ناعمہ کا چائے خانہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عائشہ عزیز

لائبریرین
درویش لالہ چائے ۔۔۔ :)

2631131-a-cup-of-tea-with-a-chocolate-biscuit-in-the-saucer.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
آج چائے خانے میں کچھ اردو ادب پر بات ہو جائے۔ اصل میں یہ چائے خانہ کھولا ہی اسی لیے گیا تھا کہ یہاں پر اردو دان حضرات اور شعراء حضرات یہاں بیٹھ کر اردو ادب پر بات کریں اور اپنا اور اردو محفل کا وقت ضائع کریں، میرا مطلب ہے باتوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی جیب سے چائے نوش فرمائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ دنوں ایک تحریر نظر سے گزری، آپ بھی پڑھیے اور اپنی اپنی آراء کا اظہار کیجیئے۔ تحریر ہے :

شعری مغالطے
بعض اشعار تخلیق کسی نے کیے اور مقبول کسی اور کے نام سے ہوئے
تحریر : ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن ہم و طن عزیز کے وگرگوں حالات پر افسردہ بیٹھے تھے کہ بلائے ناگہانی کی طرح ایک دوست آن ٹپکے۔ ہم سے افسردگی کی وجہ دریافت کی، جس کا سرسری ذکر کرنے کے بعد ہم نے اُن سے پوچھا کہ "چائے سے شوق فرمائیں گے یا ٹھنڈے کا بندوبست کیا جائے؟" تاہم وہ ہمیں اُس کیفیت سے باہر نکالنے پر مُصر نظر آئے، جو آج کل ہم پر کچھ زیادہ ہی طاری ہے۔ ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگے، "فکر کی بات نہیں۔ علامہ اقبالؔ فرما گئے ہیں۔

تُندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے، اُونچا اڑانے کے لیے​

ہم نے کہا "آپ نے ہماری مایوسی میں اور اضافہ کر دیا۔" بولے "کیا شعر حسب حال نہیں؟" ہم نے عرض کیا "وہ تو بعد کی بات ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ شعر علامہ اقبالؔ کا نہیں، بلکہ سیالکوٹ کے ایک وکیل، شاعر صادق حسین صادقؔ کا ہے۔" وہ یہ سن کر حیران رہ گئے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ایک اور شعر غلط طور پر علامہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا​

موصوف ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرائے "یہ بھی علامہ کا نہیں ہے؟" ہم نے انہیں مطلع کیا کہ یہ مشہور زمانہ شعر، جو دراصل ایک قرآنی آیت کی تشریح ہے، مولانا ظفر علی خان کا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہ جانے کس طرح بعض اشعار غلط طور پر بعض دوسرے شاعروں کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ چند ایک ساتھ دُہرا ظلم ہوا کہ اُن میں تحریف بھی کر دی گئی۔ ایسا ہی ایک شعر عموماً اس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

شکست و فتح، نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے، خوب کیا​

حیرت ہے، مولانا ابو الکلام آزاد جیسے جید عالم اور ادیب نے "غبار خاطر" میں یہ شعر اسی طرح لکھا ہے۔

اول تو یہ شعر میرؔ کا نہیں، بلکہ امیرؔ کا ہے۔ وہ بھی امیرؔ مینائی نہیں، بلکہ محمد یار خان امیرؔ (متوفی ۱۷۷۵) کا ہے، دوسرا صحیح شعر اس طرح ہے۔

شکست و فتح میاں اتفاق ہے، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا​
 

شمشاد

لائبریرین
اس ضمن میں شاید سب سے زیادہ ظلم پنڈت مہاراج بہادر برقؔ کے شعر اور خود پنڈت جی کے ساتھ ہوا۔ اُن کا ایک جگمگاتا ہوا شعر ہے۔

وہ آئے بزم میں، اتنا تو برقؔ نے دیکھا
پھر اُس کے بعد، چراغوں میں روشنی نہ رہی​

یہ شعر بھی میرؔ صاحب کا قرار دے کر پہلا مصرع یوں ادا کیا جاتا ہے۔

وہ آئے بزم میں، اتنا تو میرؔ نے دیکھا​
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ دنوں اردو کے ایک انتہائی ثقہ ادیب کے اخباری کالم میں میر دردؔ کا ایک مشہور شعر یوں ملا۔

تہمتیں، چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے، اور کیا کر چلے​

صحیح شعر اس طرح ہے۔

تہمتِ چند، اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے، سو ہم کر چلے​

اسی کالم میں سبطِ علی صباؔ کا ایک مقبول شعر اس طرح لکھا گیا تھا۔

دیوار کیا گری، مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں، رستے بنا لیے​

فی الحقیقت پہلے مصرعے میں "کچے" کی جگہ "خستہ" ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ عرصہ قبل ایک اخبار میں حسب ذیل قطعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

کیا ظلم کی، بھتے کی مذمت ہے زباں پر
کیا عدل کی، انصاف کی، اب بات کرو ہو

کیا خوب کہا تھا، یہ کبھی میرؔ نے راجاؔ
"تم قتل کرو ہو کہ، کرامات کرو ہو"​

"کرو ہو" کے الفاظ سے قطعہ نگار نے اندازہ لگا لیا کہ یہ میرؔ کا شعر ہے، جب کہ یہ بھارت کے معروف شاعر کلیم عاجزؔ کا شعر ہے۔ یہ پوری غزل اُن کے مجموعہ کلام "وہ جو شاعری کا سبب ہوا" میں شامل ہے۔ ہم نے محترم قطعہ نگار کو غزل کی فوٹو اسٹیٹ کاپی ارسال کی اور اُن سے درخواست کی کہ قارئین کی رہنمائی کی غرض سے اس کی تصحیح کر دیں۔ انہوں نے تصحیح تو درکنار، ہمارے خط کی رسید دینے کی بھی جرات نہیں کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساہیوال کی باکمال شاعرہ، بسملؔ صابری کا ایک زبان زدِ خاص و عام شعر ہے۔

وہ عکس بن کے، مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے، پانی کے گھر میں رہتا ہے​

اس شعر کے ساتھ یہ ستم ظریفی ہوئی کہ پہلے مصرعے میں "عکس" کے بجائے "اشک" کہا جاتا ہے۔ کہنے والے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ آنکھوں میں اشک ہر وقت نہیں رہ سکتا۔ ہاں (عشق کی شدت کے باعث) "عکس" ہر وقت ہو سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
انشاءؔ کا شعر ہے۔

ہزار شیخ نے ڈاڑھی بڑھائی، سن کی سی
مگر وہ بات کہاں، مالوی مدن کی سی​

شعر کے دوسرے مصرعے میں پنڈت مدن موہن مالوی کا ذکر ہے، لیکن کسی مرحلے پر اس میں تحریف ہوئی اور مصرع یوں ہو گیا۔

"مگر وہ بات کہاں، مولوی مدن کی سی"​
 

شمشاد

لائبریرین
مومنؔ کا ایک مشہور زمانہ شعر ہے۔

اُس غیرتِ ناہید کی، ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے، آواز تو دیکھو​

دوسرے مصرعے میں "چمک" کی جگہ "لپک" لکھا اور بولا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مصطفٰے زیدی کا ایک شعر یوں مشہور ہے۔

ان ہی پتھروں پہ چل کر، اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں، کوئی کہکشاں نہیں ہے​

یہ غزل "کلیاتِ مصطفٰے زیدی" میں بھی موجود ہے اور وہاں دوسرے مصرعے میں "کوئی" کی جگہ "کہیں" ملتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
غالبؔ کا ایک شعر یوں پڑھا جاتا ہے۔

جی ڈھونڈتا ہے، پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں، تصورِ جاناں کیے ہوئے​

صحیح شعر یوں ہے۔

جی ڈھونڈتا ہے، پھر وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں، تصورِ جاناں کیے ہوئے​
 

شمشاد

لائبریرین
ایک شعر کو لوگ عموماً اس طرح پڑھتے ہیں۔

نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے​

دراصل یہ ایک مصرعہ ہے۔ مرزا صادق شررؔ کا پورا شعر یوں ہے۔

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے​
 

شمشاد

لائبریرین
ایک شعر کے دوسرے مصرعے کی اکثر حضرات کو تلاش رہتی ہے۔ شعر حاضر ہے۔

ہے اہل گلستاں کے ہاتھوں، تزئینِ چمن کا یہ عالم
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا​
 

شمشاد

لائبریرین
حرفِ آخر یہ کہ تحریر چاہے نثری ہو یا شعری، اُس میں کسی نہ کسی قسم کی غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان اصلاح کی طرٖف مائل رہے۔ ہم نے اس ضمن میں جو تھوڑا بہت سیکھا ہے، وہ اسی اصلاحی عمل کی بدولت ہے ورنہ

یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
(میرؔ)​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top