متاع ِعلم و فن کی اتنی ارزانی نہیں رکھتے
سو' ہر محفل میں ہم شوق ِغزل خوانی نہیں رکھتے
چُنے جاتے ہیں ہم اوروں کی خاطر راہ کے کانٹے
مگر اپنے لئے رستوں میں آسانی نہیں رکھتے
وہ کیا شاداب کرسکتے ہیں میری روح ِتشنہ کو
جو اپنی آنکھ میں بھی بوند بھر پانی نہیں رکھتے
ہوا کے ساتھ جن کے رُخ بدل جاتے ہیں پل بھر میں
رفاقت میں وہ اپنی راہ طولانی نہیں رکھتے
شقاوت دیکھکر لوگوں کی، یہ محسوس ہوتا ہے
کہ ہم پتھر کے ہیں آنکھیں بھی انسانی نہیں رکھتے
بہاروں پر ہی کیا موقوف ہے اب تو تیرے وخشی
کسی بھی رتُ میں اذان ِچاک دامانی نہیں رکھتے
در آتے ہیں کھلے دل کے دریچے دیکھ کر ساجد
یہ جھونکے درد کے ' آداب ِمہمانی نہیں رکھتے ۔