محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کسی منچلے نے ابن سعید بھائی کی شادی پر مبارک باد کے دھاگے کو بارِ دِگر کھول دیا اور وہ اِک نئے سِرے سے مبارک بادیں وصول کرنے لگے۔ ہم نے بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی ( تاریخ دیکھے بغیر) ایک عدد نظمِ مبارک باد لکھ ماری۔ پھر پتہ چلا کہ وہ تو پرانے شادی شدہ ہیں ، لہٰذا اب یہ نظم ہر نئے شادی شدہ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ ( ہمیں وہ صاحب نظر آتو جائیں ذرا، جنوں نے چار سالہ پرانے دھاگے کو دوبارہ کھول کر سعود ابن سعید بھائی کو شادی کی مبارک باد دے ڈالی!)
نئے شادی شداؤں کے نام
محمد خلیل الرحمٰن
تیری شادی پہ تحفہ میں دوں گا بھی کیا
اپنی منظوم اِک اِس دُعا کے سِوا
گو تھی لڑکی سے تقدیر تیری تہی
ھائے پِھر بھی یہ لڑکی تُجھے مِل گئی
شادی کرنے سے پہلے ذرا دیکھتا
سارے شادی شداؤں کا جو حال تھا
اپنے خالو کو، ماموں کو بھی دیکھتا
حشر خالہ ، ممانی نے جو کردیا
تیرے تایا زمانے میں مشہور تھے
کرکے شادی بچارے وہ مقہور تھے
تیرے سب دوستوں کی جو حالت ہوئی
زندگی بھر کی اُن کو خجالت ہوئی
کرکے شادی جو اُن کو نصیحت ہوئی
بعد از مرگ دُگنی فضیحت ہوئی
اب گرہ میں نصیحت یہ تو باندھ لے
سامنے اپنی بیوی کے چُپ ساندھ لے
سامنے کوئی بلی جو آئے نظر
کوئی حرکت سے اُس کی ، نہ کر در گُزر
ہاتھ اپنا بڑھا اور جوتا اُٹھا
کر جہنم رسید اس کو تو ، کرکے ٹھا!
تیری اِس بات سے بیوی ڈر جائے گی
وہ تو ڈر جائے گی، گویا مر جائے گی
گرچہ اِس مشورے میں قباحت ہے اِک
جو کہ اِس وقت کی ہی ضرورت ہے اِک
تیری حرکت کو بیوی نے دیکھا جونہی
سُرخ شعلہ بنے اور چیخے یونہی
’’کیسی حرکت یہ کی ہے مرے سامنے
بعد ا س کے لگے اپنا دِل تھامنے؟
آکے بیٹھے نہیں ، گھر کو گندا کیا
آئے غصے میں اور ایسا دھندا کیا
کل سے حرکت کوئی ایسی کرنا نہیں
سامنے ہر کسی کے بگڑنا نہیں
باتیں ساری بس اب میری مرضی سے ہوں
ہوگا بس اب وہی کچھ کہ جو میں کہوں‘‘
بس اگر ایسا کوئی ہوا ماجرا
اور بیوی نے قابو وہیں پالیا
سمجھو قسمت نے تم کو ہےپھینکا وہیں
کی پِٹائی زبردست ، سینکا وہیں
سارے عالم کے شوہر جہاں ڈھیر ہیں
بیویاں جِس گلی کی سوا سیر ہیں
صبر کرنا مری جان ، رونا نہیں
زندگانی کو رو رو کے کھونا نہیں
پھر پڑوسن تمہیں یاد آجائے گی
یاد اس کی تمہیں پھر سے گرمائے گی
بس کلیجے سے اُس کو لگاکر جیو!
یاد اُس کی تمنا بنا کر جیو!