نایاب بھائی آپ نے کہا
قران پاک کے نزول کے بعد ان نجوم و بروج سے منسلک تمام سعد و نحس ساقط قرار پائے
مجھے تو اس بات کانہیں پتہ کہ ایسا ہے لیکن میرا تو اس پر کامل یقین ہے کہ ستاروں کے نحس و سعد اثرات اللہ تبارک تعالیٰ کے چار فرشتوں جبرائیل میکائیل اسرافیل اور عزرائیل کے زیر اثر ہیں شائد گمان اغلب ہے کہ آپ کو یہ بھی نہ ہو پتہ ہو کہ فرشتوں کی کتنی اقسام ہیں بہرحال علم کی کمی کی وجہ سے آپ جس چیز کو کہانت کی وجہ سے باطل اور گمان قرار دیتے ہیں۔ جو کہ مجھے قرآن شریف میں تو کہیں نظر نہیں آیا شائد میری علم کی کمی ہو لیکن اگر نص میں کہیں آیا ہے تو اس کی وجہ ستاروں کو اختیار کُل کا حامل قرار دیتے ہوئے ایسے عقیدہ کو باطل اور کہانت کہا گیا ہے ۔اس مقصد کے لیئے میں اپ کو ابو الفراج ابنِ جوزی کی تصنیف تلبیس ابلیس پڑھنے کا مشورہ دونگا۔جس میں ستاروں سے متعلق شرکیات و کاہنوں کا تفصیلاً بیان مؤجود ہے۔
پتہ وہ کونسے صاحب علم تھے جنہوں نے آپ کو یہ لکیروں والی سُنی سنائی بات بغیر تحقیق کیئے آگے بیان کردی ہے۔۔۔ ۔۔البتہ لکیروں واے علم کو علم رمل کہتے ہیں اور یہ علم دانیال علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔۔۔ ۔بہرحال چونکہ آپ اس علم کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں ہیں تو مزید بات کرنا وقت کے ضیاع کے مترادف ہے ورنہ آپ کو مثالوں سے سمجھا دیا جاتا کہ کیسے اس علم کے ذریعے سپر کمپیوٹر بنا ہے اور کمپیوٹر کی لینگوئج کیسے علم الرمل کی اشکال سے مناسبت رکھتی ہے۔
جہاں تک آپ کے عمر ضائع کرنے کی بات ہے تو نایاب جی مجھے افسوس ہے کہ آپ نے عمر ضائع کی اور اصل حقیقت تک نہ پہنچ سکے بقول شاعر
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں
لیکن بہرحال علم نجوم ایک عظیم سائنس ہے اور بیماریوں کا اس سے پتہ چلتا ہے اور اگر کوئی گردش حالات کامارا آپ سے علمی مدد لینے آجائے تو اتنا یاد رکھیں کہ وہ من جانب اللہ ہوتا ہے ورنہ ہم نے ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے زائچہ میں زحل منحوس پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ بدحالی کا شکار ہیں تو ہمارے کہنے پر وہ عمل نہیں کرتے نہ پتھر پہنتے ہیں حالانکہ پتھر بھی اللہ کی ہی پیدا کردہ مخلوق ہے اور اس میں الیکٹران پروٹان اور نیوٹران کی ایک خاص ردھم سے حرکت بھی اس قادر و حکیم کی قدرت اور حکمت کی صناعی کا نمونہ ہے جو کہ ہاتھ کی جلد سے مَس ہوکر سٹون تھراپی کے نقطہ نظر سے شفا کا باعث بن سکتی ہے۔لیکن وہ آپ والی بات دہراتے ہیں کیونکہ اُن کے نصیب میں شفاء نہیں لکھی ہوتی ہے اور ان کی کتاب زندگی سبقت کرتی ہے جس کا قرآن شریف میں ان الفاظ میں ذکر آیا ہے
لکل اجل کتاب
اور مجھے سمجھ نہیں آتی ہے کہ اپ نے اس آیت "واذا مرضت ہو یشفین " کو کیسے اپنے نقطہ نظر سے تطبیق دے دی ہے۔۔۔ ۔۔میرے بھائی جب آپ بیمار پڑتے ہیں تو کیا ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتےا؟؟؟؟ یا ایمان کے ماشاء اللہ اُس درجہ پر فائز ہیں کہ آپ کا توکل اور اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات پر ایمان اتنا کامل اور عقیدہ اتنا متزلل ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جس نے مجھے بیماری دی ہے وہی مجھے شفا دے گا ۔۔۔ کیونکہ آپ کے بیان کے مطابق تو یہی محسوس ہوتا ہے۔برسبیل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا چلوں۔۔۔
پیر مہر علی شاہ صاحب ایک مقام پر تشریف فرما تھے کہ ایک نابینا علم تشریف لائے اور کہا کہ آپ قرآن شریف کی آیات کی تشریح اپنے آپ سے گھڑتے اور بیان کرتے ہیں آپ میرے ساتھ صرف لفظی ترجمہ پر بات کریں تو تب مانوں اپ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔
آپ اس آیت کا ترجمہ کریں اور پھر بتائیں کہ کیا اس کی تشریح کے لیئے مجازی الفاظ کی ضرورت ہے یا نہیں اور یہ آیت تلاوت فرمائی مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمِیٰ فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی۔جو یہاں اندھا سو وہ وہاں بھی اندھا۔یعنی اگر کوئی اس دنیا میں اندھا ہے تو کیا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور اگر اندھا ہوگا تو وہ اللہ کا دیدار کیسے کرے گا تو اُس نابینا عالم سے کچھ جواب نہ بن پڑا اور وہ مارے شرمندگی کے اٹھ کر بغیر کوئی لفظ کہے چلے گئے۔
ایک مرتبہ پہلے بھی آپ کو کہا تھا کہ جب آپ آیت قرانی یا حدیث کا استعمال کریں تو پورا لکھا کریں لیکن آپ پھر وہی کام کر گئے ہیں جناب اپ نے جو اوپر آیت کے دو جملے لکھے ہیں " لا علمنا " تو میرے ناقص علم کے مطابق ان کا شان نزول کچھ اس طرح سے ہے
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ ونَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْنَ۔ص:۷۲(اے فرشتو! جب میں اس کو بناد کر پورا کردوں اور اپنی روح کو اُس کے اندر پھونک دوں اُس وقت تم سب اُس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا )اللہ تبارک تعالیٰ نے قالب آدم کو چشم زدن میں پیدا کرکے میدانِ کبریائی میں ڈال دیا چنانچہ کالبد نے تھوڑے عرصے میں قلب کے نور کو قبول کیا جس کی خبر مخبر صادق ﷺ نے اس فرمان میں دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی مٹی کو چالیس روز اپنے ہاتھ سے خمیر کیا ہے ہر دس روز دس نعمتیں آدم پر فرماتا تھا یعنی ان نعمتوں کی برکت سے آدم کے قلب میں سے ارکان کی جمادیت بالکل جاتی رہی خدا کے وعدہ کے چالیس روز پورے ہوئے اور ان ہی چالیس روز کا نمونہ وہ چالیس روزے تھے جن کا موسیٰ علیہ السلام کے حق میں ذکر فرمایا ہے۔
واضح ہو کہ آدم علیہ السلام کا ظہور مٹی سے تھا پھر اس نے اوج عقل کی طرف حرکت کی پس جب نورِ عقل نے اُس پر طلو ع کیا تو آدم زمین عبودیت میں اللہ کا خلیفہ بن گیا اور زمینِ جہالت سے اُ س نے علوم شریعت و حقیقت کے آسمان پر ترقی کی ۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فر ما کر عالم میں ڈال دیا اور فرشتوں اور رُسکان ملاء اعلیٰ (یعنی اعلیٰ مقام کے فرشتے)سے کہا اِنِی جَاعِلُ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَہ۔ میںزمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں اور تم سب اس کی خدمت اور متابعت کے لیے تیار ہوجاؤجب فرشتوں نے یہ آواز سنی تو اپنے اپنے مقامات سے نکل کر آدم علیہ السلام کے کالبد کو دیکھنے لگے اور اُس کالبد کو جو بے جان پڑا تھا کو دیکھ کر خیال کرنے لگے کہ اور حیوانوں کی طرح یہ بھی ایک حیوان ہوگا چونکہ فرشتے زمین کے باشندوں کی قتل و غارت دیکھ چکے تھے اور انہیں معلوم تھا کے زمین پر رہنے والے مفسد ہوتے ہیں ۔لہٰذا انھوں نے پروردگار سے عرض کی اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّعُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ(بقرۃ۔۳۰) (کیاتو اس قوم کو زمین پر پیدا کرے گا جو طرح طرح کے فساد پیدا کرے گی اور اس سے خون
ریزیاں ہونگی اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں نے کہا کہ ہم ارواح طیبہ اور نفوس طاہرہ کے ساتھ زندہ ہیں اور زمین کا رہنے والا خبیث زندگانی کیسا تھ زندہ کیا جائے گاتو سوائے اعمال قباحت کے اور کچھ نہ کرے گا ۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے فرشتوں کو اس بد گمانی سے منع فرمایا اور کہا اِنِی اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (بقرۃ۔۳۰) اس معاملے میں،میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے )خالق کائنات کا یہ جواب سن کر فرشتوں نے عاجزانہ لہجہ میں کہاسُبحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم۔(بقرۃ۔۳۲)(پرودگار! تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد ہم کچھ نہیں جانتے تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
جب آدم علیہ السلام سے نفس کلی وابستہ ہوا تب عقل کلی بھی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور تمام علوم اس کی روح میں منقش ہوگئے اور کل اسرار آدم کے قلب پر ظاہر ہوئے پس یہ عقل اور نفس کی امداد سے عالم ،زندہ اور بولنے والا بن گیا اور علم و عمل کے استحکام سے حکیم ہوگیا تب اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایااَنبئونی بِاَسْمَآئِ ھٰٓؤُلََٓائِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ بقرۃ:۲۱ مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ ہم آدم علیہ السلام سے افضل ہیں اُس وقت فرشتے سمجھے کہ انہوں نے واقعی اپنے قیاس میں غلطی کی تھی پس فرشتوں نے سجدہ کیا۔
جس کو آپ پتہ نہیں کس جہالت والی لاعلمی پر چسپان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ آگہی یہ علم جنہیں ہم جملہ علوم کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ یہ علوم انسان تک کیسے پہنچے ؟
تمام علوم کی منبع ذات پاک نے ان علوم کو وحی کی صورت اپنے منتخب بندوں تک پہنچایا ۔ اور اس کے منتخب بندوں نے ان علوم کو انسانوں میں عام کیا ۔ ان تمام علوم کی غرض و بنیاد صرف فلاح انسانیت پر قائم تھی ۔
ان علوم کے بارے جو پیغامات انسانوں تک پہنچے وہ صحیفے اور کتب کہلائیں ۔ جن میں چار کتب مکمل علوم کی حامل کہلائیں اور باقی سب صحیفے توحید کے اعلان کے ساتھ مشترک رہتے الگ الگ علوم سے منسلک قرار پائے ۔ زبور ۔ توریت ۔ انجیل ۔ قران پاک ۔ اس سچے علیم و خبیر نے جس نے اپنے منتخب بندوں پر اپنا پیغام وحی کیا تھا اس نے قران پاک کو آخری اور مکمل شفاءو ہدایت کا پیغام دیتے اس کو کسی بھی تحریف کا شکار ہونے سے بچانے کی ذمہ داری اپنی زبان سے خود قران پاک میں بیان فرما دی ۔
اور دیگر پچھلی تمام کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھنے کا حکم فرماتے ان کتب کے پیغامات و مندرجات کے اتباع کو ممنوع قرار دیتے صرف قران پاک کے اتباع کا حکم فرمایا ۔ اور اس حکم کی وجہ بھی صاف کھلے لفظوں میں بیان فرما دی کہ ان تمام سابقہ کتب و صحیفوں میں غرض و نفس کے ماروں نے تحریف کرتے ان کے پیغام کو مشتبہ کر دیا ۔ اور ابلیس نے ان علوم کو مخلوق خدا کی گمراہی کا اک بڑا سبب بنا دیا ۔ اور ان علوم کے حامل سچے انسان جو ان علوم کو مخلوق خدا کی بھلائی کے لیئے استعمال کرتے تھے ۔ ان انسانوں کے اس دنیائے فانی سے سفر کر جانے کے ان کی شبیہ بنا بتوں کی عبادت کی راہ کھولی ۔ کچھ انسانوں کو ابلیس نے ان علوم سے مخلوق خدا کو دہشت زدہ کرنے اور بہکانے کے طریقوں سے آگاہ کیا ۔ اور وہ جادو و ٹونے کی راہ چل نکلے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علوم سے واقف ہونے والوں نے ان علوم کو اپنی نفسانی و مادی خواہشات کے تابع کرتے ان علوم کو اپنی اغراض نفسانی پورا کرنے کی سبیل بنایا ۔
قران پاک نے ان تحریف شدہ پیغامات سے پھیلنے والی جہالت و توہمات سعد و نحس کا قران پاک میں کھلے طور رد فرماتے " ان اللہ علی کل شئی قدیر " کا فرمان سناتے ان تمام توہمات کا رد کر دیا جو کہ نجوم و بروج کے سعد و نحس ہونے پر قائم تھے ۔
اللہ تعالی کے فرمان " کن " کو " فیکون " کی صورت مجسم کرنے تک کے جملہ اسباب کو اس کے حکم کے تحت کتنے فرشتے قائم کرتے ہیں ۔ یہ صرف اللہ تعالی کی ہی ذات پاک جانتی ہے ۔
ہمیں صرف چار فرشتوں کے ناموں بارے قران پاک آگہی دیتا ہے۔
اور ان کے فرائض کو بیان فرماتا ہے ۔
اور وہ جبرائیل علیہ السلام ۔ میکائیل علیہ السلام ۔ اسرافیل علیہ السلام اور عزرائیل علیہ السلام ہیں ۔ اور ان فرشتوں کو مقرب فرماتا ہے ۔ باقی فرشتوں کے نام و کام بیان کرنے کے لیئے کتنی ضغیم کتاب کی ضرورت ہوتی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ستر ہزار فرشتے عرش معلی پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی دوبارہ باری نہیں آتی ۔ قران پاک نے کہیں بھی ان مقرب فرشتوں کو نجوم و بروج کے سعد و نحس سے منسوب نہیں ٹھہرایا ۔
بلا شبہ میں نے اپنی عمر ایسے ہی علوم کے سیکھنے میں ضائع کر دی ۔ ضائع کا لفظ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ اگر میں ان علوم کی بھول بھلیوں میں نہ الجھتا ۔ اور ان پر دسترس حاصل کرنے کی فضولیات میں الجھے بنا صرف قران پاک کی " شفاء و ہدایت " والی صداقت کو تسلیم کرتےاسے سمجھنے اور اس کو فلاح انسانی کے لیئے استعمال کرنے میں مصروف رہتا ۔ تو مجھے آج اپنی عمر ضائع ہونے کا اعتراف نہ کرنا پڑتا ۔
میرے محترم بھائی شیطان نے مجھے ان علوم میں ایسا الجھایا تھا کہ میں اپنے پاس آنے والے کسی بھی سائل سے کبھی اس کی پریشانی پوچھنا ضروری ہی نہ سمجھتا تھا ۔ اور اپنے وہم و گمان میں ابھرے خیال و سوچ کو قیافے کی صورت الفاظ میں بیان کر دیتا تھا ۔ اوروہ میرا معتقد ہو جاتا تھا ۔ میں اسے زحل و مریخ و مشتری کے قصے سنا ۔ زائچہ ۔ طلسم ۔ تعویذ بنا ۔ پتھر پہنا اس کی پریشانی کو بزعم خود دور کر دیتا تھا ۔اور اسے سدا کے لیئے پتھر کے نفح رساں ہونے والی گمراہی میں دھکیل دیتا تھا ۔
جب سچے کلام الہی قران پاک کی جانب متوجہ ہوا تو یہ حقیقت مکمل سامنے آ گئی کہ
انسان پرجو مصیبت آتی ہے چاہے جسمانی ۔ ذہنی ۔ر وحانی ۔ کاروباری ۔ خاندانی لڑائی جھگڑے غرض کہ ہر قسم کی مصیبت انسان کے اپنے گناہوںاور کوتاہیوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اس لیے اسے اس سے نجات پانے کے لیے سچی توبہ کرتے اللہ کے ذکر کو اپنا سہارا بنا لینا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ازالہ کرکے انھیں خوشحال بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴾ وَمَا ا صَابَکُم ´ مِّن ´ مُّصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَت ´ ا یدِیکُم ´ وَیَعفُو ´ عَن ´ کَثِیرٍ﴿ [ الشوری : 30]
”اور تمھیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے ۔ اوروہ تمھارے بہت سارے گناہوں سے در گذر بھی کرجاتا ہے ۔ “
توبہ واستغفار بارے اللہ تعالی کا فرمان :
” پس میں ( نوح علیہ السلام )نے کہا : تم سب اپنے رب سے معافی مانگ لو ۔ بلا شبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، مال اور بیٹوں سے تمھاری مدد کرے گا ، تمھارے لیے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا ۔ “( نوح : 10۔ 12)
" ( اَنِیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ) 'اے میرے رب! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے '. [الانبیاء : 83] "
یہ لعل یاقوت و مرجان و زمردکیا ہیں ۔؟
ان کی حقیقت بھی قران پاک مکمل طور سے بیان کرتا ہے ۔
کہ یہ اپنے آپ میں منور ہوتے نور کے حامل کیسے ٹھہرے ۔
کائنات میں موجود جملہ جمادات اللہ کی تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتی ہیں ۔
ان کی اس تسبیح و تہلیل سے وہ اللہ ہی پوری کاملیت سے آگاہ ہے ۔
اور وہ عزت و ذلت سے نوازنے پر قادر ذات اپنے فرمان
" و تعز من تشاء و تعزل من تشاء "
کو سچ فرماتے ان پتھروں کو منور فرما دیتا ہے جو کہ اس کی تسبیح و تہلیل کا حق ادا کرتی ہیں ۔
اسی لیئے کچھ صاحب علم ہستیاں جب پتھر پہننے کی اجازت دیتی ہیں تو ان کے پہننے کے ساتھ ساتھ کچھ ذکر خاص بطور زکواۃ حامل پتھر پر فرض قرار دے دیتی ہیں ۔ اور ان صاحب علم ہستیوں کا یہ پتھر پہننے کی اجازت دینابھی درحقیقت " تسبیح "پڑھنے پر راغب کرنا ہوتا ہے ۔ اور یہ پتھر حامل پتھر کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ مجھے ذکر الہی کرنا ہے ۔ اور یہ ذکر ہی اس کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتے گناہوں کی نحوست کو دور کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘
البقره، 2 : 152
اس حقیقت سے کسی صورت بھی انکار نہیں کہ جسمانی امراض میں یہ پتھر کا انسانی جسم سے تعامل انسان کے لیئے فوائد کا سبب بنتا ہے ۔ لیکن ان پتھروں کے پہننے سے تقدیر بدل جانا قرار دینا صرف اک گمان باطل ہے ۔
" اذا مرضت و ہو یشفین "
میرا کامل یقین ہے کہ
بے شک سب مرض اللہ کی ہی جانب سے ہوتے ہیں اور وہی ان سے شفا دیتا ہے ۔
ڈاکٹر حکیم علماء کے حکم میں جو کہ مجھے میری بیماری کے بارے ممکنہ اسباب سے آگاہ کرتے ہیں ۔ اور اپنے وجدان کے بل پر مجھے دوا دیتے ہین ۔ اور ساتھ فرما دیتے کہ
" ہو الشافی "
کہ صحت دینا اللہ کی ہی حکمت پر منحصر ہے ۔
مجھے پر لازم ہے کہ میں ڈاکٹر و حکیم کے بتائے گئے اسباب مرض پر غور کرتے احتیاط برتوں ۔
دوا کھاؤں ۔ اور صحت یابی کو اللہ پر چھوڑ دوں ۔
آپ نے جو یہ ولی کامل پیر مہر علی شاہ کا واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ
لفظی ترجمے نے ان عالم کو شرمندہ کر دیا کہ
"جو یہاں اندھا سو وہ وہاں بھی اندھا۔"
تو میرے محترم جب انسان کو دوبارہ حشر کے دن اٹھایا جائے گا
تو وہ انسان اپنی اسی مکمل صورت میں اٹھے گا جیساکہ اسے دنیا میں خلق کرتے بھیجا گیا تھا ۔
اور وہ سچا قادر و مالک اگر چاہے گا تو اندھے کو آنکھیں بھی مل جائیں گی ۔ اور بہرے کو کان بھی ۔ اس لیئے یہ لفظی معنی اپنے ظاہری و باطنی معنی میں مکمل صداقت کے حامل ہیں ۔
بحکم الہی کائنات میں پائی جانے والی ہمہ اقسام مٹی کو ملا کر گوندھ کر اک پتلا وجود میں لایا گیا اور اس میں مالک " کن " نے اپنی روح نفخ کر تے فرشوں کو سجدے کا حکم فرما دیا ۔
وہ سچا قادر و مالک اگر چاہتا تو صرف " کن " کہتے اس آدم کے وجود کو صورت عطا فرما دیتا ۔
لیکن وہ اپنی حکمت خود ہی جانتا ہے ۔ اور اسی حکمت کی دلیل یہ فرشتوں کے ساتھ کی جانے والی گفتگو بھی ہے کہ
کہا اِنِی جَاعِلُ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَہ۔ میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں
انھوں نے پروردگار سے عرض کی اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُسَبِّعُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ(بقرۃ۔۳۰)
(کیاتو اس کو زمین پر پیدا کرے گا جو طرح طرح کے فساد پیدا کرے گی اور اس سے خونریزیاں ہونگی اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ،حمد کرتے ہیں اور تقدیس کرتے ہیں۔)
اللہ نے فرمایا " اِنِی اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (بقرۃ۔۳۰) "میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے )
فرشتوں نے کہا " سُبحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم۔(بقرۃ۔۳۲)
(پرودگار! تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد ہم کچھ نہیں جانتے تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
یہ بھی حکمت الہی کا مظہر ہے ۔ اور اس حقیقت کی دلیل کہ اللہ ہی سچا علیم و خبیر ہے ۔ اسی کی بارگاہ میں اسی کے فرمان کے ساتھ دعا کرنی بہتر ہے کہ وہ چاہے گا تو ہماری لاعلمی ۔ علم یقین میں بدل جائے گی ۔
بلا شک انسان جہل مرکب ہے جب تک توفیق الہی اس پر مہربان ہوتے اس پر علم کو کھول دے ۔
علموں بس کریں او یار
اک الف اللہ تینوں مینوں درکار
مندرجہ بالا تحریر میں اگر جہالت نظر آئے تو نگاہ کریم رکھتے رہنمائی کی التجا ۔