روُدادِ محبت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مُسرّت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دل، شبنم سے سلگتی ہیں آنکھیں
پھولوں کی سخاوت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر، بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
(فیض احمد فیض)
اگر کچھ قیمتی لمحے نکل آئیں کسی صورت
چلو اس دل کی خاطر ہم بھی کوئی کام کر جائیں
کئی شامیں گنوا دی ہیں غمِ حالات میں ہم نے
تمہارے نام اک سندر سہانی شام کر جائیں
بام و در خامشی کے بوجھ سے چور
آسمانوں سے جوئے درد رواں
چاند کا دکھ بھرا فسانۂ نور
شاہراہوں کی خاک میں غلطاں
خواب گاہوں میں نیم تاریکی
مضمحل لَے رباب ہستی کی
ہلکے ہلکے سروں میں نوحہ کناں
(فیض احمد فیض)
تم کہتی ہو مجھے پھولوں سے پیار ہے۔۔۔۔
مگر جب پھول کھلتے ہیں
تو انھیں ٹہنی سے توڑ ڈالتی ہو
تم کہتی ہو مجھے بارشوں سے پیار ہے۔۔۔۔۔
مگر جب بارش ہوتی ہے
تو چھپتی پھرتی ہو
تم کہتی ہو مجھے ہواؤں سے پیار ہے۔۔۔۔۔۔
مگر جب ہوا چلتی ہے
تو کھڑکیاں بند کر لیتی ہو
پھر اس وقت
میں خوفزدہ سا ہو جاتا ہوں
جب تم،مجھ سے کہتی ہو
مجھے تم سے پیار ہے۔۔۔