زہیر عبّاس
محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟
- ا سٹیفن ہاکنگ
"[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے"۔ فلبی نے کہا
"کس عقل کے خلاف ؟"وقت کے مسافر نے پوچھا۔
- ایچ۔ جی۔ ویلز
جانس اکویشن (Janus Equation) میں مصنف "جی۔ا سپریول" (G. Spruill) نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی ۔ یعنی اصل میں "وہ" خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں ، باپ ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟
ماضی میں تبدیلی
وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔٤٠٠ برس بعد مسیح میں "سینٹ آگسٹین" (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :"ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں ، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہوگی۔" اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔(سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔)
سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔
اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری " ١٧٣٣ء میں " سیموئیل میڈن" (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کی بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔
اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم ،" جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ اچانک سے اپنے آپ کو ویسے ہی پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔
١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge) کو ماضی میں اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے کہ وہ کیسی ہوگی ۔
امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔ انیسویں صدی کے ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔
مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین " ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک خطرناک " مور لاکس" جو گندی زیر زمین مشینیں رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے" جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے )۔
اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔
سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔ یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے بہتا ہے تو کبھی آہستہ بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛ وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہوگی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج ہوم میں انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کرلیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تاکہ وہ سان فرانسسکو میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہوگا لیکن اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔(ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف" (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02 سیکنڈ آگے چلے گئے۔)
لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟
اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہوگا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا ، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟
- ا سٹیفن ہاکنگ
"[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے"۔ فلبی نے کہا
"کس عقل کے خلاف ؟"وقت کے مسافر نے پوچھا۔
- ایچ۔ جی۔ ویلز
جانس اکویشن (Janus Equation) میں مصنف "جی۔ا سپریول" (G. Spruill) نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی ۔ یعنی اصل میں "وہ" خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں ، باپ ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟
ماضی میں تبدیلی
وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔٤٠٠ برس بعد مسیح میں "سینٹ آگسٹین" (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :"ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں ، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہوگی۔" اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔(سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔)
سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔
اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری " ١٧٣٣ء میں " سیموئیل میڈن" (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کی بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔
اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم ،" جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ اچانک سے اپنے آپ کو ویسے ہی پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔
١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge) کو ماضی میں اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے کہ وہ کیسی ہوگی ۔
امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔ انیسویں صدی کے ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔
مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین " ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک خطرناک " مور لاکس" جو گندی زیر زمین مشینیں رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے" جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے )۔
اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔
سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔ یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے بہتا ہے تو کبھی آہستہ بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛ وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہوگی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج ہوم میں انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کرلیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تاکہ وہ سان فرانسسکو میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہوگا لیکن اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔(ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف" (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02 سیکنڈ آگے چلے گئے۔)
لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟
اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہوگا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا ، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔