"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نوید صادق

محفلین
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ “نہیں“

شاعر: خورشید رضوی
 

شمشاد

لائبریرین
انحراف
بہت تاخیر سے لیکن
کُھلا یہ بھید خُود پر بھی
کہ میں اب تک
مّحبت جان کر جس
جذبۂ دیرئینہ کو اپنے لہُو سے سینچتی آئی
وہ جس کی ساعتِ صد مہر باں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی
فقط اک شائبہ ہی تھا مّحبت کا
یونہی عادت تھی ہر رستے پہ اُس کے ساتھ چلنے کی
وگر نہ ترک خواہش پر
یہ دل تھوڑا سا تو دُکھنا
ذراسی آنکھ نَم ہوتی
(نوشی گیلانی)
 

تیشہ

محفلین
کہیں چراغ ہیں روشن، کہیں پہ مدھم ہیں
تمھارے آنے کے امکان ہیں، مگر کم ہیں

میں لوٹتے ہوئے چپکے سے چھوڑ آیا تھا
تمھارے تکیے پہ میرے ہزار موسم ہیں

تمھارے پاؤں کو چھو کر زمانہ جیت لیا
تمھارے پاؤں نہیں ہیں، یہ ایک عالم ہیں

محبتیں ہوئیں تقسیم تو یہ بھید کھلا
ہمارے حصے میں خوشیاں نہیں ہیں ،ماتم ہیں

کچھ اسی لئے بھی ہمیں دکھُ سے ڈر نہیں لگتا
ہماری ڈھال ترے درد ہیں ، ترے غم ہیں

ابھی کہو ،تو ابھی، یہ بھی تمکو دے دیں گے
ہمارے پاس جو گنتی کے ایک دو دم ہیں

ابھی کھلیںَ گے بھلا کیسے کائنات کے راز
تری کمر میں کئی موڑ ہیں، کئی خم ہیں ۔
 

سارہ خان

محفلین
دُنیا ہے خواب، حاصلِ دُنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

عمرِ دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی
کچھ خواب میں گُزر گئی، باقی خیال میں
 

عمر سیف

محفلین
میں لفظ پلکوں سے چن رہا ہوں‘ میں خواب کاغذ پہ بُن رہا ہوں
میں تیری آہٹ بھی سن رہا ہوں میں جانتا ہوں کہ کچھ لکھوں گ​
ا
 

شمشاد

لائبریرین
چُپ نہ رہتے بیان ہوجاتے
تجھ سے گر بدگُمان ہوجاتے
ضبظِ عنم نے بچالیا ورنہ
ہم کوئی داستان ہوجاتے
تُونے دیکھا نہیں پلٹ کے ہمیں
ورنہ ہم مہربان ہوجاتے
تیرے قصّے میں ہم بھلا خُود سے
کس لیے بدگُمان ہوجاتے
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی
ورنہ ہم آسمان ہوجاتے
(نوشی گیلانی)​
 

شمشاد

لائبریرین
چلنے کا حوصلہ نہیں اور رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھکو نڈھال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فاصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
(پروین شاکر)
 

تیشہ

محفلین
سرخ جلتا ہوا سورج نہ چمکدار ستارہ دیکھیں
ہم تو ایسے ہیں کہ آنکھوں کا اشارہ دیکھیں

کل بھرے شہر میں یہ سوچ کے ٹھوکر کھائی
کون دیتا ہے ہمیں آکے سہارہ دیکھیں

دیکھ مت پوچھ لکیروں کے معافی ہم سے
ہم تو وہ ہیں جو لکیریں نہ ستارہ دیکھیں

بس یہی سوچ کے شہروں سے نکل آئے ہیں
کیسے ہوتا ہے تمھیں کھو کے گزارہ دیکھیں

اب تو ہر موڑ پہ ہمراز بدل جاتے ہیں
کس کو فرصت ہے کہاں کون پکارا دیکھیں

یہ تو اعجاز تصور کا ہے تیرے ورنہ
ہم تو ایسے ہیں کہ ہر موڑ سہارا دیکھیں

لوگ اس تاک میں برسوں سے لگے ہیں اختر
اس کی خاطر ہمیں کیا کیا ہے گوارہ دیکھیں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
خواب
سفر آساں لگتا ہے
دل برباد تجھ کو یہ سفر آساں لگتا تھا
اُدھر تو سوچتا تھا اور ادھر
آنکھوں سے کوئی خواب چہرہ آن لگتا تھا
مگر خوابوں میں رہنا
خواب جیسی بے حقیقت خوشبوں کو صحرامیں رہنا ہے
کناروں سے جوہو محروم
اس دریا میں رہنا ہے
دل برباد ہم نے تو کہا تھا
یہ سفر آسان لگتا ہے
مگر آنکھیں بدن سے چھین لیتا ہے
(نوشی گیلانی)​
 

سارہ خان

محفلین
ہنستے چہرے بھی دھوکہ ہیں، روتی آنکھیں بھی فریب
لوگ نہ جانے دل میں کیا کیا بھید چھپائے پھرتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین

وہ اک دوست جو مجھکو خدا سا لگتا ہے
بہت قریب ہے ، پھر بھی جدا سا لگتا ہے

زمانے بھر کی جفاؤں کا جب حساب کیا
بے وفا دوست مجھے ، باوفا سا لگتا ہے

ناخدا ساتھ ہے ، پھر بھی ہمیں ساحل نہ ملا
نصیب ہم سے ہمارا ، خفا سا لگتا ہے

زندگی ‌ڈوبی ہو جب غم کے سیاہ خانوں میں
ایک دشمن بھی ہمیں ، رہنما سا لگتا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
دل لگانے کی ابتدا کردی
تیر کھانے کی ابتدا کردی
اب اکیلے ہی بیٹھ کر رونا
ہم نے جانے کی ابتدا کر دی
یاد آنے کی انتہا کر کے
ہم نے بھو ل جانے کی ابتدا کر دی
کرکے ترک وفا مجھے اس نے
آزمانے کی ابتدا کردی
آنسووں کے دئیے بجھانے کو
مسکرانے کی ابتدا کر دی
دل کی بستی کو چھوڑ کر اس نے
دل دکھانے کی ابتدا کر دی
کر کے انکار تیری چاہت سے
ہوش آنے کی ابتدا کر دی
ہم نے فتح کا تاج دے کر بتول
مات کھانے کی ابتدا کر دی
(فاخرہ بتول)​
 

شمشاد

لائبریرین
موت سے مُکر جائیں
زندگی سے ڈر جائیں
ہجر کے سمندر کو
آؤ پار کر جائیں
راستے یہ کہتے ہیں
اب تو اپنے گھر جائیں
اِک ذرا سی مُہلت ہو
دل کی بات کر جائیں
شہرِ عشق سے آخر
کیسے معتبر جائیں
وہ پلٹ کے دیکھے تو
رنگ سے بکھِر جائیں
(نوشی گیلانی)​
 

ظفری

لائبریرین

جاہل سے قیادت کی امید نہیں‌ کرتے
ہم آج کے میروں کی تلقید نہیں‌ کرتے

حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرہِ قائد کی تائید نہیں کرتے

تنقیص و تعریض کے پیمانے بناؤ کچھ
بے وجہ کسی شے کی تردید ‌نہیں کرتے

دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطاؤں پر
ہم خود کو بھی لیکن تاکید نہیں کرتے

مصروف زمانہ ہے ، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے

بھولے سے کہیں ہم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہم اس ڈر سے تنقید نہیں کرتے

ہر دور کے رنگوں میں ڈھالا ہے طبعیت کو
یہ کس نے کہا ہے کہ ہم تجدید نہیں کرتے

ہمسائے پریشاں ہو تو کیسی خوشی عابد
جب شہر میں ماتم ہو ، ہم عید نہیں کرتے

(عرفان عابد)​
 

شمشاد

لائبریرین
شام کو صبح چمن یاد آئی
کس کی خوشبو بدن یاد آئی

جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا
تیرے گیسو کی شکن یاد آئی

یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی فن یاد آئی

چاند جب دور افق پر ڈوبا
تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی

دن شعاعوں سے الجھتا گزرا
رات آئی تو کرن یاد آئی
(احمد ندیم قاسمی)​
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب شمشاد بھائی ۔۔ آپ نے احمد ندیم قاسمی کی بہت ہی خوبصورت غزل یہاں شیئر کی ہے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top