کیا بتائیں ہمیں آپ پیارے ہیں کیوں
کیا کہیں آپ سے قول ہارے ہیں کیوں
جب سحر کے لبوں پر تبسّم نہیں
شام نے اپنے گیسو سنوارے ہیں کیوں
اُن کا غم ، اُن کے ارمان ، اُن کے ستم
سب کے سب دشمنِ جاں ہمارے ہیں کیوں
جب چمن سے ہمیں کچھ تعلق نہیں
تذکرے پھر چمن میں ہمارے ہیں کیوں
یہ میرے اشکِ غم کی جھلک تو نہیں
اُن کے پلکوں پہ طارق ستارے ہیں کیوں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں
دامنِ کہسار میں یا ساحلِ دریا کے پاس
اونچی اونچی چوٹیوں پر ، سرحدِ صحرا کے پاس
متفق آبادیوں میں ، وسعتِ تنہا کے پاس
روزِ روشن کے کنارے یا شبِ یلدا کے پاس
اس پریشانی میں ، میرا رہبر کوئی نہیں
خواہشیں ہی خواہشیں ہیں اور ہنر کوئی نہیں
گھر بنانا چاہتا ہوں ، میرا گھر کوئی نہیں
غم سے لپٹ جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیا سے کٹ جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دن رات بانٹتے ہیں ، ہمیں مختلف خیال
یوں ان میں بٹ جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
اتنے سوال دل میں ہیں اور وہ خموش در
اُس در سے ہٹ جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
ہم ہیں مثالِ ابر ، مگر اس ہوا سے ہم
ڈر کے سمٹ جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں