سیما علی
لائبریرین
خواجہ نظامُ الدین اولیاؒ کی خانقاہ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے باپ کے ساتھ آیا باپ بیٹے کو اندر لے جانا چاہتا تھا لیکن بیٹے نے اندر جانے سے انکار کر دیا اور باپ سے کہا۔ ” آپ اندر تشریف لے جائیں، میں یہیں باہر کھڑا آپ کا انتظار کرتا ہُوں۔ “باپ نے مزید اصرار نہیں کیا بلکہ اندر چلا گیا۔ باپ کے جاتے ہی اُس لڑکے نے فوراً ایک منظوم رقعہ لکھا جس میں فارسی کے دو شعر اسی وقت موزوں کیے تھے۔
-
تو آں شاہی کہ برایوان قصرت کبوترگر نشیند بازباز گردو
غریبے مستمند سے برور آمد بیاید اندروں یا باز گردو
-
ترجمہ : تم بادشاہ ہو کہ اگر تمھارے محل پر کبوتر بیٹھے تو باز بن جائے ، ایک غریب حاجب مند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آئے یا واپس جائے۔
-
منظوم رقعہ اندر گیا اور اسی وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا لکھا ہوا منظوم جواب آ گیا۔
-
در آید گر بود مرد حقیقت کہ باما ہم نفس ھم راز گردو
اگر ابلہ بودآں مرد ناداں ازاں راہے کہ آمد باز گردو۔
-
اگر اُمید وار حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے اور ہمارا ہم دم و ہمراز بنے اور اگر ابلہ و ناداں ہے تو جس راہ سے آیا ہے ، اسی سے واپس جائے۔”
-
جواب پاتے ہی یہ لڑکا اندر، خواجہ نظام الدّین اولیا کے پاس چلا گیا اور امیر خسرو ؒ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی_______ یہ مُرشد سے عشق ہی تھا کہ حضرت خواجه نظام الدین اولیا رحمة اللّٰه علیہ کو حضرت امیر خُسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اتنی مُحبّت ہوگئی کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اِجازت ہوتی تو میں یہ وصیت کرتا کہ امیر خُسرو کو بھی میری ہی قبر میں دفن کیا جائے جبکہ یہ وصیت بھی فرمائی کہ خسرو رحمة اللّٰه علیہ کی قبر میرے پہلو میں ہونی چاہیے_____ حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے امیر خسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اپنی بے پایاں اُنسیت کے باعث یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد خسرو رحمة اللّٰه علیہ میری تُربت کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جِسم بے تاب ہو کر قبر سے باہر آجائے گا_______
حضرت نظام الدین اولیاء رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ جب روزِ حشر سوال ہوگا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا ہے تو خُسرو کو پیش کر دوں گا
یہ سُنتے ہی امیر خسروؒ نے ایک چیخ ماری اور وہ مرشد کے گرد طواف کرنے لگے۔ ان پر وجد کا عالم طاری تھا۔
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلویؒ)
میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
اور حضرت نظام الدین اولیا حضرت امیر خسرو کو ترک اللہ کہہ کر پکارتے اور امیر خسرو کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے کہ اے باری تعالیٰ اس ترک کے سینے میں جو آگ روشن ہے اس کی بدولت مجھے بخش دے، امیر خسرو پر اپنے پیر و مرشد کی صحبت کا اتنا اثر تھا کہ برسوں صائم الدہر رہے اورعشق الٰہی کی ایسی سوزش تھی کہ سینے پر سے کپڑا ایسا ہو جاتا تھا کہ گویا جل گیا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اولیائے اللہ کے نقشِ قدم پر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے__اور اُس مبارک سوز کے چند قطرے ہمیں بھی عطا فرمائے__________آمین ثم آمین۔۔۔
-
تو آں شاہی کہ برایوان قصرت کبوترگر نشیند بازباز گردو
غریبے مستمند سے برور آمد بیاید اندروں یا باز گردو
-
ترجمہ : تم بادشاہ ہو کہ اگر تمھارے محل پر کبوتر بیٹھے تو باز بن جائے ، ایک غریب حاجب مند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آئے یا واپس جائے۔
-
منظوم رقعہ اندر گیا اور اسی وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا لکھا ہوا منظوم جواب آ گیا۔
-
در آید گر بود مرد حقیقت کہ باما ہم نفس ھم راز گردو
اگر ابلہ بودآں مرد ناداں ازاں راہے کہ آمد باز گردو۔
-
اگر اُمید وار حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے اور ہمارا ہم دم و ہمراز بنے اور اگر ابلہ و ناداں ہے تو جس راہ سے آیا ہے ، اسی سے واپس جائے۔”
-
جواب پاتے ہی یہ لڑکا اندر، خواجہ نظام الدّین اولیا کے پاس چلا گیا اور امیر خسرو ؒ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی_______ یہ مُرشد سے عشق ہی تھا کہ حضرت خواجه نظام الدین اولیا رحمة اللّٰه علیہ کو حضرت امیر خُسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اتنی مُحبّت ہوگئی کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اِجازت ہوتی تو میں یہ وصیت کرتا کہ امیر خُسرو کو بھی میری ہی قبر میں دفن کیا جائے جبکہ یہ وصیت بھی فرمائی کہ خسرو رحمة اللّٰه علیہ کی قبر میرے پہلو میں ہونی چاہیے_____ حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے امیر خسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اپنی بے پایاں اُنسیت کے باعث یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد خسرو رحمة اللّٰه علیہ میری تُربت کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جِسم بے تاب ہو کر قبر سے باہر آجائے گا_______
حضرت نظام الدین اولیاء رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ جب روزِ حشر سوال ہوگا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا ہے تو خُسرو کو پیش کر دوں گا
یہ سُنتے ہی امیر خسروؒ نے ایک چیخ ماری اور وہ مرشد کے گرد طواف کرنے لگے۔ ان پر وجد کا عالم طاری تھا۔
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلویؒ)
میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
اور حضرت نظام الدین اولیا حضرت امیر خسرو کو ترک اللہ کہہ کر پکارتے اور امیر خسرو کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے کہ اے باری تعالیٰ اس ترک کے سینے میں جو آگ روشن ہے اس کی بدولت مجھے بخش دے، امیر خسرو پر اپنے پیر و مرشد کی صحبت کا اتنا اثر تھا کہ برسوں صائم الدہر رہے اورعشق الٰہی کی ایسی سوزش تھی کہ سینے پر سے کپڑا ایسا ہو جاتا تھا کہ گویا جل گیا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اولیائے اللہ کے نقشِ قدم پر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے__اور اُس مبارک سوز کے چند قطرے ہمیں بھی عطا فرمائے__________آمین ثم آمین۔۔۔