اندھیری شب دیا سا جل رہا ہے
تیرا سایہ بھی ہمراہ چل رہا ہے
سلگتی پہر کا دکھ شام بن کر
میری آنکھوں کے رستے ڈھل رہا ہے
میرے اندر خاموشی گونجتی ہے !
بدن میرا کبھی جنگل رہا ہے
وہ جب بھی ٹوٹ کر برسا ہے مجھ پر
ترستی روح میں جل تھل رہا ہے
برف سے ہاتھ نے چھوا تھا مجھ کو
بدن اب تک وہیں سے جل رہا ہے
اداسی آنسوؤں میں بہہ نہ جائے
جدائی کا زمانہ چل رہا ہے
کیا میں نے ارادہ جب سفر کا
میرے سر پر گھنا بادل رہا ہے
میرے خوابوں کی بنجر کوکھ سونی
یہ دکھ اندر ہی اندر پل رہا ہے
مریم عرفان