نا ممکن کی طبیعیات "Physics of the Impossible" از میچو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟

- ا سٹیفن ہاکنگ



"[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے"۔ فلبی نے کہا

"کس عقل کے خلاف ؟"وقت کے مسافر نے پوچھا۔

- ایچ۔ جی۔ ویلز


جانس اکویشن (Janus Equation) میں مصنف "جی۔ا سپریول" (G. Spruill) نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی ۔ یعنی اصل میں "وہ" خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں ، باپ ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟

ماضی میں تبدیلی

وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔٤٠٠ برس بعد مسیح میں "سینٹ آگسٹین" (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :"ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں ، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہوگی۔" اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔(سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔)

سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔

اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری " ١٧٣٣ء میں " سیموئیل میڈن" (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کی بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔

اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم ،" جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ اچانک سے اپنے آپ کو ویسے ہی پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔

١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge) کو ماضی میں اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے کہ وہ کیسی ہوگی ۔

امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔ انیسویں صدی کے ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔

مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین " ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک خطرناک " مور لاکس" جو گندی زیر زمین مشینیں رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے" جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے )۔

اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔ یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے بہتا ہے تو کبھی آہستہ بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛ وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہوگی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج ہوم میں انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کرلیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تاکہ وہ سان فرانسسکو میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہوگا لیکن اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔(ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف" (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02 سیکنڈ آگے چلے گئے۔)

لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟

اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہوگا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا ، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (دوسرا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
وقت میں سفر :طبیعیات دانوں کے کھیل کا میدان

شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز کیا ہے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا ، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر ایک ١٩٦٢ء میں نقطۂ انقلاب آیا ۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اس کے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا ؟


ایک دفعہ جب اسے یہ جھٹکا مل گیا تو پھر اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کرلیا ، اس نے اضافیت کے انتہائی مشکل سوالات سے نمٹنا شروع کردیا۔١٩٧٠ء کی دہائی کے شروع میں ہی اس نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شایع کروانا شروع کیا جس میں اس نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں "وحدانیت "(جہاں ثقلی قوّت لامتناہی بن جاتی ہے ، جیسے کہ کسی بلیک ہول کے مرکز میں اور بگ بینگ کی ساعت کے وقت ہوا تھا ) اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا (جیسا کہ آئن سٹائن سمجھتا تھا)۔١٩٧٤ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں ، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور یہ ابھی تک اس کا سب سے شاندار کام ہے۔


جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا ۔ اس کی بیماری نے آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ ، پیر اور زبان کو مفلوج کر دیا۔ لیکن بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ اس کے نتیجے میں اس نے کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لئے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔ (اب تو وہ دادا بھی بن گیا ہے۔ ) اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس نے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے ٢٠٠٦ء میں طلاق دینے کے لئے دستاویز کو جمع کروا دیا ہے۔ ٢٠٠٧ء میں اس نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی جب وہ غیر ملک ایک جیٹ طیارے میں گیا جس نے اس کو بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اب اس کا اگلا مقصد خلاء میں جانا ہے۔


آج تو وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہے اور دنیا سے اس کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے رہتا ہے۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتا ہے ، مقالات لکھتا ہے ، لیکچروں کو دیتا ہے اور مختلف قسم کے تنازعات میں الجھا رہتا ہے۔ وہ اپنے آنکھوں کے اشاروں کے ساتھ ان سائنس دانوں کی ٹیم کی بہ نسبت جن کو اپنے اوپر پورا قابو ہے کہیں زیادہ کام کا ہے ۔ (اس کے کیمبرج یونیورسٹی کے رفیق سر مارٹن ریس ہیں جن کو ملکہ نے شاہی فلکیات دان نامزد کیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہاکنگ کی بیماری اس کو تھکا دینے والے اعداد شمار کے حساب کتاب سے دور رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اس کھیل میں اپنے آپ کو سر فہرست نہیں رکھ سکا لہٰذا اب وہ نئے اور تازہ خیالات کو تخلیق کرنے میں اپنی ساری توجہ صرف کیے ہوئے ہے جبکہ مشکل اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اس کے طالبعلم ہی اس کی مدد کرتے ہیں۔)


١٩٩٠ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں متشکک ہو گیا۔ اس کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لئے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔


ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہئے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لئے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک "نظریہ تحفظ تقویم" (Chronology Protection Conjecture) پیش کیا ہے تاکہ "تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے "۔


شرمندگی کی بات یہ ہے کہ طبیعیات دان جتنی بھی کوشش کر لیں وہ کوئی بھی ایسا قانون دریافت نہیں کر سکتے جو وقت میں سفر کو ناممکن بنا سکے۔ بظاہر طور پر وقت میں سفر موجودہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہیں۔ اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر جس میں کوئی ایسا طبیعیاتی قانون مل سکتا جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا سکتا ، ہاکنگ نے حال میں ہی اپنے خیال کو بدل لیا۔اس کی بات نے اخبار کی شہ سرخی لندن میں اس وقت بنائی جب اس نے کہا "ہو سکتا ہے کہ وقت میں سفر کرنا ممکن ہو پر یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔"


خرافات سمجھی جانے والی وقت میں سفر کی سائنس اچانک ہی طبیعیات دانوں کے لئے ایک کھیل کا میدان بن گئی۔ کالٹک کے طبیعیات دان رپ تھورن لکھتے ہیں "وقت میں سفر کبھی صرف سائنسی قصصی مصنفوں کے لئے ہی مخصوص تھا سنجیدہ سائنس دان اس سے اس طرح سے بچتے تھے جیسا کہ وہ طاعون کی بیماری ہو - ہرچند وہ قصصی ناول قلمی ناموں سے لکھتے بھی تھے یا تخلیہ میں چھپ کر پڑھتے بھی تھے۔ وقت کیسے بدل گیا !اب ہم وقت کے سفر کے عالمانہ تجزیات کو سنجیدہ سائنسی رسالوں میں دیکھتے ہیں جو ممتاز طبیعیات دانوں کے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ تبدیلی کیوں آئی ہے ؟کیونکہ ہم طبیعیات دانوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ وقت کی نوعیت بہت زیادہ اہم ہے۔ اور اس کو خالی سائنسی قصصی مصنفوں کے ہاتھ میں چھوڑا نہیں جاسکتا۔"


ان تمام تر پریشانیوں اور ہیجان انگیزی کا سبب آئن سٹائن کی وہ مساوات ہے جو کئی قسم کی ٹائم مشینوں کو بنانے کی اجازت دیتی ہے۔(ہر چند ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ کوانٹم نظریہ کے دیئے ہوئے چیلنج سے نمٹ سکیں گی یا نہیں ۔) حقیقت میں آئن سٹائن کے نظریہ میں ہمارا واسطہ اکثر ایک ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کو ہم " بند وقتی خمیدگی" (Closed Time-like Curves) کہتے ہیں جو تیکنیکی بنیادوں پر بنایا جانے والا وہ لفظ ہے جو ان راستوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہمیں ماضی میں سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہم بند وقتی خمیدگی کے راستے پر چلیں گے تو ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو سکتے ہیں جہاں ہم سفر پر جانے سے پہلے ہی لوٹ کر آ سکیں گے۔


پہلی ٹائم مشین ثقف کرم کے ذریعہ بن سکتی ہے۔ آئن سٹائن کی مساوات کے کئی حل موجود ہیں جو خلاء میں کسی بھی دو نقاط کو آپس میں ملا سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مکان و زمان آئن سٹائن کے نظریئے میں ایک دوسرے سے آپس میں گتھم گتھا ہیں لہٰذا وہی ایک ثقف کرم وقت میں بھی دو نقاط کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ ثقف کرم میں گرنے کے بعد آپ (کم از کم ریاضی کی حد تک تو ) ماضی میں سفر کر سکتے ہیں۔ قابل ادرک طور پر آپ واپس اس ابتدائی وقت میں یعنی اپنے سفر سے جانے سے پہلے کے وقت میں بھی واپس لوٹ کر آ سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز میں موجود ثقف کرم سے گزر نا صرف یکطرفہ سفر ہوگا۔ جیسا کہ طبیعت دان "رچرڈ گوٹ" (Richard Gott) کہہ چکے ہیں "میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا سوال ہے کہ آیا کوئی بھی بلیک ہول کے ذریعہ وقت میں سفر کر سکتا ہے یا نہیں ۔ ہاں لیکن یہ سوال موجود ہے کہ کیا وہ واپس آ کر اس بات کی شیخی بگھار سکتا ہے۔"


گھومتی ہوئی کائنات کے ذریعہ ایک اور ٹائم مشین بھی بنائی جا سکتی ہے۔١٩٤٩ء میں ریاضی دان کرٹ گوڈیل نے آئن سٹائن کی مساوات کو حل کیا تھا جو وقت میں سفر کے متعلق تھی ۔اگر کائنات گھوم رہی ہے تو آپ کائنات کے گرد تیزی سے گھوم کر ماضی میں جا سکتے ہیں اور اس سے پہلے کے آپ ماضی میں جائیں اس حال کے وقت میں بھی واپس لوٹ سکتے ہیں۔ کائنات کے گرد چکر لگانے کا مطلب ماضی میں چکر لگانا ہے۔ جب ماہر فلکیات انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کا دورہ کرتے تو اکثر گوڈیل ان سے پوچھتا کہ کیا ان میں سے کسی نے کائنات کے گھومنے کا ثبوت حاصل کیا ہے۔ جب اس کو بتایا جاتا ہے کہ کائنات کے پھیلنے کے واضح ثبوت ملے ہیں لیکن شاید کائنات کا خالص گھماؤ صفر درجے ہے تو اس کو یہ سن کر کافی مایوسی ہوتی تھی ۔(اگر ایسا نہیں ہوتا تو ممکن ہے وقت میں سفر بہت ہی عام ہوتا اور اس تاریخ جس کو ہم جانتے ہیں ڈھے جاتی۔)


تیسرے اگر آپ ایک لامحدود گھومتے ہوئے سلنڈر جیسی جگہ کے گرد لمبا چلیں گے تو ممکن ہے کہ آپ وہاں سے چلنے سے پہلے واپس اس جگہ پر پہنچ جائیں۔(یہ حل "ڈبلیو جے وین اسٹاکم" (W.J. Van Stockum) نے ١٩٣٦ء میں گوڈیل کے وقت کے سفر کے حل سے پہلے دریافت کیا تھا ، لیکن وین اسٹاکم اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے حل کے نتیجے میں وقت کا سفر ممکن ہے۔) اس حل کے مطابق اگر آپ مئی کے دن مئی کے پول پر گھوم رہے ہیں تو آپ اپنے آپ کو اپریل میں موجود پا سکتے ہیں۔(اس میں مسئلہ یہ ہے کہ سلنڈر کو لامحدود طور پر لمبا ہونا ہوگا اور اس قدر تیزی سے گھومنا ہوگا کہ اس میں زیادہ تر موجود مادّے ایک دوسرے سے دور چلا جائے۔)

وقت کے سفر کی سب سے تازہ مثال پرنسٹن کے رچرڈ گوٹ نے ١٩٩١ء میں دریافت کی ہے۔ اس کا حل ایک دیوہیکل کائناتی دھاگے پر انحصار کرتا ہے (جو اصل بگ بینگ کے بعد بچ گیا ہو )۔ اس نے اس بات کو فرض کیا کہ دو بڑے دھاگے ٹکرانے کو ہیں۔ اگر آپ جلدی سے ان ٹکرانے والے دھاگوں کے گرد سفر کر سکیں تو آپ ماضی میں پہنچ جائیں گے۔ اس طرح کی ٹائم مشین کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو لامحدود گھومنے والے سلنڈروں، گھومنے والی کائنات یا بلیک ہول کی ضرورت نہیں ہوگی۔(مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ پہلے آپ کو پہلے جسیم خلاء میں تیرتے ہوئے دھاگے تلاش کرنے ہوں گے پھر ان کو آپس میں درست انداز میں ٹکرانا ہوگا۔ اور ماضی میں جانے کا امکان نہایت ہی کم وقت کے لئے ہوگا۔)گوٹ کہتے ہیں "جسیم دھاگوں کا منہدم ہوتا ہوا حلقہ جو اس قابل ہو کہ اس کے گرد آپ ایک چکر پورا کر سکیں اور ایک سال ماضی میں جا سکیں اس کے لئے ایک پوری کہکشاں میں موجود توانائی کے نصف سے بھی زیادہ ا کمیت اور توانائی درکار ہوگی ۔


مگر سب سے زیادہ امید افزا ٹائم مشین "قا طع ثقف کرم" ہے جس کا ذکر ہم نے پچھلے باب میں کیا تھا ، خلاء میں ایک ایسا سوراخ جس میں کوئی بھی شخص وقت میں آسانی کے ساتھ آ اور جا سکے۔ کاغذی طور پر تو قا طع ثقف کرم نہ صرف سریع از نور رفتار سے سفر کرنے کو ممکن بناتا ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قا طع ثقف کرم میں سب سے اہم چیز منفی توانائی ہے۔


قا طع ثقف کرم والی ٹائم مشین دو خانوں پر مشتمل ہوگی۔ ہر خانے میں دو مرتکز کرہ ہوں گے جن کے درمیان انتہائی کم فاصلہ ہوگا۔ باہری کرہ کو پھاڑ کر دونوں کرہ کیسیمیر کا اثر پیدا کریں گے اور اس طرح سے منفی توانائی پیدا ہوگی۔ فرض کریں کہ تہذیب III کی قسم ان دونوں خانوں کے درمیان ثقف کرم کو پرونے کے قابل ہوتی ہے (ان میں سے ایک ممکنہ طور پر ایک مکان و زمان کے جھاگ سے حاصل کیا ہوگا )۔دوسرے مرحلے میں پہلا خانہ لے کر اس کو خلاء میں روشنی کی رفتار کے قریب سمتی رفتار سے روانہ کرتی ہے۔ وقت اس خانے میں آہستہ ہو جائے گا لہٰذا دونوں گھڑیاں ایک دوسرے کی موافقت میں نہیں رہ سکیں گی۔ وقت دونوں خانوں کے اندر مختلف رفتار سے چل رہا ہوگا یہ دونوں خانے ایک ثقف کرم کے ذریعہ جوڑے ہوئے ہوں گے۔ اگر آپ دوسرے خانے میں موجود ہیں تو آپ فی الفور ثقف کرم سے ہوتے ہوئے پہلے خانے میں پہنچ جائیں گے جو ماضی کے وقت میں موجود ہوگا۔ اس طرح سے آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔


اس طریقے کو استعمال میں لانے میں بہت ہی زیادہ مسائل کے انباروں سے نمٹنا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ ثقف کرم بہت ہی ننھا سا ہو ، شاید ایک ایٹم سے بھی چھوٹا۔ اور پلیٹوں کو بھی پلانک کے فاصلوں جتنا چھوٹا ہونا پڑے گا تاکہ کافی منفی توانائی حاصل کی جا سکے۔ دوسرے آپ صرف ماضی میں اس وقت تک سفر کر سکیں گے جب آپ نے ٹائم مشین بنائی ہوگی۔ اس سے پہلے ان دونوں خانوں میں وقت ایک جیسی حالت میں ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (تیسرا اور آخری حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تناقضات اور وقت کی پہیلیاں

وقت کاسفر ہر قسم کے فنیات سے لے کر معاشرتی پہلوؤں تک کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اخلاقی ، دینی اور قانونی مسائل کو "لیری ڈویر" (Larry Dwyer) نے اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں "کیا ایک وقت کے مسافر کو جس نے اپنے آپ کو گھونسا مارا ہوگا اس کو اس جرم میں نامزد کیا جا سکتا ہے ؟کیا وقت کا مسافر جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور جائے پناہ حاصل کرنے کے لئے ماضی میں فرار ہو گیا ہو اس کو ماضی میں اپنے مستقبل کے جرائم کے لئے پکڑا جا سکے گا ؟ اگر اس نے ماضی میں شادی کی تو کیا اس کو دو بیویاں رکھنے کے الزام میں مجرم ٹھہرایا جا سکے گا اگرچہ اس کی دوسری بیوی کے پیدا ہونے میں ابھی ٥٠٠٠ برس باقی ہوں ؟

شایدیہ خار دار مسائل وہ منطقی تناقضات ہیں جن کا سامنا ہمیں وقت کے سفر کو کرنے میں ہوگا۔ مثال کے طور پر اس وقت کیا ہوگا اگر ہم اپنے والدین کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیں ؟ منطقی طور پر یہ بات ناممکن ہے۔ اکثر اس کو "دادا کا تناقض" کہا جاتا ہے۔

ان تناقضات کو حل کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں جائیں تو اس کو اسی طرح سے واقع ہونے دیں جس کے نتیجے میں ماضی میں کوئی خلل نہیں واقع ہوگا۔ اس طریقے میں آپ کو کسی بھی قسم کی آزادی نہیں ہوگی۔ آپ کو ماضی کو اسی طرح سے واقع ہونے دینا ہوگا جیسا کہ وہ لکھا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ماضی میں پہنچ کر اپنے آپ کو وقت کے سفر کا راز بتا دیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تاریخ نے ویسے ہی لکھا جانا ہے۔ کیونکہ وقت میں سفر کا طریقہ مستقبل سے آیا ہوگا اس کی منزل یہی تھی ۔(مگر ہمیں یہ بات نہیں پتا لگ سکے گی کہ اصل خیال کہاں سے آیا۔)

دوسرے آپ کو اس بات کی آزادی ہوگی کہ آپ ماضی کو ایک حد میں رہ کر تبدیل کر سکیں۔ آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ آپ وقت کے تناقض کو پیدا کر سکیں۔ جب بھی آپ اپنے والدین کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے مار ڈالنا چاہیں گے ایک پراسرار طاقت آپ کو اس کام کے کرنے سے روک دے گی۔ اس بات کے حامی روسی طبیعیات دان "آئیگور نوویکوف" (Igor Novikov) ہیں۔(وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسا قانون موجود ہے جو ہمارے چاہنے کے باوجود ہمیں چھتوں پر چلنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا کوئی قانون ایسا بھی ہوگا جو ہمیں ہمارے پیدا ہونے سے پہلے اپنے والدین کے قتل سے روک دے گا۔ کچھ پراسرار قانون ہمیں ایسا کرنے سے روکیں گے۔)

تیسرے کہ کائنات دو کائناتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جس میں ایک کائنات میں آپ کے والدین جیسے دکھائی دینے والے لوگ موجود ہوں گے جن کو آپ مار سکتے ہیں لیکن وہ اصل میں آپ کے والدین نہیں ہوں گے اور ان سے مختلف لوگ ہوں گے کیونکہ اب آپ متوازی کائنات میں موجود ہیں۔ یہ آخر الذکر احتمال کوانٹم کے نظرئیے سے میل کھاتا ہے اس کے بارے میں ہم بعد میںاس وقت رجوع کریں گے جب ہم متعدد کائناتوں کے بارے میں بات کریں گے۔

دوسرے ممکنہ طریقے کو فلم ٹرمنیٹر ٣ میں استعمال کیا تھا۔ اس فلم میں آرنلڈ شیوازینگر نے مستقبل کے ایک روبوٹ کا کردار ادا کیا ہے جہاں پر ہلاک کر دینے والی مشینوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ چند باقی بچے رہنے والے انسانوں کو وہ مشینیں جانوروں کی طرح سے شکار کر رہی تھیں۔ ان انسانوں کو ایک عظیم انسان کی رہنمائی حاصل تھی جس کو وہ مشینیں قتل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس رہنما کو قتل کرنے کی کوششوں کو اکارت ہوتا دیکھ کر انہوں نے مشینوں کے ایک سلسلے کو ماضی میں روانہ کیا تاکہ اس سے پہلے کہ عظیم رہنما پیدا ہو سکے اس کی ماں کو ہی مار دیا جائے۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ مگر ایک زبردست رمز ی جنگ کے بعد انسانیت کی تہذیب اس فلم کے اختتام تک صفحہ ہستی سے مٹ گئی جیسا کہ اس کی قسمت میں لکھا تھا۔

بیک ٹو دی فیوچر نے تیسرے ممکنہ امکان کا استعمال کیا تھا۔ ڈاکٹر براؤن نے ایک پلوٹونیم سے چلنے والی ڈی لورین کی کار بنائی جو حقیقت میں ماضی میں لے جانے والی کار تھی ۔ مائیکل جے۔ فاکس (مارٹی مک فلائی ) مشین میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں سے اس کی نوجوانی کے دور میں ملتا ہے۔ وہ اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر مارٹی مک فلائی کی نوجوان ماں اس کے مستقبل کے باپ کو انکار کر دیتی تو وہ کبھی بھی شادی نہیں کرتے اور مائیکل جے فاکس کا کردار کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا۔

اس مسئلہ کو تھوڑا سا ڈاکٹر براؤن نے حل کیا تھا۔ وہ بلیک بورڈ کی طرف گیا اور ایک افقی لکیر کھینچ دی جو ہماری کائنات کی نمائندگی کر رہی تھی۔ اس کے بعد اس نے ایک اور لکیر کھینچی جو دوسری لکیر سے نکل رہی تھی۔ یہ لکیر ایک اور متوازی کائنات کو ظاہر کر رہی تھی جو اس وقت کھلتی ہے جب آپ ماضی کو بدلتے ہیں۔ لہٰذا ہم جب بھی وقت کے دریا میں الٹی طرف جائیں گے وہ دو شاخہ دریا میں اور وقت کی لکیر دو لکیروں میں بدل جائے گی۔ اس کو ہم" کثیر جہاں طریقہ" کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں اگلے باب میں مزید بات کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کے تمام تناقض حل کیے جا سکتے ہیں اگر آپ نے اپنے والدین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے کسی اور کو مار دیا ہے جو خلقی طور پر آپ کے والدین جیسے ہیں جن کی یادداشت اور شخصیت تو ویسی ہی ہوگی لیکن وہ آپ کے اصل والدین نہیں ہوں گے۔

کثیر جہاں والا خیال کم از کم وقت میں سفر کا ایک مسئلہ تو حل کرتا ہے۔ ایک طبیعیات دان کے لئے سب سے پہلی تنقید جو وقت کے سفر کے لئے ہوتی ہے (منفی توانائی کو حاصل کرنے کے علاوہ ) وہ یہ ہے کہ اشعاع کا اثر آپ کے ثقب کرم میں داخل ہونے کے وقت تک بڑھتا جائے گا لہٰذا جوں ہی آپ مشین میں داخل ہوں گے یا تو آپ کی موت ہو جائے گی یا ثقب کرم آپ پر منہدم ہو جائے گا۔ اشعاع کا اثر اس لئے بنے گا کیونکہ کوئی بھی اشعاع جو ٹائم پورٹل میں داخل ہوگی وہ واپس ماضی میں بھیج دی جائے گی جہاں وہ کائنات میں آوارہ گردی کرتی ہوئی آخر کار وہ پھر حال میں پہنچ جائے گی اور پھر وہ ثقب کرم میں داخل ہو جائے گی۔ کیونکہ اشعاع ثقب کرم کے منہ میں لامحدود طور پر داخل ہو سکتی ہے لہٰذا ثقب کرم میں اشعاع ناقابل تصوّر حد تک طاقتور ہوتی جائی گی۔ اتنی طاقتور کہ آپ کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوگی۔ مگر کثیر جہاں والی توجیح اس مسئلہ سے جان چھڑا سکتی ہے۔ اگر اشعاع ٹائم مشین میں داخل ہوگی اور اس کو ماضی میں روانہ کیا جائے گا تو وہ ایک نئے جہاں میں داخل ہو جائے گی اور اس طرح سے وہ ٹائم مشین میں بار بار داخل نہیں ہو سکے گی۔ اس کا مطلب سیدھا سادہ سا یہ ہوا کہ لامحدود تعداد میں کائناتیں موجود ہوں گی ، ہر چکر کے لئے ایک کائنات اور ہر چکر میں لامحدود مقدار میں اشعاع کے بجائے صرف ایک فوٹون کی اشعاع ہوگی۔

١٩٩٧ء میں یہ بحث مزید اس وقت واضح ہوئی جب تین طبیعیات دانوں نے ثابت کیا کہ ہاکنگ کے وقت کے سفر کو بند کرنے کے پروگرام میں خلقی طور پر ہی نقص موجود ہے۔ برنارڈ رے(Bernard Ray) ، مریک ریزےکاسکی (Marek Radzikowski)اور رابرٹ والڈ (Robert Wald) نے ثابت کر دیا کہ وقت کا سفر مروجہ قوانین طبیعیات سے سوائے ایک جگہ کے مکمل طور پر میل کھاتا ہے۔ جب وقت میں سفر کر رہے ہوں گے تو اس وقت تمام ممکنہ مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہوں گے (جو ثقب کرم کے داخلے کی جگہ پر واقع ہوگی )۔ مگر افق درستگی کے ساتھ اس جگہ پر موجود ہوتی ہے جہاں آئن سٹائن کے نظرئیے کے پر جلتے ہیں اور کوانٹم کا اثر کمان کو سنبھال لیتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں جب بھی اشعاع کے اثر کو جاننا چاہیں گے تو ہمیں دونوں نظریوں کو یعنی آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت اور اشعاع کے کوانٹم نظریئے کو ملا کر ہی اس اثر کا پتا چلے گا۔ مگر جب ہم اپنی سادگی میں ان دونوں نظریوں کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں تو حاصل کردہ نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یہ ایک ایسا لامتناہی نتیجہ دیتا ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں پر ہر شئے کا نظریہ کمان سنبھالنے کو تیار نظر آتا ہے۔

ثقب کرم کے ذریعہ سفر کرنے کے تمام مسائل جنہوں نے طبیعیات دانوں کو آسیب بن کر ڈرا یا ہوا ہے (جیسا کہ ثقب کرم کی پائیداری ، اشعاع جو ہلاک کر سکتی ہیں ، داخل ہوتے وقت ثقب کرم کا بند ہو جانا )یہ تمام مسائل واقعاتی افق پر مرتکز ہیں ، جہاں پر آئن سٹائن کا نظریہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

لہٰذا وقت میں سفر کرنے کی کنجی واقعاتی افق کی طبیعیات کو سمجھنے میں ہے اور صرف ہر شئے کا نظریہ ہی اس بات کو بیان کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس میں وقت کے سفر کو مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ قوّت ثقل اور مکان و زمان کا ایک مکمل نظریہ پیش کیا جائے۔

ہر شئے کا نظریہ ہی کائنات کی چاروں قوّتوں کو یکجا کرکے ہمیں ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت واقعات کے بارے میں حساب لگانے کے قابل کر سکے گا۔ صرف ہر شئے کا نظریہ ہی کامیابی کے ساتھ ثقب کرم کی پیدا کردہ اشعاع کے اثر کو بیان کر سکتا ہے اور اس بات کا یقینی جواب دے سکتا ہے کہ ٹائم مشین میں داخل ہوتے وقت ثقب کرم کتنے پائیدار ہوں گے۔ ان تمام چیزوں کے بعد بھی ہمیں صدیوں تک یا اس سے بھی زیادہ اس بات کا انتظار کرنا ہوگا کہ اصل ٹائم مشین کو بنایا جائے تاکہ ان نظریوں کی جانچ ہو سکے۔

کیونکہ وقت کے سفر کے قوانین ثقب کرم کی طبیعیات سے بہت ہی زیادہ جڑے ہوئے ہیں ، لہٰذا وقت کا سفر جماعت II کی ناممکنات میں شامل ہونے کا اہل ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"جناب ، کیا واقعی آپ کا یہ مطلب ہے "پیٹر نے پوچھا ،"کیا ہر جگہ دوسرے جہاں بھی ہو سکتے ہیں ، اس طرح کے کونے کی گرد بھی ؟"
"اس سے زیادہ اور کس چیز کا امکان ہے ،"پروفیسر نے جواب دیا۔۔۔۔جبکہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے "سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ا سکولوں میں انھیں آج کل کیا پڑھایا جا رہا ہے۔"

- سی۔ایس۔ لوئس ، دی لائن ، دی وچ اینڈ دی وارڈروب

سنو :پڑوس میں بے تحاشا شاندار کائناتیں موجود ہیں۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔

- ای۔ای کمنگس


کیا واقعی متبادل کائناتیں وجود رکھتی ہیں ؟ یہ موضوع فلموں کے مصنفین کے لئے سب سے پسندیدہ ہے جیسا کہ اسٹار ٹریک کی ایک قسط "مرر مرر " (Mirror Mirror) میں دکھایا گیا ہے۔ کپتان کرک حادثاتی طور پر ایک اجنبی متوازی کائنات میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی سیارگان ، ایک شیطانی حکومت ہوتی ہے جس کے حکمران وحشی فاتح ، لالچی اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں سپوک نے عجیب سی داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے جبکہ کپتان کرک ایک بھوکے قزاقوں کا سردار ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں کو غلام بناتا ہوا اپنے سے برتر لوگوں کو غارت کر رہا ہوتا ہے۔

متبادل کائناتیں ہمیں ان جہانوں کو کھوجنے کے قابل کر سکیں گی جہاں "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا " کے مزیدار اور حیرت انگیز امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر سپرمین کی بچوں کی کہانیوں میں کئی ایسی کائناتیں موجود ہوتی ہیں جہاں سپرمین کا اصل سیارہ کریپٹون کبھی بھی نہیں پھٹتا یا جہاں سپرمین آخر میں اپنی شناخت ایک عام آدمی کلارک کانٹ کے نام سے بتا دیتا ہے اور پھر لوئس لین سے شادی کرکے سپر بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ مگر کیا متوازی کائناتیں صرف ٹوائی لائٹ زون ریرن کا ہی خاصا ہے یا پھر جدید طبیعیات میں ان کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی ہے ؟

تاریخ میں پیچھے قدیمی سماجوں تک دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے جہانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے جو عموماً دیوتاؤں یا بھوتوں کی دنیا ہوتی تھی۔ گرجا جنت ، دوزخ اور برزخ پر یقین رکھتا ہے۔ بدھ مت میں نروانا اور دوسری شعوری حالتیں موجود ہیں۔ جبکہ ہندو تو مختلف جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔

عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے میں ناکام ہو گئیں ، اکثر وہ اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہیں کہ شاید خدا بلند آسمانوں میں رہتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اگر ایک اضافی جہت اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ کافی ساری خصوصیات جو دیوتاؤں میں پائی جاتی ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی میں موجود ہوں۔ کوئی بھی ہستی جو اضافی یا بلند جہتوں میں رہتی ہو وہ اپنی مرضی سے حاضر ،غائب ہونے پر قادر ہوگی یا وہ دیواروں میں سے بھی گزر سکتی ہوگی یعنی کہ وہ ایک ایسی خاصیت کی حامل ہو گی جو اللہ والوں کی نشانی ہے۔

دور حاضر میں متوازی کائناتوں کا تصوّر طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت میں کافی قسم کی متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہم کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ "حقیقت "سے ہماری کیا مراد ہے۔ متوازی کائناتوں کی اس بحث میں سوائے "حقیقت "کے معنی کے بذات خود کوئی اور چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی ہے۔ کم از کم تین قسم کی مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو سائنسی دنیا میں زبردست مباحثوں کا موجب بنی رہتی ہیں :

الف۔ اضافی خلاء (ہائپر ا سپیس ) یا بلند جہتیں
ب۔ کثیر کائناتیں
ج۔ کوانٹم متوازی کائناتیں


اضافی خلاء یا بلند جہت

متوازی کائناتیں جو تاریخ میں مباحثوں کے سب سے لمبے سلسلے کا عنوان رہی ہیں ان میں سے ایک بلند جہتیں ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمیں آسان لگتا ہے کہ ہم تین جہتوں کی دنیا میں رہتے ہیں (لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی )۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی بھی جسم کو خلاء میں کیسے بھی حرکت دے دیں اس کا ہر محل وقوع ان تین جہتوں کے ذریعہ ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں ہم ان تین چیزوں سے کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا، یہاں تک کہ اپنی ناک کے کونے سے لے کر سب سے دور دراز کی کہکشاں تک ہر چیز کا محل وقوع بیان کر سکتے ہیں۔

چوتھی مکانی جہت ، ہمیں اپنی عقل کے خلاف لگتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دھوئیں کو کمرے میں بھر نے دیا جائے تو ہم دھوئیں کو کسی اور جہت میں غائب ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ اپنی کائنات میں ہم کسی بھی جسم کو اچانک سے غائب ہوتا دیکھ کر کسی دوسری کائنات میں تیر کر جاتا ہوا نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بلند جہتیں موجود بھی ہیں تو لازمی طور پر وہ کسی بھی جوہر سے چھوٹی ہوں گی۔

یہ سہ جہتی مکانی ہی یونانیوں کیبنیادی جیومیٹری کی اساس ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنے مضمون "فلک پر "لکھا "ایک لکیر کی صرف ایک ہی جہت ہے ، ایک سطح کی دو جہتیں ہیں جبکہ کسی بھی ٹھوس چیز کی تین جہتیں ہوتی ہیں اور اس سے آگے کسی بھی قسم کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ بس یہی تین جہتیں ہوتی ہیں۔" اسکندریہ کے بطلیموس نے ١٥٠ بعد مسیح میں پہلی مرتبہ بلند جہتوں کے ناممکن ہونے کا ثبوت دیا ۔ اپنے مضمون "فاصلوں پر " اس نے وجوہات اس طرح سے بیان کیں۔ تین لکیروں کو ایک دوسرے کے عمودی کھینچیں (جیسے کہ کسی کمرے کے کونے میں ہوتی ہیں۔) واضح طور پر چوتھی لکیر کو ان تین لکیروں کے عمودی نہیں کھینچا جا سکتا لہٰذا چوتھی جہت کا ہو ناممکن نہیں ہے۔(اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا ذہن چوتھی جہت کو تصوّر میں لانے سے قاصر ہے۔ آپ کی میز پر رکھا ہوا ذاتی کمپیوٹر ہر وقت اضافی جہتوں میں حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔)

دو ہزار سال تک جس ریاضی دان نے بھی چوتھی جہت کی بات کی اسے ممکنہ طور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٦٨٥ میں ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) کو چوتھی جہت کے سلسلے میں متنازع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ "قدرت کا عفریت ہے اور اس کے ہونے کا امکان بد خلقت مخلوق یا آدھے گھوڑے اور آدھے انسان کے جیسی کسی چیز کے ہونے سے بھی کم ہے۔" انیسویں صدی میں کارل گاس ، (Karl Gauss) "ریاضی کے شہزادے "، نے چوتھی جہت پر ریاضی میں کافی کام کیا م تاہم وہ اس کی مخالفت کے ڈر سے اس کو شایع کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ذاتی طور پر گاس نے اس بات کو جانچنے کے لئے تجربات کئے کہ کیا یونانی سہ جہتی جیومیٹری حقیقت میں کائنات کو بیان کر سکتی ہے۔ ایک تجربے میں اس نے اپنے مدد گاروں کو تین پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کھڑا کیا جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی اس طرح سے اس نے ایک بہت بڑا تکون بنا لیا تھا۔ گاس نے پھر تکون کے ہر زاویہ کو ناپا۔ اس نے مایوس کن طور پر تمام اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ١٨٠ درجہ کا پایا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یونانیوں کے معیار کی جیومیٹری میں کسی قسم کا فرق ہوگا تو وہ اتنا کم ہوگا کہ ان لالٹینوں سے ناپا نہیں جا سکے گا۔

گاس نے اضافی جہتوں کی بنیادی ریاضی کو اپنے شاگرد گورگ برن ہارڈ ریمین(Georg Bernhard Riemann) پر چھوڑ دیا تھا۔(اس کے کام کو مکمل طور پر عشروں بعد آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت میں درآمد کیا گیا )۔ مشہور زمانہ لیکچر جو اس نے ١٨٥٤ میں دیا تھا ریمین نے ایک ہی وار میں یونانیوں کی دو ہزار سالہ جیومیٹری کرسی اقتدار کو اٹھا کر پھینک دیا اور اضافی خم دار جہتوں کی ریاضی کے بنیادی اصول وضع کیے جن کو ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔

ریمین کی شاندار دریافت ١٨٠٠ کے آخر میں کافی مشہور ہوئی ، چوتھی جہت فنکاروں، موسیقاروں ، مصنفین ، فلاسفروں اور مصوروں میں کافی مقبول ہوئی۔ فنی مؤرخ لنڈا ڈال ریمپل ہنڈریسن(Linda Dolrymple Henderson) کے مطابق پکاسو کا "کیوب ازم" چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔(پکاسو کی عورت کی بنائی ہوئی اس تصویر میں آنکھیں سامنے کی جانب جبکہ ناک اطراف میں موجود ہے۔ یہ تصویر اس کوشش کا حصّہ تھی جس میں چوتھی جہت کو بیان کیا گیا تھا کیونکہ جو کوئی چوتھی جہت سے اس عورت کو دیکھے گا وہ ایک ساتھ ہی اس چہرہ ، ناک اور سر کا پچھلا حصّہ دیکھ سکے گا۔) ہنڈریسن لکھتی ہے "بلیک ہول کی طرح چوتھی جہت پراسرار خصوصیات رکھتی ہے جس کو مکمل طور پر سائنس دانوں نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود اس کا اثر١٩١٩ء کے بعد سے بلیک ہول یا کسی بھی اور حالیہ سائنسی نظریئے سے (اضافیت کو چھوڑ کر ) سب سے زیادہ ہے۔

دوسرے مصوروں نے بھی چوتھی جہت کو بنانے کی کوشش کی ہے۔ سلواڈور ڈالی(Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس(Christus Hypercubius)، میں حضرت عیسی کو ایک عجیب تیرتے ہوئے سہ جہتی صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے جو اصل میں ایک "ٹیسسر ایکٹ " کھلا ہوا چوتھی جہت کا مربع ہے۔ اپنی مشہور "دائمی یاد" (پرسسٹنس آف میموری ) میں اس نے وقت کو چوتھی جہت سے بتانے کی کوشش کی تھی لہٰذا اس نے پگھلی ہوئی گھڑی سے اس کو تشبیہ دی۔ مارسیل ڈویکیم(Marcel Duchamps) کی " اترتی ہوئی سیڑھی سے برہنہ " میں ایک برہنہ کو سیڑھی سے اترتے ہوئے بہتے ہوئے وقت سے تشبیہ دے کر وقت کو ایک چوتھی جہت بتانے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جہت آسکر وائلڈ (Oscar Wilde)کی کہانی "دی کینٹرول گھوسٹ " میں بھی موجود تھی جس میں گھر پر طاری ہوا بھوت چوتھی جہت میں رہتا تھا۔

چوتھی جہت ایچ۔ جی۔ ویلز کی کافی کہانیوں میں موجود ہے جس میں "پوشیدہ آدمی"(دی انوزیبل مین)، دی پلانر ا سٹوری ، اور دی وونڈر فل وزٹ شامل ہیں۔ آخری کہانی تب سے ہی ہالی ووڈ کی فلموں اور سائنسی قصصی ناولوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے ، جس میں ہماری کائنات متوازی کائنات سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسری کائنات کا ایک بیچارہ فرشتہ ہماری کائنات میں کسی شکاری سے حادثاتی طور پر زخمی ہو کر گر جاتا ہے۔ ہماری کائنات کی زبردست لالچ ، کمینے پن اور خود غرضی کی وجہ سے آخر کار وہ فرشتہ خود کشی کر لیتا ہے۔)

متوازی کائنات کا خیال رابرٹ ہینلین(Robert Heinlein) کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ میں بھی موجود ہے۔ ہینلین نے ایک چار بہادر مہم جوؤں کی جماعت کی کہانی کو بیان کیا ہے جو متوازی کائناتوں میں ایک پاگل پروفیسر کی بین الجہت ا سپورٹ کار میں اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں۔

ایک ٹیلی ویژن سلسلے سلائیڈر میں ایک نوجوان ایک کتاب کو پڑھتا ہے اور ایک ایسی مشین بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو متوازی کائناتوں میں گرا سکے۔(وہ نوجوان لڑکاجوکتاب پڑھتا ہے وہ اصل میں میری کتاب "اضافی جہت "[Hyperspace]تھی۔)

تاریخی طور پر چوتھی جہت طبیعیات دانوں کے لئے صرف ایک پر تجسس چیز سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ فی الحال ابھی تک تو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت اضافی جہتوں کا نہیں مل سکا ہے۔ تبدیلی کا آغاز ١٩١٩ء میں اس وقت ہوا جب ایک انتہائی متنازع مقالہ تھیوڈور کلوز ا(Theordor Kaluza) نے لکھا جس میں اس نے اضافی جہتوں کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت سے شروع کیا ، تاہم اس نے اس کو پانچ جہتوں میں رکھا۔(ایک جہت وقت کی اور چوتھی جہت خلاء کی ، کیونکہ وقت ایک مکان و زمان کی چوتھی جہت ہے ، طبیعیات دان اب چوتھی مکانی جہت کو پانچویں جہت کہتے ہیں )۔ اگر پانچویں جہت کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیا جائے تو مساوات جادوئی طریقے سے دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک حصّہ آئن سٹائن کی معیاری نظریہ اضافیت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا حصّہ میکسویل کی روشنی کا نظریہ بن جاتا ہے !

یہ ایک شاندار دریافت تھی۔ شاید روشنی کا راز ہی پانچویں جہت میں چھپا ہوا ہے ! آئن سٹائن بھی اس حل کو دیکھنے کے بعد مبہوت رہ گیا جس نے روشنی اور ثقل کی ایک شاندار وحدت کو بیان کیا تھا۔(آئن سٹائن کلوز ا کی اس تجویز سے اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ اس نے صرف دو سال اس بات کی غور و فکر میں ہی گزار دیئے اور اس کے بعد ہی وہ اس مقالے کو شایع کروانے پر راضی ہوا۔) آئن سٹائن نے کلوز ا کو لکھا "پانچ جہتی سلنڈر نما دنیا کا خیال ایک وحدتی نظریئے کے ذریعہ مجھ پر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔۔۔۔پہلی نظر میں ہی ، مجھے تمہارا نظریہ بہت پسند آیا۔۔۔۔ با ضابطہ طور پر تمہارے نظریہ کی وحدت چونکا دینے والی ہے۔"

برسوں سے طبیعیات دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں : اگر روشنی موج ہے ، تو وہ کس چیز کو خمیدہ کر رہی ہے ؟روشنی ارب ہا سال تک خالی خلاء میں سے گزر سکتی ہے ، مگر خلاء تو خالی ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی مادّہ نہیں ہے۔ تو خلاء میں کیا چیز خمیدہ ہو رہی ہے ؟ کلوز ا کے نظریئے سے ہمیں اس مسئلہ کا ایک ٹھوس اور پائیدار حل مل گیا : روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں۔ میکسویل کی مساوات جو نہایت درستگی کے ساتھ روشنی کی تمام خصوصیات کو بیان کرتی ہے وہ ایک ایسی مساوات کے طور پر نمودار ہوتی ہے جہاں موجیں پانچویں جہت میں سفر کرتی ہیں۔

کسی مچھلیکو اتھلے تالاب میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ اس کو تیسری جہت کا شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا ، کیونکہ ان کی آنکھیں اس کے اطراف میں لگی ہوئی ہیں اور وہ آگے، پیچھے ، سیدھی اور الٹی طرف ہی تیر سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری جہت ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر فرض کریں کہ تالاب کے اوپر بارش شروع ہو جاتی ہے ہرچند کہ وہ تیسری جہت کو نہیں دیکھ سکے گی تاہم تالاب کی سطح پر بنتی لہروں کو تو دیکھ ہی سکتی ہے ۔ بعینہ ایسے کلوز ا کا نظریہ روشنی کو پانچویں جہت میں لہروں پر سفر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے۔

کلوزا نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پانچویں جہت کہاں ہے۔ کیونکہ ہم نے پانچویں جہت کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے ، لہٰذا اس کو اس قدر چھوٹا حلقہ دار ہونا چاہئے کہ ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔(ذرا دو جہتی کاغذ کی شیٹ کا تصوّر کریں اور اس کو موڑ کر ایک سلنڈر کی طرح سے بنا دیں۔ دور سے سلنڈر ایک جہت کی لکیر نظر آئے گا۔ اس طرح سے موڑنے پر ایک دو جہتی چیز ایک جہتی بن جائے گی۔)

کلوزا کے مقالے نے شروع میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی۔ مگر آنے والی دنوں میں اس نظریئے پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ اس پانچویں جہت کا حجم کیا ہے ؟وہ کیسی مڑتی ہے ؟ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا۔

عشروں تک آئن سٹائن نے اس نظریئے پر بار بار کام کیا۔١٩٥٥ میں اس کے آنجہانی ہو جانے کے بعد، اس نظریئے کو جلد ہی بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں طبیعیات کے ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک عجیب سے حاشیہ جیسی ہو گئی تھی ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (دوسرا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اسٹرنگ نظریہ

یہ سب اس چونکا دینے والے نظریئے کو پیش کئے جانے کے ساتھ ہی بدل گیا جس کا نام سپر اسٹرنگ نظریہ تھا۔١٩٨٠ء کی دہائی میں طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔ ہر مرتبہ جب بھی وہ کسی جوہر کو طاقتور اسراع گر میں ٹکراتے تو اس میں سے انھیں نئے ذرّات حاصل ہوتے۔ یہ بات اس قدر پریشان کن تھی کہ طبیعیات دان جے۔ رابرٹ اپن ہائمر اکثر از راہ مذاق کہتا تھا کہ نوبل انعام اس سائنس دان کو دیا جائے گا جس نے اس سال کوئی نیا ذرّہ دریافت نہیں کیا !(انریکو فرمی [Enrico Fermi] نے ذیلی جوہری ذرّات کے یونانی ناموں کی کثرت سے خوف زدہ ہو کر کہا "اگر میں ان تمام ذرّات کے ناموں کو یاد رکھ سکتا تو میں ایک ماہر نباتات بن جاتا۔")عشروں کی محنت کے بعد ، ذرّات کے اس چڑیا گھر کو کچھ اس طرح سے ترتیب دیا جا سکا جس کا نام "معیاری نمونہ "رکھا گیا ۔ ارب ہا ڈالر ، ہزار ہا طبیعیات دانوں اور انجینیروں کا پسینہ ، اور ٢٠ نوبل انعامات اس تکلیف دہ معیاری نمونے کو ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر بنانے میں لگ گئے۔ یہ حقیقی طور پر ایک شاندار نظریہ ہے جو ذیلی جوہری ذرّاتی طبیعیات سے متعلق تمام حاصل کردہ تجربات کے اعداد و شمار پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔

تمام تجرباتی کامیابی کے باوجود معیاری نمونہ کا پالا ایک نہایت ہی خطرناک قسم کے نقص سے پڑتا ہے۔ جیسا کہ ا سٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں "یہ بدصورت اور عارضی ہے۔" اس میں کم از کم انیس آزاد مقدار معلوم ہیں ( جس میں ذرّوں کی کمیت اور دوسرے ذرّات کے ساتھ ان کے تعامل کی قوّت بھی شامل ہے )،٣٦ کوارک اور ضد کوارک ، تین ہوبہو اور فالتو ذیلی جوہری ذرّات کی نقلیں ایک سننے میں عجیب ذیلی جوہری ذرّات کے میزبان مثلاً ٹاو نیوٹرینو ، یانگ –ملز گلوآ ن ، ہگس بوسون ، ڈبلیو بوسون اور زی ذرّات۔ سب سے زیادہ خراب بات یہ کہ معیاری نمونہ قوّت ثقل کا ذکر ہی نہیں کرتی ہے۔ اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے کہ قدرت سب سے زیادہ برتر بنیادی سطح پر اس قدر بے ضابطہ اور اس قدر بھونڈی ہو سکتی ہے۔ ایک نظریہ تھا کہ ماں صرف پیار ہی کر سکتی ہے۔ معیاری نمونے کی خالص بے ضابطگی نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ قدرت سے متعلق ان تمام مفروضات کا دوبارہ سے تجزیہ کریں۔ کوئی چیز بہت ہی بھیانک حد تک غلط تھی۔

اگر پچھلی ایک صدی میں ہم طبیعیات کا تجزیہ کریں تو اس میدان میں حاصل ہونے والی سب سے بڑی کامیابی کا لب لباب بنیادی طبیعیات کو دو نظریوں کی صورت میں بیان کرنے کو صورت میں نظر آ جائے گا : کوانٹم نظریہ (جس کو معیاری نمونے سے ظاہر کیا جاتا ہے )اور آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت (جو قوّت ثقل کو بیان کرتا ہے )۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں مل کر طبیعیات کا تمام علم بنیادی سطح پر پیش کرتی ہیں۔ پہلا نظریہ جہاں اصغر کو بیان کرتا ہے ، ذیلی جوہری کوانٹم دنیا جہاں ذرّات شاندار رقص پیش کرتے ہیں ، عدم سے حاضر اور حاضر سے فنا ہوتے ہیں اور دو جگہوں پر ایک ساتھ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ دوسرا نظریہ دنیا کو بڑے پیمانے پر بیان کرتا ہے جیسا کہ بلیک ہول اور بگ بینگ اور ہموار سطحوں ، کھینچتی ہوئی ساختوں اور خمیدہ سطحوں کی زبان استعمال کرتا ہے۔ دونوں نظرئیے ایک دوسرے کے ہر طرح سے مخالف ہیں ، مختلف ریاضیاتی مساواتیں ، مختلف مفروضات اور مختلف طبیعی خاکے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے قدرت کے دو ہاتھ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ میں نہیں ہیں۔ مزید براں یہ کہ ان دونوں نظریوں کو ملانے کی کوششوں میں حاصل ہونے والے نتیجے لاحاصل رہے۔ آدھی صدی تک جس بھی طبیعیات دان نے کوانٹم نظریئے اور عمومی اضافیت کو رشتہ ازدواج میں باندھنے کی کوشش کی اس نے منہ کی کھائی ، انھیں جو نتیجے ملے وہ لامتناہی جواب تھے جو کسی بھی قسم کے شعور سے عاری تھے۔

یہ تمام صورتحال سپر اسٹرنگ نظریئے کی دریافت کے بعد سے بدل گئی ، اس نظرئیے میں اس بات کو فرض کر لیا گیا ہے کہ الیکٹران اور دوسرے ذیلی جوہری ذرّات کچھ اور نہیں بلکہ دھاگے یا ڈوری کی تھرتھراہٹ ہیں ، جو ننھے ربڑ بینڈ کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ربڑ بینڈ کو چھیڑے گا تو وہ مختلف ڈھنگ سے جھولے گا اس طرح سے سپر اسٹرنگ نظریئے نے ان سینکڑوں ذیلی جوہری ذرّات کو بیان کر دیا جو ابھی تک ذرّاتی اسراع گروں میں دریافت ہوئے ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ حقیقت میں سب سے پست ڈوری کی تھرتھراہٹ ثابت ہوئی ہے۔

اسٹرنگ کے نظریئے کو "ہر شئے کا نظریہ "بھی کہتے ہیں۔ ایک طلسماتی نظریہ ہے جو آئن سٹائن کی زندگی کے آخری تیس برسوں میں باوجود کوشش کے ہاتھ میں نہیں آ سکا۔ آئن سٹائن چاہتا تھا کہ ایک ایسا جامع نظریہ حاصل کیا جا سکے جو تمام طبیعیاتی قوانین کو یکجا کر دے اور جو اس کو خدا کا ارادہ پڑھنے میں مدد کر سکے۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ صحیح طرح قوّت ثقل کو کوانٹم کے نظریہ کے ساتھ متحد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو شاید یہ سائنس کی اس دو ہزار سالہ دنیا میں ایک شاہانہ سنگ میل ہوگا جب سے یونانیوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا کہ مادّہ کس سے بنا ہے۔

مگر سب سے عجیب خاصیت جو سپر اسٹرنگ نظریہ کی ہے کہ یہ صرف مکان و زمان کی مخصوص جہتوں میں تھر تھرا تھے ہیں ، وہ صرف دس جہتوں میں ہی تھرتھرا سکتے ہیں۔ اگر ہم اسٹرنگ نظریہ کو دوسری جہتوں میں بنانے کی کوشش کریں گے تو نظریہ ریاضیاتی طور پر بکھر جائے گا۔

ہمارے کائنات چار جہتی ہے (تین جہتیں مکان کی اور ایک وقت کی )۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسری چھ جہتیں لازمی طور پر کسی طرح سے منہدم ہو گئی ہوں گی ، یا کلوز ا کی پانچویں جہت کی طرح مڑ گئی ہوں گی۔

حالیہ دور میں طبیعیات دانوں نے سنجیدگی کے ساتھ ان اضافی جہتوں کی توثیق یا تردید کرنی ہے۔ ان اضافی جہتوں کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شاید سب سے آسان طریقہ نیوٹن کی کشش ثقل کے قانون میں کسی قسم کا انحراف کو تلاش کرنا ہو سکتا ہے ۔ اسکول میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ زمین کی کشش خلاء میں ختم ہوجاتی ہے۔ زیادہ درستگی کے ساتھ قوّت ثقل دوری کے فاصلے کے مربع جتنی کم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم سہ جہتی دنیا میں رہتے ہیں۔(زمین کے گرد ایک کرۂ کے بارے میں سوچیں۔ زمین کی کشش کرۂ کی سطح پر برابر پھیلی ہوئی ہے لہٰذا جتنا بڑا کرۂ ہوگا اتنی ہی اس کی کشش کم ہوگی۔ تاہم کیونکہ کرۂ کی سطح اس کے نصف قطر کے مربع سے بڑھے گی ، کشش کی قوّت ، جو پورے کرۂ پر پھیلی ہوئی ہے لازمی طور پر اس کے نصف قطر کے مربع سے کم ہوگی۔)

لیکن اگر کائنات کی چار مکانی جہتیں ہوں ، تو کشش ثقل فاصلے کی دوری کے مکعب سے کم ہوگی۔ اگر کشش ثقل کی "x" جہتیں ہوں تو کشش ثقل کو "x" منفی ایک کی قوّت سے کم ہونا ہوگا۔ نیوٹن کا مشہور قانون معکوس مربع کو بہت ہی زیادہ درستگی کے ساتھ فلکیاتی پیمانوں پر جانچا گیا ہے ،اسی وجہ سے ہم خلائی کھوجیوں کو زحل کے حلقوں سے بھی دور انتہائی درستگی کے ساتھ روانہ کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک نیوٹن کے قانون معکوس مربع کو چھوٹے فاصلوں پر تجربہ گاہوں میں نہیں جانچا گیا۔

یونیورسٹی آ ف کولوراڈو میں ٢٠٠٥ء میں سب سے پہلا تجربہ کیا گیا جس معکوس قانون مربع کو چھوٹے فاصلوں پر جانچا گیا اور نتائج قانون کے مطابق درست تھے۔ بظاہر تو کوئی متوازی کائنات موجود نہیں تھی کم از کم کولوراڈو میں تو نہیں تھی۔ مگر ان نتائج نے دوسرے طبیعیات دانوں کی اشتہا انگیزی کو صرف بڑھایا ہی تھا جو اس تجربہ کو اور زیادہ درستگی سے کرنے کے خواہاں تھے۔

مزید براں دی لارج ہیڈرون کولائیڈر جو جنیوا ، سوئٹزر لینڈ میں واقع ہے وہ بھی ٢٠٠٨ء سے کام کرنا شروع کر دے گا۔ وہ نئے ذرّات کی تلاش کرے گا جن کو "اسپارٹیکل " یا فوقی ذرّات کہتے ہیں جو کہ سپر اسٹرنگ کی اضافی تھرتھرا ہٹ ہیں (ہر چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں وہ اس سپر اسٹرنگ کی سب سے پست تھرتھراہٹ ہے۔) اگر اسپارٹیکل ایل ایچ سی میں مل گئے تو یہ ایک ایسا انقلابی اشارہ ہوگا جو ہماری کائنات سے متعلق سوجھ بوجھ کو بدل دے گا۔ اس تصویر میں معیاری نمونہ صرف سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ کو ہی پیش کرتا ہے۔

کپ تھورن (Kip Thorne) کہتے ہیں کہ "٢٠٢٠ء تک ، طبیعیات دان کوانٹم ثقلی قانون کو جان چکے ہوں گے ، جو اسٹرنگ نظریئے کی ہی ایک قسم ہوگی۔"

بلند جہتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات جس کی پیش گوئی اسٹرنگ نظریئے نے کی ہے وہ ہے "کثیر کائنات۔"

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (تیسرا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کثیر کائنات (Multiverse)

ایک پریشان کر دینے والا سوال جو اسٹرنگ نظریئے کے بارے میں ہے : اسٹرنگ نظریئے کے پانچ مختلف ورژن کیوں ہیں ؟اسٹرنگ کا نظریہ کامیابی کے ساتھ کوانٹم نظریئے کو قوّت ثقل کے ساتھ یکجا کر سکتا ہے ، تاہم اس کام کو کرنے کے پانچ مختلف راستے ہیں جس میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کافی شرمندگی کی بات ہے کیونکہ زیادہ تر طبیعیات دان "ہر شئے کے نظریئے "کو واحد اور منفرد چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن اس بات کو جاننا چاہتا تھا کہ "خدا کے پاس کائنات کو بنانے کے لئے کتنا اختیار تھا۔" اس کا یقین تھا کہ وحدتی ہر شئے کا نظریئے کو بالکل منفرد ہونا چاہئے۔ لہٰذا پھر پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے کیوں موجود ہیں ؟

١٩٩٤ء میں طبیعیات کی دنیا میں ایک اور بم اس وقت گرا جب پرنسٹن انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن(Edward Witten) اور کیمبرج یونیورسٹی کے پال ٹاؤنسینڈ(Paul Townsend) نے اس بات کی پیش گوئی کی کہ پانچوں اسٹرنگ حقیقت میں ایک ہی ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اس میں ایک گیارہویں جہت کا اضافہ کر دیں ۔ گیارہویں جہت سے دیکھنے پر پانچوں کے پانچ اسٹرنگ کے نظریئے ڈھے کر ایک ہو جائیں گے ! نظریہ کافی منفرد تھا لیکن یہ صرف اس وقت کام کرتا ہے جب ہم گیارہویں جہت کی پہاڑی پر چڑھ کر اس کو دیکھتے۔

گیارہویں جہت میں ایک نیا ریاضیاتی جسم وجود رکھ سکتا تھا جس کو "جھلی" کہتے ہیں (جیسا کہ کسی بھی کرۂ کی سطح ہوتی ہے )۔ ایک شاندار مشاہدہ یہ تھا : اگر کوئی گیارہویں جہت سے نیچے دسویں جہت پر اترے ، تو تمام پانچوں اسٹرنگ کے نظریئے مل کر ایک نئی جھلی بن کر نمودار ہوں گے۔

(اس بات کو سمجھنے کے لئے ، ایک رنگین پٹی والی گیند کا تصوّر کریں جس کے استواء پر ایک ربڑ بینڈ لگا ہوگا ہے۔ تصوّر کریں کہ قینچی لے کر آپ نے گیند دو حصّوں میں تقسیم کردی ہے ایک ربڑ بینڈ کے اوپر کا حصّہ ہے جبکہ دوسرا ربڑ بینڈ کے نیچے کا حصّہ ہے۔ گیند کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کے بعد ربڑ بینڈ ہی باقی بچتا ہے جو کہ ایک اسٹرنگ ہے۔ بالکل اسی طرح سے ہم اگر گیارہویں جہت کو موڑیں تو جو باقی بچے گی وہ صرف استواء کے گرد ایک جھلی ہی ہوگی جو کہ ایک اسٹرنگ ہوگی۔ ریاضیاتی طور پر ایسے پانچ طریقے ہیں جس میں اس گیند کو اس طرح سے کاٹا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں پانچ مختلف اسٹرنگ کے نظریئے ملتے ہیں جن کی دس جہتیں ہوتی ہیں۔)

گیارہویں جہت ہمیں ایک نئی تصویر دکھاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کائنات بذات خود ایک جھلی ہو ، جو مکان و زمان کی گیارہویں جہت میں تیر رہی ہو۔ مزید براں یہ کہ تمام جہتوں کو چھوٹا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت میں ان میں سے کچھ جہتیں ہو سکتا ہے کہ لامتناہی ہوں۔ اس امر کی وجہ سے اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہماری کائنات لامحدود کثیر کائناتوں میں سے ایک ہو۔ ایک وسیع تیرتے ہوئے شوربے میں یا جھلی میں بنتے بلبلوں کا تصوّر کریں۔ شوربے کا ہر بلبلہ ایک پوری کائنات کی نمائندگی کرتا ہے جو بلند خلاء میں گیارہویں جہت میں تیر رہی ہے۔ یہ بلبلے دوسرے بلبلوں سے بھی مل سکتے ہیں یا ایک بلبلہ دو حصّوں میں بھی تقسیم ہو سکتا ہے مزید یہ کہ کوئی بھی بلبلہ عدم سے بھی وجود میں آ سکتا ہے اور وجود سے فنا بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم ان بلبلی کائناتوں میں سے کسی ایک کی سطح پر رہ رہے ہوں۔

ایم آئی ٹی کے میکس ٹیگ مارک(Max Tegmark) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ "٥٠ برسوں میں متوازی کائناتوں کا وجود کوئی متنازع بات نہیں ہوگی بعینہ جیسے کہ دوسری کہکشائیں وجود رکھتی ہیں - اور آج سے ١٠٠ برس پہلے ان کو جزیرہ نما کائنات کہتے تھے۔"

اسٹرنگ کا نظریئے کتنی کائناتوں کے موجود ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ اسٹرنگ نظریئے کی ایک اور پریشان کن خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مطابق کھرب ہا کھرب کائناتوں کا وجود ممکن ہے جس میں سے ہر ایک اضافیت اور کوانٹم نظریئے سے مطابقت رکھتی ہوگی۔ ایک اندازے کا مطابق ممکنہ طور پر ایک گوگول (ایک کے بعد ١٠٠ صفر )کائناتیں موجود ہوں۔

عام طور پر ان کائناتوں میں اپس میں رابطہ ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے جوہر ان مکھیوں کی طرح سے ایک جال میں قید ہیں۔ جہاں ہم تین جہتوں میں اپنی جھلی والی کائنات میں تو آسانی کے ساتھ حرکت کر سکتے ہیں مگر ہم اضافی خلاء میں موجود کائنات میں چھلانگ نہیں لگا سکتے ، کیونکہ ہم اپنی کائنات میں چپکے ہوئے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ، مکان و زمان کو خم دیتی ہوئی آزادی سے کائناتوں کے درمیان موجود خلاء میں تیر سکتی ہے۔

حقیقت میں ایک نظریہ ایسا ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ تاریک مادّہ - جو ایک غیر مرئی مادّے کی شکل ہے اور کہکشاؤں کے گرد موجود رہتا ہے ، ممکنہ طور پر ان متوازی کائناتوں میں پایا جانے والا عام مادّہ ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ ایچ جی۔ ویلز کے ناول "دی انویزیبل مین " میں ایک شخص اس وقت غائب ہو جاتا ہے جب وہ چوتھی جہت میں ہم سے اوپر تیرتا ہے۔ دو متوازی کاغذ کے ٹکڑوں کا تصوّر کریں جس میں سے ایک دوسرے کے اوپر تیر رہا ہو۔

بعینہ ایسے اس بات کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ تاریک مادّہ بھی ایک عام کہکشاں ہو سکتی ہے جو ہماری کائنات کے اوپر کسی دوسری کائنات کی جھلی پر تیر رہی ہو۔ ہم اس کہکشاں کی قوّت ثقل کو محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ قوّت ثقل ان کائناتوں میں سے گزر سکتی ہے تاہم دوسری کہکشاں ہمارے لئے غیر مرئی ہوگی کیونکہ روشنی اس کہکشاں کے نیچے ہی حرکت کرے گی۔ اس طرح سے کہکشاں میں قوّت ثقل تو ہوگی لیکن وہ غیر مرئی ہوگی جو تاریک مادّے کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔(ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ تاریک مادّہ بھی شاید کوئی سپر اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ ہو۔ ہر وہ چیز جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں جیسا کہ جوہر اور روشنی کچھ اور نہیں بلکہ سپر اسٹرنگ کی پست تھرتھراہٹ ہی ہے۔ تاریک مادّہ ایک نئی اضافی تھرتھراہٹ کا جوڑا ہو سکتا ہے۔

یقین کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر متوازی کائناتیں مردہ ہوں گی ، بغیر شکل و صورت کی ذیلی جوہری ذرّات جیسا کہ الیکٹران اور نیوٹرینو پر مشتمل گیس پر ہوں گی۔ ان کائناتوں میں شاید پروٹون غیر قیام پذیر ہوں گے ، لہٰذا اس میں موجود تمام مادّہ آہستگی کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتا ہوا تحلیل ہو جائے گا۔ جوہروں اور سالموں پر مشتمل پیچیدہ مادّے شاید ان کائناتوں میں بننے ممکن نہ ہوں۔

ممکن ہے کہ دوسری متوازی کائناتیں اس کا بالکل ہی متضاد ہوں ، جہاں ہمارے تصوّر سے بھی زیادہ پیچیدہ مادّے کی اقسام موجود ہوں۔ بجائے ایک قسم کے جوہروں کے جو صرف الیکٹران ، نیوٹران اور پروٹون سے مل کر بنے ہوں ہو سکتا ہے کہ وہاں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے دوسرے اقسام کے مادّے موجود ہوں۔

یہ جھلی والی کائناتیں ممکنہ طور پر ایک دوسرے سے متصادم ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں کائناتی آتش بازی جنم لے سکتی ہے ۔ پرنسٹن میں موجود کچھ طبیعیات دان یہ مانتے ہیں کہ شاید ہماری کائنات کا آغاز اس ساعت میں ہوا ہے جب آج سے ١٣ ارب ٧٠ کروڑ سال پہلے دو دیوہیکل جھلیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہوں۔ ان کے مطابق اس ٹکر میں پیدا ہونے والی صدماتی موجوں نے ہماری کائنات کی تشکیل کی۔ حیرت انگیز طور پر جب اس خیال کے تجزیوں کی چھان پھٹک کی گئی تو بظاہر طور پر حاصل ہونے والے نتائج ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ،سے حاصل کردہ نتیجوں سے میل کھا گئے۔ (اس کو "عظیم منتشری "نظریئے کہتے ہیں۔)

کثیر کائناتوں کے نظریئے میں صرف ایک چیز اس کی موافقت میں جاتی ہے۔ جب ہم قدرتی مستقلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انتہائی درستگی کے ساتھ زیست کو پنپنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ تاہم ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ستارے بہت ہی جلد اپنا ایندھن پھونک دیں گے جس کے نتیجے میں حیات پروان نہیں چڑھ سکے گی۔ اگر ہم نیوکلیائی قوّت کی قیمت میں تھوڑی سی کمی کر دیں تو ستارے کبھی بھی جل نہیں پائیں گے۔ جس کے نتیجے میں حیات تو وجود ہی نہیں پا سکتی۔ اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھا دیں تو ہماری کائنات ایک عظیم چرمراہٹ کی صورت میں جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم قوّت ثقل کی قیمت کو کم کر دیں تو کائنات تیزی سے پھیلتی ہوئی ایک عظیم انجماد کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ حقیقت میں حادثوں کی حدیں موجود ہیں جو ان مستقلات کا تعین کرتی ہے جو زیست کو پروان چڑھانے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ بظاہر طور پر ہماری کائنات ایک گولڈی لاکس زون میں موجود ہے جہاں پر کئی مقدار معلوم اس قدر موزوں اور متوازن ہیں جنہوں نے حیات کی شروعات کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ لہٰذا ہمارے پاس دو صورتیں بچتی ہیں۔ یا تو کسی قسم کا خالق موجود ہے جس نے ہماری کائنات کو انتہائی موزوں و متوازن بنایا تا کہ یہاں پر حیات پروان چڑھ سکے یا پھر ارب ہا متوازی کائناتیں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر مردہ ہیں۔ جیسا کہ فری مین ڈیسن نے کہا تھا ،"ایسا لگتا ہے کہ کائنات کو معلوم تھا کہ ہم آرہے ہیں۔"

کیمبرج یونیورسٹی کے سر مارٹن ریس لکھتے ہیں کہ اس قدر درستگی کا مطلب کثیر کائناتوں کے وجود کی اثبات کی دلالت کر دینے والے ثبوت ہیں۔ پانچ طبیعی مستقلات ہیں(جیسا کہ مختلف قوّتوں کی طاقتوں کی قیمتیں ) جو اس قدر درستگی کے ساتھ موجود ہیں جن کی وجہ سے زیست کا پروان چڑھنا ممکن ہوا ہے ، اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لاتعداد کائناتیں ایسی ہیں جس میں قدرتی مستقلات حیات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

یہ خود ساختہ "بشری اصول "ہے۔ کمزور نقطۂ نظر سادے طور پر یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات اس حد در درستگی کے ساتھ بنی ہے کہ حیات یہاں پھل پھول سکے (اس بات کا سب سے پہلا ثبوت تو یہ ہی ہے کہ ہم اس بات کو کہنے کے لئے یہاں پر موجود ہیں )۔ مضبوط نظریئے کے مطابق ممکن ہے کہ ہمارا وجود کسی مقصد یا ڈیزائن کی ضمنی پیداوار ہو۔ زیادہ تر ماہرین تکوینیات کمزور بشری اصول کے حامی ہیں تاہم اب بھی بحث جاری ہے کہ آیا بشری اصول ، سائنس کا کوئی نیا اصول ہے جو ہمیں نئی دریافتوں اور نتائج کی طرف لے جا سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (چوتھا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوانٹم نظریہ

بلند جہتوں اور کثیر کائناتوں کے علاوہ ایک اور متوازی کائنات کی قسم ہے ، ایک ایسی کائنات جس نے آئن سٹائن کے سر میں درد کیا ہوا تھا اور جس نے اب بھی مسلسل طبیعیات دانوں کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ کوانٹم کائنات ہے جس کو عام کوانٹم میکانیات نے پیش کیا ہے۔ کوانٹم کے نظریئے میں تناقضات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین اس جملے کی تکرار بہت شوق سے کرتے تھے کہ کسی نے بھی کوانٹم کے نظریئے کو صحیح سے نہیں سمجھا۔

حیرت انگیز طور پر اگرچہ کوانٹم کا نظریہ انسانی دماغ کی طرح سے پیش کیا جانے والا سب سے کامیاب نظریہ ہے (اکثر ١٠ ارب میں سے بقدر ایک حصّے کے اندر درست ہوتی ہے) تاہم یہ اتفاق ، قسمت اور احتمال کی ریت کی دیوار کے اوپر بنا ہوا ہے۔ نیوٹن کے نظریئے کے برخلاف جو قطعیت کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے اجسام کا محل وقوع بیان کرتی ہے ، کوانٹم کا نظریہ صرف امکانات ہی کو بیان کرتی ہے۔ جدید دور کے عجائبات جیسا کہ لیزر ، انٹرنیٹ ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن ، سیل فون ، ریڈار ، خرد موجی بھٹیاں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب کے سب بدلتی ریت کی دیواروں پر ہی بنی ہیں۔

اس معمے کی سب سے بہترین شہرہ آفاق مثال شروڈنگر کی بلی کا مسئلہ ہے (جس کو کوانٹم نظریئے کے بانیوں میں سے ایک نے بنایا تھا ، اس مثال کو تناقض کے طور پر پیش کیا گیا تھا تاکہ کوانٹم کی اس امکانی تاویل کو ہمیشہ کے لئے پاش پاش کیا جا سکے۔شروڈ نگر نے اپنے نظریئے کی اس تاویل پر بر انگیختہ ہوتے ہوئے کہا "اگر کسی کو اس لعنتی کوانٹم کی چھلانگ سے چپک کر ہی رہنا ہے تو مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس قسم کی چیز میں الجھا ۔"

شروڈنگر کی بلی کا تناقض کچھ اس طرح سے ہے :ایک بلی بند ڈبے میں موجود ہے۔ اس دبے کے اندر ایک بندوق اس کی طرف تنی ہوئی ہے (اور اس کی لبلبی ایک یورینیم کے ٹکڑے کے سامنے رکھے ہوئے گائیگر کاؤنٹر سے بندھی ہوئی ہے)۔ یورینیم جب قدرتی طور پر انحطاط پذیر ہوگا تو وہ گائیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دے گا ۔ نتیجے میں بندوق کی لبلبی دب جائے گی اور بلی ختم ہو جائے گی۔ یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے یا نہیں۔ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ یہ قابل ادرک بات ہے۔

تاہم کوانٹم کے نظریئے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں جانتے کہ یورینیم انحطاط پذیر ہوگا۔ لہٰذا ہمیں دو امکانات اس میں شامل کرنے پڑیں گے ، ایک انحطاط پذیر جوہر کا موجی تفاعل اور ایک پائیدار جوہر کا موجی تفاعل۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی کی حالت کو بیان کرنے کے لئے ہمیں دو حالتیں بتانی ہوں گی۔ بلی نہ تو زندہ ہوگی نہ ہی مردہ۔ وہ ایک زندہ اور مردہ بلی کا مجموعہ ہوگی !

جیسا کہ فینمین نے ایک مرتبہ لکھا "کوانٹم میکانیات قدرت کو قابل فہم نقطۂ نظر سے بیان کرنے پر انتہائی نامعقول نظر آتی ہے۔ اور یہ مکمل طور پر تجربات سے ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ قدرت کو قبول کر لیں گے کہ وہ انتہائی مہمل ہے۔"

آئن سٹائن اور شروڈنگر کے نقطہ نگاہ سے یہ بعید از قیاس ہے۔ آئن سٹائن معروضی حقیقت، عام فہم چیز پر یقین رکھتا تھا، نیوٹن کا نقطہ نظر جس میں اشیاء متعین حالت میں موجود ہوتی تھیں، اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا جس میں قطعیت کے بجائے مختلف امکانات موجود ہوں۔ اس کے باوجود یہ عجیب و غریب چیز آج جدید تہذیب کے قلب میں موجود ہے۔ اس کے بغیر جدید برقیات (اور ہمارے جسم کے جوہر بھی ) اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی (عام دنیا میں ہم کبھی ہم اس بات کا مذاق کرتے ہیں کہ تھوڑا سی امید سے ہونا (حمل سے ہونا)ناممکن ہے لیکن کوانٹم کی دنیا میں اس سے بھی برا ہے۔ ہم ایک ساتھ ان تمام جسمانی امکانات کے ساتھ وجود رکھتے ہیں: ، بغیر حمل کے ، حمل کے ساتھ ، ایک بچے، ایک جوان عورت ، ایک نوجوان لڑکی، ایک کام پر جانے والی عورت وغیرہ وغیر ہ )۔

اس پریشان کن مسئلے کو کئی طرح سے حل کیا جا سکتا ہے۔ کوانٹم نظریئے کے بانی کوپن ہیگن اسکول مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ڈبہ کھول دیا تو پھر آپ ناپ کر ہی اندازہ لگا سکیں گے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ اس وقت موجی تفاعل منہدم ہو جائے گا اور عقل اس کی جگہ لے لے گی۔ موج غائب ہو جائے گی اور صرف ذرّات ہی باقی بچے رہ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بلی اپنی قطعی حالت میں موجود ہوگی (زندہ یا مردہ )اور اب اس کو موجی تفاعل کے ذریعے نہیں بیان کیا جا سکتا۔

ایک نظر نہ آنے والی عجیب سی رکاوٹ جوہروں کی دنیا میں اور انسانوں کی اجمالی دنیا کے درمیان موجود ہے۔ جوہری دنیا میں ہر چیز کو موجی امکان سے بیان کیا جاتا ہے جہاں پر جوہر کئی جگہوں پر ایک ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جتنی بڑی موج کسی جگہ پر ہوگی اتنا ہی زیادہ ذرّے کو وہاں پانے کا امکان ہوگا۔ مگر بڑے اجسام کے لئے یہ موجیں منہدم ہو جائیں گی اور اشیاء ایک متعین حالت میں موجود ہوں گی لہٰذا یہ بات ہماری عقل پر پوری اترتی ہے۔

(جب مہمان آئن سٹائن کے گھر آتے تھے تو وہ چاند کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا تھا ،"کیا چاند وجود رکھتا ہے کیونکہ ایک چوہا اسے دیکھ رہا ہے ؟" ایک طرح سے ، کوپن ہیگن مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس کا جواب ہاں میں ہی دیں گے۔)

پی ایچ ڈی کی طبیعیات کی زیادہ تر کتابیں نہایت سختی کے ساتھ کوپن ہیگن مکتبہ فکر کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں مگر کافی محققین طبیعیات نے اس مکتبہ فکر کو چھوڑ دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نینو ٹیکنالوجی موجود ہیں اور ہم اس قابل ہیں کہ انفرادی جوہروں کو اپنی مرضی سے ادھر ادھر کر سکیں لہٰذا جو جوہر پلک جھپکتے ہی ظاہر و غائب ہوتے ہیں تقطیعی سرنگی خردبین کی مدد سے اب ہم اپنی مرضی سے ان کو قابو میں کر سکتے ہیں۔ اب کوئی بھی غیر مرئی دیوار خرد بینی دنیا میں اور اجمالی دنیا میں باقی نہیں رہی ہے۔ اب ایک تسلسل موجود ہے۔

فی الحال اس بات پر تو کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے جس نے جدید طبیعیات کے قلب پر زبردست وار کیا ہے۔ کانفرنسوں میں کافی نظریئے ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں۔ ایک اقلیتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ پوری کائنات میں ایک کونیاتی شعور نفوذ پذیر ہے۔ اشیاء اس وقت وجود میں آتی ہیں جب ان کو ناپا جاتا ہے اور ناپنے والا کوئی باشعور ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کونیاتی شعور کو ضرور موجود ہونا چاہئے جو کائنات میں سرایت کیا ہوا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ کچھ لوگ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ یوجین ویگنر(Eugen Wigner) اس بات سے قائل کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خدا کے وجود کی دلیل ہے یا پھر کسی قسم کے کونیاتی شعور کی۔(ویگنر نے لکھا ،"اصولوں (کوانٹم کے نظریئے) کو مکمل طور پر وضع دار بنانا کونیاتی شعور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔" حقیقت میں اس نے ہندوؤں کی وندانتا کی فلاسفی میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے جہاں پر کائنات میں ہر جگہ شعور سرایت کیا ہوا ہے۔)

تناقض کا ایک اور نقطہ نظر "کثیر جہاں " ہیں جس کو ہو ایو رٹ (Hugh Everett)نے ١٩٥٧ء میں پیش کیا جو کہتا ہے کہ کائنات دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے ، ایک حصّہ میں زندہ بلی موجود ہے جبکہ دوسرے حصّے میں ایک مردہ بلی موجود ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا ایک وسیع متوازی کائناتوں کی شاخیں کسی بھی کوانٹم واقعے کے بعد متواتر بنتی چلی جائیں گی ۔ ہر قسم کی کائنات موجود ہوگی۔ جتنی زیادہ کائنات عجیب ہوگی اس کے ہونے کا امکان اسی قدر کم ہوگا۔ تاہم ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ایسی کائناتیں تو بہرحال موجود ہوں گی۔ اس بات کا یہ مطلب کہ ایک ایسا جہاں بھی ہوگا جہاں جرمن نازیوں نے جنگ عظیم دوئم جیت لی ہوگی یا ایک ایسی دنیا جہاں ہسپانوی بیڑا کبھی بھی شکست نہیں کھائے گا اور سب لوگ ہسپانوی زبان بول رہے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں موجی تفاعل کبھی بھی نہیں ڈھے گا۔ وہ اپنے راستے پر چلتا رہے گا جس کے نتیجے میں ان گنت کائناتیں بنتی رہیں گی۔ جیسا کہ ایم آئی ٹی کے طبیعیات دان ایلن گتھ کہتے ہیں ،"ایک ایسی کائنات بھی ہوگی جہاں ایلوس ابھی تک زندہ ہوگا، اور الگور وہاں کاصدر ہوگا۔" نوبل انعام یافتہ فرینک ولکزیک (Frank Wilczek)کہتے ہیں ،"یہ بات جان کر ہم آسیب زدہ ہو گئے ہیں کہ لامحدود طور تھوڑے سے مختلف ہمارے ہی ہمزاد متوازی کائنات میں رہ رہے ہیں اور ہر لمحے مزید ہمزاد پیدا ہوتے جا رہے ہیں جن میں سے ہر ایک کا مستقبل الگ ہوگا۔"

ایک نقطہ نظر جو طبیعیات دانوں میں آج کل کافی مقبول ہو رہا ہے وہ ہے "ڈی کو ہرنس "ہے۔ یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ یہ تمام متوازی کائنات صرف امکان ہیں ، مگر ہمارا موجی تفاعل ان سے غیر مربوط ہے (یعنی اب وہ اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہا ) لہٰذا وہ ان کے ساتھ تعامل نہیں کر رہا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے کمرے کے اندر ایک ساتھ ڈائنو سارس ، خلائی مخلوق ، قزاقوں ، جل پریوں کے موجی تفاعل کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہ سمجھ رہا ہے کہ ان کی کائنات ہی اصلی ہے مگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔

نوبل انعام یافتہ ا سٹیو وائن برگ کے مطابق ، یہ ایسا ہے کہ جیسے کسی ایک ریڈیو ا سٹیشن کوکسی ملک یا دنیا کے مختلف ریڈیو ا سٹیشنوں میں سے لگائیں۔ مگر آپ ایک وقت میں ایک ہی ریڈیو ا سٹیشن کو لگا سکیں گے۔ وہ دوسرے تمام ریڈیو ا سٹیشن سے غیر مربوط ہو جائے گا۔(مختصراً وائن برگ کے مطابق "کثیر جہاں کا خیال سوائے دوسرے خیالوں کے ایک انتہائی بیہودہ خیال ہے۔")

تو کیا کوئی شیطانی سیارگان کی فیڈریشن کا موجی تفاعل موجود ہے جو کمزور سیاروں کو لوٹ رہا ہے اور اپنے دشمنوں کو ذبح کر رہا ہے ؟ شاید، لیکن اگر ایسا ہوا تو ہم ان کی کائنات سے غیر مربوط ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (پانچواں حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوانٹم کائنات

جب ہو ایو رٹ نے اپنے اس "کثیر جہانوں " کے نظریئے کو دوسرے طبیعیات دانوں سے بیان کیا تو اس کا استقبال ان کی بے یقینی اور سرد مہری نے کیا ۔یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ایک طبیعیات دان برائس ڈ ی وٹ(Bryce DeWitt) اس نظریئے پر یوں معترض ہوا کہ "میں اپنے آپ کو دو لخت ہوتا ہوا محسوس نہیں کرتا۔"یہ بعینہ ایسے ہے کہ جیسے گلیلیو اپنے ان ناقدین کو جواب دیتا تھا جو یہ کہتے تھے کہ وہ زمین کو گھومتا ہوا محسوس نہیں کرتے۔ ایو رٹ نے کہا۔(آخر میں ڈی وٹ ، ایو رٹ سے جیت گیا اور اس نظریئے کی مخالفت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔)

کئی عشروں تک "کثیر جہانوں "کا نظریہ گمنامی کے اندھیرے میں لاچار پڑا رہا۔ اس کا سچا ہونا ہماری فہم سے ماوراء تھا۔ جان وہیلر(John Weeler) ، جو ایورٹ کے پرنسٹن میں مشیر تھے انہوں نے آخر میں نتیجہ اخذ کیا کہ نظریئے کے ساتھ بہت زیادہ بیکار کی چیزیں موجود ہیں۔ اس وقت ایو رٹ کے نظریئے کی اچانک مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طبیعیات دان کوانٹم کے نظریئے کو اس آخری میدان عمل پر اطلاق کرنے کے لئے عمل پیرا ہیں جس نے ابھی تک ان سے کافی مزاحمت کی ہے :یعنی کہ کائنات۔ اصول عدم یقین کا اطلاق پوری کائنات پر کرنے سے آخر میں ہم کثیر کائناتوں کی طرف ہی جا کھڑے ہوں گے ۔

کوانٹم کائنات کا تصوّر پہلی نظر میں ایک تضاد لگتا ہے : کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق تو بے حد چھوٹے ننھے جوہروں کے جہاں پر ہوتا ہے ، جبکہ کونیات تو پوری کائنات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ مگر ذرا اس چیز کو سمجھیں :بگ بینگ کے لمحے ، کائنات ایک الیکٹران سے بھی کافی چھوٹی تھی۔ ہر طبیعیات دان اس بات پر متفق ہے کہ الیکٹرانوں پر کوانٹم کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی کہ ان کو امکانی موجی مساوات(ڈیراک کی مساوات ) کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے جو متوازی حالت میں ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر الیکٹران پر کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق ہو سکتا ہے تو جب کائنات ایک الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی تو اس وقت کائنات کو بھی متوازی حالت میں لازمی طور پر موجود ہونا چاہئے - یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو قدرتی طور پر "کثیر جہانوں " کے مفروضے کی طرف ہی لے جائے گا۔

نیلز بوہر کی کوپن ہیگن کی تاویل کے مطابق جب اس نظریئے کا اطلاق پوری کائنات پر ہوتا ہے تو ان کا مختلف مسائل سے سامنا ہوتا ہے۔ کوپن ہیگن تاویل اگرچہ ہر پی ایچ ڈی کے پروگرام میں پڑھائی جاتی ہے - کوانٹم میکانیات زمین پر ایک ایسے شاہد پر انحصار کرتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں موجی تفاعل منہدم ہو جاتی ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے کا عمل جہاں اکبر کو بیان کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مگر کائنات کے باہر رہ کر کیسے کوئی کائنات کا مشاہدہ کر سکتا ہے ؟ اگر موجی تفاعل کائنات کو بیان کرتا ہے ، تو کیا ایک باہر کا شاہد کائنات کا موجی تفاعل کو منہدم کر دے گا ؟ حقیقت میں کچھ لوگ کائنات کو اس کے باہر سے دیکھنے میں اپنے آپ کو معذور پاتے ہیں جو کوپن ہیگن تاویل کے لئے ایک مہلک بات ہے۔

"کثیر جہانوں " کے مفروضے میں اس مسئلہ کا حل سادہ ہے :کائنات کافی متوازی حالتوں میں موجود ہے ، اور یہ تمام حالتیں ایک آقائی موجی تفاعل سے بیان کی گئیں ہیں جس کو "کائناتی موجی تفاعل" کہتے ہیں۔ کوانٹم کونیات میں کائنات کی شروعات خالی جگہ میں کوانٹم کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوئی ، یعنی جھاگ میں ایک ننھے بلبلے کی شکل میں۔مکان و زمان کے جھاگ میں زیادہ تر نوزائیدہ کائناتیں بگ بینگ سے شروع ہوتی ہیں اور ان کا خاتمہ فوراً ہی عظیم چرمراہٹ ( بگ کرنچ) پر ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو کبھی بھی نہیں دیکھ پاتے کیونکہ وہ انتہائی ننھی ہوتی ہیں اور بہت ہی کم عرصے کے لئے وجود میں آتی ہیں اور خالی جگہ میں ابھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی چیز ان ننھی کائناتوں کے ساتھ ابل نہیں رہی جو وجود میں آتے ہی فنا ہو جاتی ہیں مگر یہ سب کچھ اس قدر صغاری پیمانے پر ہو رہا ہے جس کا سراغ ہمارے آلات لگا نہیں سکتے۔ لیکن کسی وجہ سے مکان و زمان کے جھاگ سے ایک بلبلہ عظیم چرمراہٹ میں منہدم نہیں ہوا اور اس نے پھیلنا جاری رکھا۔ یہ ہماری کائنات ہے۔ ایلن گتھ کے مطابق پوری کائنات ایک مفت کے کھانے کی طرح ہے۔

کوانٹم کونیات میں ، طبیعیات دان شروڈنگر کی مساوات کی مماثلت سے شروع کرتے ہیں جس کا اطلاق الیکٹران اور جوہروں کے موجی تفاعل پر ہوتا ہے۔ وہ ڈیوٹ – وہیلر کی مساوات کا استعمال کرتے ہیں جو کائناتی موجی تفاعل پر لاگو ہوتی ہے۔ عام طور سے شروڈنگر کی موجی تفاعل مکان و زمان کے ہر نقطہ پر بیان کی جا سکتی ہے ، جس کے نتیجے میں آپ الیکٹران کو مکان و زمان کے کسی بھی نقطہ پر تلاش کرنے کا حساب لگا سکتے ہیں۔

تاہم "کائناتی موجی تفاعل" تمام کائناتوں کو بیان کرتا ہے۔ اگر کائناتی موجی تفاعل کسی مخصوص کائنات کو بیان کرتے ہوئے کافی بڑا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات کی کافی امید ہے کہ کائنات اس مخصوص حالت میں موجود ہوگی۔

ہاکنگ اس نقطہ نظر پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے منفرد کائنات ہے۔ ہماری کائنات کا موجی تفاعل کافی بڑا ہے جبکہ دوسری کائناتوں میں یہ صفر کے برابر ہے۔ اس لئے بہت ہی محدود پیمانے پر اس بات کا امکان ہے کہ دوسری کائناتیں کثیر کائناتوں میں وجود رکھ سکتی ہیں لیکن ہماری کائنات کا امکان ان سب میں سب سے زیادہ ہے۔ ہاکنگ نے افراط پذیر کائنات کے نظریئے کو اس طرح سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تصوّر میں دوسری کائناتوں کے مقابلے میں ایک کائنات جو پھیل گئی ہے وہ ہماری پھیلی ہوئی کائنات ہے۔

یہ نظریہ کہ ہماری کائنات مکان و زمان کے جھاگ سے عدم سے وجود میں آئی ہے شاید ایسا نظریہ لگے جس کو آزمایا نہیں جا سکے مگر یہ بات کافی مشاہدات سے ہم آہنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلا مشاہدہ ، کافی طبیعیات دانوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ مثبت اور منفی بار کی کل مقدار ملا کر بالکل صفر ہو جاتی ہے کم از کم تجرباتی درستگی کی حد تک ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات کو بہت ہلکا لیتے ہیں کہ باہری خلاء میں قوّت ثقل کا غلبہ ہے ، یہ اسی وجہ سے ممکن ہو ہے کہ منفی بار اور مثبت بار ایک دوسرے کو زائل کر دیتے ہیں۔ اگر کرۂ ارض پر ذرا سا بھی باروں میں فرق ہوتا تو اس کے نتیجے میں باروں کی قوّت ، کشش ثقل پر غالب آ جاتی جس نے زمین کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے اور نتیجتاً زمین ریزہ ریزہ ہو جاتی۔ ایک سادہ سا طریقہ اس بات کو بیان کرنے کا یہ ہو سکتا ہے کہ کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی تھی اور عدم پر صفر بار تھا لہٰذا مثبت اور منفی بار میں توازن اسی لئے ہے۔

دوسرے ہماری کائنات کا گھماؤ صفر ہے۔ اگرچہ کافی برسوں تک کرٹ گوڈیل اس بات کی کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح سے کہکشاؤں کے گھماؤ کو جمع کرکے کائنات کے گھومنے کو ثابت کر دے ، مگر آج ماہرین فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کا مکمل گھماؤ صفر ہے۔ اس مظہر کو بھی آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے کیونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے اور عدم کا گھماؤ صفر ہوتا ہے۔

تیسرے ہماری کائنات کا عدم سے وجود میں آنا اس بات کو بیان کرنے میں بھی مدد کرتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی مل کر بھی اتنا کم کیوں ہے ، شاید صفر ہو۔ جب ہم مادّے کی مثبت توانائی اور ثقلی قوّت کی منفی توانائی کو جمع کرتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عمومی اضافیت کے نظریئے کے مطابق اگر کائنات بند اور محدود ہے تو کائنات میں موجود تمام مادّہ اور توانائی بالکل صفر ہوگا۔(اگر ہماری کائنات کھلی ہوئی اور لامحدود ہے تو ایسا نہیں ہوگا ، مگر اس کے باوجود افراط پذیر کائنات کے نظریئے کے مطابق ہماری کائنات میں کل ملا کر مادّہ اور توانائی کی مقدار غیر معمولی طور پر کم ہے۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (چھٹا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کائناتوں کے درمیان رابطے ؟

اس نے کچھ وسوسہ انگیز سوالات کا دریچہ کھول دیا ہے : اگر طبیعیات مختلف قسم کی کائناتوں کے وجود کی انکاری نہیں ہو سکتی ، تو کیا یہ بات ممکن ہے کہ ان کے درمیان کوئی رابطہ بھی ہو سکے ؟ان کا سفر بھی کیا جا سکے ؟ یا یہ بھی ممکن ہے کہ شاید کچھ دوسری کائناتی ہستیوں نے ہماری کائنات کا بھی چکر لگایا ہو ؟

ان کوانٹم کائناتوں سے جن سے ہم غیر مربوط ہیں ، ان میں آپس میں رابطہ ہونا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ دوسری کائناتوں سے غیر مربوط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جوہر ہماری آس پاس کی جگہ کے ان گنت جوہروں سے متصادم ہو گئے ہیں۔ جب بھی تصادم ہوتا ہے اس وقت موجی تفاعل منہدم ہو جاتا ہے ، یعنی کہ متوازی کائناتیں کم ہو جاتی ہیں۔ ہر ٹکراؤ امکانات کو کم کر دیتا ہے۔ ان تمام دسیوں کھربوں جوہری "چھوٹی کمی "اس بات کا دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارے جسم کے جوہر مکمل طور پر ایک مخصوص حالت میں ڈھے گئے ہیں ۔ آئن سٹائن کی "معروضی حقیقت "ایک دھوکہ ہے جو اس وجہ سے بنتی ہے کہ ہمارے جسم میں کئی جوہر ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہتے ہیں ، ہر تصادم کے نتیجے میں "ممکنہ کائناتوں کی تعداد "کم ہو جاتی ہے۔

یہ ایک ایسی ہی بات ہے کہ کسی منتشر چیز کو کیمرے کی مدد سے دیکھا جائے۔ یہ جہان اصغر جیسا ہی ہوگا جہاں پر ہر چیز دھندلی اور لامحدود نظر آئے گی۔ ہر دفعہ جب آپ کیمرے کو کسی چیز پر مرتکز کریں گے تو تصویر بہتر سے بہتر ہوتی چلے جائے گی۔ یہ ان دسیوں کھرب ننھے تصادموں کے موافق ہے جو پڑوسی جوہروں کے ساتھ ہو رہا ہے اور ہر تصادم کے نتیجے میں ممکنہ کائناتوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ اس طرح سے ہم آسانی کے ساتھ دھندلے جہان اصغر سے جہان اکبر کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہمارا واسطہ دوسری کوانٹم کائنات سے ہو ، صفر تو نہیں ہے ، لیکن وہ انتہائی تیزی کے ساتھ ہمارے جسموں کے جوہروں کی تعداد کے برابر کم ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے جسم میں دسیوں کھرب جوہر موجود ہوتے ہیں لہٰذا اس بات کا امکان کہ ہم دوسری کائنات جس میں ڈائنو سارس ، یا خلائی مخلوق موجود ہو انتہائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ اس بات کا آسانی سے حساب لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کسی بھی ایسے موقع کو حاصل کرنے کے لئے کائنات کی عمر سے بھی کہیں زیادہ کی عمر درکار ہوگی۔

لہٰذا کوانٹم کائنات سے رابطہ کا یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایسا کوئی رابطہ انتہائی نایاب اور انوکھا واقعہ ہوگا کیونکہ ہم ان سے غیر مربوط ہیں۔ مگر کونیات میں ہم ایک اور قسم کی متوازی کائنات سے ملتے ہیں :ایک کثیر کائناتی دنیا جو دوسری کائناتوں کے ساتھ قائم رہ سکتی ہیں ، جس طرح سے صابن کے بلبلے ایک ٹب میں تیرتے ہیں۔ کثیر کائناتی دنیا میں دوسری کائناتوں سے رابطہ ایک دوسرا سوال ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان میں آپس میں رابطہ کرنا ایک کمال کی بات ہوگی مگر شاید یہ تیسری قسم کی تہذیب کے لئے ممکن ہوگا۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے ، کہ مکان و زمان کے جھاگ میں سوراخ کرنے یا اس کو بڑا کرنے کے لئےپلانک توانائی درکار ہوگی جہاں پر تمام معلوم قوانین طبیعیات کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ مکان و زمان اس توانائی پر غیر پائیدار ہو جاتے ہیں اور اس بات سے ہماری کائنات سے باہر نکلنے کا امکان کھلا رہتا ہے۔(بشرط یہ کہ ہمارے کائنات باقی رہے اور ہم اس عمل میں ہلاک نہ ہو جائیں)۔

یہ کوئی خالص علمی سوال نہیں ہے ، کیونکہ کائنات میں موجود تمام حیات کو ایک دن اس بات کا سامنا کرنا ہے کہ ہماری کائنات کا خاتمہ ہوگا۔ کثیر کائناتوں کا نظریہ ہی آخر کار ہماری کائنات میں پائی جانے والی تمام ذہین مخلوق کی مکتی پانے کا ذریعہ بچتا ہے۔ ڈبلیو میپ سیارچہ جو زمین کے گرد مدار میں چکر لگا رہا ہے اس سے حاصل ہونے والے تازہ اعداد و شمار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کائنات اسراعی شرح سے پھیل رہی ہے۔ ایک دن ہم سب اس واقعہ میں مارے جائیں گے جس کو طبیعیات کی دنیا میں "عظیم انجماد" یا "بگ فریز "کہتے ہیں۔ آخر میں تمام کائنات تاریک ہو جائے گی ، کائنات میں موجود تمام ستارے بجھ جائیں گے اور کائنات میں صرف مردہ ستارے ، نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول ہی باقی رہ جائیں گے۔ یہاں تک کہ ان کے جوہر بھی تنزلی کا شکار ہو رہے ہوں گے۔ درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا جس کے نتیجے میں حیات کا باقی رہنا ممکن نہیں رہے گا۔

کائنات جیسے ہی اس نقطہ پر پہنچے گی ، کوئی بھی جدید تہذیب جو کائنات کو موت کی جانب رواں ہوتے دیکھے گی لازمی طور پر اپنے بچاؤ کے لئے دوسری کائناتوں کی طرف ہجرت کر سکتی ہے۔ ان ہستیوں کے لئے صرف دو موقع ہوں گے یا تو سرد موت کو قبول کر لیں یا اس کائنات کو چھوڑ دیں۔ قوانین طبیعیات تو تمام ذہین مخلوق کے لئے موت کا پروانہ ہیں ، مگر ان قوانین میں بچاؤ کی صورت بھی شامل ہے۔

کسی بھی ایسی تہذیب کو دیوہیکل جوہروں کے تصادم گر اور نظام شمسی جتنی لیزر کی کرن یا پھر ستاروں کے جھرمٹ کی قوّت کو مرتکز کرنا ہوگا اور ان سے پیدا ہوئی طاقت کو قابو کرنا ہوگا تا کہ پلانک توانائی کو حاصل کیا جا سکے۔یہ ممکن ہے کہ ایسے کرنے میں اتنی توانائی مل جائے گی جو کسی ثقف کرم یا دوسری کائنات کے کسی قسم کے دروازے کو کھول دے۔ ممکن ہے کہ ایک قسم III کی تہذیب عظیم توانائی کو اپنے اختیار سے استعمال کرکے کوئی ثقف کرم کو کھول سکے تا کہ وہ دوسری کائنات کی طرف گامزن ہو سکے اس طرح سے وہ مرتی ہوئی کائنات کو چھوڑ کر ایک نئی کائنات میں جا سکے گی جہاں پر وہ اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کر سکے گی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (ساتواں حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تجربہ گاہ میں نوزائیدہ کائنات ؟

یہ سننے میں جتنا نامعقول خیال لگے ،لیکن اس بات کو طبیعیات دان انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بگ بینگ کیسے شروع ہوا تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے بگ بینگ کی شروعات کی تھی ۔ بالفاظ دیگر ہمیں یہ بات پوچھنی ہوگی :کہ آپ نوزائیدہ کائنات کیسے تجربہ گاہ میں بنائیں گے ؟ اسٹن فورڈ یونیورسٹی کے انڈری لنڈے(Andrei Linde) ، جو افراط پذیر کائنات کے نظریئے کے بانیوں میں سے ایک ہیں کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک نوزائیدہ کائنات بنا سکیں ، تو "شاید یہ وقت ہوگا جس میں ہم خدا کو دوبارہ سے سمجھ سکیں کہ وہ اس سے کائنات کی تخلیق سے کہیں زیادہ قدرت رکھتا ہے۔"

یہ خیال نیا نہیں ہے۔ کئی برسوں پہلے جب طبیعیات دانوں نے اس توانائی کا حساب لگایا جو بگ بینگ کے لئے ضروری تھی "لوگ اس بات کو فوراً ہی سوچنے لگے کہ اگر کافی ساری توانائی کو تجربہ گاہ میں ایک جگہ میں بہت ساری توپوں سے داغا جائے تو کیا ہوگا۔ کیا ہم اتنی توانائی کو مرتکز کر سکیں گے جس کے نتیجے میں بگ بینگ شروع ہو سکے ؟"لینڈ ے پوچھتے ہیں۔

اگر آپ کافی توانائی کو کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں گے تو مکان و زمان منہدم ہوتے ہوئی بلیک ہول کو جنم دیں گے اس سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ مگر ١٩٨١ء میں ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور لینڈ ے نے "افراط پذیر کائنات کا نظریہ پیش کیا ۔ جو اس وقت سے طبیعیات دانوں کی زبردست دلچسپی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق بگ بینگ ایک بہت ہی زیادہ قوّت والے پھیلاؤ سے شروع ہوا اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ ہم پہلے سمجھتے تھے۔(افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کونیات کے کافی ضدی مسائل کو حل کر دیا ہے ، جیسا کہ کائنات بڑے پیمانے پر اتنی یکساں کیوں دکھائی دیتی ہے۔ ہر جگہ ہم جہاں سے بھی دیکھیں ، آسمان کے ایک کونے سے یا اس کے دوسرے مخالف کونے سے ، ہمیں کائنات یکساں دکھائی دیتی ہے ، اگرچہ ان وسیع دور ہوتے اجسام میں بگ بینگ کے وقت سے لے کر اب تک زیادہ وقت بھی نہیں گزرا۔ افراط پذیر کائنات کے مطابق اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک ننھا مکان و زمان کا حصّہ جو نسبتاً یکساں تھا پھٹ کر ایک دم سے نظر آنے والی کائنات میں تبدیل ہو گیا تھا۔) افراط پذیر کائنات کو شروع کرنے کے لئے گتھ نے اس بات کو فرض کیا کہ وقت کے آغاز میں مکان و زمان کے ننھے بلبلے موجود تھے جس میں سے ایک اس قدر افراط پذیر ہوا کہ وہ آج کی کائنات بن گیا۔

ایک ہی ہلے میں افراط پذیر کائنات کے نظریئے نے کافی سارے کونیاتی سوالات کے جواب دے دیئے۔ مزید براں یہ کہ یہ نظریہ ان مشاہداتی اعداد و شمار سے میل کھاتا ہے جو ہمیں خلائے بسیط سے ڈبلیو میپ اور کوبی سیارچوں سے حاصل ہوئے ہیں۔ حقیقت میں بگ بینگ نظریہ کے لئے یہ بغیر شرکت امیدوار ہے۔

اس کے باوجود افراط پذیر کائنات نے ناقابل یقین سوالوں کے سلسلوں کو جنم دیا ہے۔ یہ بلبلہ کیوں پھیلنا شروع ہوا ؟کس چیز نے افراط پذیر کائنات کو روک کر دور حاضر کی کائنات کے قلب میں ڈھالا ؟ افراط پذیر ی اگر ایک دفعہ ہوئی ہے تو کیا دوسری مرتبہ بھی وقوع ہو سکتی ہے ؟ حیرت انگیز طور پر اگرچہ افراط پذیر کائنات کا نظریہ کونیات کی دنیا میں سب سے قابل قبول ہے مگر اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا کہ افراط پذیری کو شروع کس نے کیا اور یہ کیوں رک گئی ۔

ان پریشان کر دینے والے سوالات کا جواب دینے کے لئے ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ اور ایڈورڈ فہری(Edward Fahri) نے مزید قیاسی سوالات اٹھائے : کوئی جدید تہذیب کس طرح سے اپنی کائنات کو پھیلا سکتی ہے ؟ ان کو یقین ہے کہ اگر وہ اس سوال کا جواب دینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اور گہرے سوالات کے جواب دینے کے قابل ہو سکیں گے جیسے کہ کائنات افراط کے نتیجے میں کیوں شروع ہوئی۔

انہوں نے اس بات کو دریافت کیا کہ اگر آپ کافی زیادہ توانائی کسی ایک نقطہ پر مرتکز کریں تو ننھے مکان و زمان کے بلبلے خود سے پیدا ہونے لگیں گے۔ لیکن اگر بلبلے بہت زیادہ ننھے ہوئے تو وہ مکان و زمان کے جھاگ میں غائب ہو جائیں گے۔ صرف اس صورت میں ہی بلبلے ایک پوری کائنات بن کر پھیلیں گے جب وہ کافی بڑے ہوں گے۔

باہر سے ایسی کسی بھی کائنات کی پیدائش کچھ زیادہ نہیں لگے گی ، شاید ایک ٥٠٠ کلو ٹن کے نیوکلیائی طاقت کے بم کے پھٹنے جتنی اس کی توانائی ہوگی۔ وہ صرف ایسے ہی لگے گی کہ جیسے صرف ایک چھوٹا سا بلبلہ کائنات سے غائب ہو گیا ہے اور اپنے پیچھے ایک چھوٹا سا نیوکلیائی دھماکہ چھوڑ گیا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ بلبلے کے اندر ایک پوری نئی کائنات پھیل رہی ہو۔ صابن کے ان بلبلوں کا سوچیں جو دو بلبلوں یا چھوٹے بلبلوں میں بدل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک نیا بلبلہ بن جاتا ہے۔ چھوٹا بلبلہ ہو سکتا ہے کہ یکدم سے پھیلتی ہوئی کائنات بن جائے۔ اسی طرح سے کائنات کے اندر آپ ایک زبردست دھماکہ مکان و زمان میں دیکھیں گے جس کے نتیجہ میں ایک پوری کائنات بن جائے گی ۔

١٩٨٧ء سے کافی سارے نظریئے پیش کیے گئے جس میں یہ دیکھا گیا کہ آیا توانائی کو داخل کرکے کوئی بڑا بلبلا بنا یا جا سکتا ہے جو پھیل کر پوری کائنات میں بدل جائے۔ سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ یہ ہے کہ ایک نیا ذرّہ جس کا نام "انفلا ٹون "ہے وہ مکان و زمان کو غیر پائیدار کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بلبلے بنتے اور پھیلتے ہیں۔

حالیہ تنازع اس وقت ٢٠٠٦ء میں پھوٹ پڑا جب ایک نئی تجویز آئی کہ ایک یک قطبی کے ساتھ ننھی کائنات بنائی جائے۔ اگرچہ یک قطبی جن پر صرف شمالی یا جنوبی قطب موجود ہوں کبھی بھی نہیں دیکھے جا سکے ہیں ، پھر بھی اس بات پر یقین رکھا جاتا ہے کہ ان کی حکمرانی ابتدائی کائنات پر تھی۔ وہ اس قدر ضخیم ہوتے ہیں کہ ان کو تجربہ گاہ میں بننا قریب قریب ناممکن ہی ہے ، اور درستگی کے ساتھ اگر ہم مزید توانائی اس یک قطبی میں ڈالیں تو شاید ہم ایک ایسی ننھی کائنات کو جگا دیں جو پھیلتی ہوئی نئی حقیقی کائنات میں بدل جائے گی۔ طبیعیات دان کیوں ایک ننھی کائنات بنانا چاہتے ہیں ؟لینڈ ے پوچھتے ہیں ،"اس کے مطابق ہم میں سے ہر ایک خدا بن سکتا ہے۔" مگر ایک نئی کائنات کو بنانے کی خواہش میں اس سے زیادہ ایک اور عملی توجیہ ہے: اپنی کائنات کی موت سے پہلے اس سے فرار۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (اٹھواں اورآخری حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کائنات کا ارتقاء
کچھ طبیعیات دانوں نے اس خیال کویہ پوچھ کر سائنسی قصصی دنیا کی حد تک اور آگے بڑھایا ہے کہ کیا ہماری کائنات کو بنانے میں کوئی شعور کار فرما رہا ہے۔

گتھ / فہری کے مفروضے میں کوئی بھی جدید تہذیب ننھی کائنات کو بنا سکتی ہے مگر طبیعیاتی مستقل (جیسا کہ الیکٹران اور پروٹون کی کمیت اور چاروں قوّتوں کی طاقت ) وہ ہی رہے گی۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا کہ جب جدید تہذیب ایک ایسی ننھی کائنات بنا لے جو بنیادی مستقلات سے تھوڑا سا ہٹ کر ہو؟ تو ننھی کائنات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوگی ، اور ہر نئی کائنات کی نسل پچھلے کائنات کی نسل سے مختلف ہوگی۔

اگر ہم بنیادی مستقلات کو کائنات کا ڈی این اے سمجھیں ، تو اس کہ مطلب ہوگا کہ ذہین حیات ننھی کائناتوں کو تھوڑے سے مختلف ڈی این اے کے ساتھ بھی بنا سکتی ہوں گی۔ کائنات کا ارتقاء ہوگا اور بچہ خیز کائنات وہ ہوگی جس کا ڈی این اے سب سے بہتر طریقے سے ذہین حیات کو پھلنے پھولنے میں مدد کرے گا۔ طبیعیات دان ایڈورڈ ہیرسن (Edward Harrison)، لی سمولین(Lee Smolen) کے پرانے مفروضہ کو بنیاد بنا کر ایک تجویز کائناتوں کے درمیان "قدرتی چناؤ " پیش کرتے ہیں۔ وہ کائنات جو کثیر کائناتوں میں اپنا غلبہ رکھتی ہے وہ اس سب سے بہتر ڈی این اے سے بنی ہوتی ہے جو اس تہذیب سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اسے تخلیق کیا ہے جو پھر سے مزید ننھی کائناتیں بنائی گی۔

بقائے اہل کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا بقاء ہوگا جو جدید تہذیب کو پنپنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ کائنات کے بنیادی مستقلات حیات کو پروان چڑھانے کے لئے اس قدر درست کیوں ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوگا کہ وہ کائناتیں جن میں بنیادی مستقلات حیات سے مطابقت رکھتے ہیں وہ ان کثیر کائناتوں میں زیادہ پھلیں اور پھولیں گی۔

(اگرچہ یہ ارتقائی کائناتوں کا خیال پرکشش ہے کیونکہ یہ بشری اصول کے مسئلہ کو حل کرتا ہے ، مگر اس خیال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو جانچا نہیں جا سکتا اور یہ ناقابل تصدیق ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس خیال کو سمجھیں ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک ہمارے پاس ہر شئے کے نظریئے کا نظریہ نہیں آ جاتا۔)

ان متوازی کائناتوں کو ظاہر کرنے کے لئے ابھی تو ہماری ٹیکنالوجی بہت ہی ابتدائی قسم کی ہیں۔ لہٰذا یہ سب جماعت II میں ہی زمرہ بند ہونے کے اہل ہیں۔ یعنی وہ ناممکنات جو آج تو ناممکن ہیں مگر طبیعیات کے قوانین کے خلاف نہیں ہیں۔ ہزار سے لے کر دسیوں لاکھ سال تک یہ پیشن گوئیاں ہو سکتا ہے کہ تہذیب III کی نئی ٹیکنالوجی کی بنیا د بنیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (پہلا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
نظریوں کی قبولیت کے چار مراحل ہوتے ہیں :

i. یہ بالکل بیکار ہے ، فضول ؛
ii. یہ دلچسپ ہے ، مگر ٹھیک نہیں ہے؛
iii. یہ سچ ہے ، مگر اہم نہیں ہے؛
iv. میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں۔

- (جے بی ایس ہیلڈ ن ، ١٩٦٥ء )

آئزک ایسی موف کے کلاسک ناول "دی گاڈ دیم سیلو ز" میں ایک گمنام کیمیا دان حادثاتی طور پر ٢٠٧٠ء میں اپنے وقت کی سب سے عظیم ایجاد کر بیٹھتا ہے، وہ ایک ایسا الیکٹران پمپ ایجاد کر لیتا ہے جو لامحدود توانائی مفت میں پیدا کرتا ہے ۔ اس ایجاد کا اثر فوری اور بہت ہی گہرا ہوتا ہے ۔ اس کیمیا دان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس کو تاریخ کا عظیم سائنس دان گردانا جاتا ہے کیونکہ اس نے تہذیب کی توانائی کی پیاس کو بجھایا تھا۔ "وہ پوری دنیا کا سانتا کلاز اور الہ دین کا چراغ تھا۔ "ایسی موف نے لکھا۔ اس کی بنائی ہوئی کمپنی جلد ہی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک بن جاتی ہے جو تیل، گیس ، کوئلے اور نیوکلیائی صنعتوں کے کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دیتی ہے ۔

دنیا اس مفت کی توانائی کے نشے میں ڈوب جاتی ہے اور تہذیب اس نئی ملنے والی طاقت کے نشے سے سرشار ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کارنامے کی خوشی منانے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ صرف ایک اکیلا طبیعیات دان ہی اس بات سے پریشان رہتا ہے ۔"یہ مفت کی توانائی کہاں سے آ رہی ہے؟" وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے ۔ آخر میں وہ یہ راز جان ہی جاتا ہے ۔ مفت کی توانائی ایک ہولناک قیمت کے بدلے میں مل رہی ہوتی ہے ۔ یہ توانائی خلاء میں ایک سوراخ میں سے آ رہی ہوتی ہے جو ایک متوازی کائنات سے جڑا ہوا ہوتا ہے ، اور پھر اچانک ہی توانائی کا سیلاب ہماری کائنات میں ایک زنجیری عمل شروع کر دیتا ہے ۔ نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں تباہ ہو جاتی ہیں اور سورج ایک سپرنووا میں بدل جاتا ہے اور یوں وہ زمین کے ساتھ ہی تباہ ہو جاتا ہے ۔

جب سے تاریخ لکھی گئی ہے ، موجدوں، سائنس دانوں کے مقدس جام جبکہ عطائیوں اور دھوکے بازوں کے افسانوں میں" جاودانی حرکی مشین "کا ذکر ملتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو توانائی کو ضائع کئے بغیر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک بہتر ورژن ایک ایسا آلہ بھی ہوتا ہے جو اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے جو وہ استعمال کرتا ہے ، جیسا کہ الیکٹران پمپ تھا ، جو مفت کی لامحدود توانائی پیدا کرتا تھا۔

آنے والے وقتوں میں جب ہماری صنعتی دنیا سے بتدریج سستا تیل ختم ہو جائے گا تو صاف توانائی کے وافر ذرائع کو ڈھونڈھنے پر کافی دباؤ ہوگا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، گرتی ہوئی پیداوار ، بڑھتی ہوئی آلودگی ، ماحولیاتی تبدیلیاں سب کے سب قابل تجدید توانائی کی کھوج میں دلچسپی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج چند موجد اس لہر پر سوار ہو کر لامحدود مفت کی توانائی کی امید دلا رہے ہیں اور اپنی ان ایجادوں کو سینکڑوں لاکھوں کی تعداد میں بیچنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مختلف موجد سامنے آتے رہتے ہیں جو سنسنی خیز دعوے کر کے ذرائع ابلاغ میں اکثر اگلے ایڈیسن کہلاتے ہیں۔

دائمی حرکی مشین کی شہرت چار دانگ پھیلی ہوئی ہے۔ دی سمسنز کی ایک قسط جس کا عنوان "دی پی ٹی اے ڈس بینڈ " تھا ، اس میں لیزا استادوں کی ہڑتال کے دوران اپنی ایک دائمی حرکی مشین بناتی ہے۔ اس وجہ سے ہومر سختی سے اس بات کا اعلان کرتا ہے ،" لیزا یہاں آؤ۔۔۔اس گھر میں ہم حر حر کیات کے قوانین کو مانتے ہیں !"

ایک کمپیوٹر کے کھیل دی سمز ، زینو ساگا قسط Iاور II اور الٹیما IV: دی فالس پروفیٹ ،میں اور نکلوڈین کے پروگرام "انویڈر زم "، میں دائمی حرکی مشینوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیکن اگر توانائی اتنی قیمتی ہے ، تو پھر اس بات کی کیا امید ہے کہ کوئی دائمی حرکی مشین بنائی جا سکے ؟کیا ایسا آلہ بنانا واقعی ناممکن ہے ،یا ان کے بنانے میں ہمیں طبیعیات کے قوانین پر نظر ثانی کرنا پڑے گی ؟


توانائی تاریخ کے آئینے میں

توانائی کسی بھی تہذیب کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ دراصل انسانی تاریخ کو توانائی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔٩٩۔٩ فیصد انسانی وجود، قدیمی سماج خانہ بدوش تھے ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے خوراک کے لئے شکار کرتے تھے۔ ان کی زندگی وحشیانہ اور مختصر تھی۔ ہمارے پاس جو توانائی اس وقت موجود تھی وہ ایک ہارس پاور کے بیسواں حصّہ تھی یعنی کہ ہمارے پٹھوں کی طاقت۔ ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیوں کے تجزیہ سے زبردست ٹوٹ پھوٹ کے واضح ثبوت ملے ہیں ، جو روز مرہ زندگی میں جدوجہد کے نتیجے میں واقع ہوئے تھے۔ اوسط عمر ٢٠ سال سے بھی کم تھی۔

مگر آخری برفانی دور کے خاتمے کے بعد جو دس ہزار سال قبل پہلے ختم ہوا تھا ، ہم نے زراعت اور پالتو جانوروں کے طریقوں کو دریافت کر لیا تھا ، خاص طور پر گھوڑے کو ، جس کے نتیجے میں بتدریج ہماری توانائی ایک ہارس پاور سے دو ہارس پاور تک بڑھ گئی۔ اس سے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انقلاب آنے کی شروعات ہوئی۔ گھوڑے اور بیل سے ایک آدمی کے پاس اتنی توانائی آ جاتی تھی کہ وہ پورے میدان میں حل چلا سکے ، دس میل کا سفر ایک دن میں کر سکے اور سینکڑا ہا پونڈ وزنی چٹانوں یا غلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے۔ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے پاس زائد توانائی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے شہروں کی بنیاد پڑی۔ زائد توانائی کا مطلب تھا کہ سماج فنکاروں ، ماہرین تعمیرات اور کاتب نویسوں کو پالنے کے قابل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں قدیمی سماج پھلے پھولے۔ جلد ہی عظیم سلطنتیں اور اہرام جنگلوں سے نمودار ہونے لگے۔ اوسط زندگی ٣٠ سال تک کی ہو گئی۔

اس کے بعد ٣٠٠ برس پہلے انسانی تاریخ میں دوسرا عظیم انقلاب برپا ہوا۔ مشین اور بھاپ کی آمد کے ساتھ ہی ایک انسان کے پاس توانائی کی مقدار دسیوں ہارس پاور تک ہو گئی۔ بھاپ کے انجن کی توانائی کو قابو میں لا کر لوگ اب پورے کے پورے براعظموں کو چند دنوں میں پار کرنے لگے۔ مشینیں اب پورے کے پورے میدانوں میں ہل چلا سکتی تھیں ، سینکڑوں لوگوں کو ہزاروں میل کی دوری تک لے جا سکتی تھیں اور ہم اس قابل ہو سکے کہ بلند و بالا عمارتوں والے شہروں کو بنا سکیں۔ انیسویں صدی تک ایک امریکی کی اوسط عمر لگ بھگ ٥٠ برس کے پہنچ گئی تھی ۔

آج ہم انسانی تاریخ کے تیسرے عظیم انقلاب یعنی کہ اطلاعاتی انقلاب کے دوراہے پر موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ، بجلی اور طاقت کی حرص نے ہماری توانائی کی ضرورت کو آسمان سے باتیں کرنے والا بنا دیا ہے اور ہماری اضافی توانائی بہت ہی قلیل مقدار میں رہ گئی ہے۔ اب کسی بھی فرد کے لئے موجود توانائی کو ہزار ہا ہارس پاور میں ناپا جاتا ہے۔ ہم ایک کار جو ہزار ہا ہارس پاور کی ہوتی ہے اس کو یوں ہی ایک عام سے انداز میں لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ توانائی کی اس بڑھتی ہوئی طلب نے توانائی کے عظیم ذرائع میں دلچسپی کو یکدم بڑھا دیا ہے اور ان ذرائع میں دائمی حرکی مشین بھی شامل ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (دوسرا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دائمی حرکی مشین تاریخ کے آئینے میں

دائمی حرکی مشین کی تلاش ایک قدیمی تلاش ہے۔ لکھی ہوئی تاریخ میں سب سے پہلی کوشش دائمی حرکی مشین کو بنانے کی بویریا (Bavaria) میں آٹھویں صدی میں شروع ہوئی۔ یہ اس ابتدائی مشین کا نمونہ تھی جس کی سینکڑوں مختلف قسموں نے آنے والے ایک ہزار برس میں بننا تھا ، یہ چھوٹے مقناطیسی سلسلوں پر مبنی تھی جو ایک پہیے سے منسلک تھے جیسا کہ فیرس کا پہیہ(Ferris Wheel)۔ یہ پہیہ زمین پر رکھے ہوئے ایک بڑے مقناطیس کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی پہیہ پر رکھا ہوا مقناطیس ساکن مقناطیس کے اوپر سے گزرتا تھا ، تو پہلے اس کو بڑا مقناطیس کھینچتا تھا اور پھر دفع کرتا تھا، جس کے نتیجے میں پہیے کو دھکا ملتا اور دائمی حرکت پیدا ہوتی۔

ایک اور اختراعی نمونہ ١١٥٠ء میں ہندوستانی فلاسفر بھشکارا نے بنایا، اس نے ایک ایسے ہمیشہ چلنے والے پہیہ کی تجویز پیش کی تھی جس کے بیرونی گھیرے پر وزن کو لگا دیا جائے، کیونکہ اس طرح سے پہیہ غیر متوازن ہو کر گھومنے لگے گا۔ وزن سے اس طرح سے کام لیا جا سکے کہ وہ چکر کو پیدا کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آ جائے گا۔ بھشکارا کے دعوے کے مطابق اس بات کو دہرا کر کوئی بھی لامحدود کام مفت میں کروا سکتا ہے۔

بویرین اور بھشکارا دونوں کےدائمی حرکی مشین کے نمونوں میں اور ان کے بعد اسی طرح کے کئی اور چیزوں میں ایک چیز قدر مشترک تھی :کسی بھی قسم کا ایک پہیہ جو بغیر کسی توانائی کو خرچ کئے بغیر ایک چکر لگا لیتا تھا اور نتیجے میں فائدہ مند توانائی پیدا کرتا تھا ۔(احتیاط سے ان اختراعی مشینوں کی جانچ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں ہر چکر میں توانائی ضائع ہی ہوتی ہے یا اس سے کوئی مفید کام نہیں لیا جا سکتا۔)

نشاط الثانیہ کے دور میں دائمی حرکی مشین کی تجویز میں اسراع پیدا ہوئی۔ ١٦٣٥ء میں سب سے پہلا پیٹنٹ ایک دائمی حرکی مشین کو دیا گیا۔ ١٧١٢ء میں جوہان بیسسلر (Johann Bessler)نے کچھ تین سو کے قریب مختلف نمونوں کا تجزیہ کیا اور ایک اپنا بھی نمونہ تجویز کیا۔( ایک قصّے کے مطابق ، اس کی ماسی نے بعد میں اس کی بنائی ہوئی مشین کو دھوکہ ثابت کر دیا تھا۔) نشاط الثانیہ کے عظیم مصوّر اور سائنس دان لیونارڈو ڈ ا ونچی بھی دائمی حرکی مشین میں دلچسپی لی تھی۔ اگرچہ اس نے عوام کے سامنے اس کی مخالفت کی تھی ، اور اس کا مقابلہ اس فضول تلاش سے کیا تھا جس میں لوگ پارس پتھر کو تلاش کرتے تھے ، اس کے باوجود خلوت میں اس نے بہت ہی اختراعی نوعیت کے خاکے اپنی کتاب میں بنائے ہوئے تھے جس میں خود سے دھکیلنے ، دائمی حرکی مشین ، کے خاکے بھی تھے۔ اس میں ایک مرکز گریز پمپ اور ایک چمنی کا جھنڈا استعمال کرکے بھٹی کے اوپر ایک سیخ خود بخود آ جاتی تھی ۔

١٧٧٥ء میں اس قدر نمونے تجویز کیے گئے تھے کہ پیرس کی رائل اکیڈمی آف سائنس کو مجبوراً اس بات کا اعلان کرنا پڑا کہ "وہ دائمی حرکی مشین کا مزید کوئی بھی نمونہ قبول نہیں کرے گی۔"

آرتھر او رڈ –ہیوم (Arthur Ord-Hume) ، جو دائمی حرکی مشین کے ایک مورخ تھے وہ ان انتھک محنت کرنے والے موجدوں کے لاحاصل کام سے بے لوث لگن کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کا موازنہ قدیمی کیمیا دانوں سے کرتے ہیں۔ وہ درج کرتے ہیں "کیمیا دان بھی۔۔۔۔جانتے تھے کہ ان کو کب ہارنا ہے۔"

فریبی اور دھوکے باز

دائمی حرکیمشین کا پس پردہ محرک اتنا عظیم تھا کہ چکمے باز اور دھوکے بازوں کی چاندی ہو گئی تھی ۔١٨١٣ء میں چارلس ریڈہیفر (Charles Redheffer) نے نیویارک شہر میں ایک ایسی مشین کی نمائش کی جس نے لامحدود توانائی پیدا کرکے تماش بین کو حیران کر دیا تھا۔ (مگر جب رابرٹ فلٹون (Robert Fulton) نے اس مشین کا احتیاط کے ساتھ معائنہ کیا تو اسے ایک مخصوص تار سے بنی ہوئی پٹی، مشین کو چلاتی ہوئی نظر آئی۔ یہ تار ایک چھپے ہوئے آدمی سے جڑی ہوئی تھی جو ایک خمیدہ بالا خانے میں موجود تھا۔)

سائنس دان اور انجنیئر بھی دائمی حرکی مشین میں غلطاں اور پیچاں تھے۔ ١٨٧٠ء میں سائنٹفک امریکن کے مدیر کو ای پی ولیز(E.P. Willis) نے ایک مشین بنا کر بے وقوف بنا دیا۔ اس رسالے نے اس خبر کو یوں شہ سرخی بنایا "اب تک کی ہونے والی عظیم دریافت۔" کچھ عرصے بعد ہی تفتیش کاروں نے اس بات کو کھوج لیا کہ ایک چھپا ہوا توانائی کا ذریعہ ولیز کی دائمی حرکی مشین میں موجود تھا۔

١٨٧٢ء میں جان ارنسٹ وہریل کیلی (John Ernst Worrel Kelly) اس دور کا سب سے سنسنی خیز اور منفعت بخش دھوکا دینے کا مرتکب ہوا ، اور فریب سے سرمایہ کاروں کے ٥٠ لاکھ ڈالر ہڑپ کر گیا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر میں ایک ایسی رقم سمجھی جاتی تھی جو بادشاہوں اور شہزادوں کے پاس ہی ہوتی تھی۔ اس کی دائمی حرکی مشین کی بنیاد سر ملائے کانٹوں کی گمگ تھی جو "ایتھر "سے جڑے ہوئے تھے۔ کیلی ایک ایسا شخص تھا جس کو سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ، اس نے امیر سرمایہ داروں کو اپنے گھر بلایا جہاں پر اس نے انھیں اپنی ہائیڈرو-نیومیٹک -پلسیٹنگ واکو –انجن کو دکھا کر حیران کر دیا جو اپنے گرد بغیر کسی توانائی کے ذرائع سے چلتی تھی ۔ مشتاق سرمایہ کار اس خود کار چلنے والی مشین میں سرمایہ لگانے کے لئے بیتاب تھے۔

کچھ عرصے بعد دھوکا کھائے ہوئے غیض و غضب سے بھرے ہوئے سرمایہ داروں نے اس پر الزام لگا دیا اور اس نے کچھ عرصہ جیل میں بھی گزارا۔ بہرحال وہ ایک امیر آدمی کے طور پر ہی مرا۔ اس کے مرنے کے بعد تفتیش کاروں نے اس کی مشین کا چھپا ہوا راز دریافت کر لیا۔ جب اس کے گھر کو گرایا گیا تو مخفی نلکیاں تہ خانے کے فرش اور دیواروں میں پائی گئیں جو خفیہ طریقے سے دبی ہوئی ہوا کو اس کی مشین میں داخل کرتی تھیں۔ ان نلکیوں کو توانائی ایک گھومتے پہلے سے ملتی تھی۔

یو ایس بحریہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر بھی اس مشین سے مرعوب تھے۔ ١٨٨١ء میں جان گیمگی (John Gamgee)نے ایک مائع امونیا سے چلنے والی مشین کو بنایا۔ ٹھنڈی امونیا کی تبخیر پھیلتی ہوئی گیسوں کو پیدا کرتی تھی جو پسٹن کو حرکت دینے میں استعمال کی جاتی تھی اور اس طرح سے صرف سمندروں کی حرارت سے وہ مشین کو چلاتی تھی۔ یو ایس بحریہ نے غیر محدود توانائی کو اس طرح سے سمندر سے حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہو کر ایک ایسے آلے کو بنانے کی منظوری دے تھی بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ اس کا نظارہ اس وقت کے صدر جیمز گارفیلڈ(James Garfield) کو بھی کروایا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ بخارات کثیف ہو کر دوبارہ مائع نہیں بن رہے تھے ، جس کی وجہ سے چکر پورا نہیں ہو پا رہا تھا۔

یو ایس پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے دائمی حرکی مشین کی تجاویز ات کی بہتات کو دیکھتے ہوئے کسی بھی پیٹنٹ کو اس وقت تک دینے سے انکار کر دیا جب تک اس کا کام کرتا ہوا نمونہ نہیں دکھایا جاتا۔ بہت ہی کم موقعوں پر ایسا ہوتا کہ جب پیٹنٹ کو جانچنے والا کوئی بظاہر غلط چیز اس نمونے کے ساتھ نہیں پاتا تھا تو اس کے بعد ہی اس نمونے کو پیٹنٹ دے دی جاتی تھی۔ پیٹنٹ آفس کہتا ہے "دائمی حرکی مشین کے علاوہ ،عام طور سے آفس کو کسی نمونے کی ضرورت نہیں ہوتی جو اس آلے کو چلا کر دکھا سکے۔" (اس نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ایمان موجدوں نے سادے سرمایہ کاروں کو خوب بے وقوف بنا کر اپنی ایجادات کے لئے پیسے بٹورے کہ یو ایس پیٹنٹ آفس نے ان کی مشین کو باضابطہ طور پر منظور کر لیا ہے۔)

سائنسی نقطہ نظر سے دائمی حرکی مشین کی کھوج بہرحال بیکار نہیں گئی، وقت اور توانائی جو اس قسم کی مشینوں کو بنانے میں استعمال ہوئی اس سے طبیعیات دانوں کو تفصیل کے ساتھ حرارتی انجنوں کی جزئیات کو دیکھنے کا موقع ملا۔(بعینہ جیسے کیمیا دانوں کی پارس پتھر کی بے ثمر تلاش نے کیمیا کے کچھ بنیادی قوانین کو دریافت کیا تھا۔ پارس ایک ایسا تصوّراتی پتھر تھا جو سیسے کو سونے میں بدل سکتا تھا)۔

مثال کے طور پر ١٧٦٠ء میں جان کاکس (John Cox)نے ایک ایسی گھڑی بنائی جو اصل میں ہمیشہ چل سکتی تھی، جس کو توانائی ماحول میں ہونے والی تبدیلی سے ملتی تھی۔ ہوا کے دباؤ میں تبدیلی ایک بیرومیٹر کو چلاتا تھا جو گھڑی کی سوئیوں کو حرکت دیتا تھا۔ گھڑی نے نا صرف حقیقت میں کام کیا بلکہ وہ اب بھی موجود ہے۔ یہ گھڑی ہمیشہ چل سکتی ہے کیونکہ یہ توانائی کو باہری ذریعہ سے یعنی ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلی سے حاصل کرتی ہے۔

کاکس کی دائمی حرکی مشین کی طرح جیسی مشینوں نے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے میں مدد دی کہ ایسی کوئی بھی مشین ہمیشہ چل سکتی ہے بشرط یہ کہ اس میں باہر سے توانائی کو ڈالا جائے یعنی کہ پوری توانائی محفوظ ہو۔ اس نظرئیے نے حر حرکیات کا پہلا اصول مرتب کیا کہ مادّے اور توانائی کی کل مقدار کو پیدا یا فنا نہیں کیا جا سکتا۔ آخرکار حر حرکیات کے تین اصول وضح کر لئے گئے۔ دوسرا اصول اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ناکارگی (بے ترتیبی )کی کل مقدار ہمیشہ بڑھے گی۔(یوں سمجھ لیں کہ یہ قانون کہتا ہے کہ حرارت اچانک صرف گرم ترین یا سرد ترین جگہوں سے ہی خود سے اچانک نکلتی ہے۔) تیسرا قانون کہتا ہے کہ آپ کبھی بھی مطلق صفر درجہ حرارت تک نہیں پہنچ سکتے۔

اگر ہم کائنات کا مقابلہ ایک کھیل سے کریں اور اس کھیل کا مقصد توانائی کو حاصل کرنا ہو تو ان تین اصولوں کو ایسے بیان کیا جا سکتا ہے :
"آپ کوئی بھی چیز عدم سے حاصل نہیں کر سکتے۔" (پہلا اصول )
"آپ اس کو توڑ بھی نہیں سکتے۔" (دوسرا اصول )
"آپ کھیل کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔" (تیسرا اصول )
(طبیعیات دان انتہائی محتاط ہو کر یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق ہر دور میں مطلق طور پر ہو۔ اس بات سے قطع نظر ابھی تک ان سے انحراف نہیں ملا۔ کوئی بھی شخص جو ان قوانین کو رد کرنے کو کوشش کرے گا اس کو صدیوں پر محیط انتہائی احتیاط سے کیے ہوئے تجربات کو باطل ثابت کرنا ہوگا۔ ہم ان قوانین کے ممکنہ انحراف کو تھوڑی ہی دیر میں آگے بیان کریں گے۔)

یہ قوانین انیسویں صدی کے سائنسی شاہکار ہیں جن پر فتح و المیے کے نشان ثبت ہیں۔ ایک اہم شخصیت جنہوں نے ان قوانین کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا یعنی کہ جرمن طبیعیات دان لوڈ وگ بولٹز مین (Ludwig Boltzmann) نے اپنے ان بنائے ہوئے قوانین کے تنازع کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (تیسرا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
لوڈوگ بولٹزمین اور ناگارگی

بولٹزمین ایک پستہ قد ، پچکی ہوئی پسلیوں کے ساتھ ایک منحنی سا آدمی تھا جس کی جھاڑ جھنکار جیسی داڑھی تھی۔ اس کی ہیبت ناک اور تندخو شخصیت ان زخموں پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی جو اسے اپنے خیالات و افکار کی حفاظت کرنے میں لگے تھے۔ اگرچہ نیوٹنی طبیعیات اچھی طرح سے انیسویں صدی میں اپنی جڑیں پکڑ چکی تھی ، بولٹزمین یہ جانتا تھا کہ ان قوانین کا اطلاق ان متنازعہ جوہروں پر نہیں کر کے دیکھا گیا ہے ، ایک ایسا نظریہ جو کئی چوٹی کے سائنس دانوں کو قابل قبول نہیں تھا۔(ہم اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ایک صدی قبل تک ہی سائنس دانوں کا ایسا جم عفیر موجود تھا جو اس بات پر بضد تھے کہ جوہر صرف ایک چالاک داؤ ہے اور اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جوہر ناقابل تصوّر طور پر ننھے ہوتے ہیں کہ ان کا وجود ممکنہ طور پر ہو ہی نہیں سکتا ۔)

نیوٹن نے ثابت کیا کہ بد روحیں یا خواہشات نہیں بلکہ اصل میں تو یہ میکانکی قوّتیں ہوتی ہیں جو اجسام کو حرکت دیتی ہیں ۔ بولٹزمین نے انتہائی نفاست سے گیسوں کے کئی قوانین کو ایک سادے سے مفروضہ کی بنیاد پر حاصل کیا : گیسیں چھوٹی بلیرڈ کی گیندوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور نیوٹن کے قوانین کے تابع ہوتی ہیں۔ بولٹز مین کے لئے ایک گیس کا خانہ ایسا ہے جو دسیوں کھرب ا سٹیل کی ننھی گیندوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے ، جس میں سے ہر گیند ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس نیوٹن کے قانون حرکت کے تحت پلٹتی ہے۔ طبیعیات کے ایک شاہکار میں ، بولٹز مین (اور جیمز کلارک میکسویل نے خود مختار طور پر ) ریاضیاتی طور پر ثابت کیا کہ اس سادے سے مفروضے سے کسی طرح سے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے نئے قوانین اور طبیعیات کی ایک نئی شاخ شماریاتی میکانیات کو تخلیق کیا۔

یکایک مادّے کے کئی خصائص پہلے اصول سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ نیوٹن کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ جوہروں میں ڈالی جانے والی توانائی کا ان میں محفوظ رہنا ضروری ہے ، جوہروں کے ہر تصادم میں توانائی کو محفوظ رہنا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دسیوں کھرب جوہروں پر مشتمل پورا خانہ بھی توانائی کو باقی رکھتا ہے۔ بقائے توانائی کا اصول اب صرف تجرباتی طور سے نہیں بلکہ پہلے ہی اصول کی مدد سے ثابت ہو سکتا ہے یعنی کہ نیوٹنی جوہروں کے قانون حرکت سے۔

تاہم انیسویں صدی میں جوہروں کے وجود پر زبردست بحث چل رہی تھی اور اس کا اکثر جید سائنس دان بھی مذاق اڑا تے پائے جاتے تھے جیسا کہ فلاسفر ارنسٹ میک (Ernst Mach) ۔بطور حساس اور افسردہ آدمی کے ، بولٹزمین اپنے آپ کو اس تختہ ستم پر بے چین پاتا جس پر اسے اکثر جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والے اپنے بیہودہ حملے کرتے۔ جوہروں کے وجود پر یقین نہ رکھنے والوں کے لئے کسی بھی ایسی چیز کا وجود نہیں ہوتا تھا جس کو ناپا نہ جا سکے اور اس میں جوہر بھی شامل تھے۔ بولٹزمیں کی تذلیل میں اضافے کے لئے ایک ممتاز طبیعیات کے رسالے نے اس کے کئی مقالات کو صرف اس لئے رد کر دیا کیونکہ اس مدیر کی نظر میں جوہر اور سالمات صرف نظری چیزیں تھیں اور حقیقت میں قدرتی طور ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔

ذاتی حملوں سے تنگ اور بیزار بولٹزمین نے اپنے آپ کو ١٩٠٦ء میں پھانسی پر اس وقت لٹکا لیا جب اس کی بیوی اور بچہ ساحل پر تھے۔ صد افسوس کے بولٹز مین کو اس بات کا پتا نہیں چل سکا کہ ایک سال پہلے ہی ایک نڈر اور نوجوان طبیعیات دان جس کا نام البرٹ آئن سٹائن تھا اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا : اس نے پہلا مقالہ لکھا تھا جس میں اس نے جوہروں کا وجود کو ثابت کردیا تھا۔


مکمل ناکارگی ہمیشہ بڑھتی ہے

بولٹزمین اور دوسرے طبیعیات دانوں کے کام نے دائمی حرکی مشینوں کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں مدد دی ، جس کے نتیجے میں ان کو دو اقسام میں بانٹا گیا۔ پہلی قسم کی دائمی حرکی مشینیں وہ ہوتی ہیں جو حر حرکیات کے پہلے قانون سے انحراف کرتی ہیں ؛ یعنی کہ، وہ اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہیں جو وہ صرف کرتی ہیں۔ اس قسم کی ہر مشین کا تجزیہ کرنے کے بعد طبیعیات دانوں کو آخر میں یہ پتا چلتا کہ ایسی مشینیں خفیہ باہری توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتی ہیں ، ایسا یا تو دھوکا دینے کی غرض سے کیا جاتا تھا یا پھر موجد اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ توانائی کا ذریعہ باہر کہیں سے آ رہا ہے۔

دوسری قسم کی دائمی حرکی مشینیں کافی لطیف ہوتی ہیں۔ وہ حر حرکیات کے پہلے اصول بقائے توانائی کے تابع ہوتی ہیں، مگر وہ دوسرے قانون سے انحراف کرتی ہیں۔ نظری طور پر دوسری قسم کی دائمی حرکی مشین کسی قسم کی توانائی کو حرارت کی شکل میں ضائع نہیں کرتی لہٰذا وہ سو فیصد کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود دوسرا اصول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسی مشین بنانا بھی ناممکن ہے کیونکہ حرارت پیدا ہو کر ضرور ضائع ہوگی جس کے نتیجے میں کائنات میں افراتفری یا بے ترتیبی یا ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مشین کتنی بھی کارگر ہو وہ ہمیشہ کچھ توانائی کو حرارت کی صورت میں ضائع کرے گی جس کے نتیجے میں کائنات میں ناکارگی میں اضافہ ہوگا۔

ناکارگی کے ہمیشہ بڑھنے کی حقیقت انسانی قلب اور قدرت دونوں کی تاریخ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسرے قانون کی رو سے ، کسی چیز کو تباہ کرنا اس کے بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کو بنانے میں ہزار ہا برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس کو چند ہی مہینوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے مثلاً میکسیکو کی عظیم ازٹیک سلطنت جس کو غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہسپانوی نے ختم کر دیا ۔ یہ ہسپانوی گھوڑوں اور آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئے تھے۔

ہر مرتبہ آپجب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ایک نئی جھری یا سفید بال نظر آئے گا اور آپ اس دوسرے اصول کے اثر کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ حیاتیات دان ہمیں بتاتے ہیں کہ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جو خلیوں اور جین میں ہونے والی بتدریج غلطیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، اس طرح سے ہمارے خلیوں کی کارکردگی آہستہ آہستہ متاثر ہوتی رہتی ہے۔ بڑھاپا، زنگ لگنا، سڑنا ، زائل ہونا ، حصّوں بخروں میں بٹنا ،اور منہدم ہونا یہ سب دوسرے اصول کی مثالیں ہیں۔

دوسرے اصول کی عمیق گہرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فلکیات دان آرتھر ایڈڈنگٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا ، "ناکارگی کا قانون ہمیشہ بڑھے گا ، میں سمجھتا ہوں کہ قدرت کے قوانین کے درمیاں سب سے اہم جگہ اس کی ہے۔۔۔۔ اگر آپ کا نظریہ حر حرکیات کے دوسرے اصول کے برعکس ہے تو میں آپ کو کسی بھی قسم کی امید نہیں دلا سکتا ، اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ ذلت کے گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے۔"

آج بھی مہم جو انجنیئر (اور چالاک دھوکے باز )دائمی حرکی مشین کی ایجادات کے اعلانوں سے باز نہیں آتے۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل نے مجھ سے ایک موجد کے کام کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کہا جس نے حقیقت میں سرمایہ داروں کو دلفریب جال میں پھنسا کر ان کے دسیوں لاکھ ڈالروں کو اپنی مشین میں لگا کر ڈوبو دیا تھا۔ نہ رکنے والے مضامین اہم مالیاتی اخباروں میں شایع ہوئے ہیں جو ان صحافی حضرات نے لکھے ہیں جن کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جو جذباتی طور پر اس ایجاد کے دنیا کے بدل جانے کے ممکنہ امکانات کو زیر بحث کیے ہوئے ہیں (اور اس عمل کے دوران شاندار منافع بخش کمائی بھی کر لیتے ہیں۔) "جوہر قابل یا خبطی ؟" شہ سرخی میں گرجا جاتا ہے۔

سرمایہ دار بے تحاشا پیسا اس آلے میں لگاتے ہیں جو طبیعیات اور کیمیا کے ان بنیادی اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے جو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔(جو بات میرے لیے صدمے کی ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ ایک شخص کسی غیر محتاط شخص کے پیسے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے - بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ایسی کوششیں تو وقت کے آغاز سے ہی لوگوں نے شروع کر دیں تھیں۔ اصل حیرانگی کی بات یہ ہوتی ہے کہ امیر سرمایہ داروں کو بیوقوف بنانا اس موجد کے لئے اس لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ دار بنیادی طبیعیات کو نہیں جانتے۔) میں نے اس جرنل کو تبصرہ دینے کے لئے وہ ہی مثال دہرا دی "جب تک بیوقوف زندہ ہیں تب تک عقل مند مر نہیں سکتا۔" اور پی ٹی بارنم (P.T. Barnum)کا مشہور زمانہ ارشاد "ہر لمحہ نا تجربہ کار لوگ پیدا ہو رہے ہیں۔" شاید اسی لئے فنانشل ٹائمز ، دی اکنامسٹ ، اور دی وال اسٹریٹ جرنل سب کے سب پورے کے پورے مضامین ان موجدوں کی ایجادوں پر چھاپتے ہیں جو اپنی دائمی حرکی مشینوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (چوتھا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مکمل ناکارگی ہمیشہ بڑھتی ہے

بولٹزمین اور دوسرے طبیعیات دانوں کے کام نے دائمی حرکی مشینوں کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں مدد دی ، جس کے نتیجے میں ان کو دو اقسام میں بانٹا گیا۔ پہلی قسم کی دائمی حرکی مشینیں وہ ہوتی ہیں جو حر حرکیات کے پہلے قانون سے انحراف کرتی ہیں ؛ یعنی کہ، وہ اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہیں جو وہ صرف کرتی ہیں۔ اس قسم کی ہر مشین کا تجزیہ کرنے کے بعد طبیعیات دانوں کو آخر میں یہ پتا چلتا کہ ایسی مشینیں خفیہ باہری توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتی ہیں ، ایسا یا تو دھوکا دینے کی غرض سے کیا جاتا تھا یا پھر موجد اندازہ نہیں کر پاتا تھا کہ توانائی کا ذریعہ باہر کہیں سے آ رہا ہے۔

دوسری قسم کی دائمی حرکی مشینیں کافی لطیف ہوتی ہیں۔ وہ حر حرکیات کے پہلے اصول بقائے توانائی کے تابع ہوتی ہیں، مگر وہ دوسرے قانون سے انحراف کرتی ہیں۔ نظری طور پر دوسری قسم کی دائمی حرکی مشین کسی قسم کی توانائی کو حرارت کی شکل میں ضائع نہیں کرتی لہٰذا وہ سو فیصد کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود دوسرا اصول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسی مشین بنانا بھی ناممکن ہے کیونکہ حرارت پیدا ہو کر ضرور ضائع ہوگی جس کے نتیجے میں کائنات میں افراتفری یا بے ترتیبی یا ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ مشین کتنی بھی کارگر ہو وہ ہمیشہ کچھ توانائی کو حرارت کی صورت میں ضائع کرے گی جس کے نتیجے میں کائنات میں ناکارگی میں اضافہ ہوگا۔

ناکارگی کے ہمیشہ بڑھنے کی حقیقت انسانی قلب اور قدرت دونوں کی تاریخ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ دوسرے قانون کی رو سے ، کسی چیز کو تباہ کرنا اس کے بنانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کو بنانے میں ہزار ہا برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس کو چند ہی مہینوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے مثلاً میکسیکو کی عظیم ازٹیک سلطنت جس کو غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہسپانوی نے ختم کر دیا ۔ یہ ہسپانوی گھوڑوں اور آتشیں ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئے تھے۔

ہر مرتبہ آپجب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ایک نئی جھری یا سفید بال نظر آئے گا اور آپ اس دوسرے اصول کے اثر کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ حیاتیات دان ہمیں بتاتے ہیں کہ بڑھاپا ایک ایسا عمل ہے جو خلیوں اور جین میں ہونے والی بتدریج غلطیوں کے جمع ہونے کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، اس طرح سے ہمارے خلیوں کی کارکردگی آہستہ آہستہ متاثر ہوتی رہتی ہے۔ بڑھاپا، زنگ لگنا، سڑنا ، زائل ہونا ، حصّوں بخروں میں بٹنا ،اور منہدم ہونا یہ سب دوسرے اصول کی مثالیں ہیں۔

دوسرے اصول کی عمیق گہرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فلکیات دان آرتھر ایڈڈنگٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا ، "ناکارگی کا قانون ہمیشہ بڑھے گا ، میں سمجھتا ہوں کہ قدرت کے قوانین کے درمیاں سب سے اہم جگہ اس کی ہے۔۔۔۔ اگر آپ کا نظریہ حر حرکیات کے دوسرے اصول کے برعکس ہے تو میں آپ کو کسی بھی قسم کی امید نہیں دلا سکتا ، اس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ ذلت کے گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے۔"

آج بھی مہم جو انجنیئر (اور چالاک دھوکے باز )دائمی حرکی مشین کی ایجادات کے اعلانوں سے باز نہیں آتے۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جرنل نے مجھ سے ایک موجد کے کام کے بارے میں تبصرہ کرنے کا کہا جس نے حقیقت میں سرمایہ داروں کو دلفریب جال میں پھنسا کر ان کے دسیوں لاکھ ڈالروں کو اپنی مشین میں لگا کر ڈوبو دیا تھا۔ نہ رکنے والے مضامین اہم مالیاتی اخباروں میں شایع ہوئے ہیں جو ان صحافی حضرات نے لکھے ہیں جن کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جو جذباتی طور پر اس ایجاد کے دنیا کے بدل جانے کے ممکنہ امکانات کو زیر بحث کیے ہوئے ہیں (اور اس عمل کے دوران شاندار منافع بخش کمائی بھی کر لیتے ہیں۔) "جوہر قابل یا خبطی ؟" شہ سرخی میں گرجا جاتا ہے۔

سرمایہ دار بے تحاشا پیسا اس آلے میں لگاتے ہیں جو طبیعیات اور کیمیا کے ان بنیادی اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے جو اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔(جو بات میرے لیے صدمے کی ہوتی ہے وہ یہ نہیں کہ ایک شخص کسی غیر محتاط شخص کے پیسے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے - بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ایسی کوششیں تو وقت کے آغاز سے ہی لوگوں نے شروع کر دیں تھیں۔ اصل حیرانگی کی بات یہ ہوتی ہے کہ امیر سرمایہ داروں کو بیوقوف بنانا اس موجد کے لئے اس لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ سرمایہ دار بنیادی طبیعیات کو نہیں جانتے۔) میں نے اس جرنل کو تبصرہ دینے کے لئے وہ ہی مثال دہرا دی "جب تک بیوقوف زندہ ہیں تب تک عقل مند مر نہیں سکتا۔" اور پی ٹی بارنم (P.T. Barnum)کا مشہور زمانہ ارشاد "ہر لمحہ نا تجربہ کار لوگ پیدا ہو رہے ہیں۔" شاید اسی لئے فنانشل ٹائمز ، دی اکنامسٹ ، اور دی وال اسٹریٹ جرنل سب کے سب پورے کے پورے مضامین ان موجدوں کی ایجادوں پر چھاپتے ہیں جو اپنی دائمی حرکی مشینوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔


تین قوانین اور تشاکل

مفصلہ بالا تمام باتوں نے اور گہرے سوالات کو جنم دیا ہے : حر حرکیات کے قانون کیوں اتنی سختی سے قائم ہیں ؟ یہ ایک ایسا راز ہے جس نے سائنس دانوں کو ان قوانین کے پیش کئے جانے کے وقت سے ہی متحیر کیا ہوا ہے۔ اگر ہم اس سوال کا جواب دے سکیں، تو شاید ہم ان قوانین میں کوئی سقم نکال سکیں جس کے اثرات زمین کو ہلا دینے والے ہوں۔

ایک دنمیں کالج میں اس وقت گنگ ہو گیا جب میں نے بالآخر بقائے توانائی کا اصلی ماخذ جان لیا۔ طبیعیات کا ایک بنیادی اصول (جس کو ریاضی دان ایمی نویتھر[Emmy Noether] نے ١٩١٨ء میں دریافت کیا تھا ) یہ ہے کہ جب بھی کوئی نظام متشاکل ہوگا تو اس کا نتیجہ بقائے توانائی ہوگا ۔ اگر کائنات کے قوانین وقتوں سے ایک جیسے چلے آ رہے ہیں تو اس کا نتیجہ حیران کن طور پر یہ نکلتا ہے کہ نظام بقائے توانائی کے اصول پر کاربند ہے۔(مزید براں ، اگر طبیعیات کے قوانین بھی ایک جیسے ہیں تو آپ کسی بھی سمت میں حرکت کریں ، تو آپ کا معیار حرکت اس سمت میں محفوظ رہے گا۔ اور اگر قوانین طبیعیات گردش کے وقت ایک جیسے ہی رہیں گے ، تو زاویائی حرکت بھی باقی رہے گی۔)

یہ میرے لئے ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ میں یہ بات جان گیا کہ جب ہم دور دراز کہکشاؤں سے آتی ہوئی روشنی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس روشنی کا طیف بھی بالکل ویسا ہی پاتے ہیں جیسا کہ زمین پر روشنی کا طیف ہوتا ہے۔ ہرچند کے یہ کہکشائیں ہم سے ارب ہا نوری برس دور کائنات کی آخری سرحدوں پر واقع ہیں۔ روشنی کی وہ بچی ہوئی مقدار جو ارب ہا برسوں پہلے زمین و سورج ہونے کے پیدا ہونے سے بھی پہلے خارج ہوئی تھی ، اس سے ہم بعینہ ہائیڈروجن، ہیلیئم، کاربن ، نیون اور اس طرح دوسرے کے طیف کو پاتے ہیں جو آج ہمیں زمین پر نظر آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ، بنیادی قوانین طبیعیات شاید ارب ہا برس گزرنے کے بعد بھی نہیں تبدیل ہوئے ہیں اور وہ کائنات کی آخری سرحد پر بھی ویسے ہی مستقل ہیں۔

کم از کم میں نے یہ سمجھا ، نویتھر کے نظرئیے کا مطلب یہ ہے کہ بقائے توانائی چاہئے ابدی نہ ہو پر ارب ہا سال تک تو قائم رہ سکے گی۔ جتنا ہم اب تک جان سکے ہیں اس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طبیعیات کے قوانین وقت کے ساتھ نہیں بدلے اور بقائے توانائی کی وجہ بھی یہی ہے۔

نویتھر کے نظرئیے کے اثرات جدید طبیعت پر نہایت ہی عمیق پڑے ہیں۔ جب بھی طبیعیات دان ایک نیا نظریہ پیش کرتے ہیں چاہئے وہ کائنات کی ابتداء ، کوارک اور ذیلی جوہری ذرّات کے آپس میں تعاملات یا ضد مادّہ کے بارے میں ہو ، ہم شروع ہی اس تشاکل سے کرتے ہیں جو نظام کے تابع ہو۔ درحقیقت متشاکلات ہی وہ بنیادی چیز ہیں جو کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ ماضی میں ، تشاکل کسی بھی نظرئیے کی ضمنی پیداوار سمجھی جاتی تھیں -ایک اچھی مگر نظرئیے کا بیکار حصّہ ، خوبصورت مگر غیر ضروری۔ آج ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ تشاکل کسی بھی نظرئیے کو بیان کرنے کا انتہائی لازمی حصّہ ہیں۔ کسی بھی نئے نظرئیے کو بنانے کے لئے ہم طبیعیات دان شروع ہی تشاکل سے کرتے ہیں اور پھر اس کے گرد ایک نظرئیے بناتے ہیں۔

(صد افسوس کہ ایمی نویتھر کو بھی اپنے سے پہلے گزرنے والے بولٹزمین ہی کی طرح اپنی پہچان بنانے کے لئے لڑنا پڑا۔ ایک خاتون ریاضی دان ہونے کے ناتے اس کو صرف اپنی جنس کی وجہ سے کسی بھی ممتاز ادارے میں ایک بہتر مقام دینے سے انکار کر دیا گیا۔ نویتھر کا استاد ، ایک عظیم ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hibert)، نویتھر کو تدریسی ملازمت دلوانے پر ناکامی سے اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ وہ چیخ پڑا ،"ہم آخر کیا چیز ہیں ، کوئی جامعہ یا پھر کوئی غسلی سماج ؟")

مفصلہ بالا گفتگو انتہائی پریشان کن سوال اٹھاتی ہے۔ اگر بقائے توانائی اس لئے ہے کہ قوانین طبیعیات وقت کے ساتھ نہیں بدلے تو کیا اس تشاکل کو غیر معمولی صورتحال میں کبھی توڑا جا سکتا ہے۔ کائناتی پیمانے پر اب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ بقائے توانائی کے اصول کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے ۔ اگر ہمارے قوانین کی تشاکل کسی اجنبی اور غیر متوقع جگہ پر ٹوٹ جائے تو کیا ہوگا ۔ ایسا ہونے کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین وقت یا فاصلے کے ساتھ تبدیل ہوں۔(ایسی موف کے ناول "دی گاڈ دیم سیلفز " میں یہ تشاکل اس لئے ٹوٹا تھا کہ خلاء میں ایک سوراخ ہو گیا تھا جس نے ہمیں ایک دوسری متوازی کائنات سے جوڑ دیا تھا۔ طبیعیات کے قوانین خلاء میں سوراخ کے آس پاس تبدیل ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں حر حرکیات کے قوانین کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ لہٰذا بقائے توانائی کے اصول کو اسی صورت میں توڑا جا سکتا ہے جب خلاء میں کوئی سوراخ ہو جیسا کہ ثقف کرم(وارم ہول)۔

ایک اور سقم جس پر آج کل گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں وہ یہ ہے کہ کیا توانائی عدم سے پیدا ہو سکتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (پانچواں اورآخری حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
خلاء سے توانائی ؟

ایک سنسی خیز سوال :کیا یہ ممکن ہے کہ توانائی کو عدم سے حاصل کیا جا سکے ؟ حال میں ہی طبیعیات دانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خلاء کا "عدم " بالکل خالی نہیں ہے اس میں بھی مختلف عمل جاری ہیں۔

اس خیال کے حامی بیسویں صدی کے ایک کج رو اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل نیکولا ٹیسلا(Nikola Tesla) ہیں جو تھامس ایڈیسن کے حریف تھے۔ وہ بھی نقطہ صفر توانائی کے حامیوں میں سے تھے یعنی کہ خالی خلاء ناقابل بیان توانائی رکھتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو خالی جگہ ہمارے لئے وہ آخری جگہ ہوگی جو ہمیں ہوا سے لامحدود توانائی نکال کر دے گی۔ خالی خلاء جو کسی بھی مادّے کے بغیر خالی سمجھی جاتی ہے وہ توانائی کو محفوظ رکھنے کی سب سے بہترین جگہ ہوگی۔

ٹیسلا ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا جو اب سربیا کا حصّہ ہے اور ریاست متحدہ میں پنیلیس میں ١٨٨٤ء میں آیا۔ جلد ہی وہ تھامس ایڈیسن کا معاون بن گیا مگر اس کی ذہانت نے اس کو ایڈیسن کا حریف بنا دیا ۔ مورخوں کے مطابق اس شہرہ آفاق مقابلے میں ٹیسلا کو داغدار کر دیا گیا تھا جس کو وہ "برقی رو کی جنگ " کہتے ہیں۔ ایڈیسن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وہ دنیا کو اپنے "راست رو موٹروں " سے برقا دے گا جبکہ ٹیسلا "متبادل رو " کو پہچانے والا تھا اور اس نے کامیابی کے ساتھ اس بات کو ثابت بھی کیا کہ اس کا طریقہ ایڈیسن کے طریقے سے کہیں زیادہ بہتر تھا اور اول الذکر طریقے کے مقابلے میں طویل فاصلے پر کہیں کم رو کو ضائع کرتا تھا۔ آج پورا سیارہ ٹیسلا کے پیٹنٹ سے برقا رہا ہے ایڈیسن کے ایجاد کیے ہوئے طریقے سے نہیں۔

ٹیسلا کی ایجادات اور پیٹنٹ سات سو سے زائد ہیں اور اس میں سے کچھ تو ایسی ہیں کہ وہ جدید برقیات کی دنیا میں اہم سنگ میل ثابت ہوئیں۔ مورخوں نے با وثوق طور پر اس بات کے ثبوت حاصل کیے ہیں کہ ٹیسلا نےنہ صرف گگلیلمو مارکونی ([Guglielmo Marconi] جس کو ریڈیو کا موجد مانا جاتا ہے )سے کہیں پہلے ریڈیو ایجاد کر لیا تھا بلکہ وہ ایکس ریز پر اس کے با ضابطہ طور پرویلہلم روینٹ جین (Wilhelm Roentgen)کے دریافت کرنے سے پہلے اس پر کام کر رہا تھا۔(مارکونی اور روینٹ جین دونوں نے بعد میں شاید ان دریافتوں پر نوبل انعام حاصل کیا جو ٹیسلا ان سے پہلے دریافت کر چکا تھا۔)

ٹیسلا اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ وہ لامحدود توانائی کو خلاء میں سے نکال سکتا ہے ، بدقسمتی سے یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت وہ اپنی نوٹ بک میں درج نہیں کر سکا۔ شروع میں "نقطہ صفر توانائی" حرحرکیات کے پہلے قانون سے متصادم ہوتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ نقطہ صفر توانائی نیوٹنی میکانیات سے میل نہیں کھاتی نظر آتی ، نقطہ صفر توانائی کا تصوّر حال ہی میں دوبارہ ایک نئی سمت سے نمودار ہوا ہے۔

جب سائنس دانوں نے حال ہی میں خلاء میں بھیجے جانے والے زمین کے گرد چکر لگانے والے مصنوعی سیارچوں جیسا کہ ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو وہ اس حیرت انگیز نتیجے پر پہنچے کہ ٧٣ فیصد کائنات تاریک مادّے سے بنی ہوئی ہے ، وہ توانائی جو خالص خلاء کی توانائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام کائنات میں سب سے عظیم توانائی کا ذخیرہ اس خالی جگہ میں ہے جس نے کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہوا ہے۔(یہ تاریک توانائی سی قدر جسیم ہے کہ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں کائنات ٹوٹ کر بکھر کر ایک عظیم انجماد میں ختم ہو جائے گی۔)

تاریک توانائی کائنات میں ہر جگہ موجود ہے یہاں تک کہ یہ اس کمرے میں جس میں آپ بیٹھے ہیں بلکہ آپ کے جسم میں بھی یہ موجود ہے۔ تاریک توانائی کی مقدار خلاء میں حقیقی طور پر فلکیاتی ہے جس نے اس تمام توانائی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کائنات میں موجود ان تمام کہکشاؤں اور ستاروں میں موجود ہے۔ ہم زمین پر بھی تاریک توانائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کافی کم مقدار میں ہے۔ یہ اس قدر کم مقدار میں ہے کہ اس کو دائمی حرکی مشین میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیسلا تاریک توانائی کے بارے میں تو درست تھا مگر زمین پر موجود تاریک توانائی کے بارے میں اس کا اندازہ غلط تھا۔


کیا واقعی وہ غلط تھا؟

جدید طبیعیات کی ایک الجھا دینے والی خلیج یہ ہے کہ کوئی بھی تاریک توانائی کی مقدار کا حساب نہیں لگا سکتا جس کو ہم اپنے مصنوعی سیارچوں سے ناپ سکتے ہیں۔ اگر ہم جوہری طبیعیات کے تازہ نظرئیے کا استعمال کرتے ہوئے کائنات میں تاریک مادّے کی مقدار کا اندازہ لگائیں ، تو ہم ایک ایسے عدد پر پہنچ سکتے ہیں جو ١٠١٢٠ سے زیادہ غلط ہو سکتی ہے! یعنی کہ ایک کے بعد ١٢٠ صفر ! نظرئیے اور تجربے کا یہ فرق دنیائے طبیعیات میں اب تک کا حاصل ہونے والے تفاوتوں میں سب سے بڑا فرق ہے۔

نقطہ یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ "عدم کی توانائی "کو کیسے ناپا جائے۔ طبیعیات میں یہ ایک سب سے اہم سوال ہے (کیونکہ بالآخر اسے ہی کائنات کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے )، مگر دور حاضر میں ہم اسے ناپنے سے مجبور ہیں۔ کوئی بھی نظریہ تاریک توانائی کو بیان نہیں کرتا ، اگرچہ تجرباتی ثبوت اس کی موجودگی کے احساس دلاتے ہوئے ہمیں گھور رہے ہیں۔

لہٰذا خالی جگہ میں بھی توانائی موجود ہوتی ہے جیسا کہ ٹیسلا کو شک تھا۔ مگر شاید یہ توانائی اس قدر کم ہوگی کہ اس کو قابل استعمال توانائی کے طور پر کام میں نہیں لایا جا سکے گا ۔ہرچند کہ کہکشاؤں کے درمیان تاریک توانائی کی بہت وسیع مقدار موجود ہے ، تاہم زمین پر پائی جانے والی مقدار بہت ہی کم ہے۔ مگر الجھا دینے والی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ اس توانائی کو کیسے ناپا جائے یا یہ کہاں سے آئی ہے۔

میرا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ بقائے توانائی گہری کائناتی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس قانون سے ذرا سا بھی انحراف ملنے کا مطلب ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ میں بہت ہی عمیق تبدیلی ہوگی۔ اور تاریک توانائی کے اسرار نے طبیعیات دانوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس سوال سے دو بدو مقابلہ کریں۔

کیونکہ کسی بھی دائمی حرکی مشین کو بنانے کے لئے ہمیں اپنے بنیادی قوانین طبیعیات کو کائناتی پیمانے پر دوبارہ سے زیر غور لانا ہوگا ، لہٰذا میں دائمی حرکی مشین کو جماعت III میں زمرہ بند کرتا ہوں ؛ یعنی کہ یا تو وہ واقعی حقیقت میں ناممکن ہیں یا ہمیں اپنی سمجھ کو بنیادی طبیعیات کے کائناتی پیمانے پر جاننے کے لئے بدلنا پڑے گا تا کہ کسی ایسی ممکنہ مشین کو بنایا جا سکے۔ تاریک توانائی جدید سائنس میں ایک غیر مکمل سبق بنا رہے گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
15۔ پیش بینی - پہلا حصّہ

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تناقض ایک سچائی ہے جو توجہ حاصل کرنے کے لئے سر کے بل کھڑی ہے۔

- نیکولس فلیٹا (Nicholas Falletta)

کیا پیش بینی یا وقوف ماقبل کا وجود ہو سکتا ہے؟ یہ قدیمی تصوّر ہر مذہب میں موجود ہے جس کی تاریخ رومیوں اور یونانیوں کے ہاتف سے لے کر پرانے عہد نامے کے انبیاؤں تک جاتی ہے۔ مگر ان قصّوں میں پیش بینی کا تحفہ ایک طرح سے سزا بھی ہوتی تھی۔ یونانی دیو مالائی قصّوں میں ایک ٹرائے کے بادشاہ کی بیٹی کیسنڈرا (Cassandra) ہوتی ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ سورج دیوتا اپالو کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کا دل جیتنے کے لئے اپالو اس کو مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ تاہم کیسنڈرا اپالو کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ہے۔ غیض و غضب سے بھرا ہوا اپالو اپنے دیئے ہوئے تحفہ کو اس طرح سے بدل دیتا ہے کہ کسینڈرا مستقبل کو تو دیکھ سکتی ہے لیکن اس کی پیش بینی پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔ جب کسینڈرا اپنے لوگوں کو آنے والی قریبی تباہی سے آگاہ کرتی ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا ۔ اس نے کاٹھ کے گھوڑے کی فریب کے بارے میں ، ایگا میمنون (Agamemnon) اور یہاں تک کہ اپنی موت کے بارے میں بھی پہلے ہی سے بتا دیا تھا۔ تاہم اس کو سنجیدہ لینے کے بجائے ٹرائے کے لوگ اس کو پاگل سمجھ کر قید کر دیتے ہیں۔

نوسٹراڈیمس کی سولویں صدی کی پیش گوئیاں ہوں یا حال میں ہی ایڈگر کائیسے(Edgar Cayce) کے دعوے کہ وہ وقت کے پردے کو اٹھا سکتا ہے ہر کوئی پیش بینی کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اگرچہ بہت سارے دعوے دار ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ان کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوں گی (مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم کی پیشن گوئی ، جان ایف کینیڈی کا قتل ، اور اشتراکیت کا زوال )، غیر واضح ، تمثیلی انداز میں ان غیب دانوں نے اپنے شعرکچھ اس طرح سے لکھے ہیں کہ اس سے مختلف قسم کی متناقض توجہات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر نوسٹراڈیمس کی رباعیاں عمومی طور کی ہیں کہ اس سے کوئی بھی اپنا من چاہا مطلب مطلب نکال سکتا ہے (اور لوگوں نے یہی کیا ۔)۔ ایک رباعی ملاحظہ کیجئے :

زمین کو ہلا دینے والی آگ دنیا کے قلب سے نکل کر دھاڑے گی :
نئے شہر کے قریب زمین لرزے گی
دو عالی منش ایک لاحاصل جنگ میں الجھ جائیں گے
بہار کی حسینہ چھوٹا نیا سرخ دریا بہائے گی۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رباعی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نوسٹراڈیمس نے پہلے سے ہی نیویارک شہر کے جڑواں ٹاوروں کو ١١ ستمبر ٢٠٠١ء میں جلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود صدیوں سے دوسرے واقعات کو بھی اسی رباعی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کردہ چیزیں اتنی مبہم ہیں کہ ان کی کئی تشریحات کی جا سکتی ہیں۔

پیش بینی تمثیل نگاروں کا پسندیدہ کھیل کا میدان بنا رہا ہے جنہوں نے آنے والے وقتوں میں سلطنتوں کے زوال کے بارے میں اس کے ذریعہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ شیکسپیئر کی میک بیتھ میں پیش بینی کھیل کا مرکزی خیال تھا اور میک بیتھ کی آرزو بھی تھی ، اس کھیل میں اس کا سامنا تین چڑیلوں سے ہوتا ہے جو اس کا عروج اسکاٹ لینڈ کے حکمران کی حیثیت سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ چڑیلوں کی پیش گوئی کے ساتھ ہی اس کی لوگوں کے قتال کی خواہش اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔اور یہ پیش بینی اس کو ایک خونی اور مہیب مہم اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے شروع کرنے کی تحریک دیتی ہے ۔ اس تحریک کے نتیجے میں وہ اپنے دشمن میکڈوف (Macduff)کی معصوم بیوی اور بچے کو بھی قتل کر دیتا ہے۔

تخت و تاج پر قبضہ کرنے کے لئے گھناؤنی حرکتیں کرنے کے بعد میک بیتھ کو چڑیلوں کے ذریعہ پتا لگتا کہ اس کو کسی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی فاتح غالب آ سکتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ہی شکست کھا سکتا ہے جب عظیم برنام جنگل کے لوگ اس کے خلاف بلندی (ڈنسیننی پہاڑی )پر آئیں گے۔ اور کوئی بھی عورت ایسے بچے کو جنم دے گیجو میک بیتھ کو نقصان پہنچا سکے ۔ تاہم قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا عظیم برنام کے جنگل میں میکڈوف کے فوجی اپنے آپ کو پودوں کی ٹہنیوں میں چھپائے ہوئے تھے ، اور خفیہ طور پر میک بیتھ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں ۔اور میکڈوف خود رحم مادر کو چیر کر پیدا ہوا تھا۔

اگرچہ ماضی کی پیش گوئیوں سے کئی الگ طرح کے معنی لئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا ان کو جانچنا ممکن نہیں ہوتا ہے ، پیش گوئیوں کی ایک قسم ایسی ہے جس کا آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے مثلاً زمین کی تباہی کے بارے میں درست تاریخ کا اندازہ لگانا ۔ جب سے انجیل کے آخری باب "الہام "نے یوم قیامت کی تفصیلات بیان کی ہیں ، جس میں افراتفری اور تباہی ، دجال کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گی اور دوسری اور آخری بار یسوع مسیح تشریف لائیں گے ، تب سے بنیاد پرستوں نے کافی کوشش کی ہے کہ یوم حشر کی درست تاریخ کی پیش گوئی کر سکیں۔

ایک اور شہرہ آفاق قیامت کی پیشن گوئی نجومیوں نے کی تھی ، اس پیش گوئی میں انہوں نے کہا کہ ایک عظیم سیلاب دنیا کا خاتمہ ٢٠ فروری ١٥٢٤ کو کر دے گا۔ ان کی اس پیشن گوئی میں تمام سیاروں کا فلک میں جمع ہونا تھا یعنی کہ عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل۔ اس پیش گوئی نے پورے یورپ میں بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلا دی ۔ انگلستان میں ٢٠ ہزار لوگوں نے اپنے گھروں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ ایک قلعہ جس میں خوراک اور پانی کا دو مہینے کا ذخیرہ جمع کیا گیا تھا وہ سینٹ بارتھولومیو گرجا گھر(Saint Bartholomew Church) کے قریب بنایا گیا۔ پورے جرمنی اور فرانس میں لوگوں نے تندہی سے بڑی کشتیاں بنانی شروع کر دیں تاکہ سیلاب کے آنے پر اس میں بیٹھ جائیں۔ کاؤنٹ وون اگلہیم (Count Von Iggleheim) نے تو یہاں تک کیا کہ اس یادگار لمحے کے لئے ایک تین منزلہ کشتی تیار کر لی تھی۔ لیکن آخر کار جب وہ تاریخ آئی تو صرف معمولی سی بارش ہی برسی۔ ہجوم کا مزاج خوف سے یکدم غصّے میں بدل گیا۔ ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی تمام جمع پونجی بیچ ڈالی تھی اور اپنی زندگانیوں کو الٹ پلٹ کر دیا تھا انتہائی ناامید ہو گئے تھے۔ غصّے سے بپھرا ہوا ہجوم دیوانہ ہو گیا۔ کاؤنٹ کو سنگسار کرکے موت سے ہمکنار کر دیا گیا اور سینکڑوں لوگ اس بھگدڑ میں مارے گئے۔

صرف عیسائی ہی نہیں ہیں جو پیش گوئیوں کے جھانسے میں آتے ہیں۔ ١٦٤٨ میں سباتائی زیوی ،سمیرنا کے امیر یہودی کا بیٹا تھا جس نے مسیحیت کا دعویٰ کر دیا تھا اور یہ پیش گوئی کی تھی کہ دنیا ١٦٦٦ میں ختم ہو جائے گی۔ خوش باش ، کرشماتی شخصیت ، اور دیو مالائی کہانیوں کبالہ پر زبردست عبور کے ساتھ اس نے تیزی سے اپنی گرد خوفناک جانباز وفادار مریدوں کا ٹولہ جمع کر لیا تھا جنہوں نے پورے یورپ میں خبر کو عوام الناس میں پھیلا دیا تھا۔ ١٦٦٦ کی بہار میں دور دراز میں رہنے والے یہودی جس میں فرانس، ہالینڈ ، جرمنی اور ہنگری کے رہائشی شامل تھے انہوں نے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے مسیحا کی پکار کے منتظر ہوئے۔ مگر اس سال کے آخر میں زیوی کو قسطنطنیہ کے وزیر اعظم نے پابند سلاسل کر دیا تھا۔ ممکنہ پھانسی کو دیکھتے ہوئے اس نے ڈرامائی طور پر اپنے یہودی کپڑے اتار کر ترک عمامہ باندھ لیا اور اسلام قبول کر لیا۔ نتیجتاً دسیوں ہزاروں مریدوں نے اس کے طلسم کو توڑ کر اس دھرم سے علیحدگی اختیار کر لی۔

غائب دانوں کی پیش گوئیوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے اور دسیوں لاکھ دنیا کے باسیوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ولیم ملر نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس بات کا اعلان کیا کہ ٣ اپریل ، ١٨٤٣ کو روز قیامت برپا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی پیش گوئی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پہنچی ، اتفاق سے رات کو آسمان پر ١٨٣٣ میں ایک شاندار شہابیوں کی بارش شروع ہو گئی ، جو اس قسم کی بارش میں سب سے بڑی تھی ۔ اس واقعے نے ملر کی پیشن گوئی کو مزید تقویت دی۔

دسیوں ہزار جوشیلے مرید جو ملی رائٹس کہلاتے تھے روز قیامت کا انتظار کرنے لگے ۔ جب ١٨٤٣ آیا اور بغیر کسی قیامت برپا کیے گزر گیا ، تو ملی رائٹس کی تحریک کئی بڑے حصّوں میں بٹ گئی ۔ملی رائٹس کے زبردست جمگھٹے کی وجہ سے اس میں سے بنا ہوا ہر جتھے کا مذہب پر کافی گہرا اثر ہوا اور آج بھی ہے۔ ملی رائٹس کے ایک بڑے جتھے کی تحریک نے ١٨٦٣ میں جمع ہو کر اپنا نام سیون ڈے ایڈونٹسٹ چرچ رکھا جس کے آج لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ مسیحی ارکان ہیں۔ ان کے مذہب کا مرکزی خیال مسیح کا فوری طور پر دوبارہ ظاہر ہونا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
15۔ پیش بینی - دوسرا حصّہ

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیا ہم مستقبل میں جھانک سکتے ہیں ؟

کیا سخت گیر سائنسی تجربات یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مستقبل کی پیش بینی کر سکتے ہیں ؟بارہویں باب میں ہم نے دیکھا تھا کہ وقت میں سفر کرنا طبیعیات کے قوانین کی رو سے ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک جدید تہذیب III کی قسم کے لئے ہی ممکن ہوگا۔ مگر کیا پیش بینی کرنا آج کے دور میں موجود ٹیکنالوجی اور سائنس کی بدولت زمین پر ممکن ہے ؟

رائن سینٹر میں کیے گئے مفصل تجربات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کچھ لوگ مستقبل میں دیکھ سکتے ہیں ؛ یعنی کہ وہ پتوں کو ان پر ظاہر ہونے سے پہلے ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم بار بار کے تجربوں نے یہ ثابت کیا کہ اس کا اثر بہت ہی معمولی ہے اور جب دوسرے لوگ اس کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر یہ ویسا نہیں کر پاتے ۔

در حقیقت پیش بینی کا جدید طبیعیات سے میل کھانا بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ سببیت یعنی علت و معلول کے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اثر اس وقت ہوتا ہے جب اس کا سبب ہو ، سبب اثر سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک پائے جانے والے تمام طبیعیات کے قوانین کے اندر موجبیّت لامحالہ موجود ہوتی ہے۔ علت و معلول سے ذرا سا بھی انحراف طبیعیات کی بنیادوں کو ڈھانے کا بڑا سبب بن جائے گا۔ نیوٹنی طبیعیات سختی سے علت و معلول پر کاربند ہے۔ نیوٹنی میکانیات ایک دوسرے پر اتنی زیادہ انحصار کرتی ہیں کہ اگر آپ کو تمام سالموں کا محل و وقوع پہلے سے معلوم ہو تو آپ ان کے مستقبل کی حرکت کا حساب لگا سکتے ہیں۔ اس طرح سے مستقبل کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ نظری طور پر نیوٹنی میکانیات بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو آپ مستقبل کے تمام واقعات کو بیان کر سکتے ہیں۔ نیوٹن کے مطابق کائنات ایک دیو قامت گھڑی کی مانند ہے ، جس میں اس کی ابتداء کے وقت خدا نے چابی بھر دی ہے اور یہ اس وقت سے اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ نیوٹن کے نظریہ میں کسی پیش بینی کا ذکر نہیں ہے۔


وقت میں رجعت

جب ہم میکسویل کا نظریہ زیر بحث کریں گے تو صورتحال اور زیادہ گھمبیر ہو جائے گی۔ جب روشنی کے لئے ہم میکسویل کی مساوات کو حل کرتے ہیں ، تو ہمیں ایک نہیں دو حل ملتے ہیں : ایک "پس ماندہ "موج جو معیاری روشنی کی حرکت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بیان کرتی ہے ، تاہم اس کے ساتھ ایک بلند موج بھی ہوتی ہے جس میں روشنی کی کرن وقت میں واپس جاتی ہے۔ یہ بلند حل مستقبل سے آتا ہوا ماضی میں جاتا ہے !

سو سال سے بھی زائد عرصے میں انجینیروں کو اس بلند حل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو واپس دوبارہ وقت میں چلا جاتا ہے اور وہ اس کو صرف اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو بس ایک ریاضیاتی جستجو ہے۔ کیونکہ کہ پس ماندہ موجیں اتنی درستگی کے ساتھ ریڈیائی ، خرد موجوں ، ٹیلی ویژن ، ریڈار اور ایکس ریز کو بیان کرتی ہیں کہ اس بلند حل کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ پس ماندہ موجیں اتنی شاندار اور خوبصورت طریقے سے کام کرتی ہیں کہ انجینیروں نے بدصورت ہمزاد کو نظرانداز ہی کر دیا۔ آخر کو کامیابی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کری جائے ؟

مگر طبیعیات دانوں کے لئے ، بلند موجیں پچھلی ایک صدی سے پریشان کر دینے والی ہیں۔ کیونکہ میکسویل کی مساوات جدید دور کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے ، لہٰذا اس کے کسی بھی حل کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ چاہئے وہ مستقبل سے آتی ہوئی موجوں کو ہی کیوں نہ بیان کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل سے آتی ہوئی بلند موجوں کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوگا۔ قدرت نے اس بنیادی سطح پر ہمیں کیوں اتنا عجیب و غریب حل فراہم کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ظالمانہ مذاق ہے یا اس کے گہرائی میں کچھ اور مطلب موجود ہے ؟

سالکوں نے اس بلند موج میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس بات کا اندازہ لگانا شروع کر دیا کہ وہ مستقبل سے آتے ہوئے پیغام ہیں۔ شاید اگر ہم کسی طرح سے ان موجوں کو قابو کر لیں تو ہم کسی طرح سے ماضی میں پیغام کو بھیج سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پچھلی نسل کو آنے والے واقعات سے ہوشیار کیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم اپنے دادا کو ١٩٢٩ میں پیغام بھیج سکتے ہیں جس میں انھیں خبردار کرتے ہوئے بتایا جائے کہ وہ اپنے تمام حصص کو عظیم کساد بازاری کے آنے سے پہلے ہی فروخت کر دیں ۔ یہ بلند موجیں ہمیں ذاتی طور پر ماضی میں نہیں لے جا سکتی ، جیسا کہ وقت کے سفر میں ہوتا ہے تاہم اس کے ذریعہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ ماضی میں خطوط و پیغامات کو بھیج سکیں اور لوگوں کو ان واقعات سے خبردار کر دیں جو اس وقت تک واقع نہیں ہوئے تھے۔

یہ بلند موجیں اس وقت تک ایک معمہ بنی رہیں جب تک رچرڈ فائن مین نے ان کا مطالعہ نہیں کیا ، وہ ماضی میں جانے کے خیال سے کافی متاثر تھا۔ مین ہٹن منصوبے پر کام کرنے کے بعد ، جہاں پہلا جوہری بم بنایا گیا تھا، فائن مین نے لاس الموس کو چھوڑ دیا اور پرنسٹن یونیورسٹی میں جان وہیلر کے ماتحت کام شروع کیا۔ الیکٹران پر ڈیراک کے اصل کام کا تجزیہ کرتے ہوئے فائن مین نے بہت ہی عجیب چیز دریافت کی۔ اگر وہ صرف ڈایرک کی مساوات میں وقت کو الٹا کر کرکے الیکٹران پر بار کو بھی الٹ دیتا تو مساوات ویسی ہی رہتی۔ بالفاظ دیگر الیکٹران کو واپس ماضی میں بھیجنا ، ضد الیکٹران کو مستقبل میں بھیجنے کے برابر ہے !عام طور پر ایک کہنہ مشق طبیعیات دان اس توجیہ کو رد کر دیتا ہے کہ یہ صرف مساوات کا ہیر پھیر ہے ، صرف ریاضی کی شعبدہ بازی ہے جس کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ وقت میں پیچھے جانا کوئی معانی نہیں رکھتا ، اس کے باوجود ڈیراک کی مساوات اس بارے میں بالکل واضح تھی۔ دوسرے الفاظ میں فائن مین نے یہ بات کھوج لی تھی کہ قدرت گزرے وقت میں جانے کی اجازت دیتی ہے :ماضی میں جانا ضد مادّہ کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ کوئی ضعیف طبیعیات دان ہوتا تو وہ اس حل کو اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دیتا۔ مگر ایک سند یافتہ طالبعلم کی حیثیت سے اس نے اپنے تجسس کی تسکین جاری رکھی۔

اس نے اس معمے میں الجھنا جاری رکھا جس میں اسے مزید عجیب چیزیں ملیں۔ عام طور پر اگر ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو فنا کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں گیما اشعاع پیدا ہوتی ہیں۔اس کو اس نے ایک کاغذ پر بنایا :دو جسم ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں توانائی پھوٹ رہی تھی۔

تاہم اگر آپ ضد الیکٹران کا بار تبدیل کر دیں تو وہ ایک عام الیکٹران بن کر وقت میں واپس چلا جاتا ہے۔ آپ پھر دوبارہ سے وہی خاکہ بنا سکتے ہیں جس میں وقت الٹا بہ رہا ہوگا۔ اب وہ ایسے لگے گا جیسا کہ الیکٹران واپس وقت میں جا رہا ہے اور اچانک ہی اس نے اپنی سمت بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکٹران نے وقت میں ایک یو ٹرن (الٹا موڑ )لے لیا تھا اور اب وہ واپس وقت میں الٹا جا رہا تھا ، اور اس عمل کے دوران توانائی کو چھوڑ رہا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ وہی الیکٹران تھا۔ الیکٹران اور ضد الیکٹران کے فنا کا عمل وہی عمل تھا جس میں الیکٹران نے وقت میں واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا !

لہٰذا فائن مین نے ضد مادّہ کے اصل راز کا پردہ فاش کر دیا تھا :وہ ایک عام مادّہ تھا جو وقت میں واپس جا رہا تھا۔ اس سادے سے مشاہدے نے فوری طور پر ان تمام معموں کو حل کر دیا کہ تمام ذرّات کے ساتھی ضد ذرّات بھی ہوتے ہیں: یہ اس لئے ہے کہ تمام ذرّات وقت میں پیچھے سفر کر سکتے ہیں وہ صرف ضد مادّہ کا روپ بھرتے ہیں۔(یہ توجیہ ڈیراک کے سمندر جس کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے جیسی ہی ہے ، مگر یہ نسبتاً زیادہ سادہ ہے ، اور یہ وہ توجیہ ہے جو آج کل مقبول عام ہے۔)

چلیں اب فرض کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ضد مادّہ کا ایک ٹکڑا موجود ہے جو عام مادّے سے ٹکرا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک زبردست دھماکا پیدا ہوتا ہے۔ اب یہاں دسیوں کھرب الیکٹران اور ضد الیکٹران فنا ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم ضد الیکٹران کے سمت کے تیر کو بدل دیں ، تو وہ ایک الیکٹران بن کر ماضی میں سفر کر رہا ہوگا ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہی الیکٹران آ ڑ ھا ترچھا دسیوں کھرب مرتبہ وقت میں آ رہا اور جا رہا ہوگا۔

یہاں پر مزید پر تجسس نتیجے موجود ہیں :مادّے کے ٹکڑے میں صرف ایک ہی الیکٹران کو ہونا چاہئے۔ وہ ہی الیکٹران وقت میں آتا جاتا رہے گا۔ ہر مرتبہ جب وہ وقت میں یو ٹرن لے گا تو وہ ضد مادّہ بن جائے گا۔ لیکن اگر اس نے ایک اور مزید یو ٹرن وقت میں لیا تو وہ ایک اور الیکٹران بن جائے گا۔

(اپنے مقالے کے مشیر ، جان وہیلر کی مدد سے ، فائن مین نے خیال ظاہر کیا کہ شاید مکمل کائنات صرف ایک ہی الیکٹران سے بنی ہے ، جو وقت میں آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ ذرا تصوّر کریں کہ بگ بینگ کی افراتفری میں صرف ایک ہی الیکٹران پیدا ہوا تھا دسیوں کھرب سال بعد ، اس اکیلے الیکٹران کا سامنا روز قیامت کے دن سے ہوگیا جہاں اس نے ایک یو ٹرن لے لیا اور واپس وقت میں چلا گیا اور اس عمل کے دوران گیما شعاعوں کو پیدا کیا۔ پھر وہ اصلی بگ بینگ کے لمحے میں لوٹ گیا اور پھر وہاں دوسرا یو ٹرن لیا۔ تو الیکٹران اس سفر کوبگ بینگ سے کائنات کے خاتمے تک آگے پیچھے کرکے متواتر دوہراتا رہے گا۔ اکیسویں صدی میں ہماری کائنات اس الیکٹران کے سفر کی صرف ایک وقت کی قاش ہے جس میں ہم کھرب ہا الیکٹران اور ضد الیکٹران دیکھ رہے ہیں یعنی کہ قابل مشاہدہ کائنات دیکھ رہے ہیں۔ یہ نظریہ جتنا بھی عجیب نظر آئے یہ اس کوانٹم کی پر تجسس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ کیوں تمام الیکٹران بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ طبیعیات میں آپ الیکٹران کو لیبل نہیں کر سکتے۔ الیکٹران ہرے یا جونی الیکٹران نہیں ہوتے۔ الیکٹران کی کوئی انفرادیت نہیں ہوتی۔ آپ الیکٹران کو اس طرح سے ٹیگ نہیں لگا سکتے جیسے سائنس دان جنگلی جانوروں میں ان پر تحقیق کی غرض سے ٹیگ لگاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات ہی اس ایک الیکٹران پر مشتمل ہے جو صرف وقت میں آگے پیچھے چکر لگا رہا ہے۔)

لیکن اگر ضد مادّہ ایک عام مادّہ ہے جو وقت میں پیچھے جا رہا ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ماضی میں کوئی پیغام بھیجا جا سکے ؟کیا یہ بات ممکن ہے کہ آج کا وال اسٹریٹ جرنل ، اپنے آپ کو ماضی میں بھیجا جا سکے تاکہ حصص مارکٹ میں کمایا جا سکے ؟

اس کا جواب ہے نہیں۔

اگر ہم ضد مادّے کو ایک عجیب طرح کا مادّہ سمجھیں ، اور اس ضد مادّہ کے ساتھ ایک تجربہ کریں تو حاصل کردہ نتائج علت و معلول کے خلاف نہیں حاصل ہوں گے۔ اگر ضد الیکٹران کے لئے اب ہم وقت کے بہاؤ کو واپس الٹ دیں تو اس میں ہم صرف ایک ریاضی کا فعل ہی انجام دیں گے۔ طبیعیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ طبعی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہوگا۔ تمام تجربہ ویسے ہی رہے گا۔ لہٰذا اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ الیکٹران کو وقت میں آگے پیچھے دیکھا جا سکتا ہے تاہم ہر مرتبہ جب الیکٹران وقت میں پیچھے جائے گا ، تو وہ صرف ماضی کو تکمیل دے گا۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے جیسے کہ مستقبل کے جدید حل حقیقت میں نہایت ضروری ہیں تا کہ ایک پائیدار کوانٹم کے نظریہ کو حاصل کیا جا سکے۔ تاہم یہ بات علت و معلول سے انحراف نہیں ہے۔ (حقیقت میں ان عجیب بلند موجوں کے بغیر علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی کوانٹم نظرئیے میں ہوتی ہے۔ فائن مین نے اس بات کو ثابت کیا کہ اگر ہم بلند اور پسماندہ موجوں کو شامل کر لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی اس سے واپس صحیح ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ضد مادّہ علت و معلول کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔ ضد مادّہ کے بغیر علت و معلول کا اثر ڈھیر ہو جائے گا۔)

فائن مین نے اس پاگل پنے کے خیال کے جراثیم کو اس وقت بڑھایا جب تک وہ ایک مکمل الیکٹران کے کوانٹم نظرئیے کی کلی بن کر نہیں پھوٹ پڑا۔ اس کی دریافت کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس کو تجرباتی طور پر دس ارب میں ایک حصّے کے بقدر جانچا گیا ہے اوریہ اب تک پیش کیا جانے والا سب سے زیادہ درست نظریہ ہے۔ اس دریافت نے اس کو اور ان کے رفقائے کاروں جولین شیوینگر(Julian Schwinger) اور سن –اتیرو ٹوموناگا(Sin-Itiro Tomonaga) کو ١٩٦٥ء میں نوبل انعام جتوایا۔

(فائن مین نے نوبل انعام کو قبول کرتے ہوئے جو تقریر کی تھی اس میں اس نے کہا تھا کہ بطور نوجوان وہ اضطراری طور پر مستقبل سے آتی ہوئی ان بلند موجوں کے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا۔ آج وہ خوبصورت لڑکی ، پوری ایک سنجیدہ خاتون میں بدل گئی ہے اور اب تو اس کے کافی بچے بھی ہو گئے ہیں۔ ان بچوں میں سے ایک اس کا پیش کردہ کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس ہے۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
15۔ پیش بینی -تیسرا اور آخری حصّہ

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مستقبل سے آتا ہوا ٹیکیون

مستقبل سے آتی ہوئی بلند موجوں کے علاوہ (جنہوں نے اپنے کار آمد ہونے کو کوانٹم نظریہ میں بارہا ثابت کیا ہے ) ابھی کوانٹم نظریہ میں ایک اور عجیب خیال ہے جو اتنا ہی پاگل کر دینے والا تو ہے تاہم ممکنہ طور پر اتنا کارآمد نہیں ہے۔ یہ خیال ٹیکیونس (tachyons)کا ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں مستقل نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ جب بھی اسٹار ٹریک کے مصنف کو کوئی نئی قسم کی توانائی کسی جادوئی کمال کو دکھانے کے لئے چاہئے ہوتی ہے تو وہ اس کا ہی سہارا لیتا ہے۔

ٹیکیونس ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر چیز روشنی کی رفتار سے بھی تیز محو سفر ہوتی ہے۔ ٹیکیونس توانائی کا اخراج کرتے ہوئے اور تیز رفتار سفر کرتے ہیں جو خلاف عقل ہے۔ حقیقت میں اگر وہ تمام توانائی کو ختم کر دیں تو وہ لامحدود رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ ٹیکیونس توانائی کو حاصل کرتے ہوئے آہستہ ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روشنی کی رفتار کو پہنچ جاتے ہیں ۔

ٹیکیونس کو جو چیز سب سے زیادہ عجیب بناتی ہے وہ اس کی تصوّراتی کمیت ہے۔(تصوّراتی کا مطلب کہ ان کی کمیت حاصل ضرب جزر المربع منفی ایک یا "i" کے برابر ہوتی ہے۔ اگر ہم آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات کو لے کر "m" کو "im" سے بدل دیں تو کچھ معجزانہ چیزیں وقوع پذیر ہو جائیں گی۔ اچانک سے ذرّات روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے سفر کرنے لگیں گے۔

یہ نتیجہ کچھ عجیب و غریب قسم کی صورتحال کو جنم دے گا۔ اگر ٹیکیونس مادّے میں سے ہو کر سفر کریں تو کیونکہ وہ مادّے کے جوہروں سے ٹکرائیں گے لہٰذا ان میں سے توانائی کم ہو جاتی ہے ۔ یہ تصادم اس سے مزید توانائی کو خارج کروانے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر جیسی ہی اس کی توانائی کم ہوتی ہے اس کی رفتار اور بڑھ جاتی ہے جو اس کے مادّے کے ساتھ ہونے والے تصادموں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ان تصادموں میں مزید توانائی خارج ہو کر کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مزید اسراع پذیر ہو کر اور تیز ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ شیطانی چکر بار بار گھوم کر چلتا ہی رہتا ہے لہٰذا قدرتی طور پر ٹیکیونس لامحدود تیز رفتاری خود ہی سے ہی حاصل کر لیتے ہیں !

(ٹیکیونس ضد مادّہ اور منفی توانائی سے مختلف ہوتے ہیں۔ ضد مادّہ پر مثبت بار ہوتا ہے جو روشنی کی رفتار سے آہستہ سفر کرتے ہیں اور ان کو اسراع گروں میں بنایا جا سکتا ہے۔ نظریہ کے مطابق وہ قوّت ثقل کے زیر اثر آتے ہیں۔ ضد مادّہ عام مادّے کی ہی طرح ہوتے ہیں جو وقت میں رجعت کرتے ہیں۔ منفی مادّے کی منفی توانائی ہوتی ہے اور یہ بھی روشنی کی رفتار سے آہستہ ہی سفر کرتے ہیں مگر یہ قوّت ثقل کے تحت جذب نہیں ہوتے بلکہ دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ منفی مادّے کو کبھی بھی تجربہ گاہ میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔ نظرئیے کے مطابق اس کو بڑی مقدار میں ٹائم مشین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکیونس روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتے ہیں اور ان کی تصوّراتی کمیت ہوتی ہے ؛ یہ بات واضح نہیں ہے کہ قوّت ثقل اس کو کھینچتی ہے یا دھکیلتی ہے۔ ان کو بھی تجربہ گاہوں میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔

اپنی عجیب و غریب خصائص کے باوجود ٹیکیونس کو کچھ طبیعیات دانوں نے سنجیدگی سے لیا ہے جس میں ایککولمبیا یونیورسٹی کے آنجہانی جیرالڈ فینبرگ(Gerald Feinberg) اورآسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کے جارج سدارشن(George Sudarshan) بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ٹیکیونس کو تجربہ گاہ میں نہیں دیکھا ہے۔ ٹیکیونس کے تجرباتی ثبوتوں کو حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ علت و معلول کی ہوگی۔

فینبرگ نے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ طبیعیات دان لیزر کی کرن کو اس کے چالو ہونے سے پہلے ہی دیکھ کر اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اگر ٹیکیونس وجود رکھتے ہیں تو شاید لیزر کی کرن آلے کو کھولنے سے پہلی ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ سائنسی قصص میں ٹیکیونس کو ماضی میں پیغام بھیجنے کے لئے مستقل استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر ہم طبیعیات کا صحیح طرح سے تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر فینبرگ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وقت میں آگے جاتا ہوا ٹیکیونس اس ٹیکیونس کے برابر ہے جس نے منفی توانائی کو جذب کر لیا ہو اور وہ وقت پیچھے کی طرف جا رہا ہو۔(جیسا کہ ضد مادّہ کے ساتھ ہوتا ہے ) لہٰذا موجبیّت سے انحراف نہیں ہوتا۔

سائنسی قصص کو چھوڑ دیں ، آج بھی ٹیکیونس کا جدید نظریہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بگ بینگ کے لمحے میں یہ وجود رکھتے ہوں جس کے نتیجے میں سببیت کا انحراف تو ہوگا تاہم اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔ درحقیقت شروع میں ہو سکتا ہے کہ شاید انہوں نے کائنات کے دھماکے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہو۔ اس طرح سے ٹیکیونس بگ بینگ کے کچھ نظریوں کا لازمی حصّہ ہوتے ہیں۔

ٹیکیونس کے کچھ مخصوص خواص ہوتے ہیں۔ جب بھی آپ اس کو کسی بھی نظریہ میں ڈالتے ہیں تو وہ خالی جگہ کو غیر متوازن کر دیتے ہیں یعنی وہ نظام کی سب سے کم توانائی حالت کو غیر پائیدار کر دیتے ہیں ۔ اگر نظام میں ٹیکیونس موجود ہوں گے ، تو وہ خالی جگہ میں موجود ہوں گے لہٰذا نظام پائیدار نہیں ہوگا اور انحطاط یا تنزل پذیر ہوتا ہوا بالکل خالی ہو جائے گا۔

ایک ڈیم کا تصوّر کریں جس نے جھیل کے پانی کو روکا ہوا ہو۔ یہ اس جھوٹی خلاء کی طرح ہوگا۔ اگرچہ ڈیم دیکھنے میں بالکل پائیدار لگ رہا ہوگا ، مگر اس میں توانائی کی ایک حالت موجود ہوگی جو ڈیم کی توانائی سے کم ہوگی۔ اگر ڈیم میں کوئی دراڑ پڑ جائے اور پانی اس دراڑ میں سے نکلنا شروع کر دے تو نظام ایک ٹھیک خلاء حاصل کر لے گا کیونکہ پانی سمندر کی سطح پر آ جائے گا۔

بالکل اسی طرح سے اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کائنات ، جھوٹی خلاء سے شروع ہوئی جس میں ٹیکیونس موجود تھے۔ مگر ٹیکیونس کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ توانائی کی نچلی حالت میں نہیں تھی جس کی وجہ سے نظام غیر پائیدار تھا۔ ایک چھوٹی سی "دراڑ "مکان و زمان کی ساخت میں پیدا ہو گئی ، جو مکمل خلاء کو ظاہر کرتی تھی۔ دراڑ جیسی بڑی ہوتی گئی ایک بلبلہ نمودار ہوتا رہا۔ بلبلے کے باہر ٹیکیونس اس وقت بھی موجود تھے ، مگر بلبلے کے اندر وہ سب غائب ہو گئے تھے ، بلبلے کے پھیلنے کے بعد ہم نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل میں بغیر ٹیکیونس کے پایا۔ اور یہ ہی بگ بینگ تھا۔

ایک اور نظریہ جو ماہرین کونیات بہت ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک ٹیکیون جو افراط کہلایا اس نے ہی اصل افراط پذیر کائنات کو شروع کیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ افراط پذیر کائنات کا نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات ایک مکان و زمان کے ایک ننھے بلبلے کی شکل میں شروع ہوئی تھی جو ایک بہت ہی زیادہ توانائی سے بھرپور افراط پذیر دور سے گزری۔ طبیعیات دان اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کائنات شروع میں ایک جھوٹی خلاء سے شروع ہوئی تھی ، جس میں افراط کا میدان ایک ٹیکیونس تھا۔ مگر ٹیکیونس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر دیا تھا اور چھوٹے سے بلبلے پیدا ہو گئے۔ کسی بھی ایک بلبلے کے اندر افراطی میدان کو سچی خلاء کی حالت میسر آ گئی تھی ۔ پھر یہ بلبلہ فطری طور پر نہایت ہی تیزی سے پھیلا یہاں تک کہ ہماری کائنات کی صورت میں نمودار ہوا۔ ہماری کائنات کے اندر افراطی دور ختم ہو گیا لہٰذا یہ اب ہماری کائنات میں نظر نہیں آتا۔

لہٰذا ٹیکیون ایک کوانٹم کی عجیب و غریب حالت کو پیش کرتے ہیں جس میں اجسام روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر سکتے ہیں اور شاید علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی بھی کر سکتے ہوں۔ تاہم وہ بہت عرصہ پہلے غائب ہو چکے ہیں اور شاید انہوں نے ہی کائنات کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ تمام باتیں فالتو کی قیاس آرائیاں لگتی ہیں کیونکہ ان کو جانچا نہیں جا سکتا۔ مگر جھوٹی خلاء کا نظریہ پہلی مرتبہ ٢٠٠٨ء میں جانچا جائے گا جب دی لارج ہیڈرون کولائیڈر سوئٹزر لینڈ میں جنیوا کے باہر چلنا شروع ہوگا۔ اس اسراع گر کا ایک اہم مقصد "ہگس بوسون "کی تلاش ہے ، جو معیاری نمونے کا آخری ذرّہ ہے ، ایک ایسا ذرّہ جس کو ابھی ڈھونڈا جانا ہے۔ یہ اس آڑے کٹے معمے کا آخری ٹکڑا ہے۔(ہگس کا ذرّہ اس قدر اہم مگر مشکل ہے کہ نوبل انعام یافتہ لیون لیڈرمین اس کو "خدائی ذرّہ "کہتے ہیں۔)

طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہگس بوسون شروع میں ایک ٹیکیونس ہی تھا۔ جھوٹی خلاء میں ، کسی بھی ذیلی جوہر ی ذرّہ پر کوئی کمیت موجود نہیں تھی۔ مگر اس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر دیا تھا اور کائنات ایک ایسے نئے خلاء سے گزری تھی جس میں ہگس بوسون عام ذرّے میں بدل گئے تھے۔ ٹیکیونس سے ایک عام ذرّہ کے بننے کے دوران ، ذیلی جوہری ذرّات نے کمیت حاصل کرنی شروع کردی جس کو ہم آج تجربہ گاہ میں ناپ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہگس بوسون کی دریافت نہ صرف معیاری نمونے کے آخری ٹکڑے کو مکمل کر دے گی بلکہ یہ اس بات کو بھی جانچ سکے گی کہ آیا ٹیکیونس کی حالت کبھی وجود رکھتی تھی جو اب عام ذرّے میں بدل گئی ہے۔

خلاصے کے طور پر ، پیش بنی نیوٹنی طبیعیات میں تو نہیں کی جا سکتی۔ علت و معلول کے آہنی اصول کی خلاف ورزی کبھی بھی نہیں کی جا سکتی۔ کوانٹم کے نظریہ میں ، مادّے کی نئی حالتیں ممکن ہیں جیسا کہ ضد مادّہ جو مادّے کو وقت کے مخالف میں سفر کرنے کے برابر ہے تاہم یہ موجبیّت سے انحراف نہیں ہے۔حقیقت میں ، کوانٹم نظریہ میں ضد مادّہ موجبیّت کو لانے کے لئے لازمی ہے۔ٹیکیونس پہلی نظر میں تو علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کا اصلی مقصد بگ بینگ کو پیدا کرنا تھا لہٰذا اب ان کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔

لہٰذا پیش بینی کو فی الوقت کم از کم آنے والے وقت تک تو خارج از امکان قرار دیا جاتا ہے ۔نتیجتاً میں اس کو جماعت III کی ناممکنات میں زمرہ بند کرتا ہوں۔ اگر کبھی بھی کسی قابل افزائش نو تجربے میں پیش بینی ثابت ہو گئی تو وہ طبیعیات کی انتہائی بنیادوں کی ہلا کر رکھ دے گی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ناممکنات کا مستقبل

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوئی بھی چیز چاہئے کتنی بڑی اور پاگل پن کی ہو بشرطیکہ کہ وہ طبیعی طور پر ممکن ہو تو لاکھوں کی تعداد میں موجود ٹیکنالوجیکل سوسائٹیوں میں سے کوئی ایک نہ ایک اس کو سنجیدگی سے ضرور لے گی ۔

- فری مین ڈیسن

منزل قسمت سے نہیں پسند سے حاصل کی جاتی ہے۔ چیزوں کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو حاصل کیا جاتا ہے ۔

- ولیم جیننگس برائن (William Jennings Brian)


کیا کچھ ایسی سچائیاں موجود ہوں گی جو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رہیں گی؟ کیا علم کے کچھ ایسے بیش بہا سمندر موجود ہیں جو جدید تہذیب کی بھی پہنچ سے دور ہوں گے۔ ابھی تک ہم نے جتنی ٹیکنالوجی کو بھی دیکھا اور جانچا ہے اس میں سے صرف دو ہی ایسی ملتی ہیں جو جماعت III کی ناممکنات میں جگہ پاتی ہیں یعنی کہ دائمی حرکی مشین اور پیش بینی۔ کیا کچھ اور ٹیکنالوجی بھی ایسی ہیں جن کا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ؟

خالص ریاضی وافر کلیات کی شکل میں بتاتی ہے کہ کچھ چیزیں یقینی طور پر ناممکن ہیں۔ ایک سادی سی مثال ہے کہ کسی بھی زاویے کو صرف پرکار اور فٹے کی مدد سے تین مساوی حصّوں میں قطعہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔اس حقیقت کو ١٨٣٧ء میں ثابت کیا جا چکا ہے۔

یہاں تک کہ سادے نظام جیسا کہ علم الحساب میں بھی ناممکنات موجود ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ یہ بات ناممکن ہے کہ تمام سچے بیانوں کو علم الحساب کے مفروضوں کے اندر رہتے ہوئے ثابت کیا جا سکے۔ علم الحساب نامکمل ہے۔ علم الحساب میں ہمیشہ سے ایسی سچے بیان موجود رہیں گے جن کو صرف ایک بڑے نظام کے تحت ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں علم الحساب اس کا ذیلی حصّہ ہو۔

ہرچند کہ ریاضی میں کچھ چیزیں ناممکن ہیں ،لیکن کسی کو طبیعیاتی سائنس میں مطلق طور پر ناممکن کہنا بہت ہی خطرناک گردانہ جاتا ہے ۔ میں آپ کو نوبل انعام یافتہ البرٹ اے مچلسن(Albert A. Michelson) کی تقریر یاد دلاتا چلوں جو انہوں نے ١٨٩٤ء میں یونیورسٹی آف شکاگو کی ریئرسن فزیکل لیب کی یاد میں دی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے برملا اس بات کا اعلان کیا تھا کہ نئی طبیعیات کو دریافت کرنا ممکن نہیں ہے: طبیعیات کی سائنس کے سب سے زیادہ اہم بنیادی قوانین اور حقائق دریافت ہو چکے ہیں اور اب ان کو اتنا مضبوطی کے ساتھ قائم کیا جا چکا ہے کہ اس بات کا امکان کہ نئی دریافتوں کی صورت میں ان کی کوئی اور کبھی بھی جگہ لے سکے انتہائی دور کی کوڑی ہے۔۔۔۔ہماری مستقبل کی دریافتیں عشاریہ کے بعد چھٹے حصّے میں ملیں گی۔"

اس کا تبصرہ سائنسی دنیا کی تاریخ میں اس انقلاب کی شام میں تھا جب کوانٹم کا آفتاب ١٩٠٠ء میں طلوع ہو رہا تھا اور اضافیت کا مہتاب ١٩٠٥ء میں اپنی روشنی سے رات کی تاریکی کو دور کرنے آ رہا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزیں جو دور جدید کے مروجہ طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نا ممکن نظر آتی ہیں ممکن ہے کہ کل جب ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات بدل جائیں وہ چیزیں ممکنات میں شامل ہو جائیں۔

١٨٢٥ء میں، عظیم فرانسیسی فلاسفر اوگستے کومتے (Auguste Comte)نے کورس ڈی فلوسوفی میں اعلان کر دیا تھا کہ سائنس کے لئے یہ بات نا ممکن ہے کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ ستارے کس چیز سے مل کر بنے ہیں۔ یہ اس وقت کے حساب سے ایک محفوظ دعویٰ تھا کیونکہ اس وقت تک ستاروں کی نوعیت کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ وہ اس قدر فاصلے پر تھے کہ ان پر جایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کے دعوے کے صرف چند سال کے بعد ہی طبیعیات دانوں نے (طیف بینی کو استعمال کرتے ہوئے ) اس بات کا اعلان کر دیا کہ سورج ہائیڈروجن سے بنا ہے۔ درحقیقت ہم جانتے ہیں کہ ستاروں سے خارج ہونے والی روشنی کے ارب ہا سال پہلے طیفی خطوط کا تجزیہ کرکے یہ ممکن ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے زیادہ تر کیمیائی عناصر کا پتا لگا سکیں۔

کومتے نے سائنس کی دنیا کو دوسری ناممکنات کی فہرست دے کر بھی للکارا تھا :
  • اس کا دعویٰ تھا کہ اشیاء کی اصل ساخت ہمارے علم سے ہمیشہ ماوراء ہی رہے گی۔ بالفاظ دیگر مادّے کی اصل نوعیت کو جاننا ممکن ہی نہ ہوگا۔
  • وہ سمجھتا تھا کہ ریاضی کو کبھی بھی حیاتیات اور کیمیا کو بیان کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
  • اس کا خیال تھا کہ فلکی اجسام کا مطالعہ انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔
انیسویں صدی میں ایسی ناممکنات کو پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ سائنس کے بارے میں کا علم بہت ہی سطحی قسم کا تھا۔ مادّے اور حیات کے بارے میں وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ تاہم آج ہمارے پاس جوہر ی نظریہ ہے جس نے مادّے کی ساخت کی تفتیش کے لئے بالکل ایک نیا جہاں ہی کھول دیا ہے۔ ہم ڈی این اے اور کوانٹم کے نظریہ کے بارے میں جانتے ہیں جس نے حیات اور کیمیا کے کئی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہم خلاء میں شہابیوں کے اثر کے بارے میں بھی جان گئے ہیں جس نے نہ صرف زمین پر زندگی گزرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے بلکہ اس کے اپنے وجود کو بھی شکل دینے میں مدد کی ہے۔

فلکیات دان جان بیرو درج کرتے ہیں ،"مورخ اب بھی اس بارے میں بحث کرتے ہیں کہ کومتے کا نقطۂ نظر ہی فرانس میں سائنس کے زوال کا ایک سبب بنا تھا۔"

ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hilbert) کومتے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں "میرے خیال کے مطابق کومتے کو غیر حل شدہ مسئلہ نہ ملنے کی اصل وجہ یہ ہے حقیقت میں کوئی بھی لاینحل مسئلہ ہے ہی نہیں۔"

مگر آج سائنس دان نئے نا ممکنات کی فہرست بنا کر بیٹھ گئے ہیں : ہم کبھی بھی یہ بات نہیں جان پائیں گے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا (یا یہ دھماکہ ہوا ہی کیوں تھا ) اور ہم کبھی بھی ہر شئے کا نظریہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

طبیعیات دان جان وہیلر پہلے ناممکن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"دو سو برس پہلے آپ کسی سے بھی یہ بات پوچھ سکتے تھے کہ "کیا ہم کبھی یہ بات سمجھ سکیں گے کہ حیات کیسے وجود میں آئی تھی ؟" اور وہ آپ کو شاید یہ جواب دیتا ،" بعید از قیاس !ناممکن !" میں بھی اس سوال کے لئے ایسا محسوس کرتا ہوں "کیا ہم کبھی یہ سمجھ سکیں گے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟" ماہر فلکیات جان بیرو مزید اضافہ کرتے ہیں ، روشنی جس رفتار سے سفر کرتی ہے وہ محدود ہے لہٰذا ہمارا کائنات کی ساخت کے بارے میں علم بھی محدود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ محدود ہے یا لامحدود ، اس کی شروعات بھی ہوئی تھی یا اس کا خاتمہ بھی ہوگا یا نہیں ، معلوم نہیں کہ طبیعیات کی ساخت ہر جگہ ایک جیسی ہے یا نہیں ، اور کیا کائنات صاف ہے یا گندی ہے ،۔۔۔۔تمام عظیم سوالات جو کائنات کی نوعیت کے بارے میں ہیں - اس کی پیدائش سے لے کر اس کے انجام تک - ناقابل جواب ہیں۔"

بیرو بالکل صحیح تھا کہ ہم کبھی بھی قطعیت کے ساتھ کائنات کی شان و شوکت کی اصل نوعیت کو نہیں جان پائیں گے۔ مگر یہ بات ممکن ہے کہ ہم بتدریج ان ازلی سوالات کے جواب کافی نزدیک تک حاصل کر لیں۔ بجائے قطعیت کو اپنے علم کی سرحدوں کا تابع کریں ان ناممکنات کو اپنے لئے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا اگلی آنے والی سائنس دانوں کی نسل کے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ حدود کیک کی پرتوں جیسی ہیں جن کو بس کاٹنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top