تیلے شاہ
محفلین
ايسا کہاں سے لاؤں؟
بہت خوب
شمشاد نے کہا:ايسا کہاں سے لاؤں؟
عيد الفطرکا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے نئے کپڑے خريدنے ميں مصروف تھا، جب بڑوں ميں عيد کيلئے يہ گہما گہمي تھي تو بچے بھي اس خوشي کے موقع سے کیسے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدين سے عيد کے لئے کپڑوں کي خواہش ظاہر کي اور تمام بچوں کي خواہش تکميل بھي کر دي گئي، اب يہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانےلگے، بچے تو پھر بچے ہي ہوتے ہیں، چاہے وہ کسي غريب کے ہوں يا امير کے ، عام شخص کے بچے ہو يا امير المومنین کے، چنانچہ عام بچوں کے نئے نئے کپڑوں کو ديکھ کر انہوں نے بھی اپنی والدہ سے نئے کپڑوں کی فرمائش کی۔ امير المومنين رات کو گھر تشريف لائے تو اہليہ نے بچوں کي خواہش کا ان کے سامنے اظہار کرديا، بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔
امير المومنين خاموش رہے کوئي جواب نہ دیا اور آرام کي غرض سے ليٹ گئے ليکن نيند کہاں آتي يہ نئي پريشاني جو سر پر آپڑي تھي، وہ سوچنے لگے کہ گھر ميں خريدنے کيلئے کچھ بھي نہیں ہے دوسري طرف بچوں کي خواہش تھي اس کو رد کرنا بھي سخت ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن ميں بات آئي کہ بيت المال سے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي لے ليتا ہوں، جس سے بچوں کي خواہش کي تکميل ہوجائے گي اور اگلےمہينے کے راشن کيلئے اللہ تعالي کوئي نہ کوئي انتظام فرماديں گے، يہ سوچ کر ان کو کچھ اطمينان ہوا۔
اگلے دن صبح ہي امير المومنين بيت المال کے ذمہ دار کے پاس تشريف لے گئے اور ان سے حاجت بيان کی کہ مجھے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي دے دو، بيت المال کے ذمہ دار نے جواب ديا امير المومنين اس بات کي کيا ضمانت ہے کہ آپ ايک مہينے تک زندہ رہیں گے اور پورے مہينے اپني ذمہ دارياں سرانجام ديں گے، امير المومنين اس بات کے سامنے لاجواب ہوگئے اور خالي ہاتھ ہي واپس لوٹ آئے اور اہليہ سے سارا قصہ بيان کيا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عيد میں پرانے کپڑے ہي پہن سکیں گے۔
چنانچہ دنيا نے ديکھا کہ عيد کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ليکن امير المو منین کے بچے پرانے کپڑوں میں نماز کيلئے عيدگاہ کي طرف آرہے ہیں، دنيا اس عدل و انصاف اور تقوي و پرہيزگاري کے علم بردار امير المو منين کو حضرت عمر بن عبدلعزيز رحمتہ اللہ کے نام سے جانتي ہے۔
بہت خوب