میری ڈائری کا ایک ورق

ماوراء

محفلین
زبردست حجاب!!!!



[align=justify:d32b3c29f1]محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔

انا دنیا پر قبضہ جمانے کا پروگرام بناتی ہے۔ یہ موت سے غایت درجہ خوف کھاتی ہے۔ اس لیے زندگی پر پورا پورا قبضہ حاصل کرنے کا پلان وضع کرتی ہے۔ انا دنیاوی اشیاء کے اندر پرورش پاتی ہے اور مزید زندہ رہنے کے لیے روحانی برتری میں نشوونما حاصل کرنے لگتی ہے۔ اس دنیا کی غلامی اور چاکری کی ڈور انا کے ساتھ بندھی ہے۔ انا خود غلامی ہے، خود محکومی ہے۔ انا کو آزاد کرانا اور اسے غلامی سے نجات دلانا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو خود کو انا کی غلامی اور محکومی سے آزاد کرانا ہے۔ یاد رکھئے انا کبھی بھی اپنایت سے، قربانی سے، مذہب سے، علم سے، علم سے خوفزدہ نہیں ہوتی بلکہ ان سب کے لیے تن من کی بازی لگا دیتی ہے۔ انا اگر خوفزدہ ہے تو صرف محبت سے۔

اشفاق احمد ۔ زاویہ سوم
[/align:d32b3c29f1]
 

ماوراء

محفلین
[align=justify:e305ef6d2d]“محبت!“ اس ایک لفظ میں انسان کے خدا پہنچنے کا راز پوشیدہ ہے اور اس ایک لفظ کے اندر ہی ساری کائنات ہے۔ لیکن! ایک بات یاد رکھنا کہ محبت تم اسی وقت کر سکو گے جب تم اندر سے خوش اور پرباش ہو گے۔ محبت جھنڈی نہیں ہے کہ گھر کے باہر لگا لی یا تمغہ نہیں ہے کہ سینے پر سجا لیا۔ یا پگڑی نہیں ہے کہ خوب کلف لگا کر سر پر باندھ لی‘ دستار محبت! یہ تو تمھاری روح ہے تمھارے اندر کا اندر۔ اور تمھاری آتما کی آتما ہے۔ اس کو تو دریافت کرنا پڑے گا۔ ڈھونڈنا پڑے گا‘ اس کی کھوج لگانی ہو گی۔ یہ عائد نہیں کی جاتی‘ اندر سے باہر لائی جاتی ہے۔

اشفاق احمد۔
[/align:e305ef6d2d]
 

ماوراء

محفلین
تو میں نےکیا لکھا ہے پوچھنے کے متعلق؟؟ :roll:
---------------------------------------------------------



[align=justify:fe9e1a45cf]ایک بات زندگی بھر یاد رکھنا اور وہ یہ کہ کسی کو دھوکا دینا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے وہ مرتا نہیں ہے۔ گھوم پھر کر ایک روز واپس آپ کے پاس ہی پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بڑی محبت ہے اور وہ اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر کہیں رہ نہیں سکتا۔

اشفاق احمد۔[/align:fe9e1a45cf]
 

حجاب

محفلین
ماوراء نے کہا:
زبردست حجاب!!!!



[align=justify:3dd02d1cd6]محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔

انا دنیا پر قبضہ جمانے کا پروگرام بناتی ہے۔ یہ موت سے غایت درجہ خوف کھاتی ہے۔ اس لیے زندگی پر پورا پورا قبضہ حاصل کرنے کا پلان وضع کرتی ہے۔ انا دنیاوی اشیاء کے اندر پرورش پاتی ہے اور مزید زندہ رہنے کے لیے روحانی برتری میں نشوونما حاصل کرنے لگتی ہے۔ اس دنیا کی غلامی اور چاکری کی ڈور انا کے ساتھ بندھی ہے۔ انا خود غلامی ہے، خود محکومی ہے۔ انا کو آزاد کرانا اور اسے غلامی سے نجات دلانا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو خود کو انا کی غلامی اور محکومی سے آزاد کرانا ہے۔ یاد رکھئے انا کبھی بھی اپنایت سے، قربانی سے، مذہب سے، علم سے، علم سے خوفزدہ نہیں ہوتی بلکہ ان سب کے لیے تن من کی بازی لگا دیتی ہے۔ انا اگر خوفزدہ ہے تو صرف محبت سے۔

اشفاق احمد ۔ زاویہ سوم
[/align:3dd02d1cd6]

بہت خوب اچھا اقتباس ہے ماوراء ۔
 

سارہ خان

محفلین
ماوراء نے کہا:
[align=justify:4cccd72975]“محبت!“ اس ایک لفظ میں انسان کے خدا پہنچنے کا راز پوشیدہ ہے اور اس ایک لفظ کے اندر ہی ساری کائنات ہے۔ لیکن! ایک بات یاد رکھنا کہ محبت تم اسی وقت کر سکو گے جب تم اندر سے خوش اور پرباش ہو گے۔ محبت جھنڈی نہیں ہے کہ گھر کے باہر لگا لی یا تمغہ نہیں ہے کہ سینے پر سجا لیا۔ یا پگڑی نہیں ہے کہ خوب کلف لگا کر سر پر باندھ لی‘ دستار محبت! یہ تو تمھاری روح ہے تمھارے اندر کا اندر۔ اور تمھاری آتما کی آتما ہے۔ اس کو تو دریافت کرنا پڑے گا۔ ڈھونڈنا پڑے گا‘ اس کی کھوج لگانی ہو گی۔ یہ عائد نہیں کی جاتی‘ اندر سے باہر لائی جاتی ہے۔

اشفاق احمد۔
[/align:4cccd72975]

:great:
 

سارہ خان

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:04e4b82660]ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے اہلِ محفل سے فرمایا کہ " پانچ لوگوں کی محفل سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیئے۔اوّل کسی جھوٹے سے کہ اس کی معیت میں انسان مکروفریب میں مبتلا ہو کر ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
دوئم یہ کہ بے وقوف سے دور رہنا چاہیئے کیونکہ وہ جس قدر آپ کا فائدہ سوچے گا اتنا ہی آپ کا نقصان کرے گا۔
سوم کسی کنجوس آدمی کو بھی قریب نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ اُس کی صحبت سے قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
چہارم کسی بزدل کی دوستی سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور مصیبت کے وقت میں دھوکہ دے سکتا ہے“ ۔آخر میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ " جہاں تک ممکن ہو سکے فاسق آدمی سے بھی دور رہو کیونکہ وہ صرف نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر دوسروں کو مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے۔“
ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جوکہ دوستیاں قائم کرتے ہوئے ، تعلقات بناتے ہوئے ان اہم پہلوؤں پر غور کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ شائد بلکل نہیں کیونکہ ہم میں سے بیشتر افراد فوری فوائد پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کا مطمعء نظریہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرا خواہ کیسا بھی ہو ہم تو اچھے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی پہچان ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے دوستوں کا حلقہ اچھا ہے تو پھر آپ کی شخصیت کے بارے میں کچھ زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہوتی کہ بہت سارے لوگوں میں وقت گزار کر بہرحال آپ اچھی باتیں ہی سیکھتے ہیں اور خود کو بری عادتوں سے محفوظ رکھتے ہیں یا کم از کم رکھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان خود کو بری عادتوں سے دور رکھے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دانشمند وہ ہے جو اچھی اور بری باتوں میں تمیز کر سکتا ہو مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ اگر کوئی انسان کسی جانور کی خدمت کرتا رہے ، اس سے پیار و محبت سے پیش آتا رہے ، اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے تو جواب میں جانور اسے کبھی ایذا نہیں پہنچاتا لیکن اُس کے برعکس جو شخص جانوروں کو تکلیف و اذیت پہنچاتا ہے اسے جانور کاٹ کھاتے ہیں اور نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے لہٰذا دانشمند وہ ہے جو بھلائی کے دو کاموں میں سے بہتر بھلائی کا اندازہ کر سکتا ہو اور دو برائیوں میں سے مصلحتاً کم برائی کو قبول کرے۔“ دوستیاں اور روابط استوار کرتے ہوئے اس دانشمندی کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں تاکہ زندگی کی دوڑ میں نہ صرف قدم سے قدم ملا کر چل سکیں بلکہ ایک کامیاب ہی نہیں اچھے انسان بھی سمجھے جائیں۔
دوستیاں یوں بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں ، بچپن میں آپ کے دوست کچھ اور جبکہ اسکول اور کالج میں کچھ اور پھر پروفیشنل کیرئیر میں کچھ اور ہوتے ہیں ۔ان میں سے بچپن کے دور کی دوستی خاصی پائیدار ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح قائم رہتی ہیں جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان میں کوئی غرض کوئی مفاد اور کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ایسی دوستیوں میں آگے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے مگر اس کے بعد کی دوستیاں وقتی اور کسی حد تک مفادات سے منسلک ہوتی ہیں جن کا ٹوٹ جانا اور ختم ہو جانا کوئی حیران کُن امر نہیں ہوتا۔اس حصّے میں ہمیں دوستوں کے روپ میں‌کچھ اچھے لوگ بھی ملتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کا تذکرہ ابتدائی سطروں میں کیا گیا ہے۔اور جوں جوں کسی کو سمجھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے تو دوستی کا رشتہ گہرا یا بصورتِ دیگر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہ بھی بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ دوستی کا اصل امتحان برے وقت میں ہوتا ہے ورنہ اچھے وقتوں میں تو سب ہی آپ کے ارد گِرد موجود رہتے ہیں۔
داناؤں نے برسہابرس پہلے جو باتیں کہیں انہیں آج بھی وہی درجہ حاصل ہے جو کہ اُن کے وقتوں میں تھا۔زمانے بدل گئے ہیں لیکن فطرتِ انسانی بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہے ۔ان تمام باتوں کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوتا ہے مگر ہم اُس کا احساس نہیں کر پاتے ۔ذرا اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں اور مختلف ادوار میں بننے والی دوستیوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ آج اُن میں سے کتنی قائم ہیں ،کتنی کیوں اور کیسے ختم ہوئیں تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی کم و بیش وہی پانچ وجوہات تھیں جن کا اوپر تذکرہ آیا ہے ۔اس لیئے دوستوں کے حوالے سے محتاط رہیں اور لوگوں سے تعلقات استوار کرتے وقت محض وقتی فائدہ ہی ملحوظِ خاطر نہ رکھیں بلکہ اچھی طرح چھان پھٹک کریں کیونکہ ،" دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔“( ریاض احمد منصوری کی تحریر)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:04e4b82660]
ھمم اچھی نصیحت ہے حجاب ۔۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت محمد شمس الدین حنفی رح مصر کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ بڑے قیمتی اور فاخرہ لباس پہنتے تھے۔ ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا، “ یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ اولیا اللہ ایسے فاخرہ لباس زیبِ تن کریں۔ میں ایک غریب شخص ہوں۔ اگر اپنا لباس مجھے عطا کر دیں تو میں اپنی بیوی بچوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لوں گا۔“

آپ نے اپنا لباسِ فاخرہ اتار کر اسے دے دیا۔ وہ اسے بیچنے کے لیے بازار لے گیا۔ وہاں سے حضرت کا کوئی مرید گزر رہا تھا۔ اس نے لباس دیکھ کر سوچا کہ ایسا عمدہ لباس تو حضرت کے جسم پر ہونا چاہیے۔ اور اسے خرید کر انہیں ہدیہ کر دیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حجاب نے کہا:
[align=right:825042f9a7]ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے اہلِ محفل سے فرمایا کہ " پانچ لوگوں کی محفل سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیئے۔اوّل کسی جھوٹے سے کہ اس کی معیت میں انسان مکروفریب میں مبتلا ہو کر ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
دوئم یہ کہ بے وقوف سے دور رہنا چاہیئے کیونکہ وہ جس قدر آپ کا فائدہ سوچے گا اتنا ہی آپ کا نقصان کرے گا۔
سوم کسی کنجوس آدمی کو بھی قریب نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ اُس کی صحبت سے قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
چہارم کسی بزدل کی دوستی سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اور مصیبت کے وقت میں دھوکہ دے سکتا ہے“ ۔آخر میں امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ " جہاں تک ممکن ہو سکے فاسق آدمی سے بھی دور رہو کیونکہ وہ صرف نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر دوسروں کو مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے۔“
ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جوکہ دوستیاں قائم کرتے ہوئے ، تعلقات بناتے ہوئے ان اہم پہلوؤں پر غور کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ شائد بلکل نہیں کیونکہ ہم میں سے بیشتر افراد فوری فوائد پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کا مطمعء نظریہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرا خواہ کیسا بھی ہو ہم تو اچھے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی پہچان ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے دوستوں کا حلقہ اچھا ہے تو پھر آپ کی شخصیت کے بارے میں کچھ زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہوتی کہ بہت سارے لوگوں میں وقت گزار کر بہرحال آپ اچھی باتیں ہی سیکھتے ہیں اور خود کو بری عادتوں سے محفوظ رکھتے ہیں یا کم از کم رکھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان خود کو بری عادتوں سے دور رکھے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دانشمند وہ ہے جو اچھی اور بری باتوں میں تمیز کر سکتا ہو مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ اگر کوئی انسان کسی جانور کی خدمت کرتا رہے ، اس سے پیار و محبت سے پیش آتا رہے ، اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے تو جواب میں جانور اسے کبھی ایذا نہیں پہنچاتا لیکن اُس کے برعکس جو شخص جانوروں کو تکلیف و اذیت پہنچاتا ہے اسے جانور کاٹ کھاتے ہیں اور نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے لہٰذا دانشمند وہ ہے جو بھلائی کے دو کاموں میں سے بہتر بھلائی کا اندازہ کر سکتا ہو اور دو برائیوں میں سے مصلحتاً کم برائی کو قبول کرے۔“ دوستیاں اور روابط استوار کرتے ہوئے اس دانشمندی کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں تاکہ زندگی کی دوڑ میں نہ صرف قدم سے قدم ملا کر چل سکیں بلکہ ایک کامیاب ہی نہیں اچھے انسان بھی سمجھے جائیں۔
دوستیاں یوں بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں ، بچپن میں آپ کے دوست کچھ اور جبکہ اسکول اور کالج میں کچھ اور پھر پروفیشنل کیرئیر میں کچھ اور ہوتے ہیں ۔ان میں سے بچپن کے دور کی دوستی خاصی پائیدار ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح قائم رہتی ہیں جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان میں کوئی غرض کوئی مفاد اور کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ایسی دوستیوں میں آگے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے مگر اس کے بعد کی دوستیاں وقتی اور کسی حد تک مفادات سے منسلک ہوتی ہیں جن کا ٹوٹ جانا اور ختم ہو جانا کوئی حیران کُن امر نہیں ہوتا۔اس حصّے میں ہمیں دوستوں کے روپ میں‌کچھ اچھے لوگ بھی ملتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کا تذکرہ ابتدائی سطروں میں کیا گیا ہے۔اور جوں جوں کسی کو سمجھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے تو دوستی کا رشتہ گہرا یا بصورتِ دیگر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہ بھی بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ دوستی کا اصل امتحان برے وقت میں ہوتا ہے ورنہ اچھے وقتوں میں تو سب ہی آپ کے ارد گِرد موجود رہتے ہیں۔
داناؤں نے برسہابرس پہلے جو باتیں کہیں انہیں آج بھی وہی درجہ حاصل ہے جو کہ اُن کے وقتوں میں تھا۔زمانے بدل گئے ہیں لیکن فطرتِ انسانی بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہے ۔ان تمام باتوں کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوتا ہے مگر ہم اُس کا احساس نہیں کر پاتے ۔ذرا اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں اور مختلف ادوار میں بننے والی دوستیوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ آج اُن میں سے کتنی قائم ہیں ،کتنی کیوں اور کیسے ختم ہوئیں تو اندازہ ہوگا کہ اُن کی کم و بیش وہی پانچ وجوہات تھیں جن کا اوپر تذکرہ آیا ہے ۔اس لیئے دوستوں کے حوالے سے محتاط رہیں اور لوگوں سے تعلقات استوار کرتے وقت محض وقتی فائدہ ہی ملحوظِ خاطر نہ رکھیں بلکہ اچھی طرح چھان پھٹک کریں کیونکہ ،" دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔“( ریاض احمد منصوری کی تحریر)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:825042f9a7]


بہت اچھی تحریر ہے حجاب بہت اچھا انتخاب !
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ماوراء نے کہا:
[align=justify:1b6abe4398]“محبت!“ اس ایک لفظ میں انسان کے خدا پہنچنے کا راز پوشیدہ ہے اور اس ایک لفظ کے اندر ہی ساری کائنات ہے۔ لیکن! ایک بات یاد رکھنا کہ محبت تم اسی وقت کر سکو گے جب تم اندر سے خوش اور پرباش ہو گے۔ محبت جھنڈی نہیں ہے کہ گھر کے باہر لگا لی یا تمغہ نہیں ہے کہ سینے پر سجا لیا۔ یا پگڑی نہیں ہے کہ خوب کلف لگا کر سر پر باندھ لی‘ دستار محبت! یہ تو تمھاری روح ہے تمھارے اندر کا اندر۔ اور تمھاری آتما کی آتما ہے۔ اس کو تو دریافت کرنا پڑے گا۔ ڈھونڈنا پڑے گا‘ اس کی کھوج لگانی ہو گی۔ یہ عائد نہیں کی جاتی‘ اندر سے باہر لائی جاتی ہے۔

اشفاق احمد۔
[/align:1b6abe4398]

بہت اچھا انتخاب ماوراء بہت اچھا لگا پڑھنا !
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
حضرت محمد شمس الدین حنفی رح مصر کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ بڑے قیمتی اور فاخرہ لباس پہنتے تھے۔ ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا، “ یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ اولیا اللہ ایسے فاخرہ لباس زیبِ تن کریں۔ میں ایک غریب شخص ہوں۔ اگر اپنا لباس مجھے عطا کر دیں تو میں اپنی بیوی بچوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لوں گا۔“

آپ نے اپنا لباسِ فاخرہ اتار کر اسے دے دیا۔ وہ اسے بیچنے کے لیے بازار لے گیا۔ وہاں سے حضرت کا کوئی مرید گزر رہا تھا۔ اس نے لباس دیکھ کر سوچا کہ ایسا عمدہ لباس تو حضرت کے جسم پر ہونا چاہیے۔ اور اسے خرید کر انہیں ہدیہ کر دیا۔

شمشاد بھائی آپ کے توسط سے دوبارہ پڑھنے کو ملی یہ روایت۔

یہ دھاگہ تو بہت دلچسپ ہے بہت اچھا لگ رہا ہے پڑھنا !
 

سارہ خان

محفلین
شمشاد نے کہا:
حضرت محمد شمس الدین حنفی رح مصر کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ بڑے قیمتی اور فاخرہ لباس پہنتے تھے۔ ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا، “ یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ اولیا اللہ ایسے فاخرہ لباس زیبِ تن کریں۔ میں ایک غریب شخص ہوں۔ اگر اپنا لباس مجھے عطا کر دیں تو میں اپنی بیوی بچوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لوں گا۔“

آپ نے اپنا لباسِ فاخرہ اتار کر اسے دے دیا۔ وہ اسے بیچنے کے لیے بازار لے گیا۔ وہاں سے حضرت کا کوئی مرید گزر رہا تھا۔ اس نے لباس دیکھ کر سوچا کہ ایسا عمدہ لباس تو حضرت کے جسم پر ہونا چاہیے۔ اور اسے خرید کر انہیں ہدیہ کر دیا۔
بہت اچھا انتخاب ۔۔۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
فرصت میں شروع سے پڑھیے گا، بعض بعض جگہ بہت اچھی اچھی باتیں اور بہت اچھے اچھے اقتباسات ہیں۔
 

عمر سیف

محفلین
شمشاد نے کہا:
حضرت محمد شمس الدین حنفی رح مصر کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ بڑے قیمتی اور فاخرہ لباس پہنتے تھے۔ ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا، “ یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ اولیا اللہ ایسے فاخرہ لباس زیبِ تن کریں۔ میں ایک غریب شخص ہوں۔ اگر اپنا لباس مجھے عطا کر دیں تو میں اپنی بیوی بچوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لوں گا۔“

آپ نے اپنا لباسِ فاخرہ اتار کر اسے دے دیا۔ وہ اسے بیچنے کے لیے بازار لے گیا۔ وہاں سے حضرت کا کوئی مرید گزر رہا تھا۔ اس نے لباس دیکھ کر سوچا کہ ایسا عمدہ لباس تو حضرت کے جسم پر ہونا چاہیے۔ اور اسے خرید کر انہیں ہدیہ کر دیا۔
اچھا اقتباس ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب
زرگ۔۔۔۔زشت
سے ماخوذ

خان سیف الملوک خاں کی زبانی:

میرا دادا خان غلام قادر خان شیر دل اور غیرت مند پٹھان تھا۔ ایک دفعہ کسی کام سے دَرّہ گیا۔ وہاں ایک حجرے کے سامنے چارپائی پر شمروز خاں چادر تانے قیلولہ کررہا تھا۔ مہمند قبیلے کا سردار اور قدیم شناسا تھا۔ میرے دادا نے سلام کیا مگر اس نے لیٹے لیٹے ہی پخیر راغلے! کہہ کر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھادیا۔ قبائلی آداب کے مطابق تعظیم کو نہ اٹھا۔
میرا دادا اس ہتک سے بہت کبیدہ خاطر ہوا۔ اس کے دو ماہ بعد کا ذکر ہے۔ بارش کے دن تھے۔ دادا غلام قادر خان کچّی سڑک پر کھڑا خوانین سے ہنس بول رہا تھا کہ سامنے سے شمروز خان کیچڑ میں پھچاپھچ کرتا، آتا ہوا دکھائی دیا۔ دادا وہیں چادر اوڑھ کر کیچڑ میں لیٹ گیا۔ لوگوں نے پوچھا غلام قادر خان خیر تو ہے؟ دادا نے جواب دیا۔ اس کا خانہ خراب ہو۔ شمروز خان نے مجھ سے لیٹے لیٹے ہاتھ ملایا تھا۔ میں بھی لیٹے لیٹے ہی ملاؤں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مشتاق یوسفی کی کیا ہی بات ہے۔

لگتا ہے فہیم آپ بھی سلسلہ یوسفیہ کے مرید بن جائیں گے۔

ایسا کریں اس کتاب سے روزانہ تھوڑا تھوڑا اقتباس لکھتے رہا کریں۔
 
Top