وہ سامنے بھی آئے تو دیکھا نہ کر اسے
گر وہ بچھڑ بھی جائے تو سوچا نہ کر اسے
اک بار جو گیا سو گیا بھول جا اسے
وہ گم شدہ خیال ہے پیدا نہ کر اسے
اب اس کی بات خالی ہے معنی سے اے منیر
کہنے دے جو وہ کہتا ہے روکا نہ کر اسے
(منیر نیازی)
یونہی بے یقیں ،یونہی بے نشاں میری آدھی عمر گذر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائیگاں میری آدھی عمر گذر گئی
کبھی پا لیا،کبھی کھو دیا،کبھی ہنس لیا،کبھی رو دیا
بڑی مختصر ہی یہ داستاں،میری آدھی عمر گذر گئی
اک خیال خام میں مسحور کر رکھا مجھے
خود پرستی نے جہاں سے دور کر رکھا مجھے
بے سبب تھا اس جگہ پر وہ قیام سرسری
پر تھکن نے اس جگہ مجبور کر رکھا مجھے
(منیر نیازی)
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
(گلزار)
فراق
وہ شب جس کو تم نے گلے سے لگا کر
مقدس لبوں کی حسیں لو ریوں میں
سُلایا تھا سینے پہ ہر روز
لمبی کہا نی سنا کر
وہ شب جس کی عادت بگاڑی تھی تم نے
وہ شب آج بستر پہ اوندھی پڑی رورہی ہے
(گلزار)
کبھی تو چونک کے دیکھے کو ئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے
کوئی طلسمی صفت تھی جو اُس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دِکھے
(گلزار)
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر بولتے ہیں سناٹے
رات کاٹے کو ئی کدھر تنہا
ڈُوبنے والے پار جا اُترے
نقشِ پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر، تنہا
(گلزار)
تنکا تنکا کانٹے توڑے ، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہو تی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
(گلزار)
میں تو اب جارہا ہُوں دُنیا سے
اُس گھڑی مجھ کو یاد کرلینا
جب تمہارا کوئی بچہ تم سے
پیار مانگے، یہ تم جتا نہ سکو
جب تمہارا کوئی بچہ تم سے
ضد کرے اور تم منا نہ سکو
جب تمہارا کوئی بچہ تم سے
چیز مانگے، اور تم دلا نہ سکو
اُس کو دھیرے سے گود میں لے کر
اور پھر پیار پپّی ( بوسہ) کرکے
سوچنا، مجھ پہ کیا گزرتی تھی
جس گھڑی تم کبھی مچلتے تھے
اِک کھلونے کو دیکھ کر بیٹا
اور میں تم کو گود میں لے کر
اپنے سینے سے خوب چمٹا کر
اور پھر پیار سے پپّی ( بوسہ) کرکے
تم سے کہتا تھا آج رہنے دو
کل دِلا دیں گے، آج رہنے دو
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی لاکھ سمندر پی جائے
کوئی لاکھ ستارے چھو آئے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے
کوئی پھِر خالی ہو جاتا ہے
کوئی لمحے بھر کو آتا ہے
کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے
کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے
کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے
کتاب کو بھی خبر ہوتی ہے
اسے کون پڑھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل باب چھپا جاتی ہے
عورت کو بھی خبر ہوتی ہے
اسے کون دیکھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل آپ چھپا رہی ہے
(منیر نیازی)