میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں
خمار بارہ بنکوی
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلے گا
پرندے بھی وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا

بدلنے ہیں تو دن بدلو، بدلتے ہو تو ہندسے ہی
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا

اگر ہم مان لیں عابی مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا
 

سیما علی

لائبریرین
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردش۔ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
 

سیما علی

لائبریرین
وفا پرستوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں
روایتوں سے کبھی سر کشی نہیں ہوتی
محاذِ جنگ سے پسپائیاں تو جائز ہیں
محبتوں میں مگر واپسی نہیں ہوتی
محسن بھوپالی.
 

سیما علی

لائبریرین
فضا میں رنگ ، ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے

خیالِ خاطرِ احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسمِ دوستی نہ رہے

فقیہہِ شہر کلامِ خدا کا تاجر ہو
خطیبِ شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے

قباے صُوفی و مُلا کا نرخ سستا ہو
بلال چُپ ہو اذانوں میں دلکشی نہ رہے

نوادراتِ قلم پر ہو مُحتسب کی نظر
مُحیط ہو شبِ تاریک روشنی نہ رہے

اس انجمن میں عزیزو ! یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
آغا شورش
 

سیما علی

لائبریرین
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا

کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا

کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا

ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا

انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا

مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من، تم نے دل بھی نہ لگا جان
میر مہدی حسن مجروح
 

سیما علی

لائبریرین
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
پلکوں پہ آکے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا
تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی
میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا
شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
آ کر، بہار کو تو جو کرنا تھا، کر گئی
الزام، احتیاطِ گریباں کے سر گیا
زنجیر ماتمی ہے، تم، اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو، دِوانہ تو مر گیا
(مصطفیٰ زیدی
 

سیما علی

لائبریرین
معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادۂ مےَ
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے

قتیلِ زمزمۂ و صلِ نالۂ ہجراں
نوائے حسرتِ غیر عاشقانہ بھی سنتے

روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ ازلی کا ترانہ بھی سنتے

اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے

زکوٰۃ دل کبھی دیتا غرورِ کج کُلَہی
نکاتِ ذہن کبھی عاجزانہ بھی سنتے

یہ دوڑتی ہوئی راتیں ،یہ بھاگتے ہوئے دن
صدائے مسلۂ جاودانہ بھی سنتے

حدیث کی روشِ عامیانہ سے ہٹ کر
خِرد کا تذکرہِ عالمانہ بھی سنتے

یہ قِراَتوں کے دھوئیں میں گُھٹے ہوئے ماحول
ہوا کا زمزمۂ بیکرانہ بھی سنتے

سیاسیاتِ و تمدن کے ناز پر وردہ
صعوبتِ قفس و تازیانہ بھی سنتے

یہ قید و بند یہ تعزیر عام باتیں
شکایتِ دل و جاں مشفقانہ بھی سنتے

سزا جزا کے عوض آدمی سے عرضِ حیات
وفا جفا کی طرح دوستانہ بھی سنتے

مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خداغائبانہ بھی سنتے

غرورِ عشق سے، خوئے نیاز سے ملتے
تعّلیوں کو مِری شاعرانہ بھی سنتے

(مصطفیٰ زیدی)
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے

اور بہت دور آسمانوں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے

اسرار الحق مجاز
 

سیما علی

لائبریرین
تجھ پہ اتری ہے بہار انجمن آرائی کی
تو نے وحشت نہیں دیکھی میری تنہائی کی

ہم درِ یار پہ اگ آئے مثالِ برگد
جس کے سائے نے رقیبوں کی پزیرائی کی

کوئی تو ہوگا کہیں چاہنے والا میرا
خیر شالا مرے بے نام تمنائی کی

پھر بھی شکوہ ہے کہ ہم عشق میں کھوٹے نکلے
ہم نے اک بات بھی ٹالی نہیں ہر جائی کی ۔۔

صبح آئی بھی تو ہے ساتھ نبھایا اس نے
دوستی مجھ سے عجب ہے شبِ تنہائی کی

تو نے مطلب بھی نکالا ہے محبت کر کے
داد دی اشک بہا کر تری دانائی کی

یاد آ جاتا ہے خوابوں کا بکھرنا خالد
کوئی آواز جو آئے کہیں شہنائی کی

خالد ندیم شانی
 

سیما علی

لائبریرین
سجا کے سر پہ ستاروں کے تاج رکھتا ھے
زمیں پہ بھی وہ فلک کا مزاج رکھتا ھےسنورنے والے سدا

آئینے کو ڈھونڈتے ھیں
بچھڑ کے بھی وہ مری احتیاج رکھتا ھے
صبا خرام خزاں پیرہن بہار بدن

وہ موسموں کا عجب امتزاج رکھتا ھے
ہم اس کے حسن کو تسخیر کرکے دیکھیں‌گے

جبیں پہ کون شکن کا خراج رکھتا ھے

چرا کے آنکھ میں‌کچھ خواب رکھ لیے محسن
کسان جیسے بچا کے اناج رکھتا ھے
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
تازگی جو دل کو دے گلاب کہا تھا
دوستوں کے چہروں کو کتاب کہا تھا

تم نے تو کہہ دیا کہ ستم پہ ہے ستم
ہم نے تو دوستوں کو آداب کہا تھا

تھا اِن سے مدتوں کے بعد رابطہ ہوا
زندگی کا ہم نے تو اِک باب کہا تھا

دوست دوستوں سے رہیں ربط میں ہمیشہ
ادھورا اپنا ہم نے تو اِک خواب کہا تھا

گمان سا ہوا تھا کسی کے روٹھ جانے کا
دل کے واہموں کا اِک سراب کہا تھا

منزلوں کے راستے میں غم سے ہوئے چُور
اِک چھایا اپنی سوچ پہ عذاب کہا تھا

ہمیں بےشک رکھنا ہے خود کو سنبھال کے
کبھی ناصر نے زمانے کو خراب کہا تھا
 

سیما علی

لائبریرین
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
‏ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

‏رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر
 

سیما علی

لائبریرین
کہے تو کون کہے سرگذشتِ آخرِ شب
‏جنوں ہے سر بہ گریباں خرد ہے مہر بہ لب

‏حدودِ شوق کی منزل سے تا بہ حد ادب
‏ہزار مرحلۂ جاں گداز و صبر طلب

‏یہ عالم قد و گیسو یہ حسن عارض و لب
‏تمام نکہت و نغمہ تمام شعر و ادب

‏سرورؔ بارہ بنکوی
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہیں ہم جدا جدا
وە جدا ہوے تو سنور گئے ہم جدا ہوے توبکھر گئے
کبھی رُک گئے کبھی چل دئیے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یوں ہی عمر ساری گُزار دی یوں ہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تو جہاں ملا تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یوں ہی سر جُھکا کے گزر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر کبھی تیرے حسین وجود پر
جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
پروین شاکر
 

سیما علی

لائبریرین
🌿 میرا انتخاب 🌿

تیری یاد

آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کے اپنا اک اک زخم ٹٹولا ہے

چھان چکا ہوں جسم و روح پہ لگی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو

کمرے میں رکھا تھا اسے یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا

ساری عمر کا حاصل تھی یہ، کھونے والی چیز نہ تھی
ورق ورق دیکھا ہے اپنی گرد آلود کتابوں کو

جیسے کوئی بیداری میں ڈھونڈ رہا ہو خوابوں کو
عقل کے ہاتھوں سے بھی اکثر نادانی ہو جاتی ہے

بہت سنبھال کے رکھنے پہ بھی چیز کہیں کھو جاتی ہے
اپنے سارے گھر والوں کو دیوانہ سا لگتا ہوں

اس کمرے سے اس کمرے میں کھویا کھویا پھرتا ہوں
سوچ سمجھ کر دنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھا تھا

میں نے تو اس یاد کو اپنے لئے بچا کر رکھا تھا
تیری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

🌿 کلام سیف الدین سیف 🌿
 

سیما علی

لائبریرین
میں فیصلے کی گھڑی سے گزر چکی ہوں مگر
‏کسی کا دیدۂ حیراں مری تلاش میں ہے

‏یہ بے یقین سی آسودگی بتاتی ہے
‏کہ ایک قریۂ ویراں مری تلاش میں ہے

‏یہ کیسا خواب تھا دھڑکا سا لگ گیا دل کو
‏کہ ایک شخص پریشاں مری تلاش میں ہے

‏نوشی گیلانی
 

سیما علی

لائبریرین
نسیم صبح گلشن میں گُلوں سے کھیلتی ہوگی
کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی

مزہ آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا
زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی

یہی عالم رہا پردہ نشینی کا تو ظاہر ہے
خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی

تعجب کیا، لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی

سیماب اکبر آبادی
 
Top