خرم بھائی، دہشت گردی سے متعلق موضوعات پر گزشتہ چند دہائیوں میں پی ایچ ڈی تک کے متعدد مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی کو عالمی سطح پر عروج بھی کچھ ایسا نصیب ہوا ہے کہ اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس کے حق میں دلائل دینے والوں کی کمی بھی نہیں۔ تو کیا اب دہشت گردی کو جائز قرار دے دینا چاہیے؟
اگر نہیں تو نثری نظم کو قبول کیوں کیا جائے؟ کیا اس کے جواز میں موجود تمام تر دلائل بھی بعینہ اسی مغالطے پر مبنی نہیں؟
اطلاعاً عرض ہے کہ بیسویں صدی سے قبل کا تمام معروف عالمی ادب پابندِ بحور ہے۔ بیسویں صدی اور اس کے بعد گو نثری نظم کا رجحان بڑھا مگر اس کی مقبولیت سوقیانہ قسم کی رہی ہے۔ اس کا اندازہ شاید آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ غالباً ایک بھی نوبل انعام یافتہ یا نامزد شاعر نثری نظم کا نہیں۔ اور اس امتیاز کو آسانی سے یہودیوں کی سازش بھی نہیں قرار دیا جا سکتا!
اگر کوئی گویا بے سرا ہے تو آپ فنِ موسیقی سے اعتنا کرنا چھوڑ دیں گے؟
غزل گوئی کے میدان میں بھی ہر میدان کی طرح پست سطح کے لوگ کثرت سے موجود ہیں۔ ان لوگوں کی بےبضاعتی کو بنیاد بنا کر اگر آپ غزل پر انگلی اٹھائیں گے یا اوزان و بحور سے دامن چھڑانے کی کوشش کریں گے تو قہر اور کسے کہتے ہیں؟
معذرت خواہ ہوں، مگر مجھے یقین ہے کہ آپ غزل گو نہیں ہیں۔ غزل کے اجزائے ترکیبی میں نظم یعنی بحور التزاماً شامل ہیں جنھیں آپ نہیں جانتے۔
وسیع مطالعہ؟ ہاہاہاہا۔
اور کچھ نہیں تو اردو تنقید کی بوطیقا یعنی مقدمۂِ شعر و شاعری ہی کو ایک مرتبہ پڑھنے کی زحمت اٹھا لیجیے۔ آپ کو کچھ نہ کچھ اندازہ تو ہو ہی جائے گا کہ جدتِ تخیل کسے کہتے ہیں اور یہ اساتذہ کے ہاں کس درجے پر موجود ہے۔
بھائی، نیا خیال قطعاً ایسا امرِ محال نہیں جیسا آپ اسے سمجھ رہے ہیں۔ شاید آپ کے وسیع مطالعے میں طوطئِ لاہور کا یہ شعر آیا ہو:
دو کی بجائے چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس آج تو بھی فراموش ہو گیا !
(وصی شاہ)
شعر گوئی کے دیگر معیارات ایک طرف، یہ شعر موزوں بھی ہے اور ایک ایسا خیال بھی پیش کرتا ہے جو اس سے پہلے نظم نہیں کیا گیا۔
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ نئے خیالات تو بابا! مجنونوں کو بھی آ سکتے ہیں۔ آپ اساتذۂِ اردو کو اس صلاحیت سے معذور سمجھیں تو مقامِ غیرت ہے اردو اور اردو دانوں کے لیے!
متفق۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔