ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ ششم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- عفریت اور میزان قانون
مثال کے طور پر اگرکنگ کانگ حقیقت میں وجود رکھتا تو وہ نیویارک شہر میں دہشت نہیں پھیلا سکتا تھا۔ شہر میں تباہی پھیلانے کے برعکس، وہ جیسے ہی پہلا قدم اٹھاتا اس کی ٹانگ ٹوٹ جاتی۔ اس کی وجہ ہے اگر آپ ایک بن مانس لیں اور اس کا حجم ١٠ گنا بڑھا دیں تو اس کا وزن مقداری تناسب سے یا ١٠ x١٠ x ١٠ =١٠٠٠ گنا بڑھ جائے گا۔ لہٰذا وہ ایک ہزار گنا زیادہ بھاری تو ہو جائے گا لیکن اس کی قوّت ہڈیوں کی موٹائی اور پٹھوں کے تناسب سے بڑھے گی۔ہالی ووڈ میں دکھائے گئے بن مانس کی ہڈیاں اور پٹھے اس وقت صحیح بیٹھیں گے جب یہ ذہین خلائی مخلوق گوشت خور ہو۔ صرف گوشت خور خلائی مخلوق اپنے حجم کو بڑھانے کی بات کی ضمانت دیتی ہے۔ اس تصویر کشی کو سچائی میں بدلنے کے لئے ایک اور عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں کنگ کانگ اگر دس ١٠ گنا زیادہ بڑا ہوگا تو اس کوسو گنا زیادہ مضبوط ہونا ہوگا جبکہ اس کا وزن ہزار گنا زیادہ ہوگا۔ لہٰذا جب ہم بن مانس کا حجم بڑھائیں گے تو اس کا وزن اس کی قوّت کے مقابلے میں کافی تیزی سے بڑھے گا۔ وہ ایک عام بن مانس کی نسبت دس گنا زیادہ کمزور ہوگا اور اس ہی وجہ کی بدولت وہ اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔
ابتدائی اسکول میں مجھے یاد ہے کہ میرے استاد چیونٹی کی قوّت کو بیان کرتے ہوئے کافی متحیر ہوتے تھے جو اپنے سے زیادہ وزن کی پتی کو اٹھا سکتی تھی۔ میرے استاد نے اس کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر چیونٹی گھر کے حجم کی ہو تو وہ پورے گھر کو اٹھا سکتی ہے۔ مگر ان کا یہ اندازہ اس وجہ سے غلط تھا جو ہم نے کنگ کانگ کے ضمن میں دیکھا تھا۔ اگر چیونٹی گھر کے حجم جتنی ہوگی تو اس کی ٹانگیں بھی اسی قانون کے تحت کمزور ہو کر ٹوٹ جائیں گی۔ اگر آپ ایک چیونٹی کو ایک ہزار گنا بڑا کر دیں تو وہ ایک عام چیونٹی کی بنسبت ایک ہزار گنا زیادہ کمزور ہو جائے گی لہٰذا وہ اپنے وزن تلے ہی ڈھیر ہو جائے گی۔(اس کا دم بھی گھٹ جائے گا۔ ایک چیونٹی اپنے جسم کے اطراف میں موجود سوراخوں کی مدد سے سانس لیتی ہے۔ ان سوراخوں کا رقبہ فی مربع نصف قطر کے بڑھ جائے گا ، مگر چیونٹی کی ضخامت پر مکعب نصف قطر کے بڑھے گی۔ لہٰذا اس ایک ہزار گنا بڑی چیونٹی کو ایک عام چیونٹی کے مقابلے میں سانس کے لئے درکار ایک ہزار گنا کم ہوا ملے گی۔ یہ ہوا اس کے پٹھوں اور جسمانی خلیوں کے لئے درکار آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسکیٹر اور جمناسٹک کے چیمپئن اوسطاً انسانوں سے چھوٹے قد کے ہوتے ہیں اگرچہ ان میں دوسرے انسانوں کی طرح کا ہی اعضا ئی تناسب ہوتا ہے۔ پاؤنڈ برائے پاؤنڈ ان میں زیادہ متناسب پٹھوں کی قوّت لمبے لوگوں کی بنسبت ہوتی ہے۔)
میزان قانون کو استعمال کرتے ہوئے ہم قریب قریب زمین پر موجود کسی بھی جاندار اور شاید خلائی مخلوق کی بھی جسامت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ کسی بھی جانور سے حرارت کا اخراج اس کے سطحی رقبے میں اضافے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے حجم میں ١٠ گنا اضافے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حرارت کو ١٠ x ١٠ = ١٠٠ گنا سے خارج کرے گا۔ لیکن جسم کے اندر حرارت کا نصاب اس کی ضخامت کے تناسب سے ہوتا ہے یا ١٠ x ١٠ x ١٠ =١٠٠٠۔ لہٰذا بڑے جانور حرارت کو چھوٹے جانوروں کی نسبت آہستگی سے خرچ کرتے ہیں۔(یہ ہی وجہ ہے کہ سردیوں میں ہمارے کان اور انگلیاں پہلے جمتے ہیں ، کیونکہ ان کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی نسبت جلدی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ یہ بات اس وجہ کو بیان کرتی ہے کہ اخباری کاغذ کیوں جلدی آگ پکڑ لیتا ہے کیونکہ اس کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ شہتیر نہایت آہستگی سے جلتا ہے کیونکہ اس کا تناسبی سطحی رقبہ کم ہوتا ہے۔) یہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ آرکٹک میں موجود وہیل کیوں گول جسامت کی ہوتی ہیں کیونکہ ایک کرۂ میں سطحی رقبہ فی اکائی کمیت کے حساب سے سب سے کم ہوتا ہے۔ اور گرم علاقوں میں موجود کیڑے کیوں چرخ کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں فی اکائی کمیت سطحی رقبے کے حساب سے زیادہ ہوتی ہے۔
ڈزنی کی فلم "ہنی آئی شرنک مائی کڈز" میں ایک گھرانا سکڑ کر چیونٹی کے حجم کا ہو جاتا ہے۔ بارش کے طوفان میں ہم جہان خرد میں دیکھتے ہیں کہ بارش کے ننھے قطرے تالاب میں گرتے ہیں۔ حقیقت میں چیونٹی کو بارش کا قطرہ ایک ننھے قطرے کے بجائے پانی کے ایک بڑے تودے یا نیم کرۂ کی طرح دکھائی دے گا۔ ہماری دنیا میں نیم کرۂ کی شکل کا پانی کا تودہ غیر پائیدار اور قوّت ثقل کی بدولت اپنے ہی وزن سے منہدم ہو جائے گا۔ لیکن جہان خرد میں سطحی تناؤ تناسبی لحاظ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے نیم کرۂ کی شکل کا پانی کا تودہ مکمل طور پر پائیدار ہوگا۔
اسی طرح قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ہم دور دراز خلاء میں موجود سیاروں پر پائے جانے والے جانداروں اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا ضخامت کی نسبت سطحی تناؤ کیسا ہوگا۔ ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم نظری طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ باہر ی خلاء میں موجود خلائی مخلوق کی جسامت سائنسی افسانوں میں دکھائے جانے والے عفریت نما جانداروں کے بجائے ہم سے کافی مشابہ ہوگی۔(سمندری پانی میں اچھال کی وجہ سے وہیل بہرحال حجم میں کافی بڑی ہو سکتی ہیں ۔ اس سے ہمیں وہیل کے ساحل سمندر کے پاس مرنے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ اپنے وزن سے ہی دب جاتی ہیں۔)
میزان قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین جہان خرد کی گہرائی میں جانے کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں کوانٹم نظرئیے کی عجیب و غریب نظر آنے کی وجہ کو بیان کرتی ہے۔ کوانٹم کے قوانین اتنے عجیب و غریب ہیں کہ وہ کائنات سے متعلق ہماری سادی سمجھ بوجھ یا عقل کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا قانون میزان اس شناسا خیال کو رد کر دیتا ہے جس میں جہاں در جہاں کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہ خیال کہ ایٹم کے اندر ایک پوری کائنات موجود ہو سکتی ہے یا ہماری پوری کہکشاں ایک بڑی کائنات کا ایک ایٹم ہو سکتی ہے۔ یہ خیال ایک فلم "مین ان بلیک" میں دکھایا گیا تھا۔ فلم کے آخری حصّے میں کیمرہ زمین سے دور ہوتا جاتا ہے ، وہ سیاروں ، ستاروں اور کہکشاؤں سے بھی دور چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہماری کہکشاں ایک چھوٹی سی گیند کی طرح نظر آنے لگتی ہے جو انتہائی عظیم بین النجم اس کھیل کا حصّہ ہوتی ہے جو دیوہیکل خلائی مخلوق کھیل رہی ہوتی ہے۔
حقیقت میں ستاروں بھری کہکشاں ایٹم سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ، ایٹم کے اندر الیکٹران اپنے خولوں میں ، سیاروں سے بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام سیارے ایک دوسرے سے انتہائی الگ اور منفرد ہیں اور اپنے میزبان تارے سے کسی بھی دوری پر اس کے گرد مدار میں چکر لگا سکتے ہیں۔ مگر ایک ایٹم میں تمام ذیلی ذرّات ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے مرکزے سے دور کسی بھی مدار میں چکر لگانے کے بجائے مخصوص مداروں میں ہی چکر لگا سکتے ہیں۔(مزید براں یہ کہ سیاروں کے برعکس الیکٹران انتہائی عجیب برتاؤ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو ہماری عقل سلیم سے باہر ہوتا ہے جیسا کہ ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہو سکتے ہیں اور ان میں موجوں کی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ ہفتم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- اعلی یا جدید تہذیب کی طبیعیات
یہ بھی ممکن ہے ہم طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خلاء میں موجود تہذیب کا ایک بنیادی خاکہ بنا سکیں۔ اگر ہم اپنی تہذیب کی ترقی کو پچھلے ایک لاکھ برسوں میں دیکھیں تو ہم اس کہانی کو توانائی کی ضرورت میں اضافے سے بیان کر سکتے ہیں کیونکہ جدید انسان افریقہ سے نمودار ہوئے ہیں۔ روسی فلکی طبیعیات دان "نیکولائی کاردیشوف"(Nikolai Kardeshev) کے خیال میں کائنات میں ماورائے ارض تہذیبوں کے مدارج میں پیش رفت کو ان کی توانائی کی ضرورت کے لحاظ سے درجہ بند کیا جا سکتا ہے۔ قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ممکنہ تہذیبوں کو تین گروہوں میں درجہ بند کیا ہے :
1.قسم I تہذیب : اس میں وہ تہذیبیں شامل ہیں جنہوں نے سیارے پر موجود تمام توانائی بشمول مورث ستارے سیارے پر پہنچنے والی تمام روشنی کو استعمال کرنے کا طریقہ نکال لیا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے آتش فشانوں کی توانائی کو بھی اپنے قابو میں کر لیا ہو ، موسموں کو اپنے حساب سے انضباط کر لیا ہو ، زلزلوں کو بھی اپنے تابع کر لیا ہو اور سمندر میں شہر بسا لئے ہوں۔ سیارے پر موجود تمام توانائی ان کے زیر تصرف ہو۔
2.قسم II تہذیب : یہ تہذیب اپنے پورے ستارے کی توانائی کا استعمال کر سکتی ہے ، نتیجتاً یہ تہذیب I کے مقابلے میں دس ارب گنا زیادہ طاقتور ہوگی۔ اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی "سیاروں کا وفاق" تہذیب II سے تعلق رکھتی تھی۔ تہذیب II ایک طرح سے ابدی ہے۔ معلوم سائنس کی کوئی بھی آفت مثلاً برفانی دور ، سیارچوں کے تصادم یہاں تک کہ سپرنووا بھی ان کو ختم نہیں کر سکتے۔(اس حالت میں جب ان کا میزبان تارہ پھٹنے کے قریب ہوگا تو یہ ہستیاں دوسرے نظام ہائے شمسی کی طرف ہجرت کر سکتی ہیں یا شاید اپنے دوسرے کسی علاقائی سیارے کی جانب روانہ ہو سکتی ہیں۔)
3.قسم III تہذیب: یہ وہ تہذیب ہے جو اپنی پوری کہکشاں کی قوّت کو استعمال کر سکتی ہے۔ یہ قسم II سے دس ارب گنا زیادہ طاقتور تہذیب ہوگی۔ اسٹار ٹریک میں موجود بورگ ،اسٹار وارز میں موجود امپائر، اورایسی موف فاؤنڈیشن سلسلے میں بین النجم تہذیب اس قسم III کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے ارب ہا نظام ہائے شمس کو آباد کر دیا تھا وہ اس بات پر بھی قدر تھے کہ کہکشاں کے قلب میں موجود بلیک ہول کی قوّت کو بھی استعمال میں لا سکیں۔ وہ آزادی کے ساتھ کہکشاؤں کے درمیان گھوم سکتے تھے۔
کاردیشوف نے اندازہ لگایا کہ کوئی بھی تہذیب جو اعتدال پسندی کی شرح کے لحاظ سے ہر سال اپنی توانائی کے استعمال میں چند فیصد اضافہ کرے گی انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل صرف چند ہزار برسوں سے لے دسیوں ہزار برسوں تک کے قلیل عرصے میں ہو جائے گی۔
جیسا کہ میں اپنی پچھلی کتابوں میں اس بات پر بحث کر چکا ہوں کہ ہماری اپنی تہذیب قسم0 میں آتی ہے۔(یعنی کہ ہم مردہ پودوں ، تیل اور کوئلے کو جلا کر اپنی مشینوں کو چلاتے ہیں )۔ ہم تو اپنے سیارے پر پڑنے والی سورج کی روشنی کا انتہائی معمولی سا حصّہ ہی استعمال کر پاتے ہیں۔ مگر ہم اس سے پہلے ہی زمین پر قسم I کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ انٹرنیٹ قسم I کے ٹیلی فون نظام کی شروعات ہے جس نے پورے سیارے کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ قسم I کی معیشت کو یوروپی یونین کی صورت میں شروع ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کو نافٹا (نارتھ امریکن فری ٹریڈ اگریمنٹ )سے مقابلہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔ مادری زبان کے بعد پوری دنیا کے لئے انگریزی پہلے ہی اول درجے کی زبان بن گئی ہے۔ مزید براں یہ سائنس، مالیات اور تجارت کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں اس بات کا تصوّر کر سکتا ہوں کہ یہ قسم I کی زبان بن جائے گی جو مجازی طور پر ہر کوئی بول سکے گا۔ زمین پر ہزاروں کی تعداد میں مقامی ثقافت اور رسم و رواج کے پانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر اس رنگ برنگے لوگوں کی ثقافت کے اوپر منطبق سیاروی ثقافت ہوگی جو شاید نوجوانوں کی ثقافت یا تجارتی ثقافت کے زیر اثر ہوگی۔
ایک تہذیبی قسم سے دوسرے تہذیبی قسم میں جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سب سے خطرناک منتقلی قسم 0 سے قسم I میں ہوگی۔ قسم 0 کی تہذیب میں ابھی بھی فرقہ واریت ، بنیاد پرستی اور نسلی تعصب کی بو رچی بسی ہے اور ان خرابیوں کے بڑھنے کی علامت اب بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ فی الوقت ہم اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ قبائل اور مذاہب کے جوش و جذبے اس تبدیلی کے عمل میں مغلوب ہوں گے یا نہیں۔(ہو سکتا ہے کہ ہمیں کہکشاں میں قسم I اس لئے نظر نہیں آتی ہے کہ یہ منتقلی کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئی یعنی کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی تباہ کر لیا۔ ایک دن جب ہم دوسرے ستاروں کے نظام میں جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان تہذیبوں کی باقیات وہاں مل سکیں جنہوں نے اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے ختم کر لیا ہوگا مثال کے طور پر ان کی فضا ریڈیائی طور پر انتہائی عامل یا اس قدر گرم ہو گئی ہوگی کہ زندگی وہاں قائم نہیں رہ سکی ہوگی۔)
اس وقت تک جب کوئی تہذیب قسم III تک پہنچے گی اس کے پاس وہ توانائی اور سفر کرنے کا علم موجود ہوگا جس کی بدولت وہ آزادی کے ساتھ تمام کہکشاں میں کہیں بھی گھوم پھر سکے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ زمین پر بھی پہنچ جائے۔ جیسا کہ فلم ٢٠٠١ء میں ایسی تہذیب نے اپنی خود کی نقل کے کھوجی روبوٹ پوری کہکشاں میں بھیجے تا کہ وہ ذہین مخلوق کی تلاش کر سکیں۔
لیکن قسم III کی تہذیب ہم کو دیکھنے یا فتح کرنے کے لئے نہیں آئیں گے جیسا کہ فلم" انڈیپنڈنس ڈے "میں دکھایا گیا تھا جہاں ایسی کوئی تہذیب لوکاٹس کے طاعون کی طرح سے جتھوں کی شکل میں کرۂ ارض پر پھیل گئی تھی تا کہ وہ ہمارے توانائی کے ذرائع کو خالی کر سکے۔ حقیقت میں انگنت مردہ سیارے خلاء میں موجود ہیں جن میں وسیع مقدار میں معدنیات کی دولت دفن ہے جس کو وہ بغیر کسی مقامی آبادی کی مزاحمت کے نکال سکتے ہیں۔ ان کا ہم سے برتاؤ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ہمارا برتاؤ کسی چیونٹیوں کی بستی کے ساتھ ہوگا۔ ہماری کوشش یہ نہیں ہوگی کہ چیونٹیاں ہمارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گمان یہ ہے کہ ہم ان کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ معمولی دانہ دنکا ہی دیں گے۔
چیونٹیوں کو اصل خطرہ اس سے نہیں ہوتا کہ انسان ان کو فتح کرنا چاہتے ہیں یا ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم ان کو اپنے راستے میں آنے کی وجہ سے روند ڈالتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہماری قسم 0 کی تہذیب اور قسم III کی تہذیب میں توانائی کے استعمال میں اس سے کہیں وسیع فاصلہ موجود ہے جتنا کہ ہم میں اور چیونٹیوں میں موجود ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ ہشتم (آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- یو ایف او (ان آئیڈ ینٹی فائیڈفلائنگ آبجیکٹ ) - نا شناختہ طائر ی اشیاء یا اڑن طشتریاں
کچھ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ماورائے ارض مخلوق نا شناختہ طائری اشیاء ( جن کو ہم عرف عام میں اڑن طشتریوں کے نام سے جانتے ہیں ) کی صورت میں پہلے ہی زمین کا چکر لگا چکی ہیں۔ سائنس دان اڑن طشتریوں کا ذکر سنتے ہی پہلے ہی اپنی آنکھیں چڑھا لیتے ہیں اور اس بات کے ممکنہ ہونے کو رد کر دیتے ہیں کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلے نہایت وسیع ہیں۔ مگر سائنس دانوں کے رد عمل کے باوجود مستقل ایسی رپورٹیں آتی رہی ہیں جس کی وجہ سے اڑن طشتریوں کا ذکر ختم نہیں ہوا ہے۔
اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا ریکارڈ اس وقت سے ملتا ہے جب سے تاریخ لکھنی شروع ہوئی ہے۔ بائبل میں حضرت حزقیؑل رمزی طور پر ذکر کرتے ہیں " آسمانوں میں پہیوں کے اندر پہیے" ان کا ایسا کہنا کچھ لوگوں کے نزدیک یو ایف او کی نشاندہی ہے۔ ١٤٥٠ قبل مسیح میں مصر میں فرعون" طوط موس سوم"(Thutmose III) کے دور میں مصری کاتب نے ایک ایسا واقع لکھا جس میں سورج سے بھی زیادہ روشن "آگ کے دائروں " کا ذکر ہے جو حجم میں ٥ میٹر کے تھے اور کافی دنوں تک نظر آتے رہے بہرحال یہ آخر میں آسمان میں غائب ہو گئے تھے۔ ٩١ قبل مسیح میں رومی مصنف جولیس آبسی کونز "(Julius Obsequens)نے" ایک گول جسم جیسی دنیا کے بارے میں لکھا کہ ایک گول یا دائروی ڈھال نے اپنا راستہ آسمان میں بنایا۔" ١٢٣٥ میں جنرل” یوریتسوم (Youritsume) اور اس کی فوج نے عجیب سی روشنی کی رقص کرتی ہوئی گیندوں جیسی چیزیں آسمان پر جاپان کے علاقے کیوٹو کے قریب دیکھیں۔ ١٥٦١ میں کافی تعداد میں چیزوں کو نوریمبرگ جرمنی میں آسمان پر اس طرح سے دیکھا گیا جیسے کہ وہ ہوائی لڑائی میں مصروف ہوں۔
حالیہ دور میں یو ایس کی فضائی فوج نے ایک بڑے پیمانے پر اڑن طشتریوں کی تحقیقات سر انجام دی۔ ١٩٥٢ء میں فضائی افواج نے ایک منصوبہ "بلیو بک " کے نام سے شروع کیا جس میں کل ملا کر ١٢،٦١٨ واقعات کی جانچ کی۔ رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیادہ تر واقعات قدرتی مظاہر ، روایتی ہوائی جہازوں یا افواہوں کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے اس کے باوجود اس میں سے ٦ فیصد ایسے واقعات تھے جس کی کوئی وجہ نہیں مل سکی تھی۔ کونڈون رپورٹ کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلا تھا جس نے یہ بات اخذ کی تھی کہ ایسی کسی بھی تحقیق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پروجیکٹ بلیو بک کو ١٩٦٩ء میں بند کر دیا گیا۔ یو ایس فضائی فوج کا یہ بڑا معلوم آخری منصوبہ تھا۔
٢٠٠٧ء میں فرانسیسی حکومت نے یو ایف او پر مشتمل ضخیم ترین فائل عام عوام کے لئے مہیا کی۔ اس رپورٹ کا اجرا انٹرنیٹ پر فرنچ نیشنل سینٹر فار اسپیس نے کیا تھا جس میں ١٦٠٠ یو ایف او واقعات کا ذکر تھا جو پچھلے٥٠ برسوں میں رونما ہوئے تھے۔ جس میں ایک لاکھ چشم دید گواہوں کے کھاتے ، فلمیں اور آڈیو ٹیپ شامل تھیں۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا تھا کہ اس میں سے ٩ فیصد واقعات مکمل طور پر بیان کیے جا سکتے ہیں جبکہ ٣٣ فیصد کی بھی کوئی توجیح ہو سکتی ہے مگر اس کے بعد بچے ہوئے واقعات کی وجوہات بیان کرنے سے وہ قاصر تھے۔
خود مختار طور پر ان واقعات کی تصدیق کرنا کافی مشکل کام ہے۔ حقیقت میں زیادہ تر اڑن طشتریوں کی رپورٹوں انتہائی محتاط جائزے کے بعد درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر درکیا جا سکتا ہے: ١۔سیارہ زہرہ چاند کے بعد سب سے زیادہ روشن جسم ہے۔ زمین سے اس کی زبردست دوری کی وجہ سے جب آپ کار میں بیٹھ کر جا رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سیارہ آپ کا پیچھا کر رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اس کو کوئی چلا رہا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح سے چاند ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ ہم فاصلوں کا اندازہ آس پاس کی چیزوں کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ چاند اور زہرہ سیارہ وہ ہمارے گرد موجود چیزوں کے مقابلے میں حرکت کرتے ہوئے نہیں نظر آتے جس کی وجہ سے ہمیں بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ ٢۔ دلدلی گیسیں۔ دلدلی علاقوں میں درجہ حرارت کی تقلیبکی وجہ سے گیس زمین سے بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تھوڑی سی روشن ہو جاتی ہے۔ اس سارے قضیے میں ہو سکتا ہے کہ چھوٹے گیس کے حصّے بڑے حصّوں سے الگ ہو جاتے ہوں۔ نتیجتاً ایسا گمان ہونے لگتا ہے کہ ایک بڑے خلائی جہاز سے چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہیں۔
٣۔شہابیے۔ روشنیکی لمبی سی پٹی رات کے آسمان میں چند سیکنڈوں کے لئے سفر کرتی ہوئی نظر آسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ایسا سراب پیدا کرتی ہے جیسے کوئی جہاز کو اڑا رہا ہو۔ یہ بھی الگ ہو سکتی ہیں جس سے وہی تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بڑے خلائی جہاز سے کئی چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہوں۔
٤۔ ماحولیاتی بے ضابطگیاں۔ ہر طرح کے برق و باراں کے طوفان اور غیر معمولی ماحولیاتی واقعات آسمان کو عجیب طریقے سے روشن کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا دھوکہ ہوتا ہے۔
بیسویں اور اکیسویں صدی میں درج ذیل مظہر بھی اڑن طشتریوں کو دیکھنے کے واقعات کا سبب بن سکتے ہیں :
1. ریڈار کی گونج۔ ریڈار کی موجیں بھی پہاڑ سے ٹکرا کر واپس آکر گونج پیدا کرتی ہیں۔ جس کو ریڈار کے مانیٹر پکڑ سکتے ہیں۔ ایسی موجیں صرف گونج ہونے کی وجہ سے ایک ٹیڑھے سیدھے نمونہ کی شکل میں زبردست سمتی رفتار سے اڑتی ہوئی نظر آسکتی ہیں۔ 2. موسمی اور تحقیقاتی غبارے۔ ایک متنازع رپورٹ میں حربی فوج نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ١٩٤٧ء میں روز ویل ، نیو میکسیکو میں ہونے والا مشہور زمانہ خلائی حادثہ ایک پروجیکٹ موگل کے گشتی غبارے کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ ایک انتہائی خفیہ منصوبہ تھا جس کا مقصد فضا میں تابکاری کی سطح کو خدا نخواستہ نیوکلیائی جنگ چھیڑ جانے کی صورت میں جانچنا تھا۔ 3. ہوائی جہاز۔ تجارتی اور حربی خلائی جہاز بھی یو ایف او کی رپورٹوں کا سبب بنے ہیں۔ زیادہ تر یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جدید جہاز جیسے کہ اسٹیلتھ بمبار اپنی آزمائشی پرواز کر رہا ہوتا ہے۔(یو ایس افواج اصل میں اڑن طشتریوں کی افواہوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تا کہ لوگوں کی توجہ انتہائی خفیہ منصوبوں سے ہٹی رہے۔) 4. جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی افواہیں۔ کچھ مشہور زمانہ تصاویر جو اڑن طشتریوں کی لی گئی ہیں وہ اصل میں فریب ہیں۔ ایک مشہور زمانہ اڑن طشتری جس میں کھڑکی اور اس کے اترنے کی جگہ بھی دکھائی ہے اصل میں ایک تبدیل کیا ہوا مرغی کے دانے کا برتن تھا۔
اصل میں ٩٥ فیصد ایسے واقعات کو درج بالا وجوہات کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ فیصد باقی بچنے والے واقعات کو ناقابل تشریح قرار دینے کی وجہ سے کچھ سوالات کو جنم لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بھروسے مند یو ایف او کے واقعات میں درج ذیل شامل ہیں :
(الف) کثیر واقعات جو مختلف خود مختار بھروسے مند چشم دید گواہوں نے دیکھے ہیں اور
(ب) کثیر ذرائع سے حاصل کردہ ثبوت جیسا کہ آنکھوں اور ریڈار دونوں سے حاصل کیے گئے ثبوت۔
ایسی رپورٹوں کی نظر انداز کرنا تھوڑا مشکل کام ہے کیونکہ انہیں کافی چھان بین کے بعد رپورٹ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٦ء میں ایک اڑن طشتری دیکھے جانے کا واقع جے اے ایل فلائٹ ١٦٢٨ میں ا لاسکا پر سے گزرتے ہوئے رپورٹ ہوا جس کی تفتیش ایف اے اے نے کی۔ اڑن طشتری کو جہاز کے مسافروں نے بھی دیکھا اور اس کی تصدیق ریڈار سے بھی کی گئی تھی ۔ اسی طرح سے بہت زیادہ تعداد میں ریڈار میں کالے تکون ١٩٨٩ء اور ١٩٩٠ء میں بیلجیئم میں دیکھے گئے جس کو ناٹو اور جیٹ انٹرسیپٹر نے بھی دیکھا۔ ١٩٧٦ء میں ایک واقعہ تہران ، ایران میں بھی دیکھا گیا جہاں F – ٤ جیٹ انٹرسیپٹر کے نظام میں کافی گڑبڑی کی رپورٹیں سی آئی اے کی دستاویزات میں موجود ہیں۔
سائنس دانوں کے لئے جو سب سے بڑی مایوسی ان ہزار ہا مندرج واقعات میں ہوتی ہے وہ ان میں سے کسی کا طبعی ثبوت موجود نہ ہونے کا ہے۔ طبعی ثبوت کی مدد سے سائنس دانوں کے لئے اس کو تجربہ گاہ میں دہرانا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی خلائی مخلوق کا ڈی این اے ، ان کے کمپیوٹر کی چپ یا کوئی ایسا جسمانی ثبوت جس میں ان کے اترنے کی کوئی جگہ ہو کبھی نہیں ملی۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کرتے ہیں کہ ایسی اڑن طشتریاں اصل میں سراب کے بجائے کوئی جہاز ہیں تو ہم اپنے آپ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ خلائی جہاز دیکھنے میں کیسے ہوں گے ؟ یہاں پر ان کی کچھ ایسے خصائص بیان کئے جا رہے ہیں جو دیکھنے والوں نے بتائی ہیں :
الف۔ وہ ہوا کے درمیان آ ڑھے ترچھے دکھائی دیتے ہیں۔
ب۔ وہ کار کے قریب سے گزرنے پر کار کی اگنیشن پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس کی برقی قوّت میں خلل ڈال دیتے ہیں۔
ج ۔ وہ خاموشی سے ہوا میں معلق رہتے ہیں۔
درج بالا بیان کی گئی کسی بھی بات میں ایسی کوئی بھی خصوصیت ایسی نہیں ہے جو کسی راکٹ پر پوری اترتی ہو جو ہم نے زمین پر بنائے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام بنائے گئے راکٹ نیوٹن کے حرکت کے تیسرے قانون پر انحصار کرتے ہیں (ہر عمل کا ایک برابر اور مخالف رد عمل ہوتا ہے )؛ اس کے باوجود دیکھے جانے والے یو ایف او میں کوئی بھی چیز باہر نکلتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔ اور جو جی فورس ان آڑھے ترچھے اجسام نے پیدا کی تھی وہ زمین کی کشش ثقل کے مقابلے میں ایک سو گنا زیادہ ہے۔ یہ جی فورس کسی بھی زمینی مخلوق کو زمین پر چپٹا کر دینے کے لئے کافی ہے۔
کیا اڑن طشتری کی ایسی کوئی بھی خاصیت جدید سائنس کے نقطہ نگاہ سے بیان کی جا سکتی ہے ؟ فلموں میں مثلاً "ارتھ ورسس فلائنگ سوسر" میں ہمیشہ خلائی ہستیوں کو ان جہازوں کو خود چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ زیادہ امید یہ ہے کہ اگر کوئی ایسے جہاز موجود ہوں گے تو وہ خلائی مخلوق کے بغیر ہوں گے (یا پھر اس کو آدھی نامیاتی اور آدھی میکانکی طرح کی ہستیاں چلا رہی ہوں گی)۔ خلائی مخلوق کے بغیر خلائی جہاز یا نامیاتی اور میکانکی ملغوبے کی مخلوق ہی ایسے خلائی جہازوں کو اڑا سکتی ہے جو اڑتے ہوئے ایسے آڑے ترچھے نمونے بنائیں جس کے نتیجے میں ایک عام جاندار کی جان لیوا پیمانے کی جی فورس پیدا ہوتی ہے۔
کار کے اگنیشن کو جام کر دینے اور خاموشی سے ہوا میں اڑنے والا جہاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مقناطیسی قوّت کے ذریعہ چل رہا ہے۔ مقناطیسی قوّت کے زور پر چلنے والے جہازوں کا مسئلہ یہ ہے کہ مقناطیس میں ہمیشہ دو قطب ہوتے ہیں ایک شمالی قطب اور ایک جنوبی قطب۔ اگر آپ کسی مقناطیس کو ہوا میں معلق کریں گے تو زمین کے مقناطیسی میدان اس کو ہوا میں یو ایف او کی طرح اٹھانے کے بجائے گھما دیں گے (جس طرح سے قطب نما کی سوئی گھومتی ہے) کیونکہ جنوبی قطب ایک طرف حرکت کر رہا ہوگا اور شمالی قطب دوسری طرف لہٰذا مقناطیس گھومتے ہوئے کہیں کا بھی نہیں رہے گا۔
اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ صرف یک قطبی مقناطیس استعمال کیا جائے یعنی کہ صرف ایک قطب والا مقناطیس جس میں چاہے شمالی قطب ہو یا جنوبی۔ عام طور سے جب آپ کسی مقناطیس کو دو حصّوں میں توڑتے ہیں تو آپ کو دو علیحدہ قطب والے مقناطیسی نہیں ملتے اس کے برعکس آدھے ٹوٹے ہوئے مقناطیس خود سے مکمل مقناطیس بن جاتے ہیں جن میں ہر ایک کا شمالی اور جنوبی قطب موجود ہوتا ہے۔ یعنی وہ پھر سے دو قطب والے مقناطیس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ مقناطیس کو توڑنے کا عمل جاری رکھیں گے تو آپ کو ہمیشہ جنوبی اور شمالی قطب کے جوڑے ملتے رہیں گے۔(دو قطبی مقناطیس کو توڑنے کا عمل ایٹمی پیمانے تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ جس میں آپ کو ہر مرتبہ دو قطبی مقناطیس ہی حاصل ہوں گے۔ ایٹم بھی اپنے آپ میں دو قطبی ہوتے ہیں۔)
سائنس دانوں کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ یک قطبی مقناطیس انہوں نے کبھی بھی تجربہ گاہ میں نہیں ملا۔ طبیعیات دانوں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے آلات میں حرکت کرتے ہوئے یک قطبی کا سراغ لگا کر اس کی تصویر لے سکیں مگر ہر مرتبہ وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔(سوائے ایک فرد واحد واقع میں، جہاں ایک انتہائی متنازع تصویر جو ١٩٨٢ء میں اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں لی گئی تھی۔)
اگرچہ یک قطبی کبھی بھی حتمی طور پر تجربات میں نہیں دیکھے گئے ، ماہرین طبیعیات اس بات پر کافی یقین رکھتے ہیں کہ بگ بینگ کے موقع پر کائنات میں کسی وقت وافر مقدار میں یک قطبی موجود تھے۔ یہ نظریہ بگ بینگ کے تازہ ترین کائناتی نظرئیے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ کائنات بگ بینگ کے بعد انتہائی تیزی سے پھیلی لہٰذا یک قطبیوں کی کثافت یکدم پوری کائنات میں کم ہوتی چلی گئی، یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو اب تجربہ گاہوں میں نہیں دیکھ سکتے۔(درحقیقت یک قطبیوں کی کمی ہی وہ اہم مشاہدہ تھا جس نے طبیعیات دانوں کو کائنات کے افراطی دور کی طرف نشاندہی کرنے کی تجویز فراہم کی۔) لہٰذا یک قطبیوں کی باقیات کا موجود ہونا طبیعیات کی دنیا میں مسلم بات ہے۔
اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ خلاء میں دور دراز کی مخلوق اس قابل ہو کہ وہ قدیمی یک قطبی حاصل کر لے جو بگ بینگ کے بعد باقی بچے ہوں اور جن کو بڑے مقناطیسوں نے باہر ی خلاء میں پھینک دیا ہو۔ ایک مرتبہ وہ کافی سارے یک قطبی حاصل کر لیں تو پھر وہ خلاء میں سفر کرتے ہوئے ان مقناطیسی خطوں کا استعمال کرتے ہوئے پوری کہکشاں یا کسی بھی سیارے پر بغیر اخراج کے جہاز لئے گھوم سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سارے ماہرین کونیات کی زبردست دلچسپی ان یک قطبیوں میں موجود ہے لہٰذا ایسے کسی جہاز کا وجود ہمارے مروجہ علم طبیعیات کی سوچ سے موافقت رکھتا ہے۔
آخر میں کوئی بھی خلائی تہذیب جو اتنی جدید ہو کہ وہ اپنے بین الستارہ جہاز پوری کائنات میں بھیج سکے یقینی طور پر نینو ٹیکنالوجی میں بھی انتہاء درجے کی ماہر ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بین الستارہ خلائی جہازوں کو دیوہیکل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں قابل رہائش سیاروں کی تلاش میں روانہ کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے چاند پر بھی ایسی کوئی تہذیب جس کو ہم نے قسم III کے درجے پر فائز کیا ہے ماضی میں ہمارے نظام شمسی کا چکر لگا چکی ہو جیسا کہ ایک فلم ٢٠٠١ء میں دکھایا گیا ہے ۔ اس میں خلائی مخلوق سے ملنے والا منظر شاید حقیقت سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ ہماری توقعات کے برخلاف ایسا کوئی بھی جہاز خلائی مخلوق کے بغیر ،کسی روبوٹ کے قابو میں ہوگا۔ اور اس جہاز کو چاند پر رکھا گیا ہوگا۔(ہماری ٹیکنالوجی کو اس قابل ہونے میں مزید ایک صدی لگے گی جب ان کی مدد سے ہم پورے چاند کی شعاعوں میں موجود بے ضابطگیوں کی چھان بین کرکے اس قابل ہو سکیں کہ کسی نینو جہاز کے وہاں پر چکر لگا کے جانے کا کوئی قدیمی ثبوت حاصل کر سکیں۔)
اگر کبھی حقیقت میں ماضی میں ہمارے چاند پر کسی نے چکر لگایا ہو یا وہاں پر کوئی نینو ٹیکنالوجی کی کوئی جگہ موجود ہو تو اس اڑن طشتری کے بڑے نہ ہونے کی وجہ کو بیان کر سکتی ہے۔ کچھ سائنس دان تو یو ایف او کا تمسخر اڑاتے ہیں کیونکہ ان کو کوئی بھی ایسا جسیم دھکیلنے والے انجن کا خاکہ نہیں ملتا جو آج کے انجینیروں کے دماغ میں ہے ، جیسا کہ دو شاخہ گداختی انجن ، جسیم لیزر کی طاقت استعمال کرنے والے بادبان ، اور نیوکلیائی ضربی انجن جو صرف چند میل پر محیط ہوں۔ یو ایف او کسی بھی جیٹ انجن کے جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ اگر چاند پر کوئی مستقل اڈہ کسی پچھلی چکر لگانے والی خلائی مخلوق کا چھوڑا ہوا ہوگا، تو پھر یو ایف او کو بڑا ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ چاند کے قریب اڈے سے اپنے جہازوں میں ایندھن بھر سکتے ہیں۔ لہٰذا چاند پر موجود اڈے سے آنے والے بغیر کسی ہستی کے جہاز ایسے کسی واقع کا سبب بن سکتے ہیں ۔
سیٹی اور ماورائے شمس سیاروں کی انتہائی تیز رفتار دریافتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ماورائے ارض حیات سے رابطہ ، اس بات کا قیاس کرتے ہوئے کہ وہ ہمارے آس پاس موجود ہیں ، ہو سکتا ہے کہ اسی صدی میں ہو جائے جس کے نتیجے میں اس کو میں جماعت "I" کی ممکنات میں رکھ رہا ہوں۔ اگر خلائی تہذیب خلائے بسیط میں وجود نہیں رکھتی تو پھر اگلا سوال ہوگا کہ کیا ہمارے پاس ان تک پہنچنے کے ذرائع کبھی دستیاب ہوں گے ؟ اور مستقبل بعید میں ہمارا اپنا کیا مستقبل ہوگا ، جب سورج پھیلنا شروع کرتے ہوئے زمین کو نگل لے گا ؟ کیا ہمارا مقدر واقعی ستاروں سے وابستہ ہے ؟
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
چاندپر کسی چیز کو پھینکنا ایک مہمل اور بیوقوفانہ مثال ہے اس بد طینت مہارت کے پیچھے سائنس دان چلیں گے ۔۔۔۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر نا ممکن لگ رہا ہے۔
- اے ڈبلیو بائیکرٹن(A.W.Bickerton)
بگمان غالب انسانیت کے ٹھاٹ باٹ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ انسان ایک سے دوسرے سورج کی طرف ہجرت کریں گے جب وہ ختم ہو جائے گا۔
اور حیات ، ذہانت اور انسانیت کی معراج کا خاتمہ کبھی نہیں ہوگا وہ ہمیشہ ترقی کرے گی۔
- کونسٹنٹین ای ٹیولکوفسکی(Konstantin E. Tsiolkovsky) - بابائے راکٹ
مستقبل بعید میں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب وہ ہمارا زمین پر آخری دن ہوگا۔ آج سے ارب ہا سال گزرنے کے بعد آخر کار آسمان پر آگ برسنے لگے گی۔ سورج پھول کر زمین سے سوا نیزے کی دوری پر رہ کر اس کو جہنم بنا دے گا ۔ پورے آسمان پر صرف سورج ہی دکھائی دے گے اور آسمان میں موجود دوسری تمام چیزیں اس کے آگے ہیچ لگیں گی۔ زمین پر درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ہی سمندر ابل کر بخارات بن کر اڑ جائیں گے اور اپنے پیچھے سوختہ اور تپتی ہوئی خشک زمین چھوڑ دیں گے۔ پہاڑ پگھل کر سیال میں بدل جائیں گے نتیجتاً جہاں کبھی شہر بسا کرتے ہوں گے ان جگہوں پر لاوا بہنے لگے گا۔
قوانین طبیعیات کی رو سے یہ ڈراؤنی وحشت ناک قیامت آنا ناگزیر ہے۔ آخر کار سورج زمین کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ کر ختم کر دے گا۔ قوانین طبیعیات میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہ آفت و بربادی کا عمل اگلے ٥ ارب برسوں میں ہوگا۔ کائناتی وقت کے اس پیمانے پر انسانی تہذیب میں اتار چڑھاؤ کی لہریں انتہائی خفیف سی ہوں گی۔ ایک دن یا تو ہمیں زمین کو چھوڑنا ہوگا یا پھر موت کو گلے لگانا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسانیت یا ہماری آنے والی نسلیں اس وقت زمین پر موجود نا قابل برداشت حالات سے کیسے نمٹیں گی؟
ریاضی دان اور فلاسفر "برٹرانڈرسل"(Bertrand Russell) نے ایک دفعہ ایسے نوحہ کیا " نہ تو کوئی آگ، نہ ہی کوئی جوانمردی ، نہ ہی تخیل کی پرواز و احساس ، حیات کو اس کی قبر دفن ہونے سے بچا سکتی ہے ، نسلوں کی محنت ، ریاضت ، کشف ، انسانیت کی تمام تر روشن و غیر معمولی اختراعی قوّت ان سب کا مقدر نظام شمسی کی وسیع موت کے نتیجے میں ہونے والی معدومیت میں دفن ہے ، اور انسانیت کی تمام کاوشوں کے مینار کو لازمی طور پر کائنات کی دھول میں کھنڈر بن کر دفن ہونا ہے۔۔۔۔"
میرے لئے انگریزی ادب میں موجود یہ ٹکڑا سب سے زیادہ رلا دینے والا ہے۔ مگر رسل نے یہ ٹکڑا اس وقت لکھا تھا جب خلائی جہازوں کا بننا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج کے دور میں کسی دن زمین کو چھوڑ کر جانے کا خیال کوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہے۔ کارل ساگاں نے ایک دفعہ کہا تھا ہمیں دو سیاروں کی انواع بننا چاہئے۔ زمین پر موجود حیات بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے کہا کہ کسی بھی بڑی تباہی آنے سے پہلے ہمیں کم از کم ایک اور سیارے پر پھیل کر اس کو آباد کرنا جانا چاہئے۔ زمین کائناتی نشانہ بازوں یعنی کہ سیارچوں، دم دار ستاروں اور زمین کے مدار کے قریب تیرتے ہوئے گرد و غبار کے ملبے کے عین نشانے پر ہے اور اس میں سے کسی سے بھی ہونے والا تصادم ہمیں مرحوم کر سکتا ہے۔
آنے والی عظیم تباہیاں
شاعر "رابرٹ فراسٹ" (Robert Frost)پوچھتا ہے کہ زمین کا انجام آگ سے ہوگا یا پھر برف سے۔ طبیعیات کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی معقولیت کے ساتھ پیش بینی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں زمین کا کیا انجام ہوگا۔
ہزار برس کے پیمانے پر ، انسانی تہذیب کے لئے ایک خطرہ نئے برفانی دور کا ہے۔ آخری برفانی دور ١٠ ہزار سال پہلے ختم ہوا ہے ۔ آج سے ١٠ سے ٢٠ ہزار سال کے درمیان جب نیا برفانی دور آئے گا اس وقت زیادہ تر شمالی امریکہ آدھ میل برف سے ڈھک جائے گا۔ انسانی تہذیب اس چھوٹے سے "بین ثلجین"(Interglacial) زمانے میں حال میں ہی پروان چڑھی ہے۔ جب زمین غیر معمولی گرم تھی مگر یہ چکر ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔
لاکھوں سال گزرنے کے بعد بڑے شہابیے یا دم دار ستارے زمین سے ٹکرا کر بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ آخری بڑے اجرام فلکی سے زمین کا تصادم آج سے ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ہوا تھا جب ایک جسم جو ٦ میل چوڑا تھا آ کر میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ایک ١٨٠ میل قطر کا گڑھا بن گیا۔ اس تصادم سے پیدا ہونے والی تباہی نے وقت کے زمین پر حکمران ڈائنو سارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ مزید ایک تصادم کی امید اسی وقت کے پیمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔
آج سے ارب ہا سال کے بعد سورج بتدریج پھیل کر زمین کو نگل جائے گا۔ حقیقت میں ہم نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ سورج اگلے ایک ارب سال میں ١٠ فیصد زیادہ گرم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں زمین شدید گرم ہو جائے گی۔یہ زمین کو مکمل طور پر اگلے ٥ ارب برسوں میں اس وقت ختم کردے گا جب یہ ایک دیوہیکل سرخ دیو میں بدل جائے گا۔
آج سے دسیوں ارب سال بعد سورج اور ملکی وے کہکشاں دونوں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا سورج اپنا ایندھن جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی شکل میں ہے پھونک دے گا اور پھر ایک سفید بونے کی صورت میں سکڑ کر بتدریج ٹھنڈا ہوتے ہوئے ایک کالا نیوکلیائی کچرے کا ڈھیر بن کر خلاء میں تیرتا رہے گا۔ آخر کار ملکی وے کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا (مراة المسلسلہ )سے جا ٹکرائے گی۔ یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ملکی وے کے مرغولی بازوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے نتیجتاً ہمارا سورج خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ دونوں کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول ایک دوسرے سے ٹکرا کر ضم ہونے سے پہلے موت کا رقص شروع کر دیں گے۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انسانیت ایک دن نظام شمسی کی قید سے نکل کر کسی قریبی سیارے پر اپنی جان بچا کر بھاگ سکتی ہے تاکہ اپنے آپ کو ختم ہونے سے روکا جا سکے تو سوال یہ اٹھتا ہے :ہم وہاں کیسے جائیں گے ؟ سب سے قریبی ستارہ الف قنطورس ٤ نوری برس سے بھی زیادہ دور ہے۔ روایتی کیمیائی راکٹ جو موجودہ خلائی پروگراموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مشکل سے ٤٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھو سکتے ہیں۔ اس رفتار سے صرف سب سے قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ہی ٧٠ ہزار برس درکار ہوں گے۔
آج کے خلائی منصوبوں کی جانچ کریں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ ہماری موجودہ قابلیت اور ایسے نجمی سفر کرنے والے خلائی جہازوں کو بنانے کی درکار قابلیت جو ہمیں کائنات میں سفر کا آغاز کرنے کے قابل بنا سکیں زمین آسمان کا فرق ہے۔
١٩٧٠ء کی دہائی میں چاند پر قد م رکھنے کے بعد سے ہم نے انسان بردار خلائی جہاز کو صرف ایک ایسے مدار میں بھیجا ہے جہاں موجود خلائی شٹل اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن زمین سے صرف ٣٠٠ میل دور پر تھے۔ ٢٠١٠ء سے ناسا نے شٹل پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا ہوا ہے کہ اورائن خلائی جہاز کو بنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ جہاز خلاء نوردوں کو ٢٠٢٠ء تک ٥٠ سال کے وقفے کے بعد چاند پر لے جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چاند پر مستقل انسانی اڈہ بنانا ہے۔ اس کے بعد انسان بردار جہاز مریخ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہم ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہیں تو راکٹ کی ایک نئی قسم کو کھوجنا ہوگا۔ یا تو ہمیں بنیادی طور پر اپنے راکٹوں کی دھکیل کی قوّت کو بڑھانا ہوگا یا پھر راکٹوں کے کام کرنے کے وقت کو بڑھانا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ صرف چند منٹ تک ہی ایندھن کو جلا پاتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے راکٹ جیسا کہ برق پارے والا انجن ([Ion Engine]اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے ) میں دھکیل کی کمزور قوّت پیدا ہوتی ہے خاص باٹ یہ ہے کہ وہ برسوں تک خلاء میں کام کر سکتا ہے۔ اور جب بات راکٹ کی ہو تو اس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش سے جیت جاتا ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- برق پارے اور پلازما کے انجن
کیمیائی راکٹوں کے برخلاف ، برق پارے والے انجن اچانک ، ڈرامائی دھماکے سے انتہائی گرم گیسوں کو پیدا نہیں کرتے جو روایتی راکٹوں کو چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اصل میں ان کی قوّت دھکیل کو اکثر اونس میں ناپا جاتا ہے۔ زمین کی سطح پر رہتے ہوئے یہ راکٹ بہت ہی کمزور حرکت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی قوّت دھکیل کی یہ خامی ان کے چلنے کے لمبے دورانیے کی خوبی سے پوری ہو جاتی ہے ۔یہ خالی خلاء میں برسوں تک کام کر سکتے ہیں۔
ایک عام برق پارے کا انجن کسی ٹیلی ویژن کے اندر موجود نلکی کے جیسا ہوتا ہے۔ ایک گرم فلامنٹ کو برقی رو کے ذریعہ تپایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک برقی پاروں کے ایٹموں، جیسا کہ زینون، کی کرن جنم لیتی ہے جس کو راکٹ کے آخری کنارے میں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ گرم ، دھماکے دار گیسوں پر سواری کرنے کے بجائے برق پارے کا انجن ایک پتلی اور متلون مزاج برق پاروں کی رو پر سواری کرتی ہے۔
ناسا کا این اسٹار برق پارے کا انجن خلاء میں ڈیپ ا سپیس١ خلائی کھوجی میں کامیابی کے ساتھ ١٩٩٨ء میں استعمال ہو چکا ہے۔ برق پارے والا انجن کل ملا کر ٦٧٨ دنوں تک چلتا رہا جس کے نتیجے میں اس نے برق پاروں کے انجن کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ یورپین اسپیس ایجنسی نے بھی ایک برق پارے کا انجن اپنے ا سمارٹ - ١ کھوجی میں استعمال کیا ہے۔ جاپان کا ہا یا بوسا خلائی کھوجی جو ایک سیارچے کے پاس سے گزرا ہے وہ بھی زینون کے چار برق پارے کے انجنوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ ہرچند برق پارے کا معمولی انجن سیاروں کے درمیان لمبی سفر ی مہموں (جو بہت زیادہ فوری نہ ہوں ) میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن درحقیقت ایک دن یہ بین النجم ذرائع نقل و حمل کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا۔
برق پارے انجن کی ایک اور طاقتور قسم پلازما انجن ہے مثال کے طور پر وی اے ایس آئی ایم آر (ویرییبل اسپسیفک امپلس میگنیٹو پلازما راکٹ ) جو راکٹ کو خلاء میں دھکیلنے کے لئے طاقتور پلازما کی دھاریں استعمال کرتا ہے۔ اس کو خلا نورد اور انجنیئر "فرینکلن چانگ ڈیاز"(Franklin Chang Diaz) نے بنایا ہے یہ ریڈیائی لہریں اور مقناطیسی میدانوں کے استعمال سے ہائیڈروجن گیس کو کئی لاکھ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد انتہائی گرم پلازما راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکلتا ہے جس کے نتیجے میں اسے کافی دھکیل کی قوّت ملتی ہے۔ ہرچند اس میں سے ابھی تک کسی کو بھی خلاء میں نہیں بھیجا لیکن زمین پر اس قسم کے ابتدائی تجرباتی نمونے بنائے جا چکے ہیں۔ کچھ انجنیئر اس بات کے لئے پرامید ہیں کہ پلازما انجن مریخ کی کسی مہم پر کام آ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مریخ تک پہنچنے کا وقت کافی کم ہو کر صرف کچھ مہینوں تک ہی رہ جائے گا۔ کچھ نمونوں میں شمسی طاقت کا استعمال پلازما کو طاقت رساں بنانے کے لئے انجن میں کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسرے نمونے نیوکلیائی گداخت کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ایسے انجن حفاظتی خدشات کا باعث ہیں کیونکہ کسی ایسے انجن والے خلائی جہاز کو خلاء میں روانہ کرتے ہوئے اس میں کافی سارا نیوکلیائی مواد موجود ہوگا۔ خلائی جہاز میں حادثہ ہونے کا خطرہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اور نیوکلیائی مواد کسی بھی حادثے کی ہولناکی کو اور بڑھا دے گا۔)
نہ تو برق پارے اور نہ ہی پلازما / وی اے ایس آئی ایم آر انجن اس قدر طاقتور ہیں کہ ہمیں ستاروں پر لے جا سکیں۔ اس کام کے لئے ہمیں ایک بالکل ہی نئے دھکیل والے راکٹوں کو بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نجمی سفر کرنے والے خلائی جہاز کو بنانے میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ ایندھن کی مقدار ہے جو قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ خلائی جہاز کو اس سفر کے دوران اپنی منزل تک پہنچنے تک ایک لمبا عرصہ گزرنا ہوگا۔
شمسی بادبان
ایک تجویز جو ان مسائل سے چھٹکارا دے سکتی ہے وہ ہے شمسی بادبان۔ یہ سورج کی معمولی لیکن متلون روشنی کے دباؤ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جو اتنا ہوتا ہے کہ ایک بڑے بادبان کو خلاء میں چلا سکے۔ شمسی بادبان کا خیال کافی پرانا ہے جس کا تذکرہ جوہانس کیپلر نے اپنی کتاب سومینیم میں ١٦١١ء میں کیا ہے۔
ہرچند شمسی بادبان کے پیچھے سادہ سی طبیعیات موجود ہے ، لیکن ایک ایسے شمسی بادبان کو بنانے میں پیش رفت کافی ناہموار رہی ہے جس کو خلاء میں بھیجا جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ایک جاپانی راکٹ نے کامیابی کے ساتھ دو چھوٹے شمسی بادبانوں کے تجرباتی نمونے خلاء میں بھیجے۔ ٢٠٠٥ء میں پلانیٹری سوسائٹی ، کوسموس ا سٹوڈیو اور رشین اکیڈمی آف سائنس نے کوسموس ١ کو سب میرین برنٹس سی سے خلاء میں چھوڑا۔ لیکن افسوس کہ اس کو لے کر جانے والا وولنا راکٹ ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے اس کو مدار میں نہیں پہنچا یا جا سکا۔(اس سے پہلے بھی ایک اور کوشش ٢٠٠١ء میں اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب بادبان کو خلاء میں بیرون مدار چھوڑا جا رہا تھا۔) فروری ٢٠٠٦ء میں ایک ١٥ میٹر کا شمسی بادبان کامیابی کے ساتھ مدار میں جاپانی ایم وی راکٹ کے ذریعہ چھوڑا گیا۔ اگرچہ اس میں بھی بادبان مکمل طور پر نہیں کھل پایا تھا۔
اگرچہ شمسی بادبانوں کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت تکلیف دہ حد تک سست ہے لیکن اس کے حامیوں کے پاس ایک اور خیال ہے جس کے نتیجے میں یہ ہمیں ستاروں تک پہنچا سکتے ہیں : ایک عظیم الشان لیزروں کا پشتہ چاند پر بنایا جائے تو وہاں سے انتہائی طاقتور لیزر کی شعاعیں شمسی بادبان پر پھینکی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ قریبی ستارے تک جا سکتا ہے۔ بین السیارہ شمسی بادبانوں کی طبیعیات بہت ہی زیادہ ڈھاما ڈول ہے۔ بادبان کو خود سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے۔ اس عظیم حجم کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو مکمل طور پر خلاء میں ہی بنانا ہوگا۔ اس کے بعد ہزار ہا طاقتور لیزر کرنوں کو چاند پرنانا ہوگا جس میں سے ہر ایک لیزر اتنی طاقتور ہونی چاہئے جو مسلسل کچھ برسوں سے لے کر کچھ عشروں تک شعاعوں کو پھینک سکے۔(ایک تخمینے کے مطابق جن لیزر شعاعوں کو پھینکنے کی ضرورت ہوگی ان کو زمین کی دور حاضر کی توانائی کو پیدا کرنے سے لگ بھگ ایک ہزار گنا زیادہ قوّت درکار ہوگی۔)
کاغذوں کے مطابق ایک بھاری بھرکم روشنی کا بادبان، روشنی کی آدھی رفتار تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے شمسی بادبان کو صرف قریبی سیارے تک پہنچنے کے لئے ٨ سال یا اس سے کچھ زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ اس قسم کے دھکیلنے والے نظام کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ فوری طور پر دستیاب ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے کسی بھی شمسی بادبان کو بنانے کے لئے طبیعیات کے کسی نئے قانون کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اصل مسئلہ مالی اور فنی ہے۔ کسی بھی سینکڑوں میل لمبے شمسی بادبان اور طاقتور لیزر کی کرنوں کو چاند پر بنانے کے لئے انجینئرنگ کے ہیبت ناک مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ جس کے لئے درکار ٹیکنالوجی شاید اگلے صدی میں ہی حاصل ہو سکے گی۔( ایسے کسی بھی شمسی بادبان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہوگی ؟ ایک لیزر کی شعاعوں کا دوسرا پشتہ کسی دور دراز چاند پر بنانا ہوگا تاکہ بادبان کو واپس زمین پرلا یا جا سکے۔ یا ہو سکتا ہے کہ جہاز ستارے کے گرد تیزی سے جھولا کھاتے ہوئے ، اس کو غلیل کی طرح استعمال کرتے ہوئے اتنی رفتار حاصل کر لے کہ وہ اس کو واپس زمین تک لے جا سکے۔ اس کے بعد چاند پر موجود لیزر کی شعاعوں کو واپسی پر اس کو آہستہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ زمین پر اتر سکے۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- دو شاخہ گداختی انجن (Ramjet Fusion )
ستاروں تک سفر کرنے کا میرا اپنا پسندیدہ امیدوار دو شاخہ گداختی انجن ہے۔ کائنات میں ہائیڈروجن کی بہتات ہے لہٰذا دو شاخہ انجن آسانی کے ساتھ ہائیڈروجن کو سفر کے دوران حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے پاس نہ ختم ہونے والا ایندھن موجود ہوگا۔ ہائیڈروجن کو حاصل کرنے کے بعد اس کو دسیوں لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جائے گا تا کہ وہ اتنی گرم ہو جائے اس میں گداختی عمل شروع ہو کر اس کے دو جوہروں کو ایک بھاری عنصر میں ضم کرکے حر مرکزی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی کا اخراج کرے۔
دو شاخہ گداختی انجن کی تجویز طبیعیات دان" رابرٹ ڈبلیو بزارڈ"(Robert W. Busard) نے ١٩٦٠ء میں دی تھی اور بعد میں کارل ساگاں نے اس کو کافی مشہور کیا تھا۔ بزارڈ کے اندازے کے مطابق ایک ہزار ٹن وزنی دو شاخہ انجن نظری طور پر ایک جی فورس کی دھکیل کی قوّت کو پائیداری اور تسلسل کے ساتھ پیدا کر سکتا ہے۔ اس جی فورس کا مقابلہ زمین کی سطح پر کھڑے ہونے کی درکار طاقت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دو شاخہ انجن ایک جی فورس کے اسراع کو ایک سال تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو وہ روشنی کی سمتی رفتار کے ٧٧ فیصد تک پہنچ جائے گا جو نجمی سفر کرنے کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ امکان کو پیدا کرتا ہے۔ دو شاخہ انجن کے قابل عمل سفر کی شرائط کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں ہائیڈروجن گیس کی اوسطاً کثافت پوری کائنات میں جاننی ہوگی۔ موٹا موٹا حساب لگا کر ہم ایک جی فورس اسراع حاصل کرنے کے لئے درکار ہائیڈروجن گیس کو بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ حساب ہمیں بتائے گا کہ ہمیں ہائیڈروجن گیس حاصل کرنے کے لئے کتنا بڑا "ڈونگا"(Scoop) چاہئے ہوگا۔ چند معقول مفروضوں کے ساتھ ہمیں یہ بات آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے کہ ہمیں ایک ١٦٠ کلو میٹر قطر کا ہائیڈروجن حاصل کرنے کا ڈونگا چاہئے ہوگا۔ اگرچہ اتنا بڑا ڈونگا زمین پر نہیں بنایا جا سکتا ،لیکن بے وزنی کی حالت میں خلاء میں اس کو بنانے میں زمین پر درکار مسائل سے کم کا سامنا ہو گا۔
اصولی طور پر دو شاخہ انجن اپنے آپ کو لامحدود طور پر دھکیل سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کہکشاں کے دور دراز تاروں تک بھی جا پہنچ سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق راکٹ کے اندر وقت آہستہ گزرے گا لہٰذا یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ عملے کو" غنودگی کے عمل"(Suspended Animation) میں ڈالے بغیر ہی فلکیاتی فاصلوں کو طے کر لیا جائے۔ ایک جی فورس لگا کر گیارہ سال بعد حاصل ہونے والے اسراع کی مدد سے ، خلائی جہاز میں موجود گھڑیوں کے مطابق ، خلائی جہاز ہم سے ٤٠٠ نوری برس کی مسافت پر موجود "پلئیڈیز"(Pleiades) ستاروں کے جھرمٹ میں پہنچ جائے گا جبکہ صرف ٢٣ برسوں میں وہ ہم سے ٢٥ لاکھ نوری برس کے فاصلے پر موجود اینڈرومیڈا کہکشاں پر پہنچ سکتا ہے۔ مفروضے کی بنیاد پر خلائی جہاز قابل مشاہدہ کائنات کی سرحدوں پر عملے کی زندگی میں ہی پہنچ سکتا ہے (اگرچہ زمین پر ارب ہا سال گزر چکے ہوں گے )۔
اس میں سب سے کلیدی بے یقینی گداختی عمل ہے۔ آئی ٹی ای آر گداختی ری ایکٹر جنوبی فرانس میں بننے کے لئے طے ہوا ہے جس میں ہائیڈروجن کے دو کمیاب ہم جا (ڈیوٹیریئم اور ٹریٹم) کو توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ خلاء میں سب سے زیادہ بہتات ہائیڈروجن کے اس عنصر کی ہے جس میں ایک پروٹون اور ایک الیکٹران ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دو شاخہ انجن کو پروٹون پروٹون گداختی عمل سے استفادہ اٹھانا ہوگا۔ہرچند ڈیوٹیریئم / ٹریٹم گداختی عمل کئی دہائیوں سے طبیعیات دانوں کے زیر تحقیق ہے ، لیکن پروٹون پروٹون گداختی عمل کو بہت ہی کم سمجھا گیا ہے ، اس کو نہ صرف سمجھنا ایک مشکل امر ہے بلکہ اس سے حاصل کردہ توانائی بھی بہت کم مقدار کی ہوگی ۔ لہٰذا اس زیادہ مشکل پروٹون پروٹون کے گداختی عمل میں ماہر ہونے کے لئے آنے والی دہائیوں میں کئی فنی مشکلات کو عبور کرنا ہوگا۔(کچھ انجینیروں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا دو شاخہ انجن گھسٹنے کے اثر کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے پر کم کر سکے گا۔)
جب تک پروٹون پروٹون گداختی عمل کی طبیعیات اور معاشیات کا حل نہیں نکالا جاتا اس وقت تک دو شاخہ انجن کی عمل پذیری کا صحیح اندازہ لگانا امر محال ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کا نقشہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے کسی بھی مہم کے ممکنہ امید واروں کی فہرست میں شامل ہے۔
نیوکلیائی برقی راکٹ
١٩٥٦ء میں یو ایس اٹامک انرجی کمیشن (اے ای سی ) نے نیوکلیائی راکٹوں کو بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور فکر شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک "پروجیکٹ روور" (Project Rover)بنا۔ نظریاتی طور پر نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر ہائیڈروجن جیسی گیسوں کو انتہائی درجہ حرارت تک گرم کرنے کے لئے استعمال ہوگا اور اس کے بعد گرم گیسیں راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالی جائیں گی جس کے نتیجے میں دھکیل کی قوّت پیدا ہوگی۔
زمین کی فضا میں زہریلے نیوکلیائی ایندھن کے دھماکے کے خطرے کے پیش نظر ، ابتدائی نیوکلیائی راکٹ کے تجرباتی نمونے ریل کی پٹریوں پر افقی رکھے گئے جس کے بعد ان کی کارکردگی کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ پہلا نیوکلیائی راکٹ انجن جو پروجیکٹ روور کے تحت جانچا گیا وہ ١٩٥٩ء میں کیوی ١ تھا ( جس کو آسٹریلیا کے لا پرواز پرندے کے نام پر رکھا گیا تھا )۔ ١٩٦٠ء میں ناسا نے "اے ای سی" کے ساتھ مل کر ایک نیوکلیئر انجن فار راکٹ وہیکل ایپلیکیشنز (این ای آر وی اے ) بنایا جو پہلا نیوکلیائی راکٹ تھا جس کو افقی چلانے کے بجائے عمودی طرح سے چلا کر جانچا گیا تھا۔ ١٩٦٨ء میں یہ نیوکلیائی راکٹ آزمائشی طور پر نشیب کی طرف چلایا گیا۔
اس تحقیق سے حاصل کردہ نتائج ملے جلے تھے۔ راکٹ بہت زیادہ پیچیدہ تھا اور اکثر غلط داغ دیا جاتا تھا۔ نیوکلیائی انجن کی زبردست تھرتھراہٹ اکثر ایندھن کے بنڈلوں کو چٹخا دیتی تھی جس کے نتیجے میں جہاز ٹوٹ جاتا تھا۔ اونچے درجہ حرارت پر ہائیڈروجن کو جلانے کی وجہ سے خوردگی(Corrosion) ایک مستقل مسئلہ تھی۔ نیوکلیائی راکٹ کو آخر کار ١٩٧٢ء میں بند کر دیا گیا۔
(ان ایٹمی راکٹوں میں ایک اور مسئلہ بے قابو نیوکلیائی عمل کا بھی تھا جیسا کہ ایک چھوٹے سے ایٹم بم میں ہوتا ہے۔ اگرچہ تجارتی نیوکلیائی بجلی گھر آج کل رقیق نیوکلیائی ایندھن پر چل رہے ہیں اور ہیروشیما پر گرائے گئے بم کی طرح سے نہیں پھٹ سکتے ، یہ ایٹمی راکٹ ، زیادہ دھکیل کی قوّت پیدا کرنے کے چکر میں ، بلند درجے کی افزودہ یورینیم کا استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ ایک زنجیری عمل کی صورت میں پھٹ کر ننھے نیوکلیائی دھماکوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب نیوکلیائی راکٹ کا منصوبہ ختم ہونے کے قریب تھا تو سائنس دانوں نے ایک آخری ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ راکٹ کو ایک چھوٹے نیوکلیائی بم کی طرح پھاڑا جائے ۔ اس کے لئے انہوں نے قابو میں رکھنے والی سلاخوں کو ہٹا دیا [جن کا کام نیوکلیائی عمل پر نظر رکھنا تھا ]۔ ری ایکٹر بے قابو ہو کر ایک آگ کے شعلوں کی گیند بن کر پھٹ گیا۔ اس شاندار نیوکلیائی راکٹ منصوبے کی موت کو فلمایا بھی گیا تھا۔ روسی اس بات سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس کرتب کو لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی کی خلاف ورزی جانا جس میں زمین کے اوپر نیوکلیائی بم کو پھاڑنے پر پابندی تھی۔)
ماضی میں مختلف ادوار میں فوج وقتاً فوقتاً نیوکلیائی راکٹ کو بنانے کا جائزہ لیتی رہی ہے۔ ایک خفیہ منصوبہ" ٹمبر ونڈ نیوکلیائی راکٹ "کا تھا جو کہ ١٩٨٠ء میں فوجی اسٹار وار منصوبے کا حصّہ تھا۔ (فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ کے اس کو ظاہر کرنے کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا۔)
سب سے بڑا مسئلہ نیوکلیائی راکٹ میں حفاظت کا ہے۔ ٥٠ سال سے زیادہ عرصے تک خلاء میں اپنی موجودگی کے باوجود کیمیائی راکٹ بوسٹر میں ایک فیصدی خطرہ ناکام ہو کر تباہی مچانے کا اپنی جگہ موجود ہے۔(چیلنجر اور کولمبیا خلائی جہازوں کے دو انتہائی افسوس ناک واقعات نے ناکامی کی اس شرح کو مزید تقویت بخشی ہے اس حادثے میں چودہ خلا نوردوں نے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لئے تھے۔)
ان تمام باتوں سے قطع نظر ، ماضی میں چند برسوں کے دوران ناسا نے نیوکلیائی راکٹ میں اپنی تحقیق کو پہلی مرتبہ١٩٦٠ء کے این ای آر وی اے منصوبے کو ختم کرنے کے بعد سے دوبارہ شروع کیا ہے۔ ٢٠٠٣ء ایک نیا منصوبہ جس کا نام یونانی دیوتا "پرومیتھیئس" (Prometheus)کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے انسانوں کو آگ کا تحفہ دیا تھا۔ ٢٠٠٥ء میں پرومیتھیئس کو ٤٣ کروڑ ڈالر کا فنڈ دیا گیا تھا۔ بہرحال ٢٠٠٦ء میں اس فنڈ میں زبردست کٹوتی کرکے اس کو صرف ١٠ کروڑ ڈالر تک محدود کر دیا تھا۔ منصوبے کا مستقبل تاحال واضح نہیں ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ چہارم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- نیوکلیائی ضربی راکٹ
ایک اور دور کی کوڑی یہ ہے کہ راکٹ کو دھکیلنے کے لئے چھوٹے نیوکلیائی بموں کے سلسلہ کو استعمال کیا جائے۔ پروجیکٹ اورائن میں چھوٹے ایٹم بموں کو راکٹ میں ایک ترتیب میں چھوڑا جانا تھا تاکہ خلائی جہاز ان چھوٹے ہائیڈروجن بموں کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی صدماتی موجوں پر سفر کر سکے۔ ایسا کوئی بھی خلائی جہاز کم از کم نظری طور پر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ ١٩٤٧ء میں "اسٹینس لاء اولم"(Stanislaw Ulam) نے اس طرز کے راکٹ کو بنانے کا خیال پیش کیا جو اس وقت پہلے ہائیڈروجن بم کو بنانے میں مدد کر رہا تھا ، اس خیال پر مزید کام ٹیڈ ٹیلر ([Ted Taylor]جو یو ایس فوج میں نیوکلیائی بموں کا چیف ڈیزائنروں میں سے ایک تھا ) اورپرنسٹن میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طبیعیات دان "فری مین ڈیسن"(Freeman Dyson) نے کیا۔
١٩٥٠ء کے اواخر میں اور ١٩٦٠ء کی دہائی میں ایسے کسی نجمی راکٹ کے لئے مفصل تخمینے لگائے گئے۔ اندازہ لگایا گیا کہ ایسا کوئی بھی خلائی جہاز سب سے زیادہ بلند سمتی رفتار جو روشنی کی رفتار کے ١٠ فیصد تک ہو سکتی ہے حاصل کرکے پلوٹو جا کر ایک سال میں واپس بھی آ سکتا ہے۔ مگر اس شاندار رفتار کے باوجود بھی قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ٤٤ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ سائنس دانوں نے اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ اس قسم کے راکٹوں کے ذریعہ چلانے والی کوئی بھی خلائی کشتی صدیوں تک چلائی جا سکتی ہے ، جس میں خلا نوردوں کی کئی نسلیں پیدا ہو کر اپنی تمام زندگی اسی خلائی کشتی پر گزار سکتی ہیں اس طرح سے ان کی اگلی نسل قریبی ستارے تک پہنچ سکتی ہیں۔
١٩٥٩ء میں جنرل اٹامکس نے ایک رپورٹ کا اجراء کیا جس میں ایک اورائن خلائی جہاز کے حجم کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس کے مطابق سب سے بڑا نمونے سپر اورائن کا وزن ٨ لاکھ ٹن جبکہ اس کا قطر ٤٠٠ میٹر کا ہوگا۔ اور اس کو ایک ہزار ہائیڈروجن کے بموں کی قوّت سے چلانا ہوگا۔
ایسے کسی بھی خلائی جہاز میں ایک سب سے بڑا مسئلہ اس ممکنہ آلودگی کا ہے جو اس کے خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت پیدا ہوگی ۔ ڈیسن نے اندازہ لگایا کہ ہر چھوڑے جانے والے خلائی جہاز سے نکلنے والا نیوکلیائی فضلہ١٠ لوگوں میں مہلک قسم کا کینسر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کسی بھی خلائی جہاز کو چھوڑتے وقت نکلنے والی برقی مقناطیسی ضربیں (ای ایم پی ) اس قدر زور آ ور ہوں گی کہ آس پاس کے پڑوس میں موجود برقی نظام میں شارٹ سرکٹ پیدا کر دیں گی۔
١٩٦٣ء میں لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی پر دستخط کرنے کی وجہ سے اس منصوبے کی موت ہو گئی۔ آخر میں اس منصوبے کے روح رواں ، نیوکلیائی بم کے ڈیزائنر ٹیڈ ٹیلر نے ہار مان لی۔(ایک دفعہ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی کہ ان پر اس پروجیکٹ کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ چھوٹے ہائیڈروجن بموں کے پیچھے کی طبیعیات کو دہشت گرد ان بموں میں استعمال کر سکتے ہیں جن کی ترسیل انتہائی آسان ہوگی۔ اگرچہ اس منصوبے کو خطرناک سمجھتے ہوئے اس پر تالا ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا نام اورائن خلائی جہاز کے نام سے باقی رکھا گیا ۔ اس خلائی جہاز کو ناسا نے ٢٠١٠ء میں "خلائی شٹل "سے تبدیل کرنے کے لئے چنا ہے۔)
نیوکلیائی توانائی سے چلنے والے راکٹ کا تصوّر برطانیہ کی بین السیارہ سوسائٹی نے ١٩٧٣ء سے لے ١٩٧٨ء تک دوبارہ "ڈائڈالس منصوبے"(Project Daedalus) کے نام سے زندہ کیا۔ یہ ایک ابتدائی تحقیق تھی جس کا مقصد بغیر انسان کے نجمی خلائی جہاز کی معقولیت کو جانچنا تھا۔ اس خلائی جہاز کو برنارڈ ستارے تک پہنچنا تھا جو زمین سے ٥۔٩ نوری برس کے فاصلے پر تھا۔(برنارڈ ستارہ اس لئے چنا گیا تھا کہ امکان غالب تھا کہ یہاں ایک سیارہ موجود ہو سکتا ہے۔ اس وقت سے فلکیات دان "جل ٹارٹر"(Jill Tarter) اور مارگریٹ ٹرنبل(Margaret Turnbull) نے ایک ١٧،٢١٩ قریبی ستاروں کی فہرست بنائی ہے جن کے سیارے حیات کا مسکن ہو سکتے ہیں۔ حیات کے مسکن کے سب سے بہترین امیدوار اپسیلون انڈی الف ہے جس کا زمین سے فاصلہ جو ١١۔٨ نوری برس کا ہے۔)
ڈائڈالس منصوبے کا خلائی جہاز اس قدر بڑا تھا کہ اس کو خلاء میں ہی بنایا جا سکتا تھا۔ اس کا کل وزن ٥٤ ہزار ٹن ہوتا جس میں کام کے حصّے کا وزن صرف ٤٥٠ ٹن جبکہ باقی زیادہ تر وزن ایندھن کا ہوتا اور وہ روشنی کی رفتار کا صرف ٧۔١ فیصد ہی حاصل کر پاتا۔ ننھے ہائیڈروجن بموں کو استعمال کرنے والے اورائن منصوبے کے برعکس ، ڈائڈالس کا منصوبہ ڈیوٹیریئم / ہیلیئم - ٣ کے ملغوبہ والے چھوٹے ہائیڈروجن بم استعمال کرتا اور ان کو الیکٹران کی شعاعوں سے جلایا جاتا۔ زبردست فنی مسائل اور نیوکلیائی دھکیل کے نظام پر خدشات کی بنیاد پر ڈائڈالس کا منصوبہ غیر معینہ مدّت کے لئے سر بمہر کر دیا گیا۔
مخصوص ضرب اور انجن کی کارکردگی
انجنیئر اکثر مخصوص ضرب کی بات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم کارکردگی کے لحاظ سے مختلف انجن کے ڈیزائن کو درجوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ مخصوص ضرب کو ہم راکٹ کی فی کمیتی اکائی کی بنسبت معیار حرکت میں تبدیلی سے بیان کر سکتے ہیں کہ لہٰذا انجن کی کارکردگی جتنی بہتر ہوگی خلاء میں اضافی حرکت کے لئے درکار اتنے ہی کم ایندھن کی ضرورت ہوگی۔ معیار حرکت اس قوّت کا حاصل ہے جو کچھ وقت کے بعد حاصل کی جائے۔ کیمیائی راکٹوں میں اگرچہ بڑے دھکیل موجود ہوتے ہیں لیکن یہ صرف چند منٹوں تک ہی چلتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی مخصوص ضرب بہت ہی کم درجہ کی ہوتی ہے۔ کیونکہ برق پارے کے انجن برسوں تک چل سکتے ہیں لہٰذا ان میں بلند مخصوص ضرب ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف ان میں دھکیل کی قوّت انتہائی پست ہوتی ہے۔
مخصوص ضرب کو سیکنڈوں میں ناپا جاتا ہے۔ ایک مخصوص کیمیائی راکٹ میں ٤٠٠-٥٠٠ سیکنڈوں کی مخصوص ضرب ہو سکتی ہے۔ خلائی شٹل کے انجن کی مخصوص ضرب ٤٥٣ سیکنڈ ہے۔(سب سے بلند مخصوص ضرب صرف ٥٤٢ سیکنڈوں کی ہے جو کسی کیمیائی راکٹ نے حاصل کی ہے۔ اس کو ہائیڈروجن ، لیتھیم اور فلورین کے ملغوبہ کو راکٹ میں استعمال کرکے حاصل کیا گیا تھا۔) ا سمارٹ - ١ کے راکٹ کی مخصوص ضرب کی قوّت ١٦٤٠ سیکنڈ ہے۔ بلند ترین ممکنہ مخصوص ضرب جو کوئی بھی راکٹ حاصل کر سکتا ہے وہ روشنی کی رفتار ہے۔ اس کی مخصوص ضرب لگ بھگ ٣ کروڑ ہوگی۔ درج ذیل ایک چارٹ دیا گیا ہے جو مختلف قسم کے راکٹ انجن کی مختلف مخصوص ضربوں کو بیان کرتا ہے۔
راکٹ کی قسم مخصوص ضرب
ٹھوس ایندھنی راکٹ ٢٥٠
مائع ایندھنی راکٹ ٤٥٠
برق پارہ انجن ٣،٠٠٠
وی اے ایس آئی ایم آر پلازما انجن ١،٠٠٠ - ٣٠،٠٠٠
نیوکلیائی انشقاقی راکٹ ٨٠٠ – ١،٠٠٠
نیوکلیائی گداختی راکٹ ٢،٥٠٠ – ٢٠٠،٠٠٠
نیوکلیائی ضربی راکٹ ١٠،٠٠٠ - ١٠ لاکھ
ضد مادّہ راکٹ دس لاکھ - ایک کروڑ
(نظریاتی طور پر ، لیزر بادبان اور دو شاخہ انجن کے مسائل کو اگر چھوڑ دیں تو ان کو لامتناہی مخصوص ضرب حاصل ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس راکٹ ہوتا ہی نہیں ہے۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ پنجم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- خلائی بالا بر (Space Elevators)
ایک سب سے خطرناک اعتراض ان تمام راکٹوں کے نقشوں پر حجم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ بلحاظ حجم یہ اس قدر قوی الجثہ ہوتے ہیں کہ ان کو زمین پر کبھی بھی نہیں بنائے جا سکے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ سائنس دان اس بات کی تجویز دیتے ہیں کہ ان کو خلاء میں بنایا جائے جہاں وزن کے بغیر کا ماحول خلا نوردوں کو بھاری چیزیں حرکت دینے میں انتہائی سازگار ہوگا۔ مگر ناقدین خلاء میں جہاز کو بنانے کی لاگت کی وجہ سے اس کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی خلائی ا سٹیشن کو مکمل بنانے کے لئے ١٠٠ خلائی جہازوں کو خلاء میں بھیجنا پڑا اور اس کی لاگت ایک کھرب ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے مہنگا منصوبہ ہے۔ نجمی خلائی بادبان یا دو شاخہ ڈونگا خلاء میں بنانا اس سے کہیں زیادہ مہنگا پڑے گا۔
مگر جیسے کہ ایک سائنس فکشن مصنف " رابرٹ ہینلین"(Robert Heinlein) یہ بات نہایت شوق سے اکثر و بیشتر دہراتے ہیں کہ اگر آپ زمین سے ١٦٠ کلو میٹر اوپر چلے جائیں تو آپ نظام شمسی کے کسی بھی حصّے تک پہنچنے کے لئے آدھا راستہ طے کر چکے ہیں۔ ان کے قول کی ایک وجہ سے کہ کسی بھی خلائی جہاز کو شروع کے ١٦٠ کلو میٹر میں زمین کی کشش ثقل سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں جو لاگت آتی ہے وہ اس لاگت سے کہیں زیادہ ہے جو راکٹ کو پلوٹو یا اس سے آگے وہاں سے کہیں اور جانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔
مستقبل میں لاگت میں ڈرامائی کمی کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک خلائی بالا بر بنایا جائے۔ رسی پر چڑھ کر فلک پر پہنچنے کا خیال بہت پرانا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی کہانی "جیک اینڈ دی بین سٹالک " میں یہ تصوّر موجود ہے۔ یہ بات حقیقت کا روپ تب دھار سکتی ہے جب رسی کو کافی دور تک خلاء میں بھیجا جا سکے۔ اس وقت زمین کی محوری گردش سے پیدا ہوئی مرکز گریز قوّت اتنی ہوگی کہ وہ اس کی جاذبی قوّت کو زائل کر سکے۔ اس طرح سے وہ رسی کبھی نیچے نہیں گرے گی۔ رسی جادوئی طور پر خلاء میں جاتی ہوئی بادلوں میں غائب ہو جائے گی۔(ایک رسی میں بندھی ہوئی گیند کا تصوّر کریں۔ ایسے لگے گا جیسے کہ بال پر کشش ثقل اثر انداز نہیں ہو رہی ہے کیونکہ مرکز گریز قوّت اس کو محوری مرکز سے دور کر رہی ہوگی۔ بالکل ایسی طرح سے ایک لمبی رسی بھی ہوا میں زمینی گھماؤ کی وجہ سے معلق رہی گی۔) زمین سے ہوا معلق رکھنے کے لئے زمین کی محوری گردش کے علاوہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نظری طور پر کوئی بھی شخص اس رسی پر چڑھ اور اتر سکتا ہے۔ ہم اکثر سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں طبیعیات کا مضمون پڑھنے والے طلبہ کو ایسی کسی رسی کے تناؤ کا حساب لگانے کا ایک مسئلہ دیتے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنا انتہائی آسان ہے کہ رسی پر موجود تناؤ اتنا ہوگا کہ کسی اسٹیل کے تار کو بھی وہ آسانی کے ساتھ چٹخا سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اگرچہ بالائی بروں کو بنانے کے لئے کافی عرصے سے سوچا تو جا رہا ہے لیکن ان کو بنانا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ خلائی بر پر سب سے پہلی سنجیدہ تحقیق ایک صاحب کشف روسی سائنس دان کونسٹنٹین ٹیولکوفسکی نے کی۔ ١٨٩٥ء میں ایفل ٹاور سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک ایسے مینار کا خواب دیکھا جو خلاء تک جاتا ہو اور زمین کو خلاء میں فلکی اجسام سے ملاتا ہو۔ خلائی بالا بر کو زمین سے اٹھاتے ہوئے انجنیئر آہستگی کے ساتھ اسے آسمانوں تک لے جائیں۔
١٩٥٧ء میں روسی سائنس دان "یوری آرٹ سٹا نوف"(Yuri Artsutanov) نے ایک نیا حل تجویز کیا کہ خلائی بالا بر کو الٹے طریقہ سے بنایا جائے یعنی اوپر سے نیچے کی جانب جس کی شروعات خلاء سے کی جائے۔ اس نے ایک ایسے مصنوعی سیارچے کا تصوّر پیش کیا جو ساکن زمینی مدار میں خلاء میں ٣٦ ہزار میل کی اونچائی پر رہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زمین سے دیکھنے پر وہ ساکن ہی نظر آئے گا اور تار کو نیچے زمین پر اتارا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد تار کو زمین سے جڑے آنکڑے میں پھنسا دیا جائے گا۔ مگر اس خلائی بالا پر کی رسی کو ٦٠ سے ١٠٠ گیگا پاسکل (جی پی اے ) تناؤ کو برداشت کرنا ہوگا۔ اسٹیل تو صرف ٢ جی پی اے پر ہی ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ خیال قابل عمل نہیں لگتا۔
آرتھر سی کلارک کے ١٩٧٩ء میں شائع ہونے والے ناول "دی فاؤنٹین آف پیرا ڈائز اور رابرٹ ہینلین کا ١٩٨٢ء کے ناول "فرائیڈے " نے خلائی بالا بر کے تصوّر کو کافی مقبولیت بخشی۔ مگر اس خیال میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کیمیا دانوں کی کاربن نینو ٹیوبز کی ایجاد کے بعد سے صورتحال کچھ بدلی ہے۔ ١٩٩١ء میں نیپون الیکٹرک کے "سومیوایجیما " (Somio Iijima) کے کام کی وجہ سے اس میں لوگوں کی دلچسپی ایک دم سے بڑھ گئی ہے۔(اگرچہ کاربن نینو ٹیوبز کے ثبوت ١٩٥٠ء کی دہائی سے ملتے ہیں جس کو اس وقت نظر انداز کر دیا گیا تھا )۔ حیرت انگیز طور پر نینو ٹیوبز ا سٹیل کی تاروں سے کہیں زیادہ مضبوط ہونے کا باوجود کہیں زیادہ ہلکی ہوتی ہیں۔ حقیقت میں ان کی طاقت اس سے کہیں زیادہ ہے جو خلائی بالا بر کے لئے درکار ہوتی ہے۔ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کاربن نینو ٹیوبز فائبر ١٢٠ جی پی اے کا تناؤ برداشت کر سکتی ہیں جو اس ٹوٹنے والے نقطہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دریافت نے خلائی بالا بر کو بنانے میں دوبارہ سے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
١٩٩٩ء میں ناسا کی ایک تحقیق میں خلائی بالا بر پر کافی سنجیدگی سے غور کیا گیا ، جس میں ایک ایسے فیتے کا خیال پیش کیا گیا جو ایک میٹر چوڑا اور ٤٧ ہزار کلو میٹر لمبا ہوگا اور وہ ١٥ ٹن وزن کو زمین کے مدار میں پہنچا سکے گا۔ ہو سکتا ہے کہ خلائی بالا بر خلائی معیشت کو راتوں رات بدل دے۔ یہ لاگت میں دس ہزار گنا کمی کرکے خلائی سفر کے میدان میں ایک زبردست انقلابی تبدیلی برپا کر سکتے ہیں۔
دور حاضر میں ایک پونڈ وزن کو زمین کے مدار میں بھیجنے کے لئے ١٠ ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ کی لاگت آتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر خلائی شٹل مہم میں آنے والی لاگت ٧٠ کروڑ ڈالر ہوتی ہے۔ خلائی بالا بر لاگت کو ایک ڈالر فی پونڈ تک کم کر سکتا ہے۔ خلائی مہمات کی بنیادی لاگت میں کمی خلائی سفر میں ایک انقلاب رونما کر سکتا ہے۔ ایک سادے سے بٹن کو دبا کر کوئی بھی شخص ایک ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی قیمت میں خلائی سفر کے مزے لے سکتا ہے۔
مگر اس کام میں فلک کے لئے اٹھان بھر نے میں سخت عملی رکاوٹیں موجود ہیں ۔ فی الوقت تجربہ گاہوں میں بنائی گئی کاربن نینو ٹیوبز ١٥ ملی میٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہیں۔ خلائی بالا بر کو بنانے کے لئے ہمیں ہزاروں میل لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی ضرورت ہوگی۔ سائنس دانوں کے نقطہ نظر سے یہ صرف ایک فنی مشکل ہے ،لیکن یہ ایک ضدی اور مشکل مسئلہ ہے اگر ہم خلائی بالا بر کو بنانا چاہتے ہیں تو اس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ سائنس دانوں کی اکثریت کو اس بات پر یقین ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے کچھ عشروں میں ہم لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی تاروں کو بنانے میں مہارت حاصل کر لیں۔
دوسرے کاربن نینو ٹیوبز میں موجود خرد بینی کثافت لمبے تاروں کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہیں۔ اٹلی میں واقع پولی ٹیکنیک آف ٹیورن کے" نیکولا پنگو"(Nicola Pungo) کے اندازے کے مطابق اگر کاربن نینو ٹیوب میں سے ایک ایٹم بھی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا ہو تو اس کی مضبوطی ٣٠ فیصد کم ہو جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ایٹمی پیمانے کے نقص نینو ٹیوبوں کی تاروں کی مضبوطی کو ٧٠ فیصد تک کم کر سکتے ہیں جس سے خلائی بالا بر کو سہارا دینے کے لئے ضروری درکار کم از کم گیگا پاسکل مضبوطی کہیں کم ہو جاتی ہے۔
خلائی بالا بر میں مہم کارانہ دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے ناسا نے دو انعامات کے اجراء کرنے کا اعلان کیا ہے۔( انعامات کو ایک کروڑ ڈالر کے" انصاری ایکس انعام" کی طرز پر رکھا گیا ہے جس نے مہم کار موجدوں میں ایک ایسے تجارتی خلائی جہاز بنانے کے لئے جذبہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو مسافروں کو خلاء کی آخری حد تک لے جا سکے۔ ایکس انعام ا سپیس شپ و ن نے ٢٠٠٤ء میں جیت لیا تھا۔) ناسا جس انعام کو پیش کر رہا ہے وہ بیم پاور چیلنج کہلائے گا۔ اس میں حصّہ لینے والی ٹیموں کو ایک ایسا آلہ بنانا ہوگا ( جو کرین کی مدد سے ہوا میں معلق ہوگا۔) جو کم از کم ٢٥ کلو وزن کو ایک رسی کی مدد سے ایک میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ٥٠ میٹر کی دوری تک بھیج سکے۔ سننے میں یہ کافی آسان لگتا ہے ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس آلے کو نہ تو کوئی ایندھن استعمال کرنا ہوگا نہ ہی کسی قسم کی بیٹری یا برقی تار۔ اس کے برعکس روبوٹک آلے کو درکار توانائی شمسی پینل ، شمسی عاکس، لیزر یا خرد موجوں کے ذریعہ حاصل کرنی ہوگی جو خلاء میں توانائی حاصل کرنے کے زیادہ مناسب طریقے ہیں۔
اس رسی کو بنانے کے چیلنج میں ٹیم کو ایک ٢ میٹر لمبی رسی بھی بنانی ہوگی جس کا وزن ٢ گرام سے زیادہ نہ ہو اور جو پچھلے سال کی سب سے بہترین رسی کے مقابلے میں ٥٠ فیصد زیادہ وزن اٹھا سکتی ہوں۔ اس چیلنج کا مقصد ہلکی مادّے سے بنی ہوئے چیزوں کی میں تحقیق میں تیزی پیدا کرنا ہے۔ یہ مادّے اتنے مضبوط ہونے چاہئے کہ خلاء میں ایک لاکھ کلو میٹر تک لٹک سکیں۔ اس میں ١٥٠ لاکھ ڈالر ، ٤٠ ہزار ڈالر اور ١٠ ہزار ڈالر کے انعامات دیے جائیں گے۔ (اس چیلنج کے مشکل ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٢٠٠٥ء میں اس چیلنج کو دیئے ہوئے ایک سال کے گزرنے کے بعد بھی کسی نے کوئی بھی انعام نہیں جیتا۔)
اگرچہ ایک کامیاب خلائی بالا بر خلائی مہمات میں انقلاب برپا کر سکتا ہے لیکن ایسی کسی بھی مشین کے اپنے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر زمین سے قریب مصنوعی سیارچوں کی خط حرکت زمین کے مدار میں چکر لگانے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔(اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین ان کے نیچے چکر لگاتی ہے )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مصنوعی سیارچے کبھی نا کبھی خلائی بالا بر سے١٨ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے جا ٹکرائیں گے۔ اس رفتار سے ٹکر رسی کو توڑنے کے لئے کافی ہوگی۔ اس قسم کے حادثے سے بچنے کے لئے مستقبل کے سیارچوں کو اس طرح سے بنانا ہوگا کہ ان میں چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ خلائی بالا بر کے پاس سے آسانی کے ساتھ آگے پیچھے ہو کر گزر سکیں یا پھر خلائی بالا بر کی رسی میں چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ ان کی مدد سے سامنے آتے ہوئی سیارچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
کیونکہ خلائی بالا بر زمین کی فضا سے کافی اونچائی پر ہوں گے۔ لہٰذا خرد شہابیوں کے تصادم بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہوگا۔ عام طور سے ہمارا کرۂ فضائی ہمیں ان شہابیوں سے بچاتا ہے۔ کیونکہ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کب خرد شہابیے آ کر ٹکرا جائیں اس لئے خلائی بالا بر کو اس طرح سے بنانا ہوگا کہ وہ ان تصادموں سے اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے نظاموں میں فالتو پرزے بھی رکھے جائیں تاکہ ممکنہ ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کیا جا سکے۔ زمین پر طوفانی موسموں کے رونما ہونے کے اثرات جیسا کہ آندھیاں ، مدو جزر کی موجیں اور طوفان بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ پنجم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- غلیل کا اثر یا ثقلی مدد (The Slingshot Effect)
کسی بھی جسم کو روشنی کی قریب ترین رفتار سے پھینکنے کا ایک اور نیا اور اچھوتا طریقہ "غلیلی اثر" بھی ہے۔ جب خلائی کھوجیوں کو باہر ی سیاروں کی جانب روانہ کیا جاتا ہے تو ناسا اکثر ان کو پڑوسی سیاروں کی طرف غوطہ لگواتے ہیں تاکہ وہ غلیلی اثر کو خلائی جہاز کی سمتی رفتار بڑھانے میں استعمال کر سکیں۔ ناسا اس طرح سے قیمتی ایندھن کی بچت کر لیتا ہے۔ یہ ہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے وائیجر خلائی جہاز نظام شمسی کے دور دراز کنارے کے پاس واقع نیپچون سیارے تک پہنچنے کے قابل ہوا تھا ۔
پرنسٹن کے طبیعیات دان فری مین ڈیسن تجویز کرتے ہیں کہ مستقبل بعید میں ہمیں دو ایسے نیوٹرون تلاش کرنے چاہیں جو ایک دوسرے کے گرد زبردست رفتار سے چکر لگا رہے ہوں۔ ان میں سے کسی ایک کے انتہائی نزدیک سفر کرتے ہوئے ہم ان کے گرد ایک جھولا لے کر خلاء میں روشنی کی رفتار کے ایک تہائی سے سفر کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں ہم قوّت ثقل کو اپنی رفتار کو مزید بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہوں گے۔ کاغذوں میں تو یہ طریقہ بالکل صحیح طرح سے کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
دوسرے ماہرین یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنے سورج کے گرد اچھل کر روشنی کی رفتار کے قریب تک کا اسراع حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ درحقیقت فلم اسٹار ٹریک IV:دی وائییج ہوم میں استعمال ہوا ہے جب انٹرپرائز کا عملہ ایک کلنگون جہاز کو اغواء کر لیتا ہے اور پھر سورج کے نزدیک جاتا ہے تاکہ روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ کر پچھلے وقت میں پہنچ جائے۔ فلم "وین ورلڈ ز کولائیڈ" میں جب زمین پر ایک سیارچے سے تصادم کا خطرہ ہوتا ہے تو اس وقت سائنس دان زمین کو ایک دیو ہیکل رولر کوسٹر بنا کر اس سے بچاتے ہیں۔ ایک خلائی جہاز رولر کوسٹر کی طرف بھیجا جاتا ہے ، جو زبردست سمتی رفتار حاصل کرتے ہوئے رولر کوسٹر کے نیچے جھکائی لیتا ہے اور خلاء میں انتہائی تیزی سے چھوڑ دیتا ہے۔
کشش ثقل کے استعمال سے اضافی رفتار حاصل کرنے والا کوئی بھی ایسا طریقہ درحقیقت خلاء میں کام نہیں کر سکے گا۔( اس کی وجہ" قانون بقائے توانائی" ہے ، رولر کوسٹر میں نیچے جانے اور پھر واپس آنے میں ہم اسی سمتی رفتار پر اپنا خاتمہ کریں گے جس رفتار سے ہم نے شروع کیا تھا لہٰذا اس میں ہمیں کوئی اضافی توانائی حاصل نہیں ہوگی۔ اس طرح سے ساکن سورج کے گرد اچھلنے سے ہمیں آخر میں وہی سمتی رفتار حاصل ہوگی جس سے ہم نے شروعات کی تھی۔)دو نیوٹرون ستاروں کے استعمال سے ڈیسن کا طریقہ شاید اس لئے کام کر سکے گا کہ نیوٹرون ستارے بہت تیزی سے گھومتے ہیں۔ کوئی بھی خلائی جہاز جو غلیلی اثر کا استعمال کرتے ہوئی کسی سیارے یا ستارے کی حرکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صرف شدہ توانائی سے زیادہ توانائی حاصل کر لیتا ہے۔ اگر سیارہ یا ستارہ ساکن ہو تو کوئی ثقلی مدد حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ ڈیسن کی تجویز قابل عمل ہے مگر یہ آج کی دنیا میں زمین پر رہنے والے سائنس دانوں کے کسی کام نہیں آسکتی کیونکہ ہمیں کسی بھی گھومتے ہوئے نیوٹرون ستارے تک پہنچنے کے لئے بھی ایک نجمی خلائی جہاز درکار ہوگا۔
فلکی ریلی بندوق
ایک اور دوسرا شاندار طریقہ کسی بھی جسم کو خلاء میں زبردست سمتی رفتار سے داغنے کا" ریل گن" کا ہے جس کو آرتھر سی کلارک اور دوسرے مصنفین نے اپنی سائنس فکشن کہانیوں میں استعمال کیا ہے ۔ اس طریقے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اسٹار وار میزائل ڈھال کے لئے بھی جانچا گیا تھا۔
کسی جسم کو اضافی رفتار دینے کے لئے راکٹ ایندھن یا بندوق کے بارود کا استعمال کرنے کے بجائے ریلی بندوق ، برقی مقناطیسی قوّت کا استعمال کرتی ہے۔ اپنی سادہ ترین شکل میں ریلی بندوق دو متوازی تاروں یا جنگلے پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ایک گولا دونوں تاروں پر رکھے ہوئے ایک U کی شکل بناتا ہے۔ مائیکل فیراڈے بھی یہ بات جانتا تھا کہ برقی رو کو جب مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو اس پر بھی قوّت اثر انداز ہوتی ہے۔( یہ بات تمام برقی موٹروں کی اساس ہوتی ہے۔)ان تاروں اور گولے میں سے دسیوں لاکھوں ایمپئر کی برقی قوّت کو گزار کر ایک زبردست مقناطیسی میدان ریل کے چاروں طرف بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مقناطیسی میدان اس کے بعد اس گولے کو ریل پر زبردست رفتار سے نہایت ہی کم فاصلہ تک دھکیلتا ہے۔ قابل ذکر طریقے سے نظری طور پر ایک سادی سی ریلی بندوق دھات کے گولے کو ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکنے کے قابل ہوتی ہے۔ نظری طور پر ناسا کے تمام راکٹوں کے بیڑے کو ریلی بندوق سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی جسم کو زمین کے مدار میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ریلی بندوق کیمیائی راکٹوں اور بندوق کے اوپر معنی خیز برتری رکھتی ہے۔ ایک بندوق میں سمتی رفتار کی وہ آخری حد صدماتی موجوں کی رفتار سے محدود ہو جاتی ہے جس میں پھیلتی ہوئی گیسیں گولی کو دھکیلتی ہیں۔ ہرچند کہ جولیس ورنی نے خلا نورد کو چاند پر بھیجنے کے لئے بندوق کا بارود اپنی کلاسک کہانی "فرام دا ارتھ ٹو دا مون " میں استعمال کیا تھا۔ لیکن اس بات کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے کہ بندوق کے بارود کی سمتی رفتار اس رفتار سے کہیں زیادہ کم ہوتی ہے جو کسی کو چاند پر بھیجنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ریلی بندوق کو بہرحال صدماتی موجوں کی رفتار تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
مصیبت یہ ہے کہ ریلی بندوق کے ساتھ بھی کچھ مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ یہ چیزوں میں اس قدر تیز اسراع پیدا کر دیتی ہے کہ وہ ہوا سے ٹکرا کر چپٹے ہو جاتے ہیں۔ ریلی بندوق کی نالی سے نکلنے والی چیزیں اس عمل میں بری طرح سے مسخ ہو جاتی ہیں کیونکہ جب پھینکی گئی اشیاء ہوا سے ٹکراتی ہیں وہ ایسا اثر محسوس کرتی ہیں جیسے انھیں اینٹوں کی دیوار پر مارا جا رہا ہو۔ مزید براں یہ کہ بھیجی جانے والی چیزوں کا زبردست اسراع ریل کے ساتھ اتنا ہوتا ہے کہ وہ ریل کو بھی مسخ کر دیتا ہے۔ ریل کی پٹری کو بھی باقاعدگی کے ساتھ بدلنا ہوگا کیونکہ اس کو گولے کی وجہ سے نقصان پہنچے گا۔ مزید براں یہ کہ خلا نوردوں پر لگنے والی جی فورس ان کو جہان فانی سے کوچ کرانے کے لئے کافی ہوگی اور ان کے جسم میں موجود تمام ہڈیوں کا بآسانی چورا بنا ڈالے گی۔
ایک تجویز تو یہ ہے کہ ریلی بندوق کو چاند پر لگایا جائے۔ زمین کی فضا سے باہر ریلی بندوق کا گولا باہر ی خلاء کی خالی جگہ میں سے بغیر کسی پریشانی کے کسی بھی چیز کو بآسانی پھینک سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود ریلی بندوق سے پیدا شدہ زبردست اسراع مسافروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ریلی بندوق ، لیزر بادبان کے برعکس کام کرتا ہے جو اپنی آخری رفتار کو ایک لمبے عرصے میں جا کر حاصل کرتا ہے۔ ریلی بندوق محدود ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ توانائی بہت ہی کم جگہ میں جمع کیے ہوتی ہیں۔
ایسی کوئی بھی ریلی بندوق جو کسی بھی شئے کو قریبی ستارے کی طرف پھینک سکے کافی مہنگی ہوگی۔ ایک تجویز یہ ہے کہ سورج سے دو تہائی دوری پر ریلی بندوق کو خلاء میں ہی بنا لیا جائے۔ یہ شمسی توانائی کا ذخیرہ کرکے اس حاصل کردہ توانائی کو ریلی بندوق میں اچانک سے خارج کرے گی جس سے ١٠ ٹن وزنی کسی بھی جسم کو روشنی کی ایک تہائی رفتار سے ٥٠٠٠ جی فورس کے اسراع کے ساتھ پھینک سکتی ہے۔ اس بات میں شاید کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی سخت جان روبوٹ ہی اس زبردست اسراع میں باقی بچ سکتا ہے۔
خلائی سفر کے خطرات
ظاہر سی بات ہے کہ خلاء میں سفر کوئی چھٹی والے دن کی سیر و تفریح نہیں ہے۔ خطرناک قسم کے خطرات انسان بردار خلائی جہاز کو مریخ اور اس سے آگے لے جانے کے درمیان راستہ میں منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کرۂ ارض پر حیات کروڑوں برسوں سے محفوظ ہے :سیارے کی اوزون کی تہ زمین کو بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے ، اس کے مقناطیسی میدان شمسی طوفانوں اور کائناتی شعاعوں سے بچاتے ہیں ، اس کا کثیف کرۂ فضائی ان شہابیوں سے بچاتا ہے جس کو یہ داخل ہوتے ہی بھسم کر دیتی ہے۔ ہم زمین پر پائے جانے والے معتدل درجہ حرارت اور دباؤ کو بہت ہی ہلکا لیتے ہیں۔ مگر خلائے بسیط میں ہمیں حقیقت حال کا سامنا کرنا ہوگا جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے جہاں مہلک شعاعی پٹیاں اور ہلاکت خیز شہابیوں کے جتھے کے جتھے موجود ہیں۔
سب سے پہلے خلائی سفر کے دوران بے وزنی کی حالت کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ بے وزنی کی کیفیت پر کی جانے والی روسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جسم کے بہت سارے قیمتی معدنیات اور نامیاتی کیمیائی اجزاء خلاء میں امیدوں کے بر خلاف تیزی سے ختم ہوتے ہیں۔ سخت قسم کی جسمانی مشقوں کے باوجود خلائی ا سٹیشن پر ایک سال گزارنے کے بعد روسی خلا نوردوں کے پٹھے اور ہڈیاں اس قدر لاغر ہو گئے تھے کہ وہ جب پہلی مرتبہ زمین پر واپس آئے تو بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل بھی مشکل سے چل پا رہے تھے۔ پٹھوں کا لاغر ہونا ، ہڈیوں کے پنجر میں بگاڑ ، خون میں سرخ خلیوں کی پیداوار میں کمی، حفاظتی اور قلبی نظام کی پستی خلاء میں زیادہ لمبا عرصہ گزارنے کے نتیجے میں ہونے والے کچھ لازمی اثرات ہیں۔
مریخ کی مہم جو کئی مہینوں سے لے کر ایک سال پر محیط ہو سکتی ہے وہ ہمارے خلاء نوردوں کی برداشت کا آخری امتحان ہوگی۔ لمبے عرصے کے قریبی ستاروں کے سفر میں یہ مسئلہ تو ہلاکت خیز ہوگا۔ مستقبل کے خلائی جہازوں میں کسی قسم کے گھماؤ کی ضرورت ہوگی جو قوّت ثقل کو مرکز گریز کی قوّت کے ذریعہ پیدا کر سکے تاکہ انسان اس میں آسانی کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ انسانی ماحول سے مطابقت پذیری، پیچیدگی اور لاگت کو بے تحاشا بڑھا دے گی۔
دوسرے دسیوں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری رہنے والے خلائی سفر کے راستے میں خرد شہابیوں کی موجودگی کی وجہ سے اس بات کی ضرورت ہوگی کہ خلائی جہاز کو اضافی طور پر ان سے محفوظ بنایا جائے۔ خلائی جہازوں کا قریبی جائزہ لینے سے بہت سے چھوٹے مگر ممکنہ طور پر مہلک ننھے شہابیوں کے تصادموں کے ثبوتوں کا سراغ ملا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں خلائی جہاز میں عملے کے لئے دوہرے مضبوط خانے موجود ہوں۔ خلائے بسیط میں شعاعی سطح ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورج کے داغ آفتابی کے گیارہ سالہ چکر میں شمسی طوفان بہت زیادہ مقدار میں مہلک پلازما کو زمین کی طرف پھینکتے ہیں۔ ماضی میں اس مظاہر کے نتیجے میں خلائی ا سٹیشن پر موجود خلا نورد خصوصی حفاظتی اقدامات کے ذریعہ ان مہلک ذیلی ایٹمی ذرّات سے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
اس قسم کے شمسی طوفانوں کے دوران خلائی چہل قدمی انتہائی مہلک ہو سکتی ہے۔(مثال کے طور پر لاس اینجیلس سے نیو یارک کے سفر کے دوران ہی ہم شعاعوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ اس سفر کے دوران ہم اتنی شعاعوں کا سامنا کرتے ہیں جتنی کہ دانت کا ایکس رے کرنے کے دوران کرنا پڑتا ہے۔) خلائے بسیط میں جہاں کرۂ فضائی اور زمینی مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں ہمیں ان سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ شعاعوں کا سامنا کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ ہفتم (آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- سکتہ یا غنودگی
ابھی تک جن راکٹوں کو میں نے بیان کیا ہے ان کے ضمن میں ایک مستقل تنقید کی جاتی ہے کہ اگر ہم ایسے کوئی خلائی جہاز بنا بھی لیں تو بھی ہمیں عشروں سے لے کر صدیاں تک کا وقت قریبی ستاروں تک پہنچنے کے لئے درکار ہو گا ۔ اس قسم کی مہمات میں کئی نسلوں پر مشتمل عملے کی ضرورت ہوگی جن کی نسل اپنی آخری منزل پر پہنچ سکے گی۔
اس مسئلہ کا ایک حل فلم "خلائی مخلوق" اور" پلانیٹ آف دی ایپس" میں تجویز کیا ہے جس میں خلائی مسافروں کو سکتے یا غنودگی کی حالت میں لے جایا جاتا ہے۔ یعنی ان کا جسمانی درجہ حرارت انتہائی محتاط طریقے سے پست کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جسم تقریباً کام کرنا بند کر دیتا ہے ،کچھ جانور ہر موسم سرما میں اس غنودگی میں جاتے ہیں۔ کچھ مخصوص مچھلیاں اور مینڈک ٹھوس برف کے بلاک میں منجمد ہو جاتے ہیں اور اس کے باوجود جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو واپس اٹھ جاتے ہیں۔
اس پراسرار مظاہر پر تحقیق کرنے والے حیات دانوں کو یقین ہے کہ ان جانوروں میں قدرتی طور پر مانع منجمد ہونے کی صلاحیت موجود ہے جو پانی کی نقطہ انجماد کو کم کر دیتی ہے۔ مچھلی کے اس مانع منجمد میں کچھ مخصوص پروٹین ہوتے ہیں جبکہ مینڈکوں میں یہ گلوکوز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اپنی خون میں ان پروٹین کی مقدار کو بڑھا کر مچھلی آرکٹک میں منفی ٢ سیلسیس تک زندہ رہ سکتی ہے۔ مینڈکوں نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ وہ اپنے گلوکوز کی سطح کو بلند کر لیں جس کی وجہ سے برف کی قلموں میں تبدیل ہو جانے سے بچ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے جسم باہر سے دیکھنے میں ٹھوس منجمد لگتے ہیں لیکن وہ اندرونی طور پر منجمد نہیں ہوتے لہٰذا ان کے اندرونی اعضاء اپنا کام عمل انجام دیتے رہتے ہیں اگرچہ ان کے کام کرنے کی شرح بہت ہی کم ہوتی ہے۔
بہرحال فقاریوں میں اس قسم کی صلاحیت کو حاصل کرنے میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ جب انسانی خلیات جمتے ہیں تو برف کی قلمیں خلیوں کے اندر بننے لگتی ہیں۔ یہ قلمیں بڑھنے کے ساتھ خلیات میں سرایت کرتی ہوئی ان کو تباہ کر دیتی ہیں (وہ مشہور شخصیات جو اپنے سروں اور جسموں کو مرنے کے بعد مائع نائٹروجن میں منجمد کا کروانے کا سوچ رہے ہیں وہ ذرا ایک دفعہ پھر سے سوچ لیں۔)
ان تمام باتوں سے ہٹ کر ، اس میدان میں کچھ محدود پیش رفت چوہوں اور کتوں کے جیسے فقاریوں میں ہوئی ہے جو قدرتی طور پر غنودگی کے عمل کو سرانجام نہیں دے سکتے۔ ٢٠٠٥ء میں یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سائنس دانوں نے کتوں کو دوبارہ زندگی کی طرف اس وقت لوٹایا جب ان کا تمام خون نکال کران کو ایک خصوصی برف کے ٹھنڈے محلول سے بدل دی گیا تھا ۔ تشخیصی طور پر تین گھنٹے مردہ رہنے کے بعد کتوں کو زندگی کی طرف دل کو دوبارہ دھڑکا کر لایا گیا۔(اگرچہ زیادہ تر کتے اس عمل کے بعد بھی صحت مند رہے مگر کچھ کو دماغی چوٹ آئی۔)
اس برس سائنس دانوں نے ایک چوہے کو ایک ایسے خانے میں رکھا جس میں ہائیڈروجن سلفائڈ موجود تھا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ ان کے جسم کا درجہ حرارت ١٣ سیلسیس تک ٦ گھنٹوں کے لئے گرا دیا تھا۔ ان کے عمل استحالہ کی شرح ١٠ گنا سے گر گئی تھی۔ ٢٠٠٦ء میں بوسٹن میں واقع میسا چوسٹس جنرل ا ہسپتال میں ڈاکٹروں نے خنزیر اور چوہے کو غنودگی کی حالت میں ہائیڈروجن سلفائڈ کا استعمال کرتے ہوئے رکھا۔
مستقبل میں ایسے عمل کو ان لوگوں کی جان بچانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو انتہائی خطرناک قسم کے حادثے سے دو چار ہوئے ہوں یا جن کو دل کا دورہ پڑا ہوا جس میں ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ غنودگی سے ڈاکٹروں کو مریض کو اس وقت تک منجمد کرنے میں مدد ملے گی جب تک ان کا علاج شروع نہ ہو جائے۔ لیکن اس عمل کو حاصل کرنے میں ابھی کچھ عشرے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہم اس مہارت کو انسانی خلا نوردوں پر استعمال کر سکیں جن کو صدیوں تک حالت غنودگی میں رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
نینو خلائی جہاز
ہمارے پاس ستاروں پر کمند ڈالنے کے اور دوسرے کافی خیالات موجود ہیں۔ یہ خیالات جدید طریقہ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی ٹیکنالوجی کو عملی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے ان طریقوں کی حیثیت سائنس فکشن میں دکھائے جانے والے طریقوں سے زیادہ کی نہیں ہے ۔ ایک امید افزا تجویز نینو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے غیر انسان بردار کھوجی کی ہے۔ اس تمام بحث میں ابھی تک میں نے اپنی گفتگو کا دائرہ کار جہازی قسم کے خلائی جہازوں تک رکھا تھا جو کثیر مقدار میں توانائی کو صرف کرتے ہیں اور انسانی عملے کو ستاروں تک لے جا نے کے قابل ہوں گے جیسا کہ اسٹار ٹریک فلم کا خلائی جہاز انٹرپرائز تھا۔
مگر ابتدائی کھوجیوں کو ستاروں کے سفر پر بھیجنے کے سب سے اہل اور موزوں امیدوار چھوٹے غیر انسان بردار جہاز ہیں جو روشنی کی رفتار سے سفر کر سکیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مستقبل میں نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات ممکن ہے کہ ایسے ننھے خلائی جہاز بنائے جا سکیں جو ایٹمی اور سالماتی جسامت کی مشینوں کو قوّت فراہم کریں۔ مثال کے طور پر ہلکے برق پاروں کو روشنی کی رفتار کے قریب آسانی کے ساتھ ہماری تجربہ گاہوں میں پائے جانے والے عام سے وولٹیج کا استعمال کرتے ہوئے اسراع دیا جا سکتا ہے۔ ان راکٹوں کے برعکس جن کو دیوہیکل بوسٹر کی ضرورت ہوتی ہے ننھے خلائی جہاز خلاء میں برقی مقناطیسی لہروں کا استعمال کرکے روشنی کی رفتار کے انتہائی قریبی رفتار سے بھیجے جا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر نینو بوٹ کو آئنائزڈ کرکے برقی میدان میں رکھا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ روشنی کی رفتار کے قریبی رفتار کے ذریعہ خلاء میں روانہ کیے جا سکیں گے۔ اس کے بعد نینو بوٹ ستاروں پر کمند ڈالنے کے لئے تیار ہوں گے کیونکہ خلاء میں رگڑ کی قوّت موجود نہیں ہوتی۔ اس طرح سے وہ تمام مسائل جو بڑے جہازی خلائی جہازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور وہ فوری طور پر حل ہو جائیں گے۔ غیر انسان بردار ذہین نینو بوٹ خلائی جہاز ممکنہ طور پر کسی قریبی ستارے کے نظام تک پہنچ سکیں۔ ان کو بنانے کی لاگت بھی بڑے انسانی عملہ بردار جہازوں کے مقابلے میں انتہائی کم آئے گی۔
ایسے نینو خلائی جہاز قریبی ستاروں تک پہنچے کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک ریٹائر فضائی فوج کے خلائیاتی انجنیئر "جیرالڈ نورڈلے"(Gerald Nordley) تجویز کرتے ہیں کہ شمسی بادبان کو خلاء میں دھکیلا جائے۔ نورڈلے کہتے ہیں کہ " سوئی کی نوک جتنے خلائی جہازوں کے جتھے بنانے کے ساتھ جو خود کی نقل بنا سکیں اور آپس میں خود سے رابطہ بھی کر سکیں ہم ان کو عملی طور پر روشنی کی رفتار کے قریب سے خلاء میں چھوڑ سکتے ہیں۔"
مگر نینو نجمی خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے بھی ہمیں مختلف چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ خلائے بسیط میں ان کے راستہ میں پڑنے والے برقی اور مقناطیسی میدان ان کو مقررہ راستے سے منحرف کر سکتے ہیں۔ ان قوّتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ان نینو خلائی جہازوں کو زمین پر ہی بہت ہی بلند وولٹیج پر اسراع دینا ہوگا تاکہ ان کو آسانی سے مقررہ راستے سے گمراہ نہ کیا جا سکے۔ دوسرے ہمیں شاید لاکھوں نینو شپس کے جھنڈ خلاء میں بھیجنے ہوں گے تاکہ ہمیں اس بات کی ضمانت حاصل ہو کہ ان میں سے اچھی خاصی تعداد اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے گی۔
ایسے نینو خلائی جہاز کیسے دکھائی دیں گے؟ "ڈین گولڈن"(Dan Golden) ناسا کے سابق سربراہ ایک مشروب کے کین کے جتنے خلائی جہاز کا تصوّر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ سوئی جتنے جہازوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ پینٹاگون اسمارٹ دھول کو بنانے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ حساسئے لگے دھول جتنے ذرّات کی پھوار کو جنگ کے میدان میں پھینک کر جنگی سالار کو فوری اطلاعات دی جا سکیں گی۔ یہ بات قابل ادرک ہے کہ مستقبل میں ایسی کوئی خاک قریبی ستاروں تک بھیجی جا سکتی ہے۔
خاک کے ذرّے جتنے نینو بوٹ اسی نقش نگاری والی فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جائیں گے جس کو نیم موصل صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ٣٠ نینو میٹر جتنے یا ١٥٠ ایٹموں پر پھیلے ہوئے حصّے بنائے جا سکتے ہیں ۔ ان نینو بوٹوں کو چاند سے کسی ریلی بندوق سے یا کسی ذرّاتی اسراع گر کی مدد سے روانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ آلات انتہائی کم لاگت سے تیار کیے جا سکیں گے جس کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں کی تعداد میں ان کو خلاء میں روانہ کیا جا سکے گا۔
ایک دفعہ وہ کسی قریبی ستارے کے نظام کے پاس پہنچ جائیں تو پھر یہ کسی دور دراز کے چاند پر اتر سکتے ہیں۔ چاند کی کم قوّت ثقل کی وجہ سے نینو بوٹ وہاں پر آسانی سے اتر بھی سکتے ہیں اور وہاں سے بغیر کسی مشکل کے خلاء میں بھی جا سکتے ہیں۔ ایک مستقل اڈہ بنانے کے لئے چاند پر جگہ بھی مل سکتی ہے جہاں سے وہ اپنا کام آسانی سے جاری رکھ سکتا ہے۔ نینو بوٹ چاند پر پائے جانے والی معدنیات کا استعمال کرتے ہوئے نینو کارخانے بھی بنا سکتے ہیں۔ زمین پر اطلاعات کو بھیجنے کے لئے وہ وہاں پر ایک طاقتور ریڈیو ا سٹیشن بھی قائم کر سکتے ہیں ۔ نینو کارخانے میں اپنے جیسے دسیوں لاکھوں نینو بوٹس کی نقلیں تیار کرکے ماورائے شمس نظام کی چھان بین کرنے کے لئے بھیج سکتے ہیں تاکہ مزید دوسرے ستاروں کی طرف روانہ ہو کر اس عمل کو دہرا سکیں۔ روبوٹک ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ جب یہ اطلاعات کو زمین پر بھیجیں گے تو اس کے بعد ان کو واپس آنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
جو نینو روبوٹ میں نے ابھی بیان کیے ہیں اکثر ان کو وان نیومین کھوجی بھی کہتے ہیں جن کا نام مشہور ریاضی دان "جان وان نیومین"(John Von Neumann) کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے خود نقلچی ٹیورنگ مشینوں کی ریاضی پر کام کیا ہوا ہے۔ نظریاتی طور پر ایسے نینو روبوٹ صرف قریبی ستاروں کی ہی نہیں بلکہ پوری کہکشاں کی خاک چھاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ آخر کار ایسے کھرب ہا روبوٹوں کے بھنڈار حاصل ہو جائیں گے جو شرحاً انتہائی تیزی سے اپنی تعداد کو بڑھاتے ہوئے روشنی کی رفتار سے پھیل رہے ہوں گے۔ اس پھیلتے ہوئے کرۂ میں موجود نینو بوٹ پوری کہکشاں کو چند ہزار سال میں ہی آباد کر سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف مشی گن کے برائن گلکرسٹ جو ایک الیکٹریکل انجنیئر ہیں انہوں نے نینو جہازوں کے خیال کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ ابھی حال میں ہی انھیں ایک ٥ لاکھ ڈالر کا مالی تعاون ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس سے حاصل ہوا ہے تاکہ وہ کسی جرثومے کے حجم جتنے نینو خلائی جہازوں کو بنانے کے خیال کی چھان بین کر سکیں۔ انہوں نے اسی نقشی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کا سوچا ہے جو نیم موصل صنعت میں استعمال ہو رہی ہے تاکہ کئی دسیوں لاکھ پر مشتمل نینو خلائی جہازوں کا بیڑا بنایا جائے۔ ان نینو جہازوں میں ننھے١٠ نینو میٹر کے ذرّات کو خارج کرکے دھکیل کی قوّت حاصل ہو سکے گی۔ یہ نینو ذرّات برقی میدان سے گزرتے ہوئے قوّت برداری کو اس سے حاصل کریں گے بعینہ ایسے جیسا کہ کسی برق پارے انجن میں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نینو ذرّات کا وزن ایک برق پارے کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی برق پارے کے انجن کے مقابلے میں اس انجن میں دھکیل کی قوّت کو زیادہ اچھی طرح سے دبا کر ڈالا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا ان نینو خلائی جہازوں کے انجن کا وہی فائدہ ہوگا جو کسی برق پارے کے انجن کا ہوتا ہے بس صرف فرق اتنا ہوگا کہ ان میں دھکیل کی قوّت زیادہ ہوگی۔ گلکرسٹ نے ان نینو خلائی جہازوں کے کچھ حصّوں کو تو نقش کر لیا ہے ابھی تک انہوں نے ١٠ ہزار انفرادی دھکیلوں کو ایک سلیکان کی چپ پر لگا دیا ہے جو ایک سینٹی میٹر لمبی ہے شروع میں انہوں نے اپنے ان نینو جہازوں کے بیڑے کو نظام شمسی میں بھیجنے کا سوچا ہے لیکن حتمی طور پر انھیں بھی اس بیڑے کا حصّہ بننا ہوگا جس کو ستاروں کی طرف بھیجا جائے گا۔
گلکرسٹ کی تجویز مستقبل کی ان کئی تجویزوں میں سے ایک ہے جو ناسا کے زیر غور ہیں۔ کئی دہائیوں کی غیر فعالیت کے بعد ناسا نے ابھی کچھ انتہائی سنجیدہ توجہ نجمی خلائی سفروں کے ممکنہ انتخاب پر دینی شروع کی ہے۔ ان تجا ویزوں میں کچھ تو قابل یقین ہیں جبکہ کچھ انتہائی طلسماتی ہیں۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اوائل سے ہی ناسا نے ایک سالانہ ایڈوانسڈ اسپیس پروپلشن ریسرچ ورکشاپ شروع کی ہے جس کے دوران ان ٹیکنالوجی کو سنجیدگی کے ساتھ انجنیئر ز اور طبیعیات دانوں کی ٹیموں نے منتخب کیا ہے۔ ایک اور اولوالعزم منصوبہ ایک انقلابی پروپلشن فزکس پروگرام ہے جو کوانٹم کی پراسرار دنیا کی چھان بین، نجمی خلائی سفر کے لئے کرے گا۔ اگرچہ ابھی تک کوئی اتفاق رائے تو قائم نہیں ہو سکا لیکن زیادہ تر توجہ سب سے آگے رہنے والے پروگراموں مثلاً لیزر بادبان اور دوسرے کئی قسم کے گداختی راکٹ وغیرہ پر ہی مرکوز رکھی ہے۔
خلائی جہازوں کو بنانے کے میدان میں دھیمی لیکن مستقل پیشرفت کے مد نظر اس بات کو معقولیت کے ساتھ فرض کیا جا سکتا ہے کہ شاید اس صدی کے خاتمے پر یا پھر نئی صدی کے آغاز میں کسی بھی قسم کا پہلا غیر انسانی بردار کھوجی کسی قریبی ستارے کی طرف روانہ کیا جا سکے گا۔ اس وجہ سے میں اس کو جماعت "I" کی ممکنات میں درجہ بند کر رہا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور خلائی جہاز کا وہ نمونہ ہو جس میں ضد مادّے کا استعمال ہو۔ ہرچند یہ بات سننے میں کسی سائنسی قصّے کا حصّہ لگتی ہے ، لیکن ضد مادّہ زمین پر پہلے ہی بنایا جا چکا ہے اور گمان غالب ہے کہ قابل عمل انسان بردار خلائی جہاز کے لئے ایک دن ہمیں سب سے پر امید نمونہ اسی سے حاصل ہو۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ اوّل)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سائنس کی دنیا میں ہے کسی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سب سے ہیجان انگیز فقرہ "یوریکا" (میں نے پا لیا !) نہیں بلکہ "یہ مضحکہ خیز ہے " ہے۔
- آئزک ایسی موف
اگر کوئی آدمی اس چیز پر یقین نہ رکھے جس پر ہم رکھتے ہیں تو ہم اسے پاگل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں میرا مطلب ہے کہ آج کل ایسا ہوتا ہے کیونکہ ہم اسے جلا نہیں سکتے۔
- مارک ٹوئن
آپ رہبر کو اس کی پیٹھ میں گھسے تیر سے پہچان سکتے ہیں۔
- بیورلی روبک
ڈین براؤن کی شہرہ آفاق کتاب "اینجلز اینڈ ڈیمنس" جو ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب " دی ڈاونچی کوڈ" کی پیش رو تھی۔ اس ناول میں ایک بنیاد پرستوں کا ایک ٹولہ ، دی ایلومنیٹی (روشن ضمیر والے ) ویٹی کن کو ایک ضد مادّہ کے بم سے اڑانے کی ایک سازش تیار کرتے ہیں۔ اس بم کو جنیوا سے باہر نیوکلیائی تجربہ گاہ سرن سے چرایا ہوتا ہے۔ سازشی جانتا تھا کہ جب مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملیں گے تو اس کے نتیجے میں ایک عظیم الشان دھماکا ہوگا جو ہائیڈروجن کے بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔ اگرچہ ایک ضد مادّہ کا بم خالص خیالی ہے مگر ضد مادّہ کا وجود بالکل حقیقی ہے۔
ایک جوہری بم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود صرف ایک فیصد کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔ یورینیم کا انتہائی معمولی حصّہ ہی توانائی میں بدلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ضد مادّہ کا بم بنا لیا گیا تو وہ اس کی کمیت کو سو فیصد توانائی میں بدل دے گا جس کے نتیجے میں وہ نیوکلیائی بم کے مقابلے میں کافی زیادہ کارگر ہوگا۔ (زیادہ درست طور پر ضد مادّہ کے بم میں پچاس فیصد مادّہ قابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوگا ؛ جبکہ باقی نظر نہ آنے والے نیوٹرینوں کی شکل میں بدل جائے گی۔)
ضد مادّہ کافی عرصے سے قیاس آرائیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہرچند ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی بھی ضد مادّہ بم وجود نہیں رکھتا لیکن طبیعیات دانوں نے اپنے طاقتور جوہری ذرّاتی اسراع گروں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی قلیل مقدار میں ضد مادّہ کو اپنے تحقیقی مقصد کے لئے استعمال کے لئے پیدا کر لیا ہے۔
ضد مادّہ کی پیداوار اور اس کی کیمیا
بیسویں صدی کے نقطہ آغاز سے ہی ، طبیعیات دانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ایٹم بار دار ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کے مرکزے (جس میں مثبت بار ہوتا ہے ) کے گرد الیکٹران (منفی بار کے ساتھ ) چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ مرکزے میں پروٹون (جن کے اوپر پر مثبت بار ہوتا ہے ) اور نیوٹرون (جو برقی طور پر معتدل ہوتے ہیں )موجود ہوتے ہیں۔١٩٥٠ء میں طبیعیات دانوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب انھیں پتا چلا کہ ہر ذرّے کا ایک جڑواں مخالف بار والا ضد ذرّہ بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا دریافت ہونے والا ضد ذرّہ ایک مثبت بار والا ضد الیکٹران (جس کو پوزیٹرون کہتے ہیں) تھا۔ پوزیٹرون ہر لحاظ سے الیکٹران کے مثل ہی ہے بجز اس کے کہ اس پر مخالف بار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی دریافت ایک کائناتی شعاعوں کی تصاویر ایک بادلوں والے خانے میں لیتے ہوئے ہوئی تھی۔(پوزیٹرون کا سراغ ایک بادلوں کے خانے میں لگانا بہت ہی آسان تھا۔ جب انھیں ایک طاقتور مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو وہ عام الیکٹران کی مخالف سمت میں مڑ جاتے ہیں۔ حقیقت میں ان ضد مادّہ کی تصویر میں نے بھی اپنے کالج کے زمانے میں لی تھی۔)
١٩٥٥ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں موجود ذرّاتی اسراع گر - بیواٹرن میں پہلا ضد پروٹون بنایا۔ امیدوں کے عین مطابق وہ بالکل پروٹون کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ اس پر منفی بار تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نظری طور پر ہم ضد مادّہ کو بھی بنا سکتے ہیں۔ (جس میں پوزیٹرون ایک ضد پروٹون کے گرد چکر لگا رہا ہوگا )۔ حقیقت میں ضد عناصر ، ضد کیمیا ، ضد لوگ ،ضد زمین اور یہاں تک کہ ضد کائنات کا نظری طور پر موجود ہونا ممکن ہے۔
فی الحال تو سرن میں موجود ایک دیو ہیکل ذرّاتی اسراع گر اور شکاگو سے باہر فرمی لیب نے انتہائی معمولی سی ضد ہائیڈروجن کی مقداریں بنائی ہیں۔(اس کو پروٹون کی بلند توانائی والی کرنوں کو ہدف پر ذرّاتی اسراع گر کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔ جس کے سبب ایک ذیلی جوہری ذرّات کی پھوار سی بن گئی تھی۔ طاقتور مقناطیس کے ذریعہ ضد پروٹون کو علیحدہ کر لیا تھا جو بہت زیادہ دھیمے ہو کر انتہائی پست سمتی رفتار والے ہو گئے تھے اور پھر وہ ان ضد الیکٹران کے سامنے ظاہر ہو گئے تھے جو قدرتی طور پر سوڈیم - ٢٢ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب ضد الیکٹران ضد پروٹون کے گرد چکر لگاتے ہیں تو وہ ضد ہائیڈروجن بناتے ہیں کیونکہ ہائیڈروجن ایک پروٹون اور ایک الیکٹران سے مل کر بنتا ہے۔) خالص خالی جگہ میں یہ ضد جوہر ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتے ہیں۔ لیکن آلودگی اور دیواروں کے درمیان ٹکرانے کی وجہ سے ضد جوہر عام مادے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں توانائی میں بدلتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔
١٩٩٥ء میں سرن نے اس اعلان کے ساتھ ہی تاریخ رقم کردی تھی کہ اس نے نو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے تھے۔ فرمی لیب نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلد ہی ایک سو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنا لئے۔ نظریاتی طور پر اس پر آنے والی زبردست لاگت کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ہمیں بھاری عناصر کے ضد جوہر بنانے سے روکے۔ صرف چند اونس ضد مادّہ پیدا کرنے میں ہی کچھ اقوام تو دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ضد مادّہ پیدا کرنے کی موجودہ شرح ایک گرام کے ایک ارب سے دس ارب حصّے سالانہ ہیں۔ امکان ہے کہ ضد مادّہ کی پیداوار کی یہ شرح ٢٠٢٠ء تک تین گنا بڑھ جائے۔ ضد مادّہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد ان کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ ٢٠٠٤ء میں سرن میں ایک گرام کے کچھ دسیوں کھرب حصّے پیدا کرنے کی لاگت ہی دو کروڑ ڈالر تھی۔ اس شرح سے ایک گرام ضد مادّہ کو پیدا کرنے کے لئے لاگت ایک ہزار کھرب (ایک پدم) آئی گی اور ضد مادّہ کے کارخانے کو مسلسل ایک کھرب سال تک چلنا ہوگا! یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں ضد مادّہ کائنات کی سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔
" اگر ہم سرن میں پیدا ہونے والے تمام ضد مادّہ کو جمع کرکے اس کو مادّے کے ساتھ ملا کر فنا کریں تو ہمارے پاس حاصل ہونے والی توانائی اتنی ہوگی کہ جس سے ہم ایک برقی بلب صرف چند سیکنڈ کے لئے جلا سکیں " یہ سرن سے جاری ایک بیان کا حصّہ ہے۔
ضد مادّہ کو سنبھال کر رکھنا بھی اپنے آپ میں کافی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ مادّے اور ضد مادّے کا آپس میں ملنا دھماکے کا باعث ہوگا۔ ضد مادّہ کو عام مادّے سے بنی کسی چیز میں رکھنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب ضد مادّہ اس قدر بارودی نوعیت کا ہوتا ہے تو پھر اس سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے ضد مادّہ کے برق پاروں کو برقی پارہ گیس میں تبدیل کیا جائے اور پھر ان کو محفوظ طریقے سے ایک مقناطیسی بوتل میں رکھا جائے۔ مقناطیسی میدان ان کو خانے کی دیواروں کو چھونے سے روکے رکھے گا۔
ایک ضد مادّہ کا انجن بنانے کے لئے ایک ضد مادّہ کے متواتر دھارے کی ضرورت ہوگی جو اس کو تعاملی خانے میں ڈالے گا جہاں پر اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ عام مادے سے ملایا جائے گا جس کے نتیجے میں کیمیائی راکٹ جیسا ایک انضباطی دھماکہ ہوگا۔ اس دھماکے میں پیدا ہوئے برق پاروں کو ضد مادّے کے راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالا جائے گا جس کے نتیجے میں دھکیل پیدا ہوگی۔ مادّے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی ضد مادّہ کے انجن کی کارکردگی نظری طور پر مستقبل کے خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے سب سے زیادہ لبھانے والی ہے۔ اسٹار ٹریک سلسلے میں ضد مادّہ انٹرپرائز کے ایندھن کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ اس کے انجن کو طاقت انضباطی مادّہ اور ضد مادّہ کو ٹکرانے سے ملتی ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ دوم)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ضد مادّے سے چلنے والے راکٹ
پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیرالڈا سمتھ ضد مادّے سے چلنے والی راکٹوں کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کو پورا بھروسہ ہے کہ صرف چار ملی گرام پوزیٹرون پر مشتمل ضد مادّہ کسی ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کو مریخ تک صرف چند ہفتوں میں ہی پہنچا دے گا۔ ان کے اندازے کے مطابق ضد مادّہ میں موجود توانائی عام مادّے سے چلنے والے راکٹ کے ایندھن کے مقابلے میں ایک ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔
اس جانب سب سے پہلا قدم اس کا ایندھن بنانے کی جانب ہوگا جس میں ضد پروٹون کو کسی ذرّاتی اسراع گر میں پیدا کیا جائے گا اور پھر ان کو ایک "پیننگ ٹریپ " میں رکھا جائے گا جس کواسمتھ ابھی بنا رہے ہیں۔ جب یہ بن کر مکمل ہو جائے گا تو اس کا وزن لگ بھگ دو سو بیس پونڈ (جس میں زیادہ تر وزن مائع نائٹروجن اور مائع ہیلیئم) ہوگا جس میں ایک مقناطیسی میدان میں اندازاً ایک ارب ضد پروٹون ذخیرہ ہوں گے۔ (انتہائی کم درجہ حرارت پر، ضد پروٹون کی موجی لہریں اس برتن کی دیواروں کے مقابلے میں جس میں وہ رکھا گیا ہوگا کئی گنا لمبی ہوں گی۔ لہٰذا ضد پروٹون اپنے آپ کو فنا کیے بغیر اس کی دیواروں میں سے بھی منعکس ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔) انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کو صرف پانچ دن ہی اپنے اندر قید رکھ سکے گا (اس کے بعد وہ عام مادّے کے ساتھ مل کر پھٹ جائیں گے۔ ) اس کی پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کا ایک گرام کا ایک اربواں حصّہ ذخیرہ کرنے کے قابل ہو گی۔ ان کا مقصد ہے کہ ایک ایسا پیننگ ٹریپ بنایا جائے جو ایک مائیکرگرام تک ضد پروٹون کو ذخیرہ کر سکے۔
ہرچند ضد مادّہ زمین پر سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے، لیکن اس کی قیمت ڈرامائی طور پر ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہی ہے (ایک گرام کی قیمت آج کے حساب سے چھ کروڑ پچیس لاکھ کھرب ڈالر ہے )۔ ایک نیا ذرّاتی اسراع گر شکاگو سے باہر فرمی لیب میں بن رہا ہے جو ضد مادّہ کو ١۔٥ سے ١٥ نینو گرام تک سالانہ بنا سکے گا نتیجتاً اس کی قیمتیں اور کم ہوں گی۔ بہرحال ناسا کے "ہیرالڈ گیررش" (Harold Gerrish) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مزید بہتری کے ساتھ اس کی لاگت حقیقت پسندانہ طور پر فی مائیکروگرام پانچ ہزار ڈالر ہو جائے گی۔ نیو میکسیکو میں واقع لاس الموس کی سینرجسٹک ٹیکنالوجیز کے ڈاکٹر اسٹیون ہوو (Steven Howe)کہتے ہیں "ہمارا مقصد ضد مادّہ کو سائنس دنیا سے نکا ل کر حقیقی دنیا میں لانا ہے تاکہ اس سے ذرائع نقل و حمل اور طب میں تجارتی فوائد اٹھا سکیں۔"
ابھی تک ذرّاتی اسراع گر جو ضد پروٹون کو پیدا کر رہے ہیں ان کو خاص اس مقصد کے لئے نہیں بنایا لہٰذا ان کی کارکردگی کافی خراب ہے۔ ایسے اسراع گروں کو ضد مادّہ پیدا کرنے کے کارخانوں کے بجائے بنیادی طور پر تحقیقاتی مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ا سمتھ ایک نئے ذرّاتی اسراع گر کو بنانے کے خواب کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو خاص اس مقصد کے بنایا گیا ہو کہ وہ کافی مقدار میں ضد مادّہ کو پیدا کرے تاکہ اس پر آنے والی لاگت کم ہو۔
اگر ضد مادّہ کی لاگت مزید فنی بہتری اور بڑے پیمانے پر پیداوار کی وجہ سے کم ہو سکی توا سمتھ کو یقین ہے کہ مستقبل میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ ہی بین السیارہ سفر بلکہ ہو سکتا ہے کہ بین النجم سفر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھیں گے۔ بہرحال تب تک تو ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کاغذی منصوبوں کی شکل میں میزوں پر ہی پڑے رہیں گے۔
قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ
اگر ضد مادّہ کو بنانا زمین پر اتنا مشکل ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اس کو خلائے بسیط میں تلاش کیا جا سکے ؟ کائنات میں ضد مادّہ کو تلاش کرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت ہی کم تعداد میں موجود ہے اس امر نے طبیعیات دانوں کو کافی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری کائنات زیادہ تر ضد مادّے کے بجائے مادّہ سے بنی ہوئی ہے جس کی توضیح کرنی نہایت مشکل ہے۔ ہم سادے طریقے سے اس بات کو یوں فرض کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء میں تشاکلی طور پر مادّے اور ضد مادّے کی برابر مقدار موجود تھی۔ لہٰذا ضد مادّے کا موجود نہ ہونا ایک کافی پریشان کن بات ہے۔
سب سے پہلے اس کا حل آندرے سخاروف نے پیش کیا جنہوں نے سوویت یونین کے لئے ہائیڈروجن بم کو ١٩٥٠ء میں بنایا تھا۔ سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی ابتداء میں مادّے اور ضد مادّے میں ہلکی سا تشاکل تھا۔ یہ ننھا سا تشاکلی فرق "سی پی" نقص کہلایا۔ فی الحال یہ مظاہر ابھی زبردست تحقیق کا متقاضی ہے۔ حقیقت میں سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات میں موجود تمام جوہر اس تقریباً مکمل بے عیب مادّے اور ضد مادّے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والے ہیں ، بگ بینگ ان دونوں کو فنا کرنے کا سبب بنا تھا جس کے نتیجے میں مادّے کی ننھی سی مقدار باقی بچ گئی تھی۔ یہ وہی مادّہ تھا جس نے بعد میں قابل مشاہدہ کائنات کو بنایا۔ ہمارے جسم میں موجود تمام جوہر اس جناتی ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والی کھرچن ہی ہیں۔
اس نظریے کے مطابق اس امر کا امکان بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ تھوڑی سی مقدار ضد مادّہ کی قدرتی طور پر بچ گئی ہوگی ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے منبع کی کھوج کے ساتھ ہی ضد مادّہ کی ضد مادّہ راکٹ میں ایندھن کی لاگت کافی گھٹ جائے گی۔ نظری طور پر قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ کے ذخیرے کو تلاش کرنے میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ جب ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں ملتے ہیں تو وہ گیما شعاعوں کی صورت میں فنا ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ١۔٠٢ ملین الیکٹران وولٹ یا اس سے زیادہ کی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قوّت کی گیما شعاعوں کی کھوج کرنے سے کائنات میں ہمیں قدرتی طور پر پایا جانے والے ضد مادّہ کا سراغ مل جائے گا۔
حقیقت میں ضد مادّہ کے مخزن ملکی وے میں پائے گئے ہیں جو اس کے مرکز سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ بات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ڈاکٹر "ولیم پرسیل" (William Purcell) نے کہی۔ بظاہر ضد مادّے کی کافی مقدار موجود ہے جو ان گیما شعاعوں کو پیدا کر رہی ہے جن میں ١۔٠٢ ملین الیکٹران وولٹ کی توانائی موجود ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عام ہائیڈروجن گیس سے ٹکراتی ہے۔ اگر یہ ضد مادّہ کی کہر قدرتی طور پر موجود ہے تو یہ بات بھی ممکن ہے کہ ضد مادّے کے دوسرے ذخیرہ بھی کائنات میں موجو د ہوں جو بگ بینگ کے وقت تباہ ہونے سے بچ گئے ہوں۔
قدرتی طور پر پائے جانے والی ضد مادّہ کی منظم طریقے سے تحقیق کے لئے ، دی پامیلا - پی اے ایم ای ایل اے (پے لوڈ فار اینٹی میٹر - میٹر ایکسپلوریشن اینڈ لائٹ نیوکلی اسٹرو فزکس) مصنوعی سیارچہ ٢٠٠٦ء میں مدار میں چھوڑا گیا۔ یہ روس ، اٹلی ، جرمن اور سویڈن کی اشتراکی کوششیں تھیں جس میں اس کو ضد مادّہ کے ذخیروں کو کائنات میں تلاش کر نے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس سے پیش تر ضد مادّے کو تلاش کرنے والی مہمات میں بلند ارتفاع پر اڑنے والے غبارے اور خلائی شٹل استعمال کیے گئے تھے لہٰذا اس میں حاصل ہونے والا مواد ایک ہفتے سے زیادہ کا نہیں تھا۔ان تمام کے برخلاف پامیلا مدار میں کم از کم تین سال تک رہے گا۔ "یہ اب تک کا بنایا جانے والا سب سے بہترین سراغ لگانے والا ہے اور ہم اس کو کافی لمبے عرصے تک استعمال کر سکیں گے۔ "یہ بات یونیورسٹی آف روم کے ٹیم ممبر "پئیرجورجو پیکوزہ" (Piergiorgio Picozza) نے کہی۔
پامیلا کو کائناتی شعاعوں کا سراغ عام ذرائع جیسا کہ سپرنووا سے لگانے کے لئے بنایا ہے لیکن وہ دوسرے غیر معمولی ذریعے مثلاً ضد مادّہ سے بنے ستارے کا استعمال بھی کر سکتی ہے۔ خاص طور پر پامیلا کسی ضد مادّے کے ستارے کے اندرون میں پیدا ہوئے ضد ہیلیئم گیس کی کھوج بھی کرے گی۔ اگرچہ موجودہ دور کے زیادہ تر طبیعیات دان یہ سمجھتے ہیں کہ بگ بینگ میں لگ بھگ مکمل طور پر مادّے اور ضد مادّے میں ٹکراؤ ہو گیا تھا جیسا کہ سخاروف بھی سمجھتا ہے۔ پامیلا کو ایک دوسرے زاویے سے سوچ کر بنایا ہے کہ کائنات کے پورے حصّے میں ضد مادّہ ، مادّہ کے ساتھ مل کر فنا نہیں ہو گیا تھا لہٰذا وہ آج بھی ضد ستارہ کی شکل میں موجود ہونا چاہئے۔
ضد مادّہ کی خلاء میں تھوڑی سی مقدار کا مطلب ہوگا کہ اس کو بین النجم خلائی جہاز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس نے ضد مادّہ کو خلاء سے حاصل کرنے والے خیال کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تجرباتی پروگرام کی مالی معاونت کی ہے تا کہ وہ اس خیال پر مزید تحقیق کر سکے۔ "بنیادی طور پر آپ کو ایک ایسا جال بنانا ہوگا جیسے کہ آپ مچھلی پکڑ رہے ہوں " یہ بات ہبار ٹیکنالوجیز کے جیرالڈ جیکسن نے کہی جن کی تنظیم ان تنظیموں میں سے ایک ہے جس نے اس خیال پر کام شروع کر دیا ہے۔
ضد مادّہ کو چننے والا آلہ تین ہم مرکز کروں پر مشتمل ہوگا جس میں سے ہر ایک میں تاروں کی جالی جیسا جال بنا ہوا ہوگا۔ باہری کرۂ سولہ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہوگا اور اس پر مثبت بار ہوگا، لہٰذا وہ کسی بھی مثبت بار والے پروٹون کو دفع کر سکے گا جبکہ منفی بار والے ضد پروٹون کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ ضد پروٹون کو باہری کرۂ میں جمع کر لیا جائے گا اور پھر ان کو اس کرۂ میں سے گزرتے وقت دھیما کر دیا جائے گا اور آخر میں وہ سب سے اندرونی کرۂ میں پہنچ کر رک جائے گا۔ یہ اندرونی کرۂ صرف سو میٹر پر پھیلا ہوا ہوگا۔ ضد پروٹونوں کو ایک مقناطیسی بوتل میں قید کر لیا جائے گا جہاں ان کو ضد الیکٹران کے ساتھ ملا کر ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے جائیں گے۔
جیکسن نے اندازہ لگایا ہے کہ مادّہ اور ضد مادّے کے ضابطے میں تعامل کے نتیجے میں ایک خلائی جہاز صرف تیس ملی گرام کے ضد مادّہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک شمسی بادبان کو پلوٹو تک پہنچا سکتا ہے۔ ضد مادّے کا سترہ گرام خلائی جہاز کو قنطورس الف تک پہنچانے کے لئے کافی ہوگا۔ جیکسن کا دعویٰ ہے کہ زہرہ اور مریخ سیارے کے مدار کے درمیان اسی گرام ضد مادّہ موجود ہے جس کو خلائی کھوجی کی مدد سے چنا جا سکتا ہے۔ پیچیدگیوں اور ضد مادّے کے چننے والے دیوہیکل سیارچے کی لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شاید اس صدی کے آخر تک یا پھر اس کے بھی بعد ہی ہم اس ضد مادّہ سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
کچھ سائنس دان ضد مادّہ کو باہر خلاء میں تیرتے ہوئے شہابیوں سے حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ( فلیش گورڈن کی تمثیلی کہانی میں ایک دفعہ ایسے آوارہ سیارچے کا ذکر تھا جو ضد مادّہ سے بنا باہر ی خلاء میں تیر رہا تھا اگر وہ کسی سیارے سے ٹکرا جاتا تو ایک زبردست دھماکے کا سبب بن سکتا تھا۔)
اگر قدرتی طور پر پایا جانے والا ضد مادّہ خلاء میں نہیں ملا تو ہمیں عشروں یا ہو سکتا ہے کہ صدیوں تک زمین پر بڑے پیمانے پر ضد مادّہ کو پیدا کرنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن فرض کریں کہ ضد مادّہ کو پیدا کرنے کی تمام فنی مشکلات پر قابو پا لیا جا سکتا ہے تو اس بات کا امکان کھلا ہوا ہے کہ ایک دن ضد مادّہ ہمیں ستاروں کے پار لے جائے گا۔
مفصلہ بالا تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس ٹیکنالوجی کی مستقبل میں ارتقاء کا اندازہ لگاتے ہوئے میں ایک ضد مادّہ راکٹ خلائی جہاز کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ سوم)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ضد مادّہ کے بانی
ضد مادّہ کیا ہے؟ ایسا سوچنا بھی عجیب لگتا ہے کہ قدرت نے ذیلی ایٹمی ذرّوں کو کائنات میں یوں ہی دگنی تعداد میں پیدا کر دیا تھا۔ قدرت عام طور پر انتہائی کفایت شعار ہوتی ہے لیکن ضد مادّہ کی جانکاری کے بعد قدرت اب ہمیں کافی فضول خرچ اور بے انتہا شاہ خرچ لگ رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اگر ضد مادّہ موجود ہے تو کیا ضد کائنات بھی موجود ہوگی ؟
ان تمام سوالات کا جواب دینے کے لئے ہمیں ضد مادّے کی اصلیت کے بارے میں جاننا ہوگا۔ ضد مادّہ کی دریافت ماضی میں ١٩٢٨ء میں "پال ڈیراک " (Paul Dirac) کے زبردست کام کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے ایک نہایت ہی روشن فکر رکھنے والے طبیعیات دان تھے۔ ان کے پاس کیمبرج یونیورسٹی کی لوکیشین کرسی تھی ، یہ وہی کرسی تھی جس پر نیوٹن بیٹھا کرتا تھا اور اب یہ کرسی ا سٹیفن ہاکنگ کے پاس ہے۔ ڈیراک ١٩٠٢ء میں پیدا ہوئے۔ یہ لمبے قد کے اور چست آدمی تھے۔ ١٩٢٥ء میں جب کوانٹم کا انقلاب رونما ہوا تو وہ اس وقت اپنے عہد شباب سے گزر رہے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ الیکٹریکل انجنیئر نگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن کوانٹم نظریے سے پیدا ہونے والی دلچسپی کی لہر کی وجہ سے اچانک انہوں نے قلابازی لگا کر اس میدان میں چھلانگ لگا دی۔
کوانٹم کا نظریئے اس خیال پر مبنی ہے کہ الیکٹران جیسے ذرّات کو نقطہ جیسے ذرّات کے بجائے کسی قسم کو موجوں سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے جس کو شروڈنگر کی "موجوں کی مساوات "بھی کہتے ہیں۔(موجیں کسی بھی نقطہ پر کسی بھی ذرّے کے موجود ہونے کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں )۔
مگر ڈیراک نے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ شروڈنگر کی مساوات میں نقص ہے۔ یہ صرف ان الیکٹران کو بیان کرتی ہے جو صرف کم سمتی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ بلند سمتی رفتار پر یہ مساوات ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بلند رفتار سے حرکت کرتے ہوئی اجسام کے قانون کی فرمانبرداری نہیں کرتی یعنی کہ اضافیت کے قانون جو البرٹ آئن سٹائن نے دریافت کیے تھے۔
نوجوان ڈیراک کے لئے یہ ایک چیلنج تھا کہ شروڈنگر کی مساوات کو دوبارہ سے اس طرح سے ترتیب دے کہ وہ نظریہ اضافیت سے بھی رو گردانی نہ کرے۔ ١٩٢٨ء میں ڈیراک نے شروڈنگر کی مساوات میں ایک بنیادی تبدیلی پیش کی جو آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے بھی تابع تھی۔ اس نے دنیائے طبیعیات کو بھونچکا کر دیا تھا۔ ڈیراک نے اپنی مشہور اضافی مساوات برائے الیکٹران خالصتاً بلند ریاضیاتی اجسام جن کو "اسپیونر" کہتے ہیں ان کو آگے پیچھے کر کے حاصل کر لی تھی۔ اچانک ایک ریاضیاتی تجسس کائنات کا مرکز نگاہ بن گیا تھا۔(اس سے پہلے کے طبیعیات دانوں کے برعکس جو اس بات پر زور دیتے تھے کہ طبیعیات کی دنیا کی عظیم دریافتیں صرف ناقابل تردید تجربات سے ہی حاصل ہو سکتی تھیں ، ڈیراک نے ان کے مخالف بالکل ہی الگ راہ چنی تھی ۔ اس کے خیال میں خالص ریاضی بشرطیکہ حقیقت میں وہ خوبصورت بھی ہو تو کسی بھی عظیم دریافت تک رہنمائی کر سکتی ہے۔ اس نے لکھا " مساوات میں خوبصورتی ہو نا زیادہ اہم ہے بجز اس کے کہ وہ تجربات سے مطابقت رکھے۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کسی کی مساوات میں خوبصورتی لانے پر کام کر رہا ہے اور اگر وہ حقیقت میں صاحب بصیرت بھی ہو تو وہ یقینی طور پر صحیح راہ پر گامزن ہے۔")
اپنی الیکٹران کے لئے مساوات کو درست کرتے ہوئے ڈیراک کو اندازہ ہوا کہ آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات E = mc2 بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں تھی۔ صحیح مساوات کو E = ± mc2 ہونا چاہئے۔(یہ منفی کا نشان اس لئے آیا کیونکہ ہمیں کچھ مخصوص تعداد کا "جزر المربع"(Square Root) بھی لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا جزر المربع لیتے ہوئے کسی بھی مقدار کی منفی اور مثبت کا نشان ہمیشہ ابہام پیدا کرے گا۔)
مگر طبیعیات کو منفی توانائی سے ہمیشہ سے چڑ ہے۔ طبیعیات کا ایک مسلمہ اصول ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ اجسام ہمیشہ سے پست توانائی کی طرف مائل ہوتے ہیں (یہ ہی وجہ ہے کہ پانی ہمیشہ نیچے کی سطح کی طرف میلان رکھتا ہے )۔ کیونکہ مادّہ ہمیشہ سے اپنی پست توانائی کی حالت کی طرف میلان رکھتا ہے لہٰذا منفی توانائی کا امکان ممکنہ طور پر تباہ کن ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام الیکٹران آخر کار لامتناہی منفی توانائی کی طرف رو بہ سفر ہوں گے لہٰذا ڈیراک کا نظریہ پائیدار نہیں ہوگا۔ لہٰذا ڈیراک نے ایک خیال ایجاد کیا جس کا نام "ڈیراک کا سمندر "رکھا۔ اس کے وجدان میں تمام منفی توانائیوں کی حالت پہلے سے ہی لبریز ہے لہٰذا ایک الیکٹران کسی بھی منفی توانائی کی طرف نہیں رو بہ سفر ہوگا۔ اسی وجہ سے کائنات پائیدار ہے۔اس کے علاوہ گیما شعاعیں اکثر ان الیکٹرانوں سے ٹکرا سکتی ہیں جو منفی توانائی کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ ان کو مثبت توانائی کی حالت میں لے آتی ہیں۔ اس وقت ہم گیما شعاع کو ایک الیکٹران میں بدلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈیراک کے سمندر میں ایک سوراخ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ سوراخ ضد الیکٹران کی طرح خلاء میں ایک بلبلے کی طرح برتاؤ کرے گا۔ لہٰذا اس تصویر میں ضد مادّہ ڈیراک کے سمندر میں موجود بلبلے ہیں۔
ڈیراک کی اس شاندار پیشن گوئی کے چند سال کے بعد ہی "کارل اینڈرسن" نے اصل میں ضد الیکٹران کو دریافت کر لیا (جس کے نتیجے میں ڈیراک کو نوبل پرائز ١٩٣٣ءمیں ملا)۔
دوسرے الفاظ میں ضد مادّہ وجود رکھتا ہے کیونکہ ڈیراک کی مساوات میں دو قسم کے حل موجود ہیں ایک مادّے کے لئے ہے جبکہ دوسرا ضد مادّہ کے لئے ہے (اور اس طرح سے یہ خصوصی نظریہ اضافیت کا نتیجہ بنتا ہے۔)
نہ صرف ڈیراک کی مساوات نے ضد مادّہ کے وجود کی پیش گوئی کی بلکہ اس نے الیکٹران کے "گھماؤ " کے امکان کو بھی ظاہر کیا۔ ذیلی جوہری ذرّات لٹو کی طرح سے گھوم سکتے ہیں۔ ٹرانسسٹر اور نیم موصل میں الیکٹران کے بہاؤ کو سمجھنے کے لئے ان کا گھماؤ بہت ہی اہم ہوتا ہے جنہوں نے جدید برقیات کی بنیاد رکھی ہے۔
ا سٹیفن ہاکنگ کو اس بات کا افسوس رہا ہے کہ ڈیراک نے اپنی اس ایجاد کردہ مساوات کی پیٹنٹ حاصل نہیں کی۔ اس نے لکھا "ڈیراک اپنی قسمت بنا لیتا اگر وہ اپنی" ڈیراک مساوات" کو پیٹنٹ کروا لیتا۔ اس کو ہر بکنے والے ٹیلی ویژن ، واک مین ، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر سے آمدنی حاصل ہوتی۔
آج ڈیراک کی یہ مساوات ویسٹ منسٹر ، ایبی میں پتھر پر نقش کرکے آئزک نیوٹن کے مقبرے سے کچھ زیادہ دور نہیں لگی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں شاید یہ واحد مساوات ہے جس کو یہ امتیازی اعزاز حاصل ہوا ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ڈیراک اور نیوٹن
سائنسی مورخ جواس انقلابی مساوات کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیسے ڈیراک نے یہ مساوات اور ضد مادّہ کا تصوّر حاصل کیا وہ اکثر اس کو نیوٹن کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر نیوٹن اور ڈیراک میں کافی چیزیں قدر مشترک تھیں۔ ان دونوں نے اپنا اختراعی کام کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے عہد شباب میں کیا، دونوں ہی ریاضی کے ماہر تھے، اور دونوں میں ایک اور سخت قسم کی خصوصیت تھی :بیماری کی حد تک پہنچنے والی مکمل طور پر آدم بیزاری۔ دونوں ہی اس بات میں بدنام تھے کہ وہ ہلکی پھلکی گپ شپ نہیں کر سکتے تھے اور معاشرتی طور پر بالکل ہی روکھے تھے۔ تکلیف دہ حد تک شرمیلا ڈیراک اس وقت تک کچھ نہیں کہتا تھا جب تک اس سے براہ راست کچھ پوچھا نہ جائے اور اس کا جواب ہوتا تھا "ہاں "، یا "نہ"، یا پھر "میں نہیں جانتا "۔
ڈیراک انتہائی شرمیلا اور شہرت سے نفرت کرتا تھا۔ جب اس کو طبیعیات میں نوبل انعام کے لئے نامزد کیا تو اس نے شہرت اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے نہایت سنجیدگی سے اس کو واپس کرنا کا سوچا۔ لیکن جب اس کو بتایا کہ نوبل انعام کو واپس کرنے سے وہ اور زیادہ مشہور ہو جائے گا تو اس نے بادل نخواستہ اس کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
نیوٹن کی منفرد شخصیت کے اوپر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے جس میں اس کی پارے کے زہر سے لے کر دماغی بیماریوں تک سب کچھ ہی تو شامل ہے۔ لیکن حالیہ دور میں ایک نیا نظریہ کیمبرج کے ماہر نفسیات "سائمن بیرن کوہین" (Simon Baron-Cohen) نے پیش کی ہے جو نیوٹن اور ڈیراک کی عجیب و غریب شخصیت کو بیان کر سکتی ہے۔ بیرن کوہین کا دعویٰ ہے کہ دونوں ایک بیماری جس کا نام "اسپرجر کی علامات " ہے اور جو خود خیالی کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ وہی بیماری ہے جو فلم "رین مین " میں ایک بے وقوف علامہ کو ہوتی ہے۔ جو افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ بد نامی کی حد تک کم سخن ، معاشرتی طور پر بدسلیقہ اور کبھی کبھار خداداد ریاضی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیکن خود خیالی کے شکار کے افراد کے برعکس یہ معاشرے کے کارآمد افراد بن سکتے ہیں اور بہت ہی شاندار ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو شاید ڈیراک اور نیوٹن کی معجزاتی ریاضیاتی کی طاقت کی قیمت ان کی انسانیت سے معاشرتی طور پر دوری ہے۔
ضد قوّت ثقل اور ضد کائنات
ڈیراک کے نظریہ کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کو جواب دے سکتے ہیں : کہ ضد مادّے کا قوّت ثقل کی شکل میں کون رفیق کار ہوگا ؟ کیا ضد کائنات وجود رکھتی ہے ؟ جیسا کہ ہم نے بیان کیا تھا کہ ضد ذرّات عام مادّے کے مقابلے میں مخالف بار رکھتے ہیں۔ لیکن ان ذرّات پر جن پر کوئی بار نہیں ہوتا (جیسا کہ فوٹون ، روشنی کا ایک ذرّہ یا گریوٹون جو قوّت ثقل کا ذرّہ ہوتا ہے )ان کے بھی اپنے ضد ذرّات ہو سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جاذبی قوّت کا اپنا ضد مادّہ ہوتا ہے ، دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل اور ضد قوّت ثقل ایک ہی چیز ہیں۔ لہٰذا ضد مادّہ کو دفع ہونے کے بجائے قوّت ثقل کے زیر اثر اپنے آپ میں ڈھیر ہونا چاہئے۔(یہ بات عالمگیر طور پر طبیعیات دان مانتے ہیں اگرچہ اس کو تجربہ گاہ میں ابھی تک ثابت نہیں کیا گیا۔)
ڈیراک کا نظریئے اس گہرے سوال کا بھی جواب دیتا ہے : کہ قدرت نے ضد مادّہ کو بننے کیوں دیا؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ضد کائنات بھی موجود ہوگی ؟ کچھ سائنس فکشن کی کہانیوں میں ، ہیرو زمین کے جیسا کوئی سیارہ خلاء میں دریافت کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ سیارہ ہر طرح سے زمین کا ہمشکل ہوتا ہے بجز اس کے کہ وہ ضد مادّہ سے بنا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اس سیارے کا جڑواں ضد مادّہ سے بنا ہوا ہو سکتا ہے ، جہاں ضد بچے ، ضد شہروں میں رہ رہے ہوں۔ کیونکہ ضد کیمیا قوانین بالکل قوانینِ کیمیا جیسے ہی ہوں گے بجز اس کے کہ ان پر بار مخالف ہونگے ، لہٰذا اس جہاں میں رہنے والے لوگوں کو کبھی نہیں پتا لگے گا کہ وہ ضد مادّہ سے بنے ہیں۔(طبیعیات دان اس کو بار- الٹ یا سی الٹ کائنات کہتے ہیں ، کیونکہ وہاں اس ضد کائنات میں تمام بار الٹ ہوں گے ، لیکن اس کے علاوہ ہر چیز یہاں کے جیسی ہی ہوگی۔)
دوسری سائنسی کہانیوں میں سائنس دانوں کو یہ بات معلوم چلتی ہے کہ باہری خلاء میں زمین کا جڑواں ایسا ہے جیسے کہ آپ کائنات کو آئینے میں دیکھ رہے ہوں جہاں ہر چیز الٹی ہے۔ ہر ہستی کا قلب سیدھی طرف ہے اور زیادہ تر لوگ کھبے ہیں۔ وہ وہاں اپنی زندگی اس بات سے بے خبر ہو کر گزار رہے ہیں کہ وہ الٹی آئینے میں نظر آنے والی جیسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز الٹی ہے۔(طبیعیات دان ایسی دنیا کو آئینے جیسی الٹ پھیر کائنات یا پھر پی الٹ پھیر کہتے ہیں۔)
کیا ایسی ضد کائنات یا الٹ پھیر کائنات حقیقت میں موجود ہو سکتی ہے ؟ طبیعیات دانوں نے جڑواں کائنات کے سوال کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ جب ہم صرف بار کو اپنے تمام ذیلی جوہری ذرّات پر الٹ دیں گے یا سیدھی الٹی حالت کو ایک دوسرے کی مخالفت میں پلٹ دیں گے تب بھی نیوٹن اور آئن سٹائن کی مساوات اپنی جگہ ایک جیسی ہی رہیں گی۔ لہٰذا سی الٹ اور پی الٹ کائنات تو ایک جیسی ہی رہے گی۔
نوبل انعام یافتہ رچرڈ فیمین ایسی کائناتوں کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ سوال اٹھاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک دن ہمارا ریڈیائی رابطہ دور دراز کے سیارے کی خلائی مخلوق سے ہو جاتا ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ کیا ہم ان کو ریڈیو کے ذریعہ سیدھے اور الٹے کا فرق بتا پائیں گے؟ انہوں نے پوچھا۔ اگر طبیعیات کے قوانین پی الٹ کائنات کو بننے کی اجازت دیں تو ان کو اس قسم کی بات کو سمجھانا ناممکن ہوگا۔
کچھ چیزیں بیان کرنا آسان ہوتی ہیں جیسا کہ ہمارے جسموں کی شکل ، ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد ، بازو اور پیر۔ خلائی مخلوق کو ہم قوانین طبیعیات اور قوانین کیمیا کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کو سیدھے اور الٹے (یا کلاک وائز اور ضد کلاک وائز ) کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو ہر دفعہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔ ان کو ہم کبھی بھی یہ بیان نہیں کر سکیں گے کہ ہمارا دل ہمارے جسم کے الٹی طرف ہے، زمین کس سمت میں گھوم رہی ہے، ڈی این اے کے سالمات کس طرح سے گھومتے ہیں۔
لہٰذا ایک زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب کولمبیا یونیورسٹی کے " سی این یانگ" (C۔N۔ Yang) اور "ٹی ڈی لی" (T۔D۔ Lee) نے اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے ذیلی ذرّات کی نوعیت کو جانچتے ہوئے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آئینے کی طرح پی الٹ کائنات وجود نہیں پا سکتی۔ ایک طبیعیات دان نے یہ نتیجے کو سننے کے بعد کہا "دیوتا سے کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے۔" ان ہلا دینے والے نتیجوں ، جن کو "مساوی نمائندگی کی شکست" کہا جاتا ہے یانگ اور لی کو طبیعیات کا نوبل انعام ١٩٥٧ء میں دلوانے کا سبب بنا حاصل کیا۔
فیمین کے لئے اس نتیجے کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ خلائی مخلوق سے ریڈیو پر بات کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسا تجربہ کر سکیں جو آپ کو اس قابل کر دے کہ آپ سیدھی اور الٹی کائنات کا فرق خالی ریڈیو کے ذریعہ ہی بیان کر سکتے ہیں (مثال کے طور پر، تابکار کوبالٹ - ٦٠سےخارج ہونے والے الیکٹران برابری کی بنیاد پر کلاک وائز یا ضد کلاک وائز نہیں گھومتے بلکہ اصل میں وہ ایک ترجیح سمت میں گھومتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مساوی نمائندگی کے اصول کو توڑ دیتے ہیں۔)
تب فیمین سمجھ گیا تھا کہ خلائی مخلوق اور انسانوں کی تاریخی ملاقات آخر کار ممکن ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ جب ہم پہلی مرتبہ خلائی مخلوق سے ملیں تو انھیں بتا سکتے ہیں کہ اپنے سیدھے ہاتھ کو اٹھائیں تاکہ ہم ان سے مصافحہ کیا جا سکے۔ اگر خلائی مخلوق نے صحیح طرح سے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھا لیا تو تب ہی ہم یہ بات جان پائیں گے کہ ہم نے ان کو کامیابی کے ساتھ سیدھے اور الٹے اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا تصوّر سمجھا دیا ہے۔ مگر پھر فیمین نے ایک بوکھلا دینے والا خیال پیش کیا ہے۔ اس وقت کیا ہوگا کہ اگر خلائی مخلوق نے سیدھے ہاتھ کو اٹھانے کے بجائے الٹا ہاتھ اٹھایا ؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک انتہائی مہلک غلطی کر لی ہے یعنی ہم ان کو سیدھے اور الٹے کا تصوّر صحیح طرح سے نہیں بیان کر سکے۔ سب سے خطرناک بات تو یہ ہوگی کہ اگر خلائی مخلوق ضد مادّہ سے بنی ہوگی تو انہوں نے اس تجربہ کو الٹا ادا کیا ہوگا لہٰذا انہوں نے سیدھے اور الٹے کے تصوّر کو ملا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ہم ان سے ہاتھ ملائیں گے تو ہم دونوں ہی دھماکے سے پھٹ جائیں گے !
مفصلہ بالا ہماری سمجھ بوجھ١٩٦٠ء تک کی تھی۔ یہ بات ناممکن ہے کہ ہم اپنی کائنات اور اس کائنات میں کوئی فرق کر سکیں جو ضد مادّہ سے بنی ہے جہاں مساوی نمائندگی الٹی ہے۔ اگر آپ اس نمائندگی اور بار کو الٹ بھی کر دیں تو بننے والی کائنات انھیں طبیعیات کے قوانین کے تابع ہوگی جو ہماری کائنات میں لاگو ہیں ۔ مساوی نمائندگی خود ہی سے شکست کھا لے گی مگر بار اور مساوی نمائندگی اب بھی ایک کائنات کا اچھا تشاکل ہیں۔ لہٰذا پی کائنات کا وجود اب بھی ہونا ممکن ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کسی خلائی مخلوق سے فون پر بات کر رہے ہیں تو ہم ان کو ایک ایسی کائنات جس میں بار بھی الٹ ہوں اور مساوی نمائندگی بھی الٹ ہو اورایک عام کائنات کا فرق نہیں بتا سکتے۔(یعنی سیدھا اور الٹا ایک دوسرے سے بدل جائے گا اور تمام مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے گا۔)
تب ١٩٦٤ء میں طبیعیات دانوں کو ایک اور جھٹکا ملا : سی پی الٹ کائنات وجود نہیں رکھ سکتی۔ ذیلی جوہری ذرّات کی خصوصیات کو جانچ کریہ ممکن ہے کہ اگر آپ ریڈیو کے ذریعہ کسی دوسری سی پی الٹ کائنات میں بات کر رہے ہیں تو سیدھے اور الٹے اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا فرق بتایا جا سکتا ہے۔ اس نتیجے کے صلے میں "جیمز کرونن" (James Cronin) اور "ول فیچ" (Val Fitch) نے ١٩٨٠ء میں نوبل انعام جیتا۔
(کافی طبیعیات دان اس وقت بہت زیادہ دلبرداشتہ ہو گئے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ سی پی کائنات طبیعیات کے قوانین کی رو سے متصادم ہے۔ پس بین جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ یہ دریافت ایک اچھی بات تھی۔ اگر سی پی کائنات کا وجود ممکن ہوتا تو بگ بینگ کی ساعت کے وقت مادّہ اور ضد مادّہ ہو بہو برابر کی مقدار میں ہوتا جس کے نتیجے میں مادّہ اور ضد مادّہ سو فیصد آپس میں مل کر فنا ہو جاتا اور ہمارے ایٹموں کا بننا ممکن نہ رہتا ! ہمارا اپنا وجود اس حقیقت کی گواہی ہے کہ ہم اس بچے ہوئے مادّے سے بنے ہیں جو مادّہ اور ضد مادّہ کے ٹکراؤ کے بعد بچ جانے والا مادّہ تھا اور یہ اس سی پی کائنات کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔)
کیا کسی الٹی کائنات کا ہونا ممکن ہے ؟ مفصلہ بالا باتوں کے باوجود اس بات کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر مساوی نمائندگی کا الٹ اور بار کا الٹ ہونا ناممکن ہے اس کے باوجود ایک ضد کائنات موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ انتہائی عجیب ہوگی۔ اگر ہم بار ، مساوی نمائندگی اور وقت کے دھارے کو پلٹ دیں تب بھی کائنات کو طبیعیات کے تمام قوانین کی اطاعت کرنا ہوگی۔ ایک سی پی ٹی کائنات کا وجود ممکن ہے۔
وقت کے دھارے کو الٹنا ایک عجیب تشاکل ہے۔ ایک الٹے وقت کی کائنات میں تلا ہوا انڈا کھانے کی میز پر سے اٹھ کر ہانڈی میں چلا جائے گا اور پھر وہاں سے اٹھ کر انڈے کے چھلکوں میں جا کر ان کو بند کرکے ثابت انڈا بن جائے گا۔ مردے زندہ ہو جائیں گے، اس کے بعد جوان ہوں گے ، پھر بچے بنیں گے اور آخر میں اپنی ماؤں کے رحم میں چلے جائیں گے۔
عقل عامہ ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ ایک الٹے وقت کی کائنات کا موجود ہونا ممکن نہیں ہے۔ مگر ذیلی ایٹمی ذرّات کی ریاضیاتی مساوات ہمیں کچھ اور بتاتی ہیں۔ نیوٹن کے قانون کا اطلاق بے عیب طریقے سے آگے پیچھے کی طرف ہو سکتا ہے۔ کسی بلیرڈ کے کھیل کی ویڈیو بنانے کا تصوّر کریں۔ گیندوں کا ہر ٹکراؤ نیوٹن کے قانون کی اطاعت کرتا ہے، اسی کسی ویڈیو گیم کی ٹیپ کو الٹا چلانا ایک عجیب سا کھیل بنا دے گا مگر نیوٹن کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے!
کوانٹم کے نظریئے میں چیزیں اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ الٹے وقت کی کائنات کوانٹم میکانیات کے اصولوں سے انحراف ہے مگر پوری سی پی ٹی کائنات کے وجود کی اس میں بھی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی کائنات، جس میں سیدھا اور الٹا آپس میں ایک دوسرے سے بدل جائیں، مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے اور وقت کا دھارا الٹا بہنے لگے، مکمل طور پر قابل قبول ہے یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کا بھی اتباع کرے گی۔
(حیران کن بات یہ ہے کہ ہم کسی بھی ایسی سی پی ٹی الٹ دنیا سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں کر سکتے ۔ اگر ان کے سیارے پر وقت کا دھارا الٹا بہ رہا ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کو جو بھی پیغام ریڈیو کے ذریعے بھیجیں گے وہ ان کے مستقبل کا حصّہ ہوگا لہٰذا وہ اس بات کو فوراً اسی وقت بھول جائیں گے جیسی ہی وہ بات ہم انھیں بتائیں گے۔ لہٰذا اگرچہ سی پی ٹی الٹ کائنات کا قوانین طبیعیات کی رو سے موجود ہونا ممکن ہے لیکن ہم کسی بھی سی پی ٹی الٹ دنیا میں رہنے والی خلائی مخلوق سے ریڈیو کے ذریعہ بات چیت نہیں کر سکتے۔)
مختصر الفاظ میں ضد مادّے سے چلنے والے انجن ہمیں ایک حقیقی امکان بہم پہنچاتے ہیں جس کا استعمال ہم مستقبل بعید میں بطور ایندھن کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کافی سارا ضد مادّہ زمین پر بن سکے یا اس کو خلاء میں تلاش کر لیا جائے ۔مادّے اور ضد مادّے میں توازن سی پی انحراف کی وجہ سے بگڑا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ضد مادّہ کائنات کے کچھ حصّوں میں موجود ہو سکتا ہے اور ہم اس کا اب بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن کیونکہ ضد مادّہ کے انجن کو بنانے میں کافی مشکلات فنی طور پر راہ میں حائل ہیں لہٰذا ان مشکلات پر قابو پانے میں شاید ایک صدی کا عرصہ یا اس سے بھی زیادہ لگ سکتا ہے۔ اس وجہ سے میں اس کو جماعت "I" کی ناممکنات میں درجہ بند کر رہا ہوں۔
مگر چلیں ایک اور سوال سے نمٹتے ہیں :کیا آج سے ہزاروں برسوں بعد مستقبل بعید میں روشنی کی رفتار سے چلنے والے خلائی جہاز بنانا ممکن ہوگا ؟ کی آئن سٹائن کے مشہور مقولے "روشنی کی رفتار سے کوئی بھی چیز تیز نہیں ہو سکتی؟" میں کیا کوئی گنجائش موجود ہے۔ حیرت انگیز طور اس کا جواب ہاں میں ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 11۔سریع از نور (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بات کافی قابل ادراک ہے کہ (زندگی)کہکشاں اور اس سے آگے پھیلے گی۔ لہٰذا زیست کائنات میں غیر اہم آلودہ سراغ کی طرح ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی اگرچہ ہنوز ایسا ہی ہے۔ درحقیقت میں اس خیال کو کسی حد تک پسند کرتا ہوں۔
- خلا نورد رائل سر مارٹن ریس
روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ بات مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ٹوپی گر جائے گی۔
- ووڈی ایلن
اسٹار وار میں جب " میلینیم فالکن" (Millennium Falcon) سنسان سیارے "ٹیٹو یئن " (Tatooine) کو اڑاتا ہے، جس میں ہمارے جوان مرد لیوک اسکائی والکر اور ہین سولو موجود ہوتے ہیں، تو جہاز کا ٹکراؤ سیارے کی گرد چکر لگانے والے جنگی خلائی جہاز امپیریل کے اسکواڈرن آف مینا نسنگ کے جہاز سے ہو جاتا ہے۔ سلطنت کا جنگی جہاز سزا دینے کے لئے لیزر کا سمندر ہمارے جانبازوں کے جہاز کی طرف پھینکتا ہے جو چشم فلک میں ان کی غیر مرئی ڈھال کو توڑتا ہوا اس میں سے گزر جاتا ہے۔ میلینیم فالکن مصیبت میں آ جاتا ہے۔ لیزر کی آگ سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے بچتے ہوئے ہین سولو چیختا ہے کہ اضافی خلاء (Hyper Space) میں کودنا ہی ان کے پاس بچنے کی آخری امید ہے۔ فوراً ہی اضافی ڈرائیو (Hyper Drive) کا انجن چالو ہو کر زندہ ہو جاتا ہے ان کے گرد موجود تمام ستارے ان کی اسکرین پر نظر آنے والے مرکز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھوں کو چندیا جانے والی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سوراخ کھلتا ہے جس کے اندر دی میلینیم فالکن غائب ہو کر اضافی خلاء میں پہنچ کر آزادی حاصل کرتا ہے ۔
سائنس فکشن ؟ بے شک۔ لیکن کیا یہ سائنٹفک حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے ؟ شاید روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز سفر سائنس فکشن کی دنیا میں ایک اہم جز ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ دور حاضر میں طبیعیات دانوں نے اس امکان پر کافی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
آئن سٹائن کے مطابق روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے طاقتور ترین ذرّاتی اسراع گر جس میں جوہروں کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے۔ یہ ذرّاتی اسراع گر اس قسم کی توانائی کو پیدا کر سکتے ہیں جو صرف کسی پھٹتے ہوئے ستارے کے قلب میں ہی یا پھر بگ بینگ کے وقت پیدا ہو سکتی ہے اس کے باوجود یہ بھی ذیلی جوہری ذرّات کو روشنی کی رفتار سے تیز نہیں پھینک سکتے۔ بظاہر طور پر روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دور دراز کی کہکشاؤں میں پہنچنے کی ہماری امید خاک میں مل جائے گی۔
اور ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔۔۔۔
ناکام آئن سٹائن
١٩٠٢ءمیں یہ بات کافی طور پر واضح تھی کہ نوجوان طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن اس منزل سے بہت دور ہے جہاں وہ آئزک نیوٹن کے بعد ایک عظیم ماہر طبیعیات کے طور پر جانا جائے گا۔ حقیقت میں وہ سال اس کی زندگی کا سب سے برا سال تھا۔ تازہ تازہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ان تمام یونیورسٹیوں میں استاد کی نوکری دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جن میں اس نے نوکری کے لئے درخواست دی تھی۔ (اس کو بعد میں یہ بات پتا چلی کہ اس کے پروفیسر " ہینرچ ویبر" (Heinrich Weber) نے اس کی سفارش کے لئے انتہائی خطرناک خطوط لکھے تھے ، ہو سکتا ہے کہ اس نے آئن سٹائن سے اپنی کلاس میں غیر حاضری کا بدلہ لیا ہو۔) مزید براں آئن سٹائن کی ماں بہت شدت کے ساتھ اس کی محبوبہ "ملیوا میرک" (Mileva Maric) کے خلاف تھی، جوان دنوں میں امید سے تھی ۔ ان کی پہلی بیٹی "لیزرل" (Lieserl) ناجائز طریقے سے پیدا ہوئی تھی۔ نوجوان البرٹ اس معمولی ملازمت میں بھی ناکام رہا تھا جو اس نے کی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی وہ کم آمدن والی پڑھانے والی نوکری بھی اس وقت ختم ہو گئی جب وہ اپنی ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ اپنے مایوس کن خطوط میں اس نے اس بات کا بھی اظہار کیا تھا جس میں وہ زندہ رہنے کے لئے سیلز مین کی نوکری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو ایک خط میں یہاں تک لکھا کہ کیونکہ وہ اپنے خاندان پر ایک بوجھ ہے اور اس میں ایک اچھے اور کامیاب مستقبل کو پانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے لہٰذا اس کا پیدا نہ ہونا ہی بہتر تھا۔ جب اس کے باپ کا انتقال ہوا تو اس کو اس بات کا انتہائی غم تھا کہ اس کا باپ یہ سوچتے ہوئے مر گیا کہ اس کا بیٹا ایک ناکام انسان ہے۔
اس ایک سال کے بعد آئن سٹائن کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ایک دوست نے اس کو سوئس پیٹنٹ آفس میں کلرک کی جاب دلوا دی۔ اس انتہائی کم درجے کی نوکری پر رہتے ہوئے ہی اس نے جدید دور کے عظیم انقلاب کو برپا کیا۔ وہ بہت ہی تیزی سے اپنی میز پر موجود پیٹنٹوں کا تجزیہ کرکے طبیعیات کے ان مسائل میں غور و فکر کرنا شروع کرتا جو اس کو عہد طفلی سے ہی پریشان کرتے تھے۔
اس کی غیر معمولی ذہانت کا راز کیا تھا ؟ شاید اس کی غیر معمولی ذہانت کی ایک بات یہ ہو سکتی تھی کہ وہ خالص ریاضی سوچ کے بجائے طبیعیاتی اشکال کی صورت میں سوچتا تھا (مثال کے طور پر حرکت کرتی ہوئی ریل ، اسراعی گھڑیاں اور کھینچی ہوئی ساخت )۔ آئن سٹائن نے ایک مرتبہ یہ بات کہی کہ جب تک کوئی نظریہ کسی بچے کو نہیں سمجھ میں آئے اس وقت تک وہ نظریہ بیکار ہے؛ یعنی کسی بھی نظریئے کو جسمانی تصویری شکل میں بیان کرنے ہی اس کی اصل روح ہوتی ہے ۔ بہت سارے طبیعیات دان ریاضی کی دبیز گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور کہیں کے نہیں رہتے۔ مگر اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن بھی طبیعی تصاویر کا دیوانہ تھا اس کے لئے ریاضی اس کے بعد آتی تھی۔ نیوٹن کے لئے طبیعی تصویر چاند اور گرتا ہوا سیب تھی۔ کیا وہ قوّت جس نے سیب کو گرایا تھا اس قوّت کے برابر تھی جس نے چاند کو اس کے مدار میں ٹکا کر رکھا ہوا ہے ؟جب نیوٹن نے اس کا فیصلہ کیا تو اس کا جواب ہاں میں تھا۔ اس نے کائنات کے لئے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنا دیا جس نے اچانک سے ہی فلک کے عظیم راز – فلکی اجسام کی اپنی حرکت کے قوانین کو ہم پر افشاں کیا۔
آئن سٹائن اور اضافیت
البرٹ آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کو ١٩٠٥ء میں پیش کیا۔ اس نظریئے کے قلب میں موجود ایک ایسی تصویر تھی جس کو کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا تھا۔ اس کا نظریہ اس خواب کی تعبیر تھا جو وہ ١٦ برس کی عمر سے دیکھ رہا تھا ، جب وہ ایک نتیجہ خیز سوال پوچھتا تھا : اس وقت کیا ہوگا جب آپ ایک دور میں روشنی کی رفتار کو پیچھے چھوڑ دیں گے؟ ایک نوجوان کے طور پر وہ یہ بات جانتا تھا کہ نیوٹن کی میکانیات زمین اور فلکی اجسام کی حرکت کو بیان کرتی ہے اور میکسویل کا نظریہ روشنی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ دونوں نظریئے اس وقت طبیعیات کے دو ستون تھے۔
آئن سٹائن کی غیر معمولی ذہانت نے جان لیا تھا کہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو گرنا ہوگا۔
نیوٹن کے مطابق روشنی کی شعاع کو شکست دی جا سکتی ہے کیونکہ روشنی کی رفتار میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روشنی کی شعاع کو ضرور اس وقت ساکن رہنا چاہئے جب کوئی اس سے دوڑ لگائے۔ لیکن نوجوان آئن سٹائن نے اس بات کو جان لیا تھا کہ کسی نے بھی ایسی روشنی کی موج نہیں دیکھی ہے جو ساکن ہو یعنی جو منجمد موج کی طرح ہو۔ لہٰذا نیوٹن کا نظریہ اس بات کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر تھا۔
آخر کار بطور طالبعلم زیورخ میں میکسویل کے نظریئے کو پڑھتے ہوئے آئن سٹائن نے اس سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا۔ اس نے ایک ایسی چیز دریافت کر لی تھی جس کو میکسویل بھی نہیں جانتا تھا : روشنی کی رفتار مستقل ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کتنی تیزی سے حرکت کرے۔ چاہئے آپ روشنی کی سمت میں دوڑیں یا اس کی مخالفت میں دوڑ لگائیں وہ دونوں صورتوں میں ایک ہی سمتی رفتار سے سفر کرے گی مگر اس کی یہ خاصیت عقل سے متصادم ہے۔ آئن سٹائن نے اپنے بچپن کے سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا : کوئی بھی روشنی سے دوڑنے کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔
مگر نیوٹن میکانیات ایک سختی سے بند نظام تھا : جیسے کسی ڈھیلی رسی کو چرخی پر چڑھایا ہوا ہو، رسی کو ذرا سے کھینچا اور وہ پوری بکھر گئی ۔ یہی حال اس نظریئے کا تھا ۔ پورا نظریہ اس وقت بکھر جاتا ہے جب اس مفروضے کی بنیادوں میں تھوڑا سا بھی رد و بدل کیا جاتا۔ نیوٹن کے نظریئے میں وقت تمام کائنات میں ایک جیسا تھا۔ زمین پر ایک سیکنڈ ، زہرہ یا مریخ پر گزرے ہوئے ایک سیکنڈ کے جتنا ہی تھا۔ اسی طرح سے زمین پر لگی پیمائش کی لکڑی پلوٹو پر لگی پیمائش کی لکڑی جتنی ہی ہوگی۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شئے کتنی ہی تیز حرکت میں ہو اگر روشنی کی رفتار ہمیشہ ساکن رہے گی تو ہمیں اپنی مکان و زمان کی تفہیم میں کافی تبدیلی کرنا ہو گی۔ روشنی کی رفتار کو ساکن رکھنے کے لئے زمان و مکان میں عمیق خلل آ جائے گا۔
آئن سٹائن کے مطابق اگر آپ کسی تیز رفتار خلائی جہاز میں بیٹھے ہیں تو راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار بہ نسبت ان لوگوں کے جو زمین پر موجود ہیں کم ہوگی۔ وقت کے مختلف گزرنے کی شرح اس بات پر منحصر ہوگی کہ آپ کتنا تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ مزید براں راکٹ کے اندر موجود خلاء بھی دب جائے گی جس کے نتیجے رفتار کی مناسبت سے ناپنے کی لکڑی بھی بدل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی جہاز کی کمیت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر ہم راکٹ کے اندر دوربین سے دیکھنے کے قابل ہوں تو ہم یہ بات دیکھ سکیں گے کہ راکٹ کے اندر موجود گھڑیاں آہستہ چل رہی ہیں لوگ آہستہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں اور لوگ ہمیں چپٹے نظر آئیں گے۔
حقیقت میں اگر راکٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرے گا تو بظاہر ان کے لئے وقت تھم جائے گا اور راکٹ کی کمیت لامتناہی ہو جائے گی۔ (کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو ہماری عقل عامہ میں سما سکے لہٰذا آئن سٹائن نے کہا کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار کو پار نہیں کر سکتی۔ (کیونکہ کوئی بھی جسم جتنی تیز حرکت کرے گا اتنا ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حرکی توانائی کمیت میں بدل جائے گی۔کمیت میں تبدیل ہوتی ہوئی توانائی کی درست مقدار بہت آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ہمیں وہ عہد ساز مساوات حاصل ہوئی جو صرف چند سطروں میں آسکتی ہے یعنی E = mc²)۔
جب سے آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ مساوات پیش کی ہے تب سے کروڑوں کی تعداد میں تجربات نے اس انقلابی خیال کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر جی پی ایس نظام جو زمین پر موجود ہمارے محل وقوع کو چند فٹ کے فاصلے تک صحیح بتا سکتا ہے . اگر اس میں اضافیت کے حساب سے وقت کو درست نہیں کیا جائے تو یہ نظام صحیح طرح سے کام نہیں کرے گا۔(کیونکہ فوج بھی جی پی ایس نظام پر انحصار کرتی ہے لہٰذا پینٹاگون کے جنرلوں کو بھی طبیعیات کے اس حصّے کا بارے میں بتایا جاتا ہے جس کا تعلق آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ہے۔)جی پی ایس میں موجود گھڑیاں حقیقت میں زمین سے اوپر مدار میں رہتے ہوئے ایسے ہی تبدیل ہوتی ہیں جیسے کہ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی تھی۔
تصویری طور پر اس خیال کی سب سے بہترین شکل کسی جوہری اسراع گر میں ملتی ہے جہاں سائنس دان ذرّات کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتے ہیں۔ سرن میں موجود جناتی اسراع گر جس کا نام " لارج ہیڈرون کولائیڈر" ہے جو جنیوا، سوئٹزرلینڈ کے باہر ی حصّے میں واقع ہے، اس میں پروٹون کو دسیوں کھربوں الیکٹران وولٹ پر اسراع دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرتے ہیں۔
راکٹ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان کے لیے ابھی تک روشنی کی حد کوئی مسئلہ نہیں ہوگی کیونکہ راکٹ مشکل سے ہی کچھ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ مگر اگلی ایک یا دو صدی میں جب راکٹ کے سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ کھوجی دوسرے ستاروں کی طرف روانہ کریں گے (جو زمین سے ٤ برس نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں ) تو روشنی کی حد بتدریج مسئلہ بن جائے گی۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 11۔سریع از نور (دوسرا حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- آئن سٹائن کے نظریے میں سقم
عشروں سے طبیعیات دان آئن سٹائن کے مشہور زمانہ مقولے کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ توڑ تو ملے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر کارآمد نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی روشنی کی چمک کو آسمان میں ہلائے تو نظری طور پر روشنی کی کرن کی رفتار روشنی سے تیز ہو سکتی ہے۔ چند ہی سیکنڈوں میں روشنی کا خاکہ افق پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتا ہے جس کے درمیان کا فاصلہ کئی نوری برس تک کا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس طرح سے کسی بھی قسم کی اطلاعات کو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں بھیجا جا سکتا۔ روشنی کی کرن کا خاکہ روشنی کی رفتار سے بڑھ جاتا ہے مگر وہ خاکہ کسی قسم کی توانائی یا اطلاع پر مشتمل نہیں ہوتا۔
بالکل اسی طرح سے اگر ہمارے پاس قینچی ہو جس کے بلیڈ آپس میں ملتے ہوئے ہوں تو وہ جڑے ہوئے حصّے سے جتنا دور ہوں گے اتنا زیادہ تیزی سے حرکت کریں گے۔ اگر ہم یہ بات فرض کریں کہ قینچی ایک نوری برس جتنی لمبی ہے تو بلیڈوں کو بند کرنے سے اس کے آپس میں قطع کرنے والے حصّے روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتے ہیں۔ (اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ قطع کرنے والے کناروں پر کوئی اطلاع یا توانائی موجود نہیں ہے۔) اسی طرح سے جیسے کہ میں نے باب چہارم میں بیان کیا تھا کہ ای پی آر تجربہ اطلاعات کو روشنی کی رفتار سے تیز بھیجنے کے قابل بنا سکتا ہے۔(یاد دہانی کے لئے بتاتے چلیں کہ اس تجربے میں دو الیکٹران جو ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایک دوسرے سے دور مخالف سمت میں چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں الیکٹران آپس میں مربوط ہوتے ہیں لہٰذا ان کے درمیان اطلاعات کو روشنی کی بھی رفتار سے تیز بھیجا جا سکتا ہے مگر یہ اطلاعات بھی بے ترتیب ہوگی لہٰذا اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لئے ای پی آر مشینوں کو دور دراز ستاروں کے پاس کھوجی بھیجنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔)
ایک طبیعیات دان کے لئے سب سے اہم توڑ تو آئن سٹائن کی طرف سے ہی آیا تھا جس نے عمومی نظریہ اضافت کو ١٩١٥ء میں تخلیق کیا تھا ، ایک ایسا نظریہ جو خصوصی نظریہ اضافیت سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد آئن سٹائن کے دماغ میں اس وقت سے پڑ گئی تھی جب اس نے عہد طفلی میں گول گھومنے والے جھولے کو غور سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ اجسام جب روشنی کی رفتار تک پہنچتے ہیں تو وہ سکڑ جاتے ہیں۔ جتنا تیزی سے آپ حرکت کریں گے اتنی ہی آپ سکڑ جائیں گے۔ مگر ایک گھومتی ہے قرص میں باہری حصّہ اندرونی حصّے سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے ۔(مرکز حقیقت میں ساکن ہی ہوتا ہے۔)اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فٹے کو گھیرے پر لگائیں گے تو وہ سکڑ جائے گا جبکہ مرکز میں لگا ہو فٹا لگ بھگ اتنا ہی رہے گا۔ مطلب جھولے کی سطح اب چپٹی نہیں بلکہ خمیدہ ہو جائے گی۔ لہٰذا اسراع نے مکان و زمان پر اثر ڈال کر جھولے کو خمیدہ کر دیا تھا۔
عمومی نظریہ اضافیت میں مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جو کھینچ اور سکڑ سکتی ہے۔ کچھ مخصوص حالت میں ساخت روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سکڑ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ذرا بگ بینگ کے بارے میں سوچیں جب کائنات ایک کائناتی دھماکے میں تیرہ ارب پچھتر کروڑ سال پہلے پیدا ہوئی تھی۔ کوئی بھی اس بات کا حساب لگا سکتا ہے کہ کائنات ابتداء میں روشنی کی رفتار سے تیزی سے پھیلی۔(اس نے خصوصی نظریہ اضافیت کے کلیہ سے انحراف نہیں کیا تھا کیونکہ وہ خالی جگہ تھی - ستاروں کے درمیان موجود جگہ تیزی سے پھیل رہی تھی ستارے بذات خود ایک دوسرے سے دور نہیں جا رہے تھے۔ پھیلتی ہوئی خلاء کسی قسم کی اطلاعات پر مشتمل نہیں تھی۔
اہم نقطہ یہ تھا کہ خصوصی اضافیت کا اطلاق صرف مقامی چیزوں یعنی کہ آپ کے آس پاس کی چیزیں پر ہوتا تھا۔ آپ کے پڑوس (جیسا کہ نظام شمسی ) میں خصوصی نظریہ اضافیت کی بادشاہی ہے جیسا کہ ہمارے خلائی کھوجیوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ مگر عالمگیر سطح پر (مثال کے طور پر فلکیاتی پیمانے پر جس میں کائنات آ جاتی ہے ) ہمیں عمومی نظریہ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ عمومی نظریہ میں مکان و زمان ایک ساخت بن جاتی ہے اور یہ ساخت روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز پھیلتی ہے۔ یہ خلاء میں سوراخ کرنے کی بھی اجازت دے دیتی ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی مختصر راستہ اختیار کرتے ہوئے زمان و مکان میں سے گزر سکتا ہے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی عمومی نظریہ اضافیت کا سہارا لے کر روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کر سکتا ہے۔ ایسے دو طریقے موجود ہیں جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
1. خلاء کو پھیلانا۔ اگر آپ اپنے پیچھے موجود خلاء کو پھیلا دیں اور سامنے والی خلاء میں رابطہ قائم کریں تو آپ کو ایسا دھوکہ ہوگا کہ آپ روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں آپ نے بالکل بھی حرکت نہیں کی ہوگی۔ مگر کیونکہ خلاء میں بگاڑ آگیا ہوگا اس لئے آپ دور دراز ستاروں تک پلک جھپکتے ہی پہنچ جائیں گے۔ 2. خلاء کو توڑنا۔ ١٩٣٥ء میں آئن سٹائن نے ایک تصوّر ثقب کرم (وارم ہول - ثقب سوراخ کو جبکہ کِرم، کیڑے کو کہتے ہیں ) کا دیا۔ "ایلکس" (Alex) کے جادوئی آئینے کا ذرا تصوّر کریں ایک ایسا جادوئی آلہ جو آکسفورڈ کے گاؤں کو ونڈر لینڈ سے ملا دیتا تھا۔ ثقب کرم ایک ایسا آلہ ہے جو دو کائناتوں کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ جب ہم ابتدائی اسکول میں تھے تو ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ سب سے مختصر راستہ کسی بھی دو نقاط کا ایک سیدھا راستہ ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ سچ بھی ہو کیونکہ اگر ہم کاغذ کے کسی پنے کو لے کر اتنا موڑیں کہ اس کے دونوں سرے آپس میں مل جائیں تو ہم ان دو نقاط کے درمیان راہ مختصر ایک ثقب کرم کو دیکھیں گے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے طبیعیات دان "میٹ ویزر" (Matt Visser) کہتے ہیں کہ " اضافیت والے اس بات کو سوچ رہے ہیں کہ وہ کیا چیز ہوگی جس کی مدد سے ایک خمیدہ راستہ (وارم ڈرائیو ) یا ایک ثقب کرم سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ جائے۔"
رائل ایسٹرو نومر آف گریٹ برٹین کے سر مارٹن ریس کہتے ہیں کہ " ثقب کرم ، اضافی جہتوں اور کوانٹم کمپیوٹروں نے ایسے قیاسی خیالوں کا سمندر بہا دیا ہے جس میں ہماری پوری کائنات آخر میں رہنے کے لائق کائنات بن جائے گی۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 11۔سریع از نور( تیسرا حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- الکوبئیرے کا راستہ (Alcubierre Drive)اور منفی توانائی
سب سے بہترین مثال کھینچتی ہوئی خلاء کی الکوبئیرے کا راستہ ہے جو کہ ایک طبیعیات دان "میگول الکوبئیرے" (Miguel Alcubierre) نے ١٩٩٤ء میں آئن سٹائن کے نظریہ ثقل کو استعمال کرتے ہوئے تجویز دی تھی۔ یہ اسٹار ٹریک میں نظر آنے والے دھکیل نظام سے ملتی ہے ۔ ایسے کسی بھی خلائی جہاز کو چلانے والا پائلٹ ایک بلبلے میں بیٹھا ہوتا ہے (جس کو خمیدہ بلبلہ کہا جاتا ہے ) اس میں رہتے ہوئے ہر چیز معمول کے مطابق دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی جب خلائی جہاز سریع از نور رفتار کو توڑتا ہے۔ اصل میں پائلٹ کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ سکون سے بیٹھا ہوا ہے۔ جبکہ خمیدہ بلبلے کے باہر مکان و زمان میں اس وقت زبردست قسم کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب خلاء خمیدہ بلبلے کے سامنے سکڑتی ہے۔ کیونکہ وقت کی وسعت میں کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا وقت عام حالات کی طرح سے ہی خمیدہ بلبلے کے اندر گزرتا ہے۔
الکوبئیرے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسٹار ٹریک نے شاید اس حل کی تلاش میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ "اسٹار ٹریک میں موجود لوگ خمیدہ راستے کی باتیں کرتے رہتے ہیں ، ایک ایسا نظریہ جس میں آپ خلاء کو سکیڑ دیتے ہیں ،" اس نے کہا۔" ہمارے پاس یہ مفروضہ پہلے سے ہی موجود ہے کہ خلاء کو کس طرح سے خمیدہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں کیا جا سکتا اور یہ نظریہ ہی عمومی نظریہ اضافیت کا ہے۔ میں نے یہ بات سوچی کہ کوئی تو ایسا طریقہ ہوگا جس میں اس خیال کو استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھا جا سکے کہ خمیدہ راستہ کس طرح سے کام کرتا ہے۔" شاید یہ پہلی بار ہے کہ کسی ٹیلی ویژن کے پروگرام نے آئن سٹائن کی مساوات کے ایک حل کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔
الکوبئیرےاس بات کی پیش بینی کرتے ہیں کہ ان کے تجویز کردہ خلائی جہاز کا سفر اسٹار وار کے ملینیم فالکن کے جیسا ہی ہوگا۔ "میرا خیال ہے کہ وہ لوگ شاید کچھ ایسا ہی دیکھ سکیں گے۔ جہاز کے سامنے ستارے روشنی کی لمبی لکیروں جیسے بن جائیں گے ۔جہاز میں موجود مسافر اپنے پیچھے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پائیں گے ان کو صرف تاریکی ہی دکھائی دے گی کیونکہ ستاروں کی روشنی اتنی تیز نہیں ہوگی کہ وہ ان تک پہنچ سکے۔" وہ کہتا ہے۔
الکوبئیرے کے راستے کی روح وہ توانائی ہے جو اس خلائی جہاز کو سریع از نور سمتی رفتار سے آگے کی طرف دھکیلنے کے لئے ضروری ہے۔ عام طور سے طبیعیات دان کسی بھی خلائی جہاز کو دھکیلنے کے لئے مثبت توانائی سے شروع کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا خلائی جہاز ہمیشہ سے روشنی کی رفتار سے آہستہ چلتا ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹتے ہوئے سریع از نور کی رفتار کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایندھن کو بدلنا ہوگا۔ ایک سیدھا حساب کتاب تو اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ اس کام کے لئے منفی کمیت یا منفی توانائی کی ضرورت ہوگی۔ منفی توانائی شاید کائنات میں موجود سب سے زیادہ عجیب و غریب چیز ہوگی بشرطیکہ وہ وجود رکھتی ہو۔ روایتی طور پر طبیعیات دان منفی کمیت اور منفی توانائی کو سائنس فکشن کی خرافات کہہ کر اس سے گلو خلاصی حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر اب ہم یہ دیکھ سکتے ہیں سریع از نور کی رفتار سے سفر کرنے کے لئے یہ انتہائی لازمی ہیں اور ممکن ہے کہ اصل میں یہ وجود بھی رکھتے ہوں۔
سائنس دانوں نے منفی مادّے کو قدرتی طور پر دیکھنے کی کوشش کی ہے مگر اپنی اس کوشش میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ (ضد مادّہ اور منفی مادّہ دونوں مکمل طور پر الگ چیزیں ہیں۔ اوّل الذکر وجود رکھتا ہے اور اس کی مثبت توانائی ہوتی ہے لیکن اس پر بار الٹا ہوتا ہے۔ جبکہ موخّرالذکر ابھی تک اپنے وجود کو ثابت نہیں کر سکا ہے۔) منفی مادّہ بہت ہی الگ چیز ہے کیونکہ وہ ہر چیز سے ہلکا ہوگا۔ اصل میں وہ تیرے گا۔ اگر منفی مادّہ ابتدائی کائنات میں موجود ہوتا تو وہ خلاء میں ضرور تیر رہا ہوتا۔ شہابیوں کے برعکس جو سیاروں کی قوت ثقل کے زیر اثر آ کر ان سے ٹکراتے ہیں منفی مادّے سیاروں سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ ستارے اور سیارے جیسے بڑے اجسام کی طرف کھینچنے کے بجائے ان سے دور بھاگتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے کہ منفی مادّہ وجود رکھتا ہو لیکن ہم یقینی طور پر اسے زمین کے بجائے گہری خلاء میں ہی پا سکتے ہیں۔
منفی مادّے کو گہری خلاء سے حاصل کرنے کی ایک تجویز یہ ہے کہ ایک مظاہر کا استعمال کیا جائے جس کا نام "آئن سٹائن کا عدسہ "ہے ۔نظریہ اضافیت کی رو سے جب روشنی کسی ستارے یا کہکشاں کے گرد سے ہوتی ہے محو سفر ہوتی ہے تو اس کا راستہ قوّت ثقل کی وجہ سے خمدار ہو جاتا ہے۔ ١٩١٢ء میں (جب آئن سٹائن نے عمومی اضافیت کو "نظریئے" کے قالب میں مکمل طور پر نہیں ڈھالا تھا ) اس نے اس بات کی پیشگوئی کی تھی کہ کہکشاں ایک دوربین کے عدسے کی طرح سے کام کر سکتی ہے۔ دور دراز کے جسم کی روشنی جب کسی قریبی کہکشاں کے قریب پہنچتی ہے تو وہ کہکشاں میں سے گزرتے ہوئے ایک عدسے کی طرح سے کام کرتی ہے جس کے نتیجے میں جب روشنی زمین تک پہنچتی ہے تو وہ ایک حلقی نمونے کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ اب ان مظاہر کو " آئن سٹائن کے حلقے" کہا جاتا ہے۔ ١٩٧٩ء میں سب سے پہلے خلائے بسیط میں آئن سٹائن کے عدسوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس کے بعد سے آئن سٹائن کے عدسے ماہرین فلکیات کے لئے ایک لازمی اوزار بن گئے ہیں۔(مثال کے طور پر پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ خلائے بسیط میں غیر مرئی مادّے کو تلاش کرنا ناممکن ہے۔[غیر مرئی مادّہ ایک پراسرار چیز ہے جو نظر نہیں آتا لیکن وزن رکھتا ہے۔ یہ کہکشاؤں کے پاس موجود ہوتا ہے اور شاید یہ کائنات میں عام نظر آنے والے مادّے کے مقابلے میں ١٠ گنا زیادہ موجود ہے۔] ناسا کے سائنس دانوں نے تاریک مادّے کا نقشہ ترتیب دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے کیونکہ تاریک مادّہ روشنی کو اس وقت خمدار کر دیتا ہے جب وہ اس میں سے گزرتی ہے بالکل اسی طرح سے جیسے شیشہ روشنی کو موڑتا ہے۔)
لہٰذا ممکن ہے کہ آئن سٹائن کے عدسوں کو منفی مادّے اور خمیدہ راستے کو خلائے بسیط میں ڈھونڈنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عدسے ایک مخصوص انداز میں روشنی کو موڑیں گے جس کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھا جانا چاہئے۔ ابھی تک تو آئن سٹائن کے عدسے نے کسی بھی منفی مادّے یا خمیدہ راستے کو خلائے بسیط میں نہیں ڈھونڈا ہے لیکن ہنوز تلاش جاری ہے۔ اگر کبھی کسی دن ہبل خلائی دوربین نے منفی مادّے کے وجود یا خمیدہ راستے کو آئن سٹائن کے عدسے کی مدد سے تلاش کر لیا تو یہ طبیعیات کی دنیا میں ایک زبردست جھٹکا ہوگا۔
منفی توانائی منفی مادّے سے اس لئے مختلف ہے کہ وہ حقیقت میں وجود رکھتی ہے مگر انتہائی معمولی مقدار میں۔١٩٣٣ء میں "ہینڈرک کسیمیر" (Hendrik Casimir) نے کوانٹم نظریہ کا استعمال کرتے ہوئے ایکعجیب سے پیش گوئی کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ دو غیر بار دار متوازی دھاتوں کی پلیٹ ایک دوسرے کو جادوئی انداز سے کھینچیں گی۔ عام طور سے متوازی پلیٹیں ساکن ہوتی ہیں کیونکہ ان میں خالص طور پر کسی بھی قسم کا بار نہیں پایا جاتا۔ مگر ان دونوں پلیٹوں کے درمیان کی خالی جگہ ، کھوکھلی نہیں بلکہ مجازی ذرّات سے بھری ہوتی ہے جو تیزی سے آتے اور جاتے ہیں۔
انتہائی مختصر ساعت میں الیکٹران اور ضد الیکٹران کے جوڑے عدم سے نکل کر پھٹتے ہیں تاکہ وہ فنا ہو کر واپس خلاء میں غائب ہو جائیں۔ حیرت انگیز طور پر پہلے خالی خلاء کو ایک ایسی چیز سمجھا جاتا تھا جس میں کوئی بھی چیز موجود نہیں ہوتی تھی۔ لیکن خلاء اب ایک ایسی جگہ بن گئی ہے جہاں کوانٹم کی حرکیات وقوع پذیر ہو رہی ہوں۔ عام طور سے ننھے مادّے اور ضد مادّے کے ٹکراؤ بقائے توانائی کے اصول سے انحراف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مگر اصول عدم یقین کے نظریئے کی وجہ سے یہ ننھی خلاف ورزیاں ناقابل تصوّر طور پر کم عرصے کے لئے ہوتی ہیں اور اوسطاً توانائی باقی رہ جاتی ہے۔
کسیمیرنے معلوم کر لیا کہ مجازی ذرّات کے بادل خلاء میں ایک خالص دباؤ پیدا کریں گے۔ دو پلیٹوں کے درمیان خلاء محدود ہو جاتی ہے لہٰذا دباؤ کم ہوتا ہے۔ لیکن پلیٹوں سے باہر موجود دباؤ قید نہیں ہوتا لہٰذا وہ کافی بلند ہوتا ہے ۔ اس لئے ایک خالص دباؤ بنتا ہے جو ان پلیٹوں کو ایک دوسرے کی طرف دھکیلتا ہے۔
عام طور پر توانائی کی حالت صفر اس وقت ہوتی ہے جب وہ دونوں پلیٹیں ساکن ہوں اور ایک دوسرے سے دور رکھی ہوئی ہوں۔ مگر جیسے ہی پلیٹیں ایک دوسرے کے نزدیک آتی ہیں تو ان میں سے توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پس کیونکہ ان پلیٹوں میں سے حرکی توانائی کو نکال دیا گیا ہے لہٰذا ان پلیٹوں کی توانائی صفر سے کم ہو جاتی ہے۔
منفی توانائی کو اصل میں کسی بھی تجربہ گاہ میں سب سے پہلے ١٩٤٨ء میں ناپا گیا جس کے حاصل کردہ نتائج نے کسیمیر کی پیشن گوئی کو درست ثابت کیا۔ لہٰذا منفی توانائی اور کسیمیر کا اثر اب کوئی سائنس فکشن کی بات نہیں ہیں بلکہ ثابت شدہ حقیقت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسیمیر کا اثر بہت ہی چھوٹا ہے، اس توانائی کو تجربہ گاہ میں ناپنے کے لئے انتہائی نازک اور حساس اور انتہائی اختراعی قسم کے آلات کی ضرورت ہوتی ہے (عام طور پر کسیمیر کی توانائی نسبتاً دونوں پلیٹوں کے درمیان علیحدگی کے فاصلے کی قوّت کے چوتھائی حصّے کی الٹ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علیحدگی کا فاصلہ جتنا چھوٹا ہوگا توانائی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ کسیمیر اثر کی درست پیمائش ١٩٩٦ء میں لاس الموس نیشنل لیبارٹری کے "ا سٹیون لامو راکس" (Steven Lamoreaux) نے کی جس کی تجاذبی قوّت ایک چیونٹی کے وزن کا ایک بٹا تیس ہزار حصّہ تھی۔
الکوبئیرے نے جب سے یہ نظریہ پہلی بار پیش کیا اس وقت سے طبیعیات دانوں نے کافی عجیب و غریب خصوصیات کو دریافت کیا ہے۔ خلائی جہاز میں موجود لوگ عام طور پر باہری دنیا سے کٹ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنی مرضی سے بٹن دبا کر سریع از نور کی رفتار سے سفر نہیں کر سکیں گے۔ آپ اس بلبلے میں سے کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ مکان و زمان میں پہلے سے ہی موجود راستہ ہونا چاہئے جس طرح سے ایک ترتیب سے ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خلائی جہاز ایک عام سے جہاز کی طرح سے نہیں ہوگا جو اپنی مرضی سے رفتار اور سمت کو بدل سکے۔ خلائی جہاز اصل میں ایک ایسی گاڑی ہوگی جو پہلے سے ہی متعین دبی ہوئی خلائی موج پر سفر کر رہی ہوگی۔ یہ خلائی موج بھی پہلے سے ہی موجود کسی خمیدہ مکان و زمان کے راستے پر گامزن ہوگی۔ الکوبئیرے پیش بینی کرتے ہوئے کہتے ہیں ،" ہمیں ایک عجیب و غریب مادّے سے چلنے والے جنریٹروں کا پورا سلسلہ اس راستہ میں چاہئے ہوگا جو خلاء کو سازگار طریقے سے خلائی جہاز سے باہم مربوط کرے گا ۔"
اصل میں اس سے بھی کہیں زیادہ عجیب و غریب قسم کے حل آئن سٹائن کی مساوات کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ آئن سٹائن کی مساوات کہتی ہے کہ اگر آپ کے پاس مخصوص مقدار میں مادّہ یا توانائی موجود ہے تو آپ زمان و مکان کے اس سکڑنے کا حساب لگا سکتے ہیں جو وہ توانائی اور مادّہ پیدا کرے گا۔(بعینہ ایسے جیسے جب ہم کوئی پتھر تالاب میں پھینکتے ہیں تو اس سے بننی والی لہروں کا حساب لگایا جا سکتا ہے ۔) لیکن آپ اس مساوات کو الٹا بھی حل کر سکتے ہیں۔ ہم مکان و زمان جیسی عجیب و غریب چیز سے بھی شروعات کر سکتے ہیں ، جس طرح سے ایک ٹیلی ویژن سلسلے ٹوائی لائٹ زون میں دکھایا گیا ہے۔(مثال کے طور پر اس طرح کی کائناتوں میں آپ کوئی دروازہ کھول کر اپنے آپ کو چاند پر پا سکتے ہیں۔ آپ کسی درخت کے ساتھ بھاگتے ہوئے اپنے آپ کو ماضی میں لے جا سکتے ہیں جس میں آپ کا دل آپ کے جسم کے سیدھے حصّے کی جانب ہوگا۔) اس کے بعد آپ اس مخصوص زمان و مکان کی مادّے اور توانائی کی تقسیم کا حساب لگا سکتے ہیں۔(اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر تالاب کی سطح پر آپ کو عجیب و غریب موجوں کا مجموعہ دے دیا جائے تو آپ ان پتھروں کی تقسیم کا حساب کتاب لگا سکتے ہیں جو آپ کو ان لہروں کو پیدا کرنے کے لئے درکار ہوں گی )۔ اصل میں یہ ہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعہ الکوبئیرے نے اس مساوات کو حاصل کیا تھا۔ اس نے شروعات مکان و زمان سے کی جو متواتر روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہو اور اس کے بعد اس نے الٹا حساب لگایا کہ اس کو پیدا کرنے کے لئے کتنی توانائی کی ضرورت ہوگی۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 11۔سریع از نور( چوتھا حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ثقب کرم اور ثقب سیاہ یا روزن سیاہ (وارم ہول اور بلیک ہول )
خلاء کو کھینچنے کے علاوہ، روشنی کی رفتار کی حد کو توڑنے کا دوسرا ممکنہ طریقہ ثقب کرم کا ہے ۔ جس میں ثقف کرم کے ذریعہ خلاء میں بگاڑ پیدا کر کے ایک ایسا راستہ بنایا جا سکتا ہے جو دو کائناتوں کو ایک دوسرے سے ملا دے۔ کہانیوں میں سب سے پہلے ثقب کرم کا ذکر ہمیں آکسفورڈ کے ریاضی دان "چارلس ڈوڈ سن" (Charles Dodgson) کے ناول تھرو دی لکنگ گلاس میں ملتا ہے جو اس نے لیوس کیرول کے قلمی نام سے لکھی تھی۔ دیکھنے والا آئنہ ایلس کا ایک ایسا ثقب کرم تھا جو آکسفورڈ کے گاؤں کو جادوئی دنیا ونڈر لینڈ سے ملا دیتا تھا ۔ آئینے میں اپنا ہاتھ ڈال کر ایلس فی الفور ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جا سکتا تھا۔ ریاضی دان ان کو "ضربی خلائی رابطہ" کہتے ہیں۔
طبیعیات میں ثقب کرم کا تصوّر ١٩١٦ء میں آئن سٹائن کے انقلابی نظریہ اضافیت کے کام کو شایع ہونے کے ایک سال کے بعد آیا ۔ طبیعیات دان "کارل شوارز چائلڈ" (Carl Schwarzschild) جو اس وقت کیزر کی فوج میں خدمات انجام دے رہا تھا اس نے آئن سٹائن کی مساوات کو ایک نقطۂ جیسے ستارے کے لئے حل کرلیا تھا۔ ستارے سے بہت دور اس کے ثقلی میدان ایک عام ستارے جیسی ہی ہوں گے ۔ حقیقت میں آئن سٹائن نے شوارز چائلڈ کے حل کو استعمال کرتے ہوئے ستارے کے گرد روشنی کی خمیدگی کو ناپا تھا۔ شوارز چائلڈ کے حل نے ایک فوری اور انتہائی عمیق اثر فلکیات کی دنیا میں ڈالا۔ نسلوں تک طبیعیات دان اس ثقلی میدان کو نوکدار ستارے کے گرد اس طرح سے ناپنے میں استعمال کرتے رہے جیسا کہ وہ ایک اصل ستارے کے گرد موجود ہو جس کا ایک محدود قطر ہو۔
لیکن اگر آپ اس نقطۂ جیسے حل کو سنجیدگی سے دیکھیں گے تو اس کے قلب میں گھات لگائے عفریت کو بھی دیکھ پائیں گے جس نے ایک صدی سے طبیعیات دانوں کو متحیر اور گنگ کیا ہوا ہے - یعنی کہ یہ ایک بلیک ہول ہے۔ شوارز چائلڈ کے نقطے جیسے ستارے کی قوّت ثقل کا حل کاٹھ کے گھوڑے جیسا تھا۔ باہر سے یہ فلکی تحفہ نظر آتا تھا مگر اس کے اندر ہر قسم کے بھوت اور عفریت چھپے ہوئے تھے۔ لیکن اگر آپ نے ایک تحفے کو قبول کرلیا تو دوسرا اس کے ساتھ لازمی طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ شوارز چائلڈ کے حل نے بتایا کہ جیسے ہی کوئی بھی اس نقطہ جیسے ستارے کے پاس پہنچے گا عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہونے لگیں گی۔ اس ستارے کے چاروں طرف ایک عجیب سا کرۂ ہوگا (جس کو “واقعاتی افق" کہتے ہیں ) جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہے ۔ ہر چیز یہاں پر اندر آسکتی ہے باہر نہیں جا سکتی جیسا کہ روچ موٹیل میں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ آپ نے واقعاتی افق کو پار کرلیا پھر آپ کبھی بھی واپس نہیں آ سکیں گے۔ (ایک دفہ آپ واقعاتی افق کے اندر پہنچ گئے تو آپ کو واقعاتی افق سے باہر نکلنے کے لئے سریع از نور رفتار حاصل کرنی پڑے گی جس کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔)
واقعاتی افق کے پاس پہنچنے پر آپ کے ایٹم مد و جزر کی قوّت کی وجہ سے کھینچنے لگیں گے۔ آپ کے پیروں کو محسوس ہونے والی قوّت ثقل سر پر لگنے والی قوّت ثقل سے کہیں زیادہ ہوگی لہٰذا آپ سویوں کی طرح کھینچ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اسی طرح سے آپ کے جسم میں موجود جوہر کھینچ کر قوّت ثقل کے زیر اثر ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔
ایک شاہد جو آپ کو باہر سے واقعاتی افق کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہا ہوگا اسے ایسا لگے کہ آپ آہستہ ہو رہے ہیں۔ در حقیقت جیسے ہی آپ واقعاتی افق کی سرحد تک پہنچیں گے تو ایسا لگے کہ وقت رک گیا ہے !
مزید براں یہ کہ آپ واقعاتی افق کو پار کرنے کے بعد روشنی کو اس بلیک ہول میں قید ہو کر ارب ہا سال سے چکر کھاتا ہوا دیکھ سکیں گے ۔ ایسا لگے گا کہ جیسے آپ کسی فلم کو آہستہ کرکے دیکھ رہے ہیں ، جو بلیک ہول کی مکمل تاریخ کو اس کی ابتداء تک آپ کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
اور آخر میں اگر آپ بلیک ہول کے اندر ہوتے ہوئے اس میں سے نکل بھی گئے تو آپ ایک دوسری کائنات میں سے نکلیں گے۔ یہ مظہر آئن سٹائن اور روزن برگ کا پل کہلاتا ہے جس کو پہلے آئن سٹائن نے ١٩٥٥ء میں متعارف کروایا تھا ۔ اس کو اب ہم ثقف کرم کے نام سے جانتے ہیں۔
آئن سٹائن اور دوسرے طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کبھی بھی کوئی بھی ستارہ قدرتی طور پر ایسے کسی عفریت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوگا۔ حقیقت میں ١٩٣٩ء میں آئن سٹائن نے ایک مقالہ شایع کیا جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گھومتے ہوئے گرد و گیس کی کمیت کبھی بھی کثیف ہو کر بلیک ہول میں نہیں ڈھلے گی۔ اس کو اس بات پر انتہائی یقین تھا کہ ایسی کوئی عجیب چیز کبھی بھی قدرتی طور پر نہیں بن سکتی۔ حقیقت میں فلکیاتی طبیعیات دان "آرتھر ایڈنگٹن" (Arthur Edington) نے ایک دفعہ کہا کہ "کوئی قانون قدرت ایسا ہونا چاہئے جو کسی ستارے کو اس عجیب طرح کے برتاؤ کرنے سے روک سکے۔" دوسرے الفاظ میں بلیک ہول آئن سٹائن کی مساوات کا جائز حل تو تھا مگر کوئی ایسا طریقہ قدرتی طور پر معلوم نہیں تھا جس سے وہ بن سکے۔
ان تمام باتوں کا بوریا بستر اس وقت گول ہو گیا جب اسی سال ایک مقالہ "جے رابرٹ اوپن ہائمر" (J. Robert Oppenheimer) اور اس کے شاگرد "ہارٹ لینڈ اسنائیڈر" (Hartland Snyder) نے لکھا۔ اس مقالہ میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ بلیک ہول اصل میں قدرتی طور پر پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے فرض کیا کہ مرتا ہوا ستارہ جب اپنا نیوکلیائی ایندھن صرف کر لیتا ہے تو وہ قوّت ثقل کے تحت ڈھے جاتا ہے لہٰذا وہ اپنے ہی وزن کی وجہ سے پھٹ جاتا ہے۔ اگر قوّت ثقل نے اس ستارے کو اس کے واقعاتی افق کے اندر دبا دیا تو سائنس میں ابھی تک کوئی بھی چیز ایسی معلوم نہیں ہے جو ستارے کو بھینچ کر اس نقطے جیسے ستارہ بننے سے روک سکے۔ (کچھ سال بعد شاید اسی انفجار ی طریقے نے اوپن ہائمر کو اس بم بنانے کی طرف رہنمائی فراہم کی جس نے ناگاساکی کے اوپر گر کر پھٹنا تھا اور جو پلوٹونیم کے کرۂ کے انفجار پر انحصار کرتا تھا۔)
دوسری اہم دریافت ١٩٦٣ء میں ہوئی جب نیو زی لینڈ کے ریاضی دان "روئے کر " (Roy Kerr) نے شاید سب سے حقیقی بلیک ہول کی مثال کو جانچا۔ اجسام سکڑتے ہوئے تیزی سے گھومتے ہیں بالکل اسی طرح سے جب اسکیٹر اپنے بازوں کو سکیڑ لیتے ہیں تو وہ تیزی سے گھومنے لگتے ہیں۔ لہٰذا بلیک ہول کو بھی انتہائی تیز رفتار سے گھومنا ہوگا۔
"کر" نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ گھومتا ہوا بلیک ہول کسی نقطہ جیسے ستارے میں منہدم نہیں ہوگا جیسا کہ شوارز چائلڈ نے فرض کیا تھا بلکہ وہ ایک گھومتے ہوئے حلقے میں ڈھے گا۔ کوئی بھی بدقسمت جو اس حلقے سے مس کر گیا ختم ہو جائے گا۔ اس کے باوجود کوئی اس حلقے میں گر گیا تو وہ مرے گا نہیں بلکہ اس میں سے گزر جائے گا ۔ لیکن بجائے کہ وہ اس حلقے کے دوسری طرف نکلے وہ آئن سٹائن اور روزن برگ کے پل سے گزرتا ہوا دوسری کائنات میں نکل جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں گھومتا ہوا بلیک ہول ایلس کے آئینے کے کنارے جیسا ہی ہے۔
کوئی بھی دوسری دفعہ اس گھومتے ہوئے حلقے کے پاس سے گزرے گا تو وہ کسی دوسری نئی کائنات میں اپنے آپ کو پائے گا۔ حقیقت میں گھومتے ہوئے حلقے میں کوئی بھی شخص جتنی دفعہ بھی داخل ہو گا ہر مرتبہ وہ ایک نئی اور مختلف متوازی کائناتوں میں سے نکلے گا۔بعینہ ایسے جیسے بالا بر میں داخل ہو کر جب ہم اوپر جانے کے لئے بٹن دباتے ہیں۔ نظری طور پر لامحدود متوازی کائناتیں ہونی چاہئے جو ایک دوسرے کے اوپر موجود ہوں گی۔ "جادوئی حلقے سے گزریں اور آپ ایک نئی بالکل ہی مختلف کائنات میں موجود ہوں گے جہاں قطر اور کمیت منفی ہوگی !" کر نے لکھا۔
بہرحال یہاں ایک مسئلہ موجود ہے بلیک ہول "غیر قا طع ثقب کرم" (Nontransversable) ہوتے ہیں یعنی کہ واقعاتی افق میں سے گزرنا یکطرفہ سفر ہے۔ ایک دفعہ آپ واقعاتی افق اور" کر" کے حلقے سے گزر گئے اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ بذریعہ حلقہ اس واقعاتی افق سے نہیں ملے گا۔
مگر ١٩٨٨ء میں "کپ تھورن" (Kip Thorne) اور ان کے رفقائے کاروں نے کالٹک میں ایک "قا طع ثقب کرم" کی مثال کھوج لی یعنی کہ جس میں سے آپ آسانی سے آ اور جا سکیں۔ حقیقت میں ایک حل میں تو ثقف کرم میں سفر کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی ہوائی جہاز میں سفر کرنا۔
عام طور پر کسی بھی ثقف کرم میں قوّت ثقل اس کا گلہ دبا دیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خلا نورد تباہ ہو جائے گا جو دوسری طرف جانے کا سوچ رہا ہوگا۔ یہ ہی وہ چیز ہی جس کی وجہ سے سریع از نور رفتار سے سفر ممکن نہیں۔ مگر دھکیل کی منفی قوّت یا منفی کمیت ممکنہ طور پر اس گلے کو اتنی دیر تک کھول کر رکھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں خلا نورد آسانی سے راستے میں سے گزر جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں منفی کمیت اور منفی توانائی الکوبئیرے کا راستہ اور ثقف کرم دونوں مسئلوں کے حل کے لئے ضروری ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران حیران کن تعداد آئن سٹائن کی مساوات کے حل کی صورت میں نکلی ہیں جو ثقف کرم کو بننے کی اجازت دیتی ہیں۔ مگر کیا ثقف کرم حقیقت میں وجود رکھتے ہیں یا پھر وہ صرف ریاضی کی بناوٹی باتیں ہی ہیں ؟ سر دست ثقف کرم کو کافی بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سب سے پہلے مکان و زمان میں شدید قسم کا بگاڑ پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ ثقف کرم کے ذریعہ سفر کیا جا سکے اس کے لئے انتہائی بڑی مقدار میں مادّہ اور منفی مادّہ درکار ہوگا جسے کسی جسیم ستارے یا بلیک ہول جتنا ہونا چاہئے ۔ "میتھیو وائزر" (Mathew Visser) واشنگٹن یونیورسٹی کے طبیعیات دان اندازہ لگاتے ہیں کہ ایک میٹر ثقف کرم کو کھولنے کے لئے جتنی مقدار منفی توانائی کی درکار ہوگی وہ ایک مشتری کے حجم کے سیارے جتنی ہونی چاہئے۔ بس صرف فرق اتنا ہوگا کہ وہ توانائی منفی ہوگی۔ وہ کہتے ہیں " آپ کو "منفی ایک" مشتری جتنی کمیت کی ضرورت ہوگی جو اس کام کو سرانجام دے سکے۔ صرف ایک مشتری جتنی مثبت کمیت کے ساتھ کھیلنا پہلے ہی مصیبت ہے جو ہماری مستقبل میں حاصل ہونے والی صلاحیتوں سے بھی کہیں دور کی چیز ہے۔"
کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کپ تھورن کہتے ہیں "ایسا لگتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین انسانی جسامت جتنی مقدار میں اجنبی مادّے کو ثقف کرم میں موجود ہونے کی اجازت دیتے ہیں جو ثقف کرم کو کھول کر رکھنے کے لئے کافی ہوگا ۔ مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ ثقف کرم کو بنانے اور ان کو کھلا رکھنے کی ٹیکنالوجی ہماری موجودہ انسانی تہذیبی قابلیت سے کہیں زیادہ ہے۔"
دوسرے ہم یہ بات بھی نہیں جانتے کہ یہ ثقف کرم کس قدر متوازن ہوں گے۔ ان ثقف کرم سے نکلنے والی شعاعیں ہو سکتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلیک ہول بالکل بھی پائیدار نہ ہوں اور جیسے ہی کوئی اس میں گھسے ویسے ہی وہ بند ہو جائیں۔
تیسرے بلیک ہول میں گرنے والی روشنی کا جھکاؤ نیلے رنگ کی جانب ہوگا۔ یعنی جیسے جیسے وہ واقعاتی افق کے پاس پہنچتی ہے ویسے ویسے وہ زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرتی ہے ۔ حقیقت میں واقعاتی افق میں روشنی لامحدود طور پر نیلی رنگ کی طرف جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس توانائی سے نکلنے والی شعاعیں راکٹ میں موجود کسی بھی شخص کو ہلاک کر سکتی ہیں۔
چلیں ان مسائل کو ذرا تفصیل سے زیر بحث کریں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اتنی مقدار میں کمیت کو جمع کریں جس سے پیدا ہونے والی توانائی مکان و زمان کی ساخت کو توڑ سکے۔ اس کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ کسی جسم کو اس قدر دبا دیا جائے کہ وہ اس کی واقعاتی افق سے بھی چھوٹا ہو جائے۔ مثال کے طور پر اگر ہم سورج کو لیں تو اس کو ہمیں ٢ میل تک دبا کر چھوٹا کرنا ہوگا جس کے بعد وہ ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔ (سورج کی قوّت ثقل انتہائی کمزور ہے لہٰذا وہ اسے قدرتی طور پر دبا کر ٢ میل جتنا چھوٹا نہیں کر سکتی لہٰذا قدرتی طور پر ہمارا سورج کبھی بھی بلیک ہول نہیں بن سکے گا۔ نظری طور پر اس بات کا یہ مطلب ہوا کہ کوئی بھی چیز بشمول ہمارے ، بلیک ہول بن سکتی ہے ، بشرطیکہ اس کو کافی دبا دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے جسم کے تمام جوہروں کو اتنا دبا دیا جائے کہ وہ ذیلی جوہری ذرّات سے بھی چھوٹا ہو جائے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہماری موجودہ جدید سائنسی قابلیت سے کہیں زیادہ دور کی بات ہے۔)
ایک زیادہ عملی طریقہ لیزر شعاعوں کا پشتہ بنانے کی ہے جس کے ذریعہ شدید کرنوں کو ایک مخصوص ہدف پر مارا جائے۔ یا کوئی دیوہیکل جوہری ضارب بنایا جائے جو دو کرنوں پیدا کرے اور پھر وہ دونوں کرنیں ایک دوسرے سے اتنی توانائی کے ساتھ متصادم ہوں جو مکان و زمان میں ایک چھوٹا سے سوراخ کر دے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 11۔سریع از نور( پانچواں اور آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- پلانک کی توانائی اور ذرّاتی اسراع گر
کوئی بھی اس بات کا آسانی سے حساب لگا سکتا ہے کہ مکان و زمان میں خلل ڈالنے کے لئے درکار توانائی کتنی ہونی چاہئے : یہ پلانک توانائی کے برابر ہونی چاہئے ، یا ١٠١٩ ارب الیکٹران وولٹ۔ حقیقت میں یہ عدد ایک ایسا عدد ہے جو ہماری سوچ سے بھی ماوراء ہے۔ یہ ایک ہزار کھرب گنا اس توانائی سے زیادہ ہے جو دنیا میں موجود سب سے بڑی طاقتور مشین پیدا کرتی ہے جس کا نام دی لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے ۔ یہ جنیوا ، سوئٹزر لینڈ کے باہر واقع ہے۔ یہ اسراع گر پروٹون کو ایک بڑی ڈونَٹ کی شکل میں اتنا جھولا دیتی ہے جس سے ان کی توانائی دسیوں کرب الیکٹران وولٹ تک جا پہنچتی ہے۔ یہ وہ توانائی ہے جو بگ بینگ کے بعد دیکھی گئی ہے۔ مگر یہ عفریتی مشین بھی اس توانائی کا عشر عشیر بھی پیدا نہیں کر سکتی جو پلانک توانائی کو پیدا کرنے کے لئے درکار ہے۔
ایل ایچ سی کے بعد دوسرا اسراع گر انٹرنیشنل لینئیر کولائیڈر ہوگا جو ذیلی جوہری ذرّات کو دائرے میں موڑنے کے بجائے ان کو ایک سیدھے راستے میں داغے گا۔ ذرّات کو راستے پر حرکت دیتے ہوئے اس میں توانائی کو ڈالا جائے گا یہاں تک کہ وہ ناقابل بیان زبردست توانائی حاصل کر لیں گے۔ اس کے بعد الیکٹران کی کرن کو ضد الیکٹران سے ٹکرایا جائے گا جس کے نتیجے میں زبردست توانائی پیدا ہوگی۔ آئی ایل سی ٣٠ سے ٤٠ کلومیٹر لمبی ہوگی یا سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سے ١٠ گنا زیادہ لمبی ہوگی جو اب تک کی سب سے زیادہ بڑی لمبائی والی اسراع گر ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو آئی ایل سی اگلی دہائی تک مکمل ہو کر کام کرنا شروع کر دے گی۔
آئی ایل سی جو توانائی پیدا کرے گی وہ ٥ کھرب سے ١٠ کھرب الیکٹران وولٹ تک ہوگی۔ یہ توانائی ایل ایچ سی سے ١٤٠ کھرب گنا کم ہے مگر یہ بات ایک طرح سے گمراہ کن ہے۔(ایل ایچ سی میں تصادم پروٹونوں کے درمیان ہوتا ہے جو کوارک سے مل کر بنتے ہیں یعنی اصل میں تصادم کوارک کا ہوتا ہے لہٰذا کوارک میں ہوئے تصادم میں ١٤٠ کھرب الیکٹران وولٹ توانائی کم ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آئی ایل سی جو تصادم سے توانائی پیدا کرے گی وہ ایل ایچ سی سے زیادہ ہوگی۔) کیونکہ ہمیں ابھی تک نہیں پتا کہ الیکٹران کس سے مل کر بنے ہیں لہٰذا الیکٹران اور ضد الیکٹران میں تصادم زیادہ آسان اور صاف ہوگا۔
در حقیقت آئی ایل سی مکان و زمان کی ساخت میں سوراخ کرنے سے درکار کہیں کم توانائی پیدا کرے گی۔ اتنی توانائی پیدا کرنے کے لئے ایک ایسے اسراع گر کی ضرورت ہوگی جو اس سے ایک ہزار کھرب گنا زیادہ طاقتور ہو۔ ہم جماعت 0 کی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جو مردہ پودوں کو بطور توانائی (جیسا کہ تیل اور کوئلہ ) استعمال کر رہی ہے یہ ٹیکنالوجی اس سے کہیں دور کی بات ہے جس کو ہم نے ابھی تک حاصل کیا ہوا ہے۔ مگر یہ بات تہذیب III کے لئے ممکن ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ جماعت III کی تہذیب وہ ہے جس کے استعمال میں پوری کہکشاں کی توانائی ہوتی ہے اور جس کی توانائی کی ضروریات جماعت II کی تہذیب کے مقابلے میں ١٠ ارب گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ جماعت II تہذیب کا انحصار ایک اکلوتے ستارے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ اور جماعت II کی تہذیب جماعت I کے تہذیب سے ١٠ ارب گنا زیادہ توانائی استعمال کرتی ہے جس کی توانائی کا انحصار ایک پورے سیارے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ کچھ ١٠٠ یا ٢٠٠ برس بعد ہماری کمزور تہذیب 0 سے چھلانگ لگا کر تہذیب I کی جماعت کا درجہ حاصل کر لے گی۔
تخمینا جات کو مد نظر رکھتے ہوئے پلانک توانائی حاصل کرنا ایک لمبا اور انتہائی طویل سفر ہے۔ طبیعیات دانوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انتہائی چھوٹے فاصلوں پر، پلانک فاصلے کے ٣٣-١٠ سینٹی میٹر تک، خلاء بالکل خالی یا ہموار نہیں ہے بلکہ جھاگ کی شکل میں ہے۔ وہ جھاگ دار ننھے بلبلوں سے بھری ہوئی ہے جو مستقل عدم سے وجود میں آرہے ہیں اور پھر فوراً ہے خلاء میں غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بلبلے جو عدم سے وجود میں آتے ہیں اور پھر فنا ہو جاتے ہیں یہ مجازی کائناتیں ہیں بعینہ ان مجازی الیکٹران اور ضد الیکٹران کے ذرّات کی طرح سے جو اچانک وجود میں آتے اور فنا ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ مقداری مکان و زمان ہمارے لئے مکمل طور پر غیر مرئی ہے۔ یہ بلبلے اتنے چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتے ہیں کہ ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ مگر کوانٹم طبیعیات اس بات کو بتلاتی ہے کہ اگر ہم کافی مقدار میں توانائی کو ایک نقطہ پراس وقت تک مرکوز رکھیں جب تک ہم پلانک توانائی تک نہ پہنچ جائیں تو یہ بلبلے بڑے ہو جائیں گے۔ اس وقت ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ زمان و مکان ان ننھے بلبلوں سے بنا ہوا ہے اور ہر بلبلہ ایک ثقف کرم ہے جو ایک ننھی کائنات سے جڑا ہوا ہے۔
ماضی میں یہ ننھی کائناتیں شعوری تجسس تھیں جو خالص ریاضی کا عجیب نتیجہ تھا۔ لیکن اب طبیعیات دان سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ ہماری کائنات بھی شروع میں ایک ایسی ہی ننھی کائنات تھی۔
ایسی سوچ صرف قیاسی ہی ہے لیکن قوانین طبیعیات اس امکان کی اجازت دیتے ہیں کہ مکان میں کسی ایک نقطہ پر کوئی بلند توانائی کو مرتکز کرکے سوراخ کر دیا جائے یہاں تک کہ ہم مکان و زمان کے جھاگ تک رسائی حاصل کر لیں اور ثقف کرم جو ہماری کائنات کو دوسری ننھی کائنات کے ساتھ جوڑتا ہوا نمودار ہو جائے۔
مکان میں سوراخ کرنے کے لئے موجودہ ٹیکنالوجی میں کسی بڑی دریافت کا ہونا ضروری ہے مگر یہ تہذیب III کے لئے شاید ممکن ہو۔ مثال کے طور پر ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ ایکسلریٹر کے میدان میں کافی پر امید پیشرفت جاری ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ جوہری ضارب اتنا چھوٹا ہوگا کہ اسے کسی میز کے اوپر رکھا جا سکتا ہے اور اس کے باوجود یہ ارب ہا الیکٹران وولٹ کی توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ دی ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ ایکسلریٹر میں لیزر کو بار دار ذرّات پر مار کر کام کیا جاتا ہے جس میں ذرّات لیزر سے پیدا ہوئی روشنی کے اوپر بیٹھ کر محو سفر ہوتے ہیں۔ سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر ، دی ردر فورڈ ایپلٹن لیبارٹری ان انگلینڈ اور دی ایکول پولی ٹیکنیک ان پیرس میں کیے گئے تجربات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ زبردست اسراع کو چھوٹے فاصلوں پر لیزر کی کرنوں اور پلازما کے ذریعہ توانائی داخل کرکے پیدا کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ایک اور زبردست دریافت ٢٠٠٧ء میں کی گئی جب سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر، یو سی ایل اے ، اور یو ایس سی میں موجود طبیعیات دانوں اور انجینیروں نے یہ بات ثابت کی کہ ہم بڑے ذرّاتی اسراع گروں میں توانائی کو صرف ایک میٹر میں دوگنا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے الیکٹران کی کرن کو سٹینفرڈ میں موجود ٢ میل لمبی سرنگ میں داغا جس کے نتیجے میں توانائی ٤٢ ارب الیکٹران وولٹ تک جا پہنچی۔ پھر یہ بلند توانائی کے حامل الیکٹران صرف٨٨ سینٹی میٹر لمبے پلازما کے خانے پر مشتمل آفٹر برنر کے ذریعہ بھیجے گئے جہاں پر الیکٹران کو مزید ٤٢ ارب الیکٹران وولٹ ملا ہے جس کے نتیجے میں اس کی توانائی دگنی ہو گئی۔(پلازما کا خانہ لیتھیم گیس سے بھرا ہوتا ہے جیسے ہی الیکٹران گیس میں سے گزرتے ہیں تو وہ ایک پلازما کی موج کو پیدا کرتے ہیں جو ایک خط بناتی ہے۔ یہ خط پھر واپس الیکٹران کی کرن کی طرف جاتا ہے اور ان کو آگے کی طرف پھینکتا ہے جس سے ان کو وہ اضافی توانائی حاصل ہوتی ہے۔) اس شاندار کامیابی میں طبیعیات دانوں نے پچھلے سب سے زیادہ حاصل ہونے والی توانائی کے مقابلے میں فی میٹر تین ہزار گنا زیادہ توانائی حاصل کی ہے جو وہ الیکٹران کی کرن کو اسراع دے کر حاصل کر سکتے تھے ۔ موجودہ ذرّاتی اسراع گروں میں ایسے آفٹر برنر وں کا اضافہ کرکے توانائی کو دوگنا بغیر کسی اضافی لاگت کے کیا جا سکتا ہے۔
ابھی سب سے زیادہ توانائی کسی بھی ویک فیلڈ ٹیبل ٹاپ اسراع گر کا ٢٠٠ ارب الیکٹران وولٹ فی میٹر ہے۔ اس نتیجے کو لمبے فاصلوں پر حاصل کرنے کے لئے مسائل کا ایک انبار ہے جس سے نمٹنا ہوگا (جیسے کہ کرن کی پائیداری کو اس وقت برقرار رکھنا جب لیزر کی توانائی اس میں ڈالی جا رہی ہو )۔ مگر اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ ہم نے ٢٠٠ ارب وولٹ فی میٹر حاصل کر لیا ہے ، اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا اسراع گر جو پلانک کی توانائی کو حاصل کر سکے وہ صرف ١٠ نوری برس لمبے ہونا چاہئے ۔ یہ تہذیب III کی ٹیکنالوجی کی پہنچ کے اندر ہی ہے۔
ثقف کرم اور کھینچی ہوئی خلاء ہمیں روشنی کی رفتار کی حد کو توڑنے کا سب سے حقیقی راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا یہ ٹیکنالوجی پائیدار بھی ہوں گی یا نہیں۔ بات صرف پائیدار کی نہیں ہے ان کو کام کرنے کے لئے زبردست مقدار میں توانائی چاہے مثبت ہو یا منفی درکار ہوگی۔
ممکن ہے کہ ایک جدید تہذیب III کی جماعت پہلے سے ہی اس قسم کی ٹیکنالوجی کی حامل ہو۔ ہمیں تو ابھی صرف ایک ہزار برس اس بات کے لئے چاہئے کہ ہم اس طرح کی توانائی کو قابو کرنے کا سوچیں۔ کیونکہ اب بھی ان بنیادی قوانین میں اختلاف موجود ہے جو مکان و زمان کی ساخت پر کوانٹم کی سطح پر نافذ العمل ہوتے ہیں۔ لہٰذا میں انھیں جماعت II کی ناممکنات میں درجہ بند کروں گا۔