ناطقہ سر بگریباں ہے

ناطقہ سر بگریباں ہے
=============
وکیل صاحب کا نیا شاگرد بہت ہونہار تھا۔ اس نے آتے ہی وکیل صاحب کی نظر میں پسندیدگی حاصل کرلی تھی جب اپنی تربیت کے پہلے ہی دن اس نے ایک عجیب و غریب شرط سامنے رکھی۔
" آپ ملک کے قابل ترین وکیل ہیں اور میں آپ کی شاگردی میں وکالت سیکھنا چاہتا ہوں۔ فیس آپ کی منہ مانگی ہوگی لیکن شرط یہ ہے کہ آپکی وکالت سکھانے کی قابلیت ثابت ہوجائے اور وہ اسی صورت میں ہوگی جب میں اپنی وکالت کی زندگی کا پہلا کیس لڑوں اور جیت جاؤں ۔ صرف اس وقت آپ اپنی منہ مانگی فیس کے حقدار ہوں گے اور میں اس کی ادائیگی کا پابند ہوں گا۔ "
استاد کو یہ بات پسند آئی اور دونوں میں ان شروط پر اتفاق ہو گیا۔
دونوں نے بہت محنت کی اور استاد نے پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا علم شاگرد کو منتقل کیا اور شاگرد نے بھی پوری تن دہی کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ لیکن تربیت کی تکمیل ہوتے ہی شاگرد کی وکالت میں دلچسپی ختم ہوگئی اور وہ موسیقی سیکھنے کی طرف راغب ہوگیا۔
استاد نے جب اس بات کا شکوہ کیا اور فیس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو شاگرد نے اسے وہ شرط یاد دلائی۔ چنانچہ استاد نے شاگرد پر مقدمہ دائر کردیا۔
جج کے سامنے دلائل دیتے ہوئے استاد کا کہنا تھا کہ چونکہ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور ملزم جان بوجھ کر فیس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ مجھے میرا حق دلایا جائے۔
شاگرد نے بھی جج کے سامنے دلائل پیش کئے کہ چونکہ شرط باہمی اتفاق سے طے کرلی گئی تھی۔ اس لئے میں اس شرط کے مطابق ہی ادائیگی کرنے کا پابند ہوں۔
اب جج صاحب شش و پنج میں ہیں کہ اس مقدمے کا کیا فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ دونوں فریقوں کا معاملہ یہ رخ اختیار کرچکا ہے کہ:
گر جیت گئے تو کیا کہنے
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اب آپ ہی بتائیے کہ اس کا کیا حل ہے۔۔۔۔۔
کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔فلسفیانہ اور منطقی کہانیوں سے ماخوذ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ واقعہ ہم نے کافی عرصہ پہلے منطق کی ہی ایک کتاب میں پڑھا تھا۔ یہ یونانی فلسفی پرطاغورس (Protagoras) اور اس کے شاگرد Euathlus سے منسوب واقعہ ہے۔ میرے خیال میں اس واقعہ سے منطق کی بے بسی کا مقدمہ کبھی نہیں لڑاجاتا۔ یہ معضلہ کی بازگشت (Rebuttal Of Dilemma) کے ابتدائی اسباق میں پڑھایا جاتا ہے جو کہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ایسے مغالطات کو بنیاد بنا کر ایک طرف تو منطق کا رد نہیں کیا جاسکتا۔اور دوسری طرف یہ بات ہے کہ منطق کا رد کرنے والا خود ہی رد کرنے میں بھی منطق کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔
در اصل منطق کسی کا ایجاد کردہ علم نہیں ہے۔ بلکہ اس کے قوانین کائنات کے اندر پائے جاتے ہیں۔ انسان نے صرف اسکی دریافت کرکے اسے مدون کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ریاضی کے قوانین ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ منطق کسی کی اسیر ہو نہ ہو۔ ہم خود ہی منطق کے اسیر ہیں۔ کیونکہ ہم خود منطق سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ اتنا امر ضرور ہے کہ کوئی موٹی موٹی اصطلاحات کا استعمال کرکے بتاتا ہے کہ وہ منطق جانتا ہے۔ حالانکہ منطق انسان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے۔
کسی کا چہرہ دیکھ کر اس کے غصے کا اندازہ لگانا۔ کسی کا لہجہ محسوس کرکے اسکی خفگی کا سراغ لگانا۔ باپ کا موڈ دیکھ کر بچے کا سہم جانا۔ کسی کی ہچکچاہٹ دیکھ کر یہ کہنا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ سارے ابتدائی نوعیت کے منطقی استدلالات ہی ہیں جو ہر انسان میں کسی نہ کسی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ علم منطق صرف انہی مظاہرکو مدون کرکے انہیں آفاقی بنا کر پیش کردیتا ہے۔
 
یہ واقعہ منطق کا رد پیش کرنے کے لئے بیان نہیں کیا گیا، ش البتہ منطق کی Limitations بیان کرنے کے لئے ایک مؤثر مثال ضرور ہے یہ۔۔۔۔منطق ایک بدیہی چیز ہے اور ضروری بھی ہے لیکن ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔
کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
 
یہ واقعہ منطق کا رد پیش کرنے کے لئے بیان نہیں کیا گیا، ش البتہ منطق کی Limitations بیان کرنے کے لئے ایک مؤثر مثال ضرور ہے یہ۔۔۔۔

میرے خیال میں ایسا بھی نہیں ہے۔کیونکہ بیسویں صدی میں منطق کی ترقی اور جدید ریاضیاتی منطق ان منطقی مغالطات کی قلعی کھولی ہے۔ اس سسٹمیٹک کلاسفکیشن کے بعد یہ حدود والا چکربھی ختم ہوگیا ہے۔

منطق ایک بدیہی چیز ہے اور ضروری بھی ہے لیکن ہر مسئلے کا حل نہیں ہے۔

منطق بدیہی ہے۔ لیکن اتنی زیادہ بدیہی بھی نہیں کہ ہر کوئی منطق کے تمام امور کا احاطہ کرسکے۔ جس طرح ایک شاعر عروض کی تمام بحور میں محض موزوں طبیعت کی بنیاد پر شعر نہیں کہہ سکتا اسی طرح منطق کے تمام استدلالات کا بدیہی طور پر احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلیے فکر کی سلامتی کی خاطر اصول متعین کیے گئے ہیں۔

کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
منطق اپنی حدود سے نہیں نکل سکتی یہی اسکی آفاقیت کی وجہ ہے۔ اگر منطق میں مطابقت نہیں ہوگی تو یہ آفاقی نہیں ہوسکتی۔ اوراس کی مطابقت کو مطابقت کی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے مشاہدے کی حد ہے۔ خودمنطق اس حد کی پابند نہیں۔
 
آخری تدوین:
آپ منطق کی رُو سے ذرا اس دلچسپ صورتحال کا فیصلہ سنا دیجئے۔۔۔۔۔

فیصلہ تو واضح ہے کہ یہ ایک لاجکل فالیسی ہے۔ اور اس طرح کی لاجیکل فالیسیز پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ اس صورت میں استخراج کو استقرا سے مطابقت میں لاکر فیصلہ کیاجاتا ہے کہ آیا نتیجہ درست ہے یا غلط۔ اگر استخراج استقرا کے مقابل آجائے گا تو اسے رد کیا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی یہ قضیہ بنائے کہ کراچی پاکستان کے جنوب میں ہے اور نتیجہ یہ نکالے کہ اس لیے پاکستان کراچی کے شمال میں ہے۔ تویہاں استخراج درست ہے لیکن بات خلافِ واقعہ ہے اس لیے رد کیا جائے گا۔ چنانچہ منطق میں ایسی اکثر پہیلیاں قرون وسطی ہی میں بے معنی قرار دے دی گئی تھیں۔
 
آپ کا مدعا تبھی واضح ہوگا جب آپ اس قضیے کو بے معنی ثابت کریں۔۔۔اور واضح کریں کہ جو مثال آپ نے دی ہے (کراچی، شمال اور جنوب والی) وہ اس قضیے پر کیسے منطبق ہورہی ہے۔۔۔۔محض یہ کہہ دینے سے کہ ایسی کئی لاجیکل فالیسیز (مغالطوں) کو قرونِ وسطیٰ میں بے معنی ثابت کیا جاچکا ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قضیہ ہی بے معنی ہے۔ یہ محض ایک دعویٰ بے دلیل ہی سمجھا جائے گا۔
یہ بات محض بحث برائے بحث کے لئے نہیں ہے بلکہ یقین کیجئے کہ اگر آپ کی دلیل یا دلائل میں وزن ہوا تو ہم اسے بہ دل و جان قبول کرلیں گے اور آپ کے مشکور ہونگے۔
 
آپ کا مدعا تبھی واضح ہوگا جب آپ اس قضیے کو بے معنی ثابت کریں۔۔۔اور واضح کریں کہ جو مثال آپ نے دی ہے (کراچی، شمال اور جنوب والی) وہ اس قضیے پر کیسے منطبق ہورہی ہے۔۔۔۔محض یہ کہہ دینے سے کہ ایسی کئی لاجیکل فالیسیز (مغالطوں) کو قرونِ وسطیٰ میں بے معنی ثابت کیا جاچکا ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قضیہ ہی بے معنی ہے۔ یہ محض ایک دعویٰ بے دلیل ہی سمجھا جائے گا۔

حضور میں نے اوپر کئی چیزوں کے حوالے عرض کیے ہیں جس میں جدید ریاضیاتی منطق، معضلہ کی بازگشت، اور استخراج کی استقرا سے مطابقت اہمیت کے حامل ہیں۔ میری بد قسمتی یہ ہے کہ میں اس بحث کو اس لیول پر لا نہیں سکوں گا جس لیول پر آپ اسے سمجھنا چاہ رہے ہیں۔ کیونکہ منطق کے محدود ہونے کی بحث آپ نے جن نکات پر چھیڑی ہے انہیں منطق کا ایک عام سا طالب علم بھی منطق کی محدودیت پر محمول نہیں کرتا بلکہ انہیں منطقی مغالطات ہی سمجھا کرتا ہے۔
شمال اور جنوب والی مثال اور آپ کی پوسٹ میں موجود نکتہ میں موافقت کا پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی منطقی مغالطات ہیں۔
ان کی بہتر تفہیم کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ جدید منطق اور اس کے طور طریقوں کا مطالعہ کرلیا جائے تاکہ کسی لاحاصل بحث سے بچا جاسکے۔ کیونکہ یہ چیستانیں صرف ارسطوئی منطق کا مذاق اڑانے تک تو درست ہیں لیکن اب انکی کوئی حیثیت باقی نہیں ہے۔ اور اس بات کے لیے صرف اتنی ہی سی بات کافی ہے کہ یہ "مغالطے" ہیں جو واقع میں لائقِ اطلاق نہیں ہیں۔
شکریہ۔
 
میں نے جو قصہ درج کیا ہے اس کے آخر میں ایک نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ آپ ثابت کیجئے کہ اس قصے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر منطقی ہے۔۔۔یعنی کس مقام پر آکر نتیجہ اخذ کرنے والے کی سوچ خطا کا شکار ہوئی ہے۔۔۔آپ بار بار یہی دہرا رہے ہیں کہ پرانے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسے کچھ قضیوں کو "مغالطہ" اور "بے معنی" ثابت کردیا ہوا ہے۔۔۔لیکن کیسے؟ کچھ اس پر بھی تو روشنی ڈالئے۔۔۔
 
میں نے جو قصہ درج کیا ہے اس کے آخر میں ایک نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ آپ ثابت کیجئے کہ اس قصے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر منطقی ہے۔۔۔یعنی کس مقام پر آکر نتیجہ اخذ کرنے والے کی سوچ خطا کا شکار ہوئی ہے

اس سوال کا جواب میں اوپر عرض کرچکا ہوں۔
"اوراس کی مطابقت کو مطابقت کی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے مشاہدے کی حد ہے۔ خودمنطق اس حد کی پابند نہیں۔"
مزید تفصیلات کے لیے کرٹ کرڈل کے ناتمامی کے تھیورمز ملاحظہ فرمائیں۔

آپ بار بار یہی دہرا رہے ہیں کہ پرانے زمانے میں کچھ لوگوں نے ایسے کچھ قضیوں کو "مغالطہ" اور "بے معنی" ثابت کردیا ہوا ہے۔۔۔لیکن کیسے؟ کچھ اس پر بھی تو روشنی ڈالئے۔

اس کا جواب بھی دے چکا ہوں کہ انہیں بے مغالطہ کہنے کی اور غیر اہم تصور کرنے کی وجہ کیا ہے۔ غالباً آپ نے توجہ نہیں دی۔ دوبارہ ملاحظہ کیجیے:
اس صورت میں استخراج کو استقرا سے مطابقت میں لاکر فیصلہ کیاجاتا ہے کہ آیا نتیجہ درست ہے یا غلط۔ اگر استخراج استقرا کے مقابل آجائے گا تو اسے رد کیا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی یہ قضیہ بنائے کہ کراچی پاکستان کے جنوب میں ہے اور نتیجہ یہ نکالے کہ اس لیے پاکستان کراچی کے شمال میں ہے۔ تویہاں استخراج درست ہے لیکن بات خلافِ واقعہ ہے اس لیے رد کیا جائے گا۔
 
معذرت کے ساتھ یہی عرض کروں گا کہ آپ اپنی بات کی تفہیم نہیں کرپائے ابھی تک۔۔۔۔آپ نے اپنے پہلے مراسلے میں بیان کیا کہ " فرق یہ ہے کہ کوئی موٹی موٹی اصطلاحات سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ منطق جانتا ہے ورنہ انسان پیدائشی طور پر منطق جانتا ہے"۔۔۔اب دیکھئے آپ ہر مراسلے میں موٹی موٹی اصطلاحات کا ہی استعمال کر رہے ہیں لیکن مجھ جیسے کند ذہن کو ابھی تک اپنی بات سمجھا نہیں سکے۔۔۔
سیدھی سی بات ہے کہ آپ کراچی اور پاکستان کی جو مثال بار بار دے رہے ہیں اسکی بجائے اسی زیرَ بحث قصے کو بطور مثال استعمال کرکے بتائیے کہ کہاں استخراج درست ہے اور کہاں وہ استقراء کے مقابل آرہا ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ لایعنی ہے۔۔۔۔کراچی اور پاکستان والی مثال تو سب کی سمجھ میں آرہی ہے، اسی قصے کے تناظر میں کچھ سمجھا سکیں تو عنایت۔
 
معذرت کے ساتھ یہی عرض کروں گا کہ آپ اپنی بات کی تفہیم نہیں کرپائے ابھی تک۔۔۔۔آپ نے اپنے پہلے مراسلے میں بیان کیا کہ " فرق یہ ہے کہ کوئی موٹی موٹی اصطلاحات سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ منطق جانتا ہے ورنہ انسان پیدائشی طور پر منطق جانتا ہے"۔۔۔اب دیکھئے آپ ہر مراسلے میں موٹی موٹی اصطلاحات کا ہی استعمال کر رہے ہیں لیکن مجھ جیسے کند ذہن کو ابھی تک اپنی بات سمجھا نہیں سکے۔۔۔

حضورِ والا اس حوالے سے میں عرض کر چکا ہوں کہ میں بحث کو اس سطح پر لا کر جاری نہیں رکھ سکوں گا۔ کیونکہ پھر بات دقیق سے دقیق تر ہوجائے گی۔ اور یہ مجبوری اس وجہ سے پیش آرہی ہے کہ "بدیہی" منطق" جو انسان میں قبل تجربی اور قبل فکری طور پر پائی جاتی ہے وہ اس قدر درست نہیں ہوتی کہ منطق کی پیچیدگیوں کا احاطہ کرسکے۔
میں نے ابھی تک کوئی بھی غیر ضروری اصطلاح کا استعمال نہیں کیا ہے۔
اور گرڈل کے تھیورمز کی طرف رجوع کی درخواست اسلیے کی ہے کہ یہ تھیورمز استخراج میں مطابقت کی موجودگی کی وجہ سے پائے جانے والے مسائل کا حتمی پروف پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں میں نے بار بار عرض کی ہے کہ کسی بھی مطابقت کی دنیا میں پائے جانے والے مظاہر اور ان کے قضایا میں کوئی ایک جملہ یا قضیہ ہمیشہ غیر ثابت شدہ ہوگا۔ اسے اس مطابقت کی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت نہیں کیا جاسکے گا۔ منطقی چیستانوں میں اکثر اسی قبیل سے ہیں جس میں استخراج و استنتاج بشمول قضایا کے درست ضرور ہوگا لیکن ناتمام ہوگا۔
بہرحال میں ایک بار پھر معذرت چاہوں گا کہ اس طرف جانا ہی نہیں چاہتا۔

سلامت رہیں۔
 
کسی بھی مطابقت کی دنیا میں پائے جانے والے مظاہر اور ان کے قضایا میں کوئی ایک جملہ یا قضیہ ہمیشہ غیر ثابت شدہ ہوگا۔ اسے اس مطابقت کی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت نہیں کیا جاسکے گا۔

آپ کی یہ بات مندرجہ ذیل بات(کہانی کے سبق) سے کس طرح مختلف ہے؟ کیا دونوں جگہوں پر کم و بیش ایک ہی مفہوم پیش نہیں کیا گیا (اگرچہ عبارت اور الفاظ مختلف ہیں) مطابقت کی دنیا کے اندر رہتے ہوئے یا متعین کردہ حدود سے ماوراء ہوئے بغیر بعض منطقی نتائج اخذ نہیں کئے جاسکتے۔۔۔۔
کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
 
آپ کی یہ بات مندرجہ ذیل بات(کہانی کے سبق) سے کس طرح مختلف ہے؟ کیا دونوں جگہوں پر کم و بیش ایک ہی مفہوم پیش نہیں کیا گیا (اگرچہ عبارت اور الفاظ مختلف ہیں) مطابقت کی دنیا کے اندر رہتے ہوئے یا متعین کردہ حدود سے ماوراء ہوئے بغیر بعض منطقی نتائج اخذ نہیں کئے جاسکتے۔۔۔۔

جی قطعی طور پر مختلف ہے۔
یہ حدود منطق کی نہیں بلکہ مطابقت کی مختلف ڈومینز اور مشاہدات کی مختلف دنیاؤں کی ہیں۔ یہی بنیادی فرق ہے جو میں اوپر بھی عرض کیا تھا۔
 
Top