ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)- حصّہ چہارم (آخری حصّہ )
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الجھاؤ کے بغیر دور دراز منتقلی
دور دراز منتقلی میں پیش قدمی کافی اسراع پذیر ہے .٢٠٠٧ء میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا. طبیعیات دانوں نے ایک ایسا دور دراز منتقلی کا طریقہ پیش کر دیا جس میں الجھاؤ کی ضرورت نہیں تھی. ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوانٹم دور دراز منتقلی کے عمل میں الجھاؤ ہی سب سے مشکل عمل ہے. اس مسئلہ کا حل دور دراز منتقلی میں نئے دریچے کھول سکتا ہے.
"ہم روشنی کی اس شعاع کی بات کر رہے ہیں جو لگ بھگ ٥ ہزار ذرّوں پر مشتمل ہے جو ایک جگہ سے غائب ہو کر کہیں بھی دوسری جگہ حاضر ہو جاتے ہیں."برسبین ، آسٹریلیا میں واقع آسٹریلین ریسرچ کونسل سینٹر آف ایکسیلنس فار کوانٹم ایٹم آپٹکس کے طبیعیات دان "ایسٹون بریڈلی"(Aston Bradley) نے یہ بات کہی. جنہوں نے اس نئےسرکردہ دور دراز منتقلی کے طریقے میں مدد کی ہے .
" ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری اسکیم اصل خیالی نظریئے سے اپنی روح میں کافی قریب ہے." انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا . ان کے طریقے میں ، وہ اور ان کے رفقائے کار روبیڈیم ایٹموں کی شعاع کو لے کر اس میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلتے ہیں ، پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور پھر اصل روشنی کی شعاع کے ایٹموں کو دور دراز مقام پر دوبارہ بنا لیتے ہیں. اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ طریقہ دور دراز منتقلی کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا اور بڑھتے ہوئے اجسام کی دور دراز منتقلی کے بالکل نئے دریچے کھول دے گا.
اپنے اس طریقے کو کوانٹم دور دراز منتقلی سے ممتاز کرنے کے لئے ڈاکٹر بریڈلی اس کو "مستند دور دراز منتقلی " (Classical Teleportation)کہتے ہیں.(یہ بات تھوڑا سا مغالطے میں ڈالنے والا ہے ، کیونکہ یہ طریقہ بھی کافی حد تک کوانٹم نظریئے کی بنیاد پر ہے بجز اس کے کہ اس کی بنیاد الجھاؤ پر نہیں ہے.)
اس نئے اور انوکھے دور دراز منتقلی کے طریقے کی کنجی ایک مادّے کی نئی حالت ہے جس کو " بوس آئن سٹائن تکاثف"(Bose Einstein Condensate)یا بی ای سی کہتے ہیں جو پوری کائنات کا سب سے سرد مادّہ ہے. قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرد درجہ حرارت مطلق صفر سے ٣ کیلون اوپر ہے.(اس کی وجہ بگ بینگ کے دھماکے کی بچی ہوئی حرارت ہے. جو کائنات میں ابھی بھی پائی جاتی ہے .) مگر ایک بی ای سی ایک ڈگری کے دس لاکھ سے لے کر ایک ارب حصّے تک صفر درجہ حرارت سے اوپر ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسا درجہ حرارت ہے جو صرف تجربہ گاہوں میں ہی پایا جاتا ہے.)
جب کچھ مخصوص مادوں کو مطلق صفر کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کے ایٹم سب سے نچلے درجے تک پر شکستہ ہو جاتے ہیں . اس طرح سے تمام ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مربوط یا اتصالی حالت میں آ جاتے ہیں. تمام ایٹموں میں موجود موجی فعل ایک دوسرے پر چڑھ جاتا ہے لہٰذا ایک طریقے سے ایک بی ای سی عظیم دیوہیکل بڑا ایٹم بن جاتا ہے جس میں شامل تمام ایٹم مل کر ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا تھے ہیں. مادّے کی اس عجیب اور انوکھی حالت کی پیشن گوئی آئن سٹائن اور" ستیاندر ناتھ بوس"(Satyendrnath Bose) نے ١٩٢٥ میں کر دی تھی، مگر اس کو بننے میں مزید ٧٠ سال لگے اور آخر کار یونیورسٹی آف کولوراڈو میں واقع ایم آئی ٹی کی لیب میں١٩٩٥ء اس کو بنا لیا گیا.
اب ہم بتاتے ہیں کہ بریڈلی اور اس کے ساتھیوں کا بنایا ہوا دور رہیّتی آلہ کیسے کام کرتا ہے . سب سے پہلے وہ روبیڈیم کے سرد ترین ایٹموں کی ایک جماعت کو بی ای سی حالت میں لیتے ہیں. پھر وہ ایک مادّے کی شعاع کو بی ای سی پر مارتے ہیں (یہ شعاع بھی روبیڈیم ایٹموں سے بنی ہوتی ہے ). شعاع میں شامل ایٹم بھی پر شکستہ حالت میں توانائی کے سب سے نچلے درجے میں آنا چاہتے ہیں ، لہٰذا وہ اپنی زائد توانائی کو روشنی کے ارتعاش کی صورت میں بہا دیتے ہیں . یہ روشنی کی شعاع فائبر آپٹیکل تار کے ذریعہ بھیج دی جاتی ہے . حیرت انگیز طور پر روشنی کی وہ شعاع اپنے اندر وہ تمام کوانٹم کی اطلاعات محفوظ رکھتی ہے جو اصل مادّے کی شعاع کو بیان کر سکے.(مثلاً تمام ایٹموں کا مقام اور سمتی رفتار). اس کے بعد روشنی کی شعاع ایک اور بی ای سی سے ٹکراتی ہے ، جو روشنی کی شعاع کو اصلی مادّے کی شعاع میں بدل دیتی ہے.
یہ نیا دور دراز منتقلی کا طریقہ شاندار وعید لے کر آیا ہے کیونکہ یہ ایٹموں کی الجھاؤ والی چیز کا استعمال نہیں کرتا. مگر اس طریقہ میں کچھ مسائل بھی ہیں. اس کا سارا دارومدار ر بی ای سی کی خصوصیت پر ہے جن کو تجربہ گاہ میں بھی بنانا مشکل ہوتا ہے . مزید براں یہ کہ بی ای سی کے خصائص بہت ہی مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ جیسے وہ ایک ہی ایٹم ہو . اصولی طور پر کوانٹم کا عجیب و انوکھا برتاؤ جو ہم ایٹمی پیمانے پر دیکھتے تھے اب خالی آنکھ سے بی ای سی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں. کسی زمانے میں یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی.
بی ای سی کا فوری استعمال ایٹمی پیمانے کی لیزر میں ہو سکتا ہے، ظاہر ہے جس کی بنیاد ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر ا تھے ہوئے فوٹون کی مربوط شعاعیں ہی ہوں گی. مگر بی ای سی ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایٹموں کی جماعت ہے، لہٰذا یہ بات بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی بی ای سی ایٹموں کی شعاع بنائی جا سکے جو سب کی سب مربوط ہوں. دوسرے الفاظ میں ، ایک بی ای سی لیزر کی نقل بنا سکتی ہے ، جس کو ہم ایٹمی لیزر یا مادّے کی لیزر کہہ سکتے ہیں . لیزر کا تجارتی استعمال بہت ہی زبردست ہوگا اور ایٹمی لیزر سے بنی ہوئی تجارتی اشیاء میں بھی ایسا گہرا اثر ڈال سکتی ہیں. مگر کیونکہ بی ای سی صرف اس درجہ حرارت پر بنائی جا سکتی ہے جو مطلق صفر سے تھوڑا سے اوپر ہو لہٰذا اس میدان میں پیش رفت ہرچند متوازی مگر پھر بھی کافی آہستہ ہے.
اس میدان میں اب تک کی ہوئی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کب تک ہم اپنے آپ کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟ طبیعیات دان سمجھتے ہیں اور پر امید ہیں کہ آیندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں . اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا. نظریاتی طور پر سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جانے والی انسانوں کی دور دراز منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن در حقیقت اس قسم کے کارنامے کو انجام دینے میں فنی مسائل بہت ہی زیادہ ہیں. دنیا میں موجود سب سے اچھی تجربہ گاہیں بھی ابھی صرف ننھے روشنی کے فوٹون اور انفرادی ایٹموں کو مربوط کر پائی ہیں. کوانٹم مربوطیت بڑے اجسام جیسے حضرت انسان میں پیدا کرنے کا سوال آنے والی کافی عرصے تک پیدا ہی نہیں ہوتا . اصل میں اگر روز مرہ کی چیزوں کو دور منتقل کرنا ممکن ہو تو بھی اس کام میں کئی صدیاں یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ز
کوانٹم دور دراز منتقلی کے مقدر کے ساتھ ہی کوانٹم کمپیوٹر ز میں ہونے والی پیش رفت کی قسمت جڑی ہوئی ہے. دونوں کوانٹم کی طبیعیات اور ایک ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں . دونوں میدانوں کے درمیان زبردست اخصاب (Fertilization)موجود ہے. کوانٹم کمپیوٹر ز ایک دن ہماری میزوں پر رکھے ہوئے ڈیجیٹل کمپیوٹر ز سے بدل دیے جائیں گے. حقیقت میں مستقبل میں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی معیشت اس طرح کے کمپیوٹرز پر انحصار کر رہی ہوگی ، لہٰذا اس طرح کی ٹیکنالوجی میں زبردست قسم کے تجارتی مفاد چھپے ہیں. ایک دن سلیکان ویلی، زنگ آلود پٹی بن جائی گی جو کوانٹم کمپیوٹنگ سے نمودار ہوئی ٹیکنالوجی سے بدل چکی ہوگی.
عام کمپیوٹر ثنائی نظام پر کام کرتا ہے جو ایک اور صفر پر مشتمل ہوتا ہے ، جن کو بٹس کہتے ہیں. مگر کوانٹم کمپیوٹر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں. وہ کیو بٹس پر کام کرتے ہیں جو صفر اور ایک کی مقدار کے درمیان کی قدریں بھی استعمال کر سکتے ہیں. ذرا ایک ایسے ایٹم کا تصوّر کریں جو کسی مقناطیسی میدان میں رکھا ہوا کسی لٹو کی طرح گھوم رہا ہے اس کا محور یا تو اوپر یا نیچے دونوں جانب ہو سکتا ہے . عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایٹم کا گھماؤ یا تو اوپر کی جانب یا پھر نیچے کی جانب ہو سکتا ہے مگر دونوں جانب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا. مگر کوانٹم کی عجیب و غریب دنیا میں ، ایٹم کو دونوں حالتوں کو جمع کرکے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اوپر اور نیچے دونوں کی جانب کے گھماؤ کو جمع کرکے بتایا جا سکتا ہے. کوانٹم کی زیریں دنیا میں ، ہر جسم کو تمام حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے.(اگر بڑے جسم مثلاً بلی کو کوانٹم میں بیان کیا جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے زندہ بلی کے موجی فعل اور مردہ بلی کے موجی فعل دونوں کو جمع کرکے بیان کیا ہوگا ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی نہ زندہ ہوگی نہ ہی مردہ . اس کو مزید تفصیل سے تیرہویں باب میں بیان کیا جائے گا.)
اب ایک ایسی ایٹمی رسی کا تصور کریں جو مقناطیسی میدان میں ایک صف میں کھڑی ہے ، جس میں ایٹموں کا گھماؤ کسی ایک طرف ہوا ہے . اگر لیزر کی شعاع اس ایٹم کی رسی پر ماری جائے گی تو وہ ان ایٹموں کی جماعت سے ٹکرا کر واپس آ جائے گی. اس سارے عمل میں کچھ ایٹموں کے محور کا گھماؤ تبدیل ہو جائے گا. آنے اور جانے والی لیزر کی شعاع کو ناپنے سے ہم ایک پیچیدہ کوانٹم حسابی عمل انجام دے چکے ہیں جس میں کئی گھماؤ کی تبدیلیوں کو ناپنا شامل ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ابھی تک اپنے ابتدائی دور میں ہیں. اب تک کا ورلڈ ریکارڈ جو کوانٹم کمپیوٹر نے بنایا ہے وہ ٣ * ٥ = ١٥ کا ہے، ایک ایسا حسابی عمل جو شاید ہی آج کے دور کے بڑے کمپیوٹر ز کی جگہ لے سکے. کوانٹم دور دراز منتقلی اور کوانٹم حساب دونوں میں ایک مشترکہ مہلک کمزوری ہے: ایک بڑے ایٹموں کے گروہ میں مربوطی کو قائم رکھنا . اگر کسی طرح سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں میدانوں میں یہ ایک انقلابی دریافت ہوگی .
سی آئی اے اور دوسرے خفیہ ادارے کوانٹم کمپیوٹر ز میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں. دنیا کے رازوں کی اکثریت میں ایک خفیہ کنجی ہوتی ہے جو ایک بہت ہی" بڑا عدد صحیح"(Large Integer) ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ کسی کو تقسیم کرکے مفرد عدد کو نکلنا ہوتا ہے. اگر وہ کنجی کسی دو نمبروں سے بنی ہو ، جس میں ہر ایک سو اعداد پر مشتمل ہو تو ایک عددی کمپیوٹر کو اس کو حل کرنے کے لئے ایک سو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا. ایسا کوئی بھی رمز آج کے دور میں توڑا نہیں جا سکتا.
١٩١٤ء میں بیل لیب کے "پیٹر شور"(Peter Shor) نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی بڑے نمبر کو توڑنا کوانٹم کمپیوٹر کے لئے بچوں کا کھیل ہے. اس دریافت نے جلد ہی خفیہ اداروں . نظری طور پر کوانٹم کمپیوٹر دنیا کے تمام رمزوں کو توڑ سکتے ہیں. کوانٹم کمپیوٹرز سے دور حاضر کے کمپیوٹر ز کے مروجہ نظام کی سیکیورٹی کو مکمل خطرہ لاحق ہے. دنیا کا پہلا ملک جس نے اس قسم کا نظام بنا لیا وہ دوسری اقوام اور اداروں کے راز حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا.
کچھ سائنس دانوں کو اس بات کی پوری امید ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معیشت کا سارا دارو مدار ان کوانٹم کمپیوٹر ز پر ہوگا .اس بات کا کافی امکان ہے کہ سلیکان کی بنیاد پر بننے والے کمپیوٹر ز اپنی حسابی استعداد کی آخری طبیعیاتی حد تک ٢٠٢٠ء میں پہنچ جائیں گے. اگر ہم ٹیکنالوجی کو مزید آگے تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا مزید طاقتور کمپیوٹر لازمی طور پر درکار ہوگا. کچھ لوگ انسانی دماغ جیسی قوّت کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل کرنے کی تلاش میں بھی ہیں .
ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے. اگر ہم اتصال کا مسئلہ حل کر لیں تو نا صرف ہم دور دراز منتقلی کے مسائل پر قابو پا لیں گے بلکہ ہم ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں نا قابل تصوّر طریقوں سے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے. یہ دریافت اس قدر اہم ہوگی کہ میں اس پر دوبارہ اگلے ابواب میں بات کروں گا .
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ، ایٹموں کو آپس میں مربوط رکھنا تجربہ گاہ میں بھی قائم رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے . چھوٹی سی چھوٹی تھر تھرا ہٹ بھی دو ایٹموں کے باہم ربط کو خراب کر کے حساب کتاب کے عمل کو تباہ کر سکتی ہے. آج کے دور میں صرف کچھ ایٹموں میں ہی مربوطی کیفیت کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل کام ہے. جو ایٹم نینو سیکنڈوں میں غیر مربوط ہو جاتے تھے اب ان کی مربوطی کا وقت بڑھ کر ایک سیکنڈ تک ہو گیا ہے . دور دراز منتقلی کو نہایت تیزی کے ساتھ ایٹموں کے دوبارہ غیر مربوط ہونے سے پہلے مکمل ہونا ہوگا . بس یہی ایک ایسی بات ہے دور دراز منتقلی اور کوانٹم حسابی عمل پر پابندی لگا دیتی ہے.
ان تمام تر چیلنجز کے باوجود ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے "ڈیوڈ ڈویچے"(David Deutsch) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسائل حل کر لئے جائیں گے: حالیہ نظری پیش رفت اور قسمت کے بھروسے (ایک کوانٹم کمپیوٹر کو) بننے میں کم از کم پچاس برس کا عرصہ لگے گا ....یہ ایک بالکل ہی نیا طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ قدرت کو انضباط کیا جا سکے گا."
ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کو بنانے کے لئے ہمیں سینکڑوں سے لے کر دسیوں لاکھ ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھراتے ہوئے درکار ہوں گے جو ہماری موجودہ قابلیت اور بساط سے کہیں زیادہ ہے. کپتان کرک والی دور دراز منتقلی تو بہت ہی مشکل ہے . ہمیں کپتان کرک کے جڑواں کے ساتھ کوانٹم الجھاؤ پیدا کرنا ہوگا . نینو ٹیکنالوجی اور جدید کمپیوٹر کے ساتھ بھی ایسا کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے.
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دور دراز منتقلی ایٹمی پیمانے پر تو موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم پیچیدہ اور نامیاتی مادّے بھی آنے والی کچھ دہائیوں میں دور منتقل کر سکیں. لیکن بڑے اجسام کو حقیقت میں اگر دور دراز منتقل کرنا ممکن بھی ہوا تو اس کے لئے ہمیں آنے والی کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں یا اس سے بھی زیادہ تک کا انتظار کرنا ہوگا . لہٰذا پیچیدہ سالموں بلکہ وائرس یا زندہ خلیہ کی دور دراز منتقلی جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل ہے جو شاید اسی صدی تک ممکن ہو جائے. اگرچہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے انسان کی دور دراز منتقلی تو ممکن ہے لیکن ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہوا تو بھی اس کام میں کئی صدیاں لگ جائیں گی . لہٰذا اس قسم کی دور دراز منتقلی کو میں جماعت "II" کی ناممکنات میں شامل کروں گا.
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)- حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر پورے دن آپ کا سامنا کسی نئی چیز سے نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دن بیکار گیا۔
- جان وہیلر (John Wheeler)
خلاف قیاس عمل کرنے والے ہی ناممکنات کو حاصل کریں گے۔
- ایم سی ایسچر(M.C Escher)
"اے ای وین ووگٹ " (E.A Van Vogt) کے ناول "سلان" (Slan) نے ہمارے خیال خوانی سے جڑے ڈر کو بہت ہی زبردست طریقے سے اپنا موضوع بنایا ہے۔
" جامی کراس"(Jommy Cross) اس ناول کا ہیرو ایک" سلان" ہوتا ہے جس کا تعلق ایک معدوم ہوتی ہوئی انتہائی ذہانت والی خیال خواں نسل سے ہوتا ہے۔
ناول میں اس کے والدین کو بے رحمی کے ساتھ غیض و غضب سے بھرے انسانوں کا وہ مجمع قتل کر دیتا ہے جو تمام خیال رسانوں سے اس لئے خوف کھاتا اور نفرت کرتا تھا کہ سلانوں کی یہ شاندار طاقت انسانوں کی ذاتی زندگی میں ان کے بے تکلف خیالات میں دخل در معقولات کر سکتی تھی۔ ناول میں انسان بے رحمی کے ساتھ سلان کا جانوروں کی طرح سے شکار کر تے ہیں ۔ سر میں سے نکلتی ہوئی بیل سوت کی وجہ سے سلان کو پہچانا بہت ہی آسان تھا۔ ناول کی کہانی کے دوران ، جامی دوسرے سلانوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں کے اس بےرحم شکار سے تنگ آ کر خلاء میں فرار ہو گئے تھے۔
تاریخی طور پر دماغ شناسی اس قدر اہم رہی ہے کہ اکثر اس کا تعلق دیوتاؤں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دیوتا کی بنیادی طاقتوں میں سے ایک دماغ کو پڑھنا تھا تاکہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کر سکیں۔ دماغوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والا ایک خیال خواں آسانی کے ساتھ کرۂ ارض کا طاقتور ترین شخص بن سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص کسی بھی وال اسٹریٹ بینکر کے دماغ میں داخل ہو کر یا اس کو حریف سے جبراً بلیک میل کرکے صاحب ثروت بھی بن سکتا ہے۔ اس کا وجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بغیر کوشش کیے کسی بھی قوم کے حساس قومی راز چرا سکتا ہے۔ سلان کی طرح اس سے بھی ڈرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جائے۔
ایک سچے خیال رساں کی زبردست طاقت مشہور زمانہ سلسلے "فاؤنڈیشن" از" آئزک ایسی موف"(Issac Asimov) میں دکھائی گئی ہے۔ اس کی اکثر تشہیر سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا کی سب سے عظیم کہانی کے طور پر کی جاتی ہے۔ کہانی میں ایک کہکشانی سلطنت جو کئی ہزار سال سے حکومت کر رہی تھی اب اپنے زوال و بربادی کے قریب تھی۔ خفیہ سائنس دانوں کی ایک جماعت جس کا نام سیکنڈ فاؤنڈیشن تھا اس نے پیچیدہ مساوات کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ سلطنت کی تہذیب زوال پذیر ہو کر آخر کار ٣٠ ہزار سال کے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔ سائنس دانوں نے مساوات کی بنیاد پر ایک مفصل منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا مقصد تہذیب کے زوال کو چند ہزار سال تک محدود رکھنا تھا۔ لیکن پھر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی۔ ان کی مفصل مساوات بھی ایک اندازہ لگانے سے چوک گئی تھی۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ایک "تقلیبی"(Mutant) جو "خچر(Mule)" کہلایا پیدا ہو گیا۔ یہ تقلیبی خچر دور دراز سے بیٹھ کر بھی دماغوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا ۔نتیجتاً اس کے پاس وہ طاقت و صلاحیت آ گئی تھی جس سے وہ کہکشانی سلطنت پر بھی قبضہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اگر اس خیال خواں کو نہیں روکا جاتا تو کہکشاں کے مقدر میں ٣٠ ہزار سال کا انتشارو خلفشار لکھ دیا گیا تھا۔
اگرچہ سائنس فکشن خیال رسانی کی زبردست کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر حقیقت کچھ زیادہ ہی تلخ ہے۔ خیالات ذاتی اور غیر مرئی ہوتے ہیں ، لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدیوں سے بہروپئے اور ٹھگ ہم میں موجود سادہ لوح افراد کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ایک سب سے آزمودہ ترکیب جو جادوگر اور دماغ پڑھنے ولے استعمال کرتے ہیں اس میں وہ اپنا ایک شریک کار سامعین میں گھسا دیتے ہیں۔ پھر اپنے اس شریک کار کا دماغ پڑھ کر وہ مجمع کو متاثر کرتے ہیں۔
کئی جادوگر اور دماغ پڑھنے والوں نے اپنا پیشہ مشہور زمانہ کرتب" ہیٹ ٹرک" سے شروع کیا۔ جس میں لوگ ذاتی پیغام ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس کو ٹوپی کے اندر ڈال دیتے تھے۔ اس کے بعد جادوگر سامعین کے پاس جا کر ان کو بتا تا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا تھا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ اس میں مغالطے کی حد تک سادہ مگر فطین ترکیب استعمال کی جاتی تھی۔ (مزید تفصیلات کے لئے حواشی ملاحظہ کیجئے )
ایک اور مشہور خیال خوانی واقعے میں انسان کے بجائے ایک جانور کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ترکیب میں ایک حیرت انگیز گھوڑاجس کا نام "چالاک ہنز "(Clever Hans) تھا اس کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس گھوڑے نے یورپین تماش بینوں کو ١٨٩٠ء میں حیرت کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔چالاک ہنز تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لئے پیچیدہ ریاضی کے حسابات حل کرنے کے کارنامے سرانجام دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چالاک ہنز سے ٤٨ کو ٦ سے تقسیم کرنے کا کہتے ، تو گھوڑا اپنے کھر کو آٹھ دفعہ زمین پر مارتا۔ چالاک ہنز حقیقت میں تقسیم، ضرب کسری جمع ، اور الفاظ کے ہجے بھی کر سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ وہ تو موسیقی کی طرزوں کو بھی پہچان سکتا تھا۔ چالاک ہنز کے مداحوں نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ یا تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ ذہین تھا یا پھر وہ خیال رسانی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ سے نتیجے نکال لیتا تھا۔
مگر چالاک ہنز کسی فطین ترکیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی حساب لگانے کی شاندار صلاحیت نے اس کے تربیت کار کو بھی بے وقوف بنا دیا تھا۔ ١٩٠٤ء میں ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف" (C. Strumpf) اس گھوڑے کی جانچ کرنے کے لئے اپنے پاس لے کر آئے لیکن انہوں کسی بھی قسم کی چالاکی یا گھوڑے کو ہوتے ہوئے مخفی اشارے نہیں دیکھے۔ ان کے اس تجزیے سے عوام میں چالاک ہنز کی سحر انگیزی اور بڑھ گئی۔ تین سال کے بعد ، اسٹرف کے ایک شاگرد ماہر نفسیات "آسکر فاسٹ"(Oskar Pfungst) نے ایک اور با مشقت تجزیہ کیا اور آخر کار چالاک ہنز کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ گھوڑا صرف اپنے تربیت کار کے چہرے کے انتہائی لطیف تاثرات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ گھوڑا اس وقت تک اپنا کھر زمین پر مارتا رہتا تھا جب تک اس کا تربیت کار اپنے چہرے کے تاثرات کو ہلکا سا بدل نہیں دیتا تھا۔ تاثرات کے بدلتے ہی وہ اپنا کھر زمین پر مارنا روک دیتا تھا۔ چالاک گھوڑا نہ تو حساب کتاب کر سکتا تھا نہ ہی لوگوں کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا۔ وہ تو صرف ایک انتہائی چالاک لوگوں کے چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ کرنے والا تھا۔
تاریخ میں دوسرے خیال خواں جانوروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے ١٥٩١ء میں انگلستان میں ایک گھوڑا جس کا نام موروکو تھا اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں وہ گھوڑا بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مالک کی قسمت کھول دی تھی وہ تماشائیوں میں سے کسی بھی شخص کو پسند کرتا ، حرف تہجی کی طرف اشارہ ، اور پانسے پر موجود اعداد کو جمع بھی کر سکتا تھا۔ اس نے انگلینڈ میں ایک ایسی سنسنی پھیلا دی تھی کہ شیکسپیئر نے اس کو اپنے ڈرامے "لووز لیبرس لوسٹ " میں بطور "رقاص گھوڑے" کا کردار لکھ کر امر کر دیا۔
جواری بھی اکثر لوگوں کے دماغ کو کافی حد تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ عام طور پر انسان جب بھی کوئی خوش ہونے والی چیز دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ جبکہ اس کی آنکھ کی پتلیاں اس وقت سکڑ جاتی ہیں جب وہ کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو (آنکھ کی پتلیاں اس وقت بھی سکڑ جاتی ہیں جب وہ ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہا ہوتا ہے )۔ جواری اپنے سامنے بیٹھے مخالفوں کے چہروں پر ان کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے سکڑنے اور پھیلنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر جواری رنگین نقاب لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے تاثرات کو چھپا سکیں۔ آنکھوں پر لیزر کی شعاع کو مار کر بھی اس کے منعکس ہونے کی جگہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے کافی صحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص پر لیزر کی شعاع ماری گئی ہے وہ کہاں دیکھ رہا ہے۔ منعکس ہوئے لیزر کے نقطہ کا تجزیہ کرکے اس بات کا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فاعل کس طرح سے تصویر کا معائنہ کر رہا ہے۔ ان دونوں ٹیکنالوجی کو ملا کر کسی چیز کا معائنہ کرتے ہوئے شخص کے جذباتی تاثرات اس کی بے خبری کی حالت میں معلوم کیے جا سکتے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)- حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
طبعی تحقیق
خیال رسانی اور بھوت پریت جیسے مظاہر کا پہلا باقاعدہ سائنسی طرز فکر سے مطالعہ سوسائٹی فار فزیکل ریسرچ نے کیا تھا جس کی بنیاد ١٨٨٢ء میں ڈالی گئی تھی۔(اسی سال "دماغی خیال خوانی" کا نام "ایف ڈبلیو میئرس(F.W Mayers)" نے رکھا جو اس سوسائٹی کے کارکن تھے۔ اس سوسائٹی کے ماضی کے صدور انیسویں صدی کی کچھ ممتاز شخصیات تھیں۔ اس سوسائٹی نے، جو آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ، کئی دھوکے بازوں کے ڈھکوسلوں کا پردہ فاش کیا تھا لیکن پھر بھی اکثر اوقات یہ سوسائٹی بھی اکثر دو حصّوں میں بٹ جاتی تھی جس میں سے ایک حصّہ روحانیت جیسے مظاہر پر کامل یقین رکھتا تھا جبکہ دوسرا سائنس دانوں پر مشتمل تھا جو ایسی چیزوں کا زیادہ سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔
سوسائٹی کے ایک محقق جن کا نام ڈاکٹر "جوزف بینکس رائن"(Joseph Banks Rhine) تھا انہوں نے منظم اور با مشقت روحی مظاہر کا مطالعہ ١٩٢٧ء میں امریکہ کی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی میں موجود رائن انسٹیٹیوٹ (جو اب رائن ریسرچ سینٹر کہلاتا ہے ) سے شروع کیا۔ کئی دہائیوں تک وہ اور ان کی بیوی ،" لوئسا"(Louisa) نے اپنی طرز کے کچھ اولین سائنسی طرز فکر کے تجربات امریکہ میں موجود مختلف قسم کے ماورائے نفسیاتی مظاہر پر کیے اور اپنے طریقے اور اس سے حاصل کردہ نتائج کو ہم رتبہ جائزے کے لئے مختلف رسائل میں شایع کروایا۔ یہ رائن ہی تھے جنہوں نے "خارج از حواس شعور "(Extrasensory Perception) کی اصطلاح اپنی پہلی کتاب میں وضع کی تھی۔
اصل میں یہ رائن کی ہی تجربہ گاہ تھی جس نے نفسیات کی تحقیق کے معیار مقرر کیے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھ جن کا نام ڈاکٹر "کارل زنیر"(Karl Zener) تھا انہوں نے خیال خوانی کی طاقت جانچنے کے لئے ایک "پنج نشانی گتے" کا نظام وضع کیا جس کو اب ہم" زنیر کے گتے " کے نام سے جانتے ہیں۔ نتیجوں کی اکثریت میں تو کسی بھی قسم کی خیال خوانی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ لیکن بہت ہی چھوٹی اور مختصر سی تعداد ان تجربوں کی بھی تھی جس میں انتہائی معمولی مگر قابل توجہ ہم ربطی مواد موجود تھا جس کو صرف اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان تجربات کو اکثر دوسرے محققین دہرا نہیں سکتے تھے۔
اگرچہ رائن کی کوشش تھی کہ اس کی شہرت ایک سخت گیر محقق کے طور پر رہے ، مگر اس کی شہرت پر اس وقت بٹا لگا جب اس کی ملاقات ایک گھوڑے سے ہوئی جس کا نام "لیڈی ونڈر "تھا۔ یہ گھوڑا خیرہ کناں قسم کے خیال خوانی کے کرتب دکھا سکتا تھا جیسا کہ حروف تہجی والے کسی کھلونا بلاک کو ہلانا، اور تماشائیوں کے ذہن میں موجود کسی الفاظ کے ہجے کرنا۔ بظاہر رائن کو چالاک ہنز کے ہنر کی معلومات نہیں تھیں۔ ١٩٢٧ء میں رائن نے لیڈی ونڈر کا کچھ تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا " ایک انجانے عمل میں دماغی اثر سے منتقلی کو بیان کرنے کی صرف ایک خیال خوانی کی ہی وجہ باقی بچی ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں مل سکی جو اس نتیجے سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام ہو اور کوئی دوسرا مفروضہ بھی موجود نہیں ہے جو حاصل کردہ نتیجے کی روشنی میں اس کو بیان کر سکے۔” بعد میں "میلبرن کرسٹوفر"(Melbourne Christopher) نے لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کا بھانڈا پھوڑا: انتہائی ہلکے چابک کے اثر لیڈی ونڈر کے کھر کو روکنے کے لئے اس کا مالک استعمال کرتا تھا۔(لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کی اصلیت جاننے کے باوجود بھی، رائن اس بات پر مصر رہا کہ گھوڑے میں حقیقت میں خیال رسانی کی طاقت موجود تھی لیکن بعد میں اس نے کسی طرح سے اپنی اس کو کھو دیا ہے۔ وہ اس کے مالک کو مجبور کرتا رہا کہ کسی طرح سے اس گھوڑے کی خیال رسانی کی قوّت کو دوبارہ لے آئے۔)
رائن کی شہرت کو زبردست حتمی جھٹکا لگا تھا ، بہرحال جب وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے ایک ایسے جانشین کی تلاش شروع کی جس کا نام بے داغ ہو اور وہ انسٹیٹیوٹ کے کام کو لے کر آگے چلے۔ ایک متوقع امیدوار ڈاکٹر "والٹر لیوی"(Walter Levy) تھے جن کو اس نے ١٩٧٣ء میں ملازم رکھا تھا۔ ڈاکٹر لیوی اس میدان میں ایک ابھرتا ہوا ستارا تھے جنہوں نے ایک ایسے سنسنی خیز تجربے کے نتیجوں کو بیان کیا تھا جس میں ایک چوہا خیال خوانی کے ذریعہ کمپیوٹر سے پیدا ہوئے بے ربط اعداد کو تبدیل کر سکتا تھا۔ بہرحال ایک تجربہ گاہ کے ایک شکی مزدور نے ڈاکٹر لیوی کو چوری چھپے رات کو تجربہ گاہ میں جاتا ہوا دیکھا جو رات کے اندھیرے میں نتیجوں کو تبدیل کر رہے تھے۔ ان کو نتیجوں کو تبدیل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ مزید جانچ سے پتا چلا کہ چوہے کے پاس کسی بھی قسم کی خیال خوانی کی کوئی طاقت نہیں تھی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر لیوی کی بے عزتی کی گئی اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔
خیال خوانی اور اسٹار گیٹ
مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی نے سرد جنگ کے دوران زبردست زور پکڑا تھا جس کے دوران کافی خفیہ تجربات خیال خوانی، ذہن کو قابو کرنے پر اور دور سے بیٹھ کر دیکھنے کے میدان میں ہوتے رہے۔ (دور سے دیکھنے کے عمل کا مطلب ہے کے فاصلے پر رہتے ہوئے صرف دماغ کی طاقت سے دوسروں کے دماغ کو پڑھ کر دور دراز کی چیزوں کو دیکھا جائے۔) اسٹار گیٹ اس مخفی پروگرام کا خفیہ نام تھا جس میں سی آئی اے نے کافی تحقیقاتی منصوبوں (جیسا کہ سن اسٹریک، گرل فلیم، اور سینٹر لین )کی مالی معاونت کی تھی۔ یہ کام ١٩٧٠ء کے آس پاس اس وقت شروع ہوا تھا جب سی آئی اے کو یہ پتا چلا کہ سوویت یونین ٦ کروڑ روبل سال میں سائیکوٹرونکس تحقیق پر خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ کو اس بات کی پریشانی تھی کہ سوویت یونین ای ایس پی(خارج از حواس شعور ) کا استعمال آبدوزوں اور فوجی تنصیبات کو ڈھونڈھنے ، جاسوسوں کو پہچانے اور خفیہ دستاویزات کو پڑھنے کے لئے استعمال کرے گا۔
١٩٧٢ء میں سی آئی اے نے اس تحقیق میں پیسا ڈالنا شروع کیا ، مینلو پارک میں واقع اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آر آئی ) کے "رسل ٹارگ "(Russell Targ) اور "ہیرالڈ پٹ آف"(Herald Puthoff) اس کے سربراہ تھے۔ شروع میں انہوں نے نفسیاتی ماہرین کی جماعت کو تربیت دینے کا سوچا جو نفسیاتی جنگ کو لڑ سکیں۔ دو دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے میں امریکہ نے ٢ کروڑ ڈالر اسٹار گیٹ پر خرچ کر دیئے ۔ اس تحقیقی کام میں ٤٠ سے زائد ملازمین،٢٣ دور دراز بیٹھ کر دیکھنے والے اور تین ماہر نفسیات ملازمت پر رکھے ہوئے تھے۔
١٩٩٥ء تک ٥ لاکھ ڈالر سالانہ کے بجٹ کے ساتھ ، سی آئی اے نے سینکڑوں اطلاعات سمیٹنے والے منصوبوں کا انتظام کیا جس میں ہزاروں دور دراز سے دیکھنے والی نشستیں بھی شامل تھیں۔ دور دراز سے دیکھنے والے ناظر سے خاص طور پر یہ کہا جاتا تھا۔
· ١٩٨٦ء کے بم دھماکوں سے پہلے کرنل قزافی کو ڈھونڈو۔
· ١٩٩٤ء میں شمالی کوریا کے پلوٹونیم کے ذخائر کا پتا لگاؤ۔
· ١٩٨١ء میں اٹلی میں ریڈ بریگیڈ کے اغواء کئے ہوئے یرغمالیوں کا پتا لگاؤ۔
· افریقہ میں تباہ ہوئے سوویت ٹی یو -٩٥ بمبار کا معلوم کرو۔
١٩٩٥ء میں سی آئی اے نے امریکن انسٹیٹیوٹ فور ریسرچ (اے آئی آر )سے اس تحقیقاتی پروگرام کو جانچنے کا کہا۔ اے آئی آر نے ان پروگراموں کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ "کوئی بھی ایسا دستاویزی ثبوت نہیں ملا جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ ان تجربات کی خفیہ اداروں کے لئے کوئی قدرو قیمت ہے۔" اے آئی آر کے" ڈیوڈ گوسلن" (David Goslin)نے لکھا۔
اسٹار گیٹ کے حامیوں نے گزرے برسوں میں دعوے کئے کہ انہوں نے آٹھ مارٹینی نتائج حاصل کئے (اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تجربات سے حاصل شدہ شاندار نتائج کی شدت کو ہضم کرنے کے لئے آٹھ دفعہ مارٹینی کے جام پینے پڑتے۔) ناقدین بہرحال اس بات پر مصر رہے کہ دور دراز سے دیکھنے کی تجربات کی اکثریت کے نتیجے بے تکے اور غیر متعلق تھے اور اس عمل میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ڈالر ز کو ضائع کیا گیا تھا۔ مزید براں چند "دعوے " جو کیے گئے تھے وہ بھی اس قدر مبہم اور عام سے تھے کہ ان کو کافی عمومی مواقع پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اے آئی آر کی رپورٹ نے یہ بھی لکھا کہ اسٹار گیٹ کے سب سے زیادہ کامیاب وہ تجربے تھے جس میں دور بیٹھے ہوئے ناظر کو پہلے ہی اس تجرباتی کاروائی سے متعلق کچھ معلومات حاصل تھیں۔ لہٰذا قرین قیاس ہے کہ انہوں نے بہتر اندازہ لگائے اور یہ بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے۔ آخر میں سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسٹار گیٹ نے ایک بھی ایسی اطلاع نہیں دی جو اس ادارے کو کسی بھی قسم کی خفیہ کروائی میں مدد کر سکے لہٰذا اس نے اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا۔( سی آئی اے کی صدام حسین کو خلیج کی جنگ میں ڈھونڈنے کے لئے دور دراز ناظر کے استعمال کی افواہیں سرگرم رہی تھیں اگرچہ ان تمام کوششوں میں ناکامی ہی ہاتھ لگی تھی۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)- حصّہ سوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دماغی تبزیہ
اسی دوران سائنس دانوں نے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تھوڑا بہت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ انیسویں صدی میں سائنس دانوں کو شائبہ ہوا کہ برقی اشارے دماغ کے اندر نشر ہوتے ہیں۔١٨٧٥ء میں "رچرڈ کیٹن"(Richard Caton) نے سر کی سطح پر برقیرے لگا کر یہ بات دریافت کی کہ دماغ سے نکلنے والے ننھے برقی اشاروں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی کام نے آخر کار دماغی "برق نگار "( ای ای جی – (Electroencephalograph کی ایجاد کی داغ بیل ڈالی۔
نظری طور پر ہمارا ذہن ایک ایسا مرسل ہے جس کے ذریعہ ہمارے خیالات ننھے برقی اشاروں اور برقی مقناطیسی موجوں کی شکل میں نشر ہوتے ہیں۔ لیکن ان اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے کسی کا دماغ پڑھنے میں کافی مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اشارہ بہت ہی کمزور ملی واٹ درجہ میں ہوتے ہیں۔ دوسرے ، اشارے بڑی حد تک مہمل، ناقابل شناخت بے ربط شور پر مشتمل ہوتے ہیں۔ صرف خام اطلاعات ہی اس کچرے سے اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ تیسرے ہمارا دماغ اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسرے دماغ سے ان اشاروں کے ذریعہ قابل فہم پیغامات وصول کر سکے۔ یعنی با الفاظ دیگر ہمارے پاس ان اشاروں کو حاصل کرنے والے انٹینا کی کمی ہے۔ آخری مشکل یہ ہے کہ اگر ہم ان مدھم اشاروں کو حاصل بھی کر لیں تو بھی ہم ان کی بے ربطی کو درست نہیں کر سکیں گے۔ نیوٹنی اور میکسویلنی طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خیال خوانی بذریعہ ریڈیائی لہروں کے بھی ممکن نظر نہیں آتی۔
کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خیال رسانی پانچویں قوّت کے ذریعہ ہوتی ہے جس کو "پی ایس آئی " قوّت کہا جاتا ہے۔ مگر خیال رسانی کا دفاع کرنے والے بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ان کو پاس کوئی ٹھوس قابل تخلیق ثبوت اس "پی ایس آئی" قوّت کے حق میں نہیں ہے۔
پھر بھی یہ اپنے آگے اس اہم سوال کو چھوڑ دیتا ہے: کوانٹم نظرئیے کو استعمال کرکے خیال خوانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
پچھلی دہائی میں نئے کوانٹم آلات تاریخ میں پہلی دفعہ پیش کئے گئے ہیں جو سوچتے ہوئے دماغ کے اندر جھانک سکنے کے قابل ہیں۔ اس کوانٹم انقلاب کی نمایاں چیز "پیٹ (پی ای ٹی)" (پوزیٹرو ن ایمیشن ٹوموگرافی ) اور ایم آر آئی ( مقناطیسی اصدا ئی تصویر ہ ) دماغی تبزیہ کار ہیں۔ ایک پیٹ تبزیہ ریڈیائی تابکار شکر کو خون میں شامل کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ شکر دماغ کے حصّوں میں مرتکز ہو جاتی ہے جو سوچنے کے عمل کو سرگرم کر دیتے ہیں اور اس کام کے لئے توانائی درکار ہوتی ہے۔ ریڈیائی تابکار شکر پوزیٹرو ن(ضد الیکٹران ) کو خارج کرتے ہیں جن کا آلے کے ذریعہ آسانی کے ساتھ سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضد مادّہ کے زندہ دماغ میں بنائے گئے ان نمونوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خیالات کے نمونوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کاروائی میں دماغ کے اس حصّے کو ایک دم صحیح طور پر الگ کر دیا جاتا ہے جو اس قسم کی حرکت کا باعث بنتے ہیں۔
ایم آر آئی مشین بھی بالکل اسی طرح سے کام کرتی ہے بس صرف فرق اتنا ہے کہ وہ اور زیادہ من و عن طرح سے کام کرتی ہے۔ مریض کے سر ایک بڑے ڈونَٹ کی شکل کے مقناطیسی میدان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مقناطیسی میدان ایٹموں کے مرکزوں کو میدانی خطوط کے متوازی صف بستہ کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ریڈیائی ضرب مریض کی طرف بھیجی جاتی ہے جس کے نتیجے میں مرکزے ڈگمگاتے ہیں۔ جب مرکزے اپنا رخ بدلتے ہیں تو وہ ننھے ریڈیائی اشارے "ایکو" خارج کرتے ہیں جن کا سراغ لگایا جا سکتا ہے جو کسی مخصوص مادّے کے ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغی حرکت آکسیجن کے استعمال سے جڑی ہوتی ہے ، لہٰذا ایم آر آئی مشین سوچنے کے عمل کو آکسیجن کے حامل خون کی موجودگی میں بھیج کر الگ کر دیتی ہے۔ جتنا زیادہ آکسیجن سے بھرپور خون ہوگا اتنا زیادہ ہی دماغ اس حصّے میں متحرک ہوگا۔(دور حاضر کی تفاعلی ایم آر آئی مشینیں دماغ کے ایک ملی میٹر جتنے چھوٹے سے حصّے میں بھی اشارے بھیج سکتی ہیں جس سے یہ مشینیں زندہ دماغ کے خیالات کے نمونے حاصل کرنے کے لئے مثالی ہو سکتی ہیں۔)
دروغ کشا ایم آر آئی
اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک دن سائنس دان ایم آر آئی مشینوں کے ذریعہ زندہ دماغ کے خیالات کی نقشہ سازی کرکے اس کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ دماغ پڑھنے کا سب سے سادہ امتحان کسی کے سچ یا جھوٹ بولنے کا سراغ لگانا ہوگا۔
ایک قصّے کے مطابق دنیا کا سب سے پہلا دروغ گوئی کا سراغ لگانے کا آلہ ایک ہندوستانی پنڈت نے صدیوں پہلے بنا لیا تھا۔ وہ مشتبہ شخص کو ایک جادوئی گدھے کے ساتھ ایک بند کمرے میں رکھتا تھا اور مشتبہ شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ جادوئی گدھے کی دم کو کھینچے۔ اگر گدھا بولنے لگتا تو اس کا مطلب تھا کہ مشتبہ شخص جھوٹا ہے۔ اگر گدھا چپ رہتا تو اس کا مطلب ہے کہ مشتبہ شخص سچ بول رہا ہے۔(خفیہ طور پر گدھے کی دم پر کالک مل دی جاتی تھی۔)
جب مشتبہ شخص کمرے سے باہر نکلتا تھا ، تو وہ اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتا تھا کیونکہ دم کھینچتے وقت گدھا کوئی آواز نہیں نکالتا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ پنڈت مشتبہ شخص کے ہاتھوں کا معائنہ کرتا تھا۔ اگر ہاتھ صاف ہوتے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ جھوٹا ہے۔(کبھی کبھی جھوٹ پکڑنے کے آلے کے استعمال کی دھمکی اس آلے سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔
پہلا "جادوئی گدھا "عہد رفتہ میں ١٩١٣ء میں بنایا گیا۔ جب ماہر نفسیات "ولیم مارسٹن"(William Marston) نے ایک کتاب انسان کے خون کے دباؤ پر لکھی۔ اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ انسانی خون میں دباؤ جھوٹ بولتے وقت بڑھ جاتا ہے۔(خون کے اس دباؤ کا مشاہدہ قدیم دور تک جاتا ہے جس میں مشتبہ شخص سے جب کسی سوال کا جواب مانگا جاتا تھا تو چھان بین کرنے والا اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے خون کے دباؤ کا تجزیہ کرتا تھا۔ )اس مفروضے نے جلد ہی شہرت حاصل کر لی اور وزارت دفاع نے اپنا پولی گراف انسٹیٹیوٹ قائم کر لیا۔
مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ بات صاف ظاہر ہو گئی کہ جھوٹ پکڑنے کے آلے کو بے ضمیر سماج دشمن عناصر آسانی کے ساتھ اس کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور واقعہ سی آئی اے کے دوہرے ایجنٹ "ایلڈ رچ ایمس"(Aldrich Ames) کا ہے جس نے سابقہ سوویت یونین کو امریکی ایجنٹوں کے بارے میں معلومات اور امریکی نیوی کے خفیہ نیوکلیائی رازوں کو آشکار کر کے زبردست مال کمایا تھا۔ دہائیوں تک ایمس نے سی آئی اے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے ہونے والے جانچ میں اس کو بیوقوف بنایا۔ ایسا ہی کام سلسلے وار قاتل" گیری رج وے"(Gary Ridgway)نے کیا ، جو بدنام زمانہ گرین ریور کلر کے نام سے مشہور تھا اور جس نے ١٥ کے قریب خواتین کو قتل کیا تھا۔
٢٠٠٣ء میں یو ایس نیشنل آف اکیڈمی سائنسز نے د ہلا دینے والی رپورٹ دروغ کشا آلات کی کارکردگی پر دی ، جس میں انہوں نے ان تمام طریقوں کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ چالاک لوگ ان آلات کو بیوقوف بنا تے ہیں اور معصوم لوگ جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔
دروغ کشائی کے یہ آلات اگر صرف پریشانی کی سطح کو ناپتے ہیں تو دماغ کو ناپنے کے بارے میں کیا کرتے ہیں ؟ یہ بیس سالہ پرانا خیال ہے کہ دماغ میں ہونے والی حرکیات کو دیکھا جائے۔ اس خیال کو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے "پیٹر روزنفیلڈ"(Peter Rosenfeld) کے کام نے پروان چڑھایا۔ جنہوں نے جھوٹ بولنے کے دوران میں لوگوں پر ای ای جی تبزیہ کرکے پی ٣٠٠ موجوں کا ایک نمونہ اس نمونے سے مختلف پایا جو انہوں نے لوگوں کے سچ بولنے کے دوران حاصل کیا تھا ۔ (پی ٣٠٠ موجیں اکثر اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب دماغ کسی نئی چیز یا معمول سے ہٹ کر کسی کو محسوس کرتا ہے۔)
جھوٹ کا سراغ لگانے کے لئے ایم آر آئی مشین کو استعمال کرنے کا خیال یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے" ڈینیل لنگلبن"(Daniel Langleben) کی کاوش تھی۔١٩٩٩ء میں اس نے ایک مقالہمیں بتایا کہ وہ بچے جو توجہ کی کمی سے ہونے والی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ان کو جھوٹ بولنے میں مشکل ہوتی ہے مگر تجربے سے حاصل کردہ نتائج نے اس کو غلط ثابت کر دیا تھا ؛ کیونکہ ایسے بچوں کو جھوٹ بولتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایسا بچوں کا اصل مسئلہ سچ بولنے میں رکاوٹ کا تھا۔" وہ بغیر سوچے سمجھے بول دیتے تھے "لنگلبن نے یاد کرتے ہوئے بتایا۔ اس نے قیاس کیا جھوٹ بولتے ہوئے دماغ سچ بولنے سے پہلے رکتا ہے اور اس کے بعد دھوکہ دہی کا سوچتا ہے۔ "جب آپ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے دماغ میں سچ کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ زیادہ متحرک ہوتا ہے۔" اس نے بتایا۔ با الفاظ دیگرے جھوٹ بولنا ایک مشکل کام ہے۔
کالج کے طالبعلموں کے ساتھ تجربہ کرتے ہوئے اور ان سے جھوٹ بولنے کا کہتے ہوئے لنگلبن کو جلد ہی یہ بات پتا چل گئی کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ کے کچھ حصّوں میں معمول سے زیادہ حرکت جنم لیتی ہے ، جس میں دماغ کا وہ حصّہ جس کو "قص جبہی"(Frontal Lobe) کہتے ہیں(جہاں بلند خیالات مرتکز ہوتے ہیں )،" فص صدغی"(Temporal Lobe) اور دماغ کے بالائی پیچیدہ نظام والے حصّے(- Limbic Systemجہاں جذبات کو ابھارا جاتا ہے ) شامل ہیں۔ خصوصی طور پر اس نے اگلے نطاقی تلفیف دماغی حصّے(Interior Cingulated Gyrus) میں (جس کا تعلق تصادموں کو حل کرنے اور رد عمل کو روکنے سے ہے) غیر معمولی تحریک کو درج کیا۔
اس کے دعوے کی جانچ کے لئے ایک منضبط تجربے میں جب کسی شخص کے جھوٹ یا سچ بولنے کا تجزیہ کیا گیا (جیسا کہ اس نے کالج کے طالبعلموں سے کھیلنے والے کارڈ کو پہچاننے میں جھوٹ بولنے کا کہا )تو اس کی کامیابی کی مسلسل شرح ٩٩ فیصد تک تھی۔
اس ٹیکنالوجی میں لوگوں نے اس قدر دلچسپی لی کہ دو تجارتی جوکھم اٹھانے والوں نے اس پر کام شروع کرکے اپنی خدمات عام عوام کے لئے پیش کر دیں۔ ٢٠٠٧ء میں ایک کمپنی نے "نو لائی ایم آر آئی "( ایم آر آئی کے آگے جھوٹ نہیں چلے گا) نے پہلا کیس لیا ، ایک آدمی جس نے انشورنس کمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کیونکہ کمپنی کا دعویٰ تھا کہ اس نے خود سے جان بوجھ کر طعام گاہ میں آگ لگائی تھی۔(ایف ایم آر آئی تبزیہ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ آگ لگانے والا نہیں تھا۔)
لنگلبن کی تیکنیک کے حامیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ پرانے زمانے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے کہیں زیادہ بہتر اور قابل بھروسہ ہے کیونکہ دماغی نمونوں کو بدلنا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگرچہ لوگوں کو دل کی دھڑکن اور پسینے کو روکنے کی تربیت دی جا سکتی ہے لیکن ان دماغی نمونوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی تربیت دینا ناممکن ہی ہے۔ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کے حامیوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف بڑھتی ہوئی آگاہی کے اس دور میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا سراغ لگا کر انگنت زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
ہرچند اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جھوٹ پکڑنے میں بظاہر کامیابی کی شرح نے اس کی حیثیت کو تسلیم کرلیا ، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل میں ایف ایم آر آئی جھوٹ کو نہیں پکڑتا ، بلکہ یہ صرف جھوٹ بولتے وقت بڑھتی ہوئی دماغی حرکت کا بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشین سے حاصل کردہ نتائج اس وقت غلط ثابت ہو سکتے ہیں جب کوئی شخص بہت ہی زیادہ پریشانی کی حالت میں سچ کو بتانے کی کوشش کرے۔ ایف ایم آر آئی صرف اس وقت محسوس ہونے والی پریشانی کو پکڑ پائے گی اور اس طرح سے غلط نتیجہ اخذ کرے گی کہ وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ "اس بات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایسے علیحدہ امتحان بنائے جائیں جو سچ کو دھوکے سے الگ کریں ، ورنہ سائنس کی برائی آ جائے گی۔" یہ بات ہارورڈ یونیورسٹی کے "اسٹیون ہیمن"(Steven Hyman) ، ماہر اعصابی حیاتیات ، نے خبردار کرتے ہوئے کہی۔
کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک صحیح جھوٹ پکڑنے والا آلہ ، ایک سچے خیال رساں کی طرح سے عام معاشرتی تعلقوں کو پریشان کن بنا دے گا ، کیونکہ جھوٹ کا کچھ حصّہ معاشرتی زیبائی کا حصّہ ہے جو معاشرے کا پہیہ چلنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اس وقت ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے جب وہ تمام خوشامدیں سب کی سب جھوٹ کی شکل میں سامنے آ جائیں جو ہم اپنے باس ، بڑوں ، بیویوں ، محبوباؤں اور رفقائے کاروں کی کرتے ہیں۔ ایک اصلی جھوٹ پکڑنے والا آلہ درحقیقت ہمارے خاندان اور گھرانے کے سارے راز ، چھپے ہوئے جذبات، دبی ہوئی خواہشات اور خفیہ ارادے سب کچھ اگل وا دے گے۔ جیسا کہ سائنس کالم نگار" ڈیوڈ جونز"(David Jones) نے کہا تھا "ایک سچا جھوٹ پکڑنے والا آلہ اصل میں تو ایک ایٹمی بم کی طرح ہے جس کو آخری ہتھیار کے طور پر سنبھال کر رکھنا ہی بہتر ہے۔ اگر اس کا استعمال کمرہ عدالت کے باہر بڑے پیمانے پر کیا تو وہ معاشرتی زندگی کو انتہائی درجہ کا مشکل بنا دے گا۔"
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)- حصّہ چہارم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کائناتی مترجم
کچھ لوگ دماغی تبزیہ کرنے پر بالکل صحیح تنقید کرتے ہیں کیونکہ سوچتا ہوا دماغ اور منفرد خیالات اپنی تمام شاندار تصاویر کے ساتھ بہت ہی خام مواد مہیا کرتے ہیں جن کو یکتا طور پر ناپنا انتہائی مشکل ہے۔ شاید دسیوں لاکھوں عصبانیے ایک ساتھ اس وقت نکلتے ہیں جب ہم کوئی سادہ سا دماغی کام سرانجام دیتے ہیں اور ایف ایم آر آئی ان کا سراغ اسکرین پر ابھرتے ہوئے بلبلوں جیسے گومڑ سے لگاتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات دماغی تبزیہ کو ایک تیز رفتار طوفانی فٹ بال گیم سے ملاتے ہیں جس میں آپ اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کی آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں جو ان ہزاروں تماشائیوں کی آواز میں دب جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دماغ کے سب سے چھوٹے قابل بھروسہ حصّے یعنی "واکسل" کو پکڑا کر اس کا تجزیہ ایف ایم آر آئی سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر واکسل دسیوں لاکھوں عصبانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں لہٰذا ایف ایم آر آئی کی حساسیت انفرادی خیالات کو علیحدہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
سائنسی قصّوں میں اکثر ایک "کائناتی مترجم " استعمال بتایا جاتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو کسی بھی شخص کے خیالات کو پڑھ کر اس کو شعاعوں کی صورت میں کسی دوسرے کے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ کچھ سائنسی افسانوی ناولوں میں تو خلائی خیال رساں ہماری زبان کو جانے بغیر ہی اپنے خیالات ہمارے دماغ میں گھساتے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں۔ ١٩٧٦ء میں ایک سائنس فکشن فلم "مستقبل کی دنیا"(فیوچر ورلڈ) میں ایک عورت کا خواب ایک ٹیلی ویژن کی اسکرین پر براہ راست دکھایا جاتا ہے۔٢٠٠٤ء کی "جم کیری"(Jim Carrey) کی فلم "ایٹرنل سن شائن آف دی اسپوٹ لیس مائنڈ "، میں ڈاکٹر تکلیف دہ خیالات کو پہچان کر ان کو مٹا دیتے ہیں۔
"اس قسم کی تصوّراتی دنیا ہر ایک نے اپنے میدان میں سجائی ہوئی ہے "لئپزیگ میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے "جان ہینز" (John Haynes)کہتے ہیں۔" مجھے پورا یقین ہے کہ جو آلہ آپ بنانا چاہتے ہیں اس کو ہر ایک عصبانیہ کو ریکارڈ کرنا پڑے گا۔"
ابھی تو ہر انفرادی عصبانیہ کو ریکارڈ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، لہٰذا کچھ ماہرین نفسیات نے حال فی الحال موجود سب سے بہتر چیز کی یعنی کہ انہوں نے شور کو کم کیا اور مفعول سے حاصل کئے گئے ہر ایک انفرادی ایف ایم آر آئی کے نمونے کو علیحدہ کر لیا۔ مثال کے طور پر ہر انفرادی لفظ سے بنے ہوئے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کرکے "خیالات کا قاموس" بنا لینا ممکن ہے۔
مثال کے طور پر کارنیجی –میلن یونیورسٹی کے "مارسل اے"(Marcel A) چھوٹے چنے ہوئے گروہ کی چیزوں(جیسا کہ بڑھئی کے اوزار)کے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کرنے کے قابل ہیں۔" ہمارے پا س بارہ زمرے ہیں ، ہم مفعول سے ٨٠ سے ٩٠ فیصد درستگی کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ ان بارہ زمروں میں سے کس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔" ان کا دعویٰ ہے۔
ان کے رفیق کار ٹام مچل ، جو ایک کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان ہیں ، وہ کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ عصبی جالوں کی مدد سے، ایف ایم آر آئی سے حاصل کردہ پیچیدہ دماغی نمونوں کو کچھ تجربات کے ساتھ ہم ربط کرکے ان کی شناخت حاصل کر لیتے ہیں۔" جس ایک تجربہ کو کرنے میں مجھے بہت ہی لطف آتا ہے وہ ان الفاظ کی تلاش ہے جو سب سے مختلف دماغی نمونے پیدا کرتے ہیں۔" انہوں نے بتایا۔
اس کے باوجود اگر ہم خیالات کا قاموس بھی بنا پائے تو یہ کائناتی مترجم کے بنانے سے بہت ہی دور ہوگا۔ کائناتی مترجم کے برخلاف جو شعاعوں کے ذریعہ کسی دوسرے دماغ سے ہمارے دماغ میں براہ راست خیال پھینکتا ہے ایک ایف ایم آر آئی دماغی مترجم کئی قسم کے تھکا دینے والے اقدام اٹھاتا ہے :پہلے کچھ ایف ایم آر آئی نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے ، پھر اس کو الفاظ میں بدلتا ہے اور پھر وہ الفاظ مفعول کو سناتا ہے۔ اس طرح کے منظر نامے میں ایسا کوئی بھی آلہ اسٹار ٹریک میں پائے جانے والے آلے "مائنڈ میلڈ " کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔(اس کے باوجود یہ فالج زدہ لوگوں کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔)
ہاتھ سے چلانے والے ایم آر آئی تبزیہ کار
بطور خیال رساں عملی میدان میں ایف ایم آر آئی کے استعمال میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ اس کا بڑا حجم ہے۔ یہ ایک دیوہیکل آلہ ہے ، جس کی قیمت کئی لاکھ ڈالر کی ہوتی ہے اور یہ پورے کمرے کی جگہ گھیرتی ہے۔ ایم آر آئی مشین کا قلب ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیس ہوتا ہے ، جو کئی فٹ قطر پر پھیلا ہوتا ہے، اور کئی ٹیسلا س کی زبردست قوّت والے مقناطیسی میدان بناتا ہے۔( اس کی مقناطیسی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ مواقع پر مشین کو غلطی سے بے خیالی میں کسی نے چلا دیا تو مشین کے آس پاس موجود ہتھوڑیاں اور دوسرے اوزار ہوا میں اڑتے ہوئے وہاں پر کام کرنے والے لوگوں سے ٹکرائے اور ان کو کافی زخمی کر دیا۔)
حالیہ دور میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر طبیعات "ایگور سو وکوف" (Igor Savukov)اور "مائیکل رومیلس"(Michael Romalis) نے ایک بالکل نئی طرح کی ٹیکنالوجی پیش کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی ترقی یافتہ شکل آخر میں ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشین کو حقیقت کا روپ دھار لے۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو نتیجے میں ایف ایم آر آئی مشین کی قیمت یقینی طور پر ١٠٠ گنا کم ہو جائے گی۔ ان کے دعوے کا مطابق بڑے مقناطیسوں کو زبردست حساس ایٹمی مقناطیسی پیماؤں کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے جو ننھے مقناطیسی میدانوں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔
پہلے سوو کوف اور رومیلس نے مقناطیسی حساسئے گرم پوٹا شیم کے بخارات کو ہیلیئم گیس میں معلق کر کے بنائے۔ اس کے بعد انہوں نے لیزر کی شعاعوں کو پوٹا شیم کے الیکٹران کے گھماؤ کے ساتھ باہم مربوط کر دیا۔اس کے بعد انہوں نے کمزور مقناطیسی میدان پانی کے ایک نمونے پر استعمال کیا (تا کہ انسانی جسم کی نقل کر سکیں )۔ پھر انہوں نے ایک ریڈیائی ضرب پانی کے نمونے کی طرف بھیجی جس نے پانی کے سالموں کو ڈگمگا دیا۔ پانی کے سالموں سے ہوتی ہوئی گونج نے پوٹا شیم کے الیکٹران میں بھی گونج گ پیدا کردی ، اور اس گونج کو دوسری لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پکڑ جا سکتا ہے۔ ان کے نتیجے نہایت ہی شاندار تھے : کمزور مقناطیسی میدان بھی ایک گونج پیدا ہو سکتی تھی جس کو حساسئے پکڑ سکتے تھے۔ نا صرف یہ ایم آر آئی میں استعمال ہونے والے معیاری دیوہیکل مقناطیسوں کو کمزور مقناطیسی میدان سے بدل سکتے ہیں؛ بلکہ یہ تصاویر کو بھی فی الفور حاصل کر سکتے ہیں (جبکہ ایم آر آئی مشین ٢٠ منٹ تک تصاویر کو بنانے میں لے لیتی ہے)۔ آخر کار نظری طور پر ایم آر آئی سے تصویر لینا اتنا آسان ہو سکتا ہے جتنا ایک عام ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر لینا۔(اس راہ میں ابھی کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ مفعول اور مشین دونوں کو باہری مقناطیسی میدانوں سے بچانا ہوگا۔)
اگر ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشینیں حقیقت کا روپ دھار گئیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ننھے کمپیوٹر بمعہ ایسے سافٹ ویئر موجود ہوں جو کچھ اہم جملوں ، الفاظ اور فقروں کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہوں۔ یہ آلات ان سائنس فکشن فلموں میں دکھانے والے آلات کی طرح نفیس تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی ان سے ملتے جلتے ضرور ہوں گے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)- حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دماغ بطور عصبی جال
سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل کی ایم آر آئی مشین اس قابل ہوں گی کہ کسی آنے والے دن میں خیالات کو بالکل اسی طرح درست طور پر حرف بہ حرف ، تصویر بہ تصویر پڑھ سکیں جیسا کہ ایک سچا خیال رساں پڑھ سکتا ہے ؟ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایم آر آئی مشین صرف ہمارے خیالات کی مبہم سی تصویر کشی اور رمزہ کشائی کرنے کے قابل ہے کیونکہ دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر میں حسابی عمل مقامی ہوتا ہے اور انتہائی بے لچک اصول و قواعد کی اطاعت کرتا ہے۔ ایک ڈیجیٹل کمپیوٹر "ٹیورنگ مشین " کے قوانین کی اطاعت کرتا ہے ، ایک مشین جو ا یک سینٹرل پروسیسنگ یونٹ ، ان پٹ اور آوٹ پٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) ایک معین کیے ہوئے قوانین کی مدد سے ان پٹ کو پراسیس کرکے آوٹ پٹ میں بدلتا ہے اور یہ سوچنے کے جیسا مقامی عمل" سی پی یو" میں سرانجام پا تا ہے۔
ہمارا دماغ کوئی ڈیجیٹل کمپیوٹر نہیں ہے۔ ہمارے دماغ میں کوئی پینٹیم چپ نہیں ہے ، نہ کوئی سی پی یو ہے ، نہ ہی اس میں ونڈوز آپریٹنگ سسٹم ہے اور نہ ہی کسی قسم کے سب روٹین پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کمپیوٹر سے ایک ٹرانسسٹر بھی نکال دیں تو وہ بیکار ہو جائے گا۔ مگر اس قسم کے کیسز ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں آدھا دماغ غائب ہونے کے باوجود باقی آدھے دماغ نے اس کا م سنبھال لیا تھا۔
انسانی دماغ ایک سیکھنے والی مشین کی طرح سے ہے ، ایک "عصبی جال" جو مسلسل نئی چیزیں سیکھنے کے بعد اپنے آپ کو تازہ کرتا رہتا ہے۔ ایم آر آئی تجزیہ نے اس بات پر مہر ثبت کردی ہے کہ انسانی دماغ کسی بھی ایک مقام پر صرف ٹیورنگ مشین کی طرح مقامی بن کر نہیں سوچتا ہے۔ بلکہ یہ دماغ میں کافی پھیلا ہوا ہوتا ہے جو ایک عصبی جال کا مخصوص انداز ہے۔ ایم ار آئی تبزیہ سے معلوم چلا ہے کہ سوچنے کا عمل ایک طرح سے پنگ پونگ گیند کے کھیل جیسا ہے ، جس میں دماغ کے مختلف حصّے ایک کے بعد ایک جلتے ہیں ، برقی حرکت دماغ کے اندر ادھر ادھر ہوتی رہتی ہے۔
خیالات دماغ کے مختلف حصّوں میں کافی منتشر اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا سائنس دان جو سب سے بہتر کام کر سکتے ہیں وہ خیالات کی فرہنگ بنانا ہے یعنی خیالات اور مخصوص ای ای جی یا ایم آر آئی کے نمونوں میں ایک پر ایک تعلق قائم کریں۔ مثال کے طور پر آسٹرین بائیو میڈیکل انجنیئر "یرٹ فرٹس سیلر"(Gert Pfurtscheller) نے ایک کمپیوٹر کو اس طرح سے تربیت دی ہے کہ وہ مخصوص دماغی نمونوں اور خیالات کو ای ای جی میں پائے جانے والے یو موجوں پر اپنی کوششوں کو مرتکز کرکے پہچان سکے۔ بظاہر یو موجیں کچھ پٹھوں کو حرکت دینے کے قصد سے جڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مریض کو انگلی اٹھانے، ہنسنے، تیوریاں چڑھانے کا کہتے ہیں اور پھر کمپیوٹر ان یو موجوں کو ریکارڈ کر لیتا ہے جو اس کے نتیجے میں حرکت کرتی ہیں۔ ہر دفعہ جب بھی مریض کوئی دماغی حرکت کرتا ہے کمپیوٹر انتہائی احتیاط کے ساتھ یو موجوں کو لاگ میں درج کر لیتا ہے۔ یہ عمل مشکل اور تھکا دینے والا ہے کیونکہ اس میں انتہائی احتیاط کے ساتھ بناوٹی موجوں کو پراسیس کرنا ہوتا ہے۔ آخر کار فرٹس سیلر سادہ حرکتوں اور مخصوص دماغی نمونوں میں نمایاں مماثلت ڈھونڈ پانے کے قابل ہو گیا۔
ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج اس کی یہ جدوجہد ایم آر آئی نتیجوں کے ساتھ مل کر خیالات کی جامع فرہنگ بنا سکے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ای ای جی یا ایم آر آئی کے مختلف نمونوں کے تجزیہ کرکے کمپیوٹر اس بات کے قابل ہو جائے کہ وہ ان نمونوں کو پہچان کر کم از کم یہ بتا سکے کہ مریض کیا سوچ رہا ہے۔ اس طرح سے دماغ کو پڑھنے سے شاید خصوصی "یو مو جوں"(U Waves) اور ایم آر آئی تبزیہ کار اور مخصوص خیال میں کوئی مماثلت پیدا ہو جائے۔ لیکن یہ بات اب بھی بعید از قیاس ہے کہ وہ فرہنگ اس قابل ہو سکے گی کہ خیالات میں موجود مخصوص الفاظ کو سمجھ سکے۔
خیالات کو داخل کرنا
مستقبل میں کبھی ہم اس قابل ہو گئے کہ کسی کے خیالات کی بھنک پا سکیں تو کیا اس یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے خیالات کو دوسروں کے دماغ میں گھسا سکیں۔ اس کا جواب ایک طرح سے ہاں میں لگتا ہے۔ ریڈیائی موجیں کسی بھی انسان کے دماغ میں بھیجی جا سکتی ہیں جو دماغ کے ان حصّوں کو بھڑکا سکتی ہیں جن کا کام کچھ افعال کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ اس نہج پر تحقیق کی شروعات ١٩٥٠ء میں ہوئی جب کینیڈا کے شہری جن کا نام "وائلڈر پین فیلڈ"(Wilder Penfield)ہے اور جو ایک "عصبی جراح"(Neuro Surgeon)ہیں وہ ایک مرگی کے مریض کے دماغ کی جرح کر رہے تھے۔ اس وقت انھیں پتا لگا کہ فص صدغی کے کچھ حصّوں برقی پاشوں کے ذریعہ تحریک پیدا کی جائے تو لوگوں کو بھوتوں کی شکل اور آواز آنے کا وہم ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات یہ بات جانتے تھے کہ مرگی کے صدمے سے مریض کے دماغ میں اس طرح کا احساس پیدا ہوتا ہے جیسا کہ مافوق الفطرت قوّتیں یعنی کہ شیطان اور فرشتے ان کے ارد گرد ہونے والی حرکتوں کو کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔(کچھ ماہرین نفسیات نے تو یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ان حصّوں کو تحریک دینے سے عارفانہ آزمائش ہوتی ہے جو کہ کئی مذاہب کی بنیاد ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ "جون آف آرک "(Joan of Arc) جس نے ایک ہاتھ کے ساتھ فرانسی افواج کو برطانیہ کے خلاف جنگ میں فتح کی راہ پر گامزن کیا تھا وہ بھی شاید اسی قسم کے مرگی کے صدمے کا شکار ہوگیا تھا جو اس کے سر میں کسی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی چوٹ سے ہوا تھا۔)
احتمال کی بنیاد پرسدبری اونٹاریو کے عصبی سائنس دان" مائیکل پرسنگر"(Micheal Persinger) نے ایک خصوصی تاروں والا ہیلمٹ بنایا ہے جو ریڈیائی موجوں کو دماغ میں بھیجتا ہے جہاں وہ مخصوص سوچ اور جذبات (مثلاً مذہبی جذبات) کو مشتعل کر دیتا ہے۔ عصبی سائنس دان جانتے ہیں کہ الٹے فص صدغی دماغ کے حصّے کو نقصان پہنچنے کی صورت میں دماغ کا الٹا حصّہ چکرایا ہوا سا ہو جاتا ہے اور دماغ سیدھے حصّے میں ہونے والی حرکتوں کو پرایا سمجھ سکتا ہے۔ اس قسم کی چوٹ ایسا تاثر پیدا کر سکتی ہے جیسے کہ کوئی بدروح کمرے میں موجود ہے، کیونکہ دماغ کو یہ نہیں پتا چلتا کہ جس کو وہ کوئی اور سمجھ رہا ہے وہ اس کے دماغ کا دوسرا حصّہ ہی ہے۔ مریض کے عقیدے کے مطابق ، وہ اپنے دماغ کے دوسرے حصّے کو شیطان ، فرشتہ ، خلائی مخلوق یہاں تک کہ خدا کی بھی تعبیر سمجھ لیتا ہے۔ مستقبل میں یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ برقی مقناطیسی اشاروں کی شعاعیں بالکل درست طور پر دماغ کے اس حصّے پر مار ی جائیں جو مخصوص عمل کو انضباط کرتے ہیں۔ اس قسم کے اشاروں کو" لوزہ مغز "(Amygdala)کی طرف پھینک کر کچھ خاص جذبات کو ابھارا جا سکتا ہے۔ دماغ کے حصّوں کو تحریک دے کہ مختلف تصوروں اور خاکوں کو دیکھنے کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف اس سمت میں ہونے والی تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔
دماغی نقشہ سازی
کچھ سائنس دان " عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے "کی حمایت کرتے ہیں اسی طرح کا منصوبہ جیسے کہ "انسانی لونیت کا منصوبہ"(Human Genome Project) ہے جس میں انسانی لونیت میں موجود تمام مورثہ (Genes) کی نقشہ سازی شامل ہے۔ عصبانیہ کی نقشے سازی کے منصوبے میں انسانی دماغ میں موجود ہر الگ عصبانیہ کو ڈھونڈھ کر اس کی سہ جہتی نقشہ سازی کی جائی گی جس میں اس کے تمام رابطے دکھائے جائیں گے۔ یہ واقعی میں ایک یادگار منصوبہ ہوگا ، کیونکہ دماغ میں ایک کھرب عصبانیہ ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک عصبانیہ دوسرے ہزاروں عصبانیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اس منصوبہ کے مکمل ہونے پر ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ معلوم کر سکیں کہ کس طرح سے کچھ مخصوص خیالات کچھ خاص عصبی راستوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ خیالات کی اس فرہنگ کے استعمال سے جو ایم آر آئی اور ای ای جی سے حاصل کی جائے گی وہ ہمیں مختلف خیالات کی عصبی ساختوں کی رمز کشائی کرنے کے قابل بنا دے گی۔ اس طرح ہم جان سکیں گے کہ کونسا لفظ یا دماغی خاکہ کس مخصوص عصبانیہ کو متحرک کرتا ہے۔ اس طریقے سے ہم ہر مخصوص خیال کو، اس کے ایم آر تاثر اور ان خاص عصبانیوں میں جو اس خیال کو پیدا کرنے کے لئے نکلتے ہیں مماثلت اور تعلق کو تعین کر سکیں گے۔
اس سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ایلن انسٹیٹیوٹ فار برین سائنس (جو مائیکرو سافٹ کے بانیان میں سے ایک "پال ایلن"[Paul Allen] نے بنائی ہے) کا ٢٠٠٦ءکا وہ اعلان ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ چوہے کے دماغ میں موجود مورثہ تاثر کا سہ جہتی نقشہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں انہوں نے ٢١ ہزارمورثہ کے تاثرات خلوی پیمانے پر مفصل حاصل کر لئے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اس نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ انسانی دماغ کے نقشے بھی حاصل کر سکیں گے۔"ایلن دماغی نقشہ سازی کی تکمیل طبی سائنس کے عصبانی میدان میں ایک بہت بڑی چھلانگ ہوگی۔" یہ بات انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مارک ٹیسسئر لَوِین(Marc Tessier Lavigne) نے کہی۔ یہ نقشے کسی بھی اس شخص کے لئے ناگزیر ہوں گے جو انسانی دماغ میں موجود عصبی تعلق کا تجزیہ کرنا چاہئے گا ، اگرچہ دماغی نقشے کا منصوبہ ایک مکمل صحیح عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے سے کی مکمل ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس فکشن اور طلسماتی دنیا میں دکھائی جانے والی قدرتی خیال خوانی آج تو ناممکن ہے۔ ایم آر آئی تبزیہ اور ای ای جی موجیں صرف سادہ خیالات کو پڑھنے میں ہی استعمال ہو سکتی ہیں کیوں خیالات پورے دماغ میں انتہائی پیچیدگی کے ساتھ پھیلے ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح سے یہ ٹیکنالوجی آنے والے دہائیوں یا صدیوں میں ترقی یافتہ شکل اختیار کرے گی؟ سائنس کی قابلیت انسانی سوچ کے عمل کی کھوج کرنے میں بہت ہی تیزی سے بہتری لانے کی جانب گامزن ہونا ناگزیر ہے۔ جس طرح سے ہمارے ایم آر آئی آلات کی حساسیت بہتر ہو رہی ہے جلد ہی سائنس اس قابل ہو جائے گی کہ دماغ کی طرح خیالات اور جذبات کے سوچنے کے مرحلہ وار عمل کو انتہائی درستگی کے ساتھ سمجھ سکے۔ کمپیوٹر کی عظیم طاقت کے ساتھ ہم معلومات کے اس بھنڈار کا تجزیہ انتہائی درستگی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ خیالات کی ایک فرہنگ کافی سارے خیالات کے نمونوں کو زمرہ جات کی شکل دے سکتی ہے جہاں ایم آر آئی کی اسکرین پر خیالات کے مختلف نمونے مختلف خیالات اور احساسات کے ساتھ مطابقت رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ مکمل خیال در خیال کی مماثلت ایم آئی آر نمونوں اور خیالات میں کبھی بھی ممکن نہیں ہے، لیکن ایک فرہنگ درستگی کے ساتھ مخصوص چیزوں سے متعلق کچھ عمومی خیالات کو بیان کر سکتی ہے۔ اسی طرح سے ایم آر آئی نمونوں کو عصبی نقشوں سے جوڑا جا سکتا ہے اس طرح درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سا عصبانیہ دماغ میں کسی مخصوص خیال کو بنانے کا لئے چھوڑا جاتا ہے۔
کیونکہ دماغ کمپیوٹر نہیں بلکہ ایک عصبی جال ہے جہاں خیالات پورے دماغ میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ خود دماغ ہی ہے۔ اگرچہ سائنس "سوچتے ہوئے دماغ" کی کھوج کی گہرائی میں اترتی جا رہی ہے جس سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خیالات کے بننے کے عمل کی رمز کشائی کی جا سکے لیکن ان تمام تر باتوں کے باوجود یہ بات اب بھی ناممکن ہے کہ کوئی آپ کے خیالات کو اس طرح درستگی کے ساتھ پڑھ سکے جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں عمومی خیالات اور جذبات کے نمونوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی قابلیت کو جماعت "I" میں رکھ رہا ہوں۔ دماغ کے اندرونی حصّے کے کام کرنے کے انداز کو مزید درستگی کے سمجھنے کو میں نے جماعت "II" کی ناممکنات میں رکھا ہے۔
مگر شاید ایک اور طریقہ ایسا ہے جس میں دماغ کی زبردست طاقت کو براہ راست کام میں لیا جا سکتا ہے۔ کمزور اور آسانی سے منتشر ہونے والی ریڈیائی لہروں کے بجائے کیا کوئی دماغ کے عصبانیوں کو براہ راست قابو کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہوا تو ہم خیال خوانی کی طاقت سے بھی بڑی چیز سے پردہ اٹھا سکیں گے جس کا نام ہے : روحی حرکی قوّت یا حرکت بعید۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ )- حصّہ اوّل)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کسی بھی نئے سائنسی نظرئیے کی جیت مخالف کو قائل کرنے اور اس کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے اس میں ہے کہ اس کا مخالف گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے اور نئی نسل نئے نظرئیے کے ساتھ جوان ہو۔
- میکس پلانک
ایک کم عقل شخص وہ سچ بولنا اپنا حق سمجھتا ہے جسے عقلمند کبھی نہیں بولے گا۔
- شیکسپیئر
ایک دن آسمان فلک میں دیوتاؤں کا اجلاس ہوا جس میں انسانیت کی حالت اور مفلسی زیر بحث آئی۔ وہ انسانیت کی لاحاصل ، عاقبت نااندیش اور غیر معقول حماقتوں سے نالاں تھے۔ اجلاس میں موجود ایک دیوتا کو انسانوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ انسانوں پر ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وہ ایک عام آدمی کو لامحدود طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنے چاہتے تھے کہ انسان دیوتا بن کر کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟
جارج فنگے (یا فودرینگے[Fotheringay]) بزاز (پارچہ فروش) ایک عام سا کند ذہن شخص تھا۔ ایک صبح اس نے اپنے آپ میں اچانک دیوتائی قوّتوں کو پا یا۔ وہ شمعوں کو پانی میں تیرا سکتا تھا ، پانی کا رنگ بدل سکتا تھا ، شاندار من و سلوا بنا سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ ہیروں کو بھی بنا سکتا تھا۔ شروع میں تو اس نے اپنی طاقت کو تفریح اور اچھے کاموں کے لئے استعمال کی۔ لیکن آخر کار خود نمائی اور ہوس نے اس پر غلبہ پاتے ہوئے اس کو طاقت کا بھوکا جابر انسان بنا دیا جس کے پاس محل اور ناقابل تصوّر کی حد تک دولت تھی۔ اپنی لامحدود طاقت کے نشے میں چور وہ ایک ناقابل تلافی غلطی کر بیٹھا۔ اس نے زمین کو گھومنے سے منع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی زمین پر ایسی آفتیں ٹوٹیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ زمین کی گردش رکتے ہی ہر چیز ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلاء میں اڑنے لگی۔ ساری انسانیت خلاء میں پہنچ گئی۔ بے بسی کی حالت میں اس نے اپنی آخری خواہش بیان کی : ہر چیز واپس اسی طرح سے اپنی پرانی شکل میں آ جائے جیسا کہ وہ پہلے سے تھی۔
یہ کہانی اس فلم کا خلاصہ ہے جس کا نام تھا " انسان جو معجزے دکھا سکتا ہے "(دی مین ہو کڈ ورک میریکلس ١٩٣٦ء ) جو ١٩١١ء کی ایچ جی ویلز کی مختصر کہانی پر مبنی تھی۔ (بعد میں یہ جم کیری کی فلم "قادر مطلق بروس " (بروس آل مائٹی ) کے نام سے دوبارہ بنائی گئی جس میں انتہائی طاقتور اور ربّانی قوّتیں مثلاً چھٹی حس، روحی حرکت یا حرکت بعید ( دماغ کے ذریعہ چیزیں کو حرکت میں لانا[Psychokinesis]) ، یا صرف چیزوں کو اپنی سوچ سے حرکت دینے جیسی تمام قوّتیں اس کو تفویض کردی گئی تھیں۔ ویلز اس کہانی سے جو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ دیوتاؤں جیسی طاقت و اختیار کے لئے ان جیسی بصیرت اور ادرک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
روحی حرکت یا حرکت بذریعہ دماغ ادب میں کافی نمایاں مقام رکھتی ہے خاص طور پر شیکسپیئر کے ناول "طوفانی "(دی ٹیمپسٹ) میں جہاں ایک جادوگر" پروسپیرو(Prospero)" اپنی بیٹی "مرانڈا"(Miranda) اور جادوئی موکل "ایریل"(Areil) کے ساتھ برسوں سے ایک سنسان جزیرے پر اپنے شیطانی بھائی کی غداری کی وجہ سے مبتلائے مصیبت تھے۔ پروسپیرو کو جب اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اس کا شیطانی بھائی اس کے علاقے میں سے ایک کشتی پر سوار ہو کر گزر رہا ہے تو وہ اپنے بھائی سے انتقام لینے کے لئے اپنی روحی حرکت کی قوّت سے ایک عفریت نما طوفان کا طلسم جگاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے شیطانی بھائی کا پانی کا جہاز جزیرے کے پاس ڈوب جاتا ہے۔ اس کے بعد پروسپیرو اپنی حرکی قوّت زندہ بچ جانے والوں کے اوپر آزماتا ہے جس میں ایک وہ لڑکا بھی شامل ہوتا ہے جس کا نام "فرڈینانڈ" (Ferdinand)ہوتا ہے جو بعد میں پروسپیرو کی بیٹی کا محبوب بن جاتا ہے۔
(روسی مصنف "ولادیمیر نوبوکوف"(Vladimir Nabokov) کے مطابق "طوفانی " کی کہانی سائنس فکشن سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ حقیقت میں اس کے لکھے جانے کے ٣٥٠ برس کے بعد یہ کہانی ایک١٩٥٦ء میں بننے والی سائنس فکشن کلاسک فلم "ممنوع سیارہ " میں دوہرائی گئی جس میں پروسپیرو سوچوں میں غلطاں سائنس دان "موربئوس " (Morbius)بن گیا، موکل روبوٹ "روبی"(Robi) بن گیا ، مرانڈا موربئوس کی خوبصورت بیٹی "الٹائر ا"(Altaira) کے روپ میں پیش ہوئی ، اور جزیرے کا نام سیارہ "الٹائر -٤ "(Altair – 4) رکھ دیا گیا۔ جین روڈن بیری جو اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن سلسلے کے خالق ہیں انہوں نے اس بات کو برملا تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیلی ویژن سلسلے کو بنانے کی تحریک دینے والی فلم "ممنوع سیارہ "ہی تھی۔)
حالیہ دور کا ایک اور ناول جس کا نام" کیری" (Carrie)(١٩٧٤ء) تھا اور یہ ا سٹیفن کنگ نے لکھا تھا۔ اس میں روحی حرکت کہانی کا مرکزی حصّہ تھی۔ اس کہانی نے غربت کے مارے مصنف کو دنیا کی خوفناک کہانیوں کا صف اوّل کا مصنف بنا دیا تھا۔ ناول میں کیری ایک حد درجے کی شرمیلی ، جذباتی، معاشرتی طور پر ٹھکرائی ہوئی نا پسندیدہ کالج کی لڑکی تھی جو دماغی طور پر پریشان ماں کے چنگل میں پھنس گئی تھی۔ اس کی تشفی کرنے کے لئے صرف اس کی روحی حرکت کی قوّت ہی تھی جو بظاہر اس کے گھرانہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ناول کے آخر ی حصّے میں اذیت رسان نے دھوکے سے اس کو یہ بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ایک ملکہ ہے اور پھر اس کے نئے لباس کو مکمل طور پر سور کا خون گرا کر آلودہ کر دیا۔ آخری حصّے میں کیری کے انتقام کا انجام دکھایا ہے۔ وہ اپنی دماغی طاقت سے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔ اپنے اذیت رسان کو بجلی سے مار ڈالتی ہے ، اسکول میں آگ لگا دیتی ہے اور خودکشی کا ایسا طوفان چھوڑتی ہے جس کے نتیجے میں قصبے کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔
ذہنی طور پر ایک کھسکے ہوئے شخص کے ہاتھ میں روحی حرکت کی قوّت اسٹار ٹریک سلسلے کی یادگار قسط " چارلی ایکس " (Charlie – X)کا مرکزی خیال تھا ۔ یہ قسط ایک ایسے نوجوان کے بارے ،میں تھی جو خلاء کے ایک دور دراز کے سیارے سے تعلق رکھتا تھا اور مجرمی نوعیت کا تھا۔ اپنی روحی حرکت کی قوّت کو بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنے کے بجائے اس نے اس کا استعمال لوگوں کو قابو کرنے کے لئے شروع کر دیا اور ان کو اپنی خود غرض خواہشات کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ "انٹرپرائز" پر قابو پا لیتا تو زمین پر پہنچ کر وہاں سیاروی افراتفری اور تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔
روحی حرکی قوّت بھی "فورس" کی قوّت تھی جس کو جنگجوؤں کی ایک اساطیری سوسائٹی نے بنایا تھا اس سوسائٹی کا نام" اسٹار وار" کی داستان میں "جیڈآئی" (Jedi)سردار تھا۔
روحی حرکی قوّت اور حقیقی دنیا
شاید روحی حرکی قوّت کی مشہور دوبدو لڑائی اصل دنیا میں "جونی کار سن"(Johnny Carson) کے شو میں ١٩٧٣ء میں ہوئی۔ یہ تاریخی لڑائی دو لوگوں کے درمیان تھی جس میں سے ایک اسرائیلی نفسیاتی " یوری گیلر"(Uri Geller) تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی دماغی طاقت کے بل بوتے پر چمچے کو موڑ سکتا ہے اور دوسرا "امیزنگ رینڈی" (Amazing Randi) - ایک پیشہ ور جادوگر تھا۔ اس نے اپنے دوسرے پیشے کا آغاز ان دھوکے بازوں کے بھانڈے پھوڑنے سے کیا جو روحی حرکی قوّت رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے۔(حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی میراث مشترکہ تھی: سب نے بطور جادوگر اپنا روزگار شروع کیا تھا۔ ہاتھ کی صفائی کی شعبدہ بازی میں کمال حاصل کرکے وہ تماشائیوں کو حیران کر دیتے تھے۔)
گیلر کے شعبدہ بازی دکھانے سے پہلے ، کار سن نے رینڈی سے مشورہ مانگا ۔ رینڈی نے جونی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے چمچے گیلر کو دے اور شو ٹائم سے پہلے اس نے ان چمچوں کا معائنہ بھی کیا۔ شعبدہ شروع کرتے ہوئے جب کار سن نے گیلر سے کہا کو وہ اپنے چمچوں کے بجائے اس کے دیئے ہوئے چمچوں کو موڑے تو وہ سناٹے میں آگیا۔ ہر دفعہ جب وہ چمچے کو موڑنا شروع کرتا تو ناکام ہو کر شرمندہ ہو جاتا۔( بعد میں رینڈی، جونی کار سن کے شو میں آیا جہاں اس نے کامیابی کے ساتھ چمچوں کو موڑنے کا شعبدہ دکھایا لیکن اس نے اپنے اس جادو کو روحی حرکت کی قوّت کے بجائے شعبدہ بازی کا کمال بتایا۔ دی امیزنگ رینڈی نے ١٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ روحی حرکی قوت کا مظاہرہ کرکے دکھائے گا ۔سردست تو کوئی بھی نفسیاتی اس دس لاکھ ڈالر کے انعام کو جیت نہیں سکا ہے۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ )- حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
روحی حرکی قوّت اور سائنس
روحی حرکی قوّت کا سائنسی تجزیہ کرتے وقت سائنس دان جس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ نفسیاتی قوّت کے دعویداروں کے ہاتھوں بے وقوف بن جانا ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کی تربیت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ تجربہ گاہ میں دیکھی ہوئی چیز پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ ذہنی طاقت رکھنے کے دعوے دار جادوگروں کی تربیت لوگوں کی نظر بندی کرکے ان کو بیوقوف بنانے کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً سائنس دان ان دماغی قوّتوں کے مظاہرہ کرنے والوں کا صحیح طور سے مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٢ء میں" ماہر ارواحیت"(Parapsychologist) کو ان دو لڑکوں کا تجزیہ کرنے کے لئے بلایا جن کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں تھیں۔ ان لڑکوں کے نام" مائیکل ایڈورڈس"(Michael Edwards) اور "اسٹیو شا(Steve Shaw)" تھے۔ یہ لڑکے دھاتوں کو موڑنے، اپنے خیال کے زور پر فوٹو گرافک پلیٹ پر تصاویر بنانے ، روحی حرکی قوّت سے چیزوں کو ہلانے اور دماغ کو پڑھنے کے دعوے دار تھے۔ ماہر ارواحیت " مائیکل تھال بورن"(Michael Thalbourne) ان سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انہوں نے ان لڑکوں کو بلانے کی اصطلاح"سائیکو کنیٹ " گھڑ لی۔ سینٹ لوئیس ، مسوری میں واقع مکڈونل لیبارٹری برائے طبیعیاتی تحقیق میں موجود ماہرین ارواحیت ان لڑکوں کی صلاحیتوں انگشت بدہاں رہ گئے۔ ماہرین ارواحیت کو یقین آگیا تھا کہ انہوں نے لڑکوں کی روحی حرکی صلاحیتوں کا ثبوت حاصل کر لیا تھا اور وہ ان پر ایک سائنسی مقالہ بھی لکھنے والے تھے۔ اگلے برس ہی لڑکوں نے اعلان کر دیا کہ وہ جعلساز تھے اور ان کی کرشماتی طاقتیں کوئی ماورائے عقل نہیں بلکہ عام جادوئی شعبدے بازیاں تھیں۔(ان دونوں نوجوانوں میں سے ایک نوجوان جس کا نام اسٹیو شا تھا ،بعد میں تو ایک مشہور جادوگر بن گیا تھا، جو اکثر قومی ٹیلی ویژن پر آ کر کئی کئی دن زندہ دفن ہونے کا کمال دکھاتا تھا۔)
ڈیوک یونیورسٹی میں واقع رائن انسٹیٹیوٹ میں سخت نگرانی میں روحی حرکی قوّت پر جامع تجربات کئے گئے۔ ان تجربات کے مختلف نتائج حاصل ہوئے۔ اس مضمون کی ایک بڑی عالمہ جن کا نام پروفیسر" گر ٹروڈ شومائیڈ لر"(Gertrude Schmeidler) تھا وہ یونیورسٹی آف نیویارک میں میرے رفقاء میں سے ایک تھیں ۔ وہ ماورائے نفسیات کے ایک رسالے کی سابقہ مدیر اور انجمن ماورائے نفسیات کی سابقہ صدر بھی رہ چکی تھیں۔ وہ چھٹی حس کی قوّت سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے اپنے کالج کے طالبعلموں پر اس کی تحقیق کی۔ وہ تقریبات میں مشہور نفسی ماہرین کو کھانے پر آئے مہمانوں کے سامنے اپنے کمالات دکھانے کو کہتیں تا کہ ان کو اپنے کام کے لئے زیادہ سے زیادہ رضا کر مل سکیں۔ سینکڑوں طالبعلموں، کئی نفسی اور دماغی ماہرین کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک دن انہوں نے مجھ سے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں کوئی ایک بھی ایسا نہیں مل سکا جو روحی حرکی قوّت کا مظاہرہ ان کے کہنے پر ان کی پسند کی ہوئی جگہ پر کر سکے۔
ایک دفعہ وہ کمرے میں ایک چھوٹا سا "برقی مقاومت" (ایک نیم موصل آلہ جس کی مزاحمت درجہ حرارت کے لیے انتہائی حساس ہوتی ہے[Thermistor])لے کر پھیل گئیں تا کہ وہ کمرے کے درجہ حرارت میں ہونے والے فرق کو ناپ سکیں۔ ایک ماہر نفسی کافی تگ و دود کے بعد ایک درجہ حرارت کے دسویں حصّے تک کمرے کا درجہ حرارت بڑھانے میں کامیاب ہو گیا۔ شومائیڈ لر کو اس بات کا انتہائی زعم تھا کہ انہوں نے اس تجربے کو زبردست نگرانی میں سر انجام دیا تھا۔ مگر یہ کسی بھی بڑی چیز کو اپنی مرضی سے دماغ کی قوّت سے ہلانے سے کوسوں دور کی چیز تھی۔
ایک اور انتہائی سخت ماحول میں کی جانے والی لیکن انتہائی متنازع روحی حرکی قوّت پر کی جانے والی تحقیق جو پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبے پرنسٹن انجینئرنگ انومالیز ریسرچ میں ہوئی تھی۔ اس شعبے کو "رابرٹ جی جان" (Robert G John) نے ١٩٧٩ء میں قائم کیا تھا جب وہ اسکول آف انجینئرنگ اور اپلائیڈ سائنس کے ڈین تھے ۔ شعبے کے انجنیئر ز اس بات کی کھوج میں لگے ہوئے تھے کہ انسانی دماغ صرف خیالات کے بل بوتے پر کسی اٹکل پچو ہونے والے واقعے کو قابو کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم سکّہ اچھالتے ہیں تو چٹ یا پٹ آنے کا احتمال ٥٠ فیصد ہوتا ہے۔ مگر یہاں پر موجود سائنس دانوں کا دعویٰ تھا کہ انسانی دماغ اس قابل ہے کہ ایسے کسی واقع کے نتیجے کو اپنے خیال کے ذریعہ حاصل ہونے والی نتیجے پر اثر انداز ہو سکے۔ ٢٠٠٧ء میں اپنے بند ہونے کے ٢٨ سال کے دوران اس شعبے میں موجود انجینیروں نے ہزار ہا تجربات کئے جس میں ١٧ لاکھ آزمائشیں اور ٣٤ کروڑ سکّوں کو اچھالنا شامل تھا۔ حاصل کردہ نتیجے اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ روحی حرکی قوّت کا اثر موجود ہے لیکن اس کے اثرات نہایت ہی خفیف سے ہیں جن کا تناسب اوسطاً ١٠ ہزار میں سے صرف کچھ حصّے ہی ہے۔ مزید براں یہ نہ ہونے کے برابر نتیجے بھی دوسرے سائنس دانوں کی نظر میں متنازع ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ محققین نے ڈیٹا کے اندر لطیف تعصبی نتیجے ڈالے ہیں۔
(١٩٨٨ء میں یو ایس کی فوج نے نیشنل ریسرچ کونسل کو ماورائے عقل کی تحقیق سے حاصل ہونے والے دعووں کی چھان بین کرنے کو کہا۔ امریکی فوج اس تحقیق سے ممکنہ حاصل ہونے والے فوائد کو اپنی فوج میں استعمال کرنے کے لئے شدید بیتاب تھی۔ اس تحقیق میں روحی حرکی قوّت بھی شامل تھی۔ دی نیشنل ریسرچ کونسل نے تحقیق پر اپنی رپورٹ بنائی۔ اس رپورٹ میں ایک فرضی " زمین کی پہلی پلٹن " جو ان "جنگجو درویشوں " پر مشتمل ہونی تھی جو کمیٹی کے زیر نظر تمام فنیات کے ماہر ہوں ، ان فنیات میں چھٹی حس کا استعمال، اپنے جسم سے ضرورت کے وقت روح الگ کر لینا ، ہوا میں معلق ہونا، نفسی طور پر زخموں کو مندمل کر لینا ، اور دیواروں میں سے گرز جانا وغیرہ شامل تھیں۔ پئیر (پی ای اے آر ) کے دعوے کا تجزیہ کرتے ہوئے نیشنل کونسل نے یہ پتا لگایا کہ ان تمام کامیاب آزمائشوں کے نصف حصّے کے پیچھے میں صرف ایک ہی شخص تھا۔ کچھ ناقدین کا یہ خیال ہے کہ یہ وہ ہی شخص ہے جس نے تجربات کرنے کا انتظام کروایا تھا یا اس نے پئیر کے کمپیوٹر پروگرام کو لکھا تھا۔ "مجھے تو یہ بات ٹھیک نہیں لگتی کہ تجربہ گاہ کو چلانے والا ہی کامیاب نتائج دے رہا ہو۔" یونیورسٹی آف ا وریگن کے ڈاکٹر رے نے اپنے خیال کا اظہار ان الفاظوں میں کیا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ "١٣٠ برسوں پر محیط ماورائے نفسیات کے مظہر پر کی گئی اس تحقیق کی کوئی بھی سائنسی توجیح نہیں مل سکی۔")
روحی حرکی قوّت کے مطالعہ میں سب سے بڑا مسئلہ جس کو اس کے حمایتی بھی مانتے ہیں وہ اس کا آسانی کے ساتھ طبیعیات کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ قوّت ثقل ، کائنات کی کمزور ترین قوّت صرف چیزوں کو کھینچتی ہے اور چیزوں کو اٹھانے یا دفع کرنے کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت میکسویل کی مساوات کے تابع ہے جو برق کے زور پر کسی بھی معتدل چیز کو کمرے میں دھکیلنے سے انکاری ہے۔ نیوکلیائی قوّت صرف چھوٹے پیمانے پر کام کرتی ہے۔ وہ نیوکلیائی ذرّوں کے درمیان موجود فاصلوں پر ہی کام کر سکتی ہے۔ روحی حرکی قوّت کے ساتھ دوسرا مسئلہ توانائی کی فراہمی کا ہے۔ انسانی جسم صرف٢٠ فیصد ہارس پاور کی توانائی پیدا کر سکتا ہے، مگر اسٹار وارز میں "یوڈا"(Yoda) پورے خلائی جہاز کو اپنی دماغی قوّت سے اٹھا لیتا ہے۔ یا پھر جب سائکلوپس اپنی آنکھوں سے لیزر کی شعاعیں نکالتا ہے۔ یہ تمام کام" قانون بقائے توانائی" کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، یوڈا جیسی کوئی چھوٹی سی چیز اپنے اندر اتنی زیادہ توانائی نہیں رکھ سکتی کہ وہ پورے جہاز کو اٹھا لے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کتنی بھی توانائی اس میں مرتکز کر دیں بہرصورت وہ اتنی نہیں ہوگی کہ اس قسم کے کارنامے اور معجزے دکھا سکے جیسا کہ روحی حرکی قوّت والے دکھاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کس طرح سے روحی حرکی قوّت قوانین طبیعیات سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیں۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ )- حصّہ سوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
روحی حرکی قوّت اور دماغ
اگر روحی حرکی قوّت کائنات کی مسلّمہ قوّتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے تو پھر مستقبل میں اس کو کس طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس چیز کا ایک سراغ تو ہمیں اسٹار ٹریک کی قسط "ہو مارنس فار اڈونائس " میں ملتا ہے جس میں انٹرپرائز کے عملے کا سامنا ایک ایسی نسل سے ہوتا ہے جو یونانی دیوتاؤں سے ملتی جلتی تھی. یہ نوع اس قابل تھی کہ دماغ بھک سے کر دینے والے کرتب اور تماشے صرف دماغی سوچ کے بل بوتے پر ہی کر سکتے تھے. شروع میں تو ایسا لگتا ہے کہ عملے کا سامنا "اولمپس" کے دیوتاؤں سے ہو گیا ہو. لیکن آخر کار عملے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی دیوتا وغیرہ نہیں ہیں بلکہ عام سے انسان ہی ہیں . بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دماغ سے ایک مرکزی توانائی کے منبع ( پاورا سٹیشن) کو قابو میں رکھتے ہیں جو ان کی خواہشات اور معجزات دکھنے والے کرتبوں کو رونما کرتا ہے. ان کے مرکزی توانائی کے منبع کو تباہ کرنے کے بعد انٹرپرائز کے عملے نے ان کو اس قوّت سے محروم کر دیا تھا.
مستقبل میں اس شخص کے لئے جو اپنے دماغ سے کام لیتے ہوئے برقی حساس آلات کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا تربیت یافتہ ہو . وہ اس تربیت کے نتیجے میں ماورائے انسان جیسی قوّت کو حاصل کر لے گا اور یہ بات قوانین طبیعیات کے دائرہ کے عین اندر آتی ہے . ریڈیائی –افزوں یا کمپیوٹر – افزوں روحی حرکی قوّت درحقیقت حاصل کرنا ممکن ہے . مثال کے طور پر ، ای ای جی کو روحی حرکی قوّت کے اوّلین آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے. دماغی نمونے ای ای جی کی اسکرین پر دیکھ کر لوگ اپنے دماغی نمونوں کو قابو میں رکھنا کافی حد تک سیکھ سکتے ہیں. اس عمل کا نام "بائیو فیڈ بیک" ہے.
کیونکہ ابھی تک کوئی بھی ایسا تفصیلی خاکہ دستیاب نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ کون سا عصبانیہ کس پٹھے کو قابو میں رکھتا ہے لہٰذا مریض کوکسی کمپیوٹر کی مدد سے اپنے دماغی نقشوں کو قابو کرنے کے عمل میں خود دلچسپی لینی ہوگی. بالآخر اس طرح سیکھ کر کوئی بھی فرد ضرورت پڑنے پر کچھ مخصوص قسم کے نمونے کمپیوٹر کی اسکرین پر پیدا کر سکے گا. جہاں سے خاکے کو لے کر ایک کمپیوٹر پروگرام میں بھیجا جا سکے گا تا کہ وہ پہلے سے ذخیرہ شدہ خاکوں کو اس سے ملا کر بعد میں اس سے جڑے کسی حکم پر درستگی کے ساتھ عمل درآمد کر سکے. یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کہ کوئی بجلی کا بٹن دبا دے یا پھر موٹر کو چالو کر دے. بہ الفاظ دیگر کوئی شخص اپنی سوچ کو قابو کرکے ، ای ای جی میں مخصوص دماغی نقشے بنا کر کمپیوٹر یا موٹر کو چلا سکتا ہے.
اس طرح سے کوئی مکمل طور پر فالج زدہ شخص اپنی وہیل چیئر کو اپنے دماغ کی طاقت سے قابو کر سکتا ہے. یا اگر کوئی شخص چھبیس قسم کے قابل شناخت نمونے بنا لے تو یہ دماغی سوچ کے ذریعہ لکھنے کے قابل ہو سکتا ہے. ظاہر سی بات ہے کہ یہ اب بھی کسی کے خیالات کو منتقل کرنے کا انتہائی بنیادی طریقہ ہوگا. لوگوں کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ اپنی دماغی لہروں کو منظم کر نے کی تربیت کے لئے کافی عرصہ درکار ہوگا .
"سوچ کے ذریعہ لکھنے کا عمل" جرمنی میں واقع یونیورسٹی آف ٹبنگن کے" نیلز بربو مر"(Neils Birbaumer) کے کام کی وجہ سے حقیقت کے قریب آ چکا ہے . اس نے بائیو فیڈ بیک کے عمل کا استعمال ان لوگوں کی بھلائی کے لئے شروع کیا جو جزوی طور پر عصبی نقصان کی وجہ سے فالج زدہ ہو گئے تھے. لوگوں کو اپنی دماغی لہروں کے متعلق تربیت دے کر وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ لوگوں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک سادہ جملہ لکھنا سیکھا سکیں.
بندروں کے دماغ میں برقیرے نصب کرکے ان کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ یہ بات سکھائی گئی کہ کس طرح سے وہ اپنے خیالات کو انضباط کریں .بعد میں یہ بندر ایک روبوٹ کے بازو کو انٹرنیٹ کے ذریعہ صرف اپنے خیالات سے قابو کرنے کے قابل ہو گئے تھے .
ایک اور واضح تجربہ اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں کیا گیا جس میں شیشے کے دانے ایک فالج زدہ مفلوج شخص کے دماغ میں نصب کئے گئے. ان شیشوں کے دانوں کو ایک تار کے ذریعہ جوڑا گیا اور تار کے دوسرے حصّے کو کمپیوٹر سے ملا دیا گیا. کچھ مخصوص خیالات کو سوچ کر فالج زدہ شخص اپنے خیالات کو تاروں کے ذریعہ اسکرین پر بھیج کر کرسر کو حرکت دینے کے قابل ہو گیا تھا . بائیو فیڈ بیک کو استعمال کرتے ہوئے فالج زدہ شخص نے مشق کرتے ہوئے شعوری طور پر کرسر کی حرکت کو قابو کرنا سیکھ لیا تھا. نظریاتی طور پر اسکرین پر موجود کرسر خیالات کے لکھنے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس کے ذریعہ مشین بھی چلائی جا سکتی ہے ، مجازی کار بھی چلائی جا سکتی ہے ، ویڈیو گیم بھی کھیلے جا سکتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے بہت سے دوسرے کام بھی کیے جا سکتے ہیں .
براؤن یونیورسٹی کے علم الاعصاب کے ماہر "جان ڈونیو"(John Donghue) نے شاید"بین السطو ح دماغی مشین"(Mind Machine Interface) میں اب تک کی سب سے اہم ایجاد کر لی ہے. انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کا نام برین گیٹ ہے جو مفلوج شدہ شخص کو غیر معمولی جسمانی حرکات کے سلسلے کو صرف اپنے دماغ کی طاقت سے سرانجام دینے کے قابل بنا دیتا ہے. ڈونیو نے اس کو اب تک اپنے چار مریضوں کے اوپر استعمال کیا ہے. جس میں سے دو مریض ریڑھ کی ہڈی کے زخم کے مارے تھے ، تیسرا فالج کا شکار تھا جبکہ چوتھا شخص ایک مرض اے ایل ایس (ایک ایس بیماری جس میں بغلی نس خشکی عضلات کی وجہ سے سخت ہو جاتی ہے) کا شکار تھا . یہ وہی مرض ہے جو ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ کو ہے .
ڈونیو کا ایک٢٥ سالہ مریض جس کا نام" متھیو ناگلی"(Mathew Nagle) تھا وہ دونوں ہاتھوں اور پیروں سے اپاہج تھا اس نے صرف ایک دن میں ہی مکمل طور پر کمپیوٹر کی نئی چیزیں سیکھ لیں .اب وہ اپنے ٹیلی ویژن کے چنیل تبدیل کر سکتا ہے ، آواز کو کم زیادہ کر سکتا ہے ، مصنوعی ہاتھ کو کھول بند کر سکتا ہے ، گول دائرے جیسی چیز بھی بنا لیتا ہے ، کمپیوٹر کے کرسر کو حرکت بھی دے دیتا ہے، کمپیوٹر پر گیم بھی کھیل سکتا ہے یہاں تک کہ برقی خط بھی پڑھ سکتا ہے . اس نے سائنس کی دنیا میں اس وقت کافی سنسنی پھیلائی جب وہ نیچر میگزین کے ٢٠٠٦ء کے موسم سرما کے سرورق پر ابھرا.
ڈونیو کے برین گیٹ کا اصل قلب ایک چھوٹی سی سلیکان چپ ہے جو صرف ٤ ملی میٹر چوڑی ہے جس میں ایک سو ننھے برقیرے لگے ہوئے ہیں. یہ چپ سیدھی دماغ کے اس حصّے کے اوپر لگا دی جاتی ہے جہاں پر موٹر کی حرکیات کو مربوط کیا جاتا ہے. چپ کو دماغ کے" قشر الحرکت "(Cortex)میں ٢ ملی میٹر تک دھنسا دیا جاتا ہے . سونے کی تاریں اشاروں کو سلیکان چپ سے ایک افزوں گر کی جانب بھیجتی ہیں جس کا حجم صرف ایک سگار کے ڈبے جتنا ہوتا ہے. یہ اشارے اس کے بعد ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنے کمپیوٹر میں بھیجے جاتے ہیں . جہاں ان اشاروں یا اطلاعات کولے کر ایک خصوصی کمپیوٹر سافٹ ویئر ان پر کام کرتا ہے . یہ سافٹ ویئر دماغ سے بنے کچھ نمونوں کو پہچان سکتا ہے اور اس کے بعد ان کو میکانکی حرکت میں بدل دیتا ہے.
پچھلے تجربے کے برعکس جس میں مریض اپنے ای ای جی کی لہروں کو پڑھتے ہیں ، بائیو فیڈ بیک کا عمل کافی سست رفتار اور تھکا دینے والا ہے . لیکن ایک کمپیوٹر کے ذریعہ جو مریض کو اس کے مخصوص خیالات کے نمونوں کو پہچانے میں مدد دیتا ہے ، تربیت کے عمل میں درکار وقت کو کافی کم کیا جا سکتا ہے. اپنی تربیت کے پہلے دور میں ناگلی کو کہا گیا کہ وہ اپنے بازوں کو سیدھی اور الٹی طرف حرکت دینے کا تصوّر کرے .اپنی کلائی کو لچک دار بنائے اور اس کے بعد اپنی ہتھیلی کو کھولے اور بند کرے . ناگلی کے بازوں اور انگلیوں کی حرکت دینے کے تصوّرات سے نکلتے ہوئے مختلف عصبانیوں کو دیکھ کر ڈونیو انتہائی مسرور تھا."میرے لئے یہ ناقابل یقین بات تھی کیونکہ آپ دماغی خلیوں کی بدلتی حرکتوں کو دیکھ سکتے ہیں . تب مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ کام آگے بڑھ سکتا ہے، یہ طرزیات حقیقت میں کام کرے گی." وہ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں .
(ڈونیو کی اس پرسرار بین السطو ح دماغی مشین کو بنانے کی آرزو کی ایک شخصی وجہ ہے . عہد طفلی میں ایک تکلف دہ ابتذالی مرض میں مبتلا ہوکر ایک وہیل چیئر تک محدود ہو گیا تھا. لہٰذا اس کو بذات خود نقل و حرکت کی صلاحیت کھو کر بے بسی کی زندگی گزارنے کا تجربہ تھا.)
ڈونیو کے پاس ایک پر عزم منصوبہ ہے جس میں وہ برین گیٹ کو طبی پیشے کا ایک لازمی آلہ بنانا چاہتے ہیں . ہو سکتا ہے کہ کمپیوٹر طرزیات میں جدت آنے کے ساتھ ان کا آلہ جو ابھی ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنا ہے، چھوٹا ہو کر ایک ایسے سبک آلے کی شکل میں آ جائے جو مریض اپنے کپڑوں کے ساتھ ہی پہن سکے گا. اور بغیر تاروں کی چپ کو استعمال کرکے بھدے تاروں سے جان چھٹ سکتی. اس کے نتیجے میں لگا ہوا آلہ بیرونی دنیا سے آسانی سے اپنی بات کہہ سکے گا.
اب یہ کچھ دیر ہی کی بات ہے جب دماغ کے دوسرے حصّے بھی اسی طرح سے متحرک کر دیئے جائیں گے. سائنس دان پہلے ہی دماغ کے اوپری حصّے کی نقشہ سازی کر چکے ہیں . (اگر کوئی ترسیمی طور پر ہمارے ہاتھوں ، پیروں ، سر اور کمر کے خاکے ہمارے دماغ کے اوپری حصّے میں بنا دے جو اس بات کی نمائندگی کریں ، جہاں یہ عصبانیے عام طور پر ملتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی چیز مل جائے گی جس کو ہم "ٹھگنا" یا چھوٹا آدمی کہ سکتے ہیں . ہمارے دماغ میں جسم کی لکھی گئی تصویریں ایک مسخ شدہ آدمی جیسی ہوں گی جس کی انگلیاں ، چہرہ اور زبان لمبی ، جبکہ کب اور پچھلا حصّہ سکڑا ہوا ہوگا .)
یہ بھی ممکن ہے کہ سلیکان کی مختلف چپس کو دماغ کی سطح کے مختلف حصّوں میں لگا دیا جائے تا کہ مختلف اعضاء کو صرف خیالات کی طاقت سے متحرک کیا جا سکے. اس طرح سے کسی بھی انسانی جسمانی حرکت کی اس طریقے کے ذریعہ سے نقل کی جا سکتی ہے. مستقل میں اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مفلوج شخص ایک خصوصی روحی حرکی قوّت کی مدد سے بنے گھر میں رہ رہا ہو ، جہاں وہ ایئر کنڈیشن ، ٹیلی ویژن اور تمام برقی آلات صرف اپنے خیالات کے ذریعہ اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا ہوگا .
آنے والے دور میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی مفلوج شخص کا جسم کسی خصوصی " برکالبد"(یا ظاہری ڈھانچے (Exoskeleton – میں موجود ہو جو اس مفلوج شخص کو مکمل جسمانی حرکت کرنے کی آزادی فراہم کر دے. نظری طور پر ایسا کوئی بھی برکالبد اس شخص کو وہ صلاحیتیں عطا کر سکتا ہے جو ایک عام آدمی کی بساط سے کہیں زیادہ ہوں گی . اس طرح سے وہ آدمی مصنوعی اعضاء کی مدد سے مافوق الفطرت بن سکتا ہے جو صرف خیالات کےبل بوتے پر زبردست میکانکی قوّت کو اپنے قابو میں کر کے اپنے کام میں لا سکے گا.
لہٰذا کمپیوٹر کو دماغ کی مدد سے چلانا اب کوئی ناممکن بات نہیں ہوگی. لیکن کیا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دن صرف خالص خیالات کی بدولت چیزوں کو ہلانے ، اٹھانے ،اور آگے پیچھے کرنے کے قابل بھی ہو سکیں گے؟
ایک ممکنہ حل تو یہ ہے کہ ہم اپنے کمروں کی دیواروں پر عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کا لیپ کر دیں بشرطیکہ ہم فوقی موصل جیسی کوئی چیز مستقبل میں بنا سکیں . پھر ہمیں اپنی گھریلو استعمال کی چیزوں میں چھوٹے برقی مقناطیس لگانے پڑیں گے تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ چیزوں کو فرش پر سے" مئسیر کے اثر"(Meissner Effect) کی بدولت اٹھا سکیں جیسا کہ ہم نے باب اوّل میں دیکھا تھا . اگر ان برقی مقناطیسیوں کو ہمارے دماغ سے جڑے کمپیوٹر کے ذریعہ قابو کر لیا گیا تب کہیں جا کر ہم اپنی مرضی سے ان اشیاء کو فرش پر سے اٹھا سکتے ہیں . کچھ مخصوص خیالات کو سوچتے ہوئے کمپیوٹر کو پیغام دیا جا سکتا ہے جو مختلف برقی مقناطیسیوں کو چالو کرکے چیزوں کو ہوا میں بلند کر سکتے ہیں . ایک دور سے مشاہدہ کنندہ کو یہ کوئی جادوئی اثر لگے گا جس کے ذریعہ اپنی مرضی سے چیزوں کو حرکت دی جا سکے گی اور اٹھایا بھی جا سکے گا.
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ )- حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
نینو بوٹس
اس قوّت کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ذریعہ ناصر ف اشیاء کو ہلایا جلایا جا سکے بلکہ وہ جادوئی اثر سے ایک شئے سے دوسری شئے میں بھی تبدیل ہو کر اپنی شکل بدل سکیں ؟ اکثر جادوگر چالاکی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی سے ایسے کمالات دکھاتے ہیں. لیکن کیا ایسی کوئی طاقت قوانین طبیعیات سے رو گردانی تو نہیں کرتی ؟
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ نینو طرزیات کا ایک اہم مقصد ایسی مشینوں کو بنانا ہے جو بیرم ، گراری ، بال بیرنگ اور چرخی کی طرح سے کام کر سکیں . ان نینو مشینوں کو حقیقت کا روپ دینے کے ساتھ ہی کئی ماہرین طبیعیات کا وہ خواب سچا ہو جائے گا جس میں وہ کسی جسم میں موجود سالموں کو جوہر در جوہر از سر نو ترتیب دیں گے یہاں تک کہ ایک چیز اپنی ہئیت بدل کر دوسری چیز میں تبدیل ہو جائے. یہ اس نقلچی کی بنیاد ہے جو اکثر سائنسی قصّوں میں پایا جاتا ہے. جو کسی بھی چیز کو حکم ملتے ہی بنا ڈالتا ہے . نظریاتی نقطۂ نظر سے ایک نقلچی شاید غربت کا خاتمہ کر سکے گا .اس کی ایجاد سے سائنس کی نوعیت بدل جائے گی. اگر کوئی چیز کسی کے خالی کہنے پر بن جائے تو قلّت کا پورا تصوّر ، چیزوں کی اہمیت اور معاشرے کا پورا نظام تلپٹ ہو جائے گا.
("اسٹار ٹریک : دی نیکسٹ جنریشن" کی ایک قسط میری سب سے زیادہ پسندیدہ رہی ہے جس میں ایک نقلچی دکھایا گیا تھا .بیسویں صدی کا ایک قدیمی کیپسول خلاء میں تیرتا ہوا ملتا ہے جس میں لوگوں کے منجمد اجسام موجود ہوتے ہیں جو کسی مہلک مرض میں مبتلا تھے . ان اجسام کو جلدی سے پگھلا کر جدید ادویات کی مدد سے تندرست کیا جاتا ہے . غنودگی سے اٹھنے اور بیماری سے شفا یاب ہونے کے بعد ان میں سے ایک تاجر کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا سرمایہ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد تو بہت زیادہ بڑھ گیا ہوگا .وہ فوراً انٹرپرائز کے عملے سے اپنے سرمائے اور پیسوں کے بارے میں سوال کرتا ہے . عملے کے افراد پیسوں اور سرمائے کا نام سن کر حیران ہوتے ہیں ." مستقبل میں پیسا نام کی کوئی چیز نہیں ہے". وہ اس تاجر کو بتاتے ہیں ." آپ کو اگر درکار ہے تو جناب بس آپ اس کی خواہش کریں وہ حاضر ہو جائے گی .)
نقلچی جتنی ہی حیرت انگیز ایک چیز قدرت پہلے ہی بنا چکی ہے ."اثبات مفہوم "(Proof of Principal) کا اصول پہلے سے ہی موجود ہے. قدرت گوشت اور سبزیوں جیسے خام مال کو لے کر نو ماہ میں انسان کا بچا تخلیق کر دیتی ہے. حیات کا معجزہ صرف نینو کارخانے کے سوا کچھ اور نہیں ہیں. نینو کارخانے اس بات کی صلاحیت کے متحمل ہوتے ہیں کہ جوہری پیمانے پر مادّے کی ایک شکل(مثلاً کھانے) کو دوسری زندہ شکل (مثلاً بچے )میں بدل سکیں .
ایسے نینو کارخانے بنانے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے :بنیادی اجزاء ، آلات جو ان اجزاء کو کاٹ اور جوڑ سکیں اور ایک نقشہ جو ان آلات اور اجزاء کے استعمال کی رہنمائی کر سکے . قدرت کے کارخانے میں ہزاروں امینو ایسڈ اور لحمیات ہوتے ہیں جو انسان کا گوشت اور خون بناتے ہیں . ان اجزاء کو کاٹنے اور جوڑنے کے اوزار مثلاً ہتھوڑا اور آری جو ان لحمیات کو ساخت میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہیں تاکہ حیات کی نئی شکل بن سکے وہ ریبوسومز(اینڈوپلازمک ایٹمی کولم جیسے چھوٹے اور دانے دار خلوی اجزاء([Ribosomes] ہیں . ان کو بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ لحمیات کو مخصوص جگہ سے کاٹ کر دوبارہ سے جوڑ سکیں تا کہ نئے لحمیات کو بنایا جا سکے. ڈی این اے ان کو وہ نقشہ مہیا کرتے ہیں جو حیات کا راز انتہائی درستگی کے ساتھ نیو کلک ایسڈ کے سلسلوں میں رمز کر دیتے ہیں . یہ تینوں اجزاء ایک خلیہ میں جمع ہو جاتے ہیں جس میں خود کی نقل بنانے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے .یہ کارنامہ اس لئے سر انجام دیا جاتا ہے کہ ، ڈی این اے کا سالمہ دہرا لچھے دار مرغولہ نما ہوتا ہے . جب تخلیق کا وقت آتا ہے ، تو ڈی این اے سالمہ اپنے آپ کو کھول کر دو لچھوں میں بٹ جاتا ہے . اس میں سے پھر ہر لڑی نامیاتی سالموں کی مدد سے اپنی نقل بناتی ہے تاکہ اس کا کھویا ہوا دوسرا لچھا دوبارہ بن سکے.
ابھی تک تو ماہرین طبیعیات کو قدرتی طور پر پائی جانے والی ان خصوصیات کو حاصل کرنے میں ابتدائی کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے. سائنس دانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اس کام میں کامیابی کی کنجی خود کو بنانے والے نینو بوٹس کے غول کو بنا نا ہی ہوگا جو قابل پروگرام ایسی جوہری پیمانے کی مشینیں ہوں گی جو کسی بھی شئے کے ایٹموں کو از سر نو ترتیب دے سکیں گی.
نظری طور پر اگر ہمارے پاس کھرب ہا کی تعداد میں نینو بوٹس موجود ہوں تو وہ خود کو کاٹ پیٹ کر از سرنو ترتیب دیتے رہیں گے جب تک وہ کسی دوسری مطلوبہ شئے میں بدل نہیں جاتے . کیونکہ وہ خود سے اپنے آپ کو بنانے پر قادر ہوں گے لہٰذا ان کی تھوڑی سے تعداد بھی کافی ہوگی . ان کو قابل پروگرام بھی ہونا ہوگا تاکہ وہ نقشے یا خاکے میں موجود منصوبے کے مطابق کام کر سکیں. اس قسم کے نینو بوٹس کے غول کو بنانے کے لئے کافی مشکلات پر قابو پانا ہوگا . سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود ساختہ روبوٹ اصغری پیمانے پر بنانا نہایت ہی مشکل کام ہے بلکہ ان کو تو اکبری پیمانے پر بنانا بھی آسان نہیں ہے.(یہاں تک کہ سادے سے اوزار جیسے کہ بال بیرنگ اور گراریاں بھی جوہری پیمانے پر بنانا آج کی موجودہ طرزیات کے بس سے باہر ہے .) کمپیوٹر اور برقی پرزوں کی بدولت بھی ایک ایسی مشین بنانا انتہائی مشکل ہے جو اپنی نقل کرکے دوسری مشین خود سے بعد میں بنا سکے . لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ اگر کوئی خود ساختہ مشین بڑے پیمانے پر بنانا مشکل ہے تو نینو پیمانے پر ایسی مشین بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوگا.
دوسرے یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ باہر سے بیٹھ کر ان نینو بوٹس کی فوج کو کس طرح سے پروگرام کیا جائے گا . کچھ نے ریڈیائی اشاروں کے ذریعہ ان کو متحرک کرنے کا خیال پیش کیا ہے . شاید احکامات لئے ہوئے لیزر کی شعاعیں ان پر ڈالی جا سکتی ہیں. لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر نینو روبوٹ کو ایک علیحدہ احکامات کا سلسلہ بھیجا جائے یاد رہے کہ نینو بوٹس کی تعداد دسیوں کھرب میں ہو سکتی ہے.
تیسرے یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ نینو روبوٹس کس طرح سے جوہروں کی کاٹ پیٹ کرکے ان کو از سر نو ترتیب دیں گے جس کے نتیجے میں وہ کسی خاص قرینے سے لگ کر مطلوبہ شئے کو بنا سکیں . یہ بات یاد رکھیں کہ قدرت نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ٣.٥ ارب سال لئے ہیں لہٰذا ان تمام مسائل کو کچھ دہائیوں میں حل کرنا کافی ناممکن سی بات ہے.
ایک طبیعیات دان جنہوں نے نقلچی یا شخصی اختراع کے خیال کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا ہے ان کا نام "نیل گر شن فیلڈ"(Neil Gershenfeld) ہے جو ایم آئی ٹی میں کام کرتے ہیں . وہ ایم آئی ٹی میں ایک جماعت کو پڑھاتے ہیں جس کا نام ہے "کس طرح سے (تقریباً )ہر شئے بنائی جائے " یہ یونیورسٹی کی سب سے مشہور جماعت ہے . گر شن فیلڈ ایم آئی ٹی سینٹر فار بٹس اینڈ ایٹمس کو چلاتے ہیں اور انہوں نے شخصی اختراع کے نظرئیے کے پیچھے موجود طبیعیات کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا ہے جو ان کے مطابق اگلے دور کی ایک توپ چیز ہوگی . انہوں نے تو ایک کتاب تک لکھ ڈالی ہے جس کا نام "ایف اے بی : دی کمنگ ریوو لوشن ان یور ڈیسک ٹاپ –فرام پرسنل کمپیوٹر تو پرسنل فیبریکیشن " ہے جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار شخصی اختراع پر کیا ہے . ان کے مطابق اس کا مقصد "ایک ایسی مشین بنانا ہے جو خود سے کوئی بھی مشین بنا سکے ." اس خیال کے پرچار کے لئے انہوں نے پہلے سے ہی پوری دنیا میں تجربہ گاہوں کا جال بچھا دیا ہے خاص طور پر تیسری دنیا میں جہاں شخصی اختراع کا زبردست اثر ہوگا .
شروع میں انہوں نے ہر فن مولا قسم کی اختراع کا خیال پیش کیا. یہ چیز جو اس قدر چھوٹا ہوگی کہ آسانی سے میز پر بھی سما جائے گی. اس کام کے لئے لیزر کی دنیا میں ہونے والی جدید پیش رفت سے بھرپور استفادہ اٹھایا جائے گا تاکہ کمپیوٹر پر دکھائی دینے والے کسی بھی چیز کو بنانے کے لئے وہ کاٹ پیٹ کرکے ویلڈ کرکے اس کو مخصوص ساخت میں ڈھال سکے . مثال کے طور پر تیسری دنیا کے غرباء اس سے کھیتوں میں استعمال ہونے والے اوزار اور مشینیں بنانے کا کہہ سکتے ہیں. تمام تر معلومات ایک کمپیوٹر میں موجود ہوگی جو بذریعہ انٹرنیٹ ایک وسیع قسم کی نقشوں اور تیکنیکی اطلاعات پر مشتمل ایک لائبریری سے استفادہ کر سکے گا . ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کسی بھی فرد کی خواہش کے اوزار کے نقشے کو اس لائبریری میں موجود نقشے سے ملا کر دیکھے گا ، پھر ان اوزار کو بنانے کا طریقہ کمپیوٹر کو بذریعہ برقی خط کے بھیج دے گا. اس کے بعد ان کا شخصی اختراع، لیزر اور دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس شئے کو میز کے اوپر ہی بنا دے گا.
یہ ہر فن مولا قسم کا کارخانہ تو عظیم منزل کی طرف پہلا قدم ہوگا. گر شن فیلڈ کی نظریں تو اس کو سالماتی پیمانے پر کام کرنے کے قابل بنانے پر لگی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں انسان اپنے تخیلات کو حقیقت کا روپ دینے پر قادر ہو جائے گا. بہرحال اس میدان میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے کیونکہ انفرادی جوہروں میں جوڑ توڑ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.
یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا کے "اریسٹائیڈز ریقوچا"(Aristides Requicha) ان پہل کاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس سمت میں کام شروع کیا ہوا ہے . ان کی امتیازیت سالماتی روبوٹس ہیں اور ان کا مقصد نینو روبوٹس کے غولوں سے کم کی کوئی چیز بنانا نہیں ہے جو ایٹموں کی جوڑ توڑ اپنی مرضی سے کر سکیں. انہوں نے لکھا ہے کہ اس کام کرنے کے دو طریقے ہیں . ایک تو" منظم طریقہ "(Top-down Approach)ہے جس میں انجنیئر نیم موصل صنعتوں میں استعمال ہونے والی نقش کارطرزیات سے استفادہ اٹھاتے ہوئے ننھے سرکٹ بنائیںگے جو نینو بوٹس کے دماغ کے طور پر کام کریں گے . اس طرزیات میں نہایت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے فن " ننھی سنگی طباعت"(Nanolithography) سے استفادہ اٹھا کرا اتنے چھوٹے روبوٹ بنائے جا سکتے ہیں جن کا حجم ٣٠ نینو میٹر کا ہو.
لیکن ایک دوسرا "اوندھا یا الٹا طریقہ"(Bottom-up Approach) بھی ہے جس میں انجنیئر ایک جوہر پر مشتمل روبوٹ بنانے کی کوشش کریں گے . اس کام میں ان کا اہم اوزار "تقطیعی کھوجی خردبین" (ا سکیننگ پروب مائکرو اسکوپ) ہی ہوگی جو اسی طرزیات کا استعمال کرے گی جو تقطیعی سرنگی خردبین (ا سکیننگ ٹنلنگ مائکرو اسکوپ) میں انفرادی ایٹموں کی شناخت کے لئے استعمال ہوتی ہے. مثال کے طور پر سائنس دانوں نے زینون کے جوہروں کو پلاٹینم یا نکل کی سطح پر حرکت دینے میں کافی مہارت حاصل کر لی ہے . لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ " اب بھی دنیا میں موجود بہترین دماغوں پر مشتمل گروہ کو صرف ایک پچاس جوہروں پر مشتمل ساخت کو بنانے کے لئے ١٠ گھنٹے درکار ہوتے ہیں. ایک ایٹم کو ہاتھ سے حرکت دینے کا عمل ایک انتہائی سست رفتار اور تھکا دینے والا کام ہے." انہوں نے یہ بات نہایت وثوق سے کہی کہ "ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسی نئی قسم کی مشین بنائی جائے جو اونچے درجے کا کام بجا لا سکے یعنی جو ایک ہی وقت میں سینکڑوں جوہروں کو اپنی مرضی کی جگہوں پر رکھ سکے. بدقسمتی سے ایسی کوئی بھی مشین ابھی تک نہیں بن سکی ہے . اس بات سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اوندھا طریقہ ابھی اپنے عہد طفلانہ میں ہی موجود ہے.
لہٰذا مفصلہ بالا گفتگو کی مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ روحی حرکی قوّت اگرچہ آج کے مروجہ معیار کے مطابق نا ممکن ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ای ای جی، ایم آر آئی اور دوسرے طریقوں سے دماغی خیالات کے بارے میں ہماری بڑھتی ہوئی معلومات مستقبل کے آنے والے دنوں میں اس کو ممکن بنا دے .
ہو سکتا ہے کہ رواں صدی میں ہی خیالات کے بل بوتے پر کسی قسم کے آلے کو استعمال کرکے ہم عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کے ذریعہ اس طرح کے کام سر انجام دے پائیں جس کو جادو گری سے علیحدہ کرنا مشکل ہو . اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگلی صدی تک سالموں کو بڑے اجسام میں از سر نو ترتیب دیا جا سکے. اس وجہ سے میں روحی حرکی قوّت کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں . کچھ سائنس دانوں کے دعوے کے مطابق اس طرزیات کی کنجی مصنوعی ذہانت کے حامل نینو روبوٹ ہیں ، لیکن یہ اپنے آپ میں ایک بنیادی سوال چھوڑ دیتا ہے : کیا روبوٹ وجود بھی رکھتے ہیں ؟
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 7۔ روبوٹس- حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
آنے والے اگلے ٣٠ برسوں میں ایک دن ایسا آئے گا کہ جب زمین پر ہم خاموشی سے اشرف المخلوقات کے درجے سے تنزلی پا جائیں گے۔
- جیمز مک الئیر (James McAlear)
فلم آئی روبوٹ ، آئزک ایسی موف کی کہانی پر بنی ہے ، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ تاریخ میں بنائے جانے والے جدید ترین روبوٹس کا نظام ٢٠٣٥ء میں متحرک ہوتا ہے۔ جس کا نام وی آئی کے آئی (ورچوئل انٹرایکٹو کائینٹک انٹیلی جنس - مجازی تفاعلی حرکی ذہانت ) ہوتا ہے ، اس کے بنانے کا مقصد کسی بڑے شہر کے نظام کو بغیر کسی گڑبڑ کے چلانا ہوتا ہے۔ زیر زمین سڑکوں اور بجلی پہنچانے کے نظام سے لے کر ہزار ہا گھریلو روبوٹس تک ہر چیز وی آئی کے آئی کے ذریعہ قابو کی جاتی ہے۔ جس کی آہن پوش مرکزی قیادت کا نعرہ تھا: انسانیت کی خدمت ہمارا شعار۔
ایک دن وکی ایک سوال پوچھتا ہے : انسانیت کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ وکی ریاضیاتی حساب کتاب لگا کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔ نتیجے کے مطابق انسانیت کو اس کی پاگل پنے کی خواہشات سے بچانا ہوگا ان خواہشات میں آلودگی کو پھیلانا، جنگوں میں الجھنا، اور سیارے کو تباہ کرنا شامل تھا۔ وکی کے پاس صرف ایک ہی ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مرکزی کمان کی ہدایات کو پورا کر سکتا تھا۔ یعنی انسانیت سے اقتدار چھین کر مشین کی خیر اندیش آمریت کا نفاذ کیا جائے۔ انسانیت کو انسانیت سے بچانے کے لئے اسی کو ہی غلام بنانا پڑے گا۔
آئی روبوٹ نے اس قسم کے سوالات اٹھا دیئے ہیں : کمپیوٹر میں ترقی کی تیز رفتاری کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا مشینیں ایک دن انسانیت کا تختہ الٹ دیں گی ؟ کیا روبوٹ اس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو سکتے ہیں کہ آخر میں وہ ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائیں؟
کچھ سائنس دان اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں دیتے ہیں ، کیونکہ مصنوعی ذہانت کا خیال ہی انتہائی بیوقوفانہ ہے۔ ناقدین کی بڑی جماعت اس بات پر متفق ہے کہ ایسی مشین بنانا جو بذات خود سوچ سکے ناممکن ہے۔ ان کے دلائل کے مطابق قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسانی دماغ سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ کم از کم ہماری کہکشاں کے اس حصّے کی حد تک تو ایسا ہی ہے اور انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کی نقل کرنے کی کوشش والی کوئی بھی مشین لازمی طور پر ناکام ہوگی۔ برکلے میں موجود یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر "جان سیَرل" (John Searle) بلکہ آکسفورڈ کے معروف طبیعیات دان "راجر پنروز"(Roger Penrose) بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشین طبعی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ انسان کی طرح کے خیالات پیدا کر سکیں۔ راگرس یونیورسٹی کے" کولن مک گن" ((Colin McGinn کہتے ہیں کہ "مصنوعی ذہانت ایسے ہی ہے جیسے کوئی حلزون گھونگا" فروڈیین نفسی تجزیہ" کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے پاس کوئی تخیلاتی آلات موجود نہیں ہیں۔"
یہ وہ سوال ہے جس نے سائنس دانوں کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا ہوا ہے :کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟
مصنوعی ذہانت کی تاریخ
میکانکی ہستیاں ایک لمبے عرصے سے موجدوں ، انجینیروں ، ریاضی دانوں اور خواب سجانے والوں کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ وزرڈ آف اوز کے ٹین کے آدمی سے لے کر ا سپیل برگ کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی میں دکھائے جانے والے بچوں جیسے روبوٹوں تک یا پھر دی ٹرمنیٹر کے قاتل روبوٹوں تک ، ایک ایسے خیال نے ہمیں مسحور کر رکھا ہے جس میں مشینیں لوگوں کی طرح کام کریں اور ان ہی کی طرح سے سوچ سکیں۔
یونانی دیو مالائی کہانیوں میں دیوتا" ولکن "(Vulcan)سونے کی میکانکی کنیزیں اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والی تین ٹانگوں والی میز بنا تا ہے۔ ٤٠٠ قبل مسیح پہلے سب سے پہلے یونانی ریاضی دان جو "ٹیرانٹم"(Tarentum) کا رہائشی تھا اور جس کا نام "ارخیتاس"(Archytas) تھا اس نے کسی ایسے ممکنہ روبوٹ پرندے کے بنانے بارے میں لکھا تھا جس کو بھاپ کی طاقت سے چلایا جا سکتا ہو۔
پہلی صدی بعدِ مسیح اسکندریہ کے ہیرو (جن کو پہلی بھاپ سے چلنے والی مشین کا موجد گردانہ جاتا ہے ) نے خودکار حرکی چیزیں بنائیں ، روایت کے مطابق اس میں سے ایک تو بولنے کے قابل بھی تھی۔ آج سے ٩ صدیوں قبل "الجزاری"(Al-Jazari) نے خود کار مشینوں کے نقشوں کی مدد سے انھیں بنایا جیسا کہ پانی کی گھڑی ، باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں اور موسیقی کے آلات جو پانی سے چلتے تھے۔
١٩٤٥ء میں نشاط الثانیہ کے عظیم فنکار اور سائنس دان "لیونارڈو ڈ ا ونچی"(Leonardo Da Vinci) نے ایک ایسے روبوٹک سردار کا نقشہ بنایا تھا جو بیٹھنے اور بازوں کو ہلانے کے علاوہ اپنے سر اور جبڑے کو بھی حرکت دے سکتا تھا۔ تاریخ دانوں کو پورا یقین ہے کہ یہ انسان نما مشین کا پہلا حقیقی نقشہ تھا۔
پہلا بے ڈھنگا مگر کام کرنے کے لائق روبوٹ ١٧٣٨ء میں "جاک ڈی واکنسن"(Jacques de Vaucanson) نے بنایا۔ اس نے ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنایا جو بانسری بجا سکتا تھا اس کے علاوہ اس نے ایک میکانکی بطخ بھی بنائی تھی۔
روبوٹ کا لفظ ١٩٢٠ء میں چیک ڈرامے آر یو آر سے نکلا جو ڈرامہ نگار "کارل کیپک"(Karl Capek) نے لکھا تھا۔("روبوٹ" کا مطلب چیک زبان میں "مشقت "کا ہے جبکہ سلوواکی زبان میں اس کا مطلب "مزدوری " کے ہیں )۔ اس کھیل میں ایک کارخانے جس کا نام روسّم یونیورسل روبوٹس تھا وہ ادنیٰ درجے کے کاموں کے لئے روبوٹوں کی فوج بناتی ہے۔(عام مشینوں کے برخلاف یہ روبوٹ گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں۔) آخر کار دنیا کی معیشت کا انحصار ان روبوٹوں پر ہو جاتا ہے۔ روبوٹوں کے ساتھ برتاؤ کافی برا روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے انسانی مالکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اپنے اس انتقام میں وہ ان تمام سائنس دانوں کو بھی مار ڈالتے ہیں جو ان کی خرابیوں کو دور کرتے تھے اور نئے روبوٹ بناتے تھے ۔ نتیجتاً وہ خود کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر لیتے ہیں۔ کھیل کے آخر میں دو خصوصی روبوٹ اس بات کو دریافت کر لیتے ہیں کہ ان میں روبوٹوں کو پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ روبوٹوں کے نئے آدم اور حوا بن جاتے ہیں۔
روبوٹ ابتدائی اور مہنگی ترین خاموش فلم جس کا نام میٹروپولس تھا اور جس کی ہدایات کاری فرٹز لینگ نے جرمنی میں ١٩٢٧ء میں کی تھی اس میں بھی روبوٹ ہی مرکزی کردار تھے۔ یہ کہانی ٢٠٢٦ء کے دور کی تھی جہاں پر کام کرنے والا طبقہ زیر زمین ناقص حالات میں غلیظ کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور تھا جب کہ حکمران اشرافیہ سطح کے اوپر عیاشی کر رہی تھی۔ ماریہ نام کی حسین عورت نے مزدوروں کا دل کافی حد تک جیت لیا تھا، لیکن حکمران اشرافیہ کو اس سے مزدوروں کو بغاوت پر اکسانے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انہوں نے ایک شیطان صفت سائنس دان سے ماریا کا ہمشکل روبوٹ بنانے کو کہا۔ لیکن یہ تدبیر ہی ان کے گلے پڑ گئی کیونکہ اس روبوٹ نے ہی حکمران اشرافیہ کے خلاف بغاوت میں ان مزدوروں کی کمان سنبھال لی اور پورے معاشرتی نظام کو منہدم کر دیا۔
مصنوعی ذہانت یا اے آئی ان پچھلی ٹیکنالوجی سے مختلف ہے جن کے بارے میں ہم پہلے بحث کر چکے ہیں اس کی وجہ اس بنیادی قانون کو ابھی تک ٹھیک سے سمجھا نہ جانا ہے جس کی بنیاد پر یہ کھڑی ہے۔ اگرچہ طبیعیات دانوں کی گرفت نیوٹنی میکانیات پر کافی مضبوط ہے ، مگر میکسویل کا روشنی کا نظریہ ، اضافیت اور کوانٹم کے جوہروں اور سالموں کے نظرئیے ، یہ سب ذہانت کے بنیادی قوانین ہیں اور ابھی تک اسراریت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا نیوٹن شاید ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
مگر ریاضی دان اور کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان اس بات سے ذرا بھی خائف نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اب کچھ ہی دیر کی بات ہے جب ایک سوچتی ہوئی مشین تجربہ گاہ سے باہر نکلے گی۔
مصنوعی ذہانت کی دنیا کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والا شخص، ایک مستقبل شناس جس نے مصنوعی ذہانت کی تحقیق کی بنیادیں رکھیں وہ برطانیہ کا عظیم ریاضی دان "ایلن ٹیورنگ"(Alan Turing) تھا۔
یہ ٹیورنگ ہی تھا جس نے کمپیوٹر کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایک ایسی مشین (جو اس وقت سے ٹیورنگ مشین کہلاتی ہے )کا خواب دیکھا جو صرف تین چیزوں پر مشتمل ہو: ایک ان پٹ ، ایک آوٹ پٹ اور ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) جو درست طریقے سے کچھ احکامات پر عمل کر سکے۔ اس طریقے سے نہ صرف وہ کمپیوٹر مشین کے قوانین کو وضع کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ ان کی طاقت اور مجبوریوں کو بھی درست طریقے سے معین کر دیا گیا۔ آج کے دور کے تمام ڈیجیٹل کمپیوٹر سختی کے ساتھ ٹیورنگ کے وضع کردہ قوانین پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی کو اس کی موجود شکل و صورت میں ڈھالنے کے اوپر ٹیورنگ کا بہت بڑا احسان ہے۔
ٹیورنگ نے ریاضیاتی منطق کی بنیادیں استوار کرنے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ١٩٣١ء میں ویانا کے ریاضی دان" کرٹ گوڈیل"(Kurt Godel) نے دنیائے ریاضی کو اس وقت سکتے کی حالت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ ریاضی میں کچھ ایسے سچے دعوے موجود ہیں جو کہ کبھی بھی مسلمہ طور پر ثابت نہیں کئے جا سکتے۔ (مثال کے طور پر١٧٤٢ء کا" گولڈ باخ کا قیاس" [جو یہ کہتا ہے کہ صحیح عدد جفت جو ٢ سے بڑا ہو وہ دو مفرد اعداد کو جمع کر کے لکھا سکتا ہے ] کو ڈھائی صدیاں گزر جانے کے بعد ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اور حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو ثابت بھی نہ کیا جا سکے۔) گوڈیل کے اس چشم کشا حقائق نے٢ ہزار سالہ پرانے یونانیوں کے دور سے دیکھے جانے والے اس خواب کو چکنا چور کر دیا جس میں تمام سچے دعووں کو ریاضیاتی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ گوڈیل نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں ہمیشہ سے ایسے دعوے موجود رہیں گے جو ہماری پہنچ سے کوسوں دور ہوں گے۔ ریاضی یونانیوں کے اس خواب سے کوسوں دور اور نامکمل دکھائی دی جس میں اس کو مکمل اور بے عیب گردانا گیا تھا۔
ٹیورنگ نے اس انقلاب میں اپنا حصّہ کچھ اس طرح سے ڈالا جس میں اس نے ثابت کیا کہ عمومی طور پر یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ ایک ٹیورنگ مشین کسی ریاضی کے عمل کو سرانجام دینے میں لامحدود وقت لے گی۔ یعنی اگر کوئی کمپیوٹر کسی چیز کے حساب کتاب کے کرنے میں لامحدود وقت لے تو اس بات کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ جو کمپیوٹر سے پوچھ رہے ہیں اس کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات سے ٹیورنگ نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں کچھ سچے دعوے ایسے ہوں گے جن کا حساب کتاب ریاضیاتی طور پر نہیں لگایا جا سکتا یعنی وہ ہمیشہ کمپیوٹر کی پہنچ سے دور ہی ہوں گے۔ کمپیوٹر جس قدر بھی طاقتور ہو جائیں اس سے ان کے حل طلب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ٹیورنگ کے" رمز کشائی "(Code Breaking)پر شاندار کام نے ہزاروں اتحادی افواج کے فوجیوں کی جان بچائی اور اس کا یہ کام جنگ کے انجام پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اتحادی نازیوں کے خفیہ کوڈ کی رمز کاری انیگما نام کی ایک مشین سے کرنے میں ناکام ہو گئے تھے ، لہٰذا ٹیورنگ اور ان کے رفقائے کاروں کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائیں جو نازیوں کے مخفی اشاروں کی رمز کشائی کر سکے۔ ٹیورنگ کی بنائی ہوئی مشین "بومبی " کہلائی اور جو اپنے دور کی ایک انتہائی کامیاب چیز تھی۔ اس کی بنائی ہوئی ٢٠٠ سے زائد مشینیں جنگ عظیم دوم کے اختتام تک کام کر رہی تھیں۔ نتیجتاً اتحادی نازیوں کے خفیہ مراسلے پڑھ کر نازیوں کے علم میں آئے بغیر جرمنی کے اگلے حملے کی تاریخ اور جگہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ تاریخ دانوں میں تب سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ٹیورنگ کے کام کی نارمن ڈے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں کیا اہم حصّہ تھا جس نے آخر کار جرمنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔( جنگ کے بعد ، ٹیورنگ کے کام کو برطانوی حکومت نے "زمرہ بند"(Classified) کر دیا تھا؛ نتیجتاً اس کا اہم کام عام عوام کے علم میں نہیں ہے۔)
ٹیورنگ کو جنگ میں مدد کرکے اس کا پانسہ پلٹنے والے جنگی ہیرو کے طور پر سلامی دینے کے بجائے قید میں دال دیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن اس کے گھر میں چوری ہو گئی اس نے پولیس کو بلایا۔ بدقسمتی سے پولیس نے اس کے گھر میں ہم جنس پرستی کے کچھ ثبوت دیکھ لئے اور اس کی بنیاد پر وہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ٹیورنگ کو تفتیش کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ اس کو جنسی ہارمون کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ ان جنسی ہارمون کے ٹیکوں نے اس پر انتہائی ہیبت ناک اثرات ڈالے۔ اس کے پستان ابھر آئے تھے اور جس سے سخت ذہنی مبتلائے اذیت ہو گیا تھا ۔ اس نے ١٩٥٤ء میں سائنائیڈ زدہ سیب کھا کر خود کشی کر لی۔(ایک افوہ کے مطابق ، ایپل کارپوریشن کے لوگو میں ایک کھایا ہوا سیب، ٹیورنگ کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہے۔)
آج شاید ٹیورنگ کو "ٹیورنگ ٹیسٹ " سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ مشینیں سوچ بھی سکتی ہیں یا ان میں روح بھی ڈالی جا سکتی ہے جیسی بے نتیجہ اور لا حاصل فلسفیانہ گفتگو اور بحث سے اکتائے ہوئے ٹیورنگ نے مصنوعی ذہانت کے ان مباحثوں میں سخت اور درستگی کا تعارف کرانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ایک ٹھوس ٹیسٹ حاصل ہوا۔ اس نے یہ تجویز دی کہ ایک انسان اور ایک مشین کو دو مختلف سربند ڈبوں میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ ان دونوں سے کچھ سوالات کریں ۔ اگر آپ اس بات کو معلوم کرنے میں ناکام ہو گئے کہ کون سا جواب انسان اور کون سا جواب مشین نے دیا ہے تو آپ کی مشین نے ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ سائنس دانوں نے سادے روز مرہ کی باتوں کی نقل کرنے والے کمپیوٹر پروگرام لکھے جیسے کہ الیزا (ای ایل آئی زی اے )۔ یہ پروگرام زیادہ ترانجان لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنا کر اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ وہ ایک انسان سے بات کر رہے ہیں۔(مثال کے طور پر زیادہ تر لوگوں کی گفتگو صرف چند سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ کچھ ہی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔) لیکن ابھی تک کوئی بھی کمپیوٹر پروگرام ایسا نہیں لکھا جا سکا جو ان لوگوں کو بیوقوف بنا سکے جو بطور خاص اس بات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس ڈبے میں انسان اور کس ڈبے میں مشین ہے۔ ( ٹیورنگ نے کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٠ء تک ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو ٣٠ فیصد لوگوں کو ٥ منٹوں کے ٹیسٹ میں بیوقوف بنا سکتی ہے۔)
ایک چھوٹی سی فلاسفروں اور الہیات دانوں کی فوج نے تو اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ہماری طرح سوچ رکھنے ولے روبوٹ بنانا ممکن ہے۔ برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر جان سَرِل نے ایک "چائنیز روم ٹیسٹ " تجویز کیا ہے تا کہ اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت ناممکن نہیں ہے۔ ان کی تجویز کا لب لباب یہ ہے کہ روبوٹ کچھ مخصوص ٹیورنگ کے ٹیسٹ کو پاس کرنے کے قابل ہیں ۔لیکن وہ ایسا بے سمجھے بوجھے اندھوں کی طرح سے کچھ ذخیرہ شدہ معلومات سے اس کا مطلب جانے بغیر جوڑ توڑ کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ ایک ڈبے کے اندر بیٹھے ہیں اور آپ چائنیز زبان کا کوئی لفظ نہیں جانتے۔ فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ چائنیز کا ترجمہ کرکے الفاظ کا ہیر پھیر کر سکتی ہے۔ اب اگر کوئی آدمی آپ سے چائنیز میں کوئی سوال کرے تو اپ ان اجنبی لفظوں کو صرف آگے پیچھے ہی کر سکتے ہیں اس بات کو جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے اور نتیجے میں قابل یقین جوابات مل جائیں۔
اس کی تنقید کے لب لباب نے "ترکیب کلام قاعدہ"(Syntax) اور "لفظیات"(Semantics) میں فرق کو کم کر دیا ہے ۔ روبوٹ ترکیب کلام قاعدہ کے ماہر ہو سکتے ہیں (مثال کے طور پر وہ قواعد اور اس کی رسمی ساختوں میں ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔)لیکن اس کے لفظیات کی روح میں الٹ پھیر نہیں کر سکتے (مثلاً الفاظ کا کیا مطلب ہے )۔ روبوٹ الفاظ کو ان کے معنی جانے بغیر ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔(یہ کسی ٹیلی فون پر ایک خود کار جوابی صوتی اطلاعاتی مشین کے ساتھ بات کرنے جیسا ہی عمل ہے جس میں آپ کو ہر جواب کے رد عمل میں کبھی ایک کا بٹن دبانا ہوتا ہے تو کبھی دو کا۔ دوسری طرف موجود آواز بے عیب طور پر آپ کے عددی رد عمل کو جانتی تو ہے لیکن وہ اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔)
آکسفورڈ کے طبیعیات دان رابرٹ راجر پنروز بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا حصول ناممکن ہے ؛ ایسی میکانکی ہستیاں بنانا جو انسانی سوچ اور شعور رکھ سکیں کوانٹم کے قوانین کی رو سے ناممکن ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق انسانی دماغ کو کسی بھی تجربہ گاہ میں بنانا بہت دور کی بات ہے اور ایسا کوئی بھی تجربہ جس میں انسان کے جیسے روبوٹ بنائے جائیں بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوگا۔(وہ اس بات کو بالکل اسی طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے کہ" گوڈیل کا اصول ناتمام مسئلہ اثباتی"(Godel Incompleteness theorem) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ریاضی ناتمام ہے ، ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین اس بات کو ثابت کر دے گا کہ مشین اس قابل نہیں ہوں گی کہ وہ انسانی خیالات کی طرز پر سوچ سکیں۔)
کئی طبیعیات دان اور انجنیئر اس بات پر اب ابھی یقین رکھتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین ہمیں انسان جیسے روبوٹ بنانے سے نہیں روکتے۔ مثال کے طور پر بابائے نظریہ اطلاع کہلانے والے" کلاڈ شینن" (Claude Shannon)سے جب یہ سوال پوچھا گیا "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟" ان کا جواب تھا "ضرور"۔ جب ان سے کہا گیا کہ اپنے اس جواب کو ذرا واضح کریں تو انہوں نے کہا "میں ایسا سمجھتا ہوں۔" با الفاظ دیگرے ان کے خیال میں یہ بات واضح تھی کہ مشینیں اس لئے سوچ سکتی ہیں کیونکہ انسان بھی تو مشین ہی ہے (تاہم وہ سوکھے اور سخت اجزاء سے بننے کے بجائے گیلے اجزاء سے بنے ہیں۔)
کیونکہ ہم فلموں میں موجود روبوٹوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے حامل پیچیدہ روبوٹ کی اصل اور حقیقی دنیا میں آمد صرف اب کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ عام طور پر انسان جیسے نظر یا دکھائی دینے والے روبوٹ کے پیچھے کوئی چالاک ترکیب استعمال کی گئی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی سائے میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہوتا ہے جو مائکروفون کے ذریعہ روبوٹ بن کر بات کر رہا ہوتا ہے بعینہ ایسے جیسے کہ ساحر نے "دی وزرڈ آف اوز " میں کیا تھا۔ سیارہ مریخ پر بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں ہمارے اب تک کے بنائے ہوئے سب سے جدید روبوٹ موجود ہیں لیکن ان کی ذہانت ایک کیڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ مصنوعی ذہانت کی تجربہ گاہ میں ، تجرباتی روبوٹوں کو لال بیگ جیسے کرتب دکھانے میں بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ جیسے کہ فرنیچر سے بھرے کمرے میں گھومنا ، چھپنے کی جگہوں کو تلاش کرنا اور خطرے کو بھانپنا وغیرہ۔ زمین پر موجود کوئی بھی روبوٹ بچوں کی سادہ سی کہانی کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔
٢٠٠١ء :اے ا سپیس او ڈےسی فلم میں یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ ٢٠٠١ء تک ہم سب کے پاس ایچ اے ایل (ہیریسٹیکلی پروگرامڈ الوگرتھم کمپیوٹر ) ہوگا ، ایک سپر –روبوٹ جو خلائی جہاز کو مشتری تک لے جانے کے قابل ہوگا ، وہ عملے سے بات چیت بھی کر سکے گا ، مسائل کو حل کرے گا اور انسانوں جیسا برتاؤ کرے گا۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 7۔ روبوٹس- حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
منظم طریقہ یا منظم اصول
کم از کم دو اہم مسائل ایسے ہیں جو سائنس دان عشروں سے بھگت رہے ہیں یہ مسئلے ان کی روبوٹ بنانے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہیں :نمونوں کی پہچان اور عقل سلیم یا عقل عامہ۔ روبوٹ ہم سے زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ دیکھی ہوئی چیزوں کو سمجھ نہیں سکتے۔روبوٹ ہم سے کہیں بہتر سامع ہوتے ہیں مگر وہ ان سنی ہوئی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان دونوں جڑواں مسئلوں کو حل کرنے کے لئے محققین نے مصنوعی ذہانت کے لئے منظم اصول کا طریقہ اپنایا (اکثر اس کو ضابطہ پسند مکتبہ فکر یا گوفائی (جی او ایف اے آئی - گڈ اولڈ فیشنڈ اے آئی )۔ ان کا مقصد نمونوں کی پہچان کے تمام اصولوں اور عقل سلیم کو ایک سی ڈی پر لانا ہے۔ ان کے خیال میں اس سی ڈی کو کمپیوٹر میں ڈال کر کمپیوٹر فوراً ذخیرہ شدہ معلومات کی بدولت انسان کے جیسی ذہانت حاصل کر لے گا۔ ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ء کے عشروں میں اس سمت میں کافی پیش رفت ہوئی جس میں روبوٹ شطرنج اور چوسر کھیل سکتے تھے ، الجبرا کے سوال حل کر سکتے تھے ، اینٹوں کو اٹھا سکتے تھے اور اسی طرح کے دوسرے کام بھی کر سکتے تھے۔ اس میدان میں پیشرفت اس قدر شاندار ہو رہی تھی کہ اس بات کی پیش گوئی کردی گئی کہ جلد ہی روبوٹ انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
مثال کے طور پر ١٩٦٩ء میں اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ایک روبوٹ جس کا نام "شیکی " تھا اس نے میڈیا میں سنسنی پھیلائی دی تھی۔ شیکی ایک چھوٹا سا پی ڈی پی کمپیوٹر تھا جس کو پہیوں پر رکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوا تھا ، کیمرہ کمرے کا جائزہ لے سکتا تھا اور کمپیوٹر کمرے میں موجود اشیاء کا تجزیہ کرکے ان کو پہچان سکتا تھا اور کمرے میں صحیح طرح سے گھوم پھر سکتا تھا۔ شیکی انسان کی بنائی ہوئی پہلی ایسی میکانکی خود کار چیز تھی جو حقیقی دنیا میں صحیح طور سے کچھ کام کر سکتی تھی اور اسی بات نے صحافیوں کو اس بات کی پیش گوئی کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جلد ہی روبوٹ انسان کو خاک میں روتا چھوڑ دیں گے۔
مگر اس قسم کے روبوٹ کی خامیاں جلد ہی عیاں ہو گئیں۔ مصنوعی ذہانت میں منظم اصول کے طریقے کو اپناتے ہوئے جو روبوٹ بنائے گئے وہ انتہائی جسیم، بھدے روبوٹ تھے جن کو خصوصی کمرے میں چلنے کے لئے ہی کئی گھنٹے درکار ہوتے تھے اور وہ خصوصی کمرے بھی صرف چند سیدھی چیزوں پر مشتمل ہوتے تھے جیسا کہ مربع اور مثلث۔ اگر کوئی بے ضابطہ شکل کا فرنیچر کمرے میں موجود ہو تو روبوٹ اس کو پہچانے کے قابل ہی نہیں رہتا۔(اس کے برعکس ، ایک پھل مکھی جس کے دماغ میں صرف ڈھائی لاکھ عصباینے موجود ہوتے ہیں اور وہ ان روبوٹ میں استعمال ہونے والی توانائی کے مقابلے میں انتہائی کم توانائی استعمال کرتی ہے ، بغیر کسی پریشانی کے سہ ابعادی طور پر آسانی کے ساتھ گھوم پھر سکتی ہے آنکھیں چندیا دینے والے حلقوں کا سلسلہ بناتی ہے اور یہ بھدے روبوٹ صرف دو جہتوں میں ہی پھنس جاتے ہیں۔
منظم اصول کا طریقہ جلد ہی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ "اسٹیو گرینڈ"(Steve Grand) جو سائبر لائف انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ "اس طرح کے طریقوں کو ثابت کرنے میں پچاس برس گزر گئے اور وہ اپنے وعدوں کے دعووں میں سچے ثابت نہیں ہو سکے۔" ١٩٦٠ء کے عشرے میں سائنس دانوں نے اس کام کی سنگینی کو پوری طرح سے نہیں سمجھا تھا جس میں روبوٹ کی پروگرامنگ صرف سادہ کام کو ادا کرنے کے لئے کرنی تھی ، جیسا کہ کسی روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کرنا کہ یہ چابی، جوتے اور مگوں کو پہچان سکے۔ ایم آئی ٹی کے "روڈنی بروکس"(Rodney Brooks) کہتے ہیں " چالیس سال پہلے ایم آئی ٹی میں واقع آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری ایک طالبعلم کو گرمیوں کے موسم میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے رکھتے تھے جس میں وہ ناکام ہوتے تھے اور میں بھی ١٩٨١ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہا۔" حقیقت میں اے آئی کے محققین ابھی تک اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے ہیں۔
مثال کے طور پر جب ہم کسی کمرے میں گھستے ہیں تو ہم فوراً ہی فرش، کرسیوں، میزوں اور اسی طرح سے دوسری چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں مگر جب کوئی روبوٹ کمرے کا جائزہ لیتا ہے تو کمرے میں اسے وسیع سیدھی اور ٹیڑھی لکیروں کا مجموعہ نظر آتا ہے جس کو وہ پکسل میں بدلتا ہے۔ ہمیں میز کو پہچاننے میں شاید ایک سیکنڈ کا کچھ ہی حصّہ لگتا ہے ، مگر کمپیوٹر صرف دائروں، بیضوی ، مرغولے، سیدھی لکیریں ، ٹیڑھی لکیریں، کونے اور اس طرح کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ کافی دیر حساب کتاب کرنے کے بعد شاید کمپیوٹر میز کو پہچان سکے۔ لیکن اگر آپ نے اس میز کو تھوڑا سا گھما دیا تو وہ پھر سے اس کو پہچاننے میں اتنا ہی وقت لگائے گا۔ دوسرے الفاظ میں روبوٹ دیکھ سکتے ہیں بلکہ وہ ہم سے بہتر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شاید ایک روبوٹ کرسی، میز اور لیمپ کو دیکھنے کے بجائے صرف لکیروں اور خمیدہ لکیروں کے بے ہنگم مجموعے کو دیکھے۔ ہمارا دماغ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے غیر شعوری طور پر دسیوں کھرب حسابات لگاتے ہوئے(یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم خوش قسمتی سے آگاہ نہیں ہوتے) اشیاء کو پہچان لیتا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے دماغ کی ارتقاء کے عمل سے بے خبری ہے۔ فرض کیجئے کہ ہم اکیلے کسی جنگل میں موجود ہوں جہاں ایک خون خوار دانتوں والے شیر بھی موجود ہے تو خطرے کو بھانپ کر وہاں سے فرار کے لئے دماغ کے ضروری حساب کتاب کے عمل کو جان کر ہی ہم مفلوج ہو جائیں گے۔ زندہ رہنے کے لئے صرف ہمیں اتنا جاننا کافی ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کیسے بھاگا جائے۔ جنگل میں رہتے ہوئے دماغ میں جانے اور آنے والی ان تمام چیزوں سے باخبر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جو ہمیں میدان ، آسمان ، درخت ، چٹانیں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو پہچاننے کے لئے ضروری ہیں۔
با الفاظ دیگر ہمارے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو ایک جسیم برف کے تودے سے تشبیہی دی جا سکتی ہے۔ ہم صرف تودے کی چوٹی یعنی کہ شعور کے بارے میں ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس کے نیچے گھات لگائے بیٹھے نظروں سے اوجھل ایک بڑا حصّہ جس کو ہم لاشعور کہتے ہیں موجود ہے۔ یہ دماغ میں جلنے والی توانائی کا بڑا حصّہ ان سادہ باتوں کو سمجھنے میں کھا جاتا ہے جو اس کے اس پاس موجود ہوتی ہیں جیسا کہ اس بات کو سمجھنا کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں ، آپ کس سے بات کر رہے ہیں اور آپ کے ارد گرد کیا چیز رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب چیزیں ہماری اجازت یا ہماری آگاہی کے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔
یہ ہی وہ بات ہی جس کی وجہ سے روبوٹ کمرے میں چل پھر نہیں سکتے ، ہاتھ کی لکھائی نہیں پڑھ سکتے، ٹرک اور کار نہیں چلا سکتے ، کوڑا نہیں اٹھا سکتے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں کر سکتے۔ یو ایس فوج نے سینکڑوں لاکھوں ڈالر اس بات کی کوشش میں خرچ کر دیئے کہ کسی طرح سے میکانکی فوجی اور ذہین ٹرک بنا لیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔
سائنس دان اس بات کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ شطرنج کھیلنے میں یا بڑے اعداد کو ضرب دینے میں صرف تھوڑی سی انسانی ذہانت استعمال ہوتی ہے۔١٩٩٧ء میں جب آئی بی ایم کے کمپیوٹر ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمگیر چیمپئن گیری کیسپاروف کو ٦ بساطوں میں ایک مقابلے میں ہرایا تو یہ کمپیوٹر کی طاقت کی فتح تھی ، ہرچند اس کھیل کے نتیجے نے اخباروں کی شہ سرخیوں میں کافی جگہ بنائی لیکن اس تجربے نے ہمیں ذہانت یا شعور کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی ۔ انڈیانا یونیورسٹی کے "ڈوگلس ہوف اسٹیٹر"(Douglas Hofstadter) جو ایک کمپیوٹر کے سائنس دان ہیں کہتے ہیں "یا اللہ ، میں تو ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ شطرنج کھیلنے کے لئے ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب مجھے پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ کیسپاروف کوئی گہری سوچ کا حامل انسان نہیں تھا جس طرح سے شطرنج کو گہری سوچ کے عمل کے بغیر کھیلا جا سکتا ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے بازوں کو ہلائے بغیر اڑے۔"
(کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے روزگار کی دنیا پر زبردست اثر پڑے گا۔ مستقبلی اکثر اوقات یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ آنے والے عشروں میں صرف ان لوگوں کے پاس ہی روزگار حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں گے جو انتہائی بلند درجے کے کمپیوٹر کی صلاحیتوں کے حامل سائنس دان اور کمپیوٹر کے میدان کے ماہر فنیات ہوں گے۔ لیکن صحت گار ،تعمیراتی مزدور، آگ بجھانے والے ، پولیس، اور اسی طرح کے دوسری قسم کے کام کرنے والے لوگوں کے روزگار کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ جو کام کرتے ہیں اس میں نمونوں کو پہچاننا ہوتا ہے۔ ہر جرم ، کوڑے کا ہر حصّہ ، اوزار اور آگ کے نمونے مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ان کا انتظام روبوٹ کے ذریعہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرح کالج سے نکلے ہوئے طالبعلم ، جیسے کہ نچلے درجے کے منیب یا منشی (اکاؤنٹنٹ)، دلال، اور خزانچی(کیشیئر) ہو سکتا ہے کہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں کیونکہ ان کا کام نیم تکراری ہوتا ہے جس میں اعداد پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو کمپیوٹر بہت اچھے سے کر لیتے ہیں۔)
نمونوں کو پہچانے کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ جو روبوٹوں کو مزید بہتر بنانے کی راہ میں حائل ہے اور وہ زیادہ بنیادی مسئلہ ہے وہ فہم عامہ کی کمی کا ہے۔ مثال کے طور پر انسانوں کو یہ بات معلوم ہے :
· پانی تر ہوتا ہے۔
· مائیں اپنی بیٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں۔
· جانوروں کو درد ہوتا ہے۔
· مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آ سکتا۔
· تسموں کو کھینچا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔
· تیلی کو نکالا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔
· وقت پیچھے نہیں جاتا۔
لیکن علم الا حصا ء یا ریاضی کی کوئی ایسی حد نہیں ہے جو ان سچائیوں کو بیان کر سکے۔ ہم یہ بات اس لئے جانتے ہیں کہ ہم نے جانوروں ، پانی، دھاگے کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان کی سچائی کو خود سے تلاش کر سکتے ہیں۔ بچے عقل سلیم کو حقیقت کا سامنا کر کے سیکھتے ہیں۔ قوانین حیاتیات اور طبیعیات کی بصیرت سخت محنت کے بعد حقیقی دنیا سے واسطہ ہموار کرنے کے بعد حاصل کی جاتی ہے۔ مگر روبوٹوں کو اس قسم کے تجربات میسر نہیں ہوتے۔ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ان کے پروگرام میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔
(مستقل کے وہ روزگار جس میں عقل عامہ کا عمل دخل ہوگا وہ بھی انسانوں کے لئے میسر ہوں گی جیسے کہ ، فن تخلیق کاری، ایجادیت ، فن کاری ، مزاح نگاری، تفریح باز ، تجزیہ نگاری اور رہنما۔ صحیح معنوں میں یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو ہمیں دوسری چیزوں سے مختلف کر کے انسان بناتی ہیں اور ان چیزوں کی نقل کرنے میں کمپیوٹر کو مشکل پیش آتی ہے۔)
ماضی میں ریاضی دانوں نے ایک گرج دار پروگرام بنانے کی کوشش کی جس میں عقل سلیم کے تمام قوانین ڈال دیئے تاکہ ایک دفعہ میں ہی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرکے قصّے کو تمام کیا جائے۔ اس بارے میں سب سے حوصلہ مند جرات ایک پروگرام سی وائے سی (جو انسائیکلوپیڈیا[دائرۃ المعارف ] کا مختصر ہے ) ہےجو سائیکورپ کے بانی" ڈوگلس لینٹ"(Douglas Lenat) کی کاوش ہے۔ مین ہٹن کے گرج دار پروجیکٹ کی طرح جس میں ٢ ارب ڈالر کی لاگت سے جوہری بم بنایا گیا تھا ، سی وائے سی بھی مصنوعی ذہانت کا "مین ہٹن منصوبے " جیسا ہی تھا ، یہ آخری کوشش کی طرح سے تھا تا کہ حقیقی معنوں میں مصنوعی ذہانت کو حاصل کیا جا سکے۔
یہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ لینٹ کا نعرہ تھا "ذہانت دس لاکھ اصولوں کا نام ہے "(لینٹ نے ایک بالکل نیا طریقہ نکالا جس کے تحت عقل سلیم کے نئے قانون تلاش کئے گئے؛ اس کے پاس اسٹاف موجود تھا جو اہانت آمیز تخصیص شدہ صفحات اور پژمردہ صفحات کو پڑھتے تھے۔ پھر یہ سی وائے سی سے پوچھتے تھے کہ وہ ان میں سے اغلاط کی نشاندہی کرے۔ اگر اس طرح سے لینٹ کی کامیابی مل گئی تو سی وائے سی زیادہ تر دوسرے ٹیبلوائیڈ ریڈرز سے زیادہ سمجھدار ہوگا!)
سی وائے سی کا ایک مقصد کسی طرح سے اس چیز کا حصول ہے جس میں ایک روبوٹ اتنی سمجھ بوجھ حاصل کر لے کہ وہ خود سے کسی بھی لائبریری میں موجود کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر نئی اطلاعات حاصل کر کے ان کو سمجھ سکے۔ اس جگہ پر پہنچ کر سی وائے سی ایک اس ننھے سے پرندے کی طرح ہو جائے گا جو اپنا گھونسلا چھوڑ کر اڑنے کی تیاری کر رہا ہو یعنی خود سے چلنے کے لئے تیار۔
مگر اس شراکت داری کے ١٩٨٤ء میں بننے سے لے کر اب تک ، اس کی ساکھ کو ایک عام مسئلہ کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے : ان چیزوں کی پیش گوئی کرنا جس سے شہ سرخیاں تو بن سکتی ہیں لیکن وہ حقیقت سے نہایت دور ہوتی ہیں۔ لینٹ نے اس بات کی طرف پیش گوئی کی ہے کہ ١٠ سال میں ١٩٩٤ء تک سی وائے سی میں ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد تک حقیقت سے ہم آہنگ چیزیں موجود ہوں گی۔ آج بھی سی وائے سی کو بند نہیں کیا گیا۔ سی وائے سی میں موجود سائنس دانوں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ کمپیوٹر کو ایک چار سالہ بچے کے جتنا فہم عامہ سکھانے کے لئے کروڑوں پروگرامنگ سطریں لکھنی پڑیں گی۔ ابھی تک سی وائے سی پروگرام میں صرف ٤٧ ہزار تصوّرات اور ٣٠٦ ہزار حقائق موجود ہیں۔ سائیکورپ کے باقاعدہ رجائیت پسندانہ پریس ریلیز نکلنے کے باوجود لینٹ کے ایک ساتھی "آر وی گو ہا"(R(R.V Guha) جنہوں نے ٹیم کو ١٩٩٤ء میں چھوڑ دیا تھا کہتے ہیں "سی وائے سی عام طور سے ایک ناکام منصوبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ہم اپنے آپ کو ایک ایسی چیز کے سائے کو بنانے کے لئے ہلکان کر رہے ہیں جس کو بنانے کا ہم نے وعدہ کیا تھا۔ "
دوسرے الفاظ میں عقل سلیم کے تمام قوانین کو ایک کمپیوٹر میں پروگرام کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ عقل سلیم کے قوانین بے انتہاء ہیں۔ انسان اس کو بغیر کسی مشکل کے سیکھ لیتے ہیں کیونکہ پوری زندگی ان کا واسطہ روز مرہ کی چیزوں سے پڑتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بغیر کسی مشکل کے خاموشی کے ساتھ طبیعیات اور حیاتیات کے قوانین کو جان لیتے ہیں مگر روبوٹ ایسا نہیں کر سکتے۔
مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ،" یہ کام ان اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے جس میں ہم امید کر رہے تھے کہ کمپیوٹر اور روبوٹ اپنے ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے لگیں گے اور تیز رفتاری کے ساتھ ٹھیک طرح سے جواب دیں گے۔۔۔۔مثال کے طور پر ، کمرے میں رکھی ہوئی کسی چیز کے مقابلے میں اپنی جگہ کو جاننا ، کسی آواز پر دھیان دیتے ہوئے تقریر کو سمجھنا ، اور مختلف حجم، بناوٹ اور نازک چیزوں کو پکڑنا۔ کوئی انتہائی سادہ بات جیسے کہ کھلے ہوئے دروازے اور کھڑکی میں فرق بتانا کسی روبوٹ کے لئے انتہائی دشوار ہوگا۔"
ذہانت کے منظم طریقے کے حمایتیوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سمت میں پیش رفت دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں اگرچہ کبھی کبھار منجمد لگتی ہے بہرحال کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند سالوں میں تازہ ترین اختراعی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (دار پا ) نے ایک ٢٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس منصوبے کے لئے رکھا ہے جس میں ڈرائیور کے بغیر گاڑی خود کار طریقے سے سنگلاخ زمین پر صحرائے موجاؤ میں چلائی جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ریس میں حصّہ لینے والا کوئی ایک بھی امیدوار اس چیلنج کو پار نہیں کر سکا۔ سب سے بہتر کار بھی صرف ٧۔٤ میل کے فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹوٹ گئی تھی۔ مگر ٢٠٠٥ء میں سٹینفرڈ ریسنگ ٹیم کی بغیر ڈرائیور کی کار نے کامیابی کے ساتھ ١٣٢ میل پر مشتمل صبر آزما راستہ طے کر لیا۔(اگرچہ کار نے یہ راستہ ٧ گھنٹے میں جا کر طے کیا)۔ چار دوسری اور کاروں نے بھی ریس کو مکمل کیا۔ (کچھ ناقدین نے کھیل کے قوانین میں لمبے سنسان راستے میں جی پی ایس کو استعمال کرنے کی اجازت کی جانب بھی اشارہ کیا ، حقیقت میں کاریں پہلے سے طے کیے ہوئے نقشے قدم اور زیادہ رکاوٹوں کے بغیر والے راستے پر بھی چل سکتی تھیں لہٰذا اس میں کار کو کبھی بھی اپنے راستے میں پیچیدہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حقیقت کی دنیا میں کاروں کو اپنے گرد دوسری کاروں، راہ گیروں ، عمارتوں ، ٹریفک جام اور اس طرح کی دوسری کئی غیر متوقع راستے میں آنے والی چیزوں سے نمٹنا ہوگا۔)
بل گیٹس کافی محتاط پسند رہتے ہوئے پرامید بھی ہیں کہ اگلی دھماکے دار چیز روبوٹک مشینیں ہی ہوں گی۔ وہ پرسنل کمپیوٹر میں روبوٹک میدان کے استعمال کو کافی پسند کرتے ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر کے استعمال کو انہوں نے ٣٠ سال پہلے شروع کرنے میں مدد کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی کی طرح اس کو بھی لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں۔" کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتا کہ ایسا کب ہوگا - یا پھر یہ صنعت حد فاصل کو پار بھی کر سکے گی کہ نہیں۔" وہ مزید لکھتے ہیں کہ "اگر ایسا ہوا تو شاید یہ دنیا کو بدل دے گی۔"
(ایک دفعہ انسانی ذہانت کے حامل روبوٹ تجارتی پیمانے پر ملنے لگیں تو ان کی زبردست مانگ پیدا ہو جائے گی۔ اگرچہ کھرے روبوٹ آج موجود نہیں ہیں ، مگر پہلے سے پری پروگرامڈ روبوٹ موجود ہیں جو کافی ثمر آور ثابت ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹکس کے تخمینا جات کے مطابق ٢٠٠٤ء میں ٢٠ لاکھ کے قریب پرسنل روبوٹ موجود ہیں اور مزید ٧٠ لاکھ ٢٠٠٨ء تک استعمال میں آئیں گے۔ جیپنیز روبوٹ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کہ ٢٠٢٥ء تک ذاتی روبوٹ کی صنعت جس کی قدر آج ٥ ارب ڈالر کی ہے وہ ٥٠ ارب ڈالر سالانہ کی ہو جائے گی۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 7۔ روبوٹس- حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- اوندھا طریقہ
منظم طریقے کی مصنوعی ذہانت کی محدودیت کی وجہ سے اوندھے طریقے کی کوششیں شروع کر دی گئیں یعنی ارتقائی نقل اس طرح سے کی جائے جیسا کہ بچہ سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کیڑے مکوڑے اپنے ماحول کا تبزیہ کرنے کے بعد نہیں چلتے پھرتے لہٰذا اس طرح سے کھرب ہا کھرب پکسل پر مشتمل تصاویر کی عمل کاری سپر کمپیوٹر کے ذریعہ کرنے کی بچت ہوگی۔ کیڑے کا دماغ عصبانی جال پر مشتمل ہوتا ہے جو سیکھنے کی ایسی مشین ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ نا موافق ماحول میں گھس کر اس میں چلنا پھرنا سیکھ لیتی ہیں۔ ایم آئی ٹی میں چلنے والے روبوٹ منظم طریقے کے ذریعہ بنانے انتہائی مشکل تھے لیکن سادے کیڑوں جیسی میکانکی مخلوق جو سیدھا میدان میں اترے اور ابتداء سے سیکھنے کا عمل شروع کرے ؛ کامیابی کے ساتھ ایم آئی ٹی کے فرش پر چند منٹوں میں تیزی سے دوڑ سکتی ہیں۔
ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے ڈائریکٹر روڈنی بروکس اپنے جسیم اور بھدے منظم طریقے سے بنے چلنے والے روبوٹوں کے لئے مشہور ہیں وہ اس وقت اپنی اس منظم طریقے سے منحرف ہو گئے جب انہوں نے چھوٹے کیڑے نما روبوٹوں کے خیال کو جانا جو چلنے کے طریقوں کو لڑکھڑا کر اور چیزوں سے ٹکرا کر سیکھ رہے تھے۔ چلتے وقت اپنے قدموں کے درست نشانوں کو بڑے بڑے کمپیوٹر پروگراموں کا استعمال کرتے معلوم کرنے کے بجائے ، اس کے کیڑے نما روبوٹوں نے سعی و خطا کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروں کی حرکت کو کمپیوٹر کی نہایت ہی قلیل توانائی کو خرچ کرتے ہوئے معلوم کرنا سیکھ لیا ہے۔ آج بروکس کی نسل کے کئی کیڑے نما روبوٹ مریخ کی سنسان سطح پر اپنے دماغ کے بھروسے پر چہل قدمی کرتے ہوئے ناسا کے لئے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ بروکس کو یقین ہے کہ اس کے کیڑے نما روبوٹ نظام شمسی کو کھوجنے کے لئے بہت زیادہ مناسب ہیں۔
بروکس کے ایک منصوبے کا نام " کوگ" ہے جس کا مقصد ایک ایسے میکانکی روبوٹ کو بنانا ہے جس میں چھ مہینے کے بچے کی ذہانت موجود ہو۔ باہر سے دیکھنے پر کوگ تاروں کا گچھا ، سرکٹ ، گراریوں کا بے ہنگم مجموعہ نظر آتا ہے ہرچند اس کا سر ، آنکھیں اور بازو بھی ہیں۔ کسی بھی قسم کا کوئی بھی ذہانت کا پروگرام اس میں نہیں ڈالا گیا ہے ،اس کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ یہ اپنی آنکھ انسانی تربیت کار پر مرکوز رکھے جو اس کو سادہ چیزیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔(محققین میں سے ایک حاملہ ہو گئیں تھیں انہوں نے یہ شرط لگائی کہ ان کا بچہ دو سالہ ہونے تک زیادہ سیکھے گا یا پھر کوگ۔ بچے نے سیکھنے میں کوگ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔)
کیڑوں کی نقل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے ، عصبی جالوں کے ذریعہ بنانے والے روبوٹ کے پروگرام فقاری جانداروں کی نقل کرتے ہوئے بری طرح ناکامی سے دو چار ہو گئے۔ سب سے جدید روبوٹ عصبی جالوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک کمرے میں چہل قدمی اور پانی میں تیر بھی سکتا ہے لیکن نہ تو وہ چھلانگ لگا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کتے کی طرح جنگل میں شکار کر سکتا ہے ، اور نہ ہی کسی بلی کے گرد خراماں خراماں پھر سکتا ہے۔ بڑے عصبی جالوں والے روبوٹوں میں شاید ١٠ عصبیوں سے لے کر سینکڑوں عصبی ہو سکتے ہیں ، لیکن انسانی دماغ میں ایک کھرب سے بھی زیادہ عصبانیے ہوتے ہیں۔ سی ایلیگنس ایک بہت ہی سادہ سا کیڑا ہے جس کے اعصابی نظام کی مکمل نقشہ سازی ماہرین حیاتیات کر چکے ہیں اس کے اعصابی نظام میں صرف ٣٠٠ عصبانیے ہیں جس کی وجہ سے شاید یہ قدرتی طور پر پایا جانے والے سب سے سادہ اعصابی نظام رکھنے والا جاندار بن گیا ہے۔ اس کے باوجود ان عصبانیوں کے درمیان ٧ ہزار اتصالی رابطے موجود ہیں۔ سی ایلیگنس جیسے سادے دماغی عصبانی نظام کو بھی ابھی تک کسی کمپیوٹر پر نہیں بنا یا جا سکا ہے۔(١٩٨٨ء میں ایک کمپیوٹر کے ماہر نے اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٤ء تک ہمارے پاس ایسے روبوٹ موجود ہوں گے جن میں ١٠ کروڑ مصنوعی عصبانیے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ١٠٠ عصبانیوں والے روبوٹوں کو بہت ہی خاص سمجھا جاتا ہے۔)
قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مشینیں وہ کام بغیر کسی مشکل کے کر لیتی ہیں جو کام انسان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے مثلاً بڑے اعداد کا حاصل ضرب حاصل کرنا، شطرنج کو کھیلنا وغیرہ لیکن مشینیں اس وقت جواب دے جاتی ہیں جب ان سے کوئی ایسا کام کرنے کو کہا جائے جو انسانوں کے لئے انتہائی سادہ ہو جیسے کمرے میں چلنا ، چہروں کو پہچاننا یا دوستوں سے گپیں لگانا وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے سب سے جدید کمپیوٹر بھی بس اعداد کو جوڑنے کی مشین ہی ہیں۔ ہمارا دماغ بہرحال انتہائی نازکی کے ساتھ زندہ رہنے اور روز مرہ کی مشکلات سے نمٹنے کے لئے بنا ہے۔ اس کام کے لئے انتہائی پیچیدہ خیالات جیسے کہ نمونوں کی پہچان یا عقل سلیم کی بناوٹ کی ضرورت ہے ۔ جنگل میں زندہ رہنے کے لئے حساب کتاب یا شطرنج کھیلنے کے بجائے شکاریوں سے اپنا بچاؤ کرنے ، جیون ساتھی تلاش کرنے اور ماحول کے ساتھ مطابقت کی ضرورت پڑتی تھی۔
ایم آئی ٹی کے "مارون منسکی"(Marvin Minsky) جو مصنوعی ذہانت کے بانیوں میں سے ایک ہیں مصنوعی ذہانت کی مشکل کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں " مصنوعی ذہانت کی تاریخ کافی مضحکہ خیز ہے کیونکہ پہلی اصل کامیابی کافی خوبصورت چیزیں تھیں ، جیسے کہ ایک مشین جو منطقی مسئلوں یا علم الاحصاء کے کسی مسئلہ کا اچھا سا حل نکال دیتی تھی لیکن اس کے بعد ہم نے اس بات کی کوشش کی کہ مشینیں ان کہانیوں کے بارے میں بتا سکیں جو پہلی جماعت کے طالبعلموں کی پڑھنے والی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن آج تک تو کوئی ایسی مشین موجود نہیں ہے جو اس طرح کا کام کر سکے۔"
کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ منظم اور اوندھے طریقے سے مل کر ایک شاندار طریقے بن جائے جو انسان نما روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کے لئے ایک کنجی کی حیثیت اختیار کر لے۔ بچہ جب سیکھتا ہے تو وہ اوندھے طریقے کا ہی استعمال کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول میں گھل مل جاتا ہے ، آخر میں اس کو اپنے والدین ، معلموں اور کتابوں سے ہدایات منظم طریقے سے ہی ملتی ہیں۔ ایک بالغ کے طور پر ہم ان دونوں طریقوں کو ملا کر ہی سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک باورچی کھانے کی ترکیب کتاب سے دیکھ کر تو کھانا بناتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کو چکھتا بھی رہتا ہے۔
"ہنس موراویک"(Hans Moravec) کہتے ہیں " مکمل ذہین مشینوں کا نتیجہ دونوں کوششوں کو ملانے کے بعد بنائے جانے والے سنہرے میکانکی آلات بن جانے کے بعد نکل سکتا ہے۔" شاید یہ کام آنے والے اگلے ٤٠ برسوں میں ہو سکے گا۔
جذباتی روبوٹ ؟
فن و ادب میں جو ایک چیز تسلسل کے ساتھ ملتی ہے وہ ان میکانکی ہستیوں کی انسان بننے کی آرزو ہوتی ہے ، تا کہ وہ انسانوں جیسے جذبات کے حامل ہو سکیں۔ وہ تاروں اور ٹھنڈے اسٹیل کے ساتھ ساتھ ہنسنے، رونے اور ان تمام خوش گوار احساسات کو محسوس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ایک انسان میں موجود ہوتی ہے۔
مثال کے طورپنوکیو ایک ایسا پتلا ہوتا ہے جو ایک عام سا لڑکا بننا چاہتا ہے۔ دی وزرڈ آف اوز میں ٹن مین یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایک دل ہو۔ اور اسٹار ٹریک کا ڈیٹا ایک ایسا روبوٹ ہوتا ہے جو طاقت و ذہانت کے ہر معاملے میں انسانوں کی پچھاڑ دینے کے باوجود بھی انسان بننے کی آرزو رکھتا ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں ہمارے جذبات ہی انسان ہونے کی اعلیٰ خصوصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ شاید کبھی بھی کوئی مشین ڈوبتے سورج کے نظارے کا لطف نہیں اٹھا سکے گی یا کسی مذاق کی بات پر قہقہہ لگا سکے گی۔ کچھ لوگ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ کسی مشین میں جذبات کا ہونا ایک انتہائی ناممکن بات ہے کیونکہ جذبات ہی انسانی نشو نما کی معراج ہیں۔ لیکن وہ سائنس دان جو مصنوعی ذہانت پر کام کر رہے ہیں اور اس بات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے جذبات کے پیدا کرنے کے طریقوں کو کھوج کر ایک دوسری طرح کی تصویر پیش کر سکیں۔ ان کے مطابق جذبات کا انسانیت کی روح سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے ہاں البتہ اس کا تعلق ارتقائی عمل سے ضرور ہے۔ سادے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جذبات انسانوں کے لئے اچھی چیز ہیں۔ وہ ہمیں جنگل میں زندہ رہنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ آج کے دور میں زندگی کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی مدد کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ارتقائی عمل کے لئے پسند کرنے کا عمل بہت ہی اہم ہے کیونکہ زیادہ تر چیزیں ہمارے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جن لاکھوں چیزوں سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے اس میں سے صرف چند ہی ہمارے فائدے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذاکسی چیز کو پسند کرنے کا مطلب ہے کہ ہم ان لاکھوں نقصان پہچانے والی چیزوں میں سے کچھ ان چیزوں کو چن لیں جو ہمارے لئے فائدہ مند ہیں اور اس کے لئے اپنی پسند اور ناپسند کی چیزوں کے درمیان موجود فرق کو واضح کر لیں۔
اسی طرح سے حسد کرنے کا عمل ایک انتہائی اہم جذبہ ہے۔ کیونکہ نسل کو آگے بڑھانا ہمارے لئے اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل تک اپنے جین کو ساتھ خیریت کے منتقل کر دیں۔(یہی وجہ ہے کہ محبت اور جنسی عمل کے نتیجے میں جذبات اتنے ہیجان انگیز ہو جاتے ہیں۔)
ندامت و پشیمانی اس لئے انتہائی ضروری ہیں کہ وہ ہمیں معاشرتی سلیقہ سکھاتے ہیں تا کہ ہم ایک امداد باہمی کے تحت موجود سماج میں صحیح طریقے سے رہ سکیں۔ غلطی کرنے کے بعد اگر ہم کبھی شرمندگی کا اظہار نہ کریں تو ہمیں اپنے قبیلے سے نکال باہر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں ہمارا وجود اور اپنی نئی نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
تنہائی کا احساس بھی ایک اہم جذبہ ہے۔ شروع میں تو تنہائی ایک فضول اور غیر ضروری جذبہ لگتا ہے کیونکہ ہم اکیلے بھی رہ سکتے ہیں۔ مگر اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنا ہمارے اپنے وجود کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہم سماج کے مشترکہ وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ جب روبوٹ زیادہ جدت طراز ہو جائیں گے تو ان میں بھی شاید جذبات موجود ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ روبوٹ کو اپنے مالک کے ساتھ جوڑ کر پروگرام کر دیا جائے تا کہ اس کو کچرے کے ڈبے میں پھینکے جانے کے خطرے سے بچایا جا سکے۔ اس طرح کے جذبات روبوٹوں کو سماج کے ساتھ بہتر طور پر گھلنے ملنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے مالک کا دشمن بننے کے بجائے ایک اچھا رفیق بن سکتا ہے۔
کمپیوٹر کے ماہر ہنس موراویک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روبوٹوں کو خوف جیسے جذبوں کے ساتھ پروگرام کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر اگر روبوٹ کی بیٹریاں ختم ہو رہی ہوں تو روبوٹ پریشانی یا بلکہ خوف کا اظہار اس طرح سے کر سکے کہ انسان اس کی بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ وہ کسی پڑوسی کے پاس جا کر بھی چارج ہونے کی درخواست کچھ اس طرح سے کر سکتا ہے " مہربانی فرمائیں ! مجھے چارج ہونے کی سخت ضرورت ہے اور یہ میرے لئے انتہائی اہم ہے ، اس پر آنے والی لاگت انتہائی معمولی سی ہوگی اور ہم آپ کو بعد میں اس کی ادائیگی بھی کر دیں گے!"
جذبات فیصلہ کرنے میں بھی انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ کچھ مخصوص دماغی بیماریوں کے مریض جذبات کو محسوس کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے استدلال کی قابلیت تو موجود رہتی ہے لیکن وہ کسی قسم کے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے۔یونیورسٹی آف آئیووا کالج آف میڈیسن کے عصبیات دان ڈاکٹر "انٹونیو ڈیمیسیو"(Antonia Damasio) جنہوں نے اس قسم کے دماغی عارضے کے لاحق مریضوں پر تحقیق کی ہوئی ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کر پائے ہیں کہ " وہ مریض جانتے تو ہیں لیکن اس کا احساس نہیں کرتے "۔
ڈاکٹر ڈیمیسیو سمجھتے ہیں کہ ایسے فرد اکثر چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں بھی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کرنے والے مخصوص جذبوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ ایک نا ختم ہونے والے بحث میں الجھے رہتے ہیں جس سے عملاً وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر ڈیمیسیو کے ایک مریض نے صرف آدھا گھنٹہ اگلی ملاقات کو طے کرنے کے فیصلے کے لئے لے لیا تھا۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جذبات دماغ کے اس حصّے میں پیدا ہوتے ہیں جس کا نام " محیطی نظام "(Limbic System)ہے جو ہمارے دماغ کے مرکز میں موجود ہوتا ہے۔ جب لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس میں نیو کورٹیکس (جو استدلالی سوچ کے دائرہ کار کا نگران ہوتا ہے ) اور محیطی نظام میں رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔ مریضوں کی استدلالی قوّت تو اپنی جگہ موجود رہتی ہے لیکن ان کے پاس کسی فیصلے تک رہنمائی کرنے والے جذبات موجود نہیں ہوتے۔ کبھی ہمارا وجدان اور کبھی جبلت ہمیں فیصلہ لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان لوگوں کو جن کے دماغ میں یہ مسئلہ ہوتا ہے ان کے استدلالی دماغی حصّے اور محیطی نظام کے درمیان رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے ان میں یہ جبلی یا الہامی فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر جب ہم خریداری کے لئے جاتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر ہزار ہا فیصلے تقریباً ہر اس چیز کے لئے لیتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ "یہ بہت مہنگا ہے ، بہت سستا ہے ، کافی رنگین ہے ،انتہائی بیوقوفانہ ہے یا بس ٹھیک ہی ہے۔" اس قسم کی دماغی بیماریوں کے شکار لوگوں کے لئے خریداری ایک انتہائی ڈراؤنے خواب کی طرح ہوتا ہے کیونکہ انھیں ہر چیز ایک ہی قدر کی دکھائی دیتی ہے۔
بڑھتی ہوئی ذہانت اور پسند نا پسند کے اختیار کے ساتھ روبوٹ بھی اسی طرح سے فیصلے کرنے میں مفلوج ہو جائیں گے۔ یہ گدھے کی اس اخلاقی حکایت کے جیسا ہی ہوگا جس میں ایک گدھا دو گھاس کے گھٹوں کے درمیان میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہوتا ہے کہ کونسے گھٹے میں سے گھاس کھائے جس کے نتیجے میں آخر کار وہ بھوک سے مارا جاتا ہے۔) اس بات سے نمٹنے کے لئے مستقبل کے روبوٹوں کے دماغوں میں جذبات کو بھی انڈیلنا ہوگا۔ روبوٹوں میں جذبات کے فقدان کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے ڈاکٹر "روزا لنڈ پیکارڈ"(Rosalind Picard) کہتے ہیں کہ "وہ اس بات کا احساس نہیں کر سکتے کہ کیا چیز اہم ہے۔ یہ ان کا سب سے بڑا نقص ہے۔ بس کمپیوٹر ایسا نہیں کر سکتے۔"
جیسا کہ روسی ناول نگار" فیوڈر دوستو یفسکی"(Fyodor Dostoevsky) لکھتے ہیں کہ " اگر دنیا میں ہر چیز استدلالی ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہوگا۔"
با الفاظ دیگر مستقبل کے روبوٹوں کو جذبات کی شدید ضرورت ہوگی تا کہ ان کے مقاصد کا تعین اور ان کی زندگی کو معنویت اور شکل دی جا سکے ورنہ دوسری صورت میں وہ اپنے آپ کو لامحدود ممکنات میں سے فیصلہ لینے میں مفلوج پائیں گے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 7۔ روبوٹس- حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- کیا وہ صاحب شعور ہیں ؟
اس بات پر کوئی عالمگیر اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ آیا مشین بھی صاحب شعور ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ بلکہ اتفاق رائے تو اس بات پر بھی نہیں ہے کہ شعور کا کیا مطلب ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی کوئی شعور کی مناسب تعریف نہیں کی ہے۔
مارون منسکی شعور کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں " وہ ذہنوں کے سماج" کی طرح سے ہے یعنی کہ ہمارے دماغ میں موجود خیالات مقامی طور سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ مختلف مرکزوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے سے کسی خاص وقت میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ شعور کو ہم ایک طرح سے خیالات اور خاکوں کا سلسلہ کہہ سکتے ہیں جو مختلف چھوٹے دماغوں سے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جس میں سے ہر ایک ہماری توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہا ہوتا ہے۔
اگر یہ بات درست نکلی تو شاید شعور کو رائی کے پہاڑ کی طرح پیش کیا گیا ہے ، شاید کچھ زیادہ ہی مقالے فلاسفر اور نفسیات دانوں نے اس مضمون کی توضیح کے لئے لکھ ڈالے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شعور کو بیان کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہو۔ لاجولا میں واقع سالک انسٹیٹیوٹ کے "سڈنی برینر"(Sydney Brenner) کہتے ہیں "میں اس بات کی پیش گوئی کرتا ہوں کہ ٢٠٢٠ء سال تک مفید بصری شعور بطور سائنسی مسئلہ کے افق سے کہیں غائب ہو گیا ہوگا اور ہمارے جانشین اس تمام سائنسی خرافات کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے جن کو ہم آج زیر بحث کیے ہوئے ہیں بشرطیکہ ان میں اتنا حوصلہ ہو کہ وہ ان متروک جریدوں کو برقی دستاویز خانہ میں جا کر پڑھیں۔"
مارون منسکی کے مطابق مصنوعی ذہانت طبیعیاتی رقابت کا شکار ہو رہی ہے۔ طبیعیات میں ایک ایسی سادہ مساوات کو ڈھونڈھ کر لانا جوئے شیر کے مترادف ہے جو کائنات میں موجود طبیعیات کی تمام قوّتوں کو ایک نظرئیے میں متحد کرکے "ہر شئے کے نظرئیے " کو بنا دے۔ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والے اس خیال سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اور اس کوشش میں وہ ایک ایسا اصول تلاش کر رہے ہیں جس میں وہ شعور کو بیان کر سکیں۔ منسکی کے مطابق ایسا کوئی سادہ سا اصول اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔
(مجھ سمیت وہ لو گ جو اس شارح سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق اس لاحاصل بحث میں الجھے بغیر کہ سوچنے کے قابل مشین کو بنایا جا سکتا ہے یا نہیں ہمیں ان کو بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ شعور سے متعلق ، ممکن ہے کہ شعوری تسلسل ، کمرے میں موجود انتہائی پست درجہ حرارت کو نوٹ کرنے سے لے کر آج کی خود شناس مخلوق یعنی انسانوں میں موجود ہو سکتا ہے۔ جانوروں بھی با شعور ہو سکتے ہیں لیکن ان کے شعور کی سطح انسانی شعور جتنی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں شعور سے متعلق فلسفیانہ بحث میں الجھے رہنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم مختلف النوع شعوری سطح کی گروہ بندی کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آخر میں روبوٹ سلیکان شعور حاصل کر لیں۔ درحقیقت یہ ممکن ہے کہ ایک دن روبوٹ کے اندر سوچنے اور اطلاعات کو سمجھنے کی صلاحیت اس طرح سے پیدا کی جا سکے جس کا طریقہ کار ہم سے کافی مختلف ہو۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ، جدید روبوٹ قاعدے اور علم المعنیٰ میں فرق کو دھندلا دیں جس کے نتیجے میں ان کے اور انسانی رد عمل میں فرق کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو پھر وہ سوال کہ کیا وہ حقیقت میں کسی چیز کو سمجھ سکتے ہیں ایک فضول سا سوال ہوگا۔ ایک ایسا روبوٹ جو علم المعنیٰ میں مہارت رکھتا ہوگا وہ ہر لحاظ سے اس بات کو سمجھنے کا اہل ہوگا کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، ایک قاعدے کا مکمل ماہر بات کو سمجھ رہا ہے۔)
کیا روبوٹ ہمارے لئے خطرہ بھی ہو سکتے ہیں ؟
مور کا قانون کہتا ہے کہ کمپیوٹر کی طاقت ہر اٹھارہ مہینے گزرنے کے بعد دگنی ہو جائے گی ، اس لئے یہ بات قابل فہم ہے کہ چند عشروں کے بعد ایسے روبوٹ بنائے جا سکیں گے جن میں ذہانت موجود ہوگی۔ مثال کے طور پر کتے یا بلی۔ مگر ٢٠٢٠ء تک مور کا قانون منہدم ہو چکا ہوگا کیونکہ سلیکان کا دور ختم ہو چکا ہوگا۔ پچھلے پانچ عشروں کے لگ بھگ کمپیوٹر کی قوّت میں شاندار اضافے کی وجہ ننھے سلیکان کے ٹرانسسٹر کی تخلیق تھی ، جو کروڑوں کی تعداد میں ہماری انگلی پر سما سکتے ہیں۔ بالائے بنفشی شعاعوں کا استعمال ان کو سلیکان سے بنے ہوئے ویفر پر منقش کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ ٹرانسسٹر کو چھوٹی سے چھوٹی جگہ پر سمانے کا عمل ابدی طور پر تو جاری نہیں رہے گا۔ ان ٹرانسسٹر کے حجم کو سالموں کے جتنا تو ہونا ہی پڑے گا جس کے بعد ان کے حجم میں مزید کمی کا عمل بند ہو جائے گا۔ ٢٠٢٠ء کے بعد یا شاید اس وقت سلیکان ویلی زنگ آلود پٹی بن جائے گی جب سلیکان کا دور اختتام پذیر ہوگا۔
ایک عام پینٹیم چپ میں بیس ایٹموں پر مشتمل ایک تہ ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ٢٠٢٠ء تک پینٹیم کی اس چپس کی تہ صرف پانچ ایٹموں پر مشتمل ہو۔ اس وقت ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین آ دھمکتا ہے یعنی یہ پتا نہیں چلے گا کہ الیکٹران کس جگہ پر ہیں۔ لہٰذا برق اس تہ سے باہر آ جائے گی اور کمپیوٹر میں شارٹ سرکٹ ہو جائے گا۔ اس نقطے پر آ کر کمپیوٹر کا انقلاب اور مور کا قانون ، کوانٹم نظرئیے کی وجہ سے ایک بند گلی میں جا کھڑا ہو جائے گا۔(کچھ لوگ دعویدار ہیں کہ ڈیجیٹل عہد "ایٹموں پر بٹس کی جیت" ہے۔ لیکن آخر میں جب ہم مور کے قانون کی آخری سرحد تک پہنچے گے تو ایٹم اپنا انتقام پورا کر چکے ہوں گے۔)
ماہرین طبیعیات اب سلیکان کے عہد کے بعد کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جو کمپیوٹر کی دنیا پر اپنی حکمرانی کو ٢٠٢٠ء کے بعد سے استوار کر سکے لیکن ابھی تک کچھ ملے جلے نتیجے ہی حاصل ہو پائے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کو پرکھا جا رہا ہے تاکہ وہ آخر میں سلیکان کی ٹیکنالوجی جگہ لے لیں گی ، اس قسم کی ٹیکنالوجی میں شامل کوانٹم کمپیوٹر ز ، ڈی این اے کمپیوٹر ز ، بصری کمپیوٹر ز، جوہری کمپیوٹر ز وغیرہ وغیرہ ہیں۔ لیکن اس میں سے ہر ایک کے راستے میں ابھی کافی مشکلات کھڑی ہیں جن کا ان کو سامنا کرتے ہوئے سلیکان چپس کی جگہ لینی ہے۔ انفرادی سالموں اور ایٹموں کو قابو کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی اپنے طفلی عہد میں ہیں لہٰذا ارب ہا ٹرانسسٹر کو جوہروں کی جسامت جتنے بنانا ہماری موجودہ صلاحیت سے کہیں دور ہے۔
چلیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ طبیعیات دانوں نے سلیکان اور کوانٹم کمپیوٹر کے درمیان کے فاصلوں کو پاٹ دیا ہے اور مور کا قانون کسی دوسری شکل میں بھی سلیکان کے عہد کے بعد بھی نافذ العمل ہے تب مصنوعی ذہانت ایک سچائی بن سکتی ہے۔ اس وقت روبوٹ انسانی منطق اور جذبوں کے ماہر بن سکتے ہیں اور ہر دفعہ ہی ٹیورنگ ٹیسٹ کو پاس کر سکیں گے ۔ا سٹیون ا سپیل برگ نے اس ممکنہ صورتحال کو اپنی فلم "آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی "(مصنوعی ذہانت) میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس فلم میں پہلا روبوٹ لڑکا بنایا جاتا ہے جو جذبات کا اظہار بھی کر سکتا ہے لہٰذا اس کو انسانی سماج میں گود لیا جا سکتا ہے۔
اس بات سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا روبوٹ بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ؟ اس کا جواب مثبت ہو سکتا ہے۔ اگر روبوٹس میں بندروں جتنی عقل آ جائے تو وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اتنی عقل کے ساتھ وہ نہ صرف اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں بلکہ اپنے مقصد کو بھی طے کر سکتے ہیں۔ اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لئے بھی کئی عشرے درکار ہوں گے ، لہٰذا سائنس دانوں کے پاس کافی وقت ہے کہ وہ اس وقت تک روبوٹ کا مشاہدہ کر سکیں جب تک وہ ہمارے لئے خطرہ نہیں بنتے۔ مثال کے طور پر ایک خصوصی چپ ان کے پروسیسر میں لگائی جا سکتی ہے جو ان کو آپے سے باہر نہ نکلنے دے۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کو ایمرجنسی کے درمیان غیر فعال یا خود کو تباہ کرنے پر آمادہ کر سکے۔
آرتھر سی کلارک لکھتے ہیں " یہ ممکن ہے کہ ہم کمپیوٹروں کے پالتو بن جائیں جس کے نتیجے میں ہماری حیثیت گود میں بیٹھنے والے پالتو کتے کی سی ہو جائے گی لیکن میں اس بات کی امید کرتا ہوں کہ ہم اپنی اس صلاحیت کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے جو ایسی کسی صورتحال کو اپنی مرضی سے بدل سکتی ہوگی۔"
ایک اور خطرہ جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑ سکتا ہے وہ یہ کہ ہمارا ہیکل اساسی (بنیادی ڈھانچہ) ان کمپیوٹر و ں پر انحصار کرتا ہے۔ ہمارے پانی، بجلی، ذرائع نقل و حمل اور ابلاغی نیٹ ورک سب کچھ نہایت تیزی سے کمپیوٹروں کے رحم و کرم پر ہوتے چلے جائیں گے۔ ہمارے شہر اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ صرف ایک پیچیدہ کمپیوٹر نیٹ ورک ہی ان وسیع بنیادی ڈھانچوں کو ضابطے میں رکھ کر نگرانی کر سکتا ہے۔ مستقبل میں ان کمپیوٹر نیٹ ورکوں میں مصنوعی ذہانت کو ڈالنا انتہائی ضروری ہو جائے گا۔ اس پورے کمپیوٹر کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کی ہوئی کوئی بھی گڑبڑ یا ناکامی پورے شہر، ملک یہاں تک کہ پوری انسانی تہذیب کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
کیا کمپیوٹر کسی وقت ذہانت میں ہمیں پیچھے چھوڑ دیں گے ؟ یقینی طور پر طبیعیات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو اس بات کو ہونے سے روک سکے۔ اگر روبوٹوں میں چیزیں سیکھنے کی قابلیت رکھنے والے عصبانیوں کے جال موجود ہوں گے تو وہ ایک ایسے نقطہ کی طرف ترقی کر لیں گے جہاں وہ ہم سے زیادہ تیزی کے ساتھ چیزوں کو سیکھ سکیں اور ہم سے بہتر انداز میں کام کر سکیں ۔اور پھر اس بات کی امید کرنا ایک معقول بات ہوگی کہ وہ استدلال میں ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ موراویک کہتے ہیں "ما بعد حیاتیاتی دنیا " ایک ایسی دنیا ہوگی جہاں بنی نوع انسان کو ایک معاشرتی تبدیلی کی لہر کے نتیجے میں جھاڑو لگا کر صاف کر دیا جائے گا اور یہ لہر اس کی بنائی ہوئی مصنوعی چیز سے ہی اٹھے گی۔۔۔۔۔ اور جب ایسا ہوگا ، تو ہمارا ڈی این اے بیکار ہو کر ارتقاء کی دوڑ اکے اس نئے مقابلے میں ہار جائے گا۔"
کچھ موجدوں کے مطابق جیسا کہ "رے کرزویل"(Ray Kurzweil) تو یہاں تک پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ وقت عنقریب ہی آیا چاہتا ہے ، دیر سے آنے کے بجائے جلدی آئے گا ہو سکتا کہ آنے والے چند عشروں میں ایسا ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ہم اپنے ارتقائی جانشینوں کو بنا رہے ہیں۔ کچھ کمپیوٹر کے سائنس دان تو ایسے کسی نقطے کو دیکھ رہے ہیں جس کو وہ " وحدانیت یا اکائیت " (Singularity)کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب روبوٹ اطلاعات کی عمل کاری کو برق رفتاری کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔ نتیجتاً نئے روبوٹس تخلیق کئے جائیں گے یہاں تک کہ ان کی اطلاعات کو جذب کرنے کی اجتماعی صلاحیت اس قدر جدید ہو جائے گی جس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔
طویل عرصے میں کچھ لوگ اپنی معدومیت کا انتظار کرنے کے بجائے کاربن اور سلیکان کی ٹیکنالوجی کو ضم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ہم انسان بنیادی طور پر کاربن سے بنے ہیں جبکہ روبوٹ سلیکان سے بنے ہیں (کم از کم اس وقت کی حد تک تو ایسا ہی ہے )۔ شاید اس بات کا حل صرف یہ ہی ہے کہ ان کو ہم اپنے ساتھ ضم کر لیں۔(اگر ہم کبھی بھی ماورائے ارض ہستیوں سے ملے تو ہمیں اس بات سے حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ آدھے نامیاتی ہوں اور آدھے میکانکی۔ یہ اس لئے ہوگا تا کہ وہ خلاء کے سخت سفر کو برداشت کر سکیں اور نامہرباں ماحول میں بھی زندہ رہ سکیں۔)
مستقبل بعید میں ، روبوٹ یا انسان نما سائبورگ ممکن ہے کہ ہمیں حیات جاوداں کے تحفے سے روشناس کرا دے۔ مارون منسکی اس میں اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں " جب سورج اپنی حیات پوری کر لے گا تو پھر کیا ہوگا؟ یا ہم سیارے کو تباہ کر دیں ؟ ہم کیوں نہ اچھے طبیعیات دان، انجنیئر ز اور ریاضی دان نہ بنائیں ؟ ہمیں اپنے مستقبل کا خود سے معمار بننا پڑے گا۔ اگر ہم ایسے نہیں کریں گے تو ہمارا ورثہ گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔"
موراویک مستقبل بعید میں ایک ایسے وقت کا تصوّر کر تے ہیں جب ہماری عصبی ساخت تبدیل ہو کر براہ راست ایک مشین میں بدل جائے گی جس کے نتیجے میں ہمیں ایک طرح سے ابدیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ ایک انتہائی سرکش خیال ہے مگر یہ ممکنات کی سرحدوں کے پار دور کا خیال نہیں ہے۔ لہٰذا ان سائنس دانوں کے خیال میں جو مستقبل بعید میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ابدیت (ڈی این اے کی بہتر صورت میں یا سلیکان کی شکل میں ) ہی انسانیت کی آخری منزل ہے۔
ایسی مشینوں کو بنانے کا خیال ایک حقیقت بن سکتا ہے جو جانوروں جتنی یا شاید ہمارے جتنی یا ہم سے بھی زیادہ ذہین ہوں۔ اگر ہم مور کے قانون کو منہدم ہونے سے روک سکیں اور عقل سلیم کے مسائل پر قابو پا سکیں تو شاید اس صدی کے آخر تک ایسا ہونا ممکن ہو۔ ہرچند مصنوعی ذہانت کے بنیادی اصول اب بھی دریافت کیے جا رہے ہیں لیکن اس جانب پیش رفت کافی تیز رفتار اور امید افزا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان روبوٹ اور دوسری سوچنے والی مشینوں کو جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل کر رہا ہوں۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں ) حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یا تو ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا پھر ایسا نہیں ہیں۔
دونوں خیالات ہی ڈرا دینے والے ہیں۔
- آرتھر سی کلارک
ایک میلوں پر محیط جسیم خلائی جہاز پورے آسمان کو ڈھکتا ہوا لاس اینجیلس کی فضاء میں ابھرتا ہے۔ نتیجتاً پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اہم شہروں کے گرد طشتری نما حصار بنا لئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوش باش تماشائی دوسرے سیارے سے آنے والے مہمانوں کو لاس اینجیلس میں خوش آمدید کہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے فلکی مہمانوں کے قریب جا سکیں۔
خاموشی سے لاس اینجیلس پر معلق رہنے کے کئی دن بعد خلائی جہاز کے درمیانی حصّہ کھلتا ہے جس میں سے ایک لیزر شعاعوں کے بوچھاڑ کو داغا جاتا ہے جو چشم زدن میں اونچی عمارتوں کو بھسم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں تباہی کی وہ لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ اور چند ہی سیکنڈوں میں شہر کو جلے ہوئے پتھروں کے روڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔
فلم انڈیپنڈنس ڈے (یوم آزادی ) میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہمارے اندر کے خوف کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلم ای ٹی میں ہم اپنے خواب اور حسرتیں خلائی مخلوق میں ڈالتے ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگ خلائی مخلوق کے خیالوں سے سحر انگیز رہے ہیں جو دوسری دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ١٦١١ء سومنیم رسالے میں ، ماہر فلکیات جوہانس کیپلر نے اپنے وقت کی بہترین سائنسی علم کو استعمال کرتے ہوئے چاند تک کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کی۔ اس کے خیال میں اس سفر کے دوران ہمارا واسطہ عجیب خلائی مخلوق ، پودوں اور جانوروں سے پڑ سکتا ہے۔ لیکن اکثر سائنس اور مذہب خلاء میں زندگی کے موجود ہونے کے تصوّر پر متصادم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے نہایت ہی بھیانک نکلتے ہیں۔
چند برسوں پہلے ، ١٦٠٠ء میں ڈومنیکی راہب اور فلسفی "جرڈانو برونو"(Giordano Bruno) کو روم کی سڑکوں پر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی تذلیل کرنے کے لئے گرجا نے اس کو الٹا لٹکا دیا تھا اور جلانے سے پہلے اس کو برہنہ کر دیا تھا۔ برونو کس چیز پر یقین رکھتا تھا جس کی پاداش میں اس کو نشانہ عبرت بنا دیا تھا ؟ اس نے تو بس ایک سادہ سا سوال کر لیا تھا : کیا خلاء میں حیات کسی شکل میں موجود ہے؟ کوپرنیکس کی طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن کوپرنیکس کے برعکس وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہمارے جیسی انگنت مخلوق خلاء میں رہتی ہیں۔(بجائے اس بات کو سمجھا جاتا کہ ممکنہ طور پر ارب ہا صوفی، راہب ، گرجا اور یسوع مسیح خلاء میں موجود ہو سکتے ہیں ، گرجا والوں کے لئے یہ زیادہ آسان راستہ تھا کہ ایسی بات کرنے والے کسی بھی آدمی کو زندہ جلا کر جان چھڑا لی جائے۔)
کچھ چار صدیوں سے زائد عرصے سے برونو سائنسی مورخین کا سائے کی طرح سے پیچھا کر رہا ہے۔ آج برونو ہر ہفتے اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ہر دوسرے مہینے ایک نیا ماورائے شمس سیارہ کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہوا دریافت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خلاء میں ڈھائی سو سے زیادہ سیارے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہو چکے ہیں۔ برونو کی ماورائے شمس سیاروں کی پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی ایک سوال کا جاننا باقی ہے۔ ہرچند ملکی وے کہکشاں میں ماورائے شمس سیارے موجود ہیں مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جہاں زندگی موجود ہے ؟ اور اگر شعور کی حامل حیات خلاء میں موجود ہے تو سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
کسی خلائی مخلوق سے فرضی ٹاکرا معاشرے ، ہنگامے کے شوقین قاریوں اور فلم بینوں کو نسلوں سے متحیر کیے ہوئے ہے۔ سب سے مشہور واقع ٣٠ اکتوبر ١٩٣٨ء میں ہوا جب اورسن ویلز (Orson Welles)نے ہیلووین کی تفریح امریکی عوام سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایچ جی ویلز کی وار آف دی ورلڈ سے بنیادی خیال لیا اور مختصر خبروں کو سی بی ایس قومی ریڈیو پر نشر کرنا شروع کر دیا۔ اس کھیل کو رقص و موسیقی کے پروگراموں کے درمیان میں نشر کیا گیا ، وقفے وقفے سے مریخیوں کا زمین پر حملہ اور اس کے بعد تہذیب کی تباہی کی کہانی بیان کی جاتی رہی۔ اس خبر کو سن کر کہ مریخ کی مشینیں گروور مل ، نیو جرسی میں اتر چکی ہیں اور وہاں پر انہوں نے موت کی شعاعوں کو شہروں کو تباہ کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے داغنا شروع کر دیا ہے، لاکھوں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی۔( بعد میں اخباروں کے ذریعہ یہ بھی پتا چلا کہ شہر سے یکدم شہریوں کا انخلاء بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کچھ چشم دید گواہوں کے زہریلی گیس کو سونگھنے اور دور دراز میں روشنی کے جھماکے دیکھنے کے دعوے تھے ۔)
مریخ کی سحر انگیزی کے جادو نے اس وقت بھی سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیا تھا جب ماہرین فلکیات نے مریخ پر ایک عجیب سا نشان دیکھا جو ایک جسیم "M" کی طرح دکھائی دیتا تھا اور میلوں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ تبصرہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ "M" کا مطلب "مریخ " ہی ہو۔ اور مریخی ، زمینی لوگوں کو اپنے وجود کی آگاہی سے امن پسندی کے ساتھ اس طرح سے روشناس کر وا رہے ہوں ، جس طرح سے چئیر لیڈر اپنی فٹ بال کی ٹیم کا نام میدان میں ہجے کرتی ہیں۔(دوسروں نے اس کا تاریک پہلو ایسے دیکھا کہ ان کے خیال میں "M" اصل میں "W" تھا اور "W" کا مطلب "وار "(جنگ ) تھا ۔ دوسرے الفاظوں میں مریخیوں نے زمین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا ۔ یہ ہلچل اس وقت ختم ہو گئی جب وہ "M" ایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وہ نشان گرد کے طوفانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ جس نے پورے سیارے کو گھیر لیا تھا۔ صرف بڑے چار آتش فشاں اس سے ڈھکنے سے بچے رہ گئے تھے۔ ان چاروں آتش فشانوں کے دھانے کچھ "M" یا "W" جیسے دکھائی دیتے تھے۔
حیات کی کھوج کی سائنسی تحقیقات
ماورائے ارض حیات کی ممکنہ کھوج کرنے والے سنجیدہ طبع سائنس دان کہتے ہیں کہ حیات جیسی کسی بھی چیز کے وجود کے بارے قطعیت کے ساتھ کہنا ناممکن ہے۔ اس بات سے قطع نظر ہم خلائی حیات کے بارے میں عمومی خیالات کا اظہار طبیعیات، کیمیا اور حیاتیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مائع پانی کی موجودگی کائنات میں حیات کی تخلیق کے لئے سب سے اہم چیز ہے۔" پانی کے پیچھے چلو " کا نعرہ اکثر فلکیات دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ حیات کے ثبوت خلاء میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔۔ مائع پانی ، دوسرے مائعوں کے برعکس کائناتی حل پذیر ہے اس میں حیران کر دینے والی مختلف کیمیائی چیزوں کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی مثال ،مثالی ڈونگے کی سی ہے جس میں پیچیدہ تر سالمات بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی بھی ایک سادہ سالمہ ہے جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے مائع کافی نایاب ہیں۔
دوسرے ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیات کی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں چار بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں چار دوسرے ایٹموں کو باندھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل یقین پیچیدہ ترین سالمات بن سکتے ہیں۔ مختصراً کاربن کی لمبی زنجیریں بنانا آسان ہے جو ہائیڈرو کاربن اور نامیاتی کیمیا کی بنیادی اساس ہوتی ہیں۔ دوسرے چار بندوں کی صلاحیت کے حامل عنصر اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی زرخیز قسم کی کیمیائی چیزوں کو بنا سکیں۔
سب سے زیادہ کاربن کی اہمیت اس مشہور زمانہ تجربے میں حاصل کی گئی جو "اسٹینلے ملر" (Stanley Miller)اور "ہیرالڈ یوری" (Herold Urey) نے ١٩٥٣ء میں کیا جس میں معلوم ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ خود کار حیات قدرتی طور پر کاربن کی کیمیا کا ضمنی حاصل ہو۔ انہوں نے امونیا ، میتھین اور دوسرے زہریلے کیمیائی اجزاء کا محلول لیا جو ان کے مطابق نوزائیدہ زمین پر موجود تھے۔ اس کو انہوں نے ایک جار میں رکھا اور اس میں تھوڑی سی برقی رو گزاری اور اس کے بعد انتظار کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے دوران ہی انہوں نے خود بخود امینو ایسڈ کے بننے کے ثبوت دیکھے۔ برقی رو نے امونیا اور کاربن میں موجود بندوں کو توڑ کر جوہروں کو از سر نو ترتیب دے کر پروٹین کے پیش رو امینو ایسڈ کو بنا دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حیات شاید خود سے پیدا ہو گئی ہو۔ امینو ایسڈ شہابیوں کے اندر اور خلائے بسیط میں گیس کے بادلوں میں بھی پائے گئے ہیں۔
تیسرے، حیات کی بنیادی اساس وہ سالمہ ہے جو خود کی نقل بنا لیتا ہے جس کو ڈی این اے کہتے ہیں۔ کیمیا میں خود کی نقل کرنے والے سالمات انتہائی نایاب ہیں۔ زمین پر پہلے ڈی این اے نے بننے میں شاید سمندروں کے اندر کروڑوں سال کا عرصہ لگایا ہوگا۔ غالباً اگر کسی نے ملر –یوری والا تجربہ دس لاکھ سال پہلے سمندر میں دہرایا ہو تو ڈی این اے کے سالمات خود سے بن سکتے تھے ۔زمین پر ان جگہوں کی ممکنہ امیدوار جہاں اوّلین ڈی این اے جیسے سالمات بنے ہوں گے وہ سمندر کی تہ میں آتش فشانی ریخیں ہو سکتی ہیں ، پودوں اور ضیائی تالیف کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ان ریخوں میں ہونے والی ہلچل توانائی کی معقول مقدار ابتدائی ڈی این اے کے سالموں اور خلیوں کو مہیا کر سکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ڈی این اے کے ساتھ ساتھ کاربنی سالمات بھی خود کی نقل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کائنات میں ڈی این اے کی شباہت کے دوسرے خود کار نقلچی سالمات کی موجودگی کی امید کی جا سکتی ہے۔
لہٰذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حیات کو مائع پانی ، ہائیڈرو کاربن کیمیائی اجزاء اور کچھ طرح کے خود کار نقلچی سالمات مثلاً ڈی این اے کی ضرورت ہوگی۔ ان جامع اصولوں کی کسوٹی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس طرح ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ذہین مخلوق کی تعداد کیا ہوگی۔ ١٩٦١ء میں کارنیل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات "فرینک ڈریک"(Frank Drake) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خام تخمینہ لگایا تھا۔ اگر ہم ملکی وے کے ایک کھرب ستاروں سے شروع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کی معمولی تعداد ہمارے سورج جیسے ستاروں کی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان ستاروں کے گرد ماورائے نظام ہائے شمس تلاش کریں۔ با الخصوص ڈریک کی مساوات اس بات کا تخمینہ لگاتی ہے کہ کہکشاں میں کتنی تہذیبیں موجود ہونی چاہیں ۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی اعداد کو ضرب دیتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل عوامل شامل ہیں :
· کس شرح سے ستارے کہکشاں میں پیدا ہو رہے ہیں ،
· کتنے ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے ،
· ہر ستارے کے گرد کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات کی جملہ شرائط موجود ہوں گی ،
· ان میں سے کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات نے جنم لیا ہوگا ،
· ان میں سی کتنی حیات ایسی ہوں گی جنہوں نے ذہانت حاصل کی ہوگی،
· اس میں سے کتنی ایسی حیات ہوں گی جو اس بات کی خواہش اور قابلیت رکھتی ہوں کہ وہ رابطہ کر سکیں، اور
· ایک تہذیب کی اندازاً کیا عمر ہوگی۔
معقول تخمینا جات لے کر اور متواتر احتمال کو ضرب دے کر ہم یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں کہ ١٠٠ سے لے کر ١٠ ہزار ایسے سیارے صرف ملکی وے کہکشاں میں موجود ہو سکتے ہیں جہاں حیات اپنا مسکن بنا سکتی ہے۔ اگر حیات کی ذہین قسم کی شکل ملکی وے میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو تو پھر ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی سیارہ زمین سے صرف چند نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوگا۔ ١٩٧٤ء میں کارل ساگاں نے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی ١٠ لاکھ تہذیبوں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا تھا۔
یہ قیاس ہی ان لوگوں کی مزید تائید کرتا ہے جو ماورائے ارض تہذیبوں کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں۔ ذہین حیات کو پروان چڑھانے والے موافق سیاروں کے تخمینا جات کی بنیاد پر سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ ایسے ریڈیائی اشاروں کی تلاش کر رہے ہیں جو کسی سیارے سے نشر ہو رہے ہوں ، یہ اشارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اشاروں جیسی ہی ہوں گے جو ہماری زمین نے آج سے پچاس سال قبل نشر کرنے شروع کیے تھے۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ماوراء ارض حیات کی سن گن
سرچ فار ایکسٹرا ٹیررسٹریل انٹیلی جنس (ایس ای ٹی آئی - سیٹی ) کا منصوبہ ماضی کے اس اثر انگیز مقالے کا نتیجہ ہے جو ١٩٥٩ء میں طبیعیات دان " گسپے کوکونی"(Giuseppe Cocconi) اور" فلپس موریسن" (Philips Morrison)نے لکھا تھا جس میں انہوں نے اس بات کی تجویز پیش کی تھی کہ خرد موجی شعاعیں جن کا تعدد ارتعاش ایک سے لے کر ١٠ گیگا ہرٹز کے درمیان ہو وہ ماورائے ارض اطلاعات کو ڈھونڈنے کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہوں گی۔(ایک گیگا ہرٹز سے نیچے والے تعدد ارتعاش تیز رفتار الیکٹران کی حرکت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شعاعوں سے ختم ہو چکے ہوں گے ؛ ١٠ گیگا ہرٹز سے اوپر کی تعدد ارتعاش کے اشاروں میں ہماری فضا میں موجود آکسیجن اور پانی کے سالمات کا شور درمیان میں مداخلت کرے گا۔)
انہوں نے ١٤٢٠ گیگا ہرٹز کوخلائے بسیط سے آنے والے اشاروں کو سب سے امید افزا سمجھ کر چنا۔ کیونکہ یہ ہی وہ اخراجی تعدد ہے جو عام ہائیڈروجن گیس خارج کرتی ہے جو کائنات میں پایا جانے والا سب سے ارزاں عنصر ہے۔(اس درجے میں پائی جانے والے تعدد کی عرفیت "پانی کا سوراخ " ہے جو ماورائے ارض رابطوں میں آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے دی ہے۔)
ذہین مخلوق کے اشاروں کی تلاش ان پانی کے سوراخوں کے پاس انتہائی مایوس کن رہی ہے۔١٩٦٠ء میں فرینک ڈریک نے ایک منصوبہ شروع کیا جس کا نام "عظمیٰ "(او زے ایم اے ) تھا (جس کو اوز کی ملکہ کے نام پر رکھا تھا )۔ اس کا مقصد گرین بینک، مغربی ورجینیا میں موجود ایک ٢٥ میٹر کی ریڈیائی دوربین کی مدد سے اشاروں کی تلاش تھی۔ ابھی تک کوئی بھی اشارہ نہ تو عظمیٰ کے منصوبے میں مل سکا ہے نہ ہی کسی دوسرے اسی مقصد کے لئے شروع کیے جانے والے منصوبے میں ملا ہے۔ ان میں سے اکثر منصوبوں کو رات کے آسمان کا برسوں تک معائنہ کرنے کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
١٩٧١ء میں ایک انتہائی پر عزم تجویز ناسا کی طرف سے سیٹی کی مالی معاونت کی پیش کش کی صورت میں کی گئی۔ سائیکلوپس نامی اس منصوبے میں پندرہ سو ریڈیائی دوربینوں سے کام شروع کرنے کا عزم کیا گیا تھا جن کی قیمت ١٠ ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ توقع کے عین مطابق یہ تحقیق کہیں پر بھی شروع نہیں ہوئی۔ مالی وسائل ایک دوسرے سادے منصوبے کے لئے دستیاب کر دیئے گئے جس میں ایک احتیاط سے رمز کیا ہوا پیغام خلائی مخلوق کو خلائے بسیط میں بھیجا گیا۔ ١٩٧٤ء میں ایک رمز کیا ہوا پیغام جو ١٦٧٩ بٹس پر مشتمل تھا اس کو پورٹو ریکو میں نصب دیو ہیکل آ ریسیبو ریڈیائی دوربین کے ذریعہ سے عالمگیر جھرمٹ ایم - ٣١ میں زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار ایک سو نوری برس کے فاصلے پر بھیجا۔ اس مختصر سے پیغام میں سائنس دانوں نے ایک ٢٣ X ٧٣ کی جہت کے ایک جالی کے جیسے نمونے میں ہمارے نظام شمسی کا محل وقوع بیان کیا ہے اور ایک انسانوں کا خاکہ اور مختلف کیمیائی فارمولے بھی اس میں شامل ہیں۔ ( کیونکہ وہاں تک کا فاصلہ کافی لمبا ہے لہٰذا پہلے پہل جواب موصول ہونے کا عرصہ آج سے کل ملا کر باون ہزار ایک سو چوہتر سال ہوگا۔)
کانگریس ان منصوبوں کی اہمیت سے متاثر نہیں ہوئی یہاں تک کہ ایک پر اسرار ریڈیائی اشارہ ١٩٧٧ء میں ملا جس کا نام "واہ " اشارہ رکھا گیا۔ یہ اشارہ ایک ایسے سلسلے پر مشتمل تھا جس میں کچھ بے ترتیب حروف اور اعداد شامل تھے اور ایسا لگتا تھا کہ کوئی ذہین مخلوق اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔(کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس اشارے کو دیکھا لیکن وہ اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔)
١٩٩٥ء میں وفاقی حکومت کی مالی تعاون کی عدم توجہی کی بنا پر کچھ ماہرین فلکیات نے نجی طور پر غیر منافعی تنظیم کی حیثیت سے سیٹی انسٹیٹیوٹ کو شروع کیا جو ماؤنٹ ویو ، کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد سیٹی کی تحقیقات کا ایک مرکز بنانا تھا۔ یہاں پر ایک منصوبہ شروع کیا گیا جس کا نام فینکس تھا۔ اس کا مقصد سورج جیسے ایک ہزار کے قریب ستاروں کا جائزہ ١٢٠٠ سے ١٣٠٠ میگا ہرٹز کے درجوں کے درمیان لینا تھا۔ ڈاکٹر "جل ٹارٹر" ([Jill Tarter]فلمکنٹیکٹ میں جوڈی فوسٹر نے ان کا کردار ادا کیا تھا ) کو اس کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔(اس منصوبے میں استعمال ہونے والے آلات اس قدر حساس ہیں کہ وہ دوسو نوری برس کے فاصلے پر موجود ایئرپورٹ کے ریڈار کے نظام سے نکلے ہوئے اشاروں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔)
١٩٩٥ کے بعد سے سیٹی انسٹیٹیوٹ نے ایک ہزار سے زائد ستاروں کو چھانا جس پر سالانہ پچاس لاکھ ڈالر کی لاگت آ رہی ہے۔ لیکن سردست ابھی تک کوئی بھی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر ، "سیتھ شوسٹاک"(Seth Shostak) جو سیٹی کے ایک سینیئر ماہر فلکیات ہیں، وہ رجائیت پسندی کے ساتھ اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ ساڑھے تین سو انٹینے پر مشتمل ایلن ٹیلی اسکوپ ایرے جو سان فرانسسکو سے ڈھائی سو میل شمال مشرق میں بنائی جا رہی ہے ٢٠٢٥ء تک کام کرنا شروع کر دے گی۔
ایک اور جدید طریقہ سیٹی ایٹ ہوم منصوبہ ہے جو برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین فلکیات نے ١٩٩٩ء میں شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں ان لاکھوں کمپیوٹر کے مالکوں کو ہدف بنایا گیا جن کے کمپیوٹر گھر پر زیادہ تر فالتو پڑے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس میں حصّہ لینا چاہتے ہیں وہ ایک سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ کرکے کچھ ریڈیائی اشاروں کو غیر مرموز کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ ریڈیائی اشارے ایک ریڈیائی دوربین سے اس وقت حاصل کیے جاتے ہیں جب حصّے دار کے کمپیوٹر پر اسکرین سیور چل رہا ہوتا ہے اس طرح سے ذاتی کمپیوٹر کو استعمال کرنے والے حصّے دار کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ابھی تک اس منصوبے میں ددو سو ملکوں کے پچاس لاکھ استعمال کنندہ نے اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی بجلی انتہائی کم قیمت پر استعمال کی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اب تک کا سب سے رجائیت پسند منصوبہ ہے۔ یہ ایک طرح سے دوسرے وسیع کمپیوٹر کے ذرائع کو استعمال کرکے حساب کتاب کرنے والے منصوبوں کے لئے ایک نمونہ عمل ہو سکتا ہے۔ ابھی تک کوئی بھی اشارہ ذہین مخلوق کی طرف سے سیٹی ایٹ ہوم کو نہیں ملا ہے۔
عشروں کی سخت محنت کے بعد ، ماورائے ارض حیات کی طرف سے اشارے ملنے کے سلسلے میں کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے کے سبب اس تحقیق کو اپنے مخالفوں کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی ایک ظاہری خامی تو صرف ریڈیائی اشاروں کو ایک مخصوص تعدد ارتعاش میں تلاش کرنا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ خلائی مخلوق ریڈیائی اشاروں کے بجائے لیزر کی شعاعیں استعمال کرتی ہوں۔ لیزر کے استعمال کو ریڈیائی لہروں پر کافی طرح سے برتری حاصل ہے۔ لیزر کی مختصر لہروں کی وجہ سے ایک لہر میں ریڈیو کی لہروں کی با نسبت زیادہ اشاروں کو سما یا جا سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ لیزر کی شعاع بلند درجے کی سمٹی اور صرف ایک ہی تعدد ارتعاش پر مشتمل ہوتی ہیں لہٰذا یہ ان کو بالکل صحیح تعدد میں پکڑنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے۔
دوسرا ممکنہ ظاہری نقص سیٹی کے محققین کا صرف مخصوص ریڈیائی تعدد کے دائرہ اثر میں انحصار کیے ہوئے ہونا ہے۔ اگر کوئی خلائی حیات موجود ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دابی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوں یا ممکنہ طور پر پیغام کو چھوٹے بنڈلوں میں پھیلا دیتے ہوں اس طرح کی تیکنیک آج کل انٹرنیٹ پر استعمال ہوتی ہے۔ مختلف تعدد میں پھیلے ہوئے دابی پیغامات کو سننے سے ہمیں صرف بے ترتیب آوازیں ہی سنائی دیں گی۔
ان تمام خوفناک مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے سیٹی نبرد آزما ہے ، یہ بات معقول لگتی ہے کہ اس صدی میں ہی ہم ماورائے ارض تہذیبوں کے کچھ اشاروں کا سراغ لگانے کے قابل ہو جائیں گے بشرطیکہ وہ تہذیبیں موجود ہوں اور اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھے گا۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- وہ کہاں ہیں ؟
اس بات کی حقیقت کے پیش نظر کہ ابھی تک سیٹی نے کائنات میں موجود کسی بھی ذہین مخلوق کی طرف سے آتے ہوئے کسی اشارے کا سراغ نہیں لگایا ، سائنس دان مجبور ہو گئے ہیں وہ فرینک ڈریک کی ذہین مخلوق کے دوسرے سیاروں پر موجود ہونے سے متعلق مساوات کو سرد مہری کے ساتھ اہمیت دینا ختم کر دیں۔ حالیہ فلکی دریافتوں نے ہمیں اس بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ١٩٦٠ء کی دہائی میں فرینک ڈریک کے ذہین خلائی مخلوق کو کھوجنے کے اندازے حقیقت میں کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ ذہین خلائی مخلوق کے کائنات میں موجود ہونے کے نصیب دونوں رجائیت اور قنوطیت پسندوں کے پچھلے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
سب سے پہلے تو نئی دریافتوں نے ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع دیا کہ حیات اس طرح سے بھی نشو نما پا سکتی ہے جس کو ڈریک کی مساوات نے نظر انداز کر دیا تھا۔ پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مائع پانی صرف سورج کے گرد گولڈی لاکس زون میں ہی پایا جا سکتا ہے۔(زمین کا سورج سے فاصلہ بالکل مناسب ہے۔ یہ نہ تو اتنا زیادہ سورج سے قریب ہے کہ سمندر ابل پڑیں نہ اتنا زیادہ دو ر ہے کہ سمندر جم جائیں ، بلکہ حیات کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لئے بالکل مناسب ہے۔)
لہٰذا مشتری کے منجمد چاند یوروپا کی سطح پر موجود جمی ہوئی برف کے نیچے پائے جانے والے پانی کے ثبوتوں نے سائنس دانوں کو مبہوت کر دیا ہے۔ یوروپا گولڈی لاکس زون کے کافی باہر کی جگہ ہے۔ لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈریک کی مساوات میں کہیں نہیں سماتا۔ اس کے باوجود مدو جزر کی قوّتیں یوروپا کی سطح پر پھیلی ہوئی برف کو پگھلا کر ایک مستقل سمندر بنا سکتی ہے۔ یوروپا جب مشتری کے گرد اپنے مدار میں چکر لگاتا ہے تو سیارے کے عظیم جاذبی میدان کسی ربڑ کی گیند کی طرح سے اس کو نچوڑتے ہیں ، جس کے نتیجے میں اس کی قلب کی گہرائی میں رگڑ کی قوّت پیدا ہوتی ہے جو برف کو پگھلا دیتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سو سے زائد چاند موجود ہیں۔ لہٰذا گولڈی لاکس زون کے باہر صرف ہمارے نظام شمسی میں ہی ایسے کئی چاند ہو سکتے ہیں جہاں حیات موجود ہو۔ سردست ڈھائی سو سے زائد دیو ہیکل ماورائے شمس سیارے خلاء میں دریافت ہو چکے ہیں غالب امکان یہ ہے کہ ان کے بھی منجمد چاند ہو سکتے ہیں جو حیات کی کفالت کر نے کے قابل ہوں۔
مزید براں سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی ایسے آوارہ گرد (یتیم)سیارے بھی موجود ہیں جو کسی بھی ستارے کے گرد چکر نہیں لگا رہے ہیں۔ مدوجزر کی قوّتوں کی بدولت کوئی بھی چاند جو ان آوارہ گرد سیاروں کے گرد چکر لگا رہا ہوگا اس میں بھی برف کی سطح کے نیچے مائع سمندر موجود ہو سکتے ہیں لہٰذا امکان ہے کہ وہاں حیات بھی پائی جا سکتی ہے، لیکن ایسا کوئی بھی چاند ہم اپنی دوربینوں کی مدد سے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آلات میزبان تارے یا مورث ستارے سے آتی ہوئی روشنی کی مدد سے ہی دوسرے اجسام کی کھوج کر سکتے ہیں۔
کائنات میں چاندوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہو سکتا ہے کہ نظام ہائے شمسی میں موجود سیاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوں اور ان آوارہ گرد سیاروں کی تعداد کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے جو ایک اندازے کے مطابق ایک کہکشاں میں ہی کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے ، کائنات میں زندگی کی کفالت کرنے والے فلکیاتی اجسام ہمارے پچھلے لگائے گئے اندازوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف ماہرین فلکیات نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر ، کسی ایسے سیارے پر زندگی کے آثار جو گولڈی لاکس زون میں موجود ہو ڈریک کے لگائے گئے اندازے سے کہیں زیادہ کم ہیں۔
سب سے پہلے تو کمپیوٹر کے پروگرام اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مشتری کے حجم کے سیارے کا کسی بھی نظام شمسی میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ خلاء سے آتے ہوئے شہابیوں اور سیارچوں کو وہ دور دھکیل سکے۔ اس طرح سے وہ مسلسل نظام شمسی کی صفائی کرکے اس کو حیات کے لئے ایک موزوں جگہ بناتا ہے۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں مشتری موجود نہیں ہوتا ، تو زمین شہابیوں اور دم دار تاروں سے چھلنی ہو چکی ہوتی جس کے نتیجے میں یہاں زندگی کا پروان چڑھنا انتہائی مشکل ہو جاتا۔ ڈاکٹر" جارج ویتھریل"(George Wetherill) جو کارنیگی انسٹیٹیوشن ان واشنگٹن، ڈی سی میں ایک فلکیات دان ہیں اندازہ لگا کر بتاتے ہیں کہ مشتری اور زحل جیسے سیاروں کی ہمارے نظام شمسی میں غیر موجودگی کی صورت میں زمین ایک ہزار گنا زیادہ سیارچوں کے تصادموں کا نشانہ بنتی۔ ان تصادموں میں کافی سارے ایسے تصادم ہوتے جو حیات کے لئے خطرہ بن سکتے تھے (جیسا کہ ایک وہ تصادم تھا جس نے ڈائنو سارس کو آج سے چھ کروڑ پچاس سال پہلے ختم کر دیا تھا)۔ ایسے تصادم ہر دس ہزار سال کے بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں "یہ بات تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ حیات کس طرح سے انتہائی یورش میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔"
دوسرے ہمارے سیارے کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے پاس ایک بڑا چاند ہے جس نے زمین کو اپنے محور پر گھومنے میں سہارا دیا ہوا ہے۔ نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کو کروڑوں سال پر کھینچ کر سائنس دان اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاید ایک بڑے چاند کے بغیر ہمارے زمین کا محور غیر پائیدار ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زمین لڑ کھڑا سکتی ہے اور حیات کی پرورش ناممکن ہو سکتی ہے۔ فرانسیسی فلکیات دان ڈاکٹر" جاک لاسکر"(Jacques Lasker) اندازہ لگاتے ہیں کہ ہمارے چاند کے بغیر زمین اپنے محور پر صفر درجے سے لے کر چون درجے تک جھولتی رہتی جس کے نتیجے میں انتہاء کے موسم جنم لیں گے جو حیات سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتے ہوں گے۔ لہٰذا ایک بڑے چاند کی موجودگی کی شرط کو بھی ڈریک کی مساوات میں شامل ہونا چاہئے تھا۔(مریخ کے صرف دو ننھے چاند ہیں ، جو اتنے چھوٹے ہیں کہ اس کے چکر کو پائیداری فراہم نہیں کر سکتے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مریخ ماضی بعید میں لڑکھڑایا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی دوبارہ سے لڑکھڑا جائے۔)
تیسرے، حالیہ حاصل ہوئے ارضیاتی ثبوت اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مستقبل میں کئی مرتبہ حیات زمین سے تقریباً معدوم ہو گئی تھی۔ دو ارب سال پہلے زمین مکمل طور پر برف میں ڈھکی ہوئی تھی ، اس وقت زمین برف کی ایک گیند جیسی تھی جو بمشکل حیات کو سہارا دے سکتی تھی۔ دوسری طرف آتش فشانوں اور شہابیوں کے تصادموں نے بھی زمین پر سے حیات کے خاتمے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لہٰذا حیات کی تخلیق اور اس کا ارتقاء عمل ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ نازک ہے۔
چوتھے، ذہین حیات ماضی میں تقریباً معدومیت تک جا پہنچی تھی۔ تازہ ترین ڈی این اے سے حاصل کردہ ثبوتوں کی روشنی میں آج سے لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے شاید صرف چند ہزار انسان ہی موجود تھے۔ دوسرے جانوروں کی انواع کے برعکس جو خلقی طور پر آپس میں کافی زیادہ ایک دوسرے سے الگ ہیں تمام انسان خلقی طور پر ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر ہم عالم حیوانات سے موازنہ کریں تو حضرت انسان تقریباً ایک دوسرے کے کلون جیسا ہی ہے۔ اس مظہر کو صرف ایک بات سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں کبھی ایسی بند گلی بھی آئی ہوگی جس میں زیادہ تر نوع انسانی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ مثال کے طور ایک بڑے آتش فشاں کے پھٹنے سے موسم اس طرح سے تبدیل ہو کر سرد ہو گیا ہوگا کہ لگ بھگ ساری نوع انسانی ختم ہو گئی ہوگی۔
حیات کے زمین پر پھلنے پھولنے کے لئے ان تمام باتوں کے علاوہ مزید کچھ حسن اتفاقات کا وقوع پذیر ہونا ضروری تھا جیسے : · ایک مضبوط مقناطیسی میدان۔ یہ کائناتی شعاعوں کو خم دینے کے لئے انتہائی ضروری ہے ورنہ وہ زمین پر موجود حیات کو ختم کر سکتی ہیں۔ · میانہ محوری سیاروی گھماؤ۔ اگر زمین بہت آہستہ اپنے محور کے گرد چکر لگائے تو سورج کی جانب رخ کرنے والا حصّہ جھلسا دینے والا حد تک گرم جب کہ دوسری طرف والا حصّہ لمبے عرصے کے لئے منجمد کر دینے والا سرد ہو جائے گا۔ دوسری طرف اگر زمین بہت تیزی سے گھومے گی تو انتہائی خطرناک موسمی حالت جیسا کہ عفریت نما ہوائیں اور طوفان پیدا ہوں گے۔ · محل وقوع کا کہکشاں کے قلب سے مناسب اور موزوں فاصلہ۔ اگر زمین ملکی وے کہکشاں کے قلب سے بہت نزدیک ہوتی تو اس کو خطرناک شعاعوں کے ٹکراؤ کا سامنا رہتا ، اگر یہ کہکشانی مرکز سے بہت زیادہ دور ہوتی تو ہمارے سیارے کے پاس وہ بھاری عناصر نہیں ہوتے جو ڈی این اے کے سالموں اور پروٹین کو بنانے کے لئے درکار ہیں۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر ماہرین فلکیات اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حیات گولڈی لاکس زون کے باہر کسی چاند پر یا کسی آوارہ گرد سیارے پر بھی موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن زمین جیسے کسی سیارے کی گولڈی لاکس زون میں موجودگی کا امکان جو حیات کو سہارا دے سکے ان اندازوں سے انتہائی کم ہے جتنا کہ ہم نے پہلے لگائے تھے۔ مجموعی طور پر ڈریک کی مساوات سے کہکشاں میں تہذیب کی تلاش کے حاصل کردہ تخمینہ جات اس کے اصل میں لگائے گئے اندازوں سے انتہائی کم ہیں۔
جیسا کہ پروفیسر "پیٹر وارڈ"(Peter Ward) اور" ڈونلڈ براؤن لی"(Donald Brwonlee) نے لکھا ہے "ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حیات خرد بینی جرثوموں یا ان جیسی دوسری شکل میں کائنات میں انتہائی عام ہے ، یہ شاید اس سے بھی زیادہ عام ہو جتنا کہ ڈریک اور کارل ساگاں نے تصوّر کیا تھا۔ بہرحال پیچیدہ حیات جیسے کہ جانور اور اعظم پودے کائنات میں اس سے کہیں زیادہ نایاب ہیں جتنا کہ ہم نے شروع میں اندازہ لگایا تھا۔" حقیقت میں وارڈ اور براؤن لی نے اس بات کے امکان کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ شاید زمین کہکشاں میں ایک منفرد جگہ ہو جو جانداروں کی حیات کا مسکن بنی ہے۔(اگرچہ یہ نظریہ ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق کی تلاش کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ، اس کے باوجود بھی یہ دوسری دور دراز کی کہکشاؤں میں حیات کی موجودگی کے امکان کو کھلا رکھتا ہے۔)
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ چہارم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- زمین جیسے سیارے کی تلاش
ڈریک کی مساوات یقینی طور پر خالص قیاس پر مبنی ہے۔ خلائے بیکراں میں حیات کی تلاش نے ماورائے ارض سیاروں کے پانے کے بعد تیزی پکڑ لی ہے۔ ماورائے ارض سیاروں کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ماری دوربینوں کے ذریعہ نظر نہ آنا ہے کیونکہ ان کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ عام طور سے وہ اپنے میزبان تارے کے مقابلے میں کروڑوں سے لے کر اربوں گنا تک دھندلے ہوتے ہیں۔
ان کو ڈھونڈنے کے لئے ماہرین فلکیات کو میزبان تارے کی ننھی ڈگمگاہٹوں کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے جو ایک بڑے مشتری کے حجم کے جتنے سیارے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ڈگمگاہٹ اپنے مورث ستارے کی روشنی میں ہلکی سی تبدیلی لانے کا اہل ہوتا ہے۔(ذرا تصوّر کریں کہ جیسا ایک کتا اپنی دم کو پکڑ رہا ہو۔ بالکل اسی طرح میزبان تارہ اور اس کا مشتری کے حجم کا سیارہ ایک دوسرے کو، ایک دوسرے کے گرد گھوم کر پکڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوربین مشتری کے حجم کے سیارے کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ اس کی اپنی روشنی نہیں ہوتی۔ جبکہ میزبان تارہ واضح طور پر قابل دید ہوتا ہے اور جب سیارہ ، ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے یا اس کو عبور کرتا ہے تو مورث ستارہ ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔)
پہلا اصلی ماوراء شمس سیارہ ١٩٩٤ء میں پنسلوانیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر "الیگزینڈر وولزک چن"(Alexander Wolszczan) نے دریافت کیا۔ انہوں نے ایک گھومتے ہوئے مردہ ستارے – نابض (پلزار) کے گرد چکر کاٹتے ہوئے سیاروں کو دیکھا۔ کیونکہ میزبان تارہ شاید ایک سپر نووا دھماکے میں پھٹ پڑا تھا لہٰذا وہ سوختہ مردہ سیارے لگتے تھے۔ اس کے اگلے سال جنیوا کے رہائشی دو سوئس ماہرین فلکیات، " مچل میئر"(Michel Mayor) اور" دیدیار کوئیلوز"(Didier Queloz) نے اعلان کیا کہ انھیں ایک اور امید افزا سیارہ ملا ہے جس کا حجم مشتری جتنا ہے اور وہ ایک ستارے پیگاسی ٥١ کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اس کے بات تو جیسے سیاروں کی دریافت کا نلکا ہی کھل گیا۔
پچھلے دس برسوں کے درمیان ماورائے ارض سیاروں کی کھوج میں شاندار تیزی رہی ہے۔ بولڈر میں واقع یونیورسٹی آف کولوراڈو کے ماہر ارضیات" بروس جیکوسکی"(Bruce Jakosky) کہتے ہیں "یہ دور انسانیت کی تاریخ کا خصوصی عہد ہے۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جن کے پاس حقیقی موقع ہے کہ وہ دوسرے سیارے پر حیات کو تلاش کر سکیں۔"
ابھی تک کوئی بھی ماورائے شمس نظام ہائے شمسی میں کوئی بھی نظام ہمارے نظام شمسی جیسے نہیں ملا ہے۔ حقیقت میں سب کے سب ہمارے نظام شمسی سے انتہائی مختلف ہیں۔ پہلے ماہرین فلکیات یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا نظام شمسی کائنات میں پائے جانے والے دوسرے نظام ہائے شمسی کی طرح ہی کا ہوگا جس میں سیاروں کے دائروی مدار اور تین حصّوں میں اجسام میزبان تارے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے : پہلے حصّے میں سیاروں کی چٹانی پٹی ستارے سے قریب ہوگی ، اس کے بعد دیو ہیکل سیاروں کی پٹی ہوگی اور اس کے بعد دم دار ستاروں پر مشتمل منجمد برفیلے تودے ہوں گے۔
ماہرین فلکیات کی توقعات کے برعکس دوسرے نظام ہائے شمسی میں موجود سیاروں میں سے کوئی بھی اس سیدھے سادے اصول پر عمل پیرا نہیں تھا۔ خاص طور پر ، مشتری کے حجم کے سیاروں کے بارے میں یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ میزبان تارے سے کافی دور واقع ہوں گے ، لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے میزبان تارے سے انتہائی نزدیک (عطارد کے سورج کے فاصلے سے بھی زیادہ قریب ) یا انتہائی بیضوی مداروں میں موجود ہیں۔ دونوں طرح سے چھوٹے زمین جیسے سیارے کی موجودگی جو گولڈی لاکس زون کے اندر مدار میں موجود ہو ممکن نہیں ہے۔ اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے اپنے میزبان تارے سے انتہائی نزدیک ہوں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ عظیم فاصلہ طے کرتے ہوئے بتدریج اپنے نظام شمسی کے مرکز کی طرف گھومتے ہوئے آرہے ہیں (شاید دھول کی رگڑ کی وجہ سے )۔ اس طرح سے مشتری کے حجم جتنے سیاروں نے چھوٹے زمین جیسے سیاروں کو خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا ہوگا۔ اور اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے بلند بیضوی مداروں میں گردش کر رہے ہوں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اکثر گولڈی لاکس زون میں سے بھی گزریں گے نتیجتاً وہ پھرسے زمین جیسے کسی سیارے کو خلائے بسیط میں پھینک دیں گے۔
ان دریافتوں نے سیارہ کھوجی اور ماہرین فلکیات کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جس میں وہ زمین جیسے سیاروں کی تلاش میں تھے مگر پس بین ان دریافتوں کی تو امید کی جا رہی تھی۔ ہمارے آلات اتنے خام ہیں کہ وہ صرف بڑے مشتری جتنے حجم کے تیز رفتار اجسام کو ہی تلاش کر سکتے ہیں جو اپنے میزبان تارے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ آج کی دوربینیں صرف وہ دیوہیکل سیارے دریافت کر سکتی ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ خلاء میں حرکت کرتے ہیں۔ اگر ہمارے نظام شمسی کے جیسا کوئی دوسرا نظام موجود ہوگا تو ہمارے آلات اس قدر بنیادی سے ہیں کہ وہ ان کو نہیں تلاش کر پائیں گے۔
یہ صورتحال کوروٹ، کیپلر اور ٹیررسٹریل پلانیٹ فائنڈر کے خلاء میں چھوڑے جانے کے بعد سے تبدیل ہو سکتی ہے ، یہ تینوں مصنوعی سیارچے خاص طور پر زمین جیسے سینکڑوں سیاروں کو خلاء میں تلاش کرنے لئے بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پرکوروٹ اور کیپلر سیارچے زمین جیسے سیارے کے اپنے مورث ستارے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس پر بننے والے سائے کا تجزیہ کریں گے کیونکہ ستارے کو عبور کرتے ہوئے سیارہ اپنے مورث ستارے کی روشنی کو معمولی سی کم کر دے گا۔ ہرچند زمین جیسا سیارہ نظر نہیں آئے گا لیکن اس کے باوجود ستارے کی روشنی میں ہونے والی کمی کو مصنوعی سیارچہ پکڑ لے گا۔
فرانسیسی سیارچہ کوروٹ (جو فرانسیسی میں کنویکشن اسٹیلر روٹیشن اینڈ پلانیٹیری ٹرانزٹ کا مخفف ہے ) دسمبر ٢٠٠٦ء میں کامیابی کے ساتھ خلاء میں چھوڑ دیا گیا۔ اس نے ماورائے شمس پہلے سیاروی خلائی کھوجی ہونے کا سنگ میل عبور کیا ہے۔ سائنس دان امید کرتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک زمین جیسے سیارے انھیں مل جائیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ سیارے گیسی نہیں چٹانی ہوں گے اور صرف زمین سے تھوڑے سے ہی بڑے ہوں گے۔ اس بات کی بھی امید ہے کہ کوروٹ مشتری کے حجم جتنے مزید سیارے بھی ڈھونڈ کر پہلے سے خلاء میں تلاش کئے ہوئے اس قسم کے سیاروں میں مزید اضافہ کرے گا۔ "ہم زمین پر رہتے ہوئے جو کچھ کر سکتے تھے اس کے برعکس کوروٹ اس قابل ہوگی کہ وہ ہر قسم اور نسل کے ماوراء شمس سیارے تلاش کر سکے۔" کلاڈ کتالا(Claude Catala) فلکیات دان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ کل ملا کر سیارچہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ستاروں کی جانچ کرے گا۔
کسی بھی دن کوروٹ زمین جیسے کسی بھی سیارے کے ثبوت کو پا سکتا ہے ۔ وہ دن یقینی طور پر نہ صرف فلکیات کی دنیا بلکہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نیا موڑ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں لوگوں کو رات کو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس بات کا جھٹکا لگے کہ وہاں پر ایسے سیارے موجود ہیں جو ذہین زی شعور حیات کا مسکن بن سکتے ہیں۔ مستقبل میں جب ہم آسمان فلک کی طرف نگاہ کریں تو ہمیں اس بات پر حیرت ہوگی کہ ممکنہ طور پر کوئی ہمیں بھی وہاں سے دیکھ رہا ہوگا۔
کیپلر سیارچہ ٢٠٠٨ء میں ناسا کی طرف سے خلاء میں چھوڑے جانے کے لئے تیار ہے۔ یہ اس قدر حساس ہے کہ یہ زمین جیسے سینکڑوں سیارے خلائے بسیط میں ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ایک لاکھ ستاروں کی روشنی کو ناپے گا تاکہ کسی بھی سیارے کی اس حرکت کو دیکھ سکے جب وہ اس ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اگلے چار سالوں میں وہ کام شروع کر دے گا۔ کیپلر زمین سے ١٩٥٠ نوری برسوں تک کے فاصلے پر موجود دور دراز کے ستاروں کو جانچے اور ان پر نظر رکھے گا۔ اپنے مدار میں چھوڑے جانے کے پہلے سال سائنس دان اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ وہ مندرجہ ذیل چیزیں تلاش کر لے گا :
· ٥٠ زمین کے حجم جتنے سیارے ،
· ١٨٥ سیارے جو زمین سے ٣٠ فیصد زیادہ بڑے ہوں گے ، اور
· ٦٤٠ سیارے جو زمین سے ٢۔٢ گنا زیادہ بڑے ہوں گے۔
ٹیررسٹریل پلانیٹ فائنڈر کے پاس زمین جیسے سیارے کو ڈھونڈنے کا سب سے زیادہ اچھا موقع ہے۔ کافی تاخیر کے بعد اب اس کو ٢٠١٤ میں چھوڑنے کا منصوبہ ہے ، یہ ١٠٠ سیاروں کو ٤٥ نوری برس کے فاصلوں تک نہایت درستگی کے ساتھ تلاش کر سکے گی۔ اس میں دو قسم کے آلات دور دراز کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے لگے ہوں گے۔ پہلا کورنو گراف (ستارے کے حلقہ شعاعیہ کا مطالعہ کرنے کا آلہ )، ایک خصوصی دوربین جو میزبان ستارے کی روشنی کو ایک اربویں حصّہ تک روک کر کم کر سکے گی۔ یہ دوربین ہبل خلائی دوربین سے تین سے چار گنا زیادہ تک بڑی اور اس سے ١٠ گنا زیادہ درست نتائج دے گی۔ کھوجی میں دوسرا آلہ ایک" تداخل پیما"(Interferometer) ہوگا جو روشنی کی لہروں کی مداخلت کو استعمال کرتے ہوئے میزبان تارے سے آتی ہوئی روشنی کو دس لاکھویں حصّے تک کم کرے گا۔
اسی دوران یورپین اسپیس ایجنسی اپنا خود کا سیارہ کھوجی ڈارون خلاء میں ٢٠١٥ء یا اس کے بعد بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس میں تین دوربینیں لگانے کا منصوبہ ہے جس میں سے ہر ایک ٣ میٹر قطر کی ہوں گی۔ یہ خلاء میں اڑتا ہوا سب سے بڑا تداخل پیما ہوگا جو سیٹی کی کوششوں کو بار آ ور بنانے کی کوشش کرے گا۔ اس کا مقصد بھی زمین جیسے سیاروں کی تلاش کا ہی ہوگا۔
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )حصّہ پنجم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- وہ دیکھنے میں کیسے ہوں گے؟
دوسرے سائنس دان طبیعیات ، حیاتیات اور کیمیا کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا قیاس کر رہے ہیں کہ خلائی مخلوق دیکھنے میں کیسی ہوگی۔ مثال کے طور پر آئزک نیوٹن اس بات پر حیران ہوتا تھا کہ ان تمام جانوروں کو جنہیں وہ دیکھ سکتا تھا کیوں دو رویہ تشاکلی دو آنکھیں ، دو بازو اور دو پیر متشاکل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ کیا یہ خوش قسمتی ہے یا خدا نے ایسا جان کر بنا یا ہے۔
آج ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کیمبیری انفجار کے دوران جو آج سے ٥٠ کروڑ سال پہلے ہوا تھا قدرت نے وسیع ننھی شکل و صورت کے جتھوں ساتھ تجربات کیے جس کے نتیجے میں کثیر خلوی مخلوق نمودار ہوئی۔ کچھ کی ریڑھ کی ہڈیاں "X"، "Y" یا "Z" کی شکل کی تھیں۔ کچھ ستارہ مچھلی کی طرح متشاکل نصف قطر کی تھیں۔ اتفاقی طور پر ایک کی ریڑھ کی ہڈی "I" کی دو رویہ متشاکل شکل کی بن گئی۔ یہی وہ نوع تھی جو زمین پر موجود زیادہ تر فقاری جانوروں کے پیش رو بنی۔ لہٰذا نظری طور پر انسان نما دو رویہ متشاکل صورت ، ویسی ہی شکل جو ہالی ووڈ والے اپنی فلموں میں دکھاتے ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام ذہین مخلوق پر لاگو ہو۔
کچھ ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مختلف انواع کی حیات کیمبیری انفجار کے بعد اس لئے پھلی پھولی کہ "بازوؤں کی ایک دوڑ " شکار اور شکاری میں شروع ہو گئی تھی۔ پہلے کثیر خلوی جانداروں کے ظہور نے جو دوسرے جانداروں کو نگل رہے تھے ، دونوں(شکار اور شکاری) کے ارتقائی عمل کو تیز کیا۔ جس میں دونوں (شکار اور شکاری) ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں جت گئے۔ بعینہ ایسے ہی جس طرح سے سرد جنگ کے دوران سابقہ سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں زور بازو کی جنگ چلی تھی۔ جس میں دونوں اطراف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لگے رہتے تھے۔ حیات کے ارتقاء کو اس سیارے پر جانچ کر ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے ذہین زی شعور مخلوق زمین پر ارتقاء پذیر ہوئی ہوگی۔ سائنس دان کی تحقیق سے حاصل کردہ نتائج سے انہوں نے یہ اخذ کیا کہ ذہین مخلوق کو درج ذیل چیزیں درکار ہوں گی :
1. کسی قسم کی بصارت یا حساس نظام جو ماحول کو کھوجنے میں مدد دے ؛
2. کسی قسم کے انگوٹھے جو چیزوں کو پکڑنے میں استعمال ہو سکیں یہ سونڈ یا پنچوں کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں ؛
3. کوئی گفتگو کرنے کا نظام جیسا کہ بولنا۔
یہ تین صفتیں ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور اس کے ذریعہ ہی ماحول کے ساتھ ساز باز کی جا سکتی ہے جو ذہین مخلوق کا خاصہ ہے۔ لیکن ان تین بنیادی صفتوں کے علاوہ دوسری کوئی بھی چیز چل سکتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والی خلائی مخلوق کے برعکس ، ماورائے ارض حیات کو زمین پر موجود حیات کا ہمشکل ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں جیسی ، حشرات الارض کی آنکھیں رکھنے والی خلائی مخلوق جو ہم ٹیلی ویژن اور فلموں میں دیکھتے ہیں درحقیقت ١٩٥٠ء کی دہائی کی دوسرے درجے کی فلموں میں دکھائی جانے والی مخلوق ہے جو لاشعوری طور پر ہمارے دماغ میں جا کر دفن ہو گئی ہے۔
(کچھ ماہر بشریات ذہین مخلوق کے لئے ایک چوتھی خاصیت بھی ڈال دیتے ہیں جو پر تجسس حقیقت کو بیان کرنے کی ہے : انسانی ذہانت جنگل میں زندہ رہنے کے لئے درکار ذہانت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا دماغ خلائی سفر، کوانٹم نظرئیے اور اعلی درجے کی ریاضی کا عادی ہو سکتا ہے جو جنگل میں شکار اور مردہ خوری کے لئے انتہائی غیر ضروری چیزیں ہیں۔ یہ غیر ضروری دماغی قوّت موجود کیوں ہے ؟ قدرت میں جب ہم کچھ جانوروں میں مثلاً چیتے اور غزال میں وہ غیر معمولی صلاحیتیں دیکھتے ہیں جو ان کے زندہ رہنے سے کہیں زیادہ ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم چلتی ہے کہ ان کے درمیان مسابقتی تسلط حاصل کرنے کی دوڑ چل رہی ہوتی ہے۔ اس طرح سے کچھ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک چوتھی خاصیت حیاتیاتی مسابقتی تسلط نے انسانی ذہانت کو آگے بڑھایا۔ شاید یہ مسابقتی تسلط کی دوڑ ہمارے انواع کے دوسرے ارکان کے درمیان تھی۔)
ذرا کرۂ ارض پر موجود تمام غیر معمولی حیات کو تصوّر میں لیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم ہشت پا کی کوئی چنی ہوئی نسل کو لے کر کئی کروڑوں سال تک پالیں تو اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی ذہانت حاصل کر لے۔(ہم بندروں سے ٦٠ لاکھ سال پہلے علیحدہ ہوئے تھے شاید اس لئے کہ ہم نے افریقہ کے ماحول کو صحیح طرح سے قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس ہشت پا نے چٹانوں کے نیچے کے ماحول سے اپنے آپ کو اچھی طرح سے ہم آہنگ کر لیا لہٰذا انہوں نے کروڑوں برس پہلے ہی ارتقائی عمل کو چھوڑ دیا۔) حیاتی کیمیا دان" کلف فورڈ پکاوور"(Clifford Pick over) کہتے ہیں کہ جب وہ" ان تمام پاگل کر دینے والے خول دار جانداروں ، مسلی ہوئی گیرہ دار جیلی فش ، بے ڈھنگے متناقص الا وصف کیڑوں(دو جنس والے ) اور فطر لعاب ( کھمبی کی طرح کا نامیہ جو دلدلی جگہوں میں گلتی سڑتی لکڑی میں پیدا ہو جاتا ہے ) کو دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ خدا میں مزاح کرنے کی کافی حس ہے اور ہم ان تمام چیزوں کا عکس کائنات میں دوسری اشکال میں بھی دیکھیں گے "۔
بہرحال ہالی ووڈ والے ذی شعور مخلوق کو گوشت خور دکھانے میں بالکل بجا ہیں۔ گوشت خور خلائی مخلوق نہ صرف ان کی فلم کی بِکْری زیادہ کرتی بلکہ یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر بھی ہے۔ عام طور سے شکاری اپنے شکار سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ شکاریوں کو مہارت کے ساتھ منصوبہ بندی ، شکار کا پیچھا کرنا، ان سے چھپنا اور ان پر حملہ کرنا ہوتا ہے۔ لومڑیوں ، کتوں ، چیتوں اور شیروں کی آنکھیں ان کے چہرے کے سامنے کے حصّے میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے فاصلے کا اندازہ کر سکیں۔ اپنی دو آنکھوں کی مدد سے وہ سہ جہتی نظروں کی بدولت شکار پر نظریں جما سکتے ہیں۔ دوسری طرف شکار جیسے کہ ہرن اور خرگوش کے لئے اتنا کافی ہے کہ شکاری سے دور کیسے بھاگا جائے۔ ان کی آنکھیں چہرے کے اطراف میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے گرد موجود شکاری کا ٣٦٠ درجے زاویے میں ہر وقت جائزہ لے سکیں۔
دوسرے الفاظ میں ، باہری خلاء میں موجود ذہین مخلوق ممکنہ طور پر اپنے شکاریوں سے بچنے کے لئے ایسی آنکھوں یا دوسرے حساس اعضاء کے ساتھ قدرتی طور پر پروان چڑھی ہوگی جو اس کے چہرے کے سامنے ہوں۔ ان میں سے چند ایک کا رویہ گوشت خور ، جارح اور علاقائی ہوگا جیسا کہ زمین پر ہمیں ، بھیڑیوں ، شیروں اور انسانوں میں ملتا ہے۔(لیکن کیونکہ ایسی حیات ممکنہ طور پر بالکل الگ ڈی این اے اور پروٹین کے سالمات سے بنی ہوگی لہٰذا ان کی دلچسپی ہمیں کھانے یا ہم سے جسمانی تعلقات رکھنے میں بالکل بھی نہیں ہوگی۔)
ہم طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی جسامت کا قیاس کر سکتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ وہ زمین جیسی ہی حجم کے سیارے پر رہتے ہیں اور وہاں پانی کی کثافت بھی کرہ ارض جتنی ہے ، تو زمین پر موجود حیات ہی کی طرح ، بہت بڑی اور جسیم مخلوق کا وہاں پر موجود ہونا میزان قانون کی رو سے ممکن نہیں ہے، یہ قانون ہمیں بتاتا ہے کہ قوانین طبیعیات کسی بھی شئے کے حجم کو بڑھانے سے شدت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔