"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
زبردست سارہ۔
----------------
گُریز پا ہے جو مجھ سے اُسی کے پاس بہت ہوں
میں اپنے وعدے پہ قائم ہوں اور اُداس بہت ہوں

یہ قید وہ ہے کہ زنجیر بھی نظر نہیں آتی
یہ پیرہن ہے کچھ ایسا کہ بے لباس بہت ہوں

نہیں شریک ِ سفر وہ مگر ملال بہت ہے
کہ جس مقام پہ بھی ہوں میں اُس کی آس بہت ہوں

خموش اس لیئے رہتا ہوں میرے سامنے تُو ہے
میں کم سخن سہی لیکن نظر شناس بہت ہوں

کٹا ہے وقت فقط ، زندگی نہیں کہ ظفر میں
طلب سے اور تغافل سے روشناس بہت ہوں​
 

ماوراء

محفلین
جو اس نے مجھ کو نہیں بھلایا تو رو دیا میں
عجیب ہوں میں میری انائیں عجیب سی ہیں

اسے منا کر کسی بہانے سے روٹھ جانا
پھر اس سے کہنا کہ یہ ادائیں عجیب سی ہیں​
 

سارہ خان

محفلین
منافقت۔۔

کچھ کہتے اور کرتے کچھ ھیں
ھم تم سارے لوگ منافق
رشتوں کے حالات کے دشمن
جن باتوں سے دل ڈرتا ھے
ان باتوں کو سوچ کہ خود کہتے ھیں۔۔
یوں ھو گا تو مر جائیں گے۔۔
لیکن چپکے سے جب بِن بتلائے
سچ مچ ایسا ھو جاتا ھے
خواب ہمارا کوئی ادھورا رہ جاتا ھے
کوئی پیارا مٹی اوڑہ کہ سو جاتا ھے
تب بھی ہم تم
آنکھوں سے کچھ خون بہا کر
افسردہ و ویران سے ھو کر
زندہ پھر بھی رہ جاتے ھیں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
نجانے کون سا آنسو کب کسی سے کیا کہہ دے
ہم اسی خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا سہارا دیکھوں
(پروین شاکر)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ گھر بار نہ کوئی ٹھکانہ خانہ بدوش ہیں
اپنا کام ہے چلتے جانا خانہ بدوش ہیں

چاند اور سورج ساتھی صدیوں صدیوں کے
دونوں سے رشتہ پرانا خانہ بدوش ہیں

رنگ بدلتے موسم جیسی اپنی ہستی ہے
بارش و دھوپ سے کیا گھبرانا خانہ بدوش ہیں

اپنے لیے ہیں دونوں برابر اے دینا والو
کیا بُت خانہ کیا مے خانہ خانہ بدوش ہیں
(سعید راہی)
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے کہا کہ یار تمہیں کیا ہوا یہ
اس نے کہا کہ عمرِ رواں کی عطا ہے یہ
(حمایت علی شاعر)
 

علمدار

محفلین
اے محبت!​

اے محبت! تیری قسمت کے تجھے مفت ملے
ہم سے ناداں جو کمالات کِیا کرتے تھے
خشک مٹی کو عمارات کِیا کرتے تھے
اے محبت! یہ تیرا بخت کہ تجھے بِن مول ملے
ہم سے انمول جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے
اے محبت میری! ہم تیرے مجرم ٹھہرے
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم، جو سو بات کی اک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم جو بگڑے تو کئی کام بنا کرتے تھے
اور اب تیری سخاوت کے گھنے سائے میں
خلقت شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے، مقصوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت! ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھ کو آیندہ بھی عشاق کا خوں پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے تجھ کو مگر جینا ہے
 

عمر سیف

محفلین
علمدار بہت خوب۔

کیا بتاؤں کس طرح اب کٹ رہی ہے زندگی
میری ہر ہر سانس اک تلوار ہے تیرے بغیر
 

ماوراء

محفلین
تم سے اپنا آپ پیارا کون کرتا ہے
مرض دینے لگے تسکین تو چارہ کون کرتا ہے

کئی گمنام خوشیاں پھوٹتی ہیں رات بھر دل میں
نہ جانے خواب میں آ کر اشارہ کون کرتا ہے

کبھی سوچا نہیں تم نے کہ تم کو اک مدت سے
سمے کی اوٹ میں چھپ کر پکارا کون کرتا ہے

ابھی تو مل کر چلتے ہیں سمندر کی مسافت میں
پھر اُس کے بعد دیکھیں گے کنارا کون کرتا ہے

گھٹائیں کون لاتا ہے میری آنکھوں کے موسم میں
پھر اُس کے بعد بارش کا نظارہ کون کرتا ہے​
 

عمر سیف

محفلین
خوب۔

دِل کے جذبات کون سمجھے گا
میرے حالات کون سمجھے گا

جو رُلاتے ہیں خون کے آنسو
ایسے نغمات کون سمجھے گا

غور کرو روشنی کے شیدائی
بحرِ ظلمات کون سمجھے گا

اب تو خلش لوٹ جا تو بھی
ڈھل گئی رات کون سمجھے گا​
 

علمدار

محفلین
ضبط اور شمشاد بھائی! بہت شکریہ پسندیدگی کا۔
ضبط اور ماورا! آپ کا انتخاب بھی بہت پسند آیا۔
 

علمدار

محفلین
سمجھوتہ
خوش حال سے تم بھی لگتے ہو
یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں
خوش ہم بھی نہیں، خوش تم بھی نہیں

تم اپنی خودی کے پہرے میں
بس دامِ غرور میں جکڑے ہوئے
ہم اپنے زعم کے نرغے میں
اَنا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے

اک مدّت سے غلطاں پیچاں
تم ربط و گریز کے دھاروں میں
ہم اپنے آپ سے اُلجھے ہوئے
پچھتاوے کے انگاروں میں

محصورِ تلاطم آج بھی ہو
گو تم نے کنارے ڈھونڈ لیے
طوفان سے سنبھلے ہم بھی نہیں
کہنے کو سہارے ڈھونڈ لیے

خاموش سے تم ہم مُہر بہ لب
جُگ بِیت گئے ٹُک بات کیے
سنو کھیل ادھورا چھوڑتے ہیں
بِنا چال چلے بِنا مات کیے

جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
چلو توڑو قسم اقرار کریں
ہم دونوں جھک بھی سکتے ہیں

(خلیل اللہ فاروقی)​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top