محبت سے بھی کار زندگی آساں نہیں ہوتا
بہل جاتا ہے دل غم کا مگر درماں نہیں ہوتا
کلی دل کی کھلے افسوس یہ ساماں نہیں ہوتا
گھٹائیں گھر کے آتی ہیں مگر باراں نہیں ہوتا
محبت کے عوض میں او محبت ڈھونڈنے والے
یہ دنیا ہے یہاں ایسا ارے ناداں نہیں ہوتا
دل ناکام اک تو ہی نہیں ہے صرف مشکل میں
اسے انکار کرنا بھی تو کچھ آساں نہیں ہوتا
ہنسی میں غم چھپا لینا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
جو غم دراصل غم ہوتا ہے وہ پنہاں نہیں ہوتا
زمانے نے یہ تختی کشت ارماں پر لگا دی ہے
گل اس کیاری میں آتا ہے مگر خنداں نہیں ہوتا
کہیں کیا تم سے ہم اپنے دل مجبور کا عالم
سمجھ میں وجہ غم آتی ہے اور درماں نہیں ہوتا
مآل اختلاف باہمی افسوس کیا کہئے
ہر اک قطرہ میں شورش ہے مگر طوفاں نہیں ہوتا
دیار عشق ہے یہ ظرف دل کی جانچ ہوتی ہے
یہاں پوشاک سے اندازۂ انساں نہیں ہوتا
غرور حسن تیری بے نیازی شان استغنا
جبھی تک ہے کہ جب تک عشق بے پایاں نہیں ہوتا
صدائے بازگشت آتی ہے ایام گزشتہ کی
یہ دل ویران ہو جانے پہ بھی ویراں نہیں ہوتا
محبت تو بجائے خود اک ایماں ہے ارے ملاؔ
محبت کرنے والے کا کوئی ایماں نہیں ہوتا
آنند نرائن ملا