میری ڈائری کا ایک ورق

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
قلب کے لئے اس سے بڑھ کر مفید شے اور کوئی نہیں کہ لوگوں سے نرمی کا معاملہ کیا جائے اور ان کے لئے خیر پسند کی جائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
من مانی کا مزاج رکھنے والے افراد اپنا دین اور اپنی دُنیا دونوں ہی خطرہ میں ڈال لیتے ہیں۔

ماننے والے بنیں یعنی فرمانبردار، اور یہی مسلمان کی تعریف ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہمارے ہاتھوں سے موتی بکھر جائیں تو انھیں سمیٹنا آسان ہے مگر ہمارے الفاظ سے کسی کی ذات بکھر جائے تو اس کا سنبھلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر عورتوں کو لگتا ہے
کہ ہمارے معاشرے کے مرد بُرے ہیں
تو بطورِ ماں اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں.
 

سیما علی

لائبریرین
گھومنا پھرنا اگرچہ بے مقصد ہو؛ پھر بھی انسان کو کافی کچھ سکھا دیتا ہے۔
سفر کرنے والا، مطالعہ کرنے والے سے زیادہ سیکھتا ہے؛
اور جس میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں اس کے سیکھنے کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہر لمحے میں کچھ مثبت ضرور ہوتا ہے،
کچھ سکون دینے والا، کچھ سچ،
اور جب انسان مثبت سوچ اور زندگی کی تلاش میں نکلتا ہے، تو وہ واپس مایوس نہیں لوٹا کرتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ تلاش کرنا ہوتو کِی ورڈ اہم ہے۔
چیزیں موجود ہوتی ہیں، کِی ورڈ متعلقہ نہیں ہوتا۔
بچپن میں سنے گانے کو یوٹیوب پر”بچپن میں سنا بہت اچھا گانا” لکھ کر سرچ کریں توپوری زندگی کچھ نہیں ملے گا۔
زندگی اسی طرح ہے۔
جو چاہیئے اس کا علم اوراس کی تلاش کے لیے کِی ورڈ درست ہونا ضروری ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
منفیت ایک متعدی بیماری ہے۔ آپ کے خوابوں پر سوال اٹھانےوالے منفی افراد کو اپنی زندگی کا ایک منٹ بھی نہ لینے دیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگلے کی بات کو سننے کی نیت سے سننا .. نہ کہ جواب دینے کی نیت سے… مطلب یہ کہ بات کے دوران میں ہی اگلے کی بات میں سے نکتے تلاش کرنا شروع کر دینا .. اور اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسکے جواب کے دوران یہ سوچتے رہنا کہ اب مجھے کیا کہنا ہے.. بحث .. گفتگو کو جیتنے کے لئے نہیں ہو بلکہ صحیح بات تک پہنچنے کے لئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا رومی رحمہ اللہ ارشاد فرماتےہیں: لومڑی کی بزدلی مشہور ہے لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کاہاتھ ہو کہ تم گھبر انا مت ،میں تیرے ساتھ ہوں تو بزدلی کے باوجود شیرکے فیض سے اس قدر باہمت ہوتی ہے کہ چیتوں کے ساتھ ٹکر کھانے کے لیےتیار ہوجاتی ہے۔
یہی حال حق تعالیٰ کے خاص بندوں کاہوتاہے کہ وہ مال کے نہ ہونے کے باوجو دکسی قسم کے باطل سے نہیں ڈرتے،نہ خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ان اولیاءاللہ کے دلوں میں ،دماغ میں اللہ تعالی ہوتاہے اور اللہ جس کے ساتھ ہوتاہے اسے کوئی شخص چاہے پوری دنیاکابادشاہ ہووزیرہوجوبھی ہواسے کسی قسم کانقصان نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔
 
میری بچپن کی ڈائری میں سے کچھ ایک ورق آپ کو سُناتا ہوں کبھی موقع ملا تو اپنی ڈائری کی تصاویر بھی آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کروں گا
  • اپنے آپکو ٹھیک رکھو لوگ خود بخود تمہارے ساتھ ٹھیک ہوجائیں گے۔
  • لگن اور اعتماد انسان کو کامیابی سے ہمکنار کردیتے ہیں۔
  • فکر انسان کو اپنے مقصد میں کامیاب کردیتی ہے
  • خوشی وہ انسان حاصل کرتا ہے جو اپنی خواہشات پر قابو رکھے
  • قرآن ہمارا قائد ، اسلام ہمارا راستہ اور جہاد ہمارا ہتھیار ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ماں کی محبت کے تعلق کو مامتا کہہ کر واضع نہیں کر سکتے۔ ڈکشنری میں یا لٹریچر سے اس کی وضاحتیں ملتی ہیں، مامتا نہیں ملتی۔ جہاد پر جان سے گزر جانے والے بہادر کے جذبے کو اس وقت تک سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک آپ خود ایسی بہادری کا حصہ نہ بن جائیں۔ تعلق، زندگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے صبر کی مانند ایک ڈھال ہے۔ جب کبھی جہاں بھی سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، وہاں قناعت، راحت اور وسعت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کو اندر ہی اندر یہ یقین محکم رہتا ہے کہ “آپ کی آگ” میں سلگنے والا کوئی دوسرا بھی موجود ہے، دہرا وزن آدھا رہ جاتا ہے۔

(بانو قدسیہ کے ناول’’ حاصل گھاٹ‘‘ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
رابندر ناتھ ٹیگور برصغیر پاک و ہند کے واحد ادیب ہیں، جن کی کہانیوں پر سب سے زیادہ فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے، بلکہ سینما کے خاموش عہد سے ان کی کہانیوں کو فلمایا جا رہا ہے۔ ہم نے ان کے اسی متذکرہ ناول’’گورا‘‘ پر 1938 میں بننے والی بنگالی فلم کا انتخاب کیا ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار’’نریش مترا‘‘ تھے، جبکہ فلم میں انہوں نے بحیثیت اداکار بھی کام کیا۔ فلم کی موسیقی مشہور بنگالی موسیقار’’قاضی نذر الاسلام‘‘ نے دی تھی۔ اس وقت کے بنگالی اداکاروں نے اس میں کام کیا، جبکہ اس فلم کی ٹیم میں اکثریت ایسے ہنرمندوں کی تھی، جو خاموش فلموں میں بھی کام کرچکے تھے۔

یہ فلم یوٹیوب پر دو حصوں میں دستیاب ہے، جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بالخصوص بنگالی فلم سازوں نے بہت تیزی سے فلم کے میڈیم کو سمجھنا اور برتنا شروع کر دیا تھا۔ ان کو یہ بھی اندازہ تھاکہ مغرب تک اپنی فکر کو کیسے پہنچانا ہے، اسی لیے اُس وقت بھی فلم بناتے ہوئے، انگریزی سب ٹائٹلزشامل کیے، یہ ان کی دور اندیشی تھی۔

کسی بھی تہذیب اور ثقافت میں کس طرح اپنی بڑی اور ممتاز شخصیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت پر بننے والی فلموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے، جبکہ اپنی ثقافت کی دنیا بھر میں کیسے سفارت کاری کی جاتی ہے، اس کو شعوری کوشش کے تحت، جس طرح ٹیگور نے کرکے دکھایا، وہ اپنی مثال آپ ہے، پھر ان کے بعد آنے والوں نے بھی ان کی پیروری کی۔

آج تک ان کی کہانیوں پر فلمیں بن رہی ہیں۔ 2020 میں نیٹ فلیکس پر ان کی سات مختلف کہانیوں پر بنائی گئی ویب سیریز کو پیش کیا گیا جبکہ ان کے ناول پر بنائی گئی پہلی فلم’’بالی دان‘‘تھی، جس کو 1927 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا اور یہ ایک خاموش فلم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر ہم چاہیں تو اپنے دل کو دوسروں کی نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ کر دنیا کو محبت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ نفرت جذبہ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ نہیں ہے، بلکہ یہ منفی رجحان دیگر ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ ایک مسلمان محبت کا پیکر ہوتا ہے۔اسلام انسان کو محبت پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔محبت فاتح عالم ہے۔ محبت دلوں کو اسیر کرتی ہے۔ محبت زندہ قوموں کا شعار ہے۔ محبت دلوں کو حیات بخشتی ہے اور انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ ورنہ کیا فائدہ ایسے دل کا جس میں صرف نفرت پلتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
”صاحبو سچ پوچھو تو اپنی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام کیا چیز ہے۔ ایک دوست ہے اس نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے میں اس کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا یار مجھے بھی سمجھا دو اسلام کیا ہے وہ ہنسا بولا مجھے خود سمجھ میں نہیں آیا تجھے کیا سمجھاؤں۔ میں نے کہا وہ جو اتنا سارا مطالعہ کیا ہے تو نے اس کا نتیجہ نہیں نکلا کیا بولا نکلا ہے میں نے کہا کیا نکلا ہے بولا اللہ سے یارانہ لگ گیا ہے محمد ﷺ سے محبت ہو گئی ہے بس اور کسی بات کی سمجھ نہیں آئی“ ۔
تلاش ص 204۔
ممتاز مفتی
 
Top