ہم زاد
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے
میری تنہائی کی وحشت سے ہراساں ہو کر
میرا سایہ میرے قدموں میں سمٹ آیا ہے
کون ہے پھر جو مرے ساتھ چلا آتا ہے
میرا سایہ تو نہیں!!
کس کی آہٹ کا گماں
یوں مرے پاؤں کی زنجیر بنا جاتا ہے
دور تا حد نظر شہر کے آثار نہیں
اور دشمن کی طرح
شام تلوار لیے سر پہ چلی آتی ہے
بولتا ہوں تو اچانک کوئی
میری آواز میں آواز ملا دیتا ہے
مجھ کو خود میرے ہی لفظوں سے ڈرا دیتا ہے
کون ہے جس نے مرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
اپنے احساس کی سولی پہ چڑھا رکھی ہے
میری رفتار کے پر خوف و خطر رستے میں
کس نے آواز کی دیوار بنا رکھی ہے
سنگ آواز کی دیوار گراؤں کیسے
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے
امجد اسلام امجد