نہ دولت نہ راحت نہ گھر چاہیے ،
زندگی کی راہ میں ایک ہم سفر چاہیے.
نہ رنگین سحر ہو نہ سہانی شام ہو،
میری راتوں کو بس ایک قمر چاہیے.
شمع یونہی جلتی رہے گی رات بھر ،
پتنگے میں بھی مگر سوزِ جگر چاہیے.
خود ہی آجائینگے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ،
دعاؤں میں بھی مگر تھوڑا أثر چاہیے.
دوا تو ہے اپنی جگہ چارہ گر ،
دعا میں بھی مگر تھوڑا أثر چاہیے.
دل سے نکلی دعائیں ہوتی ہے قبول،
ہم میں بھی مگر تھوڑا صبر چاہیے.
دعا تو ہے اپنی جگہ چارہ گر،
دوا میں بھی مگر تھوڑا أثر چاہیے.
ہے دل میں میرے حُسن کی انجمن،
مگر دیکھنے کو تیری ایک نظرچاہیے.
یہ غربت، امیری یہ شہرت ہے فانی،
نرگس بتا کچھ دیگر کیا چاہیے.