"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
وصل کي شب شام سے ميں سو گيا
جاگنا ہجراں کا بلا ہو گيا

ساتھ نہ چلنے کا بہانہ تو ديکھ
آہ کے مري نعش پہ وہ رو گيا

صبر نہيں شام فراق آ بھي چکو
جس سے کہ بے زار تھے تم سو گيا

ہائے صنم ہائے صنم لب پہ کيوں
خير ہے مومن تمہيں کيا ہو گيا
 

پاکستانی

محفلین
صحرا میں پِھر رہا ہوں میں انجان کی طرح
دَر دَر بھٹک رہا ہوں میں نادان کی طرح

جن کو نہ تھا کبھی بھی محبت پہ اعتبار
چاہت کے مندروں میں ہیں بھگوان کی طرح

وعدے کئے تھے جس نے نبھاؤں گا ساتھ میں
رستہ بدل گیا ہے وہ انجان کی طرح

میرے صنم نے ساتھ نبھایا کچھ اِس طرح
رگ رگ میں بس گیا ہے وہ سرطان کی طرح

اب سوچتے ہیں ترکِ محبت ہی کیجیئے
محلوں سا دل ہُوا ہے بیابان کی طرح
 

پاکستانی

محفلین
بھیگے موتی
تمہاری یاد کے آنسو
میری پلکوں پہ ٹِکے تھے
پھرمیں نے
انہیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
جذب کر لیا
کہ شائد
تمہاری یاد کے یہ
بھیگے موتی
میرے مقدر کی لکیروں کو
چمکا دیں
اور
میں
تمہیں پا لوں
 

پاکستانی

محفلین
محبت ایسا نغمہ ہے
ذرا بھی جھول ہے لَے میں
تو سُر قائم نہیں ہو تا

محبت ایسا شعلہ ہے
ہوا جیسی بھی چلتی ہو
کبھی مدھم نہیں ہوتا

محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا

محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا

محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
امجد اسلام امجد
 

پاکستانی

محفلین
اک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

ایسے لوگوں سے بھی ہم ملتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پہ سوداگری کرتے رہے

خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لیے ہم خود کشی کرتے رہے

اس طرح اقبال گزری ہے ہماری زندگی
زہرِ غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

پروفیسر اقبال عظیم
 

پاکستانی

محفلین
گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ

بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ


ناصر کاظمی
 

پاکستانی

محفلین
مجھ کو مجھ سے جدا کیا تو نے
میرا بن کے یہ کیا ِکیا تو نے
میرے آنسو بھی مجھ سے چھین لئے
اس قدر غم عطا کیا تو نے
اب طلب کی طلب نہیں مجھ میں
نقش فانی فنا کیا تو نے
چند لمحوں میں رات ختم ہو ئی
صبحِ خنداں یہ کیا کیا تو نے
تیری چا ہت میں دور جا نکلا
ماسوا ماورا کیا تو نے
آج واصّف نے کہہ دیا اُس کو
بخدا باخدا کیا تو نے

واصّف علی واصّف
 

پاکستانی

محفلین
سُنو اچھا نہیں لگتا
کرے جب تذکرہ کوئی
کرے جب تبصرہ کوئی
تمھاری ذات کو کھوجے
تمھاری بات کو سوچے
مجھے اچھا نہیں لگتا
سُنو اچھا نہیں لگتا
تمھاری مسکراہٹ پر
ہزاروں لوگ مرتے ہوں
تمھاری ایک آہٹ پر
ہزاروں دل دھڑکتے ہوں
کسی کا تم پہ یوں مرنا
مجھے اچھا نہیں لگتا
سُنو اچھا نہیں لگتا
کے تم کو پھول بھی دیکھیں
تمھارے پاس سے مہکیں
یا چندا کی گذارش ہو
کہ اپنی روشنی بخشو
مجھے اچھا نہیں لگتا
سُنو اچھا نہیں لگتا
 

پاکستانی

محفلین
کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو!
برباد کیوں کیا ہے؟ خدارا جواب دو!

کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو!
آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو!

کل سے مراد صبحِ قیامت سہی، مگر
اب تم کہاں ملو گے دوبارہ جواب دو!

چہرہ اداس، اشک رواں، دل ہے بے سکوں
میرا قصور کیا ہے تمہارا جواب دو!

دیکھا جو شرم سار، الٹ دی بساطِ شوق
یوں تم سے کوئی جیت کے ہارا، جواب دو!

میں ہو گیا تباہ تمہارے ہی سامنے
کیونکر کیا یہ تم نے گوارا، جواب دو!

تم نا خدا تھے اور تلاطم سے آشنا
کشتی کو کیوں ملا نہ کنارہ، جواب دو!

شام آئی، شب گزر گئی، آخر سحر ہوئی
تم نے کہاں یہ وقت گزارا، جواب دو!

لو تم کو بلانے لگے ہیں نصیر وہ
بولو ارادہ کیا ہے تمہارا، جواب دو!
 

پاکستانی

محفلین
مِری زیست پُر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

مجھے حُسن نے ستایا ، مجھے عشق نے مِٹایا
کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

وہ جو بے رُخی کبھی تھی وہی بے رُخی ہے اب تک
مِرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

وہ جو حکم دیں بجا ہے ، مِرا ہر سُخن خطا ہے
اُنہیں میری رُو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

جو ہے گردشوں نے گھیرا ، تو نصیب ہے وہ میرا
مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تِرے در سے بھی نباہے ، درِ غیر کو بھی چاہے
مِرے سَر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تِرا نام تک بُھلا دوں ، تِری یاد تک مٹا دوں
مجھے اِس طرح کی جُرات کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

میں یہ جانتے ہوئے بھی ، تیری انجمن میں آیا
کہ تجھے مِری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تُو اگر نظر ملائے ، مِرا دَم نکل ہی جائے
تجھے دیکھنے کی ہِمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

جو گِلہ کِیا ہے تم سے ، تو سمجھ کے تم کو اپنا
مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تِرا حُسن ہے یگانہ ، تِرے ساتھ ہے زمانہ
مِرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

یہ کرم ہیں دوستوں کا ، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے
کہ نصیر پر عنایت ، کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
سیّد نصیر الدین نصیر
 

پاکستانی

محفلین
نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي
کتينی ہي طاقت آزمائي کي

رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
ميں نے ہي تم سے بے وفائي کي

کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح
ميں نے حضرت سے کيا برائي کي

دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم
دل کو چھينا تو دل رہائي کي

گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے
مجھ ميں طاقت نہيں لڑائي کي

گھر تو اس ماہ وش کا دور نہ تھا
ليکن طالع نے نار سائي کي

دل ہوا خوں خيال ناخن يار
تو نے اچھي گرہ کشائي کي

مومن آئو تمہيں بھي دکھلا دوں
سير بت خانے ميں خدائي کي
 

پاکستانی

محفلین
اب رت بدلي تو خوشبو کا سفر ديکھے گا کون
زخم پھولوں کي طرح مہکيں گے پر ديکھے گا کون
زخم جتنے بھي تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تيرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر ديکھے گا کون
وہ ہوس ہو يا وفا ہو بات محرومي کي ہے
لوگ پھل پھول ديکھيں گے شجر ديکھے گا کون
ہم چراغ شب ہي جب ٹہرے تو پھر کيا سوچنا
رات تھي کس کا مقدر اور سحر ديکھے گا کون
ہر کوئي اپني ہوا ميں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں ميں تير چشم تر ديکھے گا کون
 

پاکستانی

محفلین
انشا جي اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جي کو لگانا کيا
وحشي کو سکوں سےکيا مطلب، جوگي کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس وک کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہي سوچو تو سہي
جس جھولي ميں سو چھيدا ہوئے، اس جھولي کا پھيلانا کيا

شب بيتي، چاند بھي ڈوب چلا، زنجير پڑي داوازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے، سجني سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کي لمبي رات مياں، سنجوگ کي تو يہي ايک گھڑي
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس حسن کے سچے موتي کو ہم ديکھ سکيں پر چھونا نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھي جلا دکھتے ہوئے من ايک شعلہ لال بھھوکا بن
يوں آنسو بن نہ جانا کيا يوں ماني ميں جانا کيا

جب شہر کے لوگ نہ رستا ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کي سي نہ بات کرےتو اور کرے ديوانہ کيا
 

پاکستانی

محفلین
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو يہ ہے بري بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دينا
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئي پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا
تلخ کامي پہ با مزا ہے عشق

ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق

ديکھ حالت مري کہيں کافر
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق

ديکھتے کس جگہ ڈبو دے گا
ميري کشتي کا نا خدا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق

قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہي کيا وبا ہے عشق
 

پاکستانی

محفلین
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی

مجھے تنہاءیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی

وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
 

پاکستانی

محفلین
ہجومِ شہر سے ہٹ کر حدودِ شہر کے بعد
وہ مُسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے

وہ آنکھ جس میں کوئی سایہ نہ کوئی عکس طلب
وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے

ہجومِ درد میں کیا مُسکرائیے کہ یہاں
خزا ں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے

ملے بغیر جو مجھ سے بچھڑ گیا محسن
وہ راستے میں رکے بھی تو کون دیکھتا ہے
 

پاکستانی

محفلین
ستارہ وار چلے پھر بجھادیئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دیئے گئے ہم

عزیز تھے ہمیں نوواردان کوچہ عشق
سو ٔیچھے ہٹتے گئے راستہ دیئے گئے ہم

دعائیں یاد کرا دی گئیں تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دیئے گئے ہم

زمینِ فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دیئے گئے ہم

شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم‌
 

پاکستانی

محفلین
تم یہ رسمی دیواریں توڑ کیوں نہیں دتیں؟
یہ تنہیاں یہ خاموشیاں توڑ کیوں نہیں دتیں؟
تیری فرقت کے طویل عرصے میں
میں اپنا حوصلہ کھو بٹھا ھوں
اور اب سہا نہیں جاتا تم بن رہا نہیں جاتا
تم میری سانسیں اپنی ڈھڑکنوں میں
چھپا کیوں نہیں لیتں؟
سنو جاناں
میں جانتا ھوں
تم مجھے چھوڑ نہیں سکتیں
پھر مجھے آپنا کیوں نہیں لیتں؟
 

پاکستانی

محفلین
خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہدِ محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوقِ گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top