میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں

دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گزری تھی
کب دھندلکا ہوا کب ناؤ چلی یاد نہیں

ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں

ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی تھی
کیسے کِھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں

جسم و جاں ڈوب گئے خوابِ فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں

احمد مشتاق
 

سیما علی

لائبریرین
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا

یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا

بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پُتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا

اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آکے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا

گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا

رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا

جس کی اماں میں ہوں وہ ہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں، بادل تو چھٹ گیا

وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا

ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا

اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیب
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
 

سیما علی

لائبریرین
یہ دل یہ پاگل دل میرا کیاں بجھ گیا! آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا! تُو کون ہے؟ اُس نے کہا! آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا! آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا! آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

۔۔محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
اکبر الہ آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
نامہ بھی لکھتے ہو تو بخط غبار حیف
رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف

بیش از نفس بتاں کے کرم نے وفا نہ کی
تھا محمل نگاہ بدوش شرار حیف

تھی میرے ہی جلانے کو اے آہ شعلہ ریز
گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار حیف

گل چہرہ ہے کسو خفقانی مزاج کا
گھبرا رہی ہے بیم خزاں سے بہار حیف

بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
مجبوریاں تلک ہوے اے اختیار حیف

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے ناتمامی نفس شعلہ بار حیف

ہیں میری مشت خاک سے اس کو کدورتیں
پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار حیف

بنتا اسدؔ میں سرمۂ چشم رکاب یار
آیا نہ میری خاک پہ وہ شہ سوار حیف
 

سیما علی

لائبریرین
آ کے پتھّر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اُس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گِرے

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گِرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں پہ گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گِرے

تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستراے مرے گھر ٹوٹ کے بیکار گِرے

کیا ہَوا ہاتھ میں تلوار لئے پھرتی ہے
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گِرے

دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گِرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار گِرے

ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے، ناچار گِرے

کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گِرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گِرے

وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر
آئینے ٹوٹ گئے، آئینہ بردار گِرے

دیکھتے کیوں ہو شکیب اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سو کو کہ یہ دستار گِرے
شیکب جلالی
 

سیما علی

لائبریرین
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں

قمر جلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ

یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ

یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ

مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ

تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ

تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ

یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ

تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ
 
Top