میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
یا رب تیرے جہان کے کیا حال ہو گئے
کچھ لوگ خواہشوں کے دلال ہو گئے

تپتی رہی ہے آس کی کرنوں پہ زندگی
لمحے جدائیوں کے ماہ و سال ہو گئے

بھولی ہے رنگ رنگ کو دنیا کی نر تکی !
نغمے ربابِ وقت کے بے تال ہو گئے

وحشت میں اپنے تار گریباں ہی دوستو
الجھے تو ہر قدم پہ گراںجال ہو گئے

ساغر جو کل کھلے تھے وہ غنچے کہاں گئے
ہنگامہ بہار میں پامال ہو گئے
ساغر صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے

دل بجھے تو تاریکی دُور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے

دشتِ بےنیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے

میں نے تو ہواؤں سے داستانِ غم کہہ دی
دیکھتے رہے حیراں سب حجاب دنیا کے

دیکھیں چشمِ حیراں کیا انتخاب کرتی ہے
میں کتابِ تنہائی، تم نصاب دنیا کے

زندگی سے گزرا ہوں کتنا بےنیازانہ
ساتھ ساتھ چلتے تھے انقلاب دنیا کے

ہم نے دستِ دنیا پر پھر بھی کی نہیں بیعت
جانتے تھے ہم، تیور ہیں خراب دنیا کے
پیرزادہ قاسم
 

سیما علی

لائبریرین
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی* نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
سب کہے دیتی ہے اشکوں کی روانی افسوس
راز دل میں ہے کہ چھلنی میں ہے پانی افسوس

پیشِ آئینہ لُبھاتا ہے بُڑھاپے کا وقار
ہم نہیں کہتے کہ افسوس جوانی افسوس

قیدِ تنہائی ہے یکتائی میں زندہ رہنا
دل پہ افسوس کہ رکھتا نہیں ثانی افسوس

جس طرح تند ہواؤں سے اُلجھتے ہیں چراغ
عُمر بھر فکرِ بقا میں رہے فانی افسوس

تُم نے اے اہلِ خرد چھان لئے ہفت افلاک
خاک ویرانۂ جاں کی نہیں چھانی افسوس

صبح ہوتے ہمیں دیکھا تو بھلا کیا دیکھا
اب کہاں آخرِ شب کی وہ روانی افسوس
 

سیما علی

لائبریرین
خوشیاں کہاں نصیب ہیں غم دل میں بس رہے
جیتے ہوئے بھی جینے کو ہم تو ترس رہے

گلشن میں ہم رہے کہ میانِ قفس رہے
آزردہ قلب و شعلہ بجاں ہر نفس رہے

جب زندگی پہ موت کا ہونے لگے گماں
ایسے میں زندگی کی بھلا کیا ہوس رہے

دریا کے پار اتر گئے تھا جن میں حوصلہ
مُنہ دیکھتے رہے وہ جنھیں پیش و پس رہے

پھوٹا ہے رنگِ لالۂ داغِ جگر سے وہ
شرمندۂ بہار نہ اب کے برس رہے

گلشن میں خوفِ صاعقہ و برق آئے دن
اس سے بھلے تو ہم بحدودِ قفس رہے

وہ آدمی نہیں ہے خدا کی قسم نہیں
دنیا میں پھنس کے جس کو نہ کچھ دیں سے مَس رہے

اپنے چمن میں پھول کہاں نکہتیں کہاں
اب تو یہ آ رہا ہے نظرؔ خار و خس رہے
نظر لکھنوی
 

سیما علی

لائبریرین
وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی
اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی
پھر یوں وا کہ کوئی اپنا نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی
ٹوٹا ہے جب سے اسکی مسیحائی کا طلسم
دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت
اور ہمکو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی
اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہمکو تو ان دنوں
خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ نگاہ شرم جھکی جھکی، یہ جبینِ ناز دھواں دھواں
مرے بس کی اب نہیں داستاں، مرا کانپتا ہے رواں رواں

یہ تخیلات کی زندگی، یہ تصورات کی بندگی
فقط اک فریبِ خیال پرمری زندگی ہے رواں رواں

مرے دل پہ نقش ہے آج تک وہ باحتیاط نوازشیں
وہ غرورو ضبط عیاں عیاں، وہ خلوص و ربط نہاں نہاں

نہ سفر بشرطِ مآل ہےنہ طلب بقیدسوال ہے
فقط ایک سیری ذوق کو میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں

ہو طلسم عالم رنگ و بو کہ حریم انجم و کہکشاں
مرا ساتھ دے گی نظر مری، وہ چھپیں گے جا کے کہاں کہاں

مری خلوتوں کی یہ جنتیں کئی بار سج کے اجڑ گئیں
مجھے بارہا یہ گماں ہوا کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں
 

سیما علی

لائبریرین
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں
ہمی پر رات بھاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

تمہیں کیا! ہم اگر لُوٹے گئے راہِ محبت میں
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی رازداری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں بھی نیند آجائے گی، ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
 

سیما علی

لائبریرین
چلو تم ساتھ مت دینا
مجھے بیشک بھولا دینا
نئے سپنے سجا لینا
نئے رشتے بنا لینا
بھولا دینا سب ہی وعدے
سب ہی قسمیں سب ہی ناتے
تمہیں جانا اجازت ہے
جو دل چائیے وہ سب کرنا
مگر اب تم کسی سے بھی
ادھورا پیار مت کرنا
 

سیما علی

لائبریرین
چلو تم ساتھ مت دینا
مجھے بیشک بھولا دینا
نئے سپنے سجا لینا
نئے رشتے بنا لینا
بھولا دینا سب ہی وعدے
سب ہی قسمیں سب ہی ناتے
تمہیں جانا اجازت ہے
جو دل چائیے وہ سب کرنا
مگر اب تم کسی سے بھی
ادھورا پیار مت کرنا
 
Top