میری ڈائری کا ایک ورق

نسبی رشتے اور اخلاقی رشتے.!
"..... اے میرے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں ہے، بیشک تیرا وعدہ سچا ہے......... اللہ نے کہا اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں نہیں. اس کے کام خراب ہیں.
پس مجھ سے اس چیز کے لئے سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں. میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ بنو.... (45، 46 ھود)
طوفان نوح (علیہ السلام) میں جو لوگ غرق ہوئے ان میں خود حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان بھی تھا.
حضرت نوح علیہ السلام نے اس کو اپنی کشتی میں بٹھانا چاہا، مگر اس کے لئے ڈوبنا مقدر تھا..... اس لئے وہ نہ بیٹھا. پھر انہوں نے اس کے بچاؤ کے لئے خدا سے دعا کی تو جواب ملا کہ یہ نادانی کا سوال ہے، ایسے سوالات نہ کرو.
اصل یہ ہے کہ اللہ کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں ہوتا کہ جو لوگ بزرگوں کی اولاد ہیں... یا جو کسی حضرت کا دامن تھامے ہوئے ہیں ان سب کو نجات یافتہ قرار دے کر جنتوں میں داخل کر دیا جائے.
خدا کے یہاں نجات کا فیصلہ خالص عمل کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ نسبی یا گروہی تعلق کی بنیاد پر.
دنیا میں اگر نسبی رشتہ کا اعتبار ہے تو آخرت میں اخلاقی رشتہ کا اعتبار.
طوفان نوح علیہ السلام اسی لئے آیا تھا کہ انسانوں کے درمیان دوسری تمام تقسیمات کو توڑ کر اخلاقی تقسیم قائم کر دے.
جو عمل صالح والے لوگ ہیں ان کو خدائی کشتی میں بٹھا کر بچا لیا جائے اور غیر عمل صالح والے تمام لوگوں کو طوفان کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا جائے.
یہی واقعہ دوبارہ قیامت میں زیادہ بڑے پیمانے پر اور زیادہ کامل طور پر ہوگا
 

سیما علی

لائبریرین
مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں جب
آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیا چیز ہے توآپ نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال واولاد میں فراوانی ہوجائے .بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو ,اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو .تو اللہ کا شکر بجالاؤ ,اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو .تو توبہ واستغفارکرو ,اور دنیا میں صرف دو اشخاص کے لیے بھلائی ہے .ایک و ہ جو گناہ کرے توتوبہ سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کام میں تیز گام ہو.
 

سیما علی

لائبریرین
مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑگئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے .
نہج البلاغہ از مولا علی ابن ابی طالب علیہ
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں

میں اسلام کی ایسی صحیح تعریف بیان کر تا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی .اسلام سر تسلیم خم کر نا ہے اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے اور یقین تصدیق ہے اور تصدیق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے اور فرض کی بجاآوری عمل ہے .۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں


شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کر و ,کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے ,جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائ میں درختوں کو جھلس دیتی ہے ,اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.
موسم خزاں میںسردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے ,اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے .وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ,اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں
اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی ,بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ,حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .
اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے ,چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں .۔۔۔۔
| نہج البلاغہ از مولا علی ابن ابی طالب علیہ

باب ٥
 
ایمان والوں سے کہہ دو کہ
اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
سورہ النور
اللہ کے حکم ماننے میں سراسر کامیابی ہے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے
ویلنٹاٸن ڈے سے انکار کیجیے
اپنی پاکیزہ محبتیں اپنے محرم رشتوں پر نچھاور کیجے۔۔۔۔۔
2764.png
2764.png
 

سیما علی

لائبریرین
جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے، اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جسے وہ دنیا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی بھی بس اک ڈائری کی مانند ہے،جس کے ہر صفحے پر دن، تاریخ، ماہ و سال چسپاں ہیں۔۔صفحہ ایک سے آخر تک زندگی اس پر بے شمار تحریریں لکھتی ہے۔۔اس تحریر کی نوعیت ہر زندگی کے مزاج پر منحصر ہے۔۔جب یہ خوش ہوتی ہے تو دھنک کے ساتوں رنگ ڈائری میں سجاتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے تو ماتمی سیاہ رنگ سے صفحوں کو کالا کر ڈالتی ہے۔۔

ہم اگر شروع سے آخر تک اسے پڑھتے جائیں تو پتہ چلے گا کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ تحریروں میں پختہ سو چ اور تجربہ دکھائی دیتا ہے۔۔لیکن افسوس جونہی ہم ان تجربوں سے فیض یاب ہونے لگتے ہیں،ڈائری کے صفحات ختم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی پھر مجھے موقع دے۔ میں فرض کرلوں کہ مجھے دوسری زندگی ملے۔ فیصلے کا اختیار پھر میرے ہاتھ میں دیا جائے۔ ایک رشتہ یا بہت سے رشتے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چاہت یا بہت سی چاہتیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک محبت یا بہت سی محبتیں؟ تو میرا انتخاب ہر بار رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور محبتیں ہوگا۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو، جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہر گھاؤ کو سی دے۔
 

سیما علی

لائبریرین
دنیا میں ہر نعمت سے پہلے کچھ تکلیف، کچھ آزمائش اور کچھ پریشانی آتی ہے ۔ ایک ماں کو بیٹے کی کتنی تمنا ہوتی ہے لیکن بیٹے کی ولادت سے پہلے ماں جس طرح کی راتیں کاٹتی ہے اگر کوئی بیٹا اس تکلیف کا دسواں حصہ بھی جان لے تو کبھی اپنی ماں کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولے!
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو گزارش کی کہ "کوئی نصیحت کیجئے"

انہوں نے عجیب سا سوال کیا کہ "کبھی برتن دھوئے ھیں؟"

میں ان کے سوال پہ حیرانگی دکھائی اور جواب دیا " جی دھوئے ھیں"

بزرگ نے پوچھا "تو کیا سیکھا؟"

میں نے پوچھا "اس میں کیا سیکھنا تھا؟"

بزرگ مسکرائے اور کہنے لگے"برتن کو باہر سے کم اور اندر سے زیادہ دھونا پڑتا ہے"

اسی طرح ہمیں بھی اپنے ظاھر سے زیادہ اپنے باطن کو سنوارنا چاہئے۔اپنے دل کو بہترین بنانا چاہئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی زندگی میں ہم جتنی دل راضی کریں اتنی ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔
ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرٖقد کو خوشبو دار بناتی ہیں۔زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں بھی جلائے جاتے ہیں۔
کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے مومن کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت میں شمار کئے جانے کے قابل گردانا ہے۔اگر ہر لمحہ اس کی رضا کے لئے گزارا گیا ہو حتیٰ کہ سانس لینے کا عمل ایک غیر اختیاری فعل ہے مگر ہر سانس کا اجر محفوظ ہو سکتا ہے اَگر نعمت عطا کرنے والے رب کی خوشنودی اور اس کے شکرانے کا احساس شعور میں زندہ رہے۔مومن کا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا،بولنا، پہننا اوڑھنا، لینا دینا، ملنا جلنا، کام کاج کرنا، وظائف ِ زندگی ادا کرنا اسی رب العالمین کی رضا کے مطابق ہوتا ہے۔ مومن وہ سب کام کرتا ہے جو سب انسان کرتے ہیں۔ دونوں میں فرق صرف نیت، ارادے شعوری کوشش اور خلوص کا ہے۔اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی نیک عمل کے اجر و ثواب کو متعین کرتی ہے۔اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت سمجھ کر ادا کرنا اجر و ثواب کا باعث بنا دیتا ہے۔ ایک کام میں ذمہ داریوں پر متعین افراد آخرت میں مختلف مقام رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مسجد بنانے والے نے رقم لگائی مسجد جیسی عظیم عبادت گاہ بنانے میں۔ اس شخص کی نیت محض دنیاوی عزت و مرتبہ ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم اپنی ڈائری میں لکھی ایک بات شئیر کرتے ہیں

سب سے زیادہ طاقتور اختیار جو ہم حاصل کر سکتے ہیں وہ خود پہ قابو رکھنا ہے۔
 
Top