اچھا ہے۔حجاب نے کہا:[align=right:6803a8c0ca]ایک خواہش۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جب میں مر جاؤں تو مجھے جہاں چاہو دفن کرنا کسی ہرے بھرے میدان میں جہاں دور دور تک سبزہ مخمل کی طرح بچھا ہو جہاں خود رو پھول گھاس سے سر نکالے جھومتے ہوں یا کسی ویرانے میں جہاں کھنڈر ہوں بگولے بھی اُڑتے ہوں جہاں خزاں اور بہار میں فرق نہ ہو مجھے کسی پہاڑ کی چوٹی پر درختوں کے جُھنڈ میں دفن کر دینا جہاں برف میری قبر پر سفید چادر چڑھاتی رہے جب سورج چمکے تو کلیاں کِھل کر پھول بن کر مسکرائیں معطر ہوائیں خوشبو بکھیرتی رہیں۔
دوستو ! مجھے اپنے دلوں میں دفن کر دینا۔[/align:6803a8c0ca]
ضبط نے کہا:نمازِ کامل
“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔
قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس
ضبط نے کہا:نمازِ کامل
“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔
قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس
انشاءاللہ۔شمشاد نے کہا:امید ہے مزید بھی لکھتے رہیں گے۔
شکریہ پاکستانی۔پاکستانی نے کہا:ضبط نے کہا:نمازِ کامل
“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔
قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس
خوب، زبردست، سمجھنے والی بات ہے اگر سمجھ آ جائے تو
شکریہ حجاب۔حجاب نے کہا:ضبط نے کہا:نمازِ کامل
“ کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔
قدرت اللہ شہاب کی “ شہاب نامہ “ سے اقتباس
اچھا ہے۔