کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔
اصل محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمابرداری کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اپنے محبوب کو جیسا کرتے پایا خاموشی سے ویسا ہی کرتے چلے جانا اُسے اپنے محبوب کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور وہ اس کی ناراضگی سے بچتا ہے اور ہر وقت ہر محفل میں اپنے محبوب کا تذکرہ کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس ہوتی ہے۔ محبت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے تو اس میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟
لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میںہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ"۔
اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالیٰ کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جا نگزیر فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔کی سوچ اور فکر کو بھی آگے پہنچایا جاتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن کو آگے پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتی ہیں اور جس کی بے شمار مثالیں ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہیں ۔
میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟
لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میںہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ"۔
اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالیٰ کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جا نگزیر فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
حب رسول ﷺ ، تقاضے کیا ہیں ؟