اے محبت!
اے محبت! تیری قسمت کے تجھے مفت ملے
ہم سے ناداں جو کمالات کِیا کرتے تھے
خشک مٹی کو عمارات کِیا کرتے تھے
اے محبت! یہ تیرا بخت کہ تجھے بِن مول ملے
ہم سے انمول جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور جو بھونچال اُٹھا رکھتے تھے
اے محبت میری! ہم تیرے مجرم ٹھہرے
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم، جو سو بات کی اک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم جو بگڑے تو کئی کام بنا کرتے تھے
اور اب تیری سخاوت کے گھنے سائے میں
خلقت شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے، مقصوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت! ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھ کو آیندہ بھی عشاق کا خوں پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے تجھ کو مگر جینا ہے