ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ناممکنات کا مستقبل - حصّہ دوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- بگ بینگ سے پہلے کے دور کا سراغ
بگ بینگ کے سلسلے میں سراغ رسان آلات کی ایک نئی نسل بنائی جا رہی ہے جو ان ازل سے موجود سوالات کا جواب دیں گے۔ خلاء میں موجود آج ہماری اشعاع کے سراغ رساں بگ بینگ کے تین لاکھ سال بعد پیدا ہونے والی ان خرد موجی شعاعوں کو ناپ سکتے ہیں جب پہلے جوہر بنے تھے۔ خرد موجوں کا استعمال کرکے ہم بگ بینگ کے بعد تین لاکھ برسوں سے پہلے کے دور کو نہیں جانچ سکتے کیونکہ اس سے پہلے والی شعاعیں بہت زیادہ گرم اور بے ترتیب تھیں اور ان سے ہمیں کسی بھی قسم کے کام کی اطلاعات حاصل نہیں ہو سکتیں۔
لیکن اگر ہم دوسری اقسام کی اشعاع کا تجزیہ کریں تو تب ہی ہمیں بگ بینگ سے قریب کے دور کی معلومات حاصل ہوں گی۔ مثال کے طور پر نیوٹرینو کا پیچھا کرتے ہوئے ہم بگ بینگ کے ابتدائی لمحے سے قریب ہو سکتے ہیں (نیوٹرینو اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ وہ پورے سیسے سے بنے ہوئے نظام شمسی میں سے گزر سکتے ہیں )۔نیوٹرینو کی شعاعیں ہمیں بگ بینگ شروع ہونے کی چند لمحے پہلے تک لے جا سکتی ہیں۔
ممکن ہے کہ بگ بینگ کا سب سے بڑا راز ثقلی موجوں کے تجزیہ سے ہی پتا لگ سکے ، ثقلی موجیں جو مکان و زمان کی ساخت کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے طبیعیات دان راکی کولب (Rockey Kolb)کہتے ہیں ،"نیوٹرینو کے پس منظر کا تجزیہ کرنے کے بعد تو ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے ایک سیکنڈ کے بعد تک کے وقت کو دیکھ سکیں گے۔ تاہم ثقلی موجیں جو افراطی دور کی ہیں وہ اس وقت کی باقیات ہیں جب کائنات کی عمر بگ بینگ کے بعد ١٠-٣٥ سیکنڈ کی تھی۔"
ثقلی موجوں کا اندازہ سب سے پہلے آئن سٹائن نے ١٩١٦ء میں لگا لیا تھا؛ اور یہ موجیں بالآخر فلکیات کی دنیا میں وہ سب سے اہم کھوجی بن سکتی ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر نئی اشعاع کی دریافت کے ساتھ فلکیات کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی اشعاع کی صورت بصری روشنی ہے جس کو گلیلیو نے نظام شمسی کی تفتیش کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اشعاع کی دوسری قسم ریڈیائی موجیں تھیں جس کا سہارا لیتے ہوئے آخرکار ہم نے کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہول کو تلاش کر لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ثقلی موجی سراغ رساں تخلیق کے اہم رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں۔
ایک طرح سے ثقلی موجوں کا وجود لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک پرانے سوال پر غور کیجئے :اس وقت کیا ہوگا جب سورج ایک دم سے غائب ہو جائے گا ؟نیوٹن کے مطابق ہمیں اس کا اثر فوری طور پر پتا لگ جائے گا۔ زمین فوری طور پر اپنے مدار سے نکل کر خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوٹن کی قوّت ثقل کا قانون سمتی رفتار کو خاطر میں نہیں لاتا لہٰذا قوّت ثقل پوری کائنات میں فوری طور پر نافذ العمل ہوتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ، لہٰذا سورج کے غائب ہونے کی اطلاع کو زمین تک پہنچنے میں ٨ منٹ لگیں گے۔ دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل کی ایک کروی صدماتی موج سورج سے نمودار ہوتی ہوئی زمین تک پہنچے گی۔ ثقلی موجوں کے باہر کی دنیا میں ایسا لگے گا کہ جیسا سورج معمول کے مطابق چمک رہا ہے کیونکہ اس کی اطلاع ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی ہوگی۔ ثقلی موجوں کے کرۂ کے اندر بہرحال سورج پہلے ہی غائب ہو چکا ہو گا کیونکہ کہ پھیلتی ہوئی ثقلی موجیں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہوں گی۔
ایک دوسرا طریقہ اور بھی ہے جو ثقلی موجوں کے لازمی وجود کی توجیح فراہم کرتا ہے ، ذرا ایک بڑی چادر کا تصوّر کریں ، آئن سٹائن کے مطابق مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جس کو لپیٹا اور کھینچا بھی جا سکتا ہے جس طرح سے خمدار بستر کی چادر ہوتی ہے۔ اگر ہم بستر کی چادر کو پکڑ کر تیزی سے ہلائیں تو ہم دیکھیں گے موجیں اس کی سطح پر ایک مخصوص سمتی رفتار سے بہتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ثقلی موجیں بھی بعینہ ایسی ہوتی ہیں جو مکان و زمان کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ثقلی موجیں طبیعیات کی دنیا میں زیر بحث ہونے والا آج کل سب سے زیادہ گرما گرم موضوع ہیں ۔
سب سے پہلے ٢٠٠٣ء میں بڑے پیمانے پر کے ثقلی موجوں کے سراغ رساں نے کام کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نام لیگو (لیزر انٹرفیرو میٹر گریویٹیشنل ویو آ بزر ویٹری ) ہے ، اس کی لمبائی 2.5 میل ہے۔ ان میں سے ایک ہنفورڈ واشنگٹن میں ہے جبکہ دوسرا لیونگسٹون پیرش لوزیانا میں ہے۔ اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ لیگو جس کی لاگت ٣٦ کروڑ ٥٠ لاکھ ڈالر ہے؛ بلیک ہول اور نیوٹرون ستاروں سے نکلنے والی اشعاع کا سراغ لگا سکے گا۔
اس بارے میں اگلی بڑی پیش رفت ٢٠١٥ء میں ہوگی جب ایک پوری نئی سیارچوں کی کھیپ خلاء میں بھیجی جائی گی جو تخلیق کے فوری لمحے کے بعد کے وقت پیدا ہونے والی ثقلی اشعاع کو خلائے بسیط سے حاصل کرکے ان کا تجزیہ کریں گے۔ تین سیارچے مل کر لیزا (لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا ) کی صورت میں سورج کے مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔ یہ سیارچے اتنی اہلیت کے حامل ہوں گے کہ بگ بینگ میں پید ا ہونے والی ثقلی موجوں کا سراغ اس کی پیدائش کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ تک لگا سکیں گے۔ اگر بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی ثقلی موجیں اب بھی کائنات میں گھوم رہی ہیں تو یہ کسی بھی سیارچے سے ٹکرا کر اس سے نکلنے والی لیزر کی کرن میں خلل ڈال دیں گی۔ یہ سیارچے لیزر کی کرن میں ہونے والے اس خلل کو بہت ہی درست انداز میں ناپ لیں گے نتیجتاً ہمیں تخلیق کے فی الفور لمحے کی نوزائیدہ کائنات کی تصویر حاصل ہو جائے گی۔
لیزا تین سیارچوں پر مشتمل ہے جو سورج کے گرد ایک تکون کی شکل میں چکر لگائیں گے ہر سیارچہ ایک ٣٠ لاکھ میل لمبی لیزر کی کرن سے جڑا ہوا ہوگا نتیجتاً یہ اب تک بننے والا سب سے بڑا آلہ ہوگا۔ یہ تین سیارچوں کا سلسلہ سورج کے گرد زمین سے ٣ کروڑ میل کی دوری پر چکر لگائے گا۔
ہر سیارچہ ایک لیزر کی کرن کو خارج کرے گا جس کی طاقت صرف آدھے واٹ کی ہوگی۔ دوسرے دونوں سیارچوں سے حاصل ہونے والی لیزر کی شعاعوں کا موازنہ کرکے ہر سیارچہ اس قابل ہو سکے گا کہ روشنی میں پڑنے والے خلل کا ایک خاکہ بنا سکے۔ اگر ثقلی موج لیزر کی کرن میں خلل ڈالے گی ، تو وہ روشنی کے اس خلل شدہ خاکے کو بدل دے گی اور اس طرح سے سیارچہ اس خلل کو ناپ سکے گا۔(ثقلی موجیں سیارچوں کو تھرتھرانے کے بجائے ان تینوں سیارچوں کے درمیان موجود خلاء کو مسخ کرے گی۔)
اگرچہ لیزر کی شعاعیں کافی کمزور ہوتی ہیں ، لیکن ان کی درستگی بہت ہی شاندار ہوگی۔ وہ ایک کھرب کے ایک کھربویں حصّہ تک کی تھرتھراہٹ کا سراغ لگا سکتی ہیں جو ایٹم کے حجم کا ایک بٹا ١٠٠ حصّہ ہے۔ ہر لیزر کی کرن ثقلی موج کا سراغ ٩ ارب نوری سال دوری سے لگا سکتی ہے یہ فاصلہ زیادہ تر قابل مشاہدہ کائنات کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ لیزا اس قدر حساس ہوگی کہ وہ ممکنہ طور پر بگ بینگ سے پہلے کی مختلف صورتحالوں میں فرق کر سکے گی۔ نظری طبیعیات میں آج کل کا سب سے گرما گرم موضوع بگ بینگ سے پہلے کائنات کی خصوصیات کا حساب لگانا ہے۔ فی الوقت "افراط پذیر کائنات" کا نظریہ یا افراطی نظریہ بہت اچھی طرح سے بیان کر رہا ہے کہ کائنات بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد کیسے ارتقاء پذیر ہوئی۔ مگر افراط پذیر کائنات کا نظریہ یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے بگ بینگ کو شروع کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کے دور کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے بگ بینگ سے خارج ہوتی ہوئی ثقلی شعاعوں کا حساب لگایا جا سکے۔ بگ بینگ کے مختلف نظریوں میں سے ہر ایک مختلف قسم کا اندازہ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) نظریہ میں بتائی جانی والی بگ بینگ کی اشعاع اس سے مختلف ہوگی جو افراط کے کچھ دوسرے نظریئے بتاتے ہیں ، لہٰذا اس بات کی قوی امید ہے کہ لیزا ان میں سے کافی نظریوں کو رد کر دے گی۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ یہ بگ بینگ سے پہلے کے نمونے براہ راست جانچے نہیں جا سکتے کیونکہ اس میں وقت کی تخلیق سے پہلے کی کائنات کو سمجھنا ہے۔ تاہم ہم ان کو بالواسطہ طور پر اس لئے جانچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ بگ بینگ کے بعد نکلنے والے مختلف شعاعوں کے طیف کا اندازہ لگاتا ہے۔
طبیعیات دان کپ تھورن لکھتے ہیں ،"٢٠٠٨ء سے لے کر ٢٠٣٠ء کے درمیان کسی بھی وقت بگ بینگ کی وحدانیت کی ثقلی موجوں کو دریافت کرلیا جائے گا۔ اس کے بعد آنے والا دور کم از کم ٢٠٥٠ء تک چلے گا۔۔۔۔یہ کوششیں بگ بینگ وحدانیت کی ابتدائی تفصیلات کو ظاہر کر دیں گی اور اس سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں تصدیق ہوگی کہ کچھ اسٹرنگ نظریئے ہی قوّت ثقل کے کوانٹم کے درست نظریئے ہیں ۔"
اگر لیزا بگ بینگ سے پہلے کے نظریوں میں فرق کرنے میں ناکام ہو گئی ، تو اس کا جانشین ، دی بگ بینگ آبزرور (بی بی او ) شاید یہ کام کر سکے۔ اس کو اندازاً٢٠٢٥ء میں بھیجا جائے گا۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ وہ مکمل کائنات کا جائزہ لے سکے اس میں وہ تمام ثنائی نظام بشمول نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول جن کی کمیت سورج سے ایک ہزار گنا کم ہے؛ شامل ہوں گے۔ اس کا اہم مقصد بگ بینگ کے افراطی دور سے خارج ہونے والی ثقلی موجوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس طرح سے ، بی بی او کو خاص اس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے کہ بگ بینگ کے دور میں ہونے والے افراط پذیر کائنات کے مرحلے کے نظریئے کی صحیح طرح سے کھوج کر سکے۔
بی بی او صورت گری میں ایک طرح سے لیزا کے جیسا ہی ہے۔ اس میں تین سیارچے شامل ہوں گے جو سورج کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے سے فاصلہ ٥٠ ہزار کلو میٹر کا ہوگا (یہ سیارچے ایک دوسرے سے لیزا کی با نسبت کافی قریب ہوں گے )۔ ان میں سے ہر ایک سیارچہ اس قابل ہوگا کہ وہ ایک ٣٠٠ واٹ کی طاقت کی لیزر کی کرن کو داغ سکے۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ ثقلی موجوں کے تعدد کو لیگو اور لیزا کے درمیان میں کھوج سکے اس طرح سے یہ ایک اہم فاصلے کو پاٹ سکے گا۔(لیزا ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ سے ٣٠٠٠ ہرٹز تک ، جبکہ لیگو ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ مائیکرو ہرٹز سے ١٠ ملی ہرٹز تک لگا سکتا ہے۔ بی بی او ان تعدد ارتعاش میں ثقلی موجوں کا سراغ لگائے گا جس میں یہ دونوں شامل ہیں۔)
"٢٠٤٠ء تک ہم ان قوانین (کوانٹم کی ثقل ) کا استعمال کرتے ہوئے گہرے اور پریشان کن سوالات کے پر اعتماد جواب حاصل کر لیں گے،"تھرون لکھتا ہے ،"بشمول ۔۔۔۔۔ بگ بینگ وحدانیت سے پہلے کیا تھا یا اس وقت کوئی ایسی چیز بھی تھی کہ جیسے "قبل "؟ کیا دوسری کائناتیں بھی ہیں ؟اور اگر ایسا ہے تو وہ کس طرح سے ہماری کائنات سے ملی یا جڑی ہوئی ہیں؟۔۔۔۔کیا طبیعیات کے قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جدید درجے کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں ثقف کرم کو بین النجم سفر کے لئے بنا کر قائم رکھ سکیں یا وہ کس طرح سے وہ وقت میں پیچھے کی طرف سفر کرنے کے لئے ٹائم مشین کو بناتے ہیں ؟"
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے چند عشروں میں خلاء میں موجود ثقلی موجی سراغ رسانوں سے حاصل ہوئے اتنے اعداد و شمار موجود ہوں گے جو مختلف قسم کے بگ بینگ کے نظریات میں تفریق کر سکیں۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ناممکنات کا مستقبل - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- کائنات کا خاتمہ
شاعر ٹی ایس ایلوئٹ (T.S. Eliot) سوال کرتے ہیں کیا کائنات ایک دھماکے میں یا ریں ریں کرتے ہوئے ختم ہوگی ؟ رابرٹ فراسٹ (Robert Frost) پوچھتے ہیں کیا ہم سب کا خاتمہ آگ سے ہوگا یا پھر برف سے ؟ تازہ ترین حاصل ہونے والے ثبوت اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کائنات کی موت ایک عظیم انجماد میں ہوگی جس میں درجہ حرارت مطلق صفر تک جا پہنچے گا اور تمام ذہین مخلوق ختم ہو جائے گی۔ مگر کیا ہم اس بارے میں پر یقین ہیں ؟
کچھ لوگ دوسرے نا ممکن سوالات کو اٹھاتے ہیں۔ ہم کیسے کبھی یہ بات جان پائیں گے کہ کائنات کا مقدر کیا ہوگا ، وہ پوچھتے ہیں ، کیونکہ یہ واقعہ تو آج سے دسیوں کھرب سال کے بعد جا کر مستقبل میں ہوگا ؟ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریک توانائی یا خلاء کی توانائی کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیلتی ہوئی لگ رہی ہے اور اس کی دھکیلنے کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے جو اس جانب اشارہ ہے کہ کائنات بے قابو ہو کر پھیل رہی ہے۔ ایسا کوئی بھی پھیلاؤ کائنات کے درجہ حرارت کو کم کرکے بتدریج ٹھنڈا کر دے گا اور بالآخر اس کا نتیجہ ایک عظیم انجماد کی صورت میں ہی نکلے گا۔ مگر کیا یہ پھیلاؤ وقتی ہے ؟کیا مستقبل میں اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے ؟
مثال کے طور پر ،عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) میں دو جھلیاں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس کے نتیجے میں کائنات بنتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ جھلیاں وقتاً فوقتاً ٹکراتی رہتی ہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو عظیم انجماد (بگ فریز) کی طرف جانے والا پھیلاؤ وقتی ہوگا اور یہ واپس پلٹے گا۔
حالیہ کائنات کے اسراع کی وجہ صرف تاریک توانائی ہے جس کی وجہ شاید کونیاتی مستقل ہے۔ اصل بات تو اس پراسرار مستقل یا پھر خلاء کی توانائی کو سمجھنا ہے۔ کیا یہ مستقل وقت کے ساتھ بدلتے ہیں یا واقعی یہ مستقل ہی ہیں ؟فی الحال کوئی بھی اس بات کو یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ زمین کے گرد چکر لگانے والے سیارچے ڈبلیو میپ کی بدولت ہم جانتے ہیں کہ یہ کونیاتی مستقل ہی کائنات کی حالیہ اسراع کے پیچھے ہے ۔ تاہم ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ آیا یہ مستقل بھی ہے یا نہیں۔
مسئلہ اصل میں کافی پرانا ہے جو ١٩١٦ء میں اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب آئن سٹائن نے سب سے پہلے کائناتی مستقل کو پیش کیا تھا۔ اضافیت کے نظرئیے کو پیش کرنے کے اگلے ہی سال اس نے اپنے نظرئیے کے کونیاتی مضمرات پر کام کیا۔ اس کی توقع کے برخلاف کائنات متحرک تھی یعنی یا تو وہ پھیل رہی تھی یا پھر سکڑ رہی تھی۔ مگر یہ خیال اعداد و شمار کے موافق نہیں تھے۔
آئن سٹائن کا بینٹلے کے تناقض سے سامنا ہو گیا تھا جس نے نیوٹن کو بھی پریشان کر دیا تھا۔ ١٦٩٢ء میں ریور ینڈرچرڈ بینٹلے (Reverend Richard Bentley)نے نیوٹن کو بظاہر ایک معصومانہ خط لکھا جس میں ایک انتہائی تباہ کن سوال چھپا ہوا تھا۔ اگر نیوٹن کی قوّت ثقل ہمیشہ سے جاذبی نوعیت کی ہے ، بینٹلے پوچھتا ہے ، تو پھر کائنات منہدم کیوں نہیں ہو جاتی ؟ اگر کائنات محدود ستاروں کے مجموعہ پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک دوسرے کو آپس میں کھینچ رہا ہے تو اس کے نتیجے میں ستارے آپس میں ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ اس کا انجام یہ ہوگا کہ کائنات ایک آگ کے گولے کی صورت میں منہدم ہو جائے گی ! نیوٹن کو اس خط نے انتہائی پریشان کر دیا تھا کیونکہ یہ خط اس کے قوّت ثقل کے نظریہ میں موجود ایک اہم نقص کی طرف اشارہ کر رہا تھا : کوئی بھی قوّت ثقل کا نظریہ جو صرف کشش رکھتا ہو وہ اپنے آپ میں غیر متوازن ہوگا۔ محدود ستاروں کا مجموعہ ناگزیر طور پر قوّت ثقل کے تحت منہدم ہو جائے گا۔
نیوٹن نے اس کو جواب لکھا کہ صرف ایک ہی ایسا طریقہ ہے جس میں کائنات متوازن رہ سکتی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات لامحدود ستاروں کے یکساں طور پھیلے ہوئے مجموعہ پر مشتمل ہے جس کے نتیجے میں ستارہ ہر طرف سے کھینچا جا رہا ہے لہٰذا اس پر لگنے والی تمام قوّت ایک دوسرے کو زائل کر دیتی ہے۔ یہ بہت ہی شاطرانہ طرز کا جواب تھا ، تاہم نیوٹن اتنا چالاک تھا کہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسی کوئی بھی پائیداری گمراہ کن ہوگی۔ تھوڑی سی ہلچل پورے شیش محل کو چکنا چور کر دے گی۔ اس صورت میں کائنات بہت ہی نازک توازن پر قائم ہوگی یعنی وقتی طور پر اس وقت تک پائیدار رہی گی جب تک اسے تباہ کرنے کے لئے تھوڑی سی بھی گڑ بڑ نہیں ہوگی۔ نیوٹن نے نتیجہ اخذ کیا کہ خدا وقتاً فوقتاً ستاروں کو درست کرتا رہتا ہے تا کہ کائنات منہدم نہ ہو۔
بالفاظ دیگر ، نیوٹن نے کائنات کو ایک بڑے گھڑیال کی طرح سے دیکھا ، جس کو وقت کی شروعات میں خدا نے چابی دے دی جو نیوٹن کے دریافت شدہ قوانین کی پاسداری کر رہی ہے۔ یہ جب سے بغیر خدائی مداخلت کے خودکار طریقے سے چل رہی ہے۔ بہرحال نیوٹن کے مطابق ، خدا ستاروں کو کبھی کبھار درست کرتا رہتا ہے تا کہ کائنات آگ کے گولے میں منہدم نہ ہو جائے۔
جب ١٩١٦ء میں آئن سٹائن کا سامنا بینٹلے کے تناقض سے ہوا تو اس کی مساوات صحیح طور پر بتا رہی تھی کہ کائنات یا تو متحرک ہے یا پھر پھیل رہی ہے یا پھر سکڑ رہی ہے۔ ساکن کائنات کسی بھی صورت قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تک فلکیات دان اس بات پر بضد تھے کہ کائنات ساکن اور غیر متغیر ہے۔ لہٰذا آئن سٹائن کو فلکیات دانوں کے آگے لامحالہ طور پر سر کو جھکا نا پڑا اور اس نے ایک کونیاتی مستقل کو اپنی مساوات میں شامل کرلیا۔ یہ کونیاتی مستقل قوّت ثقل کی ضد تھا جو ستاروں کو ایک دوسرے سے دھکیل رہا تھا تاکہ اس توازن کو برقرار رکھا جا سکے جس کے ختم ہونے سے کائنات منہدم ہو سکتی ہے ۔(یہ ضد قوّت ثقل خلاء میں موجود توانائی سے مطابقت رکھتا تھا۔ اس صورتحال میں خلاء کی وسیع خالی جگہ غیر مرئی توانائی کی بڑی مقدار رکھتی تھی۔) اس مستقل کی مقدار کو بہت ہی درستگی کے ساتھ چنا گیا تھا تا کہ قوّت ثقل کی کشش کی طاقت کو زائل کیا جا سکے۔
بعد میں جب ایڈوِن ہبل نے ١٩٢٩ء میں اس بات کو ثابت کیا کہ کائنات اصل میں پھیل رہی ہے ، تب آئن سٹائن کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ کائناتی مستقل اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس کے باوجود ستر سال گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آئن سٹائن کی وہ غلطی ، کونیاتی مستقل ، اصل میں کائنات میں موجود سب سے بڑا توانائی کا سوتا ہے جو کائنات کے ٧٣ فیصد مادّے اور توانائی کے اجزاء پر مشتمل ہے۔(وہ عناصر جنہوں نے ہمارے جسموں کو بنایا ہے وہ صرف کائنات کا 0.03 فیصد ہیں)۔ شاید آئن سٹائن کی غلطی ہی کائنات کا مستقبل طے کرے گی۔
مگر یہ کائناتی مستقل آیا کہاں سے ؟فی الوقت کوئی نہیں جانتا۔ ممکن ہے کہ وقت کے شروع میں ضد قوّت ثقل کی طاقت شاید اتنی پر اثر تھی جس کے نتیجے میں کائنات پھیل سکی اور یوں بگ بینگ وجود میں آیا۔ اس کے بعد یہ اچانک غائب ہو گئی! کس وجہ سے یہ بات اب تک معلوم نہیں ہے۔(کائنات اس وقت میں بھی پھیل رہی تھی ، مگر کم رفتار سے۔) مگر پھر بگ بینگ کے لگ بھگ ٨ ارب سال بعد ضد قوّت ثقل واپس سے نمودار ہوئی اور کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں کائنات کا پھیلاؤ دوبارہ سے اسراع پذیر ہو گیا ۔
تو کیا یہ بات واقعی ناممکن ہے کہ کائنات کے حتمی انجام کا تعین نہیں کیا جا سکے گا ؟ شاید نہیں۔ زیادہ تر طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوانٹم کا اثر آخرکار کائناتی مستقل کے حجم کا تعین کرے گا۔ اصل کوانٹم نظریہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک سادہ سا حساب بتاتا ہے کہ کائناتی مستقل ١٠١٢٠ کی قوّت کے بقدر اصل مقدار سے دور ہے۔ یہ سائنس کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا بے جوڑ ہے۔
تاہم طبیعیات دان اس پر بھی متفق ہیں کہ اس بے قاعدگی کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک کوانٹم قوّت ثقل کے نظرئیے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کائناتی مستقل کوانٹم تصحیحات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے لہٰذا ہر شئے کے نظرئیے کی انتہائی شدید ضرورت ہے - ایک ایسا نظرئیے جو ہمیں اس بات کی اجازت دے کہ نہ صرف ہم معیاری نمونے کا اس کی مدد سے تعین کر سکیں بلکہ کونیاتی مستقل کی قدر کو بھی بتا سکیں جس نے کائنات کا مقدر طے کرنا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ناممکنات کا مستقبل - حصّہ چہارم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ہر شئے کا نظریہ
جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ اسٹرنگ نظریہ "ہر شئے کے نظرئیے "کے لئے ایک ابھرتا ہوا نظریہ ہے ، مگر کچھ لوگ گومگو کیفیت میں بھی ہیں کہ آیا اسٹرنگ نظریہ ہر شئے کے نظریئے بننے کے دعوے کو حاصل بھی کرے گا یا نہیں۔ ایک طرف ایم آئی ٹی کے پروفیسر میکس ٹیگمارک بھی ہیں جو لکھتے ہیں ، "٢٠٥٦ء میں ، میرے خیال میں آپ ایک ایسی ٹی شرٹ خرید سکیں گے جس کے پیچھے کائنات کی یکساں طور پر طبیعیاتی قوانین کی اطلاقی مساوات چھپی ہوئی ہوگی۔" دوسری طرف ناقدین کی ایک پر عزم جماعت ہے جو اس بات پر مصر ہے کہ اسٹرنگ کے نظرئیے کو ابھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم چاہئے جتنے بھی دم بخود کر دینے والی ٹیلی ویژن پر چلنے والی دستاویزی فلموں کو بنا لیں جو اسٹرنگ نظرئیے کو بیان کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ، اس نظریئے کو اب بھی ایک قابل جانچ عمل میں اپنے آپ کو ثابت کرنا باقی ہے، کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ بجائے ہر شئے کے نظرئیے کے یہ نظریہ تو کسی بھی شئے کا نہیں ہے، ناقدین نے دعویٰ کیا۔ بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ٢٠٠٢ء میں ا سٹیفن ہاکنگ نے نامکمل مفروضہ ہونے کی وجہ سے جگہ بدل لی اور کہا کہ ایک ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنا شاید ریاضیاتی طور پر ممکن نہیں ہے۔
اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہے کہ ایک طبیعیات دان دوسرے طبیعیات دان پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے کیونکہ ہرچند مقصد بہت عظیم لیکن مبہم ہے۔ قدرت کے تمام قوانین کو یکجا کرنے کی جستجو ایک ہزار برس سے طبیعیات دانوں اور فلاسفروں کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ خود سقراط نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ،"مجھے اعلیٰ و ارفع وہ چیز لگتی ہے جس سے میں ہر چیز کے بارے میں جان سکوں ، کہ آیا وہ کیوں وقوع پذیر ہوتی ہے ، اس کا خاتمہ کیوں ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ ہے کیوں۔"
ہر شئے کے نظرئیے کو حاصل کرنے کی سب سے پہلی سنجیدہ کوشش ٥٠٠ قبل مسیح میں اس وقت ہوئی جب یونانی فیثا غورسیوں کو موسیقی کے ریاضیاتی قوانین کی تفصیل سمجھ میں آئی۔ تاروں کی تھرتھراہٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ موسیقی بھی سادہ ریاضی کے تابع ہی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ تمام قدرت کو ایک ہی طرح سے بربطی تار کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔(ایک طرح سے ، اسٹرنگ کے نظرئیے نے فیثا غورسیوں کے خواب کو دوبارہ سے زندہ کر دیا ہے۔)
جدید دور میں طبیعیات کی تمام بڑی ہستیوں نے اپنی قسمت آزمائی ایک یکجا میدانی نظرئیے میں کی ہے۔ مگر جیسا کہ فری مین خبر دار کرتا ہے ،" طبیعیات کے میدان میں وحدتی نظریوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔"
١٩٢٨ء میں نیو یارک ٹائمز نے ایک سنسنی خیز شہ سرخی چھاپی "آئن سٹائن ایک عظیم دریافت کے دھانے پر ؛ بیجا مداخلت پر ناراض۔" بے چینی سے منتظر اور پیاسا ذرائع ابلاغ جو ہر شئے کے نظرئیے کو پھیلانے کے لئے تیار کھڑا تھا اس کی لئے یہ خبر نعمت غیر مترقبہ بن کر اتری۔ شہ سرخی کچھ یوں گرجی "آئن سٹائن نظرئیے میں ہلچل سے خوش ۔ ١٠٠ صحافیوں کو ساحل پر ایک ہفتے کے لئے بلا لیا ۔" صحافیوں کی کافی تعداد اس کے گھر برلن میں جمع ہو گئی، جہاں بغیر کسی وقفے کے اس کی نگرانی شروع ہوگی تاکہ سب سے پہلے ان کی نظر ہی اس شاندار دریافت پر پڑے۔ اور وہ ایک زبردست خبر کو حاصل کر سکیں۔ ان تمام واقعات نے آئن سٹائن کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ ان صحافیوں سے چھپ جائے۔
ماہر فلکیات آرتھر ایڈنگٹن نے آئن سٹائن کو لکھا :"یہ بات جان کر آپ کو نہایت خوشی ہوگی کہ ہمارا لندن کا ایک بڑا ڈیپارٹمنٹ اسٹور (سیلفرجز )نے اپنی کھڑکیوں پر آپ کے مقالے کو چسپاں کیا ہوا ہے (چھ صفحات ایک کے بعد ایک لگے ہوئے ہیں ) تاکہ راہ گیر ان کو پورا پڑھ سکیں۔ اس کو پڑھنے کے لئے کافی سارا مجمع جمع ہو گیا ہے۔"(١٩٢٣ء میں ایڈنگٹن نے خود اپنی عظیم وحدتی میدانی نظریہ پیش کیا جس پر اس نے١٩٤٤ء میں اپنی موت تک زندگی کے تمام شب ور روز ایک کر دیئے تھے۔)
١٩٤٦ء میں کوانٹم میکانیات کے بانیوں میں سے ایک ایرون شروڈنگر نے ایک پریس کانفرنس رکھی جس میں اس نے اپنا عظیم وحدتی میدانی نظریہ پیش کیا۔ اس پریس کانفرنس میں آئرلینڈ کے وزیراعظم ، ایمون ڈی ویلیرا تک (Eamon De Valera) بھی موجود تھے۔ جب ایک رپورٹر نے پوچھا کہ وہ اس وقت کیا کرے گا جب اس کا نظریہ غلط ثابت ہوگا۔ شروڈنگر نے جواب دیا ،"میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میں صحیح ہوں ۔میں اس وقت ایک انتہائی احمق دکھائی دوں گا اگر میں غلط ہوا۔"(شروڈنگر کی اس وقت کافی تذلیل ہوئی جب آئن سٹائن نے انتہائی ملائمت کے ساتھ اس کے نظرئیے میں غلطیوں کی طرف نشاندہی کی۔)
وحدت کے سب سے زیادہ خلاف تنقید کرنے والوں میں طبیعیات دان وولف گینگ پائولی(Wolfgang Pauli) ہیں۔ اس نے آئن سٹائن کو یہ کہ کر جھڑکا تھا ،" جو چیز خدا نے ٹکڑے ٹکڑے کر کر الگ کردی ہے ، اس کو کوئی بھی انسان نہیں جوڑ سکتا۔" وہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ کسی بھی کچے پکے ناقص نظرئیے پر بھپتی کستا تھا:" یہ اتنا بھی غلط نہیں ہے۔" لہٰذا یہ بہت ہی متضاد بات تھی کہ جب خود ترش رو پاؤ لی نے اپنا عظیم وحدتی میدانی نظریہ ورنر ہائزن برگ کے ساتھ ١٩٥٠ء کے عشرے میں پیش کیا۔
١٩٥٨ء میں پاؤلی نے ہائزن برگ – پاؤلی کا وحدتی نظریہ کولمبیا یونیورسٹی میں پیش کیا۔ نیلز بوہر مجمع میں شامل تھا اور یہ نظریہ اس کو متاثر کرنے میں بالکل ناکام ہوا۔ بوہر کھڑا ہو گیا اور بولا ،"ہم پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ اس بات پرتو متفق ہیں کہ آپ کا نظریہ پاگل پن ہے۔ تاہم جس بات پر ہم میں پھوٹ پڑ گئی ہے وہ یہ ہے کہ نظریہ کس قدر بیوقوفانہ ہے ۔" تنقید دندان شکن تھی۔ کیونکہ تمام پیش کردہ نظریوں کو پرکھ کر مسترد کر دیا گیا تھا ، ایک سچا نظریہ ماضی سے بہت ہی زیادہ مختلف ہونا چاہئے۔ ہائیزن برگ – پاؤلی کا نظریہ بہت ہی زیادہ روایتی ، بہت ہی عام سا تھا ، وہ ایک سچا نظریہ بننے کی اہلیت سے کافی دور تھا۔(اسی سال پاؤلی اس وقت کافی مضطرب ہو گیا جب ہائیزن برگ نے ریڈیو پر یہ کہا کہ صرف چند تیکنیکی تفصیلات ان کے نظریہ میں رہ گئیں تھیں۔ پاؤ لی نے اپنے دوست کو ایک کورا خط بھیجا جس پر صرف ایک سادہ مستطیل بنا ہوا تھا جس کا عنوان تھا ،"یہ دنیا کو بتانے کے لئے ہے کہ میں ٹائٹن کو بنا سکتا ہوں۔ صرف تیکنیکی تفصیلات اس میں موجود نہیں ہیں۔")
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ناممکنات کا مستقبل - حصّہ پنجم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- اسٹرنگ کے نظرئیے پر تنقید
آج ہر شئے کے نظرئیے کا ابھرتا ہوا امید وار اسٹرنگ کا نظریہ ہے۔ تاہم اس کے بارے میں بھی ایک شدید رد عمل ظاہر ہوا ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں بڑی جگہ حاصل کرنے کے لئے آپ کو اسٹرنگ کے نظرئیے پر کام کرنا لازمی ہوگا۔ اگر آپ یہ کام نہیں کر سکے تو آپ فارغ ہیں۔ یہ غیر ضروری خبط ہے اور طبیعیات کے لئے یہ بات اچھی نہیں ہے۔
میں جب بھی یہ تنقید سنتا ہوں تو مسکراتا ہوں ، کیونکہ طبیعیات انسانی دوڑ دھوپ کی طرح وقتی غیر ضروری خبط اور رواج کی ماتحت ہے۔ عظیم نظریوں کی قسمت خاص طور پر اختراعی انسانی علم دامن کی طرح اٹھتا اور گرتا رہتا ہے ، درحقیقت کافی برسوں پہلے جگہ بدلی ہوئی تھی ؛ اسٹرنگ کا نظریہ ناکارہ قرار دیا جا چکا تھا ، یہ ایک برگشتہ نظریہ تھا ، یہ چلتی کا نام گاڑی کے اثر کا شکار تھا۔
اسٹرنگ نظرئیے کی پیدائش ١٩٦٨ء میں اس وقت ہوئی تھی جب دو مابعد ڈاکٹریٹ کرنے والے ، گیبریل وینزیانو(Gabriel Veneziano) اور ماہیکو سوزوکی (Mahiko Suzuki)کا واسطہ ایک ایسے کلیہ سے پڑا جو ذیلی جوہری ذرّات کے تصادم کو بیان کرتا ہوا نظر آیا۔ جلد ہی اس بات کو کھوج لیا گیا کہ یہ شاندار کلیہ تھرتھرا تھے ہوئے تاروں کے تصادم سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ١٩٧٤ء میں یہ نظریہ مردہ ہو گیا تھا۔ ایک نیا نظریہ کوانٹم لونی حرکیات (کیو سی ڈی )یا " کوارک کا نظریہ اور قوی تفاعل" ایک خطرناک طاقت کے روپ میں ابھری جس نے تمام نظریوں کو پچھاڑ دیا۔ لوگوں نے کیو سی ڈی کے چکر میں اسٹرنگ کے نظرئیے کو بھلا دیا۔ تمام پیسے ، نوکریاں ، اور شہرت ان طبیعیات دانوں کے پاس جانے لگی جو کوارک کے نمونے پر کام کر رہے تھے۔
مجھے بھی وہ تاریک دن اچھی طرح سے یاد ہیں۔ صرف کچھ احمقانہ بہادر یا پھر ضدی لوگ اسٹرنگ کے نظریہ میں جتے رہے۔ اور جب یہ دریافت ہواکہ یہ اسٹرنگ صرف دس جہتوں میں ہی تھرتھرا سکتے ہیں تو نظریہ زبردست تمسخر کا نشانہ بنا۔ اسٹرنگ کے بانی جان شیوارز (John Schwarz) کالٹک میں بالا بر میں اکثر رچرڈ فینمین سے ٹکرا جاتے۔ ہر وقت مذاق کرنے والا فینمین ان سے پوچھتا ،"اچھا ، جان یہ بتاؤ کہ آج کل تم کتنی جہتوں میں پائے جا تے ہو ؟"ہم اکثر یہ بات مذاق میں کہتے تھے کہ کسی بھی اسٹرنگ نظرئیے دان کو تلاش کرنا ہے تو ان کو بیروز گاروں کی قطار میں ڈھونڈو۔(نوبل انعام یافتہ مررے گال –مین ، کوارک نمونے کے بانی ، نے ایک دفعہ مجھ سے اس بات کا ذکر کیا کہ ان کو اسٹرنگ نظریہ دانوں پر رحم آتا تھا اور انہوں نے کالٹک میں "قدرت نے خطرات میں گھرے اسٹرنگ کے نظرئیے دانوں کو بچا کر رکھا ہے۔" بنایا تاکہ جان جیسے لوگ بے روزگار نہ ہو جائیں۔)
اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کافی نوجوان طبیعیات دان اسٹرنگ کے نظریہ پر کام کررہے ہیں ، سٹیووائن برگ نے لکھا ،"اسٹرنگ کا نظریہ صرف ہمیں دور حاضر کا حتمی امیدوار فراہم کرتا ہے - یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی روشن نوجوان نظریہ دان اس پر کام نہ کریں ؟"
کیا اسٹرنگ کے نظریہ کی جانچ نہیں کی جا سکتی ؟
دور حاضر میں سب سے زیادہ تنقید اسٹرنگ کے نظریہ پر یہ ہے کہ اس کو جانچا نہیں جا سکتا۔ ناقدین کے دعووں کے مطابق ایک کہکشاں کے حجم کا جوہری تصادم گر اس کو جانچنے کے لئے درکار ہوگا۔
مگر یہ تنقید اس بات کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ زیادہ تر سائنس کو بالواسطہ کے بجائے بلاواسطہ ہی جانا گیا ہے۔ کسی نے آج تک سورج کی جانچ کے لئے اس کا سفر نہیں کیا ، مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ ہائیڈروجن گیس سے بنا ہے کیونکہ ہم اس کی طیفی لکیروں کو دیکھ سکتے ہیں۔
یا بلیک ہول کو ہی لے لیں۔ بلیک ہول کا نظریہ ١٧٨٣ء میں اس وقت پیدا ہوا جب جان مچل (John Michell) نے ایک مضمون فلوسفیکل ٹرانزیکشنس آف دی رائل سوسائٹی میں چھاپا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ کوئی ستارہ اتنا ضخیم ہو سکتا ہے کہ " ایسے کسی ضخیم جسم سے خارج ہونے والی تمام روشنی اسی کے پاس واپس ثقلی طاقت کے اثر سے لوٹ جائے گی۔ مچل کا "تاریک ستارے " کا نظریہ صدیوں تک گمنامی کے اندھیروں میں ڈوبا رہا کیونکہ اس کا براہ راست جانچنا ممکن نہ تھا۔ ١٩٣٩ء میں آئن سٹائن نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی بھی ایسا تاریک ستارہ قدرتی طور پر نہیں بن سکتا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ اندھیرے ستارے بذات خود ہی جانچ کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ اپنی تعریف کی رو سے وہ غیر مرئی ہوں گے۔ اس کے باوجود آج ہبل خلائی دوربین نے بلیک ہول کے ہمیں شاندار اور نفیس شواہد فراہم کیے ہیں۔ اب ہم اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ ارب ہا ایسے ستارے کہکشاؤں کے قلب میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں ، کافی تعداد میں بلیک ہول تو ہماری اپنی کہکشاں میں ہی موجود ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلیک ہول کے تمام ثبوت و شواہد بلاواسطہ ہیں ؛ یعنی کہ ہم نے بلیک ہول کے بارے میں تمام اطلاعات کو افزودہ قرص (تہ دار ٹکیہ)کے تجزیے سے حاصل کیا ہے جو ان کے گرد گھومتی ہے۔
مزید براں یہ کہ کئی ناقابل جانچ نظریہ آخر میں قابل جانچ بن گئے تھے۔ دمقراط کے جوہر کے نظریہ کو پیش کئے جانے کے بعد اس کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے ٢ ہزار سال کا عرصہ لگا۔ انیسویں صدی کے طبیعیات دان جیسا کہ لڈوگ بولٹزمین کو اس نظریہ پر یقین رکھنے پر موت سے ہمکنار ہونا پڑا ، اس کے باوجود آج ہمارے پاس جوہروں کی نفیس تصاویر موجود ہیں۔ پاؤلی نے خود سے نیوٹرینو کا تصّور ١٩٣٠ء میں پیش کیا تھا ، یہ ایک ایسا ذرّہ تھا جو سیسے کے ٹھوس بلاک سےبنے ہوئے پورے کے پورے نظام شمسی کےجتنے حجم میں سے بھی جذب ہوئے بغیر گزر جاتا تھا۔ پاؤلی نے ایک مرتبہ کہا تھا ،"میں نے گناہ کبیرہ کر دیا تھا ؛ میں نے ایک ایسے ذرّے کو پیش کیا جس کا مشاہدہ کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا۔" اس وقت نیوٹرینو کا مشاہدہ کر ناممکن نہ تھا ، لہٰذا عشروں تک اس کو سائنسی قصص سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود ہم آج نیوٹرینو کی کرنوں کو پیدا کر سکتے ہیں۔
درحقیقت کافی سارے ایسے بلاواسطہ اسٹرنگ نظرئیے کی جانچ کے تجربات موجود ہیں جو طبیعیات دانوں کو امید دلا رہے ہیں :
· ممکن ہے کہ لارج ہیڈرون کولائیڈر اتنی طاقتور ہو کہ وہ اسپار ٹیکل یا سپر پارٹیکل جو کہ اسٹرنگ نظریہ کے مطابق (اور دوسرے فوقی تشاکل نظریوں کے مطابق )بلند تھرتھراہٹ ہے کو پیدا کر سکے۔
· جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے ، ٢٠١٥ء میں لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا (لیزا ) کو خلاء میں بھیجا جائے گا۔ لیزا اور اس کے جانشین ، بگ بینگ آبزرور شاید اتنے حساس ہوں کہ وہ بگ بینگ سے پہلے کے مختلف قسم کے نظریوں بشمول اسٹرنگ کے کچھ نظریوں کی بھی جانچ کر سکیں گے۔
· کافی ساری تجربہ گاہیں اضافی جہتوں کی کھوج میں مصروف ہیں جو نیوٹن کے شہرہ آفاق قانون معکوس مربع سے انحراف کو ملی میٹر کے پیمانے پر تلاش کر رہے ہیں۔(اگر کوئی چوتھی مکانی جہت موجود ہوئی تو قوّت ثقل معکوس مربع کے بجائے معکوس مکعب سے کم ہوگی۔) سب سے جدید اسٹرنگ نظرئیے کا ورژن (ایم نظریہ ) گیارہ جہتوں کی پیشن گوئی کرتا ہے۔
· کئی تجربہ گاہیں تاریک مادّے کا سراغ لگانے کی کھوج میں ہیں ، کیونکہ زمین کونیاتی تاریک مادّے کی ہوا میں حرکت کر رہی ہے۔ تاریک مادّے کی خواص کے بارے میں اسٹرنگ کا نظریہ مخصوص ، قابل جانچ پیشن گوئیاں کرتا ہے کیونکہ تاریک مادّہ شاید اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ کی اضافی جہت ہے۔ (جیسا کہ فوٹینو )۔
· اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ مزید تجربات کے سلسلے (جیسا کہ نیوٹرینو کی جنوبی قطب پر تقطیب ) شاید ننھے بلیک ہول اور دوسرے عجیب اجسام کا سراغ کونیاتی شعاعوں میں بے قاعدگی کا تجزیہ کر کے لگا سکیں جس کی توانائی آسانی سے ایل ایچ سی سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ کونیاتی شعاعوں اور ایل ایچ سی کے تجربے سےمعیاری نمونے سے بھی آگے نئے جہاں کھلیں گے۔
· ایسے بھی طبیعیات دان موجود ہیں جو اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ بگ بینگ اتنا زیادہ دھماکے دار تھا کہ شاید ننھے سپر اسٹرنگ کونیاتی تناسب سے پھوٹے ہوں۔ جیسا کہ تفٹس یونیورسٹی کے طبیعیات دان الیگزینڈر ویلنکن(Alexander Vilenkin) لکھتے ہیں ،"ایک بہت ہی زیادہ پر تجسس ممکنہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ سپر اسٹرنگ کی فلکیاتی جہتیں ہوں۔۔۔تب ہم اس قابل ہوں گے کہ آسمان میں اس کا مشاہدہ کر کے براہ راست اسٹرنگ کے نظریہ کی جانچ کر سکیں۔"(بگ بینگ کے دوران پھوٹنے والی سپر اسٹرنگ کی باقیات کو تلاش کرنے کا احتمال بہت ہی معمولی ہے۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- ناممکنات کا مستقبل - حصّہ ششم (آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- کیا طبیعیات نامکمل ہے ؟
١٩٨٠ء میں ا سٹیفن ہاکنگ کے لیکچر بعنوان "کیا طبیعیات کے خاتمے کا وقت قریب نظر آ رہا ہے ؟"نے ہر شئے کے نظرئیے کو پھیلانے میں کافی مدد دی ہے، اس مضمون میں وہ کہتا ہے ،"ہم میں سے کچھ لوگ جو اس دور میں جی رہے ہیں اپنی زندگی میں ہی ایک مکمل نظرئیے کو دیکھ سکیں گے۔" اس کا دعویٰ ہے کہ اس بات امکان آدھا آدھا ہے کہ ہم اگلے ٢٠ برسوں میں حتمی نظرئیے کو حاصل کر پائیں گے۔ مگر جب ٢٠٠٠ء آگیا اور ہر شئے کے نظرئیے پر کسی بھی قسم کا اتفاق نہیں ہوسکا تو اس نے اپنی سوچ بدلی اور کہا کہ آدھا آدھا اس بات کا امکان ہے کہ اگلے ٢٠ برسوں میں ہم اس کو تلاش کر سکیں۔
پھر ٢٠٠٢ء میں ا سٹیفن ہاکنگ نے ایک بار پھر اپنے خیال میں تبدیلی کی اور اعلان کیا کہ گوڈیل کا نامکمل کلیہ اس کی سوچ کے ایک انتہائی مہلک نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس نے لکھا ،" محدود اصولوں پر مشتمل حتمی نظریہ کو بنانے میں ناکامی پر کچھ لوگ بہت زیادہ ناامید ہوں گے۔ میں اسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا ، مگر اب میں نے اپنی سوچ تبدیل کر لی ہے۔۔۔۔گوڈیل کا کلیہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاضی دانوں کے لئے ہمیشہ ہی روزگار موجود رہے گا۔ میرے خیال میں ایم نظریہ بھی طبیعیات دانوں کے لئے یہ ہی کام سرانجام دے گا۔"
اس کے دلائل پرانے ہیں :کیونکہ ریاضی نامکمل ہے اور طبیعیات کی زبان ہی ریاضی ہے ، لہٰذا ہمیشہ ایسے سچے بیان موجود رہیں گے جو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رہیں گے لہٰذا ہر شئے کا نظریہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔۔ کیونکہ نامکمل کلیہ نے یونانیوں کےاس خواب کو مار ڈالا تھاجو انہوں نے ریاضی میں تمام سچے بیانوں کو حاصل کرنے کے کے لئے دیکھاتھا ، یہ ہمیشہ ہی ممکن رہے گا کہ ہر شئے کا نظریہ ہماری پہنچ سے دور رہے۔
فری مین ڈیسن نے اس بات کو انتہائی فصاحت کے ساتھ اس وقت کہا جب اس نے یہ لکھا ،"گوڈیل نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی کی دنیا لازوال ہے؛ کوئی بھی محدود جامع کلیات کا مجموعہ اور اصول استنباط کبھی بھی پوری ریاضی کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔۔۔۔میں یہ امید کرتا ہوں کہ اس سے ملتی جلتی ہی صورتحال طبیعیات کی دنیا میں بھی ہوگی۔ اگر میرا مستقبل بینی کا نظریہ درست ہوا ، تو اس کا مطلب ہوگا کہ دنیائے طبیعیات اور فلکیات بھی لازوال ہوں گی ، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم مستقبل میں کتنا بھی آگے چلے جائیں ، ہمیشہ نت نئی چیزیں سامنے آتی رہیں گی ، نئی اطلاعات آتی رہیں گی ، نئی جہاں کھوجنے کے لئے آتے رہیں گے ،مستقل زیست، شعور اور یاداشت کا حلقہ اثر پھیلتا رہے گا۔"
فلکیاتی طبیعیات دان جان بیرو اس کا خلاصہ ایک منطقی انداز میں پیش کرتےہیں ""سائنس کی بنیاد ریاضی پر ہے ؛ ریاضی تمام سچائیوں کو نہیں دریافت کرسکتی ؛ لہٰذا سائنس بھی کبھی تمام سچائیوں کو نہیں کھوج سکتی۔"
ایسی کوئی بھی دلیل سچی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ، مگر اس میں ممکنہ نقائص موجود ہو سکتے ہیں۔ پیشہ ور ریاضی دان زیادہ اپنے کام میں موجود ریاضی کے نامکمل کلیہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نامکمل کلیہ شروع ہی اس تجزیاتی بیان سے ہوتا ہے جس میں اس ہی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ؛ یعنی کہ وہ خود سے اپنے آپ کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل بیان متناقض ہیں :
یہ جملہ غلط ہے۔
میں جھوٹا ہوں۔
اس بیان کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
پہلے جملے میں اگر بیان درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے۔ اگر جملہ غلط ہے ، تو بیان درست ہوگا۔ اسی طرح سے ، اگر میں سچ بول رہا ہوں ، تو میں جھوٹ بول رہا ہوں ، اور اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو میں سچ بول رہا ہوں۔ آخری جملے کے بارے میں اگر وہ سچا ہے تو اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سچا ہے۔
(دوسرا جملہ مشہور زمانہ جھوٹے کا تناقض ہے۔ کریٹ کے رہنے والے فلاسفر ایپیمینی ڈیز (Epimenides)اس تناقض کی مثال کو یہ کہتے ہوئے استعمال کرتے تھے ،"سارے کریٹن جھوٹے ہوتے ہیں۔" بہرحال سینٹ پال نے یہ نقطہ پوری طرح سے چھوڑ دیا اور ٹائیٹس (Titus) کے نام اپنے مکتوب میں لکھا ،"کریٹ کے اپنے ہی ایک پیغام بر نے یہ کہا تھا کہ 'کریٹن ہمیشہ ہی جھوٹے، شیطانی وحشی ، سست پیٹو ہوتے ہیں۔' اس نے یقینی طور پر ایک سچ بات کی تھی۔")
نامکمل کلیہ ایسے بیانوں پر بنتا ہے "اس جملے کو ریاضی کلیوں کے حساب سے ثابت نہیں کیا جا سکتا " اور پھر انتہائی پیچیدہ خود حوالہ جاتی تناقضات پیدا کرتا ہے۔
ہاکنگ نے بہرحال نامکمل کلیہ کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ہر شئے کے نظریئے کا وجود نہیں ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ گوڈیل کا نامکمل نظریہ خود حوالہ جاتی ہے اور طبیعیات بھی ایسی ہی بیماری سے متاثرہ ہے۔ کیونکہ مشاہد کو مشاہدے کے عمل سے الگ نہیں کیا جاسکتا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ طبیعیات ہمیشہ سے اپنے آپ کا حوالہ دے گی ، کیونکہ ہم کائنات کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ حتمی تجزیہ میں شاہد بھی جوہروں اور سالموں سے بنا ہے لہٰذا وہ بھی اس تجربہ کا لازمی حصّہ ہے جس کو وہ ادا کر رہا ہے۔
مگر ہاکنگ کی تنقید سے بچنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔ گوڈیل کے کلیہ میں موروثی طور پر موجود تناقض سے بچنے کے لئے ، پیشہ ور ریاضی دان آج کل صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ ان کا کام تمام زیر حوالہ جات سے مستثنیٰ ہے۔ اس طرح سے وہ نامکمل کلیے کو جل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ریاضی میں ہونے والی زبردست پیش رفت کافی حد تک گوڈیل کے نامکمل کلیے کو نظر انداز کر کے ہی ممکن ہو سکی ہے ، یعنی کہ دور حاضر کے تمام کام کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کا حوالہ نہیں دیں گے۔
اسی طرح سے ایسا ہونا ممکن ہے کہ ہر شئے کے نظریہ کو بنایا جا سکے۔ ایسا کوئی بھی نظریہ ہر دریافت شدہ تجربے کو شاہد / مشاہد جفت شاخیت پر انحصار کیے بغیر خود سے بیان کر سکے گا۔ اگر ایسا کوئی بھی ہر شئے کا نظریہ بگ بینگ سے لے کر قابل مشاہدہ کائنات تک جس کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں ،بیان کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر یہ صرف علمی بحث ہی رہ جائے گی کہ ہم شاہد اور مشاہد کے آپس میں تعلق کو کیسے بیان کریں ۔
مزید براں ہو سکتا ہے کہ قدرت لامتناہی اور لامحدود ہو اگرچہ وہ تھوڑے اور کم اصولوں پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ذرا شطرنج کے کھیل کا تصوّر کریں۔ دوسرے سیارے سے آئی ہوئی خلائی مخلوق سے کہیں کہ وہ صرف کھیل کو دیکھ کر اس کے اصولوں کو معلوم کریں۔ کچھ عرصے کے بعد خلائی مخلوق کو سیکھ لیتی ہے کہ کس طرح پیادے ، گھوڑے اور بادشاہ کو حرکت دی جا سکتی ہے۔ کھیل کے اصول محدود اور سادے ہیں۔ مگر ممکنہ کھیلوں کی تعداد فلکیاتی ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے قدرت کے قانون بھی سادے اور محدود ہوسکتے ہیں مگر ان قوانین کا اطلاق لامحدود و لامتناہی ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد طبیعیات کے اصولوں کی تلاش ہے۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم پہلے ہی کئی مظاہر کے مکمل نظریات کو حاصل کر چکے ہیں۔ ابھی تک کسی نے بھی میکسویل کی روشنی کی مساوات میں کوئی نقص نہیں نکالا۔ معیاری نمونہ اکثر "ہر شئے کا نظرئیے " کہلاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم قوّت ثقل کو ختم کر دیتے ہیں۔ تو معیاری نمونہ مکمل طور پر بے عیب نظریہ سوائے قوّت ثقل کے تمام مظاہر کا بن جائے گا ۔ نظریہ بدصورت ہو سکتا ہے مگر یہ کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ نامکمل کلیہ کی موجودگی میں بھی ہمارے پاس ایک لگ بھگ بے عیب نظریہ "ہر شئے کے نظریہ "کی صورت میں موجود ہے (سوائے قوّت ثقل کے )۔
میرے لئے تو کم از کم یہ بہت ہی غیر معمولی بات ہے کہ صرف ایک کاغذ کے پنے پر کوئی بھی وہ تمام قوانین لکھ سکتا ہے جن کا اطلاق تمام معلوم طبیعیاتی مظاہر پر ہوتا ہے جو کائنات کے ١٠ ارب نوری سال کے دور دراز علاقوں سے لے کر کوارک اور نیوٹرینو کی دنیا کے جہاں اصغر تک کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کاغذ کے صفحے پر صرف دو مساوات موجود ہوں گی ، آئن سٹائن کی قوّت ثقل کا نظریہ اور معیاری نمونہ۔ میرے لئے تو یہ دونوں نظریات قدرت کو انتہائی بنیادی سطح پر مکمل سادہ اور ہم آہنگ ظاہر کرتے ہیں۔ کائنات کج رو ، بےترتیب اور متلون مزاج ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ کل کائنات ہم آہنگ اور خوبصورت ہے۔
نوبل انعام یافتہ ا سٹیو وائن برگ ہمارے ہر شئے کے نظریہ کی کھوج کا موازنہ قطب شمالی کی دریافت سے کرتے ہیں۔ صدیوں تک قدیمی ملاح ان نقشوں کا استعمال کرتے رہے جن میں قطب شمالی موجود ہی نہیں تھا۔ تمام قطب نماؤں کی سوئیاں اور نقشے اس غیر دریافت شدہ نقشے کے ٹکڑے کی جانب اشارہ کر رہے تھے اس کے باوجود کسی نے اس کا سفر نہیں کیا تھا۔ اسی طرح سے ہمارے تمام اعداد و شمار اور نظریات ہر شئے کے نظریہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ہماری مساوات کی گمشدہ کڑی ہے۔
ہمیشہ ایسی چیزیں موجود رہیں گی جو ہماری پہنچ سے دور ہوں گی جن کا کھوجنا ہمیشہ نا ممکن رہے گا (جیسا کہ الیکٹران کا بالکل درست مقام، یا پھر روشنی کی رفتار سے بھی دور کی دنیا )۔مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بنیادی قانون قابل ادرک اور محدود ہیں۔ آنے والے برسوں میں جب ہم کائنات کو نئی نسل کے ذرّاتی اسراع گروں ، خلائی موجی سراغ رسانوں اور دوسری قسم کی ٹیکنالوجی کی مدد سے کھوجیں گے تو طبیعیات کا میدان بہت ہی زیادہ جوش و جذبے سے بھر جائے گا۔ ہم خاتمے کے قریب نہیں ہیں ، مگر ہم ایک نئی طبیعیات کے دور کی شروعات میں ضرور موجود ہیں۔ مگر ہم جو کچھ بھی حاصل کریں گے اس کے بعد بھی نئے افق مسلسل ہمارے انتظار میں رہیں گے۔