شمشاد
لائبریرین
جو پُورے ہونے سے رہ گئے تھے وہ خواب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
یقین مانو، پرانی رُت کے گلاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
تمہارے لفظوں کی دھیمی خوشبو حواسِ خمسہ کو نوچتی ہے،
خطوں کی صورت میں سچ کہوں تو عذاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
وصال لمحوں کا گوشوارہ الگ سے لکّھا ہے ڈائری میں
الگ سے فُرقت کی بے بسی کے حساب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
ہمیں پڑھانا ہے اپنے بچّوں کو اپنی نسلیں سنوارنی ہیں
اسی لئے تو ہم اپنی حالت خراب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
یقین مانو، پرانی رُت کے گلاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
تمہارے لفظوں کی دھیمی خوشبو حواسِ خمسہ کو نوچتی ہے،
خطوں کی صورت میں سچ کہوں تو عذاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
وصال لمحوں کا گوشوارہ الگ سے لکّھا ہے ڈائری میں
الگ سے فُرقت کی بے بسی کے حساب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
ہمیں پڑھانا ہے اپنے بچّوں کو اپنی نسلیں سنوارنی ہیں
اسی لئے تو ہم اپنی حالت خراب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں