سیما علی
لائبریرین
برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوئی ہے
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی
بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوئی ہے
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی