میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
وہ خود اگر کہیں مِلتا تو گفتگو کرتے

وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اُسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے
مصطفٰی زید ی
 

سیما علی

لائبریرین
خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے

تیرے الطاف و عنایت کی نہ تھی حد ورنہ
ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے
مصطفٰی زید ی
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے
اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا

رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا
صبح حیراں بھی خفا، شام حریفاں بھی خفا
مصطفٰی زید ی
 

سیما علی

لائبریرین
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے

پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
 

سیما علی

لائبریرین
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیں ہم جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں

آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضروری ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں

ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں

پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
حبیب جالب
 

سیما علی

لائبریرین
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے

ہم ایسے خاک نشیں کب لبھا سکیں گے اسے
وہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہے

جو ہو سکے تو یہی رات اوڑھ لے تن پر
بجھا چراغ اندھیرے میں کیوں ٹٹولتا ہے ؟

اسی سے مانگ لو خیرات اس کے خوابوں کی
وہ جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند کھولتا ہے

سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
عشق کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں

ہر کوئی رو کر دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں

کچھ فسانے ہیں جو چہرے پہ لکھے رہتے ہیں
کچھ پس دیدہ خواب ہو ا کرتے ہیں

کچھ تو جینے کی تمنا میں مرے جاتے ہیں
اور کچھ مرنے کو بےتاب ہوا کرتے ہیں

تیرنے والوں پے موقوف نہیں ہے خالد
ڈوبنے والے بھی پایاب ہوا کرتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
کیا مثال لکھیں کیا خواب لکھیں
جو ہوا تھا زندگی کا پیماں
جہاں جہاں گئے تھے وہ خاک ہوئے
بس اک جہاں کی سیر تھی اور کچھ نہ تھا
بس سب ہوا ہوگئے جو وہ چھوڑ کر گئے
یادیں رہ جاتیں ہیں باقی سب فنا
اک اکیلا آیا تھا اکیلا جاتا ہے
دو روز روتا پے پھر صبر کرتا ہے
یادوں میں رہ کر بس یہ ہے زندگی کی کہانی
 

سیما علی

لائبریرین
تم الزام دیتے جاؤ ہم دھوتے جاییں گے
موتیوں کی طرح بالوں میں پروتے جاییں

تو جدھر دیکھے میری آنکھیں تجھے دیکھیں
ستاروں کی جگہ ہم اپنی آنکھیں پروتے جائیں گے

جس قدر سوچو گے اپنے پاس پاؤ گے
راحت کی طرح تیرے بدن میں سموتے جائیں گے

تو ہم کو سراب بخش یا کہ تشنگی
تیرے پیار میں برستی گھٹا ہوتے جائیں گے

بچالے اس شہر کو بارود کی بو سے ورنہ
لوک اپنے اخلاق اور ستائستگی کھوتے جائیں گے
 

سیما علی

لائبریرین
منسوب چراغوں سے، طرفدار ہوا کے
‏تم لوگ منافق ہو، منافق بھی بلا کے

‏کیوں ضبط کی بنیاد ہلانے پہ تُلا ہے
‏میں پھینک نہ دوں ہجر تجھے آگ لگا کے

‏اک زُود فراموش کی بے فیض محبت
‏جاؤں گی گزرتے ہوئے راوی میں بہا کے

‏اس وقت مجھے عمرِ رواں درد بہت ہے
‏تجھ سے میں نمٹتی ہوں ذرا دیر میں آ کے
 
Top