میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر تیرے بعد حوصلہ ہے کے جی رہا ہوں

وہ ریزہ ریزہ میرے بدن میں اُتَر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھ کو پی رہا ہوں

تیری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں تیرا دوست بھی رہا ہوں

کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کے جی رہا ہوں

کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی ؟
کے میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

نا پوچھ مجھ سے کے شہر والوں کا حال کیا تھا
کے میں تو خود اپنے گھر میں دو گھڑی رہا ہوں

ملا تو بیتے دنوں کا سچ اسکی آنکھ میں تھا
وہ آشْنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں

بھلا دے مجھ کو کے بیوفائی بجا ہے لیکن
گنوا نا مجھ کو کے میں تیری زندگی رہا ہوں

وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کے میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیں
ملنے والے کہیں الفت میں جدا ہوتے ہیں

ہیں زمانے میں عجب چیز محبت والے
درد خود بنتے ہیں خود اپنی دوا ہوتے ہیں

حال دل مجھ سے نہ پوچھو مری نظریں دیکھو
راز دل کے تو نگاہوں سے ادا ہوتے ہیں

ملنے کو یوں تو ملا کرتی ہیں سب سے آنکھیں
دل کے آ جانے کے انداز جدا ہوتے ہیں

ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں

مجروح سلطانپوری
 

شمشاد

لائبریرین
بکھرے ہوئے خوابوں کی وہ تصویر ہے شاید
اب یہ بھی نہیں یاد کہاں اس سے ملا تھا
نواب احسن
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی خواب ہے اور خواب بھی ایسا کہ میاں
سوچتے رہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا

احمد عطا​

 

سیما علی

لائبریرین
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دل بے قرار کے

آغوش گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے

یوں بعد ضبط اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

بعد از وداع یار بہ خوں در تپیدہ ہیں
نقش قدم ہیں ہم کف پائے نگار کے

ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسدؔ
لائق نہیں رہے ہیں غم روزگار کے
مرزا اسد اللہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانی ٔ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں

حفیظ ہوشیار پوری
 

سیما علی

لائبریرین
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا
مظفر وارثی
 

سیما علی

لائبریرین
احمد فراز کی ایک لاجواب غزل

ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی

چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی

ہم آ گئے ہیں تہہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی

میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اُس کا
گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی

زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا
سو کر گیا ہے ہمیں پامال ویسے ہی

مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فرازؔ اُس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی
 

سیما علی

لائبریرین
چارہ گر اے دلٍ بیتاب کہاں آتے ہیں!!!
مجھ کو خوش رہنےکے آداب کہاں آتے ہیں!!!

میں تو یَک مُشت سونپ دوں اُسے سب کچھ!!!
لیکن ایک مُٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں!!!

مدتوں بعد اُسے دیکھ کے دل بھر آیا!!!
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں!!!

میری بےدرد نگاہوں میں اگر بھولے سے!!!
نیند آ بھی جائے تو خواب کہاں آتے ہیں!!!

تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں قتیل!!!
دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں!!!

(قتیل شفائی)
 

سیما علی

لائبریرین
غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے
آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے

ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے

اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں
مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے

اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی
اور احکام کی تعمِیل ہُوئی جاتی ہے

میں نے کھائی تھی قسم کُچھ بھی عیاں ہو گا نہیں
پر بیاں ساری ہی تفصِیل ہُوئی جاتی ہے

اور کُچھ روز مِرا ظرف کشا کش میں رہے
اِس بہانے مِری تکمِیل ہُوئی جاتی ہے

سارا دِن دُھوپ میں جلتا ہُوں فقط روٹی کو
زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہُوئی جاتی ہے

ابرہہؔ بن کے نہ کر میرے حرمؔ پر حملہ
بے بسی اب تو ابابِیلؔ ہُوئی جاتی ہے

کِس تکلُّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا
یاد کی رو ہے کہ تمثِیل ہُوئی جاتی ہے

اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسّر ہے کہاں
زِندگی بُھوک میں تحلِیل ہُوئی جاتی ہے

میں سمجھتا تھا اُسے بُھول گیا ہوں حسرتؔ
پر چُبھن دِل میں مِرے کِیل ہُوئی جاتی ہے

رشِید حسرتؔ
 
Top