میری پہلی غزل "محفل" کی نذر

مغزل

محفلین
محترم جناب فرّخ صاحب۔

آداب وسلامِ مسنون

لیلائے غزل کی زلفیں سنوارنے والے مشّاطانِ سخن میں صمیمِ قلب سے خیرمقدم
سچ کہوں تو یہ غزل کان میں سرگوشی کرتی ہے بھئی میں پہلوٹی کی نہیں ہوں
مجھ سے پہلے بھی بہت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر کیف آپ کی غزل نظر نواز ہوئی پڑھ کر جی خوش ہوگیا ۔۔ غزل کہیں سے
نہیں لگتی کہ پہلی ہے مکمّل مشق کا عملی نمونہ ہے۔۔ یا تو مجھے غلط فہمی ہوئی
ہے کہ میں یہ سمجھا کہ غزل پہلی ہے۔۔ خیر غزل پہلی ہے یا دوسری تیسری ۔۔غزل
غزل ہی ہے۔۔ داخلی اور خارجی کیفیات کی آئینہ دار۔۔ میری جانب سے مبارکباد اور
داد ۔۔۔۔ گرقبول افتد زہے عزو شرف۔۔۔ اللہ کرے حُرمتِ قرطاس وقلم اور۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دو باتیں۔: جان کی امان پائوں تو :
یہ کہ مطلع میں ایطا جلی موجود ہے۔

میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
جہالت ہی سیادت ہوگئی ہے

یہاں قافیے میں حرفِ روی "ی" ہے اور حروفِ ردف" ا دت "ہیں۔
جبکہ آپ کا دوسرا شعر اگر دیکھا جائے تو:

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

یہاں حرفِ روی " ہ " اور ردف" ادت " ہے۔۔

ایک اور شعر میں :

جسے سمجھے تھے سعئ رائیگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

یہاں سعی ءِ ۔۔ میں ایک رکن بڑھ گیا ہے
عین بروزنِ غین پڑھ کر دیکھیئے ۔۔
(یہاں سیّے آرہا ہے)
(تھے ہٹانے سے وزن پورا ہوگا)

آپ اسے دوبارہ دیکھ لیجئے گا،

بحیثیتِ مجموعی غزل کے باقی سبھی اشعار آپ کی سخن وری میں " سخنور" ہونے کی دلیل ہیں۔
امید ہے میری کوئی بات آپ کو ناگوار گزری بھی تو کمال شفقت سے درگزر فرمائیے گا۔
طالبِ دعا
م۔م۔مغل
کراچی پاکستان
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ محمود مغل صاحب - لیکن جو آپ نے کہا میرے اوپر سے گزر گیا اگر وارث صاحب کچھ مزید رہ نمائی کرسکیں تو عنائت ہوگی -
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب یاد آوری کیلیئے۔

میرے نزدیک قافیے صحیح ہیں اور ان میں شائگاں کی کوئی غلطی نہیں ہے نا جلی نا خفی، قیادت، سیادت، شہادت، عبادت وغیرہ قافیے صحیح ہیں، ان میں 'الف' روی ہے نا کہ 'ی'۔

'سعی' والے شعر میں 'تھے' آپ نے پھر سے بڑھا دیا، اس میں میری رائے وہی تھی جو مغل صاحب کی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ایطا کی طرف میرا خیال نہیں گیا تھا۔ میں مغل صاحب سے اس سلسلے میں متفق ہوں کہ یہاں ایطا ہے۔ حروف ردف یادت مانے جا سکتے ہیں مطلع کی سورت میں جب کہ دوسرے اشعار میں محض ادت ہیں۔
لیکن سعیِ والے شعر میں میں مغل اور وارث دونوں صاحبان سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سعی میں ع اور ی دونوں ساکن ہیں۔ مغل نے بھی اسے ’سَ عِی عے‘ بر وزن فعولن تقطیع کیا ہے۔ یہ تلفظ غلط ہے میرے خیال میں۔ سعی در اصل بر وزن فعل، جیسے "سحر‘ یا’سرد‘ باندھا جانا چاہئے۔ سحر بمعنی جادو۔۔۔ صبح کے معنوں میں سَحَر نہیں۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ فرخ صاحب یاد آوری کیلیئے۔

میرے نزدیک قافیے صحیح ہیں اور ان میں شائگاں کی کوئی غلطی نہیں ہے نا جلی نا خفی، قیادت، سیادت، شہادت، عبادت وغیرہ قافیے صحیح ہیں، ان میں 'الف' روی ہے نا کہ 'ی'۔

'سعی' والے شعر میں 'تھے' آپ نے پھر سے بڑھا دیا، اس میں میری رائے وہی تھی جو مغل صاحب کی ہے۔

آداب وارث صاحب
آپ سے شرفِ کلام کا شاید پہلا موقع ہے اس لئے میں خواستگار ہوں کہ
میر ی کم علمی و کج فہمی کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ مجھ پر سہل انداز
میں واضح فرما دیجئے کہ مطلع میں ایطا شائیگاں کیسے نہیں ہے ، اس ضمن میں
آپ کاممنون و متشکر رہوں گا۔ میرے ناقص علم کے مطابق مطلع میں ایطا جلی موجود ہے۔

میسّر اب ق یادت ہو گئی ہے
جہالت ہی س یادت ہوگئی ہے
"ق" پہلے مصرع میں اور "س" دوسرے مصرع(* حاشیہ) میں قافیے کا حرف ہے ۔۔۔اور " یادت" ردیف میں جا جڑتا ہے۔ (* یہاں مصرع بطور امالہ استعمال کیا ہے)
جب کہ دوسرے شعر میں
" دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! ش ہ ادت ہوگئی ہے
" ہ " قافیہ کا حرف ہے اور " ادت" ردیف کا حصّہ بن رہاہے۔

امید ہے آپ اس ضمن میں وضاحت کیجئے گا۔
نیاز مند
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
لیکن سعیِ والے شعر میں میں مغل اور وارث دونوں صاحبان سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ سعی میں ع اور ی دونوں ساکن ہیں۔ مغل نے بھی اسے ’سَ عِی عے‘ بر وزن فعولن تقطیع کیا ہے۔ یہ تلفظ غلط ہے میرے خیال میں۔ سعی در اصل بر وزن فعل، جیسے "سحر‘ یا’سرد‘ باندھا جانا چاہئے۔ سحر بمعنی جادو۔۔۔ صبح کے معنوں میں سَحَر نہیں۔

جناب الف عین صاحب//
یقیناّ اختلاف کی صورت موجود ہے ۔۔ بہر کیف میں اپنی نالائقی پر شرمندہ ہوں ۔
اور آپ کی بات سے رجوع کرتا ہوں " سعی ء " میں "ی" پڑھی نہیں جائے گی ۔۔ یہ لفظ " درد" ، "نفی" کے وزن پر ہے ۔
میں نے جو تقطیع کی تھی وہ غلط تھی۔ جس پر میں آپ کی بات سے مکمل اتّفاق کرتاہوں۔۔۔ یہاں " ی" یائے خفی کے طور ہے۔
جناب فرّخ صاحب اس بحث میں آپ کو یقیناحزیمت ہوئی ہوگی جس کیلئے میں آپ سے دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔

الف عین صاحب میں صمیمِ قلب سے ممنون و متشکّر ہوں کہ آپ نے مجھے ایک بڑی غلطی سے بچا لیا۔

نیازمشرب
م۔م۔مغل
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں اپنی نظر کی بات کروں گا سخنور صاحب بہت اچھی غزل ہے آپ کی اگر تو یہ پہلی غزل ہے تو پھر تو بہت ہی زیادہ کمال کر دیا ہے آپ نے کمال تو ہے ہی پہلی غزل ہو یا آخری باقی اساتذہ کی باتوں کو غور سے پڑھتے رہے بہت کام کی باتیں ہیں یہاں ماشاءاللہ سے بہت اچھے اچھے اساتذہ ہیں جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور انشاءاللہ ملتا رہے گا شاعری کا سفر جاری رکھے گا امید ہے آپ سے اور اچھی اچھی غزلیں پڑھنے کو ملے گی شکریہ

اور میں اساتذہ سے درخواست کروں گا مہربانی فرما کر آسان الفاظ میں تشریخ کرئے کیوں کہ یہاں میرے جیسے ممبر بھی آتے ہیں شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین


جناب الف عین صاحب//
یقیناّ اختلاف کی صورت موجود ہے ۔۔ بہر کیف میں اپنی نالائقی پر شرمندہ ہوں ۔
اور آپ کی بات سے رجوع کرتا ہوں " سعی ء " میں "ی" پڑھی نہیں جائے گی ۔۔ یہ لفظ " درد" ، "نفی" کے وزن پر ہے ۔
میں نے جو تقطیع کی تھی وہ غلط تھی۔ جس پر میں آپ کی بات سے مکمل اتّفاق کرتاہوں۔۔۔ یہاں " ی" یائے خفی کے طور ہے۔
جناب فرّخ صاحب اس بحث میں آپ کو یقیناحزیمت ہوئی ہوگی جس کیلئے میں آپ سے دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔

الف عین صاحب میں صمیمِ قلب سے ممنون و متشکّر ہوں کہ آپ نے مجھے ایک بڑی غلطی سے بچا لیا۔

نیازمشرب
م۔م۔مغل

قبلہ حزیمت کیسی مجھے تو خوشی ہورہی ہے کہ میری غزل پر بحث ہو رہی ہے - :)
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ;)
 

محمد وارث

لائبریرین
آداب وارث صاحب
آپ سے شرفِ کلام کا شاید پہلا موقع ہے اس لئے میں خواستگار ہوں کہ
میر ی کم علمی و کج فہمی کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ مجھ پر سہل انداز
میں واضح فرما دیجئے کہ مطلع میں ایطا شائیگاں کیسے نہیں ہے ، اس ضمن میں
آپ کاممنون و متشکر رہوں گا۔ میرے ناقص علم کے مطابق مطلع میں ایطا جلی موجود ہے۔

میسّر اب ق یادت ہو گئی ہے
جہالت ہی س یادت ہوگئی ہے
"ق" پہلے مصرع میں اور "س" دوسرے مصرع(* حاشیہ) میں قافیے کا حرف ہے ۔۔۔اور " یادت" ردیف میں جا جڑتا ہے۔ (* یہاں مصرع بطور امالہ استعمال کیا ہے)
جب کہ دوسرے شعر میں
" دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! ش ہ ادت ہوگئی ہے
" ہ " قافیہ کا حرف ہے اور " ادت" ردیف کا حصّہ بن رہاہے۔

امید ہے آپ اس ضمن میں وضاحت کیجئے گا۔
نیاز مند
م۔م۔مغل


شکریہ آپ کا مغل صاحب محبت نامے کیلیئے، ویسے مجھے آپ سے شرفِ ہم کلامی حاصل رہی ہے فارسی اشعار کے سلسلے میں :) خیر،

ایک تصیح یہ کہ الفاظ "یادت" یا "ادت" ہر گز بھی ردیف کا حصہ نہیں ہیں، ردیف تو دور کی بات یہ الفاظ تو ردف بھی نہیں ہیں۔

اس غزل کی ردیف 'ہو گئی ہے" اور قافیہ تو معلوم ہی ہیں، دراصل قافیہ کے نو 9 حصے ہوتے ہیں، اس میں روی کا اعتبار ہے اور باقی آٹھ میں سے کسی کو لانا یا نہ لانا شاعر کا اختیار ہے۔ روی سے پہلے قافیے کے چار حرف ہوتے ہیں جنہیں تاسیس، دخیل، ردف اور قید کہتے ہیں جب کہ روی کے بعد جو چار حروف ہوتے ہیں انہیں وصل، مزید، خروج اور نائرہ کہتے ہیں لیکن روی کے بعد جو حروف ہوتے ہیں وہ بھی ردیف کی طرح مستقل ہو جاتے ہیں۔

دراصل یہ سارے الفاظ قافیے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور اصل قافیہ صرف اور صرف حرف روی ہے، جیسے غیر مردف غزل یا قطعے میں آخری الف یا کوئی بھی لفظ روی بن کر قافیہ بن جاتا ہے۔

لہذا یہ تو سوال ہی نہیں اٹھتا، جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا، کہ 'ق یادت' اور 'س یادت' میں یادت ردیف کا حصہ بن جاتا ہے، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر حرف روی ی کو مانا جائے تو 'ادت' روی کے بعد والے حروف ہیں اور 'ق' اور 'س' روی سے پہلے والے۔

اب 'ایطا' کو دیکھیئے، یہاں بھی ایک مغالطہ ہے، 'ایطا' کا مطلب ہے تکرار یعنی قافیے میں تکرار، ایطائے جلی وہ تکرار ہے جو نمایاں ہو جیسے 'بدتر' کو 'خوش تر' سے قافیہ کرنا کہ 'تر' کی تکرار کو شاعر نے قافیہ بنا لیا ہے جب کہ صرف 'بد' اور خوش' قافیے نہیں ہیں، یا جیسے 'درد مند' اور 'حاجت مند' کو قافیہ کرنا سو یہ ایطائے جلی ہے، فرخ صاحب کی غزل کے قوافی میں ایسی کوئی تکرار نہیں ہے سو ایطائے جلی نہیں ہے۔ ایطائے خفی وہ ہے کہ جس میں یہ تکرار چھپی ہوئی ہو جیسے 'دانا' اور 'بینا' میں الف کی تکرار، اس غزل میں یہ بھی نہیں ہے (ویسے ایطائے خفی تو اساتذہ کے ہاں بھی عام ہے، اور جلی کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں)۔
 

مغزل

محفلین
میں اساتذہ سے درخواست کروں گا مہربانی فرما کر آسان الفاظ میں تشریخ کرئے کیوں کہ یہاں میرے جیسے ممبر بھی آتے ہیں شکریہ

جنابِ من برادرم خرم شہزاد خرم

(اس بات سے قطع نظر کہ آپ کا تخاطب اساتذہ ہیں )
مجھے یقینا علم ہے کہ آپ ایسے احباب بھی یہاں آتے ہیں۔۔ میں بھی ایک طفلِ مکتب ہی ہوں
اور علم کی جستجو ہی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔۔ بہر کیف آپ کی بات کی بابت عرض ہے کہ
جب ہم کسی کلام کے عیوب (عیب کی جمع) و محاسِن (حسن کی جمع) پر بات کرتے ہیں تو عام بول
چال کے لفظ چاہتے ہوئے بھی استعمال نہیں کرسکتے ہمیں وہی کہنا پڑے گا جو اساتذہ نے لکھّا ہے
اس وضاحت کے باوجود بھی اگر آپ چاہیں تو ایسے الفاظ کی نشاندہی فرمادیا کیجئے ہم مقدور بھر
کوشش کریں گے کہ ایسے الفاظ کے معانی پیش کردیں۔

آپ کی محبتوں اور خلوص کا معترف
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
شکریہ آپ کا مغل صاحب محبت نامے کیلیئے، ویسے مجھے آپ سے شرفِ ہم کلامی حاصل رہی ہے فارسی اشعار کے سلسلے میں :) خیر،

ایک تصیح یہ کہ الفاظ "یادت" یا "ادت" ہر گز بھی ردیف کا حصہ نہیں ہیں، ردیف تو دور کی بات یہ الفاظ تو ردف بھی نہیں ہیں۔

اس غزل کی ردیف 'ہو گئی ہے" اور قافیہ تو معلوم ہی ہیں، دراصل قافیہ کے نو 9 حصے ہوتے ہیں، اس میں روی کا اعتبار ہے اور باقی آٹھ میں سے کسی کو لانا یا نہ لانا شاعر کا اختیار ہے۔ روی سے پہلے قافیے کے چار حرف ہوتے ہیں جنہیں تاسیس، دخیل، ردف اور قید کہتے ہیں جب کہ روی کے بعد جو چار حروف ہوتے ہیں انہیں وصل، مزید، خروج اور نائرہ کہتے ہیں لیکن روی کے بعد جو حروف ہوتے ہیں وہ بھی ردیف کی طرح مستقل ہو جاتے ہیں۔

دراصل یہ سارے الفاظ قافیے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور اصل قافیہ صرف اور صرف حرف روی ہے، جیسے غیر مردف غزل یا قطعے میں آخری الف یا کوئی بھی لفظ روی بن کر قافیہ بن جاتا ہے۔

لہذا یہ تو سوال ہی نہیں اٹھتا، جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا، کہ 'ق یادت' اور 'س یادت' میں یادت ردیف کا حصہ بن جاتا ہے، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر حرف روی ی کو مانا جائے تو 'ادت' روی کے بعد والے حروف ہیں اور 'ق' اور 'س' روی سے پہلے والے۔

اب 'ایطا' کو دیکھیئے، یہاں بھی ایک مغالطہ ہے، 'ایطا' کا مطلب ہے تکرار یعنی قافیے میں تکرار، ایطائے جلی وہ تکرار ہے جو نمایاں ہو جیسے 'بدتر' کو 'خوش تر' سے قافیہ کرنا کہ 'تر' کی تکرار کو شاعر نے قافیہ بنا لیا ہے جب کہ صرف 'بد' اور خوش' قافیے نہیں ہیں، یا جیسے 'درد مند' اور 'حاجت مند' کو قافیہ کرنا سو یہ ایطائے جلی ہے، فرخ صاحب کی غزل کے قوافی میں ایسی کوئی تکرار نہیں ہے سو ایطائے جلی نہیں ہے۔ ایطائے خفی وہ ہے کہ جس میں یہ تکرار چھپی ہوئی ہو جیسے 'دانا' اور 'بینا' میں الف کی تکرار، اس غزل میں یہ بھی نہیں ہے (ویسے ایطائے خفی تو اساتذہ کے ہاں بھی عام ہے، اور جلی کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں)۔

جناب ۔۔ وارث صاحب
آداب

آپ نے اس ضمن میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ، جس کیلیئے میں ممنون و متشکّر ہوں۔
آپ کیا کہتے ہیں مندرجہ ذیل اشعار کے بارے میں:
مرے وجود کا سورج بکھّر گیا ہوتا
تمہاری سمت نہ جاتا کدھر گیا ہوتا
مرے وجود کی آکاس بیل جل جاتی
تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا۔

کیا اس مطلع میں ایطا موجود ہے؟ حسرت و حالی کتب سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہےکہ اس مطلع میں ایطا موجود ہے ،
حسرت و حالی نے بالاتفاق "ایطا" کو عیبِ سخن لکھّا ہے ، ایطا غالب کے ہاں بھی ملے گا تو میر کے ہاں بھی، اقبال کے ہاں بھی ملے گا ،
فیض اور جوش کے ہاں بھی ملے گا اور فراز ہے ہاں بھی ، اس بات سے قطع نظر کہ اساتذہ اور بڑے شعرا کے ہاں بھی یہ عیب موجود ہے
ہم اسے کسی صورت جائز نہیں قرار دے سکتے۔۔، فنّی اعتبار سے ایطا عیب ہی ہے۔ہاں اس بات کی رعایت یقینا لی جاتی رہی ہے کہ
اگر اس عیب کو دور کرنے میں شعر کا حسن برباد ہوتا ہو تو رہنے دیاجائے ۔۔۔۔چلیئے غالب کے ہاں چلتے ہیں۔۔۔۔
دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
علامہ نیاز فتح پوری نے نگار کے سلسلے مالہ وما علیہ میں غالب کے اس مطلع کو بائیس سے زائد اسناد کے ساتھ ایطا قرار دیا
اس واقع پر ایک طویل بحث کا آغاز ہوا بالاتمام نیاز فتح پوری صاحب کے اس تنقیدی مقالے پر اس وقت کے زعمائے ادب نے
سرِ تسلیم خم کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مذکورہ کلام (فرّخ صاحب) کا مطلع اس قید سے آزاد ہے ۔؟ آپ نے قافیہ کی مکمل تعریف پیش کی جسے پڑھ کر میری معلومات
کی تجدید ہوگئی۔۔۔ لیکن ایک چیز اور۔۔۔۔۔ یہ مرکب قافیہ اور مفرد قافیہ کی صحت کو ہم کہاں لیکر جائیں گے۔۔۔۔
امید ہے آپ اس موضوع پر بھی میری ناقص معلومات کی تجدید کیجئے گا،۔

امید ہے میری آپ میری تحریر کے کسی بھی حرف سے یہ خیال کیجئے کہ اس میں میرا لہجہ حفظِ مراتب کے خلاف ہے تو نہ صرف
مجھے مطلّع کیجیئے گا اور کمال شفقت سے اسے درگزر کیجئے گا۔

ارادت کیش
م۔م۔مغل
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین


اب 'ایطا' کو دیکھیئے، یہاں بھی ایک مغالطہ ہے، 'ایطا' کا مطلب ہے تکرار یعنی قافیے میں تکرار، ایطائے جلی وہ تکرار ہے جو نمایاں ہو جیسے 'بدتر' کو 'خوش تر' سے قافیہ کرنا کہ 'تر' کی تکرار کو شاعر نے قافیہ بنا لیا ہے جب کہ صرف 'بد' اور خوش' قافیے نہیں ہیں، یا جیسے 'درد مند' اور 'حاجت مند' کو قافیہ کرنا سو یہ ایطائے جلی ہے، فرخ صاحب کی غزل کے قوافی میں ایسی کوئی تکرار نہیں ہے سو ایطائے جلی نہیں ہے۔ ایطائے خفی وہ ہے کہ جس میں یہ تکرار چھپی ہوئی ہو جیسے 'دانا' اور 'بینا' میں الف کی تکرار، اس غزل میں یہ بھی نہیں ہے (ویسے ایطائے خفی تو اساتذہ کے ہاں بھی عام ہے، اور جلی کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں)۔

وارث صاحب میں نےآپ کی ساری تحریر پڑھی بہت اچھا لگاکچھ کچھ سمجھ بھی آئی ہے کیوں کے ابھی مجھے اس بارے میں پتہ نہیں ہے نا کہ ایطا ، وغیرہ کیا ہوتے ہیں لیکن جو لفظ میں نے سرخ کیےہیں ان کی مجھے اچھی طرح سمجھ آ گی ہے انشاءاللہ میں ایسی غلطی اب نہیں کروں گا
سر کیا اسی طرح گم نام ، بد نام ، بے نام وغیرہ بھی قافے نہیں ہو سکتے نا میں نےٹھیک کہا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین


جنابِ من برادرم خرم شہزاد خرم

(اس بات سے قطع نظر کہ آپ کا تخاطب اساتذہ ہیں )
مجھے یقینا علم ہے کہ آپ ایسے احباب بھی یہاں آتے ہیں۔۔ میں بھی ایک طفلِ مکتب ہی ہوں
اور علم کی جستجو ہی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔۔ بہر کیف آپ کی بات کی بابت عرض ہے کہ
جب ہم کسی کلام کے عیوب (عیب کی جمع) و محاسِن (حسن کی جمع) پر بات کرتے ہیں تو عام بول
چال کے لفظ چاہتے ہوئے بھی استعمال نہیں کرسکتے ہمیں وہی کہنا پڑے گا جو اساتذہ نے لکھّا ہے
اس وضاحت کے باوجود بھی اگر آپ چاہیں تو ایسے الفاظ کی نشاندہی فرمادیا کیجئے ہم مقدور بھر
کوشش کریں گے کہ ایسے الفاظ کے معانی پیش کردیں۔

آپ کی محبتوں اور خلوص کا معترف
م۔م۔مغل


بہت شکریہ م م مغل صاحب ٹھیک ہے میں نشاندہی کر دیا کروں گا ویسے مسئلہ کچھ ایسا بھی ہے نا کہ مجھے ابھی علمِ عروض کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے اس لے کچھ زیادہ ہی مسئلہ ہو تا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
م م مغل صاحب اور وارث صاحب مجھے کچھ کچھ سمجھ تو آ رہی ہے اگر آپ مہربانی فرما کر 'ایطا' کی تھوڑی سی تعاریف لکھ دے تو میرے لیے آسانی ہو جائے گی شکریہ
 

مغزل

محفلین
جناب خرم صاحب۔

آداب

اس ضمن میں وارث صاحب مفصل انداز میں بات کریں گے کہ میرا علم اولاًَ محدود ہے اور دوم یہ کہ ناقص ہے ۔
فی الوقت میں پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی صاحب کی ایک تحریر کی جانب آپ کی توجہ مرکوز کرنا چاہوں گا
میں اس وقت اس بات سے معذور ہوں کہ حالی اور حسرت صاحبان کی کتب سے اقتباسات پیش نہیں کرسکتا کیوں کہ
میں اس وقت اپنے دفتر میں ہوں۔۔۔گوگل پر تلاش کے بعد ایک دوسے فورم "دانشکدہ " سے یہ ربط پیش کررہاہوں۔۔
ملاحظہ کیجئے۔
(فورم اچھا لگا تو میں بھی وہاں اپنا نام اندراج کروا آیا ۔۔۔ بعد میں خبر ہوئی کہ واث صاحب بھی وہاں علم کی روشنی بکھیر رہے ہیں)

علم قافیہ
پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
امید ہے کہ اس تحریر سے آپ خاطر خواہ معلومات حاصل کر لیں گے۔۔۔۔
مزید برآں مجھے امید ہے وارث صاحب اس ضمن میں آپ کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے۔

نیاز مشرب
م۔م۔مغل
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب ۔۔ وارث صاحب
آداب

آپ نے اس ضمن میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ، جس کیلیئے میں ممنون و متشکّر ہوں۔
آپ کیا کہتے ہیں مندرجہ ذیل اشعار کے بارے میں:
مرے وجود کا سورج بکھّر گیا ہوتا
تمہاری سمت نہ جاتا کدھر گیا ہوتا
مرے وجود کی آکاس بیل جل جاتی
تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا۔

کیا اس مطلع میں ایطا موجود ہے؟ حسرت و حالی کتب سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہےکہ اس مطلع میں ایطا موجود ہے ،
حسرت و حالی نے بالاتفاق "ایطا" کو عیبِ سخن لکھّا ہے ، ایطا غالب کے ہاں بھی ملے گا تو میر کے ہاں بھی، اقبال کے ہاں بھی ملے گا ،
فیض اور جوش کے ہاں بھی ملے گا اور فراز ہے ہاں بھی ، اس بات سے قطع نظر کہ اساتذہ اور بڑے شعرا کے ہاں بھی یہ عیب موجود ہے
ہم اسے کسی صورت جائز نہیں قرار دے سکتے۔۔، فنّی اعتبار سے ایطا عیب ہی ہے۔ہاں اس بات کی رعایت یقینا لی جاتی رہی ہے کہ
اگر اس عیب کو دور کرنے میں شعر کا حسن برباد ہوتا ہو تو رہنے دیاجائے ۔۔۔۔چلیئے غالب کے ہاں چلتے ہیں۔۔۔۔
دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
علامہ نیاز فتح پوری نے نگار کے سلسلے مالہ وما علیہ میں غالب کے اس مطلع کو بائیس سے زائد اسناد کے ساتھ ایطا قرار دیا
اس واقع پر ایک طویل بحث کا آغاز ہوا بالاتمام نیاز فتح پوری صاحب کے اس تنقیدی مقالے پر اس وقت کے زعمائے ادب نے
سرِ تسلیم خم کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مذکورہ کلام (فرّخ صاحب) کا مطلع اس قید سے آزاد ہے ۔؟ آپ نے قافیہ کی مکمل تعریف پیش کی جسے پڑھ کر میری معلومات
کی تجدید ہوگئی۔۔۔ لیکن ایک چیز اور۔۔۔۔۔ یہ مرکب قافیہ اور مفرد قافیہ کی صحت کو ہم کہاں لیکر جائیں گے۔۔۔۔
امید ہے آپ اس موضوع پر بھی میری ناقص معلومات کی تجدید کیجئے گا،۔

امید ہے میری آپ میری تحریر کے کسی بھی حرف سے یہ خیال کیجئے کہ اس میں میرا لہجہ حفظِ مراتب کے خلاف ہے تو نہ صرف
مجھے مطلّع کیجیئے گا اور کمال شفقت سے اسے درگزر کیجئے گا۔

ارادت کیش
م۔م۔مغل

شکریہ مغل صاحب اس تفصیلی اور معلوماتی پوسٹ کیلیئے۔

میرے خیال میں آپ کی اس پوسٹ کے بعد کسی مزید بحث کی ضرورت نہیں رہی، کہ جو چیز اساتذہ نے روا رکھی اسے ہم جیسے مبتدیوں کیلیئے نا روا نہیں ہونا چاہیئے۔

ایطائے جلی سے بچنا چاہیئے اور خفی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئیے جیسے کہ اوپر آپ نے غالب کی خوبصورت ترین غزل کا حوالہ دیا، ایسی قدغنوں سے عروض اور دیگر علوم خواہ مخواہ چیستاں بن جاتے ہیں، میں پہلے بھی عروضی رعائیتوں کے حوالے سے عرض کر چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ 'عروضیوں' کی باتیں فقط ان علوم کو مشکل سے مشکل تر کرنے کیلیئے ہیں اور جو باتیں اردو کے موجودہ آہنگ سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں ان کو ان علوم کا حصہ بنا دینا چاہیئے، جیسے اخفا اور اشباع اور 'نہ' اور 'کہ' کا مسئلہ اور اسی طرح 'ایطائے خفی' والی بات۔

جگر مراد آبادی کی ایک خوبصورت بات پر اپنی طرف سے اس بحث کو سمیٹتا ہوں، شعلۂ طور میں ایک غزل میں جگر صاحب نے 'مبارک بادیاں' کا لفظ استعمال کیا ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ "میں جانتا ہوں کہ یہ لفظ غلط بلکہ صریحاً غلط ہے لیکن اسے حضرتِ داغ نے استمعال کیا ہے سو میرے لیئے یہی سند ہے"۔ :)
 

مغزل

محفلین
ایک ربط اور ملاحظہ کیجئے

اس ربط پر بھی آپ کو معلومات میسر ہونگی۔
نیاز مند
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
جناب جناب۔۔۔
میں ابھی آپ ہی کا مراسلہ پڑھ رہا تھا ۔۔ اسی اثنا میں سر پر دھڑام سے کچھ آکر لگا۔۔ ہاتھ کی بورڈ پر تھے تو F5 کا بٹن پریس ہوگیا
حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ آپ کا مراسلہ ایک بار پھر آن وارد ہوا ہے۔۔۔
تفنن برطرف ۔۔ اب چونکہ کہ قصہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے ہم دوبارہ سے فرخ صاحب کی حوصلہ افزائی کیلئے واپس اوپر چلتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گوگل پر تلاش کے بعد ایک دوسے فورم "دانشکدہ " سے یہ ربط پیش کررہاہوں۔۔
ملاحظہ کیجئے۔
(فورم اچھا لگا تو میں بھی وہاں اپنا نام اندراج کروا آیا ۔۔۔ بعد میں خبر ہوئی کہ واث صاحب بھی وہاں علم کی روشنی بکھیر رہے ہیں)

مغل صاحب، دانشکدہ فورم، اردو فورم کے انتہائی معزز رکن پروفیسر سید تفسیر احمد صاحب کا ہے اور وہ اردو محفل پر بھی موڈریٹر ہیں اور یہاں بھی انکی بیش قیمت تحاریر موجود ہیں۔ میں ذاتی طور پر تو دانشکدہ کا رکن نہیں ہوں (کہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا)، لیکن تفسیر صاحب نے شاید میرا ایک مضمون وہاں پوسٹ کر رکھا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
چلو ا وارث نے یہ تو مان ہی لیا ہے کہ یہاں ایطا ہے، خفی ہی سہی۔
اور بھئ ہم تو اپنے سعود کی طرح ابے کھٹ کھٹ والی عروض سے کام لیتے ہیں۔ مذاق بر طرف، مطلب کہ میرا علم قطعی کتابی نہیں ہے اور محض عملی ہے۔ اور والد مرحوم کیوں کہ ہر قسم کے ایطا کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لئے میں بھی اس جھنجھٹ میں نہیں پڑتا کہ یہ خفی ہے یا جلی۔
اس پر یہ بات یاد آئی کہ میں نے ایطا کا لفظ پہلی بار والد سے علی گڑھ میں ہی سنا جب اندور سے ہجرت کر کے کچھ ہی دن ہوئے تھے اور دو ایک نشستوں میں انہوں نے شرکت کی تھی جس میں میرے ساتھ بشیر بدر بھی تھے۔ ان دنوں یعنی 1969 یا 70 میں، بشیر بدر ہر نشست یا مشاعرے میں وہ غزل ضرور سناتے تھے جو ان دنوں علی گڑھ میں بہت مقبول تھی۔
آنکھیں آنسو بھری، پلکیں بوجھل گھنی، جیسے جھیلیں بھی ہوں، نرم سائے بھی ہوں
وہ تو کہیے کہ ون کو ہنسی آ گئی، بچ گئے آج ہم دونتے ڈوبتے
اس بلا ردیف غزل کے محض قوافی ہیں ڈوتے ڈوبتے، سوچتے سوچتے، دیکھتے دیکھتے وغیرہ
اور والد مرحوم نے ان کو فاش غلطی قرار دیا تھا۔
درست تو یہ ہے کہ مجھے یہ تو علم تھا کہ مشترک حروف کا کچھ نام ہے، لیکن ردف یا روی، یہ علم نہ تھا۔ مغل کی بات پڑھ کر میں بھھی ردف لک گیا لیکن اب پتہ چلا کہ یہ روی ہے۔
شکریہ وارث اور مغل ساحب۔
 
Top