میری ڈائری کا ایک ورق

تیلے شاہ

محفلین
ايسا کہاں سے لاؤں؟

شمشاد نے کہا:
ايسا کہاں سے لاؤں؟

عيد الفطرکا زمانہ تھا، ہر شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے نئے کپڑے خريدنے ميں مصروف تھا، جب بڑوں ميں عيد کيلئے يہ گہما گہمي تھي تو بچے بھي اس خوشي کے موقع سے کیسے غافل رہتے، چنانچہ تمام بچوں نے اپنے اپنے والدين سے عيد کے لئے کپڑوں کي خواہش ظاہر کي اور تمام بچوں کي خواہش تکميل بھي کر دي گئي، اب يہ بچے اپنے نئے کپڑے اپنے دوستوں کو دکھانےلگے، بچے تو پھر بچے ہي ہوتے ہیں، چاہے وہ کسي غريب کے ہوں يا امير کے ، عام شخص کے بچے ہو يا امير المومنین کے، چنانچہ عام بچوں کے نئے نئے کپڑوں کو ديکھ کر انہوں نے بھی اپنی والدہ سے نئے کپڑوں کی فرمائش کی۔ امير المومنين رات کو گھر تشريف لائے تو اہليہ نے بچوں کي خواہش کا ان کے سامنے اظہار کرديا، بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔
امير المومنين خاموش رہے کوئي جواب نہ دیا اور آرام کي غرض سے ليٹ گئے ليکن نيند کہاں آتي يہ نئي پريشاني جو سر پر آپڑي تھي، وہ سوچنے لگے کہ گھر ميں خريدنے کيلئے کچھ بھي نہیں ہے دوسري طرف بچوں کي خواہش تھي اس کو رد کرنا بھي سخت ناگوار تھا، سوچتے سوچتے ان کے ذہن ميں بات آئي کہ بيت المال سے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي لے ليتا ہوں، جس سے بچوں کي خواہش کي تکميل ہوجائے گي اور اگلےمہينے کے راشن کيلئے اللہ تعالي کوئي نہ کوئي انتظام فرماديں گے، يہ سوچ کر ان کو کچھ اطمينان ہوا۔
اگلے دن صبح ہي امير المومنين بيت المال کے ذمہ دار کے پاس تشريف لے گئے اور ان سے حاجت بيان کی کہ مجھے اگلے مہينے کي تنخواہ پيشگي دے دو، بيت المال کے ذمہ دار نے جواب ديا امير المومنين اس بات کي کيا ضمانت ہے کہ آپ ايک مہينے تک زندہ رہیں گے اور پورے مہينے اپني ذمہ دارياں سرانجام ديں گے، امير المومنين اس بات کے سامنے لاجواب ہوگئے اور خالي ہاتھ ہي واپس لوٹ آئے اور اہليہ سے سارا قصہ بيان کيا اور کہا کہ ہمارے بچے اس عيد میں پرانے کپڑے ہي پہن سکیں گے۔

چنانچہ دنيا نے ديکھا کہ عيد کے دن تمام لوگوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ليکن امير المو منین کے بچے پرانے کپڑوں میں نماز کيلئے عيدگاہ کي طرف آرہے ہیں، دنيا اس عدل و انصاف اور تقوي و پرہيزگاري کے علم بردار امير المو منين کو حضرت عمر بن عبدلعزيز رحمتہ اللہ کے نام سے جانتي ہے۔

بہت خوب
 

ظفری

لائبریرین
شیخ سعدی ایک دفعہ بیگار میں پکڑے گئے اور خندق کھودنے پر لگا دیئے گئے۔ ایک دوست نے دیکھا تو رحم آیا اور فدیہ دے کر ان کو چھڑا لیا ۔ اور اپنے ساتھ حلب میں لائے مذید عنایت سے سو دینار مہر پر اپنی بیٹی کے ساتھ شادی کر دی ۔ لیکن بیوی انتہائی شوخ اور زبان دراز تھی ۔ شیخ سعدی سے ہمیشہ ان بن رہتی تھی ۔

ایک دن بیوی نے طعنہ دیا کہ تم اپنی ہستی بھول گئے کہ تم وہی ہو کہ میرے باپ نے دس دینار دے کر تم کو چھڑایا تھا ۔ شیخ سعدی نے کہا کہ “ ہاں ! ۔۔ دس دینار میں چھڑایا تھا مگر سو دینار کر بدلے پھر گرفتار کروا دیا ۔“
 

شمشاد

لائبریرین
بچے

تصویر کائنات میں رنگ کا ایک باعث یہ بچے بھی ہیں. ان کا اپنا ہی رنگ ہے. اور چھوٹی عمر کے بچوں کی تو کیا ہی بات ہے. یہ مسکرائیں تو کلیاں چٹکنے لگتی ہیں. ہنسیں تو پھول کھلنے لگتے ہیں. بولیں تو جھرنے پھوٹنے لگتے ہیں. یہ پاس ہوں تو دل لبھاتے ہیں. دور ہوں تو یاد آتے ہیں. بچھڑ جائیں تو تڑپاتے ہیں. بلاشبہ انھیں بھی، بدلیوں کی اوٹ سے، جھانکتی ہوئی چاندنی کہا جا سکتا ہے. بلاشبہ انھیں بھی، پھولوں پہ سجی شبنم میں، چمکتی ہوئی کرن کہا جا سکتا ہے. بلاشبہ انھیں بھی، بارش کے بعد نیلے آسمان پہ، ابھرنے والی دھنک کہا جا سکتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
قیمتی مسکراہٹیں

چھوٹے چھوٹے بچے ابھی بات کرنا نہیں سیکھتے لیکن جب ان کی طرف دیکھو اور وہ اگر مسکرا دیں تو کتنے اچھے لگتے ہیں۔

جوانی کی بات یہ ہے کہ جو اچھا لگے وہ مسکرا دے تو

"تمھاری مسکراہٹ کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے" والا معاملہ ہو جاتا ہے۔

جب زندگی میں کھب جاتے ہیں تو مصنوعی مسکراہٹوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

بینک میں جاتے ہیں اور اگر نوٹ نئے لینے ہوں تو کیشیئر کو اپنے بتیس دانت دکھا کر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

ایئر ٹکٹ اگر چانس پر مل رہا ہو تو بہترین مسکراہٹ سے کنفرم ٹکٹ کی التجا کرتے ہیں۔

دفتر میں کوئی ایم۔ این۔ اے یا ایم۔ پی۔ اے آ کر تڑی دینے لگے تو جواب میں مسکراہٹ کی ڈھال ہی کی پناہ لیتے ہیں۔

مسلسل مصنوعی مسکراہٹوں میں زندگی گزار کر مسکراہٹ کے اصل روپ سے نا آشنا ہو جاتے ہیں۔

آخر پھر ایک زمانہ آتا ہے کہ آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ کاروبار سے چھٹی۔ سروس سے ریٹائر۔ دوست کچھ مر کھپ جاتے ہیں اور باقی یا بیمار یا اپنی اپنی بپتا میں الجھے ہوئے دور دور ہوتے جاتے ہیں۔

یادوں کی دنیا کے صحرا میں ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح کھوئے ہوئے جب تلخی بڑھ جاتی ہے تو وہ چھوٹا سا معصوم بچہ جو ابھی بولنا بھی نہ سیکھا تھا اور اس کی مسکراہٹ سے آپ جھوم جاتے تھے اب جوان ہو چکا ہے۔ بچوں والا ہے۔

آپ اپنے کمرے میں بند ہیں۔ دنیا سے تقریباً کٹ چکے ہیں۔ مطلبی لوگ چھوڑ چکے ہیں۔ رشتے داروں کے لیے اب آپ کی کوئی وقعت نہیں۔

تو دروازہ پر دستک ہوتی ہے اور آپ کا وہ بچہ جو اب خود باپ یا ماں بن چکا ہے وہ ایک genuine مسکراہٹ سے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو۔۔۔۔۔

اس مسکراہٹ کا مزہ وہی جان سکتے ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہوں۔ بوڑھے ہو چکے ہوں۔ مطلبی دنیا سے چھٹکارا پا چکے ہوں۔

میری بیٹیوں کو اللہ زندہ سلامت رکھے مجھے اکثر یہ آب حیات ملتا ہے۔ اسی لیے میں لکھ رہا ہوں۔
(مظہر سعید قریشی)
 

شمشاد

لائبریرین
پروانہ اور بھنورا

ایک ان ہونی بات ہو گئی۔ پروانے اور بھنورے کا ٹاکرہ ہوگیا اور آپس میں گپ شپ شروع ہو گئی بھنورا کہنے لگا:

"یار، ہم دونوں کس خوب صورت انداز سے اڑتے ہیں۔ رفتار اور اڑان ایک جیسی ہے۔ میں پھولوں پر لپکتا ہوں۔ تم شمع کے دیوانے ہو۔ دونوں میں ہی بڑی خوبیاں ہیں۔ آؤ، دوستی کر لیں۔ تم پھولوں سے لطف اندوز ہونا میں شمع سے دل بہلاؤں گا۔

پروانہ بولا: "پھول بہت خوب صورت ہیں لیکن مجھے ان سے دلچسپی نہیں۔ لیکن مجبور کرتے ہو تو چلو تمھاری بات مان لیتا ہوں۔"

بھنورا بھوں بھوں کرتا اڑا۔ کبھی اس پھول پر، کبھی اس پھول پر۔ پروانے کو بھی گھسیٹتا چلا گیا۔ آخر تھک گئے تو سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ آرام کرنے لگے۔

شام ہوئی تو پروانے نے بھنورے سے کہا کہ یار دیکھنا شمع جلی ہے یا نہیں۔

بھنورا گیا اور کچھ دیر کے بعد بھوں بھوں کرتا واپس آگیا اور کہنے لگا:

"ہاں، شمع جل گئی ہے۔"

پروانے نے سر اٹھا کر کہا:

"میری تیری دوستی نہیں ہو سکتی۔ تم روشن شمع دیکھ کر زندہ واپس کیسے آ گئے؟"

(مظہر سعید قریشی)
 

ماوراء

محفلین
شمشاد نے کہا:
پروانہ اور بھنورا

ایک ان ہونی بات ہو گئی۔ پروانے اور بھنورے کا ٹاکرہ ہوگیا اور آپس میں گپ شپ شروع ہو گئی بھنورا کہنے لگا:

"یار، ہم دونوں کس خوب صورت انداز سے اڑتے ہیں۔ رفتار اور اڑان ایک جیسی ہے۔ میں پھولوں پر لپکتا ہوں۔ تم شمع کے دیوانے ہو۔ دونوں میں ہی بڑی خوبیاں ہیں۔ آؤ، دوستی کر لیں۔ تم پھولوں سے لطف اندوز ہونا میں شمع سے دل بہلاؤں گا۔

پروانہ بولا: "پھول بہت خوب صورت ہیں لیکن مجھے ان سے دلچسپی نہیں۔ لیکن مجبور کرتے ہو تو چلو تمھاری بات مان لیتا ہوں۔"

بھنورا بھوں بھوں کرتا اڑا۔ کبھی اس پھول پر، کبھی اس پھول پر۔ پروانے کو بھی گھسیٹتا چلا گیا۔ آخر تھک گئے تو سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ آرام کرنے لگے۔

شام ہوئی تو پروانے نے بھنورے سے کہا کہ یار دیکھنا شمع جلی ہے یا نہیں۔

بھنورا گیا اور کچھ دیر کے بعد بھوں بھوں کرتا واپس آگیا اور کہنے لگا:

"ہاں، شمع جل گئی ہے۔"

پروانے نے سر اٹھا کر کہا:

"میری تیری دوستی نہیں ہو سکتی۔ تم روشن شمع دیکھ کر زندہ واپس کیسے آ گئے؟"

(مظہر سعید قریشی)

بہت خوب۔
 

ماوراء

محفلین
شمشاد نے کہا:
قیمتی مسکراہٹیں

چھوٹے چھوٹے بچے ابھی بات کرنا نہیں سیکھتے لیکن جب ان کی طرف دیکھو اور وہ اگر مسکرا دیں تو کتنے اچھے لگتے ہیں۔

جوانی کی بات یہ ہے کہ جو اچھا لگے وہ مسکرا دے تو

"تمھاری مسکراہٹ کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے" والا معاملہ ہو جاتا ہے۔

جب زندگی میں کھب جاتے ہیں تو مصنوعی مسکراہٹوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

بینک میں جاتے ہیں اور اگر نوٹ نئے لینے ہوں تو کیشیئر کو اپنے بتیس دانت دکھا کر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

ایئر ٹکٹ اگر چانس پر مل رہا ہو تو بہترین مسکراہٹ سے کنفرم ٹکٹ کی التجا کرتے ہیں۔

دفتر میں کوئی ایم۔ این۔ اے یا ایم۔ پی۔ اے آ کر تڑی دینے لگے تو جواب میں مسکراہٹ کی ڈھال ہی کی پناہ لیتے ہیں۔

مسلسل مصنوعی مسکراہٹوں میں زندگی گزار کر مسکراہٹ کے اصل روپ سے نا آشنا ہو جاتے ہیں۔

آخر پھر ایک زمانہ آتا ہے کہ آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ کاروبار سے چھٹی۔ سروس سے ریٹائر۔ دوست کچھ مر کھپ جاتے ہیں اور باقی یا بیمار یا اپنی اپنی بپتا میں الجھے ہوئے دور دور ہوتے جاتے ہیں۔

یادوں کی دنیا کے صحرا میں ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح کھوئے ہوئے جب تلخی بڑھ جاتی ہے تو وہ چھوٹا سا معصوم بچہ جو ابھی بولنا بھی نہ سیکھا تھا اور اس کی مسکراہٹ سے آپ جھوم جاتے تھے اب جوان ہو چکا ہے۔ بچوں والا ہے۔

آپ اپنے کمرے میں بند ہیں۔ دنیا سے تقریباً کٹ چکے ہیں۔ مطلبی لوگ چھوڑ چکے ہیں۔ رشتے داروں کے لیے اب آپ کی کوئی وقعت نہیں۔

تو دروازہ پر دستک ہوتی ہے اور آپ کا وہ بچہ جو اب خود باپ یا ماں بن چکا ہے وہ ایک genuine مسکراہٹ سے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو۔۔۔۔۔

اس مسکراہٹ کا مزہ وہی جان سکتے ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہوں۔ بوڑھے ہو چکے ہوں۔ مطلبی دنیا سے چھٹکارا پا چکے ہوں۔

میری بیٹیوں کو اللہ زندہ سلامت رکھے مجھے اکثر یہ آب حیات ملتا ہے۔ اسی لیے میں لکھ رہا ہوں۔
(مظہر سعید قریشی)
زبردست اور درست بھی۔
میں بھی مسکرا دوں۔ :D
 

شمشاد

لائبریرین
پيرس کا شمار يورپ کے قديم ترين شہروں میں ہوتا ہے۔ ازمنہ قديم میں میں جب يہ علاقہ چند دلدلوں اور جزيروں پر مشتمل تھا سيلٹ نسل کے لوگ يہاں آباد ہوئے۔ پيرس کا اولين حوالہ جوليس سيزر کي ايک کتاب میں ملتا ہے وہ لکھتا ہے کہ يہاں پر پارسي نامي قبيلہ آباد تھا۔ جس کے نام پر بعد میں اس نو آباد قصبے کو پيرس کہا جانے لگا۔ دور آيا جوخليفہ ہارون الرشيد کا ہم عصر تھا اور جو اندلس فتح کرنے کے شوق ميں کوہ پيرانيز کے اس پارجا کر مسلمانوں کے ہاتھوں اپني فوج کي گت بنوا کر ٹھنڈا ٹھنڈا واپس آ گيا۔ اس کے بعد کي تاریخ گڈ مڈ ہو جاتي ہے۔ لوئي اور فلپ نام کے درجنوں بادشاہ آئے جس کا سيريل نمبر ہميشہ ذہن سے اتر جاتا ہے ۔آخر میں عظيم نپولين کا دور ہوا۔اس کے بعد چراغوں ميں روشني نہ رہي۔
(پیار کا پہلا شہر)
 

F@rzana

محفلین
شمشاد بھائی‘پیارکا پہلا شہر‘ میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، کچھ کچھ اداس بھی کر دیتی ہے۔

جب میں یہاں نہیں آئی تھی تب سے ہی پسند تھی، مجھے کیا پتہ تھا کہ جس شہر کا تذکرہ اس کتاب میں ہے وہیں میری قسمت بھی لکھی ہوگی، ہے نا عجیب :wink:
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن آپ تو پیرس میں نہیں ہیں، پھر قسمت کیسے بندھ گئی پیرس سے؟؟؟ یا پھر جو میں سوچ رہا ہوں کہیں وہی تو نہیں؟؟؟
 

حجاب

محفلین
[align=right:92d01c45a4]ٹرین اپنی پوری رفتار سے چل رہی تھی۔میں ڈائجسٹ پڑھنے میں مصروف تھا۔مجھے کراچی سے لاہور جانا تھا اور اتنا لمبا سفر کسی کتاب یا رسالے کے بغیر کاٹنا کوئی آسان نہیں ہوتا ۔خاص طور پر ان حالات میں جب آپ اکیلے ہوں لیکن سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی باتوں نے مجھے ڈائجسٹ ایک طرف رکھنے پر مجبور کردیا ۔میں نے جب بولنے والے کی طرف دیکھا تو اُس کی باوقار آواز کی طرح اُس کی شاندار شخصیت سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔غالباً وہ کوئی پروفیسر تھے ۔اُن کے ساتھ بیٹھے افراد اُن کی باتوں کو اس طرح سُن رہے تھے کہ جیسے زندگی میں اُن کے لئے ایسی باتیں بالکل نئی اور انوکھی ہوں ۔پروفیسر صاحب اُنہیں بتا رہے تھے کہ زندگی کیسے گزارنی چاہئیے۔
" جتنی خواہشوں کو سمیٹو گے مایوسی اُتنی ہی کم ہوگی اور خواہشات کا دائرہ جیسے جیسے بڑھاؤ گے اضطراب،بے چینی اور بے سکونی تمہارے دماغ میں مستقل جگہ بنا لے گی یہاں تک کہ تم راتوں کو ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں سکو گے ۔دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔!
خواہشیں کمزور ارادوں کے لوگوں کے لئے بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے لیکن مضبوط ارادوں کے مالک انہیں لگام ڈالنا جانتے ہیں جبکہ کمزور لوگ خود کو خواہشوں کے دھارے پر بہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور خواہشات کا یہ سیلاب اُنہیں جس طرف چاہتا ہے بہا کر لے جاتا ہے۔
میرے خیال میں خوش اور مطمئن رہنے کا آسان ترین راستہ یہی ہے کہ جو ملے اُس پر شُکر ادا کرو اور جو نہیں ملا اُس کے لئے جدوجہد کرتے رہو لیکن اس طرح نہیں کہ خود تمھاری ذات کہیں دفن ہوجائے ۔آپ کو اپنے آپ کو بھی زندہ رکھنا ہے ۔آپ کی ذات پر آپ کے بیوی بچّوں ،دوستوں اور عزیز واقارب سب کا حق ہے،اُنہیں بھی آپ نے ساتھ لے کر چلنا ہے۔اپنی خواہشات کی تکمیل کا جنون تمہیں اپنے عزیزوں سے دور نہ کردے ۔میں دیکھتا ہوں لوگوں کے پاس دوسروں کے لئے تو کیا ،خود اپنی ذات کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔یہ اندھی دوڑ ہے اور بالآخر اس دوڑ کا اختتام ایک بند گلی میں جاکر ہوتا ہے پھر آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ آپ واپسی کا ارادہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اُس وقت آپ کے اعصاب جواب دے چکے ہوتے ہیں۔“میں نے جب یہ باتیں سُنیں تو سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
پروفیسر صاحب بولے۔" دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ کنجوسی سے بچو۔اللہ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے دوسروں کو دو۔تم میں سے بہت کم ہوں گے جو یہ بات جانتے ہیں کہ ہمیں جو رزق ملتا ہے اُس میں حقیقتاً دوسروں کا حصّہ بھی ہوتا ہے بلکہ بہت سارا تو ہمیں ملتا ہی اُن کی توسط سے ہے ۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم کسی ایسی چھوٹی چڑیا سے واقف ہو جسے جنگل میں سب سے کمزور ترین مخلوق سمجھا جاتا ہے ؟؟“
سب لوگوں نے نفی میں سر ہلادیا۔اُن کی آنکھوں میں حیرت بھی تھی کہ پروفیسر صاحب اچانک یہ بات کہاں سے کہاں لے گئے ہیں اور اس سوال کا اللہ کے دیئے ہوئے مال سے دوسروں کو دینے سے کیا تعلق بنتا ہے ؟؟؟؟؟
پروفیسر صاحب تھوڑی دیر کے لئے رُکے اور پھر بولے " ایک بار کسی جنگل میں تین چار برسوں تک بارش نہ ہوئی ۔شدید خشک سالی نے جنگل کو قحط زدہ بنا دیا یہاں تک کے جنگل کے بیشتر جانور علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔جو رہ گئے اُنہیں زندگی بچانا مشکل ہو رہا تھا۔اُن میں جنگل کی وہ کمزور چڑیا بھی شامل تھی۔یہ بے چاری بھی کئی دن سے بھوکی پیاسی تھی ۔اس آس پر کہ شائد کسی درخت سے اُسے کچھ کھانے کو مل جائے ،اُس نے کئی میل کی مسافت طے کرلی لیکن اُسے کہیں کوئی ایسا پیڑ دکھائی نہیں دیا جو اُس کی بھوک اور پیاس کا سامان بنتا ۔اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے رزق کے لئے فریاد کی۔اسی دوران اچانک ایک شیر کی غرّاہٹ سنائی دی اور دوسرے ہی لمحے ایک موٹا تازہ ہرن شیر کے پنجوں میں تھا۔شیر خوب پیٹ بھرنے کے بعد ایک طرف ہوکے بیٹھ گیا۔اب بچے کھچے ہرن کو کھانے کے لئے جنگل کے دیگر جانور جمع تھے۔شیر نے اچانک منہ کھولا اُس کے دانتوں میں پھنسے گوشت کے ریشے اُسے بے چین کر رہے تھے۔
درخت پر بیٹھی چڑیا یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔اچانک اُس نے ایک اڑان بھری اور سیدھی شیر کے منہ پر آکر بیٹھ گئی۔اب وہ اُس کے دانتوں سے ریشے نکالتی اور کھاتی جاتی شیر کو چڑیا کا یہ عمل انتہائی راحت پہنچارہا تھا۔یہاں تک کہ چڑیا پوری طرح سیر ہوگئی “
پروفیسر صاحب نے سیٹ پر بیٹھے اپنے ہم سفروں کی طرف دیکھا اور بولے۔"تمہیں پتہ ہے جب شیر ہرن کو کھارہا تھا تو دل ہی دل میں اپنی طاقت سے خوش ہورہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ آسمانوں کے مالک نے اس ہرن کو شیر کے سامنے بھیجا ہی اس ننھی چڑیا کے لئے تھا وہ ہرن چڑیا کی فریاد کا نتیجہ تھا ۔“
پروفیسر صاحب نے کہا " یا تو آپ ثابت کردیں کہ جو کچھ آپ کو ملا ہے۔صحت،عقل،حسن،طاقت یہ سب آپ کی محنت کی وجہ سے ہے اور آپ جب پیدا ہوئے تھے تو یہ سارے اسباب اور زندگی بھر کا کھانا ساتھ لے کے آئے تھے تو ٹھیک ہے،آپ اپنی مرضی کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کو اُن کا بھی خیال رکھنا ہے جو ضرورت مند ہیں۔خاص طور پر ایسے افراد جن کا شمار آپ کے قریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔کیا آپ لوگوں کی انا کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک شخص ہاتھ پھیلائے مجبوری وناداری کی حالت میں آپ کے سامنے کھڑا ہے ۔“ مجھ سمیت تمام لوگ ہمہ تن گوش تھے۔
پروفیسر صاحب نے کہا کہ " تمہیں اللہ نے اگر نوازا ہے ،طاقت ور بنایا ہے تو شیر کی طرح اپنے رزق کے حصول کو اپنی طاقت،ذہانت اور محنت کا ذریعہ مت قرار دو۔
دیکھو۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ارد گرد بہت سارے انسانوں کی مثال اُس چڑیا کی سی ہے ،جو کمزور ہیں،بے بس ہیں اور اللہ سے رزق کے لئے فریاد کرتے ہیں۔بہ ظاہر یہ رزق اُن سے دور ہوتا ہے لیکن اُن کے توسط سے آپ کو مل رہا ہوتا ہے۔“
پروفیسر صاحب نے حضرت مجدد الف ثانی کا قول سنایا اور پھر سونے کے لئے برتھ پر چلے گئے۔" جو حق دار ہے اُس کو بھی دے اور جو ناحق کا مانگنے والا ہے اُسے بھی دے کیونکہ تجھے جو ناحق کا مل رہا ہے کہیں وہ ملنا بند نہ ہوجائے۔“
[/align:92d01c45a4]
 

شمشاد

لائبریرین
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مؤرخین سن کو ایک طلسمی طوطا سمجھتے ہیں۔ جس میں وقت کے ظالم دیو کی روح مقید ہے۔ کچھ اسی قماش کے عقیدے پر میل بورن کے خضر صورت آرچ بشپ مانگس نے تین سال پہلے طنز کیا تھا۔ کہ جب ان کی 93ویں سالگرہ پر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی نوٹ بک نکالتے ہوئے بڑے گھمبیر لہجے میں دریافت کیا “ آپ کے نزدیک 93 برس کی عمر تک پہنچنے کی اصل وجہ کیا ہے؟“ “ برخوردار اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں 1864 میں پیدا ہوا تھا۔“
(مشتاق احمد یوسفی)
 

حجاب

محفلین
[align=right:6fba807c1e]یہ اُس دور کی بات ہے جب بغداد ہلاکو خان کی تباہیوں سے اُجڑ گیا تھا۔مسلم دنیا میں علم و ادب کا مرکز سمجھا جانے والا بغداد اپنی قسمت پر رو رہا تھا۔لیکن کوئی نہیں تھا جو اُسے بچانے آتا اور آتا بھی کیوں ؟اس لئے کہ امیر بغداد کا حال یہ تھا کہ ہیرے اور جواہرات کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی تھی۔
جب ہلاکو خان نے امیر بغداد کو اُس کے محل سے گرفتار کر لیا تو اپنی فوج کو حکم دیا کہ اس کے محل سے جمع کئے جانے والے سارے ہیرے جواہرات اس کے سامنے لا کر ڈھیر کردو۔چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔
ہلاکو خان امیر بغداد سے مخاطب ہوا۔" سُنا ہے کہ تم اکثر کہا کرتے تھے کہ ہیرے جواہرات دیکھنے سے تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے ؟
اگر ایسا ہے تو آج تم ان سے اپنا پیٹ بھی ٹھنڈا کرو۔“
اُس نے امیر بغداد کو حکم دیا کہ وہ ہیرے کھائے ،تاکہ وہ دیکھے کہ دولت کے لالچیو ں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔؟
امیر بغداد کی آنکھوں کو آج یہ ہیرے جواہرات ٹھنڈا نہیں کر پارہے تھے ،بلکہ ان میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا۔ایک ایسا خوف جو اُس نے اپنی زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔میں کہہ رہا ہوں انہیں کھاؤ۔
ساتھ ہی اُس نے اپنے وحشی اور جنگلی سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ تلوار اُس کے سر پر تان لو۔امیر بغداد ایک نظر ہیروں کے ڈھیر پر ڈالتا اور ایک نظر ان وحشی جنگجوؤں پر جنھوں نے بغداد میں مسلمانوں کے سروں کے مینار قائم کئے تھے۔امیر بغداد کے وجود پر کپکپی طاری تھی اور چند ماہ پہلے مسلمانوں کے شاہ خوارزم کے لکھے ہوئے خط کے الفاظ اُس کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے تھے۔شاہ نے امیر بغداد کو ہلاکو خان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ساتھ لڑنے کی تجویز دی تھی،اُس سے اپیل کی تھی کہ ہم اُسے وسطی ریاستوں ہی میں روک دیں ،اگر ایسا کر لیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں کی ریاستیں بچ جائیں گی بلکہ علم و ادب کا مرکز بغداد بھی بچ جائے گا لیکن امیر بغداد نے جواب میں لکھا تھا ،تم اُس سے اکیلے نمٹو ،مجھ تک آنے میں اُسے صدیاں لگیں گی اور اُس وقت تک ہلاکو خان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا،ہلاکو خان کی وحشی اور درندہ صفت فوجوں نے چند ماہ میں مسلمانوں کے سارے علاقوں کو ایک ایک کرکے روندھ ڈالا تھا۔امیر بغداد سوچ رہا تھا ،کہ اگر شاہ خوارزم کی بات مان لی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے،لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔
ایک بار پھر ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے اپنے سامنے رکھے ہیروں کے ڈھیر سے مُٹّھی بھر لی حالانکہ اُس کی موت کے لئے صرف ایک ہیرا ہی کافی تھا۔
امیر بغداد نے ہلاکو خان کی آگ برساتی آنکھوں کی طرف دیکھا ،وہ جانتا تھا کہ اس شخص میں رحم نام کا کوئی مادہ نہیں ،اس سے زندگی کی بھیک مانگنا بیکار ہے۔ایک ایسا شخص جو انسانی لاشوں پر دسترخوان بچھاتا ہو ،اُس کے نزدیک بھلا ایک شخص کی موت کیا معنی رکھتی ہے ،لیکن اُس کے باوجود امیر بغداد نے زندگی کی بھیک مانگ لی ۔
مجھے معاف کردو ،میری زندگی بخش دو،آخر ایک زندگی بخش دینے میں تمھارا کیا جائے گا؟؟؟؟امیر بغداد نے گڑگڑانا شروع کردیا۔
ہلاکو خان کے چہرے کا تناؤ کم ہونے کی بجائے کچھ اور بڑھ گیا۔وہ بولا،کیا تمہیں پتہ ہے کہ آج تمہیں کس چیز کی سزا دی جارہی ہے؟؟؟امیر بغداد نے انکار میں سر ہلایا۔ہیرے ابھی تک اُس کی مُٹّھی میں تھے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں۔ہلاکو خان نے کہا،تم وہ مجرم ہو جس نے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو دھوکے میں رکھا ہے،تم وہ شخص ہو جو محض اپنے لئے زندہ رہتے ہو،تمہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تمہارے قبیلے اور تمہاری قوم کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے؟تم وہ شخص ہو جو صرف دولت کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہو،تم حریص،لالچی اور غافل انسان ہو اور حد تو یہ ہے کہ تم ایسے شخص ہو جو اپنی غفلت سے بھی لاعلم ہے۔مجھے حیرت ہے اُن لوگوں پر جو تم جیسے لوگوں کو اپنا امیر بناتے ہیں۔
ہلاکو خان نے اتنا کہا اور اپنے فوجی کو تلوار کھینچ لینے کا اشارہ کرتے ہوئے امیر بغداد سے کہا کہ " ہیروں کا ذائقہ چکھو اور مجھے بتاؤ کہ دیکھنے میں خوشنما یہ سوغات کھانے میں کیسی ہے؟؟؟؟“
کہتے ہیں کہ اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے ہیرے اپنے پیٹ میں‌اُتار لئے ۔ہلاکو خان اُس کے مرنے کا تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا۔پھر امیر بغداد کی لاش کو ٹھوکر مار کر کہنے لگا۔
" عیش و آرام کے دلدادہ اور غافل لوگوں کا انجام یہی ہونا چاہیئے ،میرے انصاف کا یہی تقاضا ہے ۔“
نوٹ :۔ حوالہ نہیں پتہ مجھے نہ کتاب کا نام ،کافی پہلے پڑھا تھا شائد کوئی اداریہ تھا۔
[/align:6fba807c1e]
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:b21a251f8f]یہ اُس دور کی بات ہے جب بغداد ہلاکو خان کی تباہیوں سے اُجڑ گیا تھا۔مسلم دنیا میں علم و ادب کا مرکز سمجھا جانے والا بغداد اپنی قسمت پر رو رہا تھا۔لیکن کوئی نہیں تھا جو اُسے بچانے آتا اور آتا بھی کیوں ؟اس لئے کہ امیر بغداد کا حال یہ تھا کہ ہیرے اور جواہرات کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی تھی۔
جب ہلاکو خان نے امیر بغداد کو اُس کے محل سے گرفتار کر لیا تو اپنی فوج کو حکم دیا کہ اس کے محل سے جمع کئے جانے والے سارے ہیرے جواہرات اس کے سامنے لا کر ڈھیر کردو۔چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔
ہلاکو خان امیر بغداد سے مخاطب ہوا۔" سُنا ہے کہ تم اکثر کہا کرتے تھے کہ ہیرے جواہرات دیکھنے سے تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے ؟
اگر ایسا ہے تو آج تم ان سے اپنا پیٹ بھی ٹھنڈا کرو۔“
اُس نے امیر بغداد کو حکم دیا کہ وہ ہیرے کھائے ،تاکہ وہ دیکھے کہ دولت کے لالچیو ں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔؟
امیر بغداد کی آنکھوں کو آج یہ ہیرے جواہرات ٹھنڈا نہیں کر پارہے تھے ،بلکہ ان میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا۔ایک ایسا خوف جو اُس نے اپنی زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔میں کہہ رہا ہوں انہیں کھاؤ۔
ساتھ ہی اُس نے اپنے وحشی اور جنگلی سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ تلوار اُس کے سر پر تان لو۔امیر بغداد ایک نظر ہیروں کے ڈھیر پر ڈالتا اور ایک نظر ان وحشی جنگجوؤں پر جنھوں نے بغداد میں مسلمانوں کے سروں کے مینار قائم کئے تھے۔امیر بغداد کے وجود پر کپکپی طاری تھی اور چند ماہ پہلے مسلمانوں کے شاہ خوارزم کے لکھے ہوئے خط کے الفاظ اُس کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے تھے۔شاہ نے امیر بغداد کو ہلاکو خان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ساتھ لڑنے کی تجویز دی تھی،اُس سے اپیل کی تھی کہ ہم اُسے وسطی ریاستوں ہی میں روک دیں ،اگر ایسا کر لیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں کی ریاستیں بچ جائیں گی بلکہ علم و ادب کا مرکز بغداد بھی بچ جائے گا لیکن امیر بغداد نے جواب میں لکھا تھا ،تم اُس سے اکیلے نمٹو ،مجھ تک آنے میں اُسے صدیاں لگیں گی اور اُس وقت تک ہلاکو خان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا،ہلاکو خان کی وحشی اور درندہ صفت فوجوں نے چند ماہ میں مسلمانوں کے سارے علاقوں کو ایک ایک کرکے روندھ ڈالا تھا۔امیر بغداد سوچ رہا تھا ،کہ اگر شاہ خوارزم کی بات مان لی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے،لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔
ایک بار پھر ہلاکو خان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے اپنے سامنے رکھے ہیروں کے ڈھیر سے مُٹّھی بھر لی حالانکہ اُس کی موت کے لئے صرف ایک ہیرا ہی کافی تھا۔
امیر بغداد نے ہلاکو خان کی آگ برساتی آنکھوں کی طرف دیکھا ،وہ جانتا تھا کہ اس شخص میں رحم نام کا کوئی مادہ نہیں ،اس سے زندگی کی بھیک مانگنا بیکار ہے۔ایک ایسا شخص جو انسانی لاشوں پر دسترخوان بچھاتا ہو ،اُس کے نزدیک بھلا ایک شخص کی موت کیا معنی رکھتی ہے ،لیکن اُس کے باوجود امیر بغداد نے زندگی کی بھیک مانگ لی ۔
مجھے معاف کردو ،میری زندگی بخش دو،آخر ایک زندگی بخش دینے میں تمھارا کیا جائے گا؟؟؟؟امیر بغداد نے گڑگڑانا شروع کردیا۔
ہلاکو خان کے چہرے کا تناؤ کم ہونے کی بجائے کچھ اور بڑھ گیا۔وہ بولا،کیا تمہیں پتہ ہے کہ آج تمہیں کس چیز کی سزا دی جارہی ہے؟؟؟امیر بغداد نے انکار میں سر ہلایا۔ہیرے ابھی تک اُس کی مُٹّھی میں تھے۔
میں تمہیں بتاتا ہوں۔ہلاکو خان نے کہا،تم وہ مجرم ہو جس نے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو دھوکے میں رکھا ہے،تم وہ شخص ہو جو محض اپنے لئے زندہ رہتے ہو،تمہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تمہارے قبیلے اور تمہاری قوم کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے؟تم وہ شخص ہو جو صرف دولت کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہو،تم حریص،لالچی اور غافل انسان ہو اور حد تو یہ ہے کہ تم ایسے شخص ہو جو اپنی غفلت سے بھی لاعلم ہے۔مجھے حیرت ہے اُن لوگوں پر جو تم جیسے لوگوں کو اپنا امیر بناتے ہیں۔
ہلاکو خان نے اتنا کہا اور اپنے فوجی کو تلوار کھینچ لینے کا اشارہ کرتے ہوئے امیر بغداد سے کہا کہ " ہیروں کا ذائقہ چکھو اور مجھے بتاؤ کہ دیکھنے میں خوشنما یہ سوغات کھانے میں کیسی ہے؟؟؟؟“
کہتے ہیں کہ اگلے ہی لمحے امیر بغداد نے ہیرے اپنے پیٹ میں‌اُتار لئے ۔ہلاکو خان اُس کے مرنے کا تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا۔پھر امیر بغداد کی لاش کو ٹھوکر مار کر کہنے لگا۔
" عیش و آرام کے دلدادہ اور غافل لوگوں کا انجام یہی ہونا چاہیئے ،میرے انصاف کا یہی تقاضا ہے ۔“
نوٹ :۔ حوالہ نہیں پتہ مجھے نہ کتاب کا نام ،کافی پہلے پڑھا تھا شائد کوئی اداریہ تھا۔
[/align:b21a251f8f]

اچھا ہے۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ ہلاکو خان کو صرف قتل و غارت ہی پسند تھی۔ میرے خیال سے اس نے اچھا فیصلہ کیا۔ اچھی شئیرنگ ہے حجاب۔
 
Top