"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
دل زندہ و بيدار اگر ہو تو بتدريج
بندے کو عطا کرتے ہيں چشم نگراں اور

احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور

الفاظ و معاني ميں تفاوت نہيں ليکن
ملا کي اذاں اور مجاہد کي اذاں اور

پرواز ہے دونوں کي اسي ايک فضا ميں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہيں کا جہاں اور
 

پاکستانی

محفلین
فرزانوں کی اس بستی میں
اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
بارش کی طرح پرُ شور نہ تھا
دریا کی طرح چپ رہتا تھا
جن سے اسے پیار بلا کا تھا
طعنے بھی انہی کے سہتا تھا

اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا اک روز کوئی تو سوچےگا

دنیا نے اسے کچھ بھی نہ دیا
پر اس نے جگ کو پیار دیا
جاں روتے روتے کھو بیٹھا
دل ہنستے ہنستے ہار دیا
جو نظم لکھی بھرپور لکھی
جو شعر دیا شاہکار دیا
کیون جیتے جی درگور ہوا
کس چاہ پہ تن من وار دیا
تھا دشمن کون بیچارے کا
کس رنج نے اسکو مار دیا اک روز کوئی تو سوچے گا
اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
اک روز کوئی تو سوچے گا
اور پہروں بیٹھ کر روئے گا۔
 

پاکستانی

محفلین
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر کون میری طرح تجھ کو چاہے گا

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ھہاری کہاں سے لائے گا

نہ جانے کب تیرے دل پر نئی سی دستک ہو
مکاں خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا

میں اپنی راہ میں دیوار بن کر بیٹھا ہوں
اگر وہ آیا تو کس راستے سے آئے گا

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
 

پاکستانی

محفلین
تباہیوں میں بھی بے خانماں نہ ہونے دیا
مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا

کمال یہ نہیں ہم نے کمال گر یِہ کیا
کمال یہ ہے زیادہ دھواں نہ ہونے دیا

خلش ہمیشہ رہی ایک آدھ اس دل میں
دکھوں سے خالی کبھی یہ مکاں نہ ہونے دیا

مجھے تھا خوف نشیمن کے پھر اجڑنے کا
صبا کو اس لئے بھی مہرباں نہ ہونے دیا

اک ایسی موج جسے آبشار ہونا تھا
اُسے بھی آنکھ سے اک پل رواں نہ ہونے دیا

مُنافقوں کی طرح ہم نے اُس کا ساتھ دیا
وہ بے وفا ہے اُسے یہ گُماں نہ ہونے دیا

خوشی سے کھیل گئےاپنی جان پر عاصم
کسی طرح سے بھی اِس کا زیاں نہ ہونے دیا
ڈاکٹر غنی عاصم
 

پاکستانی

محفلین
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
نکل جاتی ہے لبِ خنداں سے اک آہ بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ


اقبال
 

عمر سیف

محفلین
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دُشوار ہو جائے
حیات اک زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار ہو جائے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے
خفا ہونے کی رسمیں ہیں
بگڑنے کے طریقے ہیں
رواج و رسمِ ترکِ تعلق پر سو کتابیں ہیں۔
وضع داری کا ایسے راستہ چھوڑا نہیں کرتے۔
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کبھی بلبل گلوں کی خامشی سے
روٹھ جاتی ہے۔
پر اگلے سال
سب کچھ بھول کر پھر لوٹ آتی ہے
اگر پودوں سے پانی دور ہو جائے تو
ہمسایہ درختوں کی جڑوں کے ہاتھ
پیغامات جاتے ہیں۔
محبت میں سبھی اک دوسرے کو آزماتے ہیں
مگر ایسا نہیں کرتے
کہ ہر اُمید ہر اِمکان مٹ جائے
کہاں تک کھینچنی ہے ڈور
یہ اندازہ رکھتے ہیں
ہمیشہ
چار دیواری میں اک دروازہ رکھتے ہیں۔
جدائی مستقل ہو جائے تو
ئہ زندگی زندان ہو جائے
اگر خوشبو ہواؤں سے ماسم منقطع کر لے
تو خود میں ڈوب کر
بے جان ہو جائے
سنو
جینے سے منہ موڑا نہیں کرتے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے
 

ظفری

لائبریرین
شمشاد بھائی کے اصرار اور خواہش پر یہ غزل پیش خدمت ہے ۔ :wink:




شبِ سیاہ میں روشن خیال میرا تھا
میں کچھ نہیں تھا مگر یہ کمال میرا تھا

مرے لہو کی چمک تھی نگار خانوں میں
تجوریوں کے اندر جو تھا مال میرا تھا

محاذِ فکر پہ کوئی بھی ڈٹ کے جم نہ سکا
عدو کے سامنے بس اک سوال میرا تھا

ہوا نے کاٹ دیا ہر بلند قامت کو
ہوا کے لہجے میں جاہ و جلال میرا تھا

جسے کریدا وہی گھل رہا تھا اندر سے
ہر ایک جسم میں عکس ِ جمال میرا تھا

اُچک کے لئے گئے سک ہائے شہرِیار جسے
اُطاقِ جاں میں وہ رزقٍ حلال میرا تھا

بخش لائلپوری
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ ظفری بھائی، اور غزل بھی بہت پسند آئی۔

بس ایسے ہی آتے رہیے اور غزلیں اور نظمیں سناتے رہیے۔
 

سارہ خان

محفلین
بہت خوب ضبط اور ظفری ۔۔ نظم اور غزل دونوں ہی بہت ابھی ہیں ۔۔۔




تم بھی ہنستے رہتے ہو
ہم بھی ہنستے رہتے ہیں
غم دلوں میں پلتے ہیں
اور پتہ نہیں چلتا
کتنے ہی زمانوں سے
کتنے ہی مکانوں میں
روشنی نہیں ہوتی
اور پتہ نہیں چلتا
تم بن جی نہیں نہ پائیں گے
اکثر یہ کہتے ہیں
تم بن بھی جیتے رہتے ہیں
اور پتہ نہیں چلتا
 

پاکستانی

محفلین
ارضِ کشمیر و ارض پاک کو ہم
ایک کب اے حضور کہتے ہیں
نہیں کہتے اٹوٹ انگ اسے
اپنی شہ رگ ضرور کہتے ہیں

انور شعور
 

ظفری

لائبریرین
ظلم سہتے ہیں دُہائی نہیں دیتا کوئی
گرمئی تلخ نوائی نہیں دیتا کوئی

مقتلِ شہر میں اب قہر کا سناٹا ہے
جسم سولی پہ دکھائی نہیں دیتا کوئی

جو بھی آیا نئے مجلس ہی سجانے آیا
قیدِ پیہم سے رہائی نہیں دیتا کوئی

دوستو! ہر کڑی منزل سے گزرنا ہوگا
گھر میں بیٹھے تو خدائی نہیں دیتا کوئی

دوست ہوتا ہی نہیں چھوڑ کے جانے والا
دوست بن کر توجُدائی نہیں دیتا کوئی

کس کی آغوش ِ محبت میں پناہیں ڈھونڈیں
دورِ ظلمت میں دکھائی نہیں دیتا کوئی

خود ہی مجبورِ طلب ہوتا ہے انساں ورنہ
بخش کشکولِ گدائی نہیں دیتا کوئی

بخش لائلپوری​
 

حجاب

محفلین
بھولتا کون ہے وقت کے گھاؤ کو
ہجر کے تند طوفان کی بے یقیں لہر میں
وصل کے خواب کی ڈوبتی ناؤ کو
بھولتا کون ہے وقت کے گھاؤ کو
بھولتا کون ہے اپنے قاتل کے خدوخال کو
دُکھ اُٹھائے دِنوں اور ماہ و سال کو
بھولتا کون ہے عمر کی شاخ پر
کِھلنے والی اُس اک اولین شام کو
بےسبب جو لگا ہے اُس الزام کو
پھر تیرے نام کو
بھولتا کون ہے
بھولتا کون ہے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

پاکستانی

محفلین
سرِ راہ کچھ بھی کہا نہیں، کبھی اُس کے گھر میں گیا نہیں
میں جنم جنم سے اُسی کا ہوں، اُسے آج تک یہ پتا نہیں
یہ خدا کی دین عجیب ہے، کہ اُسی کا نام نصیب ہے
جسے تو نے چاہا وہ مل گیا، جسے میں نے چاہا ملا نہیں
 

نوید ملک

محفلین
کبھی فاصلوں پہ کبھی قیام پہ زندگی
میں نے ہنس کے لکھ دی تمہارے نام پہ زندگی

میں شروع سے ہی تھا راہِ عشق پہ گامزن
تھی عجیب شان کی اختتام پہ زندگی

یہ عجیب وقت تو شعر سے بھی بلند ہے
میں نے نظم چھوڑ کر لکھ دی شام پہ زندگی

وہ جو خواہشیں تھیں مسافتوں کی وہ کیا ہوئیں
یہ جو رک گئی ہے ترے قیام پہ زندگی

تیرے بارے میں موت کو چھو کے مجھ کو پتا چلا
میں نے وار دی خیال خام پہ زندگی

یہاں بند گلیاں ہی گلیاں ہیں ہر طرف
مجھے کھینچ لائی ہے جس مقام پر زندگی

(فرحت عباس شاہ)
 

ظفری

لائبریرین

شاخ کیا ٹوٹی آشیانے کی
نبض ہی رُک گئی زمانے کی

اپنے ہاتھوں اگر جلانا تھا
کیا ضرورت تھی گھر بنانے کی

کُوچہِ مومناں میں بندش ہے
کلمہِ حق زباں پہ لانے کی

جم گئی ہے جو اپنے چہروں پر
وہ سیاہی ہے کارخانے کی

قریہِ شہر یار میں اب تو
سخت مشکل ہے سر چُھپانے کی

بخش لندن میں رنگداروں کو
فکر لاحق ہے آب و دانے کی​
 

سارہ خان

محفلین
پلٹ کر راستےچھوڑنا اچھا نہیں ہوتا
یوں ساتھ چھوڑ کر منزل بدلنا اچھا نہیں ہوتا

آسان نہیں اتنا سمندرِ عشق کی وسعتوں کا شمار
فقط ساحل پہ قیاس آرئیاں کرنا اچھا نہیں ہوتا

نہ ہو کچھ پاس متاعِ خودی تو ہونی چاہیے
یونہی کسی کے آگے ٹوٹ کر بکھرنا آچھا نہیں ہوتا

سمجھنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں
یوں پہلی ملاقات میں رائے قائم کرنا اچھا نہیں ہوتا

نہ جانے کب کسی کی آہ فلک تک پہنچ جائے
یونہی معصوم دلوں کو توڑنا اچھا نہیں ہوتا

ہم خاک ہیں اور خاک میں ہو جائیں گے فنا
پھر اس قدر ذات پر غرور اچھا نہیں ہوتا
 

عمر سیف

محفلین
شکریہ دوست، پاکستانی اور سارہ خان

تم جو بدلے تو اجالے بھی میرے ساتھ نہیں
دیکھوں اب دل کا دیا بھی تو بُجھا جاتا ہے
ظرف رکھتے ہیں جو اس بات سے واقف ہیں غزل
پیار تو وہ درد ہے جو تا عمر سہا جاتا ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top