"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نوید ملک

محفلین
روشنی ستارا ہے راستہ ستارا ہے
شب گزار لوگوں کا اۤسرا ستارا ہے

کیوں ہمیں بلا تا ہے پچھلی رات کا تارا
ہم سیاہ بختوں کا دوسرا ستارا ہے

یوں سبھی سے ملتے ہیں ،کم کسی پہ کھلتے ہیں
گفتگو سبھی سے ہے مدعا ستارا ہے

شامِ غم سجانے کو دل کی لو بڑھانے کو
ابتداء چراغِ شب انتہا ستارا ہے

رات بھر اسے ہم نے اۤنکھ میں جگہ دی تھی
صبح یہ کُھلا ہم پر چاند کا ستارا ہے

تو فلک پہ روشن ہے میں زمیں پہ جلتا ہوں
تیری میری قسمت کا ایک سا ستارا ہے

اۤسماں سے لڑتے ہیں اس امید پر ساجد
اجنبی عدالت میں اۤشنا ستارا ہے

(ساجد امجد)
 

حجاب

محفلین
جہاں پھولوں کو کِھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
کوئی آکر پوچھے تمہیں کیسے بھلایا ہے
تمہارے خط کو اشکوں سے شبِ غم میں جلایا ہے
ہزاروں غم ایسے ہیں اگر سلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
تمہیں جتنا بھلایا ہے تمہاری یاد آئی ہے
بہارِ نو جو آئی ہے وہی خوشبو سی لائی ہے
تمہارے لب میری خاطر اگر ہلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

تیشہ

محفلین
مسکراتی آنکھوں کو دوستوں کی نم کرنا
رام ایسے افسانے چھوڑ دو رقم کرنا

اب کہاں وہ پہلی سی فرصیتں میسر ہیں
سارا دن سفر کرنا، ساری رات غم کرنا

صبر کی روایت میں،جبر کی عدالت میں
لب کبھی نہ وا کرنا، سر کبھی نہ خم کرنا

شہر ِ شعر میں ہم نے غم بہت چنےُ لیکن
آنسوؤں میں مشکل ہے کائنات ضم کرنا

زندگی کو سہنا ہے کون رام اپنا ہے
کیا کسی کو دکھ دینا کیا کسی کا غم کرنا ۔
 

شائستہ

محفلین
ہماری نیند، ہمیشہ کی نیند ہوتی ہے
ہم اہلِ درد تو بس ایک بار سوتے ہیں

وفا کی راہ میں چلتا نہیں ہے ساتھ کوئ
کہ رونے والے، ہمیشہ، اکیلے روتے ہیں

شعورِ ذات سے جب ہمکلام ہوتے ہیں
فنا کے بوجھ کو، ہم آنسوؤں سے دھوتے ہیں
 

شائستہ

محفلین
دھڑکنیں گونجتی ہیں سینے میں
اتنے سُنسان ہو گئے ہیں ہم

ہر کوئ کیوں کٹھن سا لگتا ہے
جب سے آسان ہو گئے ہیں ہم
 

عمر سیف

محفلین
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتاتھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل


ناصر کاظمی
 

نوید ملک

محفلین
باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارا کر کے

سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اسی جرمِ محبت کو دوبارہ کر کے

جگمگا دی ہیں ترے شہر کی گلیاں میں نے
اپنے ہر عشق کو پلکوں پہ ستارا کر کے

دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا
اور کچھ روز ترے ساتھ گزارا کر کے

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں ساجد یہ اذیت بھی گوارا کر کے

(اعتبار ساجد)
 

عمر سیف

محفلین
وہ تو پھر اللہ ہے پوری کرے گا آرزو
پتھروں سے جب دل کی مرادیں پا لیتے ہیں لوگ
زندگی بھر ساتھ دینا تو نہیں کرتے پسند
دم نکل جائے تو پھر کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ
 

نوید ملک

محفلین
یہ واقعہ بھی عجب میری زندگی کا تھا
میں چاہتا تھا اسے اور وہ کسی کا تھا

کسی نے توڑ دیا میرا اۤشیانہء خواب
مجھے بھی زعم بہت اپنی عاشقی کا تھا

تب اپنی وحشتِ جاں پر ہوا بہت افسوس
جو یہ سنا کہ اسے شوق دل لگی کا تھا

نہ میری ذات سے مطلب نہ میرے درد سے کلام
وہ معترف تو فقط میری شاعری کا تھا

(اعتبار ساجد)
 

عمر سیف

محفلین
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اُڑے
گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون
نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں

ایک اک کرکے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ
گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں

بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رت جگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں

راحت اندوری
 

عمر سیف

محفلین
آنکھوں سے دور ہو گیا جو جھوٹ بول کے
میں راہ دیکھتی رہی دروازہ کھول کے

اب سوچتی ہوں میں کہ یہی میری بھول تھی
دیکھا نہیں جو اس کو ترازو میں تول کے

وہ جلد باز اس طرح واپس ہوا کہ ہم
مفہوم بھی سمجھ نہ سکے میل جول کے

اس بےوفا کے واسطے خود کو کروں تباہ
پاگل تو میں نہیں کہ پیوں زہر گھول کے

چاروں طرف ہے ایک اندھیرا سا اے انا
اس کے بغیر لگتے ہیں دن تارکول کے

انا دہلوی
 

نوید ملک

محفلین
نہ پوچھ ہم سے کہ اس گھر میں کیا ہمارا ہے
اسی میں خوش ہیں کہ حسنِ فضا ہمارا ہے

الگ مزاج ہےاپنا تمام لوگوں سے
تمام قصوں میں قصہ جدا ہمارا ہے

ہماری شہرتوں ، رسوائیوں کے کیا کہنے
کہ سنگِ راہ بھی نام اۤشنا ہمارا ہے

جلا تے پھرتے ہیں ہم کاغذی گھروں میں چراغ
رہے یہ ڈھنگ تو حافظ خدا ہمارا ہے

دلوں کے قریہء بیگانگی میں رہتے ہیں
سو ، دوستو یہی تازہ پتہ ہمارا ہے

ہمیں یہ اۤخری خوش فہمیاں نہ لیں ڈوبیں
کہ سیل اۤب شریک ہم نوا ہمارا ہے

بہت ہے شور مگر اطمینان بھی کہ یہاں
کوئی تو ہے جو سخن اۤشنا ہمارا ہے
 

عمر سیف

محفلین
آج پھر ساون ٹوٹ کے برسا ہے
آج پھر کسی کے لہجے میں نمی ہے
پھر سے وحشتوں کے ہالے میں ہوں مقید
آج پھر یادوں کی محفل جمی ہے
 

حجاب

محفلین
جانے کیسے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے
کچھ نئے رنگ ہیں محبت کے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے
موسمِ عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے
تجھ سے ملنے کے اور بچھڑنے کے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے
جب ہوا کا مزاج برہم تھا
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے
آرزو کے حسین پنجرے میں
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے
ہم نے دل کی کتاب میں تیرے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے
تیرے دکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے
میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا
اور اپنے سنبھال کر رکھے
نوشی گیلانی (اداس ہونے کے دن نہیں ہیں )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
سارے بدن کا خون پسینے میں جل گیا
اتنا چلے کہ جسم ہمارا پگل گیا

چلنے کی گن رہے تھے مصیبت کہ رات دن
دم لینے ہم جو بیٹھ گئے دم نکل گیا

اچھا ہوا جو راہ میں ٹھوکر لگی ہمیں
ہم گر پڑے تو سارا زمانہ سنمبھل گیا

وحشت میں کوئی ساتھ ہمارا نہ دے سکا
دامن کی فکر کی تو گریباں نکل گیا
(محمود درانی)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top