محمود احمد غزنوی
محفلین
ناطقہ سر بگریباں ہے
=============
وکیل صاحب کا نیا شاگرد بہت ہونہار تھا۔ اس نے آتے ہی وکیل صاحب کی نظر میں پسندیدگی حاصل کرلی تھی جب اپنی تربیت کے پہلے ہی دن اس نے ایک عجیب و غریب شرط سامنے رکھی۔
" آپ ملک کے قابل ترین وکیل ہیں اور میں آپ کی شاگردی میں وکالت سیکھنا چاہتا ہوں۔ فیس آپ کی منہ مانگی ہوگی لیکن شرط یہ ہے کہ آپکی وکالت سکھانے کی قابلیت ثابت ہوجائے اور وہ اسی صورت میں ہوگی جب میں اپنی وکالت کی زندگی کا پہلا کیس لڑوں اور جیت جاؤں ۔ صرف اس وقت آپ اپنی منہ مانگی فیس کے حقدار ہوں گے اور میں اس کی ادائیگی کا پابند ہوں گا۔ "
استاد کو یہ بات پسند آئی اور دونوں میں ان شروط پر اتفاق ہو گیا۔
دونوں نے بہت محنت کی اور استاد نے پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا علم شاگرد کو منتقل کیا اور شاگرد نے بھی پوری تن دہی کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ لیکن تربیت کی تکمیل ہوتے ہی شاگرد کی وکالت میں دلچسپی ختم ہوگئی اور وہ موسیقی سیکھنے کی طرف راغب ہوگیا۔
استاد نے جب اس بات کا شکوہ کیا اور فیس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو شاگرد نے اسے وہ شرط یاد دلائی۔ چنانچہ استاد نے شاگرد پر مقدمہ دائر کردیا۔
جج کے سامنے دلائل دیتے ہوئے استاد کا کہنا تھا کہ چونکہ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور ملزم جان بوجھ کر فیس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ مجھے میرا حق دلایا جائے۔
شاگرد نے بھی جج کے سامنے دلائل پیش کئے کہ چونکہ شرط باہمی اتفاق سے طے کرلی گئی تھی۔ اس لئے میں اس شرط کے مطابق ہی ادائیگی کرنے کا پابند ہوں۔
اب جج صاحب شش و پنج میں ہیں کہ اس مقدمے کا کیا فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ دونوں فریقوں کا معاملہ یہ رخ اختیار کرچکا ہے کہ:
گر جیت گئے تو کیا کہنے
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اب آپ ہی بتائیے کہ اس کا کیا حل ہے۔۔۔۔۔
کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔فلسفیانہ اور منطقی کہانیوں سے ماخوذ۔۔۔۔۔۔۔۔
=============
وکیل صاحب کا نیا شاگرد بہت ہونہار تھا۔ اس نے آتے ہی وکیل صاحب کی نظر میں پسندیدگی حاصل کرلی تھی جب اپنی تربیت کے پہلے ہی دن اس نے ایک عجیب و غریب شرط سامنے رکھی۔
" آپ ملک کے قابل ترین وکیل ہیں اور میں آپ کی شاگردی میں وکالت سیکھنا چاہتا ہوں۔ فیس آپ کی منہ مانگی ہوگی لیکن شرط یہ ہے کہ آپکی وکالت سکھانے کی قابلیت ثابت ہوجائے اور وہ اسی صورت میں ہوگی جب میں اپنی وکالت کی زندگی کا پہلا کیس لڑوں اور جیت جاؤں ۔ صرف اس وقت آپ اپنی منہ مانگی فیس کے حقدار ہوں گے اور میں اس کی ادائیگی کا پابند ہوں گا۔ "
استاد کو یہ بات پسند آئی اور دونوں میں ان شروط پر اتفاق ہو گیا۔
دونوں نے بہت محنت کی اور استاد نے پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا علم شاگرد کو منتقل کیا اور شاگرد نے بھی پوری تن دہی کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ لیکن تربیت کی تکمیل ہوتے ہی شاگرد کی وکالت میں دلچسپی ختم ہوگئی اور وہ موسیقی سیکھنے کی طرف راغب ہوگیا۔
استاد نے جب اس بات کا شکوہ کیا اور فیس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو شاگرد نے اسے وہ شرط یاد دلائی۔ چنانچہ استاد نے شاگرد پر مقدمہ دائر کردیا۔
جج کے سامنے دلائل دیتے ہوئے استاد کا کہنا تھا کہ چونکہ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور ملزم جان بوجھ کر فیس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ مجھے میرا حق دلایا جائے۔
شاگرد نے بھی جج کے سامنے دلائل پیش کئے کہ چونکہ شرط باہمی اتفاق سے طے کرلی گئی تھی۔ اس لئے میں اس شرط کے مطابق ہی ادائیگی کرنے کا پابند ہوں۔
اب جج صاحب شش و پنج میں ہیں کہ اس مقدمے کا کیا فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ دونوں فریقوں کا معاملہ یہ رخ اختیار کرچکا ہے کہ:
گر جیت گئے تو کیا کہنے
ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اب آپ ہی بتائیے کہ اس کا کیا حل ہے۔۔۔۔۔
کہانی کا سبق: منطق اور فلسفہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے یا اپنے ہی تسلیم شدہ ضابطوں کے اسیر ہیں اوراپنی متعین کردہ حدود سے ماوراء نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔فلسفیانہ اور منطقی کہانیوں سے ماخوذ۔۔۔۔۔۔۔۔