مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں
شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کر و ,کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے ,جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائ میں درختوں کو جھلس دیتی ہے ,اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.
موسم خزاں میںسردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے ,اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے .وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ,اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں
اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی ,بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ,حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .
اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے ,چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں .۔۔۔۔
| نہج البلاغہ از مولا علی ابن ابی طالب علیہ
باب ٥