"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
کون سا غم ہے جو یہ حال بنا رکھا ہے
نہ تو میک اپ ہے نہ بالوں کو سجا رکھا ہے
“ خواہ مخواہ “ یہ چھیڑتی رہتی ہیں رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
(غوث خوامخواہ)
 

عمر سیف

محفلین
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں

کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانئ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑ جاتے ہیں

موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈھے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اُکھڑ جاتے ہیں

شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیاہو کہ یہ لوگ
ّپتھروں میں بھی کبھی آئینے جڑ جاتے ہیں

سوچ کا آئینہ دُندھلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں

شِدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دیے تُند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں *محسن* جو وفا کی خاطر!
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں


محسن نقوی
 

نوید ملک

محفلین
ہر کوئی دل کی ہتھيلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سيراب کرے وہ کسے پياسا رکھے

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

ہم کو اچھا نہيں لگتا کوئی ہم نام تيرا
کوئی تجھ سا تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے

دل بھی کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے

قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت فراز
ہم تو راضی ہيں وہ جس حال میں جيسا رکھے

(احمد فراز)
 

عمر سیف

محفلین
نیند سے بھی سکون نہیں ہوتا
آنکھ سوئی ہے دل نہیں سوتا
عمر گذری اسی کشمکش میں
یوں نہ ہوتا عدم تو یوں ہوتا
 

شمشاد

لائبریرین
گھر سے ہم نکلے تھے مسجد کی طرف جانے کو
رند بہکا کے ہمیں لے گئے میخانے کو
یہ زباں چلتی ہے ناصح کہ چھری چلتی ہے
ذبح کرنے مجھے آیا ہے کہ سمجھانے کو
آج کچھ اور بھی پی لوں کہ سنا ہے میں نے
آتے ہیں حضرتِ واعظ میرے سمجھانے کو
ہٹ گئی عارضِ روشن سے تمہارے جو نقاب
رات بھر شمع سے نفرت رہی دیوانے کو​
 

عمر سیف

محفلین
بہت عمدہ شمشاد۔ پہلا شعر بہت پسند آیا۔

کتنا مشکل ہے زندگی کرنا
جس طرح تجھ سے دوستی کرنا

اِک کہانی نہ اور بن جائے
تم بات سرسری کرنا

ڈوب جاؤں نہ میں اندھیروں میں
اپنی آنکھوں کی روشنی کرنا

کس قدر دل نشیں لگتا ہے
بے ارادہ تجھے دُکھی کرنا

خون ِ دل صرف کرنا پڑتا ہے
دیکھنا!تم نہ شاعری کرنا

کتنا دُشوار ہے انا کے لیئے
سارے ماحول کی نفی کرنا



نوشی گیلانی
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ ضبط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
اک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
دنیا بھی ملی ہے غمِ دنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خدا سے
آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائے کوئی ان کی بلا سے​
 

شمشاد

لائبریرین
سوچا نہیں اچھا برا
دیکھا سنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے ہر وقت
تیرے سوا کچھ بھی نہیں
دیکھا تجھے چاہا تجھے
سوچا تجھے پوجا تجھے
میری وفا میری خطا
تیری خطا کچھ بھی نہیں
جس پر ہماری آنکھ نے
موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے
ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں
ایک شام کی دہلیز پر
بیٹھے رہے وہ دیر تک
آنکھوں سے کیں باتیں بہت
منہ سے کہا کچھ بھی نہیں
دو چار دن کی بات ہے
دل خاک میں مل جائے گا
آگ پہ جب کاغذ رکھا
باقی بچا کچھ بھی نہیں​
 

شائستہ

محفلین
زاویہ کوئی مقرر نہیں‌ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا

عمر مصروف کوئی لمحہ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا

آئے دن آتش و آہن سے گذرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہونے پاتا

کیا اس جبر مشیت کو غنیمت سمجھوں
جو عمل میرا مقدر نہیں‌ہونے پاتا

جشم پر آب سمولیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدر نہیں ہونے پاتا

فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں‌تقاضے محسن
ہر سخن گو تو سخنور نہیں‌ ہونے پاتا
 

شمشاد

لائبریرین
صدا دیتی ہے خوشبو چاند تارے بول پڑتے ہیں
نظر جیسی نظر ہو تو نظارے بول پڑتے ہیں

تمہاری ہی نگاہوں نے کہا ہے ہم سے یہ اکثر
تمہارے جسم پر تو رنگ سارے بول پڑتے ہیں

مہک جاتے ہیں گل جیسے صبا کے چوم لینے سے
اگر لہریں مخاطب ہوں کنارے بول پڑتے ہیں

زبان سے بات کرنے میں جہاں رسوائی ہوتی ہے
وہاں خاموش آنکھوں کے کنارے بول پڑتے ہیں

چھپانا چاہتے ہیں ان سے دل کا حال ہم، لیکن
ہمارے آنسوؤں میں غم ہمارے بول پڑتے ہیں

تیری پابندیوں سے رک نہیں سکتیں یہ فریادیں
اگر ہم چپ رہتے ہیں تو زخم سارے بول پڑتے ہیں

(منظر بھوپالی)
 

عمر سیف

محفلین
یہی کرو گے تم ہم سے اب ملو گے نہیں
جو بات دل نے کہی تھی اسے سنو گے نہیں
وہ داستاں جسے سنتے ہو روز ہنس ہنس کر
کبھی جو ہم سے سنو گے تو ہنسو گے نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اُس بزم میں ہر چیز سے کمتر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جانا تھا ہمارے بھی گھر آیا

کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لخت جگر آیا
(مصطفٰی خان شیفتہ)
 

عمر سیف

محفلین
کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں رواداریاں نبھاتے ہوئے
کسی کو میرے دکھوں کی خبر ہو بھی کیسے
میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے
 

شمشاد

لائبریرین
چپکے چپکے اثر کرتا ہے
عشق کینسر کی طرح بڑھتا ہے
جو کوئی جی نہ سکے مر جائے
آپ کا نام عبث لیتا ہے
کون سناتا ہے کسی کی ویپارہ
سب کے ماتھے پہ یہی لکھا ہے
کوئی ڈراتا ہے بھری محفل میں
کوئی تنہائی میں ہنس پڑٹا ہے
یہی ہے جنت یہی ہے دوزخ
اور دیکھو تو یہی دنیا ہے
سب کی قسمت میں فنا ہے جب تک
آنسوؤں پہ کوئی زندہ ہے
وہ خدا ہے تو زمین پر آئے
حشر کا دن تو یہاں برپا ہے
سانس روکے ہوئے بیٹھو “ امجد “
وقت دشمن کی طرح چلاتا ہے
(امجد اسلام امجد)
 

تیشہ

محفلین
ہاتھ دیا اس نے میرے ہاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں

عشق کروگے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں

شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جزبات میں

ربط بڑھایا نہ قیتیل اس لئیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں ۔
 

پاکستانی

محفلین
میں اس ادا سے بھی ہوں آشنا تجھے اتنا جس پہ غرور ہے
میں جیوں گا تیرے بغیر بھی،مجھے زندگی کا شعور ہے
نہ ہوس مئے ناب کی نہ طلب صبا و سحاب کی
تیری چشم ناز کی خیر ہے ، مجھے بے پیئے ہی سرور ہے
جو سمجھ لیا تجھے باوفا ، تو پھر اس میں تیری بھی کیا خطا
یہ خلل ہے میرے دماغ کا یہ میری نظر کا قصور ہے
کوئی بات دل میں وہ ٹھان کے نہ اُلجھ پڑے تیری شان سے
وہ نیاز مند جو سر بہ خم ، کئی دن سے تیرے حضور ہے
مجھے دیں گی خاک تسلیاں تیری جانگداز تجلیاں
میں سوال شوق وصال ہوں تو جلال شعلہ طور ہے
میں نکل کہ بھی تیرے دام سے نہ گروں گا اپنے مقام سے
میں قتیل تیغ جفا سہی ، مجھے تجھ سے عشق ضرور ہے
 

پاکستانی

محفلین
خُدا ہم کو ایسی خُدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے

ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے

غُلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے

خُدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
(کلام: بشیر بدر)​
 

پاکستانی

محفلین
فرض کرو! ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو! یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو! یہ جی کی بپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو! ابھی اور ہو اِتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کرو! تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو! یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرو! یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پِیت ہماری ہو
فرض کرو! اِس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو

فرض کرو! یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو! بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایہ ہو

دیکھ مری جاں کہہ گئے باہو، کون دِلوں کی جانے، ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں‌کریں دیوانے، ہُو

جوگی بھی، جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی، جو میٹھی بولی بول کے مَن کو ہرتے ہیں
بنجارے، جو اُونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

اُن میں سُچے موتی بھی ہیں، اُن میں‌کنکر پتھر بھی
اُن میں اتھلے پانی بھی ہیں، اُن میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچا، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی، وہ گھڑا تھا جس کا کچا، ہُو
 

پاکستانی

محفلین
مشک کی خوشبو چھپاتے کس طرح
عشق کو دل میں دباتے کس طرح
اک بہانہ بھی نہیں باقی بچا
اس کے گھر آخر کو جاتے کس طرح
چار دیواروں میں ایک زنداں ہے یہ
اپنے گھر اس کو بلاتے کس طرح
گنگ ہوتی تھی زباں اس کے قریب
جو گزرتی تھی بتائے کس طرح
دور جا کر اس کو لکھا حالِ دل
سامنے اس کو سناتے کس طرح
ناوک باطل تلاش حق میں تھا
اپنے سینے کو بچاتے کس طرح
احمد آداب جنوں اہل خرد
تجھ دوائے کو سکھاتے کس طرح
 

پاکستانی

محفلین
اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی
خزاں رتوں میں‌بھی گلاب مانگتی ہے زندگی

حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند
کبھی کبھی حسیں‌خواب مانگتی ہے زندگی

کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں
کہ پھر کوئی نیا سراب مانگتی ہے زندگی

وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لزتیں
نہ جانے کیوں‌وہی عذاب مانگتی ہے زندگی

پکارتا ہوں‌جب کبھی تنگ آ کے موت کو
تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی

میں‌زندگیء نو کو جب پکارتا ہوں، پاس آ
گزشتہ عمر کی کتاب مانگتی ہے زندگی

ڈاکٹر فریاد آزر
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top