میرے پسندیدہ اشعار

راجہ صاحب

محفلین
یہ دکھُ لئے نہیں میں نے ،دئے گئے مجھکو
یہ فاصلے ،یہ تھکن ،یہ ڈگر نصیب میرا

میں دائرے کا سفر باندھ لوں گی پیروں میں
ہمیشہ ساتھ رہے گا اگر نصیب میرا ۔ ۔
 

تیشہ

محفلین
بے نشاں ہی رہنا تھا جب میری محبت کو
عکس کیوں تھا پانی پر،آئینہ میں چہرہ کیوں
دستکوں پہ کیوں پلٹوں آہٹوں پہ کیوں چونکوں
وہ اگر نہیں ملتا کوئی اس کے جیسا کیوں ۔ ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
تیری راہ میں رکھ کر اپنی شام کی آہٹ
دم بخود سی بیٹھی ہے میرے بام کی آہٹ

کیوں ٹھہر گئی دل میں اُس قیام کی آہٹ
کیوں گزر نہیں جاتی اُس مقام کی آہٹ
(ناہید ورک)
 

راجہ صاحب

محفلین
گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ
چھینٹے اّڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے

خود کو چھپا نہ شیشہ گروں کی دکان میں
شیشے چمک رہے ہیں تو پتھر بھی آئیں گے

اّس نے کہا--گناہ کی بستی سے مت نکل
اِک دن یہاں حسین پیمبر بھی آئیں گے

اے شہریار دشت سے فرصت نہیں--مگر
نکلے سفر پہ ہم تو تیرے گھر بھی آئیں گے
 

عمر سیف

محفلین
اندھیری شب دیا سا جل رہا ہے
تیرا سایہ بھی ہمراہ چل رہا ہے

سلگتی پہر کا دکھ شام بن کر
میری آنکھوں کے رستے ڈھل رہا ہے

میرے اندر خاموشی گونجتی ہے !
بدن میرا کبھی جنگل رہا ہے

وہ جب بھی ٹوٹ کر برسا ہے مجھ پر
ترستی روح میں جل تھل رہا ہے

برف سے ہاتھ نے چھوا تھا مجھ کو
بدن اب تک وہیں سے جل رہا ہے

اداسی آنسوؤں میں بہہ نہ جائے
جدائی کا زمانہ چل رہا ہے

کیا میں نے ارادہ جب سفر کا
میرے سر پر گھنا بادل رہا ہے

میرے خوابوں کی بنجر کوکھ سونی
یہ دکھ اندر ہی اندر پل رہا ہے

مریم عرفان
 

تیشہ

محفلین
وہ مہکتی پلکوں کی اوٹ سے کوئی تارا چمکا تھا رات میں
میری بند مٹھیُ نہ کھولئے وہی کوہ نور ہے ہات میں

میں تمام تارے اٹھا اٹھا کے غریب لوگوں میں بانٹ دوں
کبھی ایک رات وہ آسماں کا نظام دیں میرے ہات میں
ابھی شام تک میرے باغ میں کہیں کوئی پھول کھلا نہ تھا
مجھے خوشبؤوں میں بسا گیا تیرا پیار ایک ہی رات میں
تیرے ساتھ اتنے بہت سے دن تو پلک جھپکتے گزرگئے
ہوئی شام کھیل ہی کھیل میں کئی رات بات ہی بات میں

کوئی عشق ہے کہ اکیلا ریت کی شال اوڑھکے چلدیا
کبھی بال بچوں کے ساتھ آ ' یہ پڑاؤ لگتا ہے رات میں

کبھی سات رنگوں کا پھولُ ہوں کبھی دھوبُ ہوں کبھی دھولُ ہوں
میں تمام کپڑے بدل چکا تیرے موسموں کی برات میں ۔ ۔۔
 

راجہ صاحب

محفلین
سلیقہ عشق میں میرا، بڑے کمال کا تھا
کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا

میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے
وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا

رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور اُدھر
گماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا

یہ اور بات کہ اب چشم پوش ہوجائے
کبھی تو علم اسے بھی ہمارے حال کا تھا

محبتوں میں ، میں قائل تھی لب نہ کھلنے کی
جواب ورنہ میرے پاس ہر سوال کا تھا

درخت جڑ سے اکھڑنے کا موسموں میں بھی
ہوا کا پیار شجر سے عجیب کمال کا تھا،
 

تیشہ

محفلین
کہیں چراغ ہیں روشن،کہیں پہ مدھم ہیں
تمھارے آنے کے امکان ہیں، مگر کم ہیں
میں لوٹتے ہوئے چپکے سے چھوڑ آیا تھا
تمھارے تکیے پہ میرے ہزار موسم ہیں
تمھارے پاؤں کو چھو کر زمانہ جیت لیا
تمھارے پاؤں نہیں ہیں۔،یہ ایک عالم ہیں
محبتیں ہوئیں تقسیم تو یہ بھید کھلا
ہمارے حصے میں خوشیاں نہیں ہیں،ماتم ہیں
کچھ اسی لئے بھی ہمیں دکھ سے ڈر نہیں لگتا
ہماری ڈھال تیرے درد ہیں،تیرے غم ہیں

ابھی کہو، تو ابھی،یہ بھی تمکو دے دیں گے
ہمارے پاس جو گنتی کے ایک دو دام ہیں
 

راجہ صاحب

محفلین
میں اداس راستہ ہوں شام کا، مجھے آہٹوں کی تلاش ہے
یہ ستارے سب ہیں بجھے بجھے، مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے

وہ جو ایک دریا تھا آگ کا بس راستوں سے گزر گیا
ہمیں کب سے ریت کے شہر میں نہیں بارشوں کی تلاش ہے
 

تیشہ

محفلین
تمھارے دل سے میں خواہشوں کے گلاب سمیٹ لوں گا
سجے ہیں پلکوں پہ آج سندرُ جو خواب سارے سمیٹ لوں گا

میں چاہتوں کی مسافتوں سے جو لوٹ آیا تو دیکھ لینا
ہر ایک دل سے محبتوں کے نصاب سارے سمیٹ لوں گا

تم اپنی چاہت کے سنگ اس دن میری نگاہوں میں تیرنا پھر
میں اپنی آنکھوں میں ایک دن تو چناب سارے سمیٹ لوں گا
نہ گرم صحرا میں تم بھٹکنا وفا کی تجدید کے لئے اب
میں بن کے بادل تمھاری خاطر سراب سارے سمیٹ لوں گا
محبتوں کی کتاب کا بھی میرے ہی نام انتساب ہوگا
میں چاہتوں کے کٹھن سفر سے عذاب سارے سمیٹ لوں گا
وہ اپنے اندر کے سارے موسم چھپائے مجھ سے مگر میں فیضان
خود اپنے لہجے کی چاندنی سے نقاب سارے سمیٹ لوں گا ،
 

راجہ صاحب

محفلین
جو آنسو دل میں گرتے ہیں وہ آنکھوں میں نہیں رہتے
بہت سے حرف ایسے ہیں جو لفظوں میں نہیں رہتے

کتابوں میں لکھے جاتے ہیں دنیا بھر کے افسانے
مگر جن میں حقیقت ہو کتابوں میں نہیں رہتے

بہار آئے تو ہر اک پھول پر اک ساتھ آتی ہے
ہوا جن کا مقدر ہو وہ شاخوں میں نہیں رہتے

مہک اور تتلیوں کا نام بھو نرے سے جدا کیوں ہے
کہ یہ بھی تو خزاں آنے پہ پھو لوں میں نہیں رہتے
 

تیشہ

محفلین
میرا دیا بجھُے یا جلتا رہے ،بس اپنی مشعل تھام رکھو
اے شہر ہوا کے باشندوں،تم اپنے کام سے کام رکھو

جو ڈھنگ بھی ہو اپنانے کا ، کبھی ہاتھ نہیں وہ آنے کا
تم دھڑکن کہہ کر یاد کرو یا خوشبو اسکا نام رکھو

کوئی دیدہ نم ،کوئی چشم کرم،کوئی حرف ِالم ،کوئی سنگ ِستم
اے شہر ، میں لٹنے آیا ہوں اے لوگوں میرے دام رکھو
تم دریا ہو اور ہم پیاسے، تاحدِ نظر خالی کاسے
ہم تم سے آنکھ چراتے ہیں،تم ہم سے دوُر قیام رکھو
 

راجہ صاحب

محفلین
کیوں میرا دل شاد نہیں
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں

میرا دل غمگیں ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری
یہ دکھ تیرا ہے نہ میرا
ہم سب کی جاگیر ہے پیاری

(فیض)
 

تیشہ

محفلین
اسکا چہرہ رُوبرو ہے آجکل
آنکھ ہر پل با وضو ہے آجکل

اک طرف لاحق غم ِدنیا مجھے
اسُ پہ تیری جستجو ہے آجکل

جس نے تیرے نام کی تعظیم کی
بس وہی اک سَرخروُ ہے آجکل
رنگ بکھرے ہیں مرے چاروں طرف
میں ہی میں ہوں تو ہی تو ہے آجکل
توُ ہی موضوع سخن ہے ہر طرف
بس تمھاری گفتگوُ ہے آجکل
قطرہ قطرہ گررہا ہے جس میں تو
آنکھ میری آبجو ہے آجکل
کررہا ہوں کیوں اسے ارشد تلاش
وہ جو میرے چار سوُ ہے آجکل ۔ ۔ ۔۔ ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
درد کی نیلی رگیں یادوں میں جلنےکے سبب
ساری چیخیں روک لیتی ہیں سنبھلنےکے سبب

درد کی نیلی رگیں تو شور کرتی ہیں بہت
پیکرِ نازک میں اس دل کے مچلنےکے سبب

درد کی نیلی رگیں برفاب بستر میں پڑی
ٹوٹ جاتی ہیں ترےخوابوں میں چلنےکےسبب

درد کی نیلی رگیں عمروں کےنیلے پھیر کو
زرد کرتی جاتی ہیں صحرا میں پلنےکے سبب

درد کی نیلی رگیں ہاتھوں میں دوشیزاؤں کی
چوڑیاں تک توڑدیتی ہیں بکھرنےکے سبب

درد کی نیلی رگیں ٹھنڈی ہوا سے اشک ریز
سر خ ہوتی رہتی ہیں آ نسو نگلنےکے سبب

درد کی نیلی رگیں نیناں سمندر بن گئیں
ہجر کی راتوں کاپہلا چاند ڈھلنےکے سبب


درد کی نیلی رگیں - فرزانہ ننیاں
 
امشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل لوٹ لیا اس نے دکھا دست حنائی
کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا اور ابھرا ہوا سینہ
کیا گھات ہے، کیا گھات ہے، کیا گھات ہے واللہ
جرات کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
 

راجہ صاحب

محفلین
تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا

بے ہوشِ مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں ‌شام نہ آیا

کس دل سے ترا تیرِ نگہ پار نہ گزرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا

دیکھا نہ اُسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشکِ‌ مہِ عید لبِ بام نہ آیا

سو بار بیاباں میں ‌گیا محملِ لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا

اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا توسنیو!
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا

نَے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میرؔ کِسو کام نہ آیا
 

غ۔ن۔غ

محفلین
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو،کبھی تو لکھو
ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں
نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
نہ خواب میں انتظار کوئی
اب ان کے سارے سفر میں صبح ِ یقین کوئی،
نہ شام ِ صد اعتبار کوئی،
نہ انکی اپنی زمین کوئی،نہ آسماں پر کوئی ستارہ
نہ کوئی موسم ،نہ کوئی خوشبو کا استعارہ
نہ روشنی کی لکیر کوئی،نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
جو انکے دکھ پر کتاب لکھے
مُسافرت کا عذاب لکھے
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو

(نوشی گیلانی)
 
Top