میرے پسندیدہ اشعار

مومن فرحین

لائبریرین
یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست
میں نہ مجنوں ہوں نہ مجنوں کا زمانہ مرے دوست
ہجر انساں کے خد و خال بدل دیتا ہے
کبھی فرصت میں مجھے دیکھنے آنا مرے دوست
شام ڈھلنے سے فقط شام نہیں ڈھلتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے جلدی پلٹ آنا مرے دوست

اشفاق ناصر
 

مومن فرحین

لائبریرین
اداس شامیں، اجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا

ابھی نئی وادیوں ، نئے منظروں میں رہ لو مگر میری جاں
یہ سارے اک ایک کرکے جب تم کو چھوڑ جائیں تو لوٹ آنا

نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں
تمہارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا

مری وہ باتیں تو جن پہ بے اختیار ھنستا تھا کھلکھلا کر
بچھڑنے والے مری وہ باتیں کبھی رلائیں تو لوٹ آنا

فرحت عباس
 
نہ وہ ادائیں ، نہ ناز و غرور ، خیر تو ہے ؟
اداس بیٹھے ہیں میرے حضور ، خیر تو ہے ؟

ہماری سانس کو تم نے اسیر کر ڈالا !
نہ کوئی جرم نہ کوئی قصور ، خیر تو ہے ؟

وہ بزم جس کو ہمارے لہو نے نام دیا
سجا رہے ہیں اُسے ہم سے دور ، خیر تو ہے ؟

تمہارے شہر کے سب لوگ محتسب نکلے !
کہ میکدہ ہوا آنکھوں سے دور ، خیر تو ہے ؟

جنوں بھی ، شوق بھی ، دیوانگی بھی حیراں ہے
کہ محوِ رقص ہے اپنا شعور ، خیر تو ہے ؟

تیری گلی ہے نظر میں ، کہ وادیِ سینا
مہک رہے ہیں نگاہوں میں طور ، خیر تو ہے ؟
 

مومن فرحین

لائبریرین
بے تحاشا ہے تجھے یاد کیا
اور بھلایا بھی بہت ہے تجھ کو
ساری رونق ہی تیرے دم سے ہے
اور تیرے بکھرے ہوئے غم سے ہے
جس قدر
میں نے تعلق تیرا محسوس کیا
اتنی گہرائی تو روحوں میں ہوا کرتی ہے
جس قدر
میں نے تیری ذات کو خود میں پایا
اتنی یکتائی کہاں ملتی ہے
فاصلے وقعتیں کھو بیٹھے ہیں
دوریاں پھیکی پڑیں
اتنی شدت سے تجھے سوچا ہے
اتنی شدت سے تجھے چاہا ہے
شدتیں عشق کی معراج ہوا کرتی ہیں۔۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم
کئی رُتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
 

سیما علی

لائبریرین
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا،،،
زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا!!!!!!!!!!!!!!

پروین شاکر
 

سیما علی

لائبریرین
ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا

ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا!!!!
عروج حد سے بڑھا تو زوال تک پہنچا

خود اپنے آپ میں جھنجھلا کے رہ گیا آخر
مرا جواب جب اس کے سوال تک پہنچا

غبار کذب سے دھندلا رہا ہمیشہ جو!!!!
وہ آئنہ مرے کب خد و خال تک پہنچا

چلو نہ سر کو اٹھا کر غرور سے اپنا!!!!!!!!!!
گرا ہے جو بھی بلندی سے ڈھال تک پہنچا

جسے بھروسا نہیں تھا اڑان پر اپنی!!
وہی پرندہ شکاری کے جال تک پہنچا

طواف کرتے رہے سب ہی راستے میں مگر
ہر ایک شخص ہی گرد ملال تک پہنچا

مری نجات کا ہوگا ظفرؔ وسیلہ وہی!!!!!!
جو لفظ نعت کا میرے خیال تک پہنچا

ظفر اقبال ظفر


 
آخری تدوین:
Top