میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
نصیب والے

جھڑکیاں دینے والا، رعب جمانے والا، دھمکیاں دینے والا، بھول چکا ہوتا ہے کہ وہ بھی انسان ہے۔ انسانوں کو انسانوں پر رعب جمانے اور انہیں جھڑکی دینے کا کوئی حق نہیں۔ ہر نقلی استحقاق صرف غرورِ نفس کا دھوکا ہے اور غرور کسی انسان میں اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ بدقسمت نہ ہو۔ نصیب والے قسمت والے ہمیشہ عاجز و مسکین رہتے ہیں۔

(واصف علی واصف)
 

شمشاد

لائبریرین
تم اور سورج ایک جیسے ہو
دونوں آنگن میں اترو تو جھلمل ہونے لگتی ہے
دونوں کی حدت سے دل کی برف پگھلنے لگتی ہے
دونوں آنکھ کی وسعت سے بڑھ جاتے ہو
دونوں آنکھیں چندھیاتے ہو
دونوں آگ میں جھلساتے ہو
 

حجاب

محفلین
حُسنِ ظن۔

الحمدّللہ ! مجھے فخر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کے تحقیر آمیز نظریات نہیں رکھتا ۔اُس نے مجھے زندگی دی ہے اور میں اُس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔وہ میرا لباس ہے لہذٰا میں اُسے ننگِ انسانیت ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتا ۔اُس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے پاک صاف رکھا لہذٰا میں اُسے نجس مخلوق قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے انگلی پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا ، لہذٰا میں اُس کے پاؤں سے زمین نہیں کھینچ سکتا ۔اُس نے میری تربیت کرکے مجھے انسان بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص العقل نہیں کہہ سکتا۔اُس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ، لہذٰا میں اُسے شیطان کا دروازہ یا لغزش کا محل نہیں کہہ سکتا ۔اُس نے مجھے گھر کی پُر آسائش و پُرسکون زندگی عطا کی ہے ، لہذٰا میں اُسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے کامل بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص نہیں کہہ سکتا ، اُس نے مجھے انسان بنایا ، لہذٰا میں اُسے آدھا انسان قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا ہے ، لہذٰا میں اُسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔
اگر میں ایسا کروں تو میری اپنی ہی ذات کی تحقیر تذلیل اور نفی ہوتی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق ہر طرح کا حُسنِ ظن رکھتا ہوں۔
غلام اکبر ملک کی تصنیف " عورت کا مقدمہ “ سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

سارہ خان

محفلین
حُسنِ ظن۔

الحمدّللہ ! مجھے فخر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کے تحقیر آمیز نظریات نہیں رکھتا ۔اُس نے مجھے زندگی دی ہے اور میں اُس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔وہ میرا لباس ہے لہذٰا میں اُسے ننگِ انسانیت ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتا ۔اُس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے پاک صاف رکھا لہذٰا میں اُسے نجس مخلوق قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے انگلی پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا ، لہذٰا میں اُس کے پاؤں سے زمین نہیں کھینچ سکتا ۔اُس نے میری تربیت کرکے مجھے انسان بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص العقل نہیں کہہ سکتا۔اُس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ، لہذٰا میں اُسے شیطان کا دروازہ یا لغزش کا محل نہیں کہہ سکتا ۔اُس نے مجھے گھر کی پُر آسائش و پُرسکون زندگی عطا کی ہے ، لہذٰا میں اُسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے کامل بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص نہیں کہہ سکتا ، اُس نے مجھے انسان بنایا ، لہذٰا میں اُسے آدھا انسان قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا ہے ، لہذٰا میں اُسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔
اگر میں ایسا کروں تو میری اپنی ہی ذات کی تحقیر تذلیل اور نفی ہوتی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق ہر طرح کا حُسنِ ظن رکھتا ہوں۔
غلام اکبر ملک کی تصنیف " عورت کا مقدمہ “ سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪


زبردست حجاب ۔۔۔ کہیں پڑھی ہوئی تو لگ رہی ہے یہ تحریر پر یاد نہیں آ رہی کہ کہاں پڑہی تھی ۔۔:confused:۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
حُسنِ ظن۔

الحمدّللہ ! مجھے فخر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کے تحقیر آمیز نظریات نہیں رکھتا ۔اُس نے مجھے زندگی دی ہے اور میں اُس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔وہ میرا لباس ہے لہذٰا میں اُسے ننگِ انسانیت ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتا ۔اُس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے پاک صاف رکھا لہذٰا میں اُسے نجس مخلوق قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے انگلی پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا ، لہذٰا میں اُس کے پاؤں سے زمین نہیں کھینچ سکتا ۔اُس نے میری تربیت کرکے مجھے انسان بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص العقل نہیں کہہ سکتا۔اُس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ، لہذٰا میں اُسے شیطان کا دروازہ یا لغزش کا محل نہیں کہہ سکتا ۔اُس نے مجھے گھر کی پُر آسائش و پُرسکون زندگی عطا کی ہے ، لہذٰا میں اُسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے کامل بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص نہیں کہہ سکتا ، اُس نے مجھے انسان بنایا ، لہذٰا میں اُسے آدھا انسان قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا ہے ، لہذٰا میں اُسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔
اگر میں ایسا کروں تو میری اپنی ہی ذات کی تحقیر تذلیل اور نفی ہوتی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق ہر طرح کا حُسنِ ظن رکھتا ہوں۔
غلام اکبر ملک کی تصنیف " عورت کا مقدمہ “ سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

بہت اچھا اقتباس ہے۔
 

عیشل

محفلین
اگر زندگی میں سکوں چاہتے ہو تو کبھی
کسی سے توقع مت رکھو کیو نکہ توقع
کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
حُسنِ ظن۔

الحمدّللہ ! مجھے فخر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کے تحقیر آمیز نظریات نہیں رکھتا ۔اُس نے مجھے زندگی دی ہے اور میں اُس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔وہ میرا لباس ہے لہذٰا میں اُسے ننگِ انسانیت ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتا ۔اُس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے پاک صاف رکھا لہذٰا میں اُسے نجس مخلوق قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے انگلی پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا ، لہذٰا میں اُس کے پاؤں سے زمین نہیں کھینچ سکتا ۔اُس نے میری تربیت کرکے مجھے انسان بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص العقل نہیں کہہ سکتا۔اُس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ، لہذٰا میں اُسے شیطان کا دروازہ یا لغزش کا محل نہیں کہہ سکتا ۔اُس نے مجھے گھر کی پُر آسائش و پُرسکون زندگی عطا کی ہے ، لہذٰا میں اُسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے مجھے کامل بنایا لہذٰا میں اُسے ناقص نہیں کہہ سکتا ، اُس نے مجھے انسان بنایا ، لہذٰا میں اُسے آدھا انسان قرار نہیں دے سکتا۔اُس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا ہے ، لہذٰا میں اُسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔
اگر میں ایسا کروں تو میری اپنی ہی ذات کی تحقیر تذلیل اور نفی ہوتی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میں عورت ذات کے متعلق ہر طرح کا حُسنِ ظن رکھتا ہوں۔
غلام اکبر ملک کی تصنیف " عورت کا مقدمہ “ سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
زبردست۔ اللہ بھلا کرے "غلام اکبر ملک" کا۔
 

شمشاد

لائبریرین
موسمم کے تلوّن کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر کو لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کئے یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ صبح اٹھ کر بھوبل کی بھنی گرما گرم مونگ پہلی بیچیں یا آئس کریم۔

کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اُکسانےمیں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بد ظن ہو جائیں لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ ۔۔۔۔۔

ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں ہے لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا "رش" لیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔

وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی "روپیہ" کی طرح بہا یا جاتا ہے۔
(اقتباس : موسموں کا شہر از مشتاق احمد یوسفی)
 

سارہ خان

محفلین
"ایمان کے شیشے پر کتنی ہی گرد اور مٹی کیوں نہ ہو۔اسے صاف کیا جا سکتا ہے بس صرف ایک ہاتھ پھیرنا پڑتا ہے اور شیشے میں سے عکس نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہر ہاتھ کے ساتھ عکس پہلے سے زیادہ صاف اور چمکدار ہوتا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ہاتھ اس محبت کا ہوتا ہے جو ایمان سے ہوتی ہے۔"

ایمان امید اور محبت (عمیرہ احمد )

 

شمشاد

لائبریرین
میری بیگم بڑی مزاج دان ہیں۔ اب دیکھیں آج کی بات ہے۔ میں دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا۔ انہوں نے فوراً ہی کافی کا ٹی پاٹ لا کر سامنے رکھ دیا۔ میں نے کپ میں کافی انڈیلی اور دودھ دان سے کریم نکالی۔

ہم نے پوچھا چینی دان سے کیا نکلا؟

بھنا کر بولے بھئی چینی نکلی اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کسی کتاب کا اقتباس ہے، غالباً زرگزشت کا، حافظے کے زور پر لکھا ہے، ممکن ہے کوئی لفظ آگے پیچھے ہو گیا ہو۔)
 

شمشاد

لائبریرین
ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے۔ جذبہ تو محض ایک حنوط شدہ لاش کی مانند دل کے تابوت میں منجمد رہ سکتا ہے۔ جنون ، جوش جہاد اور شوق شہادت سے خون کو گرماتا ہے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کا راز پوشیدہ ہے۔“
(قدرت اللہ شہاب کی کتاب " شہاب نامہ" سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
اگلوں نے کسی پر عاشق ہو جانے کو مجاز اول دادن یا دل باختن یا دل فروختن سے تعبیر کیا رفتہ رفتہ متاخرین نے دل کو ایک ایسی چیز قرار دے لیا جو کہ مثل ایک جواہر یا پھل کے ہاتھ سے چھینا جا سکتا ہے، واپس لیا جا سکتا ہے، کھویا اور پایا جا سکتا ہے۔ کبھی اس کی قمیت پر تکرار ہوتی ہے، سودا بنتا ہے تو دیا جاتا ہے ورنہ نہیں دیا جاتا، کبھی اس کو معشوق عاشق سے لے کر طاق میں ڈال کر بھول جاتا ہے۔ اتفاقا وہ عاشق کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ آنکھ بچا کر وہاں سے اڑا لاتا ہے۔ پھر معشوق کے ہاں اس کی ڈھنڈیا پڑتی ہے اور عاشق اس کی رسید نہیں دیتا۔ کبھی وہ یاروں کے جلسہ میں آنکھوں ہی آنکھوں میں غایت ہو جاتا ہے۔ سارا گھر چھان مارتے ہیں کہیں پتہ نہیں لگتا۔ اتفاقاً معشوق جو بالوں میں کنگھی کرتا ہے تو وہ جُوں کی طرح جھڑ پڑتا ہے۔ کبھی وہ ایسا تلپٹ ہو جاتا ہے کہ زلف یار کی ایک ایک شکن اور ایک ایک لٹ میں اس کی تلاش کی جاتی ہے۔ مگر کہیں کچھ سراغ نہیں ملتا کبھی وہ بیع بالخیار کے قاعدے سے یار کے ہاتھ اس شرط پر فروخت کیا جاتا ہے کہ پسند آئے تو رکھنا ورنہ پھیر دینا اور کبھی اس کا نیلام بول دیا جاتا ہے کہ جو زیادہ دام لگائے وہی لے جائے۔
(مقدمہ شعر و شاعری از مولانا الطاف حسین حالی)
 

شمشاد

لائبریرین
اگلوں نے معشوق کو اس لئے کہ وہ گویا لوگوں کے دل شکار کرتا ہے مجاز صیاد باندھا تھا۔ پچھلوں نے رفتہ رفتہ اس پر تمام احکام حقیقی صیاد کے مترتب کر دیئے۔ اب وہ کہیں جال لگا کر چڑیاں پکڑتا ہے کہیں ان کو تیر مار کر گراتا ہے کہیں ان کو زندہ پنجرے میں بند کرتا ہے۔ کہیں ان کے پر نوچتا ہے کہیں ان کو ذبح کر کے زمین پر تڑپاتا ہے۔ جب کبھی وہ تیر کمان لگا کر جنگل کی طرف جا نکلتا ہے، تمام جنگل کے پنچھی اور پکھیرو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ سیکڑوں پروندں کے کباب لگا کر کھا گیا۔
(مقدمہ شعر و شاعری از مولانا الطاف حسین حالی)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دیوانِ غالب
آج ہی میں‌دیوانِ‌غالب لایا ہوں ایک اولڈ بک شاپ سے جلد تو بہت خوب تھی اور قیمت میں بھی کم صرف 280 روپے کی بدقسمتی سے میرے اس وقت صرف 250 روپے تھے۔اور یہ بھی غنیمت تھی آخری تاریخوں میں اتنے پیسے میرے پاس ہونا بہت حیران کن تھا اب بات یہ تھی اگر میں‌ دیوانِ غالب لے کر جاؤں تو پھر مجھے گھر پیدل جانا پڑھے گا لیکن دیوانِ غالب لوں کیسے اس کے لیے بھی 30 روپے کم تھے پہلے میں‌نے سوچا قیمت میں کچھ کمی کی بات کرتا ہوں پھر خیال آیا پہلے ہی اتنی کم قیمت ہے اور وہ بھی آدھی قیمت پر دے رہے تھے کبھی دیوانِ غالب اٹھاتا اور پڑھتا اور کبھی قیمت دیکھ کر پھر رکھ دیتا کوئی 15 منٹ ایسے ہی گزر گے لیکن میں‌کچھ فیصلہ نا کر سکا دیوانِ غالب میرے لیے بہت ضروری تھا کیوں‌کے جب سے میں‌نے شاعری شورع کی تھے مجھے بہت سارے دوستوں‌اور اچھے لکھنے والوں نے کہا تھا تم ایک بار دیوانِ غالب ضرور پڑھنا اس لے میں اس کو ہر قیمت پر لے کر جانا ہی تھا دوکاندار بھی مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا پھر کیا ہوا میں‌دیوانِ غالب کو وہی پر رکھ کر تھوڑا سا فاصلہ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے ۔اسی دوران بہت سارے لوگ آئے اور گے لیکن کوئی ایک بھی دیوانِ غالب کے پاس نہیں‌آیا دور سے ہی دیکھ کر گزر گیا شام پڑ رہی تھی بہت پرشانی کے عالم میں‌تھا اتنے میں‌ دوکاندار میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا بیٹھا کیا پرشانی ہے کون سی کتاب لینی ہے ۔پہلے تو میں‌خاموش رہا کہ اگر میں نے ان کو بتایا کہ میں‌نے دیوانِ غالب لینا ہے اور میرے پاس 30 روپے کم ہیں تو وہ پتہ نہیں‌کیا سوچے گے ہو سکتا ہے مجھے ڈانٹ بھی دے لیکن بعد میں میں نے کہا سر مجھے دیوانِ غالب چاہے لیکن میرے پاس صرف 250 روپے ہیں اگر آپ چاہے تو 30 روپے ادھار کر لے میں‌کل آپ کو آ کر دیے جاؤں گا ۔ اس پر اس آدمی نے میرے طرف غور سے دیکھا ۔میں‌ڈر گیا کیوں‌کے وہ مجھے جانتا ہی نہیں‌تھا اور میں رہتا بھی دور تھا اس طرف میرا پتہ نہیں‌کب دوبارا چکر لگتا لیکن میں نے سوچ رکھا تھا اگر مجھے یہ دیوان مل گیا تو میں‌کل ضرور یہاں آؤ گا اور پورے پیسے دے کر جاؤں گا ۔ میں‌ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس آدمی نے دیوانِ غالب میرے ہاتھ میں‌دیااور کہا اس کے لیے اتنی دیر سے پرشان ہو یہ لو اور جاؤ ۔میں نے 250 روپے نکال کر دے لیکن وہ کہنے لگے ارے اس کتاب کو ہمارے پاس پڑھے ہوئے بہت دن ہو گے ہیں آپ پہلے لڑکے ہو جس نے اس کتاب کو اٹھا کر پڑھا ہے اور اس کو خریدنے کے لے پرشان تھے اتنے دنوں میں‌صرف میرے ملازم ہی اس کو صبح‌باہر لگاتے تھے اور رات کو اند لے جاتے تھے آپ اس کو لے جاؤ اگر اس سے تمہیں‌کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میری قیمت پوری ہو جائے گی اس کے بعد وہ دوکان کے اندر چلا گیا اور میں‌کتاب پکڑے وہی پر کھڑا رہا اندر جاتے ہوئے ایک دفع میری طرف دیکھا اور مسکرا کر چلا گیا

خرم شہزاد خرم
 
Top