میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
بعینہ وہی حالات اس وقت موجودہ مسلمان حکمرانوں کے ہیں، اور بُش اور ٹونی ہلاکو خان بن کر ان کے سروں پر کھڑے ہیں لیکن یہ غافل اللہ کی رسی کو دراز ہونے کا موقع دیئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بہت اچھااقتباس پیش کیاہے آپ نے سسٹرحجاب،واقعی پڑھنے سے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ ہلاکوخان ایک قاتل ہی نہیں تھابلکہ سوچ وسمجھ بھی رکھتاتھا۔

والسلام
جاویداقبال
 

شمشاد

لائبریرین
ہلاکو خان سوچ سمجھ رکھتا تھا یا نہیں لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ وہ قہرخداوندی تھا جو اس وقت کے مسلمانوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ اور وہی حالات اب پیدا ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ڈرنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے کہ اسی قسم کا عذاب پھر نہ نازل ہو جائے۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:e867f8af1f]ایک خواہش۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جب میں مر جاؤں تو مجھے جہاں چاہو دفن کرنا کسی ہرے بھرے میدان میں جہاں دور دور تک سبزہ مخمل کی طرح بچھا ہو جہاں خود رو پھول گھاس سے سر نکالے جھومتے ہوں یا کسی ویرانے میں جہاں کھنڈر ہوں بگولے بھی اُڑتے ہوں جہاں خزاں اور بہار میں فرق نہ ہو مجھے کسی پہاڑ کی چوٹی پر درختوں کے جُھنڈ میں دفن کر دینا جہاں برف میری قبر پر سفید چادر چڑھاتی رہے جب سورج چمکے تو کلیاں کِھل کر پھول بن کر مسکرائیں معطر ہوائیں خوشبو بکھیرتی رہیں۔
دوستو ! مجھے اپنے دلوں میں دفن کر دینا۔
[/align:e867f8af1f]
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:6803a8c0ca]ایک خواہش۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جب میں مر جاؤں تو مجھے جہاں چاہو دفن کرنا کسی ہرے بھرے میدان میں جہاں دور دور تک سبزہ مخمل کی طرح بچھا ہو جہاں خود رو پھول گھاس سے سر نکالے جھومتے ہوں یا کسی ویرانے میں جہاں کھنڈر ہوں بگولے بھی اُڑتے ہوں جہاں خزاں اور بہار میں فرق نہ ہو مجھے کسی پہاڑ کی چوٹی پر درختوں کے جُھنڈ میں دفن کر دینا جہاں برف میری قبر پر سفید چادر چڑھاتی رہے جب سورج چمکے تو کلیاں کِھل کر پھول بن کر مسکرائیں معطر ہوائیں خوشبو بکھیرتی رہیں۔
دوستو ! مجھے اپنے دلوں میں دفن کر دینا۔
[/align:6803a8c0ca]
اچھا ہے۔
آپ نے خود لکھا ہے؟
 

عمر سیف

محفلین
نمازِ کامل

“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں‌ پڑتے۔ اس میں‌ روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس
 

پاکستانی

محفلین
ضبط نے کہا:
نمازِ کامل

“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں‌ پڑتے۔ اس میں‌ روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس

خوب، زبردست، سمجھنے والی بات ہے اگر سمجھ آ جائے تو
 

حجاب

محفلین
ضبط نے کہا:
نمازِ کامل

“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں‌ پڑتے۔ اس میں‌ روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس

اچھا ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
پاکستانی نے کہا:
ضبط نے کہا:
نمازِ کامل

“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں‌ پڑتے۔ اس میں‌ روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس

خوب، زبردست، سمجھنے والی بات ہے اگر سمجھ آ جائے تو
شکریہ پاکستانی۔
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
ضبط نے کہا:
نمازِ کامل

“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں‌ پڑتے۔ اس میں‌ روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس

اچھا ہے۔
شکریہ حجاب۔
 

عمر سیف

محفلین
خواجہ حسن بصری(رح) کی تین نصیحتیں

ایک دفعہ مشہور تابعی حسرت سعید بن خبیر(رح) نے خواجہ حسن بصری(رح) سے عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحیت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا۔ تین چیزوں سے ہمیشہ بچتے رہو۔ اوّل یہ کہ بادشاہوں سے میل جول نہ رکھنا اس کا انجام بالعموم اچھا نہیں ہوتا۔ بادشاہ خواہ کتنا ہی شفیق اور مہربان کیوں نہ ہو، اس کو آنکھ بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ دوسری یہ کہ کسی نامحرم عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھنا خواہ ہو رابعہ دوران ہی کیوں نہ ہو اور خواہ تو اسے قرآنِ پاک کی تعلیم ہی کیوں نہ دیتا ہو۔ تیسری یہ کہ مزامیر( آلاتِ موسیقی) سے پرہیز کرنا کیونکہ مزامیر سے دل قابو میں نہیں‌رہتا اور انسان لغزش کھا جاتا ہے۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:14541bb1d7]خوشی اور قناعت۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
اللہ تعالیٰ شاکی ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود آدم کی اولاد ناشکری ہے اور انسان ازل اور ابد تک پھیلے ہوئے خدا کے سامنے خوفزدہ کھڑا بلبلا کر کہتا ہے یا باری تعالیٰ ! تیرے جہاں میں آرزوئیں اتنی دیر سے کیوں پوری ہوتی ہیں ؟
زندگی کے بازار میں ہر خوشی اسمگل ہو کر کیوں آتی ہے اس کا بھاؤ اس قدر تیز کیوں ہوتا ہے کہ ہر خریدار اسے خریدنے سے قاصر نظر آتا ہے ہر خوشی کی قیمت اتنے ڈھیر سارے آنسوؤں سے کیوں ادا کرنا پڑتی ہے۔
آقائے دوجہاں ایسے کیوں ہوتا ہے کہ جب بلاآخر خوشی کا بنڈل ہاتھ میں آتا بھی ہے تو اس بنڈل کو دیکھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ دوکاندار نے اُسے ٹھگ لیا ہے۔جو التجا کی عرضی تجھ تک جاتی ہے اُس پر ارجنٹ لکھا ہوتا ہے اور جو مہر تیرے فرشتے لگاتے ہیں اُس کے چاروں طرف صبر کا دائرہ نظر آتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے باری تعالیٰ ؟؟
جس مال گاڑی میں تو انسانی خوشی کے بنڈل روانہ کرتا ہے وہ صدیوں پہلے چلتی ہے اور قرن بعد پہنچتی ہے لوگ اپنے اپنے نام کی بلٹی نہیں چھڑاتے بلکہ صدیوں پہلے مر کھپ گئی ہوئی کسی قوم کی خوشی کی کھیپ یوں آپس میں بانٹ لیتے ہیں جیسے سیلاب زدگان امدادی فنڈ کے سامنے معذور کھڑے ہوں ۔
خوشی کو قناعت میں بدلنے والے رب سے کوئی کیا کہے جب کہ آج تک اُس نے کبھی انسان کی ایجاد کردہ گھڑی اپنی کلائی پر باندھ کر دیکھی ہی نہیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪(بانو قدسیہ کی کتاب امر بیل سے لیا گیا)٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:14541bb1d7]
 
Top