ایک دن ہم و طن عزیز کے وگرگوں حالات پر افسردہ بیٹھے تھے کہ بلائے ناگہانی کی طرح ایک دوست آن ٹپکے۔ ہم سے افسردگی کی وجہ دریافت کی، جس کا سرسری ذکر کرنے کے بعد ہم نے اُن سے پوچھا کہ "چائے سے شوق فرمائیں گے یا ٹھنڈے کا بندوبست کیا جائے؟" تاہم وہ ہمیں اُس کیفیت سے باہر نکالنے پر مُصر نظر آئے، جو آج کل ہم پر کچھ زیادہ ہی طاری ہے۔ ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگے، "فکر کی بات نہیں۔ علامہ اقبالؔ فرما گئے ہیں۔
تُندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے، اُونچا اڑانے کے لیے
ہم نے کہا "آپ نے ہماری مایوسی میں اور اضافہ کر دیا۔" بولے "کیا شعر حسب حال نہیں؟" ہم نے عرض کیا "وہ تو بعد کی بات ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ شعر علامہ اقبالؔ کا نہیں، بلکہ سیالکوٹ کے ایک وکیل، شاعر صادق حسین صادقؔ کا ہے۔" وہ یہ سن کر حیران رہ گئے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ایک اور شعر غلط طور پر علامہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
موصوف ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرائے "یہ بھی علامہ کا نہیں ہے؟" ہم نے انہیں مطلع کیا کہ یہ مشہور زمانہ شعر، جو دراصل ایک قرآنی آیت کی تشریح ہے، مولانا ظفر علی خان کا ہے۔