گو کہ یہ لڑی اب کافی حد تک بے جان ہو چکی ہے، لیکن اس میں اُٹھائے گئے سوالات کا واضح جواب نہیں مل سکا ہے۔ کسی کی بھی دل آزاری مقصود نہیں ہے لیکن یہ کہنا چاہوں گا کہ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ ہم کچھ ضمنی (لیکن اہم) اور کچھ فروعی (لیکن دلچسپ) باتوںمیں الجھ گئے اور وہ بھی اس طرح کے اُن پر طرفین کے استدلال میں کچھ حقائق اور منطق کے لحاظ سے مسئلے تھے؛ دوئم بعض مراسلوں میں ذاتیات پر بات آنے سے بھی discourse میں رکاوٹ ہوئی۔ کچھ مصروفیت کی وجہ سےمیں نے اس لڑی میں کافی دیر سے شرکت کی۔
محمد فرقان کا شکریہ کہ اُنہوں نے میرے سوال کا خیرمقدم کیا۔ بحیثیت ایک طالب علم میری یہ خواہش ہے کہ کچھ متعلقہ اور کچھ غیر متعلقہ باتوں پر بات سے بات بڑھائی جائے تا کہ ایک دوسرے کی بات سے اختلاف کے باوجود کچھ سیکھنے کو ملے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ میری ذاتی رائے میں ہمارے ادب میں "نثری نطم" شاعری نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ دیگر اصنافِ ادب کی طرح "نثری نظم" بھی ایک خلاقانہ پیشکش ہے، لیکن اس کا اردو شاعری، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، سے کافی دور دراز کا تعلق ہے۔میرے خیال میں"نثری نظم" کوبآسانی ایک ایسی نثر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس سے ہماری کچھ جمالیاتی توقعات ہوں، لیکن پھر اس کو نثر ہی کیوں نہ کہا جائے؟ گویا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ "نثری نظم" شاعری ہے یانہیں، بلکہ یہ ہے کہ "نثری نظم" اور نثر میں فرق کیا ہے؟
بہت سارے لوگوں کے لئے "نثری نظم" کے نام میں اجتماعِ ضدّین ہے، اس لئے کافی بحث اس کے نام میں صرف ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک حل تو فارسی والوں نے وہی نکالا ہےجس کی طرف یہاں بات بھی ہوئی تھی:
سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظم نہیں ہے، نثر بھی نہیں ہے تو آخر ہے کیا؟ صاحب! کچھ تو ہے! اگر اسے نثم کہہ دیا جائے اور اس صنف میں تجربہ کرنے والوں اور باقاعدہ لکھنے والوں کو شاعر کہہ دیا جائے تو پھر معاملہ تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔
ہمارے ایک دوست تھے اس محفل کے، میم میم مغل (مغزل) صاحب، خوبصورت شاعری کرتے ہیں، وہ اسے نثم کہتے تھے
لغت نامہ دهخدا میں
لفظ "نثم" کویوں بیان کیا گیا ہے:
در تداول اخیر، کلامی را گویند که نه به نظم شباهت داشته باشد و نه به نثر، و متتبعان اشعار عروضی آثار گویندگان «شعر سفید» را نثم نامند.
اب اس کا درست ترجمہ تو محمد وارث صاحب اور حسان خان ہی کرسکتے ہیں، ہمیں تو یہی مفہوم سمجھ آرہا ہے کہ جدید فارسی میں جو نہ نظم ہو نہ نثر اُسے نثم کہتے ہیں۔ (میرا خیال ہے کہ "شعر سفید" سے یہاں مراد "شعرِمنثور" یعنی "سخنِ غیر منظوم" ہے۔)
تاہم نام کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے:
وہ سوال یہ ہے، کہ دنیا کے ہر علم یا فن یا ہنر وغیرہ کے اپنے اپنے قواعد ہوتے ہیں کہ جن قواعد کے تحت وہ چیز ہوتی ہے اور ان قواعد کا اُس چیز پر اطلاق ہوتا ہے، مثلا یہاں اردو شاعری کی بات ہو رہی ہے تو اردو زبان کے اپنے قواعد ہیں، شاعری کی بات ہو تو شاعری کے اپنے قواعد ہیں، شاعری کی اصناف کی بات ہو تو ان کے اپنے قواعد ہیں، مثلا غزل کے اپنے قواعد ہیں، پابند نظم کے اپنے، آزاد نظم کے اپنے، رباعی قطعہ کے اپنے وغیرہ وغیرہ ، تو بس نثری نظم کے قواعد بتا دیجیے جن کے تحت نثری نظم ہے، اگر قواعد نہیں ہیں تو میرے نزدیک اُس کا وجود بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ قواعد کی بات ہو رہی ہے جو آبجیکٹو یا معروضی چیز ہے جو ہر حالت میں یکساں رہتے ہیں، سبجیکٹو یا موضوعی چیز کی بات نہیں جو ہر کسی کی رائے کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔
شایدیہ قواعد عبدالسمیع کی کتاب "اردو میں نثری نظم" میں بیان کیے گئے ہوں، جس کی طرف
حسن محمود جماعتی نےتوجہ دلائی تھی۔
[غیر مربوط باتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔]