عباد اللہ

محفلین
محترم طالب سحر! آپ نے بہت اچھے انداز میں اس مکالمے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جو بجائے خود قابل ستائش ہے۔ آپ درج ذیل شعراء کو نامور شعراء یا نقادوں میں شامل نہ فرمائیں تو الگ معاملہ ہے تاہم آپ کے حکم پر سردست یہ ابتدائی فہرست حاضر ہے۔ شعراء میں احمد ہمیش، قمر جمیل، انیس ناگی، رئیس فروغ، آذر حفیظ، ثروت حسین، عذرا عباس، حفیظ صدیقی، نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب، افتخار عارف، سعادت سعید، تبسم کاشمیری، اقبال فہیم جوزی، مبارک احمد، فاطمہ حسن، کشور ناہید، عارف عبدالمتین، صفیہ ادیب، عباس اطہر شامل ہیں جب کہ نقادوں کی فہرست میں بھی زیادہ تر ان اصحاب کے نام ہی آتے ہیں تاہم اہم نقادوں میں انیس ناگی، سرمد صہبائی، مخدوم منور،سجاد باقر رضوی،قمر جمیل، فخر الحق نوری، نصیر احمد نصیر اور عارف عبدالمتین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ نام ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اس فہرست میں کئی اہم نام درج ہونے سے رہ گئے ہوں۔ سلامت رہیں!
بھائی مبارک احمد اور گوپی چند نارنگ کو بھی شامل کر لیجئے
 
یہ لڑی تو ہم نے دیکھی آج۔ سواد بلکہ چس آ گئی۔
معلومات بھی اخیر اور گرمیوں میں پھر گرمی تو پڑتی ہی ہے۔
ڈیبیٹ میں شریک سب علمی شخصیات کا شکریہ۔
 

عباد اللہ

محفلین
راحیل فاروق نے ایک اور لڑی میں کافی سنجیدگی سے میراور غالب کو مسترد کیا تھا (جس پر بات ہونی چاہیے تھی)، لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے آپ میر کو مسترد کرنے میں اُتنے سنجیدہ نہیں ہیں۔
سر مسترد کرنا بعد کی بات ہے پہلے میں ان کو پڑھ سمجھ تو لوں یا اس کی بھی اجازت نہیں؟
 

طالب سحر

محفلین
سر مسترد کرنا بعد کی بات ہے پہلے میں ان کو پڑھ سمجھ تو لوں یا اس کی بھی اجازت نہیں؟
میری اجازت؟ جیسے باقی تمام کام آپ میری اجازت سے کرتے ہیں :LOL:

مذاق سے ہٹ کر: آپ چاہیں تو میر کو مسترد کریں، چاہیں نہ کریں، یہ آپ کی مرضی ہے۔ شعر و ادب کا معاملہ کافی حد تک غیر معروضی ہوتا ہے۔ میری رائے میرے لئے اہم ہے، اور آپ کی آپ کے لئے۔ مجھے میر، غالب اور کئی کلاسیکی شعراء پسند ہیں، اورمیرے لئے یہ بات اہم ہے۔ جن لوگوں کو میر اور غالب پسند نہیں آتا (یا وہ اُن کی شاعری کو آج کے دور سے ہم آہنگ نہیں پاتے)، یہ اُن کا استحقاق ہے۔

on a lighter note: میر کو مسترد کرنے سے پہلے، میر کو پڑھنے اور سمجھنے کا خیال کیسے آیا؟ :)
 

طالب سحر

محفلین
محترم طالب سحر! آپ نے بہت اچھے انداز میں اس مکالمے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جو بجائے خود قابل ستائش ہے۔ آپ درج ذیل شعراء کو نامور شعراء یا نقادوں میں شامل نہ فرمائیں تو الگ معاملہ ہے تاہم آپ کے حکم پر سردست یہ ابتدائی فہرست حاضر ہے۔ شعراء میں احمد ہمیش، قمر جمیل، انیس ناگی، رئیس فروغ، آذر حفیظ، ثروت حسین، عذرا عباس، حفیظ صدیقی، نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب، افتخار عارف، سعادت سعید، تبسم کاشمیری، اقبال فہیم جوزی، مبارک احمد، فاطمہ حسن، کشور ناہید، عارف عبدالمتین، صفیہ ادیب، عباس اطہر شامل ہیں جب کہ نقادوں کی فہرست میں بھی زیادہ تر ان اصحاب کے نام ہی آتے ہیں تاہم اہم نقادوں میں انیس ناگی، سرمد صہبائی، مخدوم منور،سجاد باقر رضوی،قمر جمیل، فخر الحق نوری، نصیر احمد نصیر اور عارف عبدالمتین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہ نام ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اس فہرست میں کئی اہم نام درج ہونے سے رہ گئے ہوں۔ سلامت رہیں!
بھائی مبارک احمد اور گوپی چند نارنگ کو بھی شامل کر لیجئے
شکریہ۔ یہ فہرست نامکمل ہو گی لیکن پھر بھی بہت کارآمد ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف "نثری نظم" کے حوالے سے اہم نام سامنے آجاتے ہیں بلکہ آپ کے اس استدلال کی کافی حد تک توضیح ہو جاتی ہے :
شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نقادان اس کے گن گاتے ہیں اور نامور شعراء نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔
اب ہمیں یہ پتہ چل گیا ہےکہ "نثری نظم "کے حوالے سے آپ کی بڑے نقادوں اور نامور شعراء سےکون لوگ مراد ہیں ۔(اس جملے میں کوئی طنز نہیں ہے۔)
 

طالب سحر

محفلین
گو کہ یہ لڑی اب کافی حد تک بے جان ہو چکی ہے، لیکن اس میں اُٹھائے گئے سوالات کا واضح جواب نہیں مل سکا ہے۔ کسی کی بھی دل آزاری مقصود نہیں ہے لیکن یہ کہنا چاہوں گا کہ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ ہم کچھ ضمنی (لیکن اہم) اور کچھ فروعی (لیکن دلچسپ) باتوںمیں الجھ گئے اور وہ بھی اس طرح کے اُن پر طرفین کے استدلال میں کچھ حقائق اور منطق کے لحاظ سے مسئلے تھے؛ دوئم بعض مراسلوں میں ذاتیات پر بات آنے سے بھی discourse میں رکاوٹ ہوئی۔ کچھ مصروفیت کی وجہ سےمیں نے اس لڑی میں کافی دیر سے شرکت کی۔ محمد فرقان کا شکریہ کہ اُنہوں نے میرے سوال کا خیرمقدم کیا۔ بحیثیت ایک طالب علم میری یہ خواہش ہے کہ کچھ متعلقہ اور کچھ غیر متعلقہ باتوں پر بات سے بات بڑھائی جائے تا کہ ایک دوسرے کی بات سے اختلاف کے باوجود کچھ سیکھنے کو ملے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ میری ذاتی رائے میں ہمارے ادب میں "نثری نطم" شاعری نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ دیگر اصنافِ ادب کی طرح "نثری نظم" بھی ایک خلاقانہ پیشکش ہے، لیکن اس کا اردو شاعری، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، سے کافی دور دراز کا تعلق ہے۔میرے خیال میں"نثری نظم" کوبآسانی ایک ایسی نثر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس سے ہماری کچھ جمالیاتی توقعات ہوں، لیکن پھر اس کو نثر ہی کیوں نہ کہا جائے؟ گویا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ "نثری نظم" شاعری ہے یانہیں، بلکہ یہ ہے کہ "نثری نظم" اور نثر میں فرق کیا ہے؟

بہت سارے لوگوں کے لئے "نثری نظم" کے نام میں اجتماعِ ضدّین ہے، اس لئے کافی بحث اس کے نام میں صرف ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک حل تو فارسی والوں نے وہی نکالا ہےجس کی طرف یہاں بات بھی ہوئی تھی:
سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظم نہیں ہے، نثر بھی نہیں ہے تو آخر ہے کیا؟ صاحب! کچھ تو ہے! اگر اسے نثم کہہ دیا جائے اور اس صنف میں تجربہ کرنے والوں اور باقاعدہ لکھنے والوں کو شاعر کہہ دیا جائے تو پھر معاملہ تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔
ہمارے ایک دوست تھے اس محفل کے، میم میم مغل (مغزل) صاحب، خوبصورت شاعری کرتے ہیں، وہ اسے نثم کہتے تھے
لغت نامہ دهخدا میں لفظ "نثم" کویوں بیان کیا گیا ہے:
در تداول اخیر، کلامی را گویند که نه به نظم شباهت داشته باشد و نه به نثر، و متتبعان اشعار عروضی آثار گویندگان «شعر سفید» را نثم نامند.
اب اس کا درست ترجمہ تو محمد وارث صاحب اور حسان خان ہی کرسکتے ہیں، ہمیں تو یہی مفہوم سمجھ آرہا ہے کہ جدید فارسی میں جو نہ نظم ہو نہ نثر اُسے نثم کہتے ہیں۔ (میرا خیال ہے کہ "شعر سفید" سے یہاں مراد "شعرِمنثور" یعنی "سخنِ غیر منظوم" ہے۔)

تاہم نام کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے:
وہ سوال یہ ہے، کہ دنیا کے ہر علم یا فن یا ہنر وغیرہ کے اپنے اپنے قواعد ہوتے ہیں کہ جن قواعد کے تحت وہ چیز ہوتی ہے اور ان قواعد کا اُس چیز پر اطلاق ہوتا ہے، مثلا یہاں اردو شاعری کی بات ہو رہی ہے تو اردو زبان کے اپنے قواعد ہیں، شاعری کی بات ہو تو شاعری کے اپنے قواعد ہیں، شاعری کی اصناف کی بات ہو تو ان کے اپنے قواعد ہیں، مثلا غزل کے اپنے قواعد ہیں، پابند نظم کے اپنے، آزاد نظم کے اپنے، رباعی قطعہ کے اپنے وغیرہ وغیرہ ، تو بس نثری نظم کے قواعد بتا دیجیے جن کے تحت نثری نظم ہے، اگر قواعد نہیں ہیں تو میرے نزدیک اُس کا وجود بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ قواعد کی بات ہو رہی ہے جو آبجیکٹو یا معروضی چیز ہے جو ہر حالت میں یکساں رہتے ہیں، سبجیکٹو یا موضوعی چیز کی بات نہیں جو ہر کسی کی رائے کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔
شایدیہ قواعد عبدالسمیع کی کتاب "اردو میں نثری نظم" میں بیان کیے گئے ہوں، جس کی طرف حسن محمود جماعتی نےتوجہ دلائی تھی۔

[غیر مربوط باتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔]
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔
آپ کے آخری جملے نے مجھے ہنسا دیا۔
ولی دکنی کا ایک شعر ہے:

راہ ِمضمون ِتازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب ِسخن

تاہم شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ کلاسیکی اردو شاعری میں "مضمون آفرینی انتہائی مشکل اور صبر آزما عمل ہے۔۔۔ نئی بات کہنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔ نئے مضمون روز روز نہیں ہاتھ لگتے۔ اور شاعری میں نئی بات کہے بغیر چارہ نہیں۔ لہذامعنی آفرینی کو فروغ لازمی قرار پایا"۔
حوالہ: اردو غزل کے اہم موڑ: ایہام، رعایت، مناسبت (غالب خطبہ 1996)، صفحہ 16

سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
-- سیف الدین سیف
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
قرآن مجید کی زبان میں نثر بھی ہے اور نظم بھی اور یہ بحث کہ اسے نثر کہا جائے یا نظم بہت پرانی ہے
آپ نے یہ بحث کہاں پڑھی؟ ذرا ہمیں بھی اس اختلافِ رائے کے حوالے دیجیے۔
اس پوری گفتگو میں کسی نے بھی "سجع" کا ذکر نہیں کیا ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہےبحث قصیدہ یا رجز کی نہیں ہے، بلکہ سجع کی ہے۔ سید عاطف علی صاحب سےدرخواست ہے کہ وہ کچھ رہنمائی کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
میرے خیال میں"نثری نظم" کوبآسانی ایک ایسی نثر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس سے ہماری کچھ جمالیاتی توقعات ہوں، لیکن پھر اس کو نثر ہی کیوں نہ کہا جائے؟ گویا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ "نثری نظم" شاعری ہے یانہیں، بلکہ یہ ہے کہ "نثری نظم" اور نثر میں فرق کیا ہے؟

ایک سوال کا جواب درکار ہے، کیا خوب صورت نثر کو نثم کہا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو کیوں؟ اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟

اس حوالے سے مکمل طور پر آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ قریب قریب یہی سوال میں نے بھی اٹھایا تھا۔ اس سوال کا جواب مل جائے تو بات بنے گی صاحب!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کسی کلام یا نثر کو نظم کے مقام تک پہنچنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط کا سفر کامیابی سے طے کرنا پڑتا ہے ۔نظم کا مقام سراسر ، جیسا کہ نام کے اصل معنی سے ظاہر ہے مطابق صوتی یا لفظی عناصر کے " باترتیب " ہونے پر موقوف ہے۔
اس کے بر عکس نثر کو دیکھا جائے تو اس کے اصل معنی بھی نظم کے معکوس اور مخالف ہیں اور ایک دلچسپ تفہیم کا ایک مسلّمہ کلیہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھا ۔اور کیا خوب قاعدہ ہے اگر کسی چیز کو بیان کرنا مشکل ہو تو اس کی ضد کو جومفہوم ہو بیان کر دیا جائے۔
میرے ان منثور خیالات میں اتنی بات تو واضح ہے کہ نظم اور نثر، کلام و بیان کی دو متضاد قدریں اور شکلیں ہیں ۔ اب یہاں موضوع" نثری نظم " آن ٹھہراہے۔نہ جانے اسےکہیں کبھی کوئی بھلا مانس اسے "نظمی نثر "بھی کہہ ہی دیتا ہوگا اور" منثور" اعتراض پیش کیے جانے پر منظوم دلائل بھی لے آتا ہوگا۔
اپنا تو موقف یہ ہے کہ نظم کی جو خصوصیت ہے اس کا خآصہ اور لطافت وہ ان قواعد و ضوابط کی پابندی ہی میں ہے جو اسے منثور سے ممتاز کر کے منظوم کلا م کا مقام عطا کرتی ہے اور جسے ہم شعر یا شاعری کہتے ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ زبان کی نوعیت اور اس زبان کے اہل زبان کا مزاج ہے ۔یہا ں بات ہماری قومی زبان تک اور " نثری نظم کی قبولیت " تک محدود ہے جس کا اپنا ایک مزاج ہے شعری بھی اور نثری بھی ۔ ہمارے شعر نے متعدد شعری اور عروضی مرحلے طے کر کے اپنا لطیف شعری تذوق حاصل کیا ہے جس کی ہڈیوں میں فارسی کے دودھ کی دھاروں نے قوت بخشی ہے اور عربی فصاحت کے جڑاؤ نگینوں نے مزین کیا ہے اور اسی طرح بالآخر اسے ایک بالغ اور بلیغ زبان کا محترم مقام حاصل ہوا ہے جو ان تمام اسالیب پر محیط ہے جو شعری نثری علمی اور ادبی دنیا میں زبان کا تقاضا ہوتے ہیں ۔ شعری ذوق میں شعری تقاضوں کی بات کی جائے تو ہر ایک شخص کے مزاج کی موزونیت اور آہنگ کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ اور مختلف ناقدین فن اسی کے مطابق رائے قائم کرتے ہیں اور اس میں اختلاف عین "ادبی رحمت" ہونا چاہیئے ۔ یہ بات البتہ بالائے حدود فہم ہے کہ نثری تخلیق یا "نثری نظم " کہنے والا "ناثِر" نہ جانے کیوں شاعر بھی کہلانا چاہتا ہے ۔ اور اگر وہ کہلانا ہی چاہے تو شعرا ء کیوں آستینیں چڑھاتے ہیں ،کہلوانے دیں، کیا جاتا ہے ۔ مجھ پر تو ذاتی طور پر نظم کی آزادی ہی بہت اپھارے کا احساس پیدا کرتی ہے اور شاذ ہی ہضم ہوتی ہے شاید اسی لیے کہ ساتھ میں بحری "منظومیت " کے چورن کا اثر ہوتا ہے ۔یہ خواہ کسی( بھی شاعر )کی کہی ہوئی ہو بلکہ کوئی سچ پوچھے تو شاعر کا نام بھی اس مقام کا نہیں رہتا جو ایک مانے ہوئے نام کا حقیقی تقاضا ہو تا ہے اس سے یقینا اختلاف کیا جاسکتا ہے اس کی بنیادوں میں اگر "ناثر یا شاعر" کے کلام و بیان کی شعری قدرت کا عجزآڑے آتا ہے یا کچھ اور اس پر بہت بحث و گفتگو ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ معتبر ناموں میں سے بہتوں نے ایسی نثری نظمیں کہی ہیں تو ان معتبر ناموں میں کے قابل اعتبار عناصر کا حصہ ہےجس کا اثر نثری نظم کو کوئی سہارا نہیں دیتا۔۔۔
نظم کی آزادی کے بعد اب ایسے میں نظم کی "تنثیر " کا کیا کہنا ، "علی ہذالقیاس" کا اشارہ پیش کر نا کافی ہوگا ۔احباب کا مکمل اختیار ہے ۔فمن شاء منہم اَن ۔۔۔۔
یہاں ایک بات سجع کی بھی ہوئی ۔ یہ کلام کی کوئی صنف تو شاید نہیں البتہ بیان کی ایسی خصوصیت ہے جو کلام کے عناصر کو مقفی پیرائے میں پیش کر تی ہے اور کلام و بیان کو ایک مسجع کر کے منفرد اسلوب عطاکرتی ہے جیسا کہ فسانہ ء عجائب میں سرور صاحب نے پیش کیا ہے۔ایک ڈسکلیمر پیش کرنا بھی آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بہت سوں کو کچھ نا گوار باتیں محسوس ہوں گی جیسا کہ ہمیں نثری منظومات سے ہوتی ہیں۔لہذا رد و قدح کی مذکورہ کیفیات کے لیے صد ہامعذرت۔
 
Top