فرخ منظور
لائبریرین
ٍفرخ بھائی! سب سے پہلے تو آپ کو مبارکباد کہ آپ نے شاعر ہونے کا باقاعدہ طور پر اعلان کر دیا۔
اب غزل کی بحث کی طرف آتے ہیں۔ میں ایک بار پھر فرخ کا شکریہ کا ادا کروں گا کہ ان کی اس غزل کی وجہ سے اتنے اہم نکات واضح ہوئے جس کی طرف عمومی طور پر ہم دھیان نہیں دیتے۔ اعجاز صاحب، وارث صاحب اور مغل صاحب کی بحث سے بہت سے کنسیپٹ کلیئر ہوئے۔
سعی کی حوالے سے میں بھی اسے فعو کے وزن پر ہی سمجھ رہا تھا مگر اعجاز صاحب کی نشان دہی پر وارث صاحب نے حوالے کے طور پر جو اشعار پیش کیے اس کے بعد تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی اور یہ واضح ہو گیا کہ سعی کا وزن فعو نہیں بلکہ فعل ہے۔
مطلع کے حوالے سے میں اعجاز صاحب سے اتفاق کروں گا کہ ایطا عیبِ سخن ہے اور اس مطلع میں یقینا ایطا موجود ہے شاید ایطائے خفی ہے۔ میرے خیال میں اگر شاعر نے مطلع میں قیادت اور سیادت کے قافیے سلیکٹ کیے ہیں تو اسے باقی قافیے بھی اسی طرح ( عیادت وغیرہ)۔ استعمال کرنے چاہیئں لیکن چونکہ بہت سے لوگوں نے اس سے اجتناب نہیں کیا لہذا ایک مبتدی کیلیے ما فی مشکلہ۔ لیکن یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ عیب ہے
پوری غزل کا مجموعی تاثر میرے نزدیک یہ بنتا ہے کہ اگرچہ پوری غزل وزن میں ہے اشعار بھی مناسب ہیں لیکن کچھ اشعار میں ابلاغ کا مسئلہ ضرور ہے۔
مطلع میں یہ واضح نہیں کہ قیادت جو میسر ہوئی ہے وہ کس طرح جہالت پر مبنی ہے یا جاہل ہے، جہالت سیادت تو ہوئی لیکن کس طرح اس کا سبب کیا تھا۔ یہ اس شعر سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ بس قافیہ پیمائی لگتی ہے۔ دوسرے شعر میں بھی نہ فاعل ہے اور نہ مفعول ۔ کسے دعا دی جاتی تھی اور کس کی شہادت ہوئی؟
پانچویں شعر میں بھی یہ واضح نہیں کیا گیا کہ قدموں کو کہاں جانے کی عادت ہوئی ہے۔ یہ بات دوسرے مصرعے میں ہونی چاہیئے تھی۔
مرے قدموں کو عادت ہو گئی ہے۔
کس چیز کی؟
ایک اور بات کہ فرخ صاحب آج کا دور تو جدید غزل کا ہے نئی علامتیں استعمال کریں یا انہیں جدید انداز میں پیش کریں۔ امید ہے آئندہ آپ کی غزلوں میں مزید بہتری آئے گی۔
بہت بہت شکریہ آصف صاحب اتنے سیرِ حاصل تبصرے کے لئے۔