نایاب بھائی...ہاتھ کی لکیروں کے متعلق بھی کچھ شیئرکریں....اس علم پر بھی کچھ ریسرچ کی آپ نے...
میری محترم بہنا کیا جاننا چاہتی ہیں آپ ہاتھ کی لکیروں بارے ۔؟
نماز کے بعد دونوں ہاتھ رب کریم کی بارگاہ میں پھیلا کر یہ دعا کرنی بہتر ہے کہ
اے اللہ ان ہاتھوں کو خیروبرکت کی تقسیم کا حامل کر دے ۔
ہاتھ کی لکیریں خود آپ سے کلام نہ کریں تو سزا کاحقدار
اس علم بارے کچھ تو اس دھاگے کی پہلی پوسٹس میں تحریر کر چکا ہوں ۔
اور مزید کچھ آپ کے پوچھنے پر یہاں شریک کر رہا ہوں ۔
بحیثیت مسلمان ہم یقین کامل رکھتے ہیں کہ کہ اللہ کی مرضی کے بنا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
اگر آپ پامسٹری کا علم رکھتے ہوں اور کوئی فرد آپ کے سامنے آتا ہے آپ اس کے ہاتھ کی لکیروں سے آگہی پا کر
اسے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ کسی خطرے سے آگاہ کرتے ہیں ۔اور وہ فرد اُس خطرے کا سمنا کرتا ہے
اور اپنی محتاط روی اور پیش بندی سے بچ نکلتا ہے تو اُس ۔ بندے کا آپ کے پاس پہنچنا اور اپنی مشکل سے آگاہ ہوکر
اُس کی پیش بندی کرلینا ۔
کیا یہ بھی امر اللہ نہیں کہلائے گا ؟؟؟؟؟؟؟
ویسے بھی یہ علم نہ تو بلیک میجک میں آتا ہے
نہ ہی اس میں زائچے و ستاروں کا دخل ہوتا ہے ۔
نہ ہی کوئی چلہ کوئی وظیفہ کوئی تعویذ ہوتا ہے ۔
یہ صرف اک مشوراتی اور مشاہداتی علم ہے ۔
جس کی نتائج کسی بھی صورت محکم نہیں ہو سکتے ۔
اس علم کی بنیاد تجسس پر ہے ۔ تجسس انسانی فطرت میں اہم مقام رکھتا ہے ۔
اس تجسس کی تکمیل کرتے ہی انسان کائنات اور اپنے ارد گرد کے بارے جاننے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات و مستقبل بارے آگہی پاتا ہے ۔
اس تجسس کی تکمیل کے لیئے انسانوں نے ہی کچھ علوم کی بنیاد رکھی ۔
دست شناسی بھی ان علوم میں سے ہی اک علم ہے ۔
انسان اس علم کی مدد سے نہ صرف اپنی شخصیت کے چھپے گوشوں سے واقف ہوتا ہے
وہیں یہ علم دوسرے انسانوں کی چھپی شخصیت کو جاننے میں بھی مدد گار ہے ۔
اس علم کے ماہرکے لیئے کامل ترین مشاہداتی قوت کا حامل ہونا اک لازم امر ہے ۔
اور مد مقابل کے ہر اس عضو کے مشاہدے پر قدرت حاصل ہو جو کہ ظاہر رہتے ہیں ۔
اک ماہر پامسٹ ہاتھ کی لکیروں کو پڑھنے کے ساتھ حامل ہاتھ کی انداز ہائے نشست و برخاست ا
ور ہاتھوں کی حرکات کو بھی نوٹ کرتا ہے ۔
اس کے چہرے پیشانی ناک کان گردن کی ساخت کا بھی مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ ہاتھ کی لکیروں کی طرح پاؤں کی لکیریں بھی
شخصیت پہچاننے اور مسقبل بارے پیش گوئی کرنے میں مددگار ہوتی ہیں ۔
میرے نزدیک پامسٹری اک ایسا علم ہے جو کہ
ہمیں اپنے ہاتھوں کے مطالعے سے ہمیں اپنے آپ سے آگاہ ہونے میں مددگار ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاتھ ہمارے باطن کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں ہماری خوبیوں او رخامیوں کے بارے میں بتاتے ہیں
یہ ہمیں ہماری قوتوں اور کمزوریوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں لیکن ہم میں سے ہر شخص
اپنے ہاتھ کی لکیروں کو از خود سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ یہ لکیرین بدلتی بھی رہتی ہیں اور کم و پیش بھی ہوتی رہتی ہیں ۔
اس علم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے بارے میں غورو فکر کر کے اپنی خامیاں اور خوبیاں تلاش کرے
اور اپنی شخصیت کو سنوارے ۔
دست شناسی ہاتھوں کے ذریعے انسان کی شخصیت اور اسکے کردار کو سمجھنے کا ایک فن ہے۔
ہاتھہ کی ساخت ہاتھہ کے اوپر ابھار اور ہاتھہ کے اوپر لکیریں ان باتوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
ہاتھہ انسان کی انفرادیت کے مظہر ہوتے ہیں ۔ دو انسانوں کے ہاتھہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ا
ور ان ہاتھوں پر موجود لکیریں بھی دو انسانوں کے درمیان یکساں نہیں ہو سکتیں ۔
ہاتھ کی جلد کی ساخت بھی بھی شخصیت و مستقبل کی عکاس ہوتی ہے ۔
اچھی ذہنی صلاحیتوں والے شخص کے ہاتھہ کی جلد نرم اور نفیس
جبکہ سخت جسمانی محنت کرنے والے شخص کے ہاتھہ کی جلد سخت اور خشک ہوگی
ہر انسانی ہاتھ میں عام طور پر تین بڑی لکیریں نمایاں ہوتی ہیں ۔
زندگی ۔ دل ۔ دماغ
دولت اور قسمت کی لکیر ہر ہاتھ میں نمایاں نہیں ہوتی ۔
شہرت صحت شادی سفر حادثات بارے بھی کچھ چھوٹی چھوٹی لکیریں ہتھیلی پر جال بنائے ہوئے ہوتی ہیں ۔
یہ اک ایسا منفرد علم ہے جس کی آج تک سائنسی توجیہ ممکن نہیں ہو سکی
اور نہ واقعاتی شہادتیں اس علم کی تصدیق کرتے اس کو یکسر کامل علم ثابت کر پائی ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود اکثریت اس پر یقین رکھتی ہے ۔
اس علم کے محکم ثابت ہونے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ
اس پر یقین رکھنے والےاپنی زندگی کی ٹھوس منصوبہ بندی کیے بغیر ،
محنت اور صلاحیتوں کے درست استعمال کے بجائے توہمات کے سہارے زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
ان میں سے بہت سے تو ایسے ہوتے ہیں جو زندگی بھر ایک نفسیاتی مریض بن کر جیتے ہیں۔
اسلام کا سب سے بڑ ا احسان یہ ہے کہ اس نے انسانیت کو توہمات سے نکال کر حقائق کی دنیا میں لاکھڑ ا کیا ہے۔
اور یہ آگہی دی کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے دنیا میں جاری اللہ تعالیٰ کے قانون کو سمجھیں
اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کر کے اپنا لائحۂ عمل درست سمت میں مرتب کریں
اور پھر مستقبل کے لیے اللہ پر توکل کر کے معاملہ اس پر چھوڑ دیں ۔
اس علم کا حامل اس علم کی بنیاد پر اگر یہ کہے کہ
میں نے ہاتھ کی لکیروں سے جو پڑھ سنایا ہے وہ لازم ہو کر رہے گا
تو یہ کلمات کفریہ ٹھہریں گے ۔
اور کہنے والا اور یقین کرنے والا دائرہ اسلام سے باہر ہوجائے گا ۔
کیونکہ وہ مستقبل پر اپنے علم کی مہر لگا رہا ہے ۔
اور اگر اس علم کا حامل یہ کہے کہ
میرا اندازہ ہے کہ اللہ نے چاہا تو ایسا ہونا ممکن ہے کہ میرا اندازہ درست ہو ۔
تو اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے کوئی گناہ نہیں ۔