین
بہت آسان تھا اسکی محبت کو دعا کرنا
بہت مشکل ہے بندے کو مگر اپنا خدا کرنا

کہاں تک کینچھا دیوار پر سادہ لکیروں کو
تمھاری یاد میں کب تک انہیں بیٹھے گنا کرنا

نجانے کس لئے سیکھا طریقہ یہ ہواؤں نے
میرے کمرے میں سناٹے زبردستی بھرا کرنا

لہو کی طرح رگ رگ میں جو پیہیم درد بہتا ہے
زمین کی تہہ میں لے جائے تو کیا اسکا گلہ کرنا

محبت کرنے والوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا

حقیقی داستانوں کا فسانہ بھی کوئی لکھے
محبت کرنے والوں کے لئے نیناں دعا کرنا ۔ ۔ ۔
 

شائستہ

محفلین
ہم ایک فکر کے پیکر ہیں، اک خیال کے پُھول
ترا وجود نہیں ہے، تو میرا سایہ نہیں

کہاں سے لاؤں وہ دل، جو تیرا بُرا چاہے
عدوئے جاں، تیرا دکھ بھی کوئ پرایا نہیں

نئ نویلی زمینوں کی سوندھی خوشبو میں
وہ چاندنی ہے، کہ جس میں کوئ نہایا نہیں

وہ روشنی ہے کہاں، جس کے بعد سایہ نہیں
کسی نے آج تلک یہ سُراغ پایا نہیں
 

عمر سیف

محفلین
سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کہ مجھ کو رہ جائے کا دنگ

ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اُکھڑی اُکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسا ڈھنگ

تارہ بن کے دور اُفق پہ کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اُڑنے والی دیکھو ایک پتنگ

دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک اُمنگ

شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتوگے اپنے آپ سے جنگ

شبنم شکیل
 

ظفری

لائبریرین

دریا مچل رہا ہے اگر انتقام کو
میں بھی لِکھوں گا ریت پہ اب اپنے نام کو

کہتے ہیں اُس سے بچ کے گزرتی ہیں آندھیاں
جس قبر پر چراغ نہ جلتا ہو شام کو

ساحل بھگو رہی تھی سخاوت فرات کی
گھیرا ہُوا تھا آگ نے میرے خیام کو

بیدارئ ضمیرِ کفِ خاک حشر ہے
سورج اُتر رہا ہے زمیں کے سلام کو

تنقید کر کے میرے ہُنر کی اُڑان پر
تسلیم کر رہا تھا وہ میرے مقام کو

جو تیری منتظر تھیں وہ آنکھیں ہی بجھ گئیں
اب کیوں سجا رہا ہے چراغوں سے بام کو

رُوٹھی ہوئی ہوائیں کہاں ہیں کہ دشت میں
محسن ترس گئے ہیں بگولے خِرام کے​
 

پاکستانی

محفلین
بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہيں
ہم بھي ديکھيں تو اسے ديکھ کے کيا کہتے ہيں

ہم تصور ميں بھي جو بار ذرا کہتے ہييں
سب ميں اڑ جاتي ہے ظالم اسے کيا کہتے ہیں

جو بھلے ہيں وہ بروں کو بھي بھلا کہتے ہيں
نہ برا سنتے ہيں اچھے نہ برا کہتے ہيں

وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ ديں گے
غير کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہيں

نہيں ملتا کسي مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپني ہے جدا سب سے جدا کہتے ہيں

پہلے تو داغ کي تعريف ہوا کرتي تھي
اب خدا جانے وہ کيوں اس کو برا کہتے ہيں​
 

پاکستانی

محفلین
غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کي

کسي طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مري وفا نے مجھے خوب شرمسار کي

وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال انديش
انہوں نے وعدہ کيا اس نے اعتبار کي

نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مرا غبار کيا

تري نگاہ کے تصور ميں ہن نے اسے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھري کو ہم نے پيار کي

ہوا ہے کوئي مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شيوہ اختيار کي

نہ پوچھ دل کي حقيقت مگر يہ کہتے ہيں
وہ بے قرا رہے جس نے بے قرار کي

وہ بات کر جو کبھي آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کيا تو بڑا تو نے افتخار ک​
 

پاکستانی

محفلین
ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھ

نھ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھ

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھ

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدق جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھ

يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تا لاديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھ

جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھ​
 

پاکستانی

محفلین
خواب ميں بھي نہ کسي شب و ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آي

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آي

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آي

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کند ھوا دوسرا خنجر آي

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ھم کو ميسر آي

عشق تاثير ہي کرتا ھے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آي

اس قدر شاد ھوں گويا کہ ملي ھفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آي

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آي

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آي

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا​
 

پاکستانی

محفلین
کعبے کي سمت جا کے مرا دھيان پھر گيا
اس بت کو ديکھتے ہي بس ايمان پھر گي

محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا
تو جان لے يہ باتھ سے ميدا پھر گي

چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ ميرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گي

رونق جو آ گئي پسينے سے موت کے
پاني ترے مريض پر اک آن پھر گي

گريے نے ايک دم ميں بنا دي وہ گھر کي شکل
ميري نظر ميں صاف بيابان پھر گيا

لائے تھے کوئے يار سے ہم داغ کو ابھي
لو اس کي موت آئي وہ نادان پھر گي​
 

پاکستانی

محفلین
ديکھو جو مسکراکے تم آغوش نقش پا
گستاخيوں کرے لب خاموش نقش پا

پائي مرے سراغ سے دشمن نے راہ دوست
اے بيخودي مجھے نہ رہا ہوش نقش پا

ميں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
ميري زباں سے حال سنے گوش نقش پا

آئے بھي وہ چلے بھي گئے مري راہ سے
ميں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا

يہ کون ميرے کوچہ سے چھپ کر نکل گيا
خالي نہيں ہے فتنوں سے آغوش نقش پا

يہ داغ کي تو خاک نہيں کوئے يار ميں
اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا​
 

پاکستانی

محفلین
يہ قول کسي کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
وہ کچھ نہيں کہتا ہے کہ ميں کچھ نہیں کہتا

سن سن کر ترے عشق ميں اغيار کے طعنے
مير اہي کليجا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

ان کا يہي سننا ہے کہ وہ کچھ نہيں سنتے
ميرا يہي کہنا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

خط ميں مجھے اول تو سنائي ہيں ہزاروں
آخر ميں يہ لکھا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

پھٹتا ہے جگر ديکھ کے قاصد کي مصيبت
پوچھوں تو يہ کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

يہ خوب سمجھ ليجئے غمار وہي ہے
جو آپ سے سے کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

تم کو يہي شاياں ہے کہ تم ديتے ہوئے وشنام
مجھ کو يہي زيبا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

مشتاق بہت ہيں مرے کہنے کے پر اے داغ
يہ وقت ہي ايسا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا​
 

پاکستانی

محفلین
تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
يا نبي خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا

شب معراج يہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخن طالب و مطلوب ہوا خواب ہوا

حشر ميں امت عاصي کا ٹھکانا ہي نہ تھا
بخشوانا تجھے مر غوب ہوا خوب ہوا

تھا سبھي پيش نظر معرکہ کرب و بلا
صبر ميں ثاني ايوب ہوا خوب ہوا

داغ ہے روز قيامت مري شرم اسکے ہاتھ
ميں گناہوں سے جو محبوب ہوا خوب ہوا​
 

پاکستانی

محفلین
يہاں بھي تو وہاں بھي تو زميں ميں تيري فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا

صفات و ذات ميں يکتا ہے تو اے واحد مطلق
نہ کوئي تيرا ثاني کوئي مشترک تيرا

جمال احمد و يوسف کو رونق تونے بخشي ہے
ملاحت تجھ سے شيريں حسن شيريں ميں نمک تيرا

ترے فيض و کرم سے نارو نور آپس ميں يکدل ہيں
ثنا گر يک زبان ہر ايک ہے جن و ملک تيرا

کسي کو کيا خبر کيوں شر پيدا کئے تونے
کہ جو کچھ ہے خدائ ميں وہ ہے لاريب کيئے تونے

نہ جلتا طور کيونکر کس طرح موسي نہ غش کھاتے
کہاں يہ تاب و طاقت جلوہ ديکھئے مر ديک تيرا

دعا يہ ہے کہ وقت مرگ اسکي مشکل آساں ہو
زباں پر داغ کے نام آئے يارب يک بہ يک تيرا​
 

پاکستانی

محفلین
آئينہ تصوير کا تيرے نہ لے کر رکھ ديا
بو سے لينے کيلئے کعبے ميں پتھر رکھ ديا

ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ ديا
پھر کليجا رکھ ديا دل رکھ ديا سر رکھ ديا

زندگي ميں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر ميں تنہا مجھے ياروں نے کيونکر رکھ ديا

ديکھئے اب ٹھوکريں کھاتي ہے کس کس کي نگاہ
روزون ديار ميں ظالم نے پتھر رکھ ديا

زلف خالي ہاتھ خالي کس جگہ ڈھونڈيں اسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ ديا

داغ کي شامت جو آئي اضطراب شوق ميں
حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ ديا​
 

پاکستانی

محفلین
کيا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
پھر بھي يہ کہوں جلوہ جاناں نہيں ديکھا

محشر ميں وہ نادم ہوں خدا يہ نہ دکھائے
آنکھوں نے کبھي اس کو پشيماں نہيں ديکھا

ہر چند ترے ظلم کي کچھ حد نہيں ظالم
پر ہم نے کسي شخص کو نالاں نہيں رکھا

ملتا نہيں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہيں ديکھا

لو اور سنو کہتے ہيں وہ ديکھ کے مجھ کو
جو حال سنا تھا وھ پريشان نہيں ديکھا

کيا پوچھتے ہو کون ہے يہ کسي کي ہے شہرت
کيا تم نے کبھي داغ کا ديوان نہيں ديکھا​
 

پاکستانی

محفلین
[align=center:610679c939]کيا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
پھر بھي يہ کہوں جلوہ جاناں نہيں ديکھا

محشر ميں وہ نادم ہوں خدا يہ نہ دکھائے
آنکھوں نے کبھي اس کو پشيماں نہيں ديکھا

ہر چند ترے ظلم کي کچھ حد نہيں ظالم
پر ہم نے کسي شخص کو نالاں نہيں رکھا

ملتا نہيں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہيں ديکھا

لو اور سنو کہتے ہيں وہ ديکھ کے مجھ کو
جو حال سنا تھا وھ پريشان نہيں ديکھا

کيا پوچھتے ہو کون ہے يہ کسي کي ہے شہرت
کيا تم نے کبھي داغ کا ديوان نہيں ديکھا​
[/align:610679c939]
 

پاکستانی

محفلین
محبت ميں کرے کيا کچھ کسي سے ہو نہيں سکتا
مرا مرنا بھي تو ميري خوشي سے ہو نہيں سکتا

کيا ہے وعدہ فراد انہوں نے ديکھئے کيا ہو
يہاں صبر و تحمل آج ہي سے ہو نہيں سکتا

چمن ميں ناز بلبل نے کيا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کيا کسي ہے ہو نہيں سکتا

نہ رونا ہے طريقہ کا نہ ہنسنا ہے سليقےکا
پريشاني ميں کوئي کا جي سے ہو نہيں سکتا

ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کرکے
اب تو عذر بھي شرمندگي سے ہو نہيں سکتا

خدا جب دوست ہے اے داغ کيا دشمن سے انديشہ
ہمارا کچھ کسي کي دشمني سے ہو نہيں سکتا
 

پاکستانی

محفلین
لے چلا جان مري روٹھ کے جانا تيرا
ايسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تيرا

تو جو اے زلف پريشان رہا کرتي ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل ميں ہے ٹھکانا تيرا

اپني آنکھوں ميں کوند گئي بجلي سي
ہم نہ سمجھے کہ يہ آنا ہے کہ جانا تيرا
 

پاکستانی

محفلین
ستم ہي کرنا جفا ہي کرنا نگاہ الفت کبھي نہ کرنا
تمھيں قسم ہے ہمارے سر کي ہمارے حق ميں کمي نہ کرنا

ہماري ميت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھي نہيں ہماري ہنسي نہ کرنا

کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہي نہيں يہ رسميں
وہاں ہے وعدے کي بھي يہ صورت کبھي تو کرنا کبھي نہ کرنا

نہيں ہے کچھ قتل انکا آساں يہ سخت جاں ہيں بري بلا کے
قضا کو پہلے شريک کرنا يہ کام اپني خوشي نہ کرنا

مري تو ہے بات زہران کو وہ ان کے مطلب ہي کي نہ کيوں ہو
کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہي نہ کرنا

وہ ہے ہمارا طريق الفت کہ دشمنوں سے بھي مل کے چلنا
يہ ايک شيوہ ترا ستمگر کہ دوست سے دوستي نہ کرنا

ہم ياک رستہ گلي کا اس کي دکھا کے اس کو ہوئے پشيماں
يہ حضرت خضر کو جتا دو کسي کي تم رہبري نہ کرنا

بياں درد فراق کيا کہ ہے وہاں اپني يہ حقيقت
جو بات کرني تو نالہ کرنا نہيں تو وہ بھي کبھي نہ کرنا

مدار ہے نا صحو تمہي پر تمام اب اس کي منصفي کا
ذرا تو کہنا خدا لگي بھي فقط سخن پروي نہ کرنا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top