میری ڈائری کا ایک ورق

سارہ خان

محفلین
حجاب نے کہا:
کسی مفکر کا قول ہے کہ " بد نصیب ہے وہ شخص جس پر کوئی اعتماد نہ کرتا ہو اور اُس سے بھی بدتر ہے وہ شخص جو کسی کو اعتماد کے قابل نہ سمجھے“ دراصل اعتماد ہی وہ قوت اور طاقت ہے جو ہمیں دوسروں کے قریب لاتی ہے اور اسی کے ذریعے دوسرے ہمارے قریب آتے ہیں ۔جو لوگ دوسروں سے الگ تھلگ اور اپنی ذات کے خول میں بند رہتے ہیں ، کبھی پُرسکون اور مطمئن زندگی نہیں گزار سکتے ۔کسی پر اعتماد نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں نفرت ، خوف اور شک و شبہات کا شکار ہیں اور جہاں یہ چیزیں ہوں وہاں اعتماد کا احساس ہرگز نہیں پنپ سکتا بلکہ ایسا شخص تناؤ ، افسردگی ، اضمحلال ، بدمزاجی ، اور غم و غصّے کا شکار رہتا ہے اور کئی قسم کی نفسیاتی پیچیدگیاں بھی اُسے گھیر سکتی ہیں ۔کیونکہ حیاتیاتی اور فطری طور پر ہمیں ایسے لوگوں اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہم متعلق ہوں ، جہاں ہم دیکھے جائیں ، جہاں ہمیں خوش آمدید کہا جائے ، اور جہاں ہمیں سُنا جائے ۔لازمی سی بات ہے کہ ایسے ماحول کے لیئے ہمیں با اعتماد دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھتے ہوں اور جنہیں ہم سمجھ سکیں ۔
امریکہ میں مقیم ڈاکٹر سیّد اسلم کے بقول " جن افراد کے خیر خواہ دوست زیادہ ہوتے ہیں وہ زیادہ صحت مند رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی باتیں سُنا کر ، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرکے زیادہ طاقت ور ہوجاتے ہیں ، اس لیئے کہ انہیں اظہارِ ذات کا پوری طرح موقع مل جاتا ہے ۔“ یہ چیز بھی دیکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری پریشانی سُن کر توجہ و دل سوزی سے تسلی ہی دیدے یا صرف حوصلہ افزائی ہی کردے ، خواہ مسئلہ حل نہ ہو اور مادّی طور پر وہ کوئی اعانت بھی نہ کرے ، اس کے باوجود ہماری شخصیت پر اس کا مثبت اثر ہوتا ہے ۔ گفتگو کرنے سے مسائل کی تفہیم و تشریح بہتر انداز سے ہوجاتی ہے اور ہم ان پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔مایوسی کا گراف گِر جاتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے لیئے ایک نئی تحریک پیدا ہوتی ہے اور سچّی بات تو یہ ہے کہ بیشتر افراد کو اسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے پھر جلد یا بدیر مسائل کا کوئی نہ کوئی حل تو وہ نکال ہی لیتے ہیں ۔
ڈاکٹر کرسچین برناڈ قلب کے معروف سرجن ہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ ۔"دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے انسان کو بااعتماد دوستوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے ، کیونکہ ہمارا جسم بعض اوقات " بھاپ کا انجن “ ہوتا ہے جس کے دریچے سے گاہے بگاہے بھاپ کا اخراج ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کا میکنزم ٹھیک طرح کام کرتا رہے ۔اپنے مسائل کو بااعتماد لوگوں سے بیان کرنے سے عفونت ، سرطان ، کرب اور عارضہ قلب کم ہوتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے ۔جو لوگ اس بھاپ کو اپنے وجود کے اندر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ دوسرے معنوں میں اپنے دل و جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔میں مریضوں کو ڈسچارج کرتے وقت ایک بات ضرور کہتا ہوں کہ ایسے با اعتماد دوست بناؤ جو تمہیں سُن سکیں اور جنہیں تم بھی سُن سکو۔“
دراصل ہم عموماً جن مسائل میں الجھے رہتے ہیں وہ بعض اوقات ہماری نظر میں دوسروں سے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن جب ہم اپنے کسی با اعتماد دوست سے ان پر بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سوچ درست نہیں تھی بلکہ دیگر کئی لوگ بھی اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہیں ، پھر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم جس نفرت ، خوف یا پریشانی میں گرفتار ہیں ، اس سے تو بیشتر لوگوں کا واسطہ رہتا ہے ۔گویا یہ چیز ہمیں زندگی کے حقائق کو سمجھنے اور ان سے مقابلہ کرنے میں خاصی مدد گار اور معاوِن ثابت ہوتی ہے ۔
نفسیات کے ماہرین کی اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ جیسے جیسے لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد کمزور پڑتا جا رہا ہے، روحانی اقدار کو زوال اور مادّہ پرستی کو اہمیت دی جا رہی ہے اور لوگ باہمی میل جول کے بجائے انفرادی زندگی گزارنے کی طرف گامزن ہو رہے ہیں اسی اعتبار سے لوگوں میں نفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں ۔ اینگزائٹی اور ڈپریشن جس کی بڑی مثالیں ہیں ان امراض کے شکار افراد کے ساتھ بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور پوری دنیا اُنہیں بے حس، مفاد پرست اور ظالم نظر آتی ہے ، اُن کا اس سے زیادہ بہتر علاج اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اُنہیں دوسروں پر اعتماد کرنا سکھا دیا جائے ۔
نفسیاتی ہی نہیں سائنسی طور پر بھی یہ چیز ثابت ہوئی ہے کہ با اعتماد دوستوں کو حالِ دل سُنانے سے صحت پر مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں ۔اس ضمن میں نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک ہفتے تک تقریباً سو سے زائد مردوں اور عورتوں کے بلڈ پریشر کا مشاہدہ کیا ۔انہیں پتہ چلا کہ جب با اعتماد دوست آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو اُن کا بلڈ پریشر اُس سے کم رہا جتنا اُس وقت تھا جب وہ کسی اجنبی سے بات کر رہے تھے ۔یہ فرق زیادہ نہ سہی لیکن اس تھوڑے سے فرق کے بھی صحت پر نمایاں اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔اس کی وجہ سائنسدانوں نے یہ بتائی کہ اجنبی یا ایسے لوگ جن کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے اُن سے گفتگو کرتے وقت ہم محتاط رہتے ہیں جبکہ با اعتماد دوستوں سے گفتگو کے دوران ہم زیادہ بے پرواہ اور پُرسکون ہوتے ہیں ۔
با اعتماد ، ہمدرد اور اچھا دوست ایک بڑی نعمت ہے اور یقیناً خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایسے افراد کی قربت حاصل ہے اور جو اُن کی قدر کرتے ہیں ، خواہ وہ بیوی ، شوہر ، دوست ، سہیلی ، بہن بھائی ، والدین یا کسی بھی روپ میں ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ ایسے خوش نصیبوں میں شامل نہ ہو سکیں تاہم اس کے لیئے پہلے آپ کو خود اپنے آپ کو دوسروں کے لیئے قابلِ بھروسہ بنانا پڑے گا ۔
اور آخر میں ایک سب سے اہم بات یہ کہ دوسروں پر اعتماد کرنے کا مطلب بھی ایک طرح سے اپنی ہی ذات پر اعتماد کرنا ہے ۔
یہی وجہ تھی کہ آسکر وائلڈ اکثر کہا کرتا تھا کہ " میں اپنے دوستوں پر اعتماد کرتا ہوں اور میرے دوست اُسے میری خود اعتمادی کا نام دیتے ہیں ۔"
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪ ( ریاض احمد منصوری کا اداریہ ) ٪٪٪٪٪
بہت خوب ۔۔۔حجاب ۔۔ :)
 

سارہ خان

محفلین
زندگی
ہر دکھ ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے- جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنویں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی تو گوتم پر بھی ایک بھید کھلاتھا- جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوکتا ہے ، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے- نرواں ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔۔۔( آب گم - مشتاق احمد یوسفی )
 

فرذوق احمد

محفلین
بہت اچھی بات شئر کی آپ نے مس سارہ بہت اچھا لگا
اب ئی بھی پڑھے
-----------------------------------------------------------------------------------
میری ڈائری جنید جمشید کا یہ گانا بہت ہی پسند ہے یقیناََ آپ لوگ بھی پسند کریں گے
----------------------------------------
اعتبار
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
ملو تو سہی راستہ کوئی مِل ہی جائے گا
چلو تو سہی ،،چلو تو سہی
دور میں کھڑا چل رہا ہوں میں
سایہ پوچھے یہ میرا جنوں
یہ میری جلن
ہے میری سزا
میری یہ تھکن
کہہ رہی ہے کیا
سنو تو سہی ۔۔سنو تو سہی
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
کیا ہوا اگر
زندگی ذرا اُلجھ سی گئی
سوچو تو ذرا
جنگلوں میں بھی
راستے تو ہیں
ہمیں بھی کوئی مِل ہی جائے گا
چلو تو سہی ،،چلو تو سہی
اعتبار بھی آ ہی جائے گا
 

ماوراء

محفلین
بہت خوب حجاب اور سارہ۔
1897029739450321b11bd84.gif
 

عمر سیف

محفلین
سارہ خان نے کہا:
زندگی
ہر دکھ ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے- جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنویں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی تو گوتم پر بھی ایک بھید کھلاتھا- جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوکتا ہے ، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے- نرواں ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔۔۔( آب گم - مشتاق احمد یوسفی )

خوب۔
 

علمدار

محفلین
ستم ایسے بھی ہوں گے....!!​

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظریاتی مملکت تصور کرتے ہیں.... اس کے آئین و قوانین کی پیروی کو اولین ترجیح دیتے ہیں.... خصوصاً انصاف کے تقاضوں کو بطریقِ احسن پورا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں.... لیکن جب آپ کی عدالتیں نیلام ہو جائیں تو پھر انصاف کی دستک کہاں دی جائے....!
گزشتہ دنوں عدلیہ پر شب خون مارنے کی جو مذموم سازش کی گئی.... اُس کی باز گشت اور مناظر کو وطنِ عزیز کے علاوہ.... بیرونِ ممالک میں بھی تحیّر کی نگاہ سے دیکھا گیا....! صرف یہی نہیں بلکہ ہماری بالغ نظری، اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے سارے بُت بھی چکنا چور ہوگئے....! شخصی آزادی کا تصور پارہ پارہ ہوا.... انصاف کے سب سے بڑے درجے پر فائز.... چیف جسٹس آف پاکستان کو بے بنیاد الزامات کا نشانہ بنا کر انصاف کی تحقیر و تذلیل کی گئی.... اور قوم سے کہا گیا کہ جو کچھ ہوا وہ آئینی تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ گویا قوم کے دفاع پر مامور افواجِ پاکستان کو.... عوام کے مدِمقابل لاکھڑا کیا گیا....! چیف جسٹس کی غیر آئینی و غیر قانونی معطلی نے ثابت کر دیا کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور جمہوریت بازیچہ اطفال ہے....!
ہم ایسے سیاہ بختوں کے مقسوم میں پاکستان ہمیشہ خطرناک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا....! دستور اور قانون کی حکمرانی کی بجائے فردِ واحد کی من مانی نے ہمیں آج پھر اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 16 کروڑ مسلمان عوام انصاف کے لیے بھگوان داس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں....!!
 

سارہ خان

محفلین
ضبط نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
زندگی
ہر دکھ ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا راز کھول دیتی ہے بودھ گیا کی چھاؤں تلے بدھ بھی ایک دکھ بھری تپسیا سے گزرے تھے- جب پیٹ پیٹھ سے لگ گیا، آنکھیں اندھے کنویں کی تہ میں بے نور ہوئیں اور ہڈیوں کی مالا میں بس سانس کی ڈوری اٹکی رہ گئی تو گوتم پر بھی ایک بھید کھلاتھا- جیسا اور جتنا اور جس کارن آدمی دکھ بھوکتا ہے ، ویسا ہی بھید اس پر کھلتا ہے- نرواں ڈھونڈنے والے کو نروان مل جاتا ہے اور جو دنیا کی خاطر کشٹ اٹھاتا ہے تو دنیا اس کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔۔۔( آب گم - مشتاق احمد یوسفی )

خوب۔
شکریہ ضبط۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
علمدار نے کہا:
ستم ایسے بھی ہوں گے....!!​

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظریاتی مملکت تصور کرتے ہیں.... اس کے آئین و قوانین کی پیروی کو اولین ترجیح دیتے ہیں.... خصوصاً انصاف کے تقاضوں کو بطریقِ احسن پورا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں.... لیکن جب آپ کی عدالتیں نیلام ہو جائیں تو پھر انصاف کی دستک کہاں دی جائے....!
گزشتہ دنوں عدلیہ پر شب خون مارنے کی جو مذموم سازش کی گئی.... اُس کی باز گشت اور مناظر کو وطنِ عزیز کے علاوہ.... بیرونِ ممالک میں بھی تحیّر کی نگاہ سے دیکھا گیا....! صرف یہی نہیں بلکہ ہماری بالغ نظری، اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے سارے بُت بھی چکنا چور ہوگئے....! شخصی آزادی کا تصور پارہ پارہ ہوا.... انصاف کے سب سے بڑے درجے پر فائز.... چیف جسٹس آف پاکستان کو بے بنیاد الزامات کا نشانہ بنا کر انصاف کی تحقیر و تذلیل کی گئی.... اور قوم سے کہا گیا کہ جو کچھ ہوا وہ آئینی تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ گویا قوم کے دفاع پر مامور افواجِ پاکستان کو.... عوام کے مدِمقابل لاکھڑا کیا گیا....! چیف جسٹس کی غیر آئینی و غیر قانونی معطلی نے ثابت کر دیا کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور جمہوریت بازیچہ اطفال ہے....!
ہم ایسے سیاہ بختوں کے مقسوم میں پاکستان ہمیشہ خطرناک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا....! دستور اور قانون کی حکمرانی کی بجائے فردِ واحد کی من مانی نے ہمیں آج پھر اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 16 کروڑ مسلمان عوام انصاف کے لیے بھگوان داس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں....!!
ھممم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب انصاف مانگنے ہم بھگوان کے پاس جائیں گے ۔۔۔ :?
 

سارہ خان

محفلین
دعا
دعا روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔۔۔دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہےجس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے ۔۔۔ دعا نہ مانگنے والے ہاتھ ان ریگستانوں کی طرح ہیں ۔۔ جن پر پانی کی بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گزر جاتے ہیں۔۔۔دعا تزکیہ نفس ہے ۔۔ دعا آرزو کا گہوارا ہے ۔۔ (خلیل جبران
)
 

فہیم

لائبریرین
سارہ خان نے کہا:
دعا
دعا روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔۔۔دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہےجس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے ۔۔۔ دعا نہ مانگنے والے ہاتھ ان ریگستانوں کی طرح ہیں ۔۔ جن پر پانی کی بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گزر جاتے ہیں۔۔۔دعا تزکیہ نفس ہے ۔۔ دعا آرزو کا گہوارا ہے ۔۔ (خلیل جبران
)

ہمممم
بہت خوب :)
 

سارہ خان

محفلین
fahim نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
دعا
دعا روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔۔۔دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہےجس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے ۔۔۔ دعا نہ مانگنے والے ہاتھ ان ریگستانوں کی طرح ہیں ۔۔ جن پر پانی کی بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گزر جاتے ہیں۔۔۔دعا تزکیہ نفس ہے ۔۔ دعا آرزو کا گہوارا ہے ۔۔ (خلیل جبران
)

ہمممم
بہت خوب :)
شکریہ۔۔۔ :)
 

عمر سیف

محفلین
سارہ خان نے کہا:
دعا
دعا روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔۔۔دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہےجس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے ۔۔۔ دعا نہ مانگنے والے ہاتھ ان ریگستانوں کی طرح ہیں ۔۔ جن پر پانی کی بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گزر جاتے ہیں۔۔۔دعا تزکیہ نفس ہے ۔۔ دعا آرزو کا گہوارا ہے ۔۔ (خلیل جبران
)

اچھا اقتباس ہے۔
 

سارہ خان

محفلین
ضبط نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
دعا
دعا روح اور آرزو کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔۔۔دینے اور لینے والے کے مابین ایک ایسے لمحے کی تخلیق کا پیش لفظ ہےجس میں خواہشوں کی تکمیل موجزن رہتی ہے ۔۔۔ دعا نہ مانگنے والے ہاتھ ان ریگستانوں کی طرح ہیں ۔۔ جن پر پانی کی بوند برسائے بغیر بادل تیزی سے گزر جاتے ہیں۔۔۔دعا تزکیہ نفس ہے ۔۔ دعا آرزو کا گہوارا ہے ۔۔ (خلیل جبران
)

اچھا اقتباس ہے۔
شکریہ
 

عمر سیف

محفلین
روایت ہے کہ ایک بار شیخ نجم الدین کبری ایک شہزادے کے قریب تشریف فرما تھے۔آپ کچھ پڑھ پڑھ کر اس پر دم کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں حکیم بُو علی سینا بھی آ گئے اور دیکھا کہ شیخ نجم الدین بڑی یکسوئی کے ساتھ بیمار شہزادے پر کچھ پڑھ پڑھ کر دَم کیے جا رہے ہیں۔
بُو علی سینا نے کہا ' اس سے کیا ہوتا ہے '۔

شیخ نے کہا ' آپ نادان اور جاہل ہیں '۔

یہ سُن کر بو علی سینا کا چہرہ متغیر ہوگیا۔
جناب نجم الدین نے یہ کیفیت دیکھی تو آہستہ سے کہا۔
' اب بتائے الفاظ کی تاثیر کا کچھ علم ہوا یا نہیں '۔
بو علی سینا نے کہا۔
' وہ تاثیر کیا ہے؟'۔
شیخ نے کہا۔ ' میں نے آپ کو نادان اور جاہل کہا تھا اور یہ الفاظ ہی ہیں جس سے آپ کا چہرہ سُرخ اور دورانِ خون تیز ہوگیا تھا'۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:4f5688ca5e]ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے اہلِ محفل سے فرمایا کہ " پانچ لوگوں کی محفل سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیئے۔اوّل کسی جھوٹے سے کہ اس کی معیت میں انسان مکروفریب میں مبتلا ہو کر ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
دوئم یہ کہ بے وقوف سے دور رہنا چاہیئے کیونکہ وہ جس قدر آپ کا فائدہ سوچے گا اتنا ہی آپ کا نقصان کرے گا۔
سوم کسی کنجوس آدمی کو بھی قریب نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ اُس کی صحبت سے قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
چہارم کسی بزدل کی دوستی سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور مصیبت کے وقت میں دھوکہ دے سکتا ہے“ ۔آخر میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ " جہاں تک ممکن ہو سکے فاسق آدمی سے بھی دور رہو کیونکہ وہ صرف نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر دوسروں کو مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے۔“
ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جوکہ دوستیاں قائم کرتے ہوئے ، تعلقات بناتے ہوئے ان اہم پہلوؤں پر غور کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ شائد بلکل نہیں کیونکہ ہم میں سے بیشتر افراد فوری فوائد پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کا مطمعء نظریہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرا خواہ کیسا بھی ہو ہم تو اچھے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی پہچان ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے دوستوں کا حلقہ اچھا ہے تو پھر آپ کی شخصیت کے بارے میں کچھ زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہوتی کہ بہت سارے لوگوں میں وقت گزار کر بہرحال آپ اچھی باتیں ہی سیکھتے ہیں اور خود کو بری عادتوں سے محفوظ رکھتے ہیں یا کم از کم رکھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان خود کو بری عادتوں سے دور رکھے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دانشمند وہ ہے جو اچھی اور بری باتوں میں تمیز کر سکتا ہو مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ اگر کوئی انسان کسی جانور کی خدمت کرتا رہے ، اس سے پیار و محبت سے پیش آتا رہے ، اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے تو جواب میں جانور اسے کبھی ایذا نہیں پہنچاتا لیکن اُس کے برعکس جو شخص جانوروں کو تکلیف و اذیت پہنچاتا ہے اسے جانور کاٹ کھاتے ہیں اور نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے لہٰذا دانشمند وہ ہے جو بھلائی کے دو کاموں میں سے بہتر بھلائی کا اندازہ کر سکتا ہو اور دو برائیوں میں سے مصلحتاً کم برائی کو قبول کرے۔“ دوستیاں اور روابط استوار کرتے ہوئے اس دانشمندی کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں تاکہ زندگی کی دوڑ میں نہ صرف قدم سے قدم ملا کر چل سکیں بلکہ ایک کامیاب ہی نہیں اچھے انسان بھی سمجھے جائیں۔
دوستیاں یوں بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں ، بچپن میں آپ کے دوست کچھ اور جبکہ اسکول اور کالج میں کچھ اور پھر پروفیشنل کیرئیر میں کچھ اور ہوتے ہیں ۔ان میں سے بچپن کے دور کی دوستی خاصی پائیدار ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح قائم رہتی ہیں جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان میں کوئی غرض کوئی مفاد اور کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ایسی دوستیوں میں آگے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے مگر اس کے بعد کی دوستیاں وقتی اور کسی حد تک مفادات سے منسلک ہوتی ہیں جن کا ٹوٹ جانا اور ختم ہو جانا کوئی حیران کُن امر نہیں ہوتا۔اس حصّے میں ہمیں دوستوں کے روپ میں‌کچھ اچھے لوگ بھی ملتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کا تذکرہ ابتدائی سطروں میں کیا گیا ہے۔اور جوں جوں کسی کو سمجھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے تو دوستی کا رشتہ گہرا یا بصورتِ دیگر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہ بھی بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ دوستی کا اصل امتحان برے وقت میں ہوتا ہے ورنہ اچھے وقتوں میں تو سب ہی آپ کے ارد گِرد موجود رہتے ہیں۔
داناؤں نے برسہابرس پہلے جو باتیں کہیں انہیں آج بھی وہی درجہ حاصل ہے جو کہ اُن کے وقتوں میں تھا۔زمانے بدل گئے ہیں لیکن فطرتِ انسانی بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہے ۔ان تمام باتوں کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوتا ہے مگر ہم اُس کا احساس نہیں کر پاتے ۔ذرا اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں اور مختلف ادوار میں بننے والی دوستیوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ آج اُن میں سے کتنی قائم ہیں ،کتنی کیوں اور کیسے ختم ہوئیں تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی کم و بیش وہی پانچ وجوہات تھیں جن کا اوپر تذکرہ آیا ہے ۔اس لیئے دوستوں کے حوالے سے محتاط رہیں اور لوگوں سے تعلقات استوار کرتے وقت محض وقتی فائدہ ہی ملحوظِ خاطر نہ رکھیں بلکہ اچھی طرح چھان پھٹک کریں کیونکہ ،" دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔“( ریاض احمد منصوری کی تحریر)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:4f5688ca5e]
 
Top