میرے پسندیدہ اشعار

مغزل

محفلین
ہر شخص کبریا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
دعویٰ مرا بجا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

سجدہ کروں کے تیرے قدم چومتی رہوں
گھر کعبہ بن گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

سجدہ کروں گی تجھ کو تو کافر کہیں گے لوگ
یہ کون سوچتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں
اک شخص مرگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

ہر وقت کھوئی کوئی سے رہتی ہے اب حنا
کیا حال ہوگیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

حنا تیموری ، بھارت
(بچپن سے پسند ہے ) برسبیلِ پسند


 

مغزل

محفلین
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے !!
احمد مشتاق ؔ
 

مہ جبین

محفلین
آج کا دن کیسے گزرے گا، کل گزرے گا کیسے
کل جو پریشانی میں بیتا وہ بھولے گا کیسے
کتنے دن ہم اور جئیں گے کام ہیں کتنے باقی
کتنے دکھ ہم کاٹ چکے ہیں اور ہیں کتنے باقی
خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات گنوادی
چھوٹے چھوٹے وہموں ہی میں ساری عمر بتادی
منیر نیازی
 

مہ جبین

محفلین
رات اتنی جاچکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی

کیوں دیا دل اس بتِ کمسن کو ایسے وقت میں

دل سی شے جس کے لئے بس اک کھلونا ہی تو ہے

ایسی یادوں میں گھرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں
اور کتنا وقت ان یادوں میں کھونا ہے ابھی



جو ہوا ہونا ہی تھا سو ہوگیا ہے دوستو
داغ اس عہدِستم کا دل سے دھونا ہے ابھی


منیر نیازی
 

مہ جبین

محفلین
ہم نے کھلتے دیکھنا ہے پھر خیابان بہار
شہر کے اطراف کی مٹی میں سونا ہے ابھی

بیٹھ جائیں سایہء دامانِ احمد میں منیر
اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ابھی
منیر نیازی
 

مہ جبین

محفلین
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی
 

راجہ صاحب

محفلین
میرے جسم بوسیدہ میں ابھی جو جان باقی ہے
کسی کے لوٹ آنے کا کوئی امکان باقی ہے
وہ چاہے رابطے بدلے وہ چاہے راستے بدلے
اسے مجھ سے محبت ہے میرا ایمان باقی ہے
 

مہ جبین

محفلین
ہم کیسے یہ کہہ دیں کہ نہیں کوئی ہمارا
مرنے کی تمنا بھی ہے جینے کا سہارا

لینا وہ گرا ٹوٹ کے دامانِ فلک سے
قسمت کا ستارا، مری قسمت کا ستارا

گرتے ہیں وہی جن کو سنبھلنا نہیں آتا
محتاج بنا دیتا ہے انساں کو سہارا

ہونے لگی جنبش مری مفلوج پروں میں
یہ کس نے مجھے اوجِ ثریا سے پکارا

بیٹھے رہیں وہ انجمنِ ناز سجائے
اب تو مری تنہائی ہے خود انجمن آرا
حزیں صدیقی
 

زونی

محفلین
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

شہد جینے کا ملا کرتا ھے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے
 

ظفری

لائبریرین
ہم سمجھتے تھے ہمارے بام ودر دُھل جائیں گے
بارشیں آئیں تو کائی جَم گئی دیوار پر

( سلیم احمد )
 

راجہ صاحب

محفلین
کبھی سفر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے

مجھے خبر نہ ہوئی اور زمانہ جاتے ہوئے
نظر بچا کے تیرا نام لے گیا مجھ سے

اسے زیادہ ضرورت تھی گھر بسانے کی
وہ آ کے میرے در و بام لے گیا مجھ سے

بھلا کہاں کوئی جز اس کے ملنے والا تھا
بس ایک جرات ناکام لے گیا مجھ سے

بس ایک لمحے کے سچ جھوٹ کے عوض فرحت
تمام عمر کا الزام لے گیا مجھ سے
 

عمر سیف

محفلین
اکثر ایسا ہو جاتا ہے

دھوپ کو سایہ دھو جاتا ہے


آنکھ میں آنسو کی فصلوں کو

کون ہے آکر بو جاتا ہے


آس کا پنچھی اُڑتے اُڑتے

دُور اُفق میں کھو جاتا ہے


کھویا لمحہ، آکے گلے سے

ملتا ہے اور رو جاتا ہے


دھرتی روند کے چلنے والا

ماٹی اندر سو جاتا ہے


فاخرہ بُتول
 

راجہ صاحب

محفلین
بعد بھی تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماء
یاد رہی تیری یہاں، پھر تیری یاد بھی گئی

اس کے وصال کے لئے، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل کہ تھی خراب، اور خراب کی گئی

تیرا فراق جان ِجاں، عیش تھا کیا میرے لئے
... یعنی تیرے فراق میں، خوب شراب پی گئی

س کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی
 

عمر سیف

محفلین
کوئی تو ترکِ مراسم پہ واسطہ رہ جائے
وہ ہم نوا نہ رہے صورت آشنا رہ جائے

عجب نہیں کہ مِرا بوجھ بھی نہ مُجھ سے اُٹھے
جہاں پڑا ہے زرِ جاں وہیں پڑا رہ جائے

میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے
کواڑ رات کو گھر کا اگر کُھلا رہ جائے

کسے خبر کہ اسی فرش ِ سنگ پر سو جاؤں
مِرے مکاں میں بستر مرا بچھا رہ جائے

ظفر ہی بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں
کُھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے​
 

راجہ صاحب

محفلین
شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے
ایک دوعالم بھی تھا اورا یک یہ عالم بھی ہے

اہل دل کو شکوہ بے مہری عالم سہی
دیکھنا یہ ہے کہ احساس شکست غم بھی ہے

پاہی لیں گے منزلیں دشواریوں کے باوجود
کوئی شے راہ طلب میں کوشش پیہم بھی ہے

منحصر ہے ظرفِ انسان پر مداوائے حیات
زرہ ناچیز ہی برہم کن عالم بھی ہے

صرف انداز بیاں طرز ادا کی بات ہے
داستان زندگی واضع بھی ہے مبہم بھی ہے

اے غم دوران ترا ہر وار ہنس کر سہہ لیا
دل بظرف دل تو ہے کی غم بقدر بھی ہے

گریہ درقت میں بھی محسن سلیقہ چاہیے
درد کا رشتہ بہت نازک بھی ہے محکم بھی ہے

محسن بھوپالی
 

عمر سیف

محفلین
پتھر ہی سہی، راہ میں حائل تو رہوں گا
کچھ دیر تیرا مدِ مقابل تو رہوں گا

جب تک تیری بخشش کو بھرم کُھل نہیں جاتا
اے میرے سخی! میں تیرا سائل تو رہوں گا

اس واسطے زندہ ہوں سرِ مقتلِ یاراں
وابستہء کم ظرفیِ قاتل تو رہوں گا

اے تیز ہوا میرا دھواں دیکھ کے جانا
بجھ کر بھی نشانِ راہِ منزل تو رہوں گا

دشمن ہی سہی نام تو لے گا میرا تُو بھی
یوں میں تیری آواز میں شامل تو رہوں گا

محسن ضدِ اعدا سے اگر مر بھی گیا میں
معیارِ تمیزِ حقِ باطل تو رہوں گا

محسن نقوی
 

راجہ صاحب

محفلین
یہ شبِ فراق، یہ بے بسی، ہیں قدم قدم پہ اداسیاں
میرا ساتھ کوئی نہ دے سکا، میری حسرتیں ہیں دھواں دھواں

میں تڑپ تڑپ کے جیا تو کیا، میرے خواب مجھ سے بچھڑ گئے
میں اداس گھر کی صدا سہی، مجھے دے نہ کوئی تسلیاں

چلی ایسی درد کی آندھیاں، میرے دل کی بستی اجڑ گئی
یہ جو راکھ سی ہے بجھی بجھی، ہیں اسی میں میری نشانیاں

یہ فضا جو گرد و غبار ہے، میری بے کسی کا مزار ہے
میں وہ پھول ہوں جو نہ کھل سکا، میری زندگی میں وفا کہاں

نامعلوم
 
Top