واہعزم بہزاد
میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
ایک روز بھی گر اپنی تنہائی سے ڈر جاتا
میں ترک تعلق پہ زندہ ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس کےلئے جیتا ، اپنے لئے مر جاتا
اس روز کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں ورنہ سنور جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا
اس جانِ تکلم کو تم مجھ سے تو ملواتے
تسخیر نہ کرپاتا حیران تو کرجاتا
کل سامنے تھی منزل اور پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
میں شہر کی رونق میں گم ہو کہ بہت خوش تھا
ایک شام بچا لیتا کسی روز تو گھر جاتا
محروم فضاوں میں مایوس نظاروں میں
تم عزم نہیں ٹھہرے میں کیسے ٹھہر جاتا